کلاسیکی موسیقی راگ درباری کانہڑہ - تعارف اور کولیکشن

محمد وارث

لائبریرین
راگ درباری برصغیر کی موسیقی کے مقبول ترین راگوں میں سے ہے اور مقبولیت میں اس سے زیادہ شاید صرف راگ بھیرویں ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بندشیں، غزلیں اور گیت درباری میں بنے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں، گانے اور پہچاننے میں بھی آسان ہے لیکن اسے اس کی نزاکتوں کے ساتھ گانا صرف اساتذہٴ فن ہی کا کام ہے۔

مانا جاتا ہے کہ اس راگ کو میاں تان سین نے دربارِ اکبری میں گانے کیلیے خاص طور پر اختراع کیا تھا اور اسی لیے اس راگ میں گھمبیرتا ہے اور اسے راگوں کی دنیا میں بارعب اور با وقار راگ سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ نیچے آپ خواجہ خورشید انور کی آواز میں اس کے اوصاف سنیں گے۔

میں یہاں درباری کا مختصر تعارف اور اس میں گائی ہوئی مقبول اور مشہور اور اپنی پسند کے کچھ خیال، ٹھمریاں، ترانے، بندشیں، گیت غزلیں پوسٹ کر رہا ہوں۔

نوٹیشن کا طریقہ
کومل سُروں کو یہاں پورے نام کی بجائے صرف پہلے حرف سے ظاہر کیا جائے گا یعنی کومل گندھار کو "گ" سے ظاہر کیا جائے گا اور تیور سروں کو مکمل نام سے یعنی تیور گندھار کو "گا" سے۔ تار سپتک یعنی اوپر والی سپتک کے سر کے بعد ایک ڈیش - لگائی جائے یعنی تار سپتک کے سا کو، "سا-" کے ساتھ ظاہر کیا جائے گا اور مندر سپتک یعنی نچلی سپتک کے سر سے پہلے ڈیش لگائی جائے گی یعنی مندر سپتک کے سا کو "-سا" سے ظاہر کیا جائے گا۔ جب کہ کسی سُر کے ساتھ کوئی ڈیش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مدھ سپتک یعنی درمیانی سپتک کا سر ہے اور بنیادی سپتک بھی یہی مدھ سپتک ہے۔


راگ - درباری کانہڑہ
یہ اس راگ کا مکمل نام ہے اور یہ کانہڑے کی ایک شکل ہے، عام طور پر (یا پیار سے) اسے صرف درباری ہی کہا جاتا ہے۔ کانہڑے عموماً پوروانگ کے راگ ہوتے ہیں یعنی نچلے سروں میں گائے جاتے ہیں اور یہی خصوصیت درباری کی ہے۔

ٹھاٹھ - اساوری
ایک خوبصورت ٹھاٹھ یعنی راگوں کا گروپ جس کا بنیادی راگ، راگ اساوری ہے ١ور اس راگ کے نام پر ہی اس ٹھاٹھ کا نام ہے۔ اس خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ٹھاٹھ حد سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میرے کچھ پسندیدہ ترین راگوں یعنی دربای، اساوری، جونپوری کا تعلق اسی ٹھاٹھ سے ہے۔

اساوری ٹھاٹھ میں، گندھار یعنی گا، مدھم یعنی ما، دھیوت یعنی دھا اور نکھاد یعنی نی، چاروں کومل سر ہیں۔ جب کہ رکھب یعنی رے تیور ہے جبکہ کھرج سا اور پنچم پا ہوتے ہی اچل ہیں یعنی انکے کومل اور تیور سُر نہیں ہوتے۔ اگر شُدھ سُروں میں بات کریں تو اس ٹھاٹھ میں سا، رے، ما اور پا شدھ سر ہیں۔ اور یہی ترتیب درباری میں ہے۔

جاتی یا ذات - سمپورن + کھاڈو (یا شاڈو)
یعنی آروہی میں سات سر اور اوروہی میں چھ سر۔ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا۔

آروہی یا ترتیبِ صعودی
یعنی نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس راگ کے سر یہ ہیں۔

-ن سا رے گ رے سا، م پا د ن سا-

(کچھ اساتذہ آخری ٹکڑے کو م پا د ن رے- سا- بھی کہتے ہیں)

اوروہی یا ترتیبِ نزولی
یعنی اوپر سے نیچے آتے ہوئے

سا- د ن پا، م پا، گ م رے سا

یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اس راگ کی جاتی میں لکھا گیا کہ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا لیکن اوروہی لکھتے ہوئے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دھیوت یعنی د لکھا گیا ہے تو پھر یہ ورجت کیسے ہوا یا اوروہی کھاڈو کیسے ہوئی۔ اس بات کی وضاحت آج تک کسی کتاب یا ویب سائٹ پر میری نظر سے نہیں گزری سب یہی لکھ دیتے ہیں کہ دھیوت ورجت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اوروہی میں دھیوت تو لگ رہا ہے لیکن اپنی ترتیب میں نہیں یعنی سا- کے بعد نکھاد کی جگہ دھیوت آ گیا ہے اور دھیوت کے فوری بعد پنچم کی بجائے نکھاد ہے یوں " د ن" کا ٹکڑا اوروہی کا حصہ بننے کی بجائے آروہی کا حصہ بن گیا ہے اور یہی اس بات کا مطلب ہے کہ دھیوت اوروہی میں ورجت ہے۔ یعنی اوروہی میں کبھی بھی دھیوت کے بعد پنچم نہیں آے گا بلکہ دھیوت کے بعد ہمیشہ ہی نکھاد آئے گا اور نکھاد کے بعد پنچم اور یہی اس راگ کی نزاکت ہے جسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اس کی خلاف ورزی کرنے سے درباری، درباری نہیں رہے گا۔

Notes-RagaDarbari.jpg


پکڑ
یعنی سروں کے وہ ٹکڑے جو کسی راگ میں بار بار لگائے جاتے ہیں اور راگ اس سے پہچانا جاتا ہے۔ درباری کی مختلف پکڑیں مشہور ہیں، کچھ مشہور اسطرح سے ہیں

گ م رے سا
-د -ن سا رے سا
وغیرہ

وادی سُر - رکھب
یعنی کسی راگ کا سب سے اہم سُر، جس کو بار بار لگایا جاتا ہے یا اس پر رکا جاتا ہے یا اس پر زور دیا جاتا ہے-

سَم وادی سُر - پنچم
وادی سُر کے بعد دوسرا سب سے اہم سُر-

وقت - رات کا دوسرا پہر یا آدھی رات
یعنی وہ خاص وقت جس میں عموماً کوئی راگ گایا جاتا ہے اور اپنا سماں باندھ دیتا ہے۔

درباری کی کچھ مزید خصوصیات
- اس میں دو سُر یعنی کومل گندھار اور کومل دھیوت کا اندوہلن کیا جاتا ہے یعنی ان سُروں کو جھولایا جاتا ہے اور یہ اس راگ کا خاص انگ ہے جو اس کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور بہت لطف دیتا ہے۔
- یہ پوروانگ کا راگ ہے یعنی عام طور پر نچلے سروں میں گایا جاتا ہے۔
- یہ راگ بلمپت لے یعنی دھیمی لے (سلو ٹیمپو) میں زیادہ اچھا لگتا ہے۔
- اسکی آروہی میں کومل گندھار دُربل یعنی کمزور رہتا ہے یعنی اس سُر پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سب سے پہلے اس راگ کا تعارف خواجہ خورشید انور کی شاہکار سیریز "راگ مالا" سے اور اسکے ساتھ استاد سلامت علی خان شام چوراسی گھرانہ کی ایک بندش

 

محمد وارث

لائبریرین
درباری کو سمجھنے اور سیکھنے کیلیے ایک انتہائی اہم ویڈیو، بنانے والے کیلیے اس خاکسار کی طرف سے نیک تمنائیں

 

محمد وارث

لائبریرین
عصرِ حاضر کے تان سین، قبلہ و کعبہ استاد (بہت) بڑے غلام علی خان مرحوم و مغفور (قصور گھرانہ) کا خیال راگ درباری۔ اور اسکے آخر میں انترے کے طور پر "انوکھا لاڈلا" بھی سنیے جسے بہت سے لوگ ٹھمری سمجھتے ہیں :)

 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے غزلیں یاد کروائیں غزنوی صاحب تو اس راگ میں گائی ہوئی شاید سب سے مقبول غزل، مہدی حسن کی کوبکو پھیل گئی۔۔۔۔۔۔

 

شاکرالقادری

لائبریرین
وارث بھائی جزاک اللہ
درباری راگ اپنی تاثیر کے اعتبار سے بھی درباری ہی ہے کیونکہ اس کے گھمبیر تاثر میں رعب دبدبہ اور جلال پایا جاتا ہے اس کا گانا اتنا آسان نہیں کیونکہ اس کی اروہی اور آوروہی دو نوں میں سروں کی ترتیب بالکل سیدھی نہیں بلکہاپنے ترتیبی مقامات بدل کر ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے فنکار کے لیےبھی درباری کی طرار و تیار ”تان،، لگانے میں اس کی مخصوص ترتیب کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے اور اگر اس سے ذرا سی چوک بھی ہو جائے تو اس راگ کا تاثر مجروح ہوجاتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
راگ درباری کے سرُوں کی بہتر تفہیم کیلیے، ہارمونیم پر اسکے سروں کی نشاندہی کرتی ہوئی ایک تصویر بھی پہلے مراسلے میں شامل کر دی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اقبال بانو سی مغنیّہ، غالب سا شاعر، اور دربای سا راگ

تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

 

محمد وارث

لائبریرین
عرصہ ہوا ہیمنت کمار کی آواز میں ایک خوبصورت گیت سناتھا۔۔۔ جاگ دردِ عشق جاگ۔۔۔ یہ بھی غالباّ اسی راگ میں ہے


غزنوی صاحب، ویب پر تلاش کرنے کے بعد جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق یہ گانا راگ باگھیشری میں ہے- گیت بہرحال انتہائی خوبصورت ہے اور میرے پسندیدہ ترین گانوں میں سے ایک :)
 

محمد وارث

لائبریرین
استاد نصرت فتح علی خان کا راگ درباری میں الاب جو کہ فلم the last temptation of Christ کیلیے ریکارڈ کیا گیا تھا، اس کا تعارف بھی استاد مرحوم نے شروع میں خود کروا دیا ہے۔

 
Top