راستے میں شام کا مسافر

ابن توقیر

محفلین
راستے میں شام کا مسافر از خاور چودھری
توقیر علی زئی کا اصل نام محمد نواز تھا۔وہ 18اپریل 1953ء کو حضرو کے نواحی قصبے پیرداد میں پیدا ہوئے اور 23 جولائی 2001ء میں اس دُنیا سے رخصت ہوئے۔وہ اُن معدودے چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنا جہان خود بنایا۔انہوں نے جس فضا میں آنکھ کھولی وہاں شعروادب سے کچھ خاص علاقہ نہیں تھا۔لوگوں کے مشغولات اور معمولات اَدب سے ہٹ کرتھے۔کھیتی باڑی اور مویشی پروری لوگوں کا وسیلہ معاش تھا۔ایسے ماحول میں شوق جو ہواکرتے ہیں انہیں یہاں بیان نہ بھی کیا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے۔زیادہ تر رجحان شکار کا تھا۔پرندے پالے جاتے،ان کا شکار کیا جاتا، عقاب پالنے کا ذوق ایسا تھا کہ اس پر باقاعدہ بحثیں ہوتیں۔دیہات کی مجلسی زندگی میں حقے کی نَے،چوپال اور اس کے متعلقات،سنی سنائی اورپھر ان باتوں کی بنیاد پر مستقبل کی پیش بندی۔کسی بھی زرعی معاشرے کی یہ کل کائنات ہوا کرتی ہے۔توقیر علی زئی کے ساتھ تو سانحہ یہ بھی گزرا کہ صغر سنی میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ننھیال میں پرورش پائی۔اکلوتے ہونے کے باعث طبیعت میں ایک طرح کا امتیاز شروع سے ہی در آیا تھا۔اسی خصوصیت کے باعث میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کرتے ہیں۔خود بتایا کرتے تھےکہ اس زمانے میں انھوں نے غالب کا مکمل دیوان حِفظ کرلیا تھا۔
عجیب اتفاق ہے غالب بھی کم سنی میں والد کی محبتوں سے محروم ہوئے تو خود پسندی کے اسیر ہوئے۔کم وبیش یہی صورتِ حال توقیر علی زئی کے یہاں بھی دمِ آخر تک قائم نظر آتی ہے۔محض مجلسی زندگی میں وہ خود کو خاص مقام پر متمکن خیال نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے کلام میں بیسیوں مقامات پر اس رویے کا اظہار ملتا ہے۔شاعرانہ تعلیٰ اور معاصرانہ چشمک اگرچہ اُردو ادب کی روایات کا حصہ ہیں لیکن توقیر کو تو اپنے پائے کا کوئی حریف بھی میسر نہیں تھا۔کچھ بزرگ تھے جو اُن سے شفقت کا رویہ رکھتے تھے اور بعض ہم عصر تھے جو حدِتقابل سے بہت دُور تھے۔اس کے باوجود اس رویے کا اظہار یقیناً بعض بنیادی سوالات اُٹھاتا ہے۔کیا اُن کے مخاطب قومی سطح کے لوگ تھے؟ کیا غالب کا مزاج ان کی طبیعت میں گھر کرگیا تھا؟ کیا وہ اپنےگرد موجود لوگوں کے رویوں سے نالاں تھے؟ کیا وہ اپنے لیے فضا تنگ محسوس کرتے تھے؟ ان تمام سوالات کے جوابات ہاں میں ہیں۔اس لیے کہ وہ اپنے جاری کیے گئے رسالے "سماج" کے اداریوں میں ادبی سورماوں کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ اپنی شاعری میں بھی اختصاص کے ساتھ یہی کچھ ظاہر کرتے ہیں، ایک شعر دیکھیے:

دیکھ لینا مری شہ زوریِ بازو تم بھی
کوئی میدان میں مرے قد کے برابر نکلے
مقامی سطح پر توقیر نے باقاعدہ طور پر کسی سے سلسلہ تلمذ نہیں جوڑا۔اُن کی مشق و ریاض کا زمانہ بہت طویل ہے ۔طالب علمی سے ہی شعر گوئی شعار کرچکے تھے۔کل وقتی شاعر تھے،اس لیے ہر وقت اسی دھن میں رہتے۔چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اپنے شعروں پر غور کرتے رہتے۔البتہ بہت بعد کے زمانے میں جاکر انھوں نے انیس لکھنوی صاحب کو اپنا معنوی استاذ تسلیم کیا تھا۔انیس صاحب لالہ موسیٰ میں مقیم تھے اور جگر مراد آبادی کے شاگردوں میں سے تھے۔ممکن ہے توقیر علی زئی نے علم عروض کی تربیت اُن سے لی ہو۔ یہ بات میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ فکری اعتبار سے انیس صاحب اور توقیر علی زئی کے درمیان بہت زیادہ بُعد ہے۔پھر اسلوب کی سطح پر دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔توقیر علی زئی کے یہاں غالب کا رنگ اتنا چوکھا ہے کہ بعض غزلیں نہ صرف غالب کی زمینوں میں ہیں بلکہ مضامین کو بھی ایک نیا رنگ دے کر انھوں نے برتا ہے۔اسی طرح کہیں کہیں رنگِ اقبال کے چھینٹے بھی ان کے کلام پر دکھائی دیتے ہیں۔جب کہ انیس صاحب کے یہاں واضح اثر تو میر انیس کا ہے پھر جگر مراد آبادی بھی جھلکتے ہیں۔لیکن ایک بات یہ بھی ہے،جو مکانی فاصلہ حضرو اور لالہ موسیٰ میں ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اُن کی اکثر ملاقاتیں ہوتی ہوں گی۔اس کے لیے یقیناً خط وکتابت کا سلسلہ اُستوار کیا گیا ہوگا۔

توقیر علی زئی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے،اُن کا غزلیہ کلام باقی کلام کی نسبت بہت زیادہ ہے۔لیکن انھوں نے نظم گوئی میں بھی فنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔اُن کی پابند اور آزاد نظمیں خوب رواں دواں ہیں اور موضوع کو ایک ندی کے بہاو کی طرح ساتھ لے کر چلتی ہیں۔غزل کے بعد انھوں نے قطعہ نگاری اہتمام کے ساتھ کی۔اس کی ایک وجہ تو شاید اُن کے دوست اسحٰق آشفتہ کی قطعہ نگاری ہوسکتی ہے اور دوسرا انھیں مقامی اخبار میں بھی اس کا موقع ملا۔انھوں نے میری ادارت میں شروع ہونے والے ہفت روزہ حضرو میں بیشتر قطعات لکھے۔بعض نظمیں جیسے "چھ ستمبر" اور "چودہ اگست" وغیرہ بھی اسی اخبار کے لیے کہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزل کے میدان میں انھوں نے جس مہارت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا،وہ دوسرے میدانوں کی نسبت زیادہ مستحکم اور قابل توجہ ہے۔

توقیر علی زئی کو نئی نئی زمینوں اور مختلف بحروں میں کہنے کا شوق تھا۔زیادہ تر ان کے یہاں غالب کی سی مشکل پسندی کا رُجحان ہے۔انھوں نے فکری اعتبار سے خود کو کسی ایک خانے میں بند نہیں کیا،لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی رنگ ان سے چھوٹ گیا ہو۔رائج مضامین توان کے یہاں اپنا جلودہ دکھاتے ہی ہیں،عصری موضوعات بھی ان کے قلم کے محیط میں ہیں۔انھوں نے ہوش مند اور بالغ نظر شاعر کی حیثیت سے اپنا قلم رواں رکھا۔قدیم و جدید معاشروں کے خال و خط اجاگر کرنا اور ان کی آمیزش کرنا توقیر علی زئی کے شاعرانہ مزاج کا خاص وصف ہے۔یہ رویہ زیادہ تر نظموں میں ظاہر ہوتا ہے۔توقیر کی غزل جان دار بھی ہے اور طرح دار بھی۔انھوں نے محض نمود اور شاعر ہونے کا ٹھپہ لگانے کے لیے شاعری نہیں کی بلکہ عطائے ربِ جلیل کو بروئے کار لاتے رہے۔اُن کے اندر شاعری کا فطری جوہر موجود تھا جسے انھوں نے کمال مشاقی اور مہارت سے چمکایا۔ایک ایک زمین میں کئی کئی غزلیں کہیں،طرح مصرعوں پر وہ نہایت آسانی سے کہہ لیا کرتے تھے۔اسی طرح بعض موقعوں پر فی البدیہہ گوئی کا تو میں خود بھی شاہد ہوں۔

توقیر کے اُسلوب پر غالب کا رنگ نمایاں ہے لیکن انھوں نے اسے اختیار کرنے میں یہ مہارت برتی کہ اس میں اقبال کا رنگ بھی ملالیا۔پھر اپنا خاص طرز اسے عطا کرکے جدا راستہ بنا ڈالا۔اس اعتبار سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ توقیر نے ان دونوں بزرگوں کی مکمل تقلید کی ہے۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ کمال سے کم نہیں ہوگی کہ کوئی ان صاحبان کے اسلوب کی پیروی کرسکے۔حق بات تو یہ ہے، کہ یہ بجائے خود ایک اعزاز ہے۔توقیر نے تراکیب، زمینوں اور کہیں کہیں خیالات کے میدانوں میں ان شاعروں سے اخذ وکسب کیا لیکن اپنی شناخت بھی برقرار رکھی،یہی ان کی کامیابی ہے۔
جس طرح غالب کے یہاں انانیت اور اقبال کے یہاں خودداری کے زاویے چمکتے ہیں،توقیر کے یہاں یہ طرز یک جا ہو کر بلند ہوتا ہے۔اُن کا کلام ایسی مثالوں سے مملو ہے۔پھر عشق و حسن کے مرحلوں میں بھی ان کا مزاج انھی شاعروں کا سا ہے۔وہ محبوب سے جوابی محبت تو چاہتے ہیں لیکن غالب کی طرح اپنا مقام برقرار رکھ کر۔وہ عشق تو کرتے ہیں لیکن اقبال کی طرح ہوس سے پاک۔ان کے یہ اشعار زندہ مثالیں ہیں:

بجا کہ تشنہ لبی کم نہیں قیامت سے
خمیدہ سر ہوں ہم،ایسی تو کوئی بات نہیں
۰۔۰۔۰
عشق کی پاکیزگی، خوشبو سے پاکیزہ تر
غیر اُسے دیکھا کرے اور میں اسے سوچا کروں​

مضمون آفرینی اور نازک خیالی کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں، کہ انھیں یہاں پیش نہیں کیا جاسکتا۔اُن کی سوچ جس طرح بوقلموں ہے اُن کا قلم بھی اُسی طرح متنوع سمتوں میں اُبھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔الفاظ و تراکیب کا استعمال فنی مہارت اور خوب صورتی سے کرکے انھوں نے یہ ثابت کردیا ہے، کہ فطری جوہر اور فنی مہارتوں کا استعمال کہیں بھی رہ کر خوش سلیقگی سے کیا جاسکتا ہے۔بظاہر وہ چھوٹے سے شہر میں موجود تھے جہاں ابلاغ کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔اخبار بینی کا رُجحان خال خال تھا پھر وہ ایک سکول میں مدرس تھے۔اس حیثیت میں ان کا حلقہ کچھ زیادہ وسیع نہیں معلوم ہوتا لیکن وہ اپنے اردگرد سمیت،ملک اور بدلتی ہوئی دنیا سے آگاہ تھے۔اس لیے وہ ملکی سطح کے کالم نگاروں سے بھی رابطے میں تھے۔عبدالقادر حسن جیسے نامور قلم کار نے اپنے کالموں میں توقیر علی زئی کے خطوط اور شاعری شامل کی۔ایک کالم کا تو عنوان بھی توقیر کے مصرع پر رکھا۔کھاریاں سے شائع ہونے والے ایک ادبی رسالے "قلم قافلہ" نے تو ان کا یہ شعر رسالے کے پہلے صفحے پر مستقل حصہ بنایا ہوا تھا:
رہنمائی کا بھرم ٹوٹے گا
کچھ بھی ہو قافلہ رکتا تو نہیں​

معنوی اعتبار سے یہ شعر بہت سےحقائق سے پردہ اُٹھاتا ہے۔آگاہی اور زمانہ شناسی کا یہ اظہار دیکھئے:
ریشمی پوشاک دیواروں کو پہنائے گئے
پردہ تہذیب میں انسان ننگا ہوگیا​

توقیر کے یہاں صنعتوں،علامتوں،تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال نہایت مہارت سے ہوا ہے،البتہ انھوں نے محاوروں اور ضرب الامثال کو کم ہی اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔فنی نزاکتوں اور باریکیوں کا انھیں احساس تھا،یہ احساس ان کے کلام میں جا بہ جا دکھائی دیتا ہے۔غیر منقوط حمدیہ اور غزلیہ کلام ان کی فنی مہارت پر دال ہے۔وہ قادر الکلام شاعر تھے،موضوعات اور بیان اُن کے سامنے ادب سے سرجھکائے نظر آتے ہیں۔اپنے عہد میں انھوں نے ضلع اٹک میں جتنا لکھا کسی اور کے حصے میں یہ سعادت نہ آسکی۔یہ کلام مقداری اعتبار سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی کم حیثیت نہیں۔یہاں کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
ہر بار میں ہوا ہوں بہ رنگِ دِگر طلوع
صدیوں سے آفتاب ترا ہم سفرہوں میں
۰۔۰۔۰
یہ زیست پہاڑ سی کوئی رات
ہم بھی تیشہ بکف کھڑے ہیں
۰۔۰۔۰
مرے ہونے سے وہ میرِانجمن تھا
وہ میرے بعد اکیلا رہ گیا ہے
۰۔۰۔۰
ہماری تشنگی تھی موجہء دجلہ شکار اے دوست!
ہمیں تو نے رہینِ قطرہء شبنم نہ کرنا تھا
۰۔۰۔۰
اے مرے انجمن آرا یہ بتا
تو بھی سچ مچ کہیں تنہا تو نہیں!
۰۔۰۔۰
روشنی کے پسِ پردہ کوئی تاریکی نہ ہو
دامنِ شب سے عبارت ہے،ستاروں کا فسوں
۰۔۰۔۰
کہیں یہ شعلہ تخلیق کا دُھواں تو نہیں!
تنا ہوا ہے مرے سر پہ آسماں ہوکر​

یہ کچھ مثالیں ہیں،توقیر کے کلام سے ایسے سینکڑوں نمونے پیش کیے جاسکتے ہیں۔اپنے کلام کے آئینے میں توقیر آج اور آنے والے کل کا شاعر ہے۔میں بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھیں اٹک کی ادبی تاریخ سے کوئی نہیں کھرچ سکے گا اور نہ ہی ان کے بغیر یہ تاریخ مکمل ہوسکتی ہے۔بقول سلطان سکون صاحب:"میری ذاتی رائے ہے کہ اٹک کے پورے علاقے میں توقیر علی زئی جیسا شعر نگار شاید ہی کوئی اور ہوگا۔توقیر علی زئی اپنے قبیلہ،خاندان اور علاقہ کی توقیر تو تھے ہی مگر وہ شعروادب کے لیے بھی باعث صد توقیر تھے۔" تیسرا رخ،ہفت روزہ،حضرو اٹک 14 اگست تا 20 اگست 2001 ص 2۔

توقیر کی شخصیت اور فن پر جناب مسعود قریشی نے بسیط مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ہمارے لیے یہ فخر کی بات ہے۔اگر اس مقالے کی اشاعت کا اہتمام ہوجائے تو یقیناً یہ اہم علمی خدمت ہوگی۔

مسعود قریشی کے مطالعے کے دوران توقیر علی زئی کا وہ کلام بھی سامنے آگیا ہے جو ان کی خود نوشت ڈائریوں میں محفوظ نہیں تھا۔سیارہ ڈائجسٹ،قومی زبان،صریر،قلم قافلہ،روزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقت اور ہفت روزہ حضرو میں شامل بعض چیزیں ایسی ہیں جنھیں اُن کے مسودوں میں نہیں دیکھا جاسکتا۔زیرِنظر مجموعہ اُن کا کلیات ہے۔اُن کے قلم سے جو بھی منظوم نکلا،اُسے محفوظ کرلیاگیا ہے۔کم و بیش بارہ سال سے برادرم راشد نے بھی توقیر کی کتاب شائع کرنے کا اعلان کررکھا تھا لیکن ابھی تک ان کا ارادہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ظاہر ہے ایسے کاموں کے لیے کثیر سرمایے کے ساتھ ساتھ شاعر کے خاندان کی شمولیت بھی ضروری ہوتی ہے۔اب جب کہ توقیر علی زئی کی بیوہ،بیٹے اور بیٹیاں اس کام میں خود شریک ہیں تو یہ اہم مرحلہ طے ہورہا ہے۔میرے لیے اس میں یک گونہ خوشی کا احساس ہے کہ میں بھی اس کام کا حصہ ہوں۔کلیات کے مرتب پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسین بخاری صاحب ہیں جن کی نگرانی میں توقیر علی زئی کی شخصیت اور فن پر لکھا گیا۔میں سمجھتا ہوں یہ میرے لیے اور خصوصاً توقیر علی زئی کے اہلِ خانہ کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ ایک نامور شخصیت اس کتاب کے مرتب ہیں۔میں ڈاکٹر صاحب کا شکرگزار ہوں۔
توقیر علی زئی کا کلام ایسا نہیں ہے کہ اس مختصر مضمون میں اُس کا احاطہ کیا جاسکے۔میں سمجھتا ہوں اس کی فنی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کے لئے مسعود قریشی کا مقالہ بڑی حد تک معاون ہوسکتا ہے۔اگر ہوا سازگار ہوتو ان شاء اللہ یہ مقالہ بھی اشاعت آشنا ہوجائے۔میں نے جو معروضات پیش کی ہیں،وہ اپنے مطالعے کے نتیجے میں کی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری خوش بختی ہے کہ میں توقیر علی زئی کا ہم مجلس رہا،اُن سے براہ راست سُنتا رہا اور اُن ے تخلیقی عمل کا کسی حد تک شاہد بھی رہا۔

آپ مطالعہ کیجیے اور دیکھئے کہ انھوں نے فکروخیال کے پھول کس خوب صورتی سے سجائے ہیں کہ ہر ہر پھول اپنی شان میں جدا بھی ہے اور ممتاز بھی۔زبان و بیان کی رنگینی اور نازکی آپ کو جگہ جگہ نظر آئے گی۔ میں پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ توقیر علی زئی کا کلیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
خاور چودھری
کالم نگار و شاعر

۰۔۰۔۰
کلام سے انتخاب کی لڑی یہ رہی۔ان شاء اللہ کوشش ہوگی کہ راستے میں شام کو مکمل یہاں جمع کرسکوں۔

FB_IMG_1586752274567.jpg
 

ابن توقیر

محفلین
سید نصرت بخاری صاحب کے ایک مضمون "ضلع اٹک کے چند رسائل" کا لنک گوگل کرتے ملا ہے۔ان کے مضمون میں والد مرحوم کے ذکر والے اقتباسات پیش کررہا ہوں۔
سماج:
سماج ادبی سیریز کا آغاز حضرو سے ہوا۔ا س کے ابتدائی شمارے پر سنِ اشاعت درج نہیں۔البتہ رسالے میں شامل حاجی عبدالقیوم کے انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ 1983ء کے کسی مہینے میں سماج جاری کیا گیا۔توقیر علی زئی سماج کے نگرانِ اعلیٰ تھے۔حاجی سکندر خان،آغا شہباز جعفری اور رشید اختر معاون تھے۔ اس رسالے میں مختلف موضوعات پر تحریریں ملتی ہیں۔تا ہم بعض شمارے خالص ادبی نوعیت کے بھی ہیں،جن میں رئیس امروہی ،ڈاکٹر شیر بہادر پنی ،ڈاکٹر طاہر تونسوی ،پروفیسر اشرف الحسینی،ایوب صابر اور مناظر عاشق ہرگانوی کی تحریریں شامل ہیں۔سماج نے ’’آشفتہ نمبر‘‘بھی شائع کیا جس میں لالہ موسیٰ کے قلم کار اسحاق آشفتہ کی شخصیت اور شاعری پر بحث کی گئی ہے۔ دو ایک شماروں کو چھوڑ کر ہر شمارے کے سرورق پر کوئی نہ کوئی شعر لکھاہوتا تھا۔ مارچ 1986ء تک نو شمارے دینے کے بعد سماج کا سفر بھی اختتام پذیر ہو گیا۔
فروغِ ادب:
حضرو کی ادبی تنظیم فروغِ ادب کی جانب سے اکتوبر 1985ء میں مجلہ فروغ ادبکا اجرا کیا گیا۔اس کا سائز ۰۵.۷×۰۱تھا۔یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ’’ ماہ نامہ‘‘ہے یا’’ سہ ماہی‘‘کیونکہ اس پراس کا اندراج نہیں۔اس کے نگرانِ اعلیٰ محمد بشیر قریشی جب کہ مجلسِ ادارت میں رزاق عاصم،محمد فردوس اور توقیر علی زئی کے نام ہیں۔۲۷ صفحات پر مشتمل اس رسالے میں نظم و نثرکا معیاری مواد ہے۔یہ رسالہ بھی ایک بار ہی جلوہ دکھا نے تک محدود رہا۔
چاک:
توقیر علی زئی مرحوم کی ادارت میں ستمبر1994ء میں حضرو سے شائع ہوا۔نواز شاہد کے ذمہ معاون مدیر کے فرائض تھے۔معاونین میں راشد علی زئی اور ڈاکٹر محمد نعیم اعوان کے نام ہیں۔خاور چودھری کو ناظم کا عہدہ دیا گیا۔اس رسالے کا صرف ایک شمارہ نکالا جا سکا ۔اس کے صفحہ نمبر ۱ پر’’تیسری سہ ماہی۴۹ئ‘‘کے اندراج سے پہلی نظر میں یہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ شایدیہ اس ادبی سلسلہ ٔ اشاعت کا تیسرا شمارہ ہے۔یہ خالص ادبی نوعیت کا پرچہ تھا،جس میں اداریہ (آخری بات ) اور دیگر تخلیقات کے علاوہ احمد ندیم قاسمی،ڈاکٹر مقبول فاروقی ،پروفیسر احسان اکبر ،سلطان جمیل نسیم اور پروین شاکر کی تحریریں ہیں۔چاک کا یہ ۸۴ صفحات پر مشتمل شمارہ بڑا جاذبِ نظر اور وقیع ہے۔
انیلہ:
مارچ 1999ء میں حضرو سے ماہ نامہ انیلہ کا آغاز ہوا۔اس کا سائز ۹×۱۱ تھا۔توقیر علی زئی اس رسالے کے نگرانِ اعلیٰ تھے۔ایڈیٹر کی ذمہ داریاں ممتاز خان علی زئی سے سپرد تھیں۔سماجی،سیاسی ،معاشرتی ،مقامی اور ملکی مسائل اس کے خاص موضوعات تھے ۔انیلہ کے منتظمین صرف ایک شمارہ ہی پیش کر سکے۔
میرے پاس "چاک" اور "سماج" کی کاپیاں موجود ہیں،ان شاء اللہ انہیں سکین کرکے اپ لوڈ کروں گا۔
 
راستے میں شام کا مسافر از خاور چودھری
توقیر علی زئی کا اصل نام محمد نواز تھا۔وہ 18اپریل 1953ء کو حضرو کے نواحی قصبے پیرداد میں پیدا ہوئے اور 23 جولائی 2001ء میں اس دُنیا سے رخصت ہوئے۔وہ اُن معدودے چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنا جہان خود بنایا۔انہوں نے جس فضا میں آنکھ کھولی وہاں شعروادب سے کچھ خاص علاقہ نہیں تھا۔لوگوں کے مشغولات اور معمولات اَدب سے ہٹ کرتھے۔کھیتی باڑی اور مویشی پروری لوگوں کا وسیلہ معاش تھا۔ایسے ماحول میں شوق جو ہواکرتے ہیں انہیں یہاں بیان نہ بھی کیا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے۔زیادہ تر رجحان شکار کا تھا۔پرندے پالے جاتے،ان کا شکار کیا جاتا، عقاب پالنے کا ذوق ایسا تھا کہ اس پر باقاعدہ بحثیں ہوتیں۔دیہات کی مجلسی زندگی میں حقے کی نَے،چوپال اور اس کے متعلقات،سنی سنائی اورپھر ان باتوں کی بنیاد پر مستقبل کی پیش بندی۔کسی بھی زرعی معاشرے کی یہ کل کائنات ہوا کرتی ہے۔توقیر علی زئی کے ساتھ تو سانحہ یہ بھی گزرا کہ صغر سنی میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ننھیال میں پرورش پائی۔اکلوتے ہونے کے باعث طبیعت میں ایک طرح کا امتیاز شروع سے ہی در آیا تھا۔اسی خصوصیت کے باعث میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کرتے ہیں۔خود بتایا کرتے تھےکہ اس زمانے میں انھوں نے غالب کا مکمل دیوان حِفظ کرلیا تھا۔
عجیب اتفاق ہے غالب بھی کم سنی میں والد کی محبتوں سے محروم ہوئے تو خود پسندی کے اسیر ہوئے۔کم وبیش یہی صورتِ حال توقیر علی زئی کے یہاں بھی دمِ آخر تک قائم نظر آتی ہے۔محض مجلسی زندگی میں وہ خود کو خاص مقام پر متمکن خیال نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے کلام میں بیسیوں مقامات پر اس رویے کا اظہار ملتا ہے۔شاعرانہ تعلیٰ اور معاصرانہ چشمک اگرچہ اُردو ادب کی روایات کا حصہ ہیں لیکن توقیر کو تو اپنے پائے کا کوئی حریف بھی میسر نہیں تھا۔کچھ بزرگ تھے جو اُن سے شفقت کا رویہ رکھتے تھے اور بعض ہم عصر تھے جو حدِتقابل سے بہت دُور تھے۔اس کے باوجود اس رویے کا اظہار یقیناً بعض بنیادی سوالات اُٹھاتا ہے۔کیا اُن کے مخاطب قومی سطح کے لوگ تھے؟ کیا غالب کا مزاج ان کی طبیعت میں گھر کرگیا تھا؟ کیا وہ اپنےگرد موجود لوگوں کے رویوں سے نالاں تھے؟ کیا وہ اپنے لیے فضا تنگ محسوس کرتے تھے؟ ان تمام سوالات کے جوابات ہاں میں ہیں۔اس لیے کہ وہ اپنے جاری کیے گئے رسالے "سماج" کے اداریوں میں ادبی سورماوں کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ اپنی شاعری میں بھی اختصاص کے ساتھ یہی کچھ ظاہر کرتے ہیں، ایک شعر دیکھیے:

دیکھ لینا مری شہ زوریِ بازو تم بھی
کوئی میدان میں مرے قد کے برابر نکلے
مقامی سطح پر توقیر نے باقاعدہ طور پر کسی سے سلسلہ تلمذ نہیں جوڑا۔اُن کی مشق و ریاض کا زمانہ بہت طویل ہے ۔طالب علمی سے ہی شعر گوئی شعار کرچکے تھے۔کل وقتی شاعر تھے،اس لیے ہر وقت اسی دھن میں رہتے۔چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اپنے شعروں پر غور کرتے رہتے۔البتہ بہت بعد کے زمانے میں جاکر انھوں نے انیس لکھنوی صاحب کو اپنا معنوی استاذ تسلیم کیا تھا۔انیس صاحب لالہ موسیٰ میں مقیم تھے اور جگر مراد آبادی کے شاگردوں میں سے تھے۔ممکن ہے توقیر علی زئی نے علم عروض کی تربیت اُن سے لی ہو۔ یہ بات میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ فکری اعتبار سے انیس صاحب اور توقیر علی زئی کے درمیان بہت زیادہ بُعد ہے۔پھر اسلوب کی سطح پر دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔توقیر علی زئی کے یہاں غالب کا رنگ اتنا چوکھا ہے کہ بعض غزلیں نہ صرف غالب کی زمینوں میں ہیں بلکہ مضامین کو بھی ایک نیا رنگ دے کر انھوں نے برتا ہے۔اسی طرح کہیں کہیں رنگِ اقبال کے چھینٹے بھی ان کے کلام پر دکھائی دیتے ہیں۔جب کہ انیس صاحب کے یہاں واضح اثر تو میر انیس کا ہے پھر جگر مراد آبادی بھی جھلکتے ہیں۔لیکن ایک بات یہ بھی ہے،جو مکانی فاصلہ حضرو اور لالہ موسیٰ میں ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اُن کی اکثر ملاقاتیں ہوتی ہوں گی۔اس کے لیے یقیناً خط وکتابت کا سلسلہ اُستوار کیا گیا ہوگا۔

توقیر علی زئی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے،اُن کا غزلیہ کلام باقی کلام کی نسبت بہت زیادہ ہے۔لیکن انھوں نے نظم گوئی میں بھی فنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔اُن کی پابند اور آزاد نظمیں خوب رواں دواں ہیں اور موضوع کو ایک ندی کے بہاو کی طرح ساتھ لے کر چلتی ہیں۔غزل کے بعد انھوں نے قطعہ نگاری اہتمام کے ساتھ کی۔اس کی ایک وجہ تو شاید اُن کے دوست اسحٰق آشفتہ کی قطعہ نگاری ہوسکتی ہے اور دوسرا انھیں مقامی اخبار میں بھی اس کا موقع ملا۔انھوں نے میری ادارت میں شروع ہونے والے ہفت روزہ حضرو میں بیشتر قطعات لکھے۔بعض نظمیں جیسے "چھ ستمبر" اور "چودہ اگست" وغیرہ بھی اسی اخبار کے لیے کہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزل کے میدان میں انھوں نے جس مہارت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا،وہ دوسرے میدانوں کی نسبت زیادہ مستحکم اور قابل توجہ ہے۔

توقیر علی زئی کو نئی نئی زمینوں اور مختلف بحروں میں کہنے کا شوق تھا۔زیادہ تر ان کے یہاں غالب کی سی مشکل پسندی کا رُجحان ہے۔انھوں نے فکری اعتبار سے خود کو کسی ایک خانے میں بند نہیں کیا،لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی رنگ ان سے چھوٹ گیا ہو۔رائج مضامین توان کے یہاں اپنا جلودہ دکھاتے ہی ہیں،عصری موضوعات بھی ان کے قلم کے محیط میں ہیں۔انھوں نے ہوش مند اور بالغ نظر شاعر کی حیثیت سے اپنا قلم رواں رکھا۔قدیم و جدید معاشروں کے خال و خط اجاگر کرنا اور ان کی آمیزش کرنا توقیر علی زئی کے شاعرانہ مزاج کا خاص وصف ہے۔یہ رویہ زیادہ تر نظموں میں ظاہر ہوتا ہے۔توقیر کی غزل جان دار بھی ہے اور طرح دار بھی۔انھوں نے محض نمود اور شاعر ہونے کا ٹھپہ لگانے کے لیے شاعری نہیں کی بلکہ عطائے ربِ جلیل کو بروئے کار لاتے رہے۔اُن کے اندر شاعری کا فطری جوہر موجود تھا جسے انھوں نے کمال مشاقی اور مہارت سے چمکایا۔ایک ایک زمین میں کئی کئی غزلیں کہیں،طرح مصرعوں پر وہ نہایت آسانی سے کہہ لیا کرتے تھے۔اسی طرح بعض موقعوں پر فی البدیہہ گوئی کا تو میں خود بھی شاہد ہوں۔

توقیر کے اُسلوب پر غالب کا رنگ نمایاں ہے لیکن انھوں نے اسے اختیار کرنے میں یہ مہارت برتی کہ اس میں اقبال کا رنگ بھی ملالیا۔پھر اپنا خاص طرز اسے عطا کرکے جدا راستہ بنا ڈالا۔اس اعتبار سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ توقیر نے ان دونوں بزرگوں کی مکمل تقلید کی ہے۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ کمال سے کم نہیں ہوگی کہ کوئی ان صاحبان کے اسلوب کی پیروی کرسکے۔حق بات تو یہ ہے، کہ یہ بجائے خود ایک اعزاز ہے۔توقیر نے تراکیب، زمینوں اور کہیں کہیں خیالات کے میدانوں میں ان شاعروں سے اخذ وکسب کیا لیکن اپنی شناخت بھی برقرار رکھی،یہی ان کی کامیابی ہے۔
جس طرح غالب کے یہاں انانیت اور اقبال کے یہاں خودداری کے زاویے چمکتے ہیں،توقیر کے یہاں یہ طرز یک جا ہو کر بلند ہوتا ہے۔اُن کا کلام ایسی مثالوں سے مملو ہے۔پھر عشق و حسن کے مرحلوں میں بھی ان کا مزاج انھی شاعروں کا سا ہے۔وہ محبوب سے جوابی محبت تو چاہتے ہیں لیکن غالب کی طرح اپنا مقام برقرار رکھ کر۔وہ عشق تو کرتے ہیں لیکن اقبال کی طرح ہوس سے پاک۔ان کے یہ اشعار زندہ مثالیں ہیں:

بجا کہ تشنہ لبی کم نہیں قیامت سے
خمیدہ سر ہوں ہم،ایسی تو کوئی بات نہیں
۰۔۰۔۰
عشق کی پاکیزگی، خوشبو سے پاکیزہ تر
غیر اُسے دیکھا کرے اور میں اسے سوچا کروں​

مضمون آفرینی اور نازک خیالی کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں، کہ انھیں یہاں پیش نہیں کیا جاسکتا۔اُن کی سوچ جس طرح بوقلموں ہے اُن کا قلم بھی اُسی طرح متنوع سمتوں میں اُبھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔الفاظ و تراکیب کا استعمال فنی مہارت اور خوب صورتی سے کرکے انھوں نے یہ ثابت کردیا ہے، کہ فطری جوہر اور فنی مہارتوں کا استعمال کہیں بھی رہ کر خوش سلیقگی سے کیا جاسکتا ہے۔بظاہر وہ چھوٹے سے شہر میں موجود تھے جہاں ابلاغ کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔اخبار بینی کا رُجحان خال خال تھا پھر وہ ایک سکول میں مدرس تھے۔اس حیثیت میں ان کا حلقہ کچھ زیادہ وسیع نہیں معلوم ہوتا لیکن وہ اپنے اردگرد سمیت،ملک اور بدلتی ہوئی دنیا سے آگاہ تھے۔اس لیے وہ ملکی سطح کے کالم نگاروں سے بھی رابطے میں تھے۔عبدالقادر حسن جیسے نامور قلم کار نے اپنے کالموں میں توقیر علی زئی کے خطوط اور شاعری شامل کی۔ایک کالم کا تو عنوان بھی توقیر کے مصرع پر رکھا۔کھاریاں سے شائع ہونے والے ایک ادبی رسالے "قلم قافلہ" نے تو ان کا یہ شعر رسالے کے پہلے صفحے پر مستقل حصہ بنایا ہوا تھا:
رہنمائی کا بھرم ٹوٹے گا
کچھ بھی ہو قافلہ رکتا تو نہیں​

معنوی اعتبار سے یہ شعر بہت سےحقائق سے پردہ اُٹھاتا ہے۔آگاہی اور زمانہ شناسی کا یہ اظہار دیکھئے:
ریشمی پوشاک دیواروں کو پہنائے گئے
پردہ تہذیب میں انسان ننگا ہوگیا​

توقیر کے یہاں صنعتوں،علامتوں،تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال نہایت مہارت سے ہوا ہے،البتہ انھوں نے محاوروں اور ضرب الامثال کو کم ہی اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔فنی نزاکتوں اور باریکیوں کا انھیں احساس تھا،یہ احساس ان کے کلام میں جا بہ جا دکھائی دیتا ہے۔غیر منقوط حمدیہ اور غزلیہ کلام ان کی فنی مہارت پر دال ہے۔وہ قادر الکلام شاعر تھے،موضوعات اور بیان اُن کے سامنے ادب سے سرجھکائے نظر آتے ہیں۔اپنے عہد میں انھوں نے ضلع اٹک میں جتنا لکھا کسی اور کے حصے میں یہ سعادت نہ آسکی۔یہ کلام مقداری اعتبار سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی کم حیثیت نہیں۔یہاں کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
ہر بار میں ہوا ہوں بہ رنگِ دِگر طلوع
صدیوں سے آفتاب ترا ہم سفرہوں میں
۰۔۰۔۰
یہ زیست پہاڑ سی کوئی رات
ہم بھی تیشہ بکف کھڑے ہیں
۰۔۰۔۰
مرے ہونے سے وہ میرِانجمن تھا
وہ میرے بعد اکیلا رہ گیا ہے
۰۔۰۔۰
ہماری تشنگی تھی موجہء دجلہ شکار اے دوست!
ہمیں تو نے رہینِ قطرہء شبنم نہ کرنا تھا
۰۔۰۔۰
اے مرے انجمن آرا یہ بتا
تو بھی سچ مچ کہیں تنہا تو نہیں!
۰۔۰۔۰
روشنی کے پسِ پردہ کوئی تاریکی نہ ہو
دامنِ شب سے عبارت ہے،ستاروں کا فسوں
۰۔۰۔۰
کہیں یہ شعلہ تخلیق کا دُھواں تو نہیں!
تنا ہوا ہے مرے سر پہ آسماں ہوکر​

یہ کچھ مثالیں ہیں،توقیر کے کلام سے ایسے سینکڑوں نمونے پیش کیے جاسکتے ہیں۔اپنے کلام کے آئینے میں توقیر آج اور آنے والے کل کا شاعر ہے۔میں بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھیں اٹک کی ادبی تاریخ سے کوئی نہیں کھرچ سکے گا اور نہ ہی ان کے بغیر یہ تاریخ مکمل ہوسکتی ہے۔بقول سلطان سکون صاحب:"میری ذاتی رائے ہے کہ اٹک کے پورے علاقے میں توقیر علی زئی جیسا شعر نگار شاید ہی کوئی اور ہوگا۔توقیر علی زئی اپنے قبیلہ،خاندان اور علاقہ کی توقیر تو تھے ہی مگر وہ شعروادب کے لیے بھی باعث صد توقیر تھے۔" تیسرا رخ،ہفت روزہ،حضرو اٹک 14 اگست تا 20 اگست 2001 ص 2۔

توقیر کی شخصیت اور فن پر جناب مسعود قریشی نے بسیط مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ہمارے لیے یہ فخر کی بات ہے۔اگر اس مقالے کی اشاعت کا اہتمام ہوجائے تو یقیناً یہ اہم علمی خدمت ہوگی۔

مسعود قریشی کے مطالعے کے دوران توقیر علی زئی کا وہ کلام بھی سامنے آگیا ہے جو ان کی خود نوشت ڈائریوں میں محفوظ نہیں تھا۔سیارہ ڈائجسٹ،قومی زبان،صریر،قلم قافلہ،روزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقت اور ہفت روزہ حضرو میں شامل بعض چیزیں ایسی ہیں جنھیں اُن کے مسودوں میں نہیں دیکھا جاسکتا۔زیرِنظر مجموعہ اُن کا کلیات ہے۔اُن کے قلم سے جو بھی منظوم نکلا،اُسے محفوظ کرلیاگیا ہے۔کم و بیش بارہ سال سے برادرم راشد نے بھی توقیر کی کتاب شائع کرنے کا اعلان کررکھا تھا لیکن ابھی تک ان کا ارادہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ظاہر ہے ایسے کاموں کے لیے کثیر سرمایے کے ساتھ ساتھ شاعر کے خاندان کی شمولیت بھی ضروری ہوتی ہے۔اب جب کہ توقیر علی زئی کی بیوہ،بیٹے اور بیٹیاں اس کام میں خود شریک ہیں تو یہ اہم مرحلہ طے ہورہا ہے۔میرے لیے اس میں یک گونہ خوشی کا احساس ہے کہ میں بھی اس کام کا حصہ ہوں۔کلیات کے مرتب پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسین بخاری صاحب ہیں جن کی نگرانی میں توقیر علی زئی کی شخصیت اور فن پر لکھا گیا۔میں سمجھتا ہوں یہ میرے لیے اور خصوصاً توقیر علی زئی کے اہلِ خانہ کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ ایک نامور شخصیت اس کتاب کے مرتب ہیں۔میں ڈاکٹر صاحب کا شکرگزار ہوں۔
توقیر علی زئی کا کلام ایسا نہیں ہے کہ اس مختصر مضمون میں اُس کا احاطہ کیا جاسکے۔میں سمجھتا ہوں اس کی فنی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کے لئے مسعود قریشی کا مقالہ بڑی حد تک معاون ہوسکتا ہے۔اگر ہوا سازگار ہوتو ان شاء اللہ یہ مقالہ بھی اشاعت آشنا ہوجائے۔میں نے جو معروضات پیش کی ہیں،وہ اپنے مطالعے کے نتیجے میں کی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری خوش بختی ہے کہ میں توقیر علی زئی کا ہم مجلس رہا،اُن سے براہ راست سُنتا رہا اور اُن ے تخلیقی عمل کا کسی حد تک شاہد بھی رہا۔

آپ مطالعہ کیجیے اور دیکھئے کہ انھوں نے فکروخیال کے پھول کس خوب صورتی سے سجائے ہیں کہ ہر ہر پھول اپنی شان میں جدا بھی ہے اور ممتاز بھی۔زبان و بیان کی رنگینی اور نازکی آپ کو جگہ جگہ نظر آئے گی۔ میں پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ توقیر علی زئی کا کلیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
خاور چودھری
کالم نگار و شاعر

۰۔۰۔۰
کلام سے انتخاب کی لڑی یہ رہی۔ان شاء اللہ کوشش ہوگی کہ راستے میں شام کو مکمل یہاں جمع کرسکوں۔

10665995_714323991983762_8865569415414679145_n.jpg

 
ماشاءاللہ ،بہت عمدہ تحریر۔۔۔۔۔۔۔جملوں کی ترتیب اور اندازِ بیاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ادب پر آپکی گرفت کافی مضبوط ہے۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاءاللہ ،بہت عمدہ تحریر۔۔۔۔۔۔۔جملوں کی ترتیب اور اندازِ بیاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ادب پر آپکی گرفت کافی مضبوط ہے۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
کس کی تعریف کر رہی ہیں محترمہ، یہ ابن توقیر کے والد محترم کا ذکر ہے
 
Top