رانی گٹ بدھ مت دور کی تہذیب

اے خان

محفلین
رانی گٹ (بدھ دور کی تہذیب صوبہ خیبرپختونخوا کے مشہور اضلاع مردان صوابی کی سرزمین انتہائی زرخیز اور شاداب ہے۔ یہاں قدرتی چشموں۔ آبی گزرگاہوں کے کنارے قدیم تہذیبیں پروان چڑھیں۔ کابل اور ہندوستان کو ملانے والی قدیم شاہراہیں بھی اس سرزمین سے ہو کر گزرتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ کچھ گزر گاہوں کے رخ بدلتے رہے۔ انگریز حکمرانوں نے عظیم شاہرائوں کو پختہ تعمیر کرکے دریائوں پر پل بنا دیئے۔ ان پلوں کی وجہ سے شاہرائوں کے رخ بدل گئے۔ آزادی کے بعد کئی قدیم سڑکوں کو پختہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔ صوابی، مردان کی سرزمین کے علاوہ افغانستان، پشاور، چارسدہ، سوات، شمالی علاقہ جات، ٹیکسلا، منکیالہ، تخت بھائی، سرائے بہلول، شہباز گڑھی، جمال گڑھی، ساولڈ ھیری، ٹوبی، ہنڈ، چھوٹا لاہور، رانی گٹ بدھ دور کی مشہور تہذیبیں ہیں۔ بدھ دور کی ان تہذیبوں میں سے ایک تہذیب رانی گٹ کے نام سے مشہور ہے۔ صوابی، مردان روڈ سے ایک سڑک اسوٹا شریف اور شیوکلی کی طرف جاتی ہے۔ شوکلی سے کچھ کچی اور کچھ پکی سڑک نوگرام گائوں کی طرف جاتی ہے۔ نوگرام کے ملحقہ پہاڑوں پر رانی گٹ بدھ دور کی دنیا کی بڑی تہذیب ہے۔ یہ کھنڈرات بلند و بالا پہاڑ پر ہیں۔ جس پر پہنچنے کے لیے اب جاپان اور یونیسکو حکومت پاکستان کے مشترکہ تعاون سے سیڑھیاں اور ریلنگ تعمیر کر دی گئی ہیں۔ رانی گٹ کے کھنڈرات 168 کنال رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں ان کھنڈرات تک پہنچنے کے لیے 3540 فٹ راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سطح زمین سے اونچائی نو سو فٹ ہے۔ بڑی بڑی سیاہ چٹانوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ گٹ پشتو زبان میں پتھر کو کہتے ہیں یہ پہاڑ کی چوٹی پر نصب ہے معلوم نہیں کتنے انسانوں نے اسے اٹھا کر پہاڑ پر نصب کیا ہوگا اس پتھر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کافی وزنی اور بلند ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر رانی گٹ کے کھنڈرات دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ رانی گٹ کے جنوبی حصہ میں سنگ تراشی ہوا کوئی تھی ان مورتیوں کے لیے پتھر تخت بھائی سے اونٹوں کے ذریعے لائے جاتے تھے۔ رانی گٹ کے ایریا میں پہاڑ کھود کر ایک کمرہ بنایا گیا ہے یہاں سنگ تراشی کا ماہر بیٹھا کرتا تھا جو تراشی ہوئی مورتیوں کو پاس کرتا پھر یہ مورتیاں گوتم بدھ کے مجسّمے تبلیغ کی صورت میں دوسرے علاقوں کو روانہ کئے جاتے تھے، گوتم بدھ کے پیروکار یہاں سے تعلیم لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ کے لیے جاتے۔ کھنڈرات کے داخلے کے راستے میں ایک بورڈ پر رانی گٹ کی مختصر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ گندھارا تہذیب میں رانی گٹ دنیا کی سب سے بڑی سائٹ ہے۔ سائوتھ سائیکلر بلڈنگ ایریا دیکھنے کے بڑے اسٹوپے والے حصے کو بڑے اسٹوپے کے ساتھ لاتعداد چھوٹے چھوٹے اسٹوپے ہیں۔ ان کے مشرق کی جانب چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن پر چھت نہیں ہے ان کمروں میں مذہبی راہنما کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ نشست گاہ ہے۔ شاگردوں کے بیٹھنے کے لیے دیواروں کے ساتھ نشست گاہیں بنائی گئی ہیں۔ یہ کمرے ساتھ ساتھ تعمیر کئے گئے ہیں قریب ہی جنگلہ میں سات آسمانوں اور زمین کے فلسفہ کو فن سنگ تراشی میں پیش کیا گیا ہے۔ خار دار تار کے اندر رانی گٹ سے ملنے والے ٹوٹے ہوئے مجسّمے اور دیگر نوادرات محفوظ کئے گئے ہیں ایک مجسّمے کی صفائی پر تقریباً دس ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ کاغذ اور سیاہی سے ناآشنا تھے لہٰذا گوتم بدھ کی تعلیم تراشے ہوئے پتھروں یعنی مجسموں کی صورت میں دور دور تک پہنچائی جاتی تھی۔ رانی گٹ کے زیادہ تر حصہ میں تہذیب ابھی دفن ہے۔ اس کی کھدائی ابھی نہیں ہوئی۔ ٹوٹے ہوئے شکستہ مخدوش کھنڈرات کی تعمیر کا سلسلہ ازسرنو جاری ہے۔ سنگ تراشی والے حصے کے ساتھ تراشے ہوئے پتھر کے چند زینے ہیں اوپر والے زینے پر بیٹھ کر مذہبی راہنما درس دیا کرتا تھا۔ سامنے کھلا صحن ہے جس میں سامعین بیٹھ کر درس سے مستفید ہوتے اس کے مغرب کی جانب ایک زمین دوز چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں خزانہ محفوظ کیا جاتا تھا ساتھ ہی گارڈ روم ہے یہاں عملہ خزانے کی حفاظت کے لئے مامور تھا۔ رانی گٹ کے بارے میں ایک بات مشہور ہے قدیم دور میں تین شہزادوں بگرام، سیتا رام اور نوگرام نے تین شہروں بگرام پشاور، سیتا رام ٹوپی اور نوگرام نے رانی گٹ کے قریب نوگرام کی بنیاد رکھی۔ رانی گٹ راجہ درا کی ملکہ کا پایہ تخت بھی رہا راجہ ورا تخت بھائی کا حکمران تھا۔ گوتم بدھ کے پیروکاروں نے سخت محنت کرکے گوتم بدھ کی تعلیمات کو چین، جاپان، سری لنکا، تبت، تھائی لینڈ اور دنیا کے دیگر ممالک میں پہنچایا۔
ماخذ فیس بک
 

اے خان

محفلین
ہوا یوں کہ میرے یونیورسٹی کے کچھ دوست مجھ سے ملنے آئے. اور ہمارے ہاں رات گزاری. صبح انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمیں رانی گٹ دیکھنا ہے. تو میں نے بھی کہا یابسم اللہ چونکہ رانی گٹ ہمارے گاؤں سے اتنا دور نہیں اس لئے تین موٹر سائیکلیں لی اور روانہ ہو گئے.
پہاڑی کے دامن میں موٹر سائیکلیں لاک کی اور پہاڑی کے اوپر تک جانے کے لئیے بنائی گئی سیڑھیوں پر چھڑنے لگے.
رانی گٹ کی کچھ تصاویر پیش خدمت ہیں

پہاڑی کے اوپر تک جانے کے لئیے بنائی گئی سیڑھیاں
IMG_20170217_092833_770_zpsndz77jvi.jpg

پہاڑی کے اوپر سے نیچے کھیتوں کا ایک منظر
IMG_20170217_092359_093_zpsuem5xsq5.jpg

رانی گٹ کے کھنڈرات
IMG_20170217_092646_513_zpspln7sxvw.jpg

بدھ مت کے پیروکاروں نے یہاں 52 سٹوپے تعمیر کئیے تھے. جو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں.
IMG_20170217_093103_811_zpsz2nr72xs.jpg

مین سٹوپا
IMG_20170217_093942_099_zpspu67j2zw.jpg

عبادت گاہ کا مرکزی دروازہ
IMG_20170217_093713_219_zpstt2iukvt.jpg

مقامی لوگ یہاں بکریاں چراتے ہیں
IMG_20170215_124001451_zpskp6mdrpo.jpg
 

اے خان

محفلین
کیا یہ گندھارا تہذیب کا ہی حصہ ہے جو بامیان افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی ؟
جی بالکل پشاور مردان صوابی گندھارا تہذیب کا مسکن تھا اور اسی ہی تہذیب کا حصہ ہے. اور یہاں بے شمار پتھر کے بنائے گئے مجسمے بھی تھے. جو لوگوں نے تھوڑ ڈالے. یہاں سے دریافت شدہ بہت سی اشیاء پشاور میوزیم کی زینت بنی ہوئی ہیں.
 
Top