رات یہ ساری میری ہے

تیز ہوا کے جھونکوں میں
رات سہانی کہتی ہے
چھوڑ کے سب کچھ آجاؤ !
شور ہے چلتے چشموں کا
اور مہک ہے زخموں کی
نیند اڑی ہے آنکھوں سے
یاد بہت کچھ آتا ہے !
نور بھرا اک چہرا تھا
اور وہ دل بھی نورانی
شخص وہ کتنا پیارا تھا
پیار سے جس نے بولا تھا
" آپ ہمارے اپنے ہو "
پاس پرائے پانی کے
آج کھڑا ہوں تنہا میں
چاند فلک پر ہنستا ہے
ساتھ میں کتنے تارے ہیں
اور درختوں کے اوپر
ایک تسلسل پربت سا
خوب ہے دھن یہ پتوں کی
رقص کناں ہے سنّاٹا
تار چھڑا ہے آہوں کا
ہوش کو گروی رکھ کر اب
درد ذرا سا لے آؤ
لطف کی حاصل ساعت میں
کھول کے دل کو تڑپوں گا
" رات یہ ساری میری ہے "
اسامہ جمشید
رات 3 بجے،8 اگست 2017​
 
Top