دیوان غالب

رضوان

محفلین
بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے
تکلّف بر طرف تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی


خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی


نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی


نہ اتنا برّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریاے بیتابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی


مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی


مرے دل میں ہے غالب شوقِ وصل و شکوہ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی
 

رضوان

محفلین
ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے


ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا
یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے


رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے


بیدادِ وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
 

رضوان

محفلین
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے


غالب ترا احوال سنا دینگے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××

گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو ہے



 

رضوان

محفلین
غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی


کھلےگا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغز کے جلانے کی


لپٹنا پرنیاں میں شعلہ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی


انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی


ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی


لکد کوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی


کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی


××××××××××××××××××××××××××××


حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی


اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے
میں بھی جلے ہؤں میں ہوں داغِ نا تمامی




 

رضوان

محفلین
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے


ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے


حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے


کی اس نے گرم سینہ اہلِ ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے


کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے


بیٹھا ہے جو کہ سایہ دیوارِ یار میں
فرماں رواے کشورِ ہندوستان ہے


ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے


ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالب ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے
 

رضوان

محفلین
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے


تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے


کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے


عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے


زہر لگتی ہے مجھے آب و ہواے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے


گل فشانیہاے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے


شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے


خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے


ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے


کس طرح کاٹے کوئی شب‌ہاے تارِ برش کال
ہے نظر خو کردہ اختر شماری ہائے ہائے


گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے


عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے
 

رضوان

محفلین
سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے


لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے


کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے


ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانہ وفا
ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے


پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے


ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
 

رضوان

محفلین
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے


کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرچِ زبانہاے لال ہے


کس پردے میں ہے آئنہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے


ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے


مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے


وحشت پہ میری عرصہ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے


ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے
 

رضوان

محفلین
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے


دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر
نہ گریہ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے


×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××

ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہراً کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے


جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے


آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے ناچار ہے



ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے



مجھ سے مت کہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے



آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے
 

رضوان

محفلین
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے

××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××


مری ہستی فضاے حیرت آبادِ تمنّا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے


خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے



وفاے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دلہاے حزیں کا کس نے دیکھا ہے



نہ لائی شوخیِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی
کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے
 

رضوان

محفلین
رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے


دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے


××××××××××××××××××××××××××××××××××××××

چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
سرمہ تو کہوے کہ دودِ شعلہ آواز ہے


پیکرِ عشّاق سازِ طالعِ نا ساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے



دست گاہ دیدہ خوں بارِ مجنوں دیکھنا
یک بیاباں جلوہ گل فرشِ پا انداز ہے
 

رضوان

محفلین

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی


قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی



میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی



ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی



اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی



عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی


ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی



کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی


ہم بھی تسلیم کی خو ڈالینگے
بے نیازی تری عادت ہی سہی


یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
 

رضوان

محفلین

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن ہے خندہ دنداں نما مجھے


ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوہ برقِ فنا مجھے


مستانہ طے کروں ہوں رہ وادیِ خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے


کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نک‌ہتِ گل سے حیا مجھے


کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
 

رضوان

محفلین

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کرینگے کہ خدا رکھتے تھے

×××××××××××××××××××××××××××××××××××

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے


دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے


رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجّادہ رہنِ مے
مدّت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے


بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہینگے کہ ہم کیا کیا کیے


مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج‌ہاے گرانمایہ کیا کیے


کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے


صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے


ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے


غالب تمہیں کہو کہ ملیگا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
 

رضوان

محفلین

رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے



میناے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے
بالِ تدرو جلوہ موجِ شراب ہے


زخمی ہوا ہے پاشنہ پاے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے


جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے

نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے


میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے


گزرا اسد مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
 

رضوان

محفلین
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے


ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے


غیر کو یا رب وہ کیونکر منعِ گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے


شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے
دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے


دور چشمِ بد تری بزمِ طرب سے واقہ واہ
نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے


گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے


اس کی بزم آرائیاں سن کر دلِ رنجور یاں
مثلِ نقشِ مدّعاے غیر بیٹھا جائے ہے


ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے


نقش کو اس کے مصوّر پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے


سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
 

رضوان

محفلین

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

××××××××××××××××××××××××××××××××××××

گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
تب اماں ہجر میں دی بردِ لیالی نے مجھے


نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم
لے لیا مجھ سے مری ہمّتِ عالی نے مجھے


کثرت آرائیِ وحدت ہے پرستاریِ وہم
کر دیا کافر ان اصنامِ خیالی نے مجھے


ہوسِ گل کے تصوّر میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

×××××××××××××××××××××××××××××××××

کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
برقِ خرمنِ راحت خونِ گرمِ دہقاں ہے


غنچہ تا شگفتنہا برگِ عافیت معلوم
باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے


ہم سے رنجِ بیتابی کس طرح اٹھایا جائے
داغ پشتِ دستِ عجز شعلہ خس بہ دنداں ہے
 

رضوان

محفلین
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے


دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے


گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے


بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائیگی
یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے


رنجِ رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے


جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنہ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے


ہے دلِ شوریدہ غالب طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے
 

رضوان

محفلین
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے


اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے


ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے


تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے


تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے


اے ساکنانِ کوچہ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبِ آشفتہ سر ملے
 

رضوان

محفلین

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی


شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی


وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی


اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی


دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی


ہر بو‌ل ہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی


نظّارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی


فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی


مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
 
Top