ابن توقیر

محفلین
ابو جی کے کلیات سے منتخب کلام جمع کرنے کا ارادہ ہے۔

غزل

پہاڑوں سے پگھلتا جا رہا ہوں
سمندر میں اترتا جا رہا ہوں
مرے ساتھی بچھڑتے جا رہے ہیں
سوئے منزل اکیلا جا رہا ہوں
معمہ تھی مری ہستی مگر اب
میں سوچا اور سمجھا جا رہا ہوں
ترے شاداب لہجے اب کہاں ہیں
تری محفل سے پیاسا جا رہا ہوں
تُو خوشبو ہے بکھرتا جا رہا ہے
میں رنگوں میں نکھرتا جا رہا ہوں

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل

کچھ کرشمے بھی بام در میں تھے
سو مناظر مری نظر میں تھے
دو جہاں حیطۂ نظر میں تھے
ہم بظاہر تو اپنے گھر میں تھے
وہ کسی اور انجمن میں تھا
ہم کسی اور رہگذر میں تھے
طاہرِ خوش گلو چمن میں تھا
طائرانِ سفر' سفر میں تھے
میری شہرت تری گلی تک تھی
تیرے چرچے نگر نگر میں تھے

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل

رات آنکھوں میں بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
تیری یادوں میں سحر ہو تو غزل ہوتی ہے
جذبِ دل ذوقِ نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
ہر قدم محوِ سفر ہو تو غزل ہوتی ہے
کچھ نہیں ہے تو یہی خونِ تمنا ہی سہی
جب قلم خون میں تر ہو تو غزل ہوتی ہے
حسنِ مہ اور ستاروں کی چمک سے بھی گزر
پھول بھی زخمِ نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
آج تک اہلِ ہوس پر نہ کھلا رازِ نہاں
کہ تری ایک نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
لفظ ہوں برق فشاں اور قلم شعلہ فگن
پھر جنوں سنگ بہ سر ہو تو غزل ہوتی ہے
لوگ تو سہل سمجھتے ہیں مگر اہلِ سخن
خونِ دل خونِ جگر ہو تو غزل ہوتی ہے
آج توقیر حقیقت سے اٹھا دے پردہ
نالۂ دِل میں اثر ہو تو غزل ہوتی ہے

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
کاغذوں پر دئیے جلاتے رہے
خون لفظوں کو ہم پلاتے رہے
روشنی میں بجھے بجھے تھے لوگ
ہم اندھیروں میں جگمگاتے رہے
کتنا مشکل تھا آدمی بننا
لوگ خود کو خدا بناتے رہے
لوگ پتھر کے' شہر پتھر کا
ہم بھی لعل و گہر لٹاتے رہے
دائروں کی فضائیں تھیں محدود
ہم شعاؤں میں جھلملاتے رہے

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

نایاب

لائبریرین
ابو جی کے کلیات سے منتخب کلام جمع کرنے کا ارادہ ہے۔
ماشاء اللہ
بہت خوب ارادہ ہے ۔ اللہ سوہنا آپ کو استقامت و عافیت سے نوازے آمین
ممکن ہو تو والد محترم کا کچھ تعارف بھی شریک محفل کر دیں ۔
بلاشک اچھا لہجہ روشن خیال کا حامل کلام ہے ۔
ڈھیروں دعائیں
 

ابن توقیر

محفلین
نایاب بھائی ان شاء اللہ ضرور۔
راستے میں شام کتاب میں والد محترم پر "مضمون راستے میں شام کا مسافر" ٹائپ کرکے جلد ہی اپ لوڈ کردوں گا۔
ہمیشہ خوش رہیں۔
آمین
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
رحمتِ پروردگار
ایک چشمِ اشکبار
تیرے چہرے کا نکھار
جلوۂ صبحِ بہار
لفظ و معنی سب نثار
تجھ پہ اے جانِ بہار
کس کو ہم آواز دیں
کون سنتا ہے پکار
باغ کی زینت ہیں یہ
باغ کے سینہ فگار
حاصلِ عمرِ تمام
اک مسلسل انتظار
بادلوں کا اجتماع
کاکلوں کا انتشار
موجۂ رفتارِ دوست
گردشِ لیل و نہار
تم ملو توقیر سے
آدمی ہے باوقار

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
خوئے تسلیم فقط موجب تسکین و جمود
کسب تحقیق سے ہوتا ہے کرشموں کا ورود
تیری تعمیر میں مضمر ہے سرِ روزِ فنا
میری تخریب سے روشن ہے شبستانِ وجود
سرِ دربارِ جنوں حیف ہے اکوں کا خروج
سر ایوانِ وفا حقِ تمنا بے سود
آج اک حرفِ تمنا کے ہیں مفہوم بہت
آج اک جذبۂ ایثار ہوا ہے مفقود
خشتِ اول کفِ معمار عمارت لرزاں
کون جانے کہ یہاں کون رہے گا موجود
چار تنکوں کا عجب عالم دیکھا ہے
برق سوزاں کے تعاقب میں اٹھی موجۂ دود

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
قطعات

وہ اپنے آپ کو سب سے جدا سمجھتا ہے
اک آدمی نہیں خود کو خدا سمجھتا ہے
اُسے دلیل سے قائل کریں تو کیسے کریں؟
وہ اپنے ظلم و ستم کو روا سمجھتا ہے
۰۔۰۔۰
جب مسائل نہ حل ہوئے اپنے
پھر سوال و جواب کیا معنی
جرم کا ارتکاب کم نہ ہوا
کوششِ احتساب کیا معنی"
۰۔۰۔۰
آستانے تلاش کرتا ہے
وہ بہانے تلاش کرتا ہے
اک حقیقت سے بے نیاز ہے جو
سو فسانے تلاش کرتا ہے
۰۔۰۔۰
یہ رستے کے کھڈے یہ تھانہ کچہری
نکمے یہ پھڈے، یہ تھانہ کچہری
جرائم کی دنیا ، علائم کی نگری
برائی کے اڈے یہ تھانہ کچہری
۰۔۰۔۰

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

عارضی کے

محفلین
السلام علیکم!
بہترین شاعری ہے۔ مجھے تو یہ قطعہ بہت پسند آیا۔ میرےپسندیدہ کلام میں ایک اور قیمتی اور بروقت اضافہ۔ بہت شکریہ

آستانے تلاش کرتا ہے
وہ بہانے تلاش کرتا ہے
اک حقیقت سے بے نیاز ہے جو
سو فسانے تلاش کرتا ہے!
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
یوں کوئی میرے برابر سے گزر جاتا ہے
جیسے طوفان سمندر سے گزر جاتا ہے
ناوک انداز نیا ہے کہ ہدف ہے کوئی اور
تیر آتا ہے مرے سر سے گزر جاتا ہے
آتی جاتی ہیں مرے ذہن میں یادیں تیری
جیسے لشکر کوئی لشکر سے گزر جاتا ہے
وقت کے بحر میں صدیوں جسے ڈھونڈا میں نے
موج در موج مرے سر سے گزر جاتا ہے

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
اشکِ خوں بہا گیا کوئی آج ریت پر
اختلاف بحر سے' احتجاج ریت پر
کتنی نامراد تھی موتیوں کی جستجو
بحر سے معاوضہ کام کاج ریت پر
عکس سب بکھر گئے رنگ نشتر ہوئے
کرچی کرچی ہو گیا اک زجاج ریت پر
تیری مہربانیاں موسموں کی سختیاں
پھر ترے جفا کشاں سوئے آج ریت پر

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
نعت رسولِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم

مری سوچ کا یہ محور ، مرے شوق کا قرینہ
جہاں سرجھکے وہ کعبہ،جہاں دل جھکے وہ مدینہ
مری اولین تمنا،مرا آخری تقاضا
مری جاں میں جاں ہے جب تک،رہے رُوبرو مدینہ
درِ شاہِ دوسرا پر،کھڑے ہوکر دست بستہ
مرا ذکر بھی کیا ناں! مری بات بھی کہی نا!
مری ناو کے کھوَیّا، ترے لطفِ بے کراں سے
ہوا فاتح طلاطلم، مرا ڈوبتا سفینہ
کبھی فکرِ روحِ خنداں کبھی ذکرِ زلفِ تاباں
یہ دُرودِ صبح گاہی، وہ وظیفہ شبینہ

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
نعت رسولِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم

ہو روحِ صداقت،امیں بھی تمھی ہو
خدا کے یسارو یمیں بھی تمھی ہو
ہمارے دلوں کے مکیں بھی تمھی ہو
کہ عرشِ عُلا کے قریں بھی تمھی ہو
شفاعت کے ضامن بہ روزِ قیامت
ہدایت کا منبع یہیں بھی تمھی ہو
بشیر" ، نذیر" ، رفیع" ، شفیع"
زہے رحمتِ عالمیں بھی تمھی ہو
محمد، منور، مزمل، مدثر
خدا کی کتابِ مبیں بھی تمھی ہو
خدا کے دوعالم میں شہکار تم ہو
کہ فخرِ گل و یاسمیں بھی تمھی ہو
میں توقیر بزمِ سخن ہوں ولیکن
مرا تو کمالِ یقیں بھی تمھی ہو

توقیر علی زئی
1953-2001
 
Top