دیوان غالب

نبیل

تکنیکی معاون
ديوان غالب کا مکمل اور تصحیح شدہ نسخہ وک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ی پر بھی موجود ہے۔



[bcolor=#FFBFBF:93c8c76ae3]دیوان غالب





مرزا اسداللہ غالب





غزلیات
[/bcolor:93c8c76ae3]​
[bcolor=#FFBFBF:93c8c76ae3]دیوان غالب





مرزا اسداللہ غالب





غزلیات
[/bcolor:93c8c76ae3]​
[bcolor=#FFBFBF:93c8c76ae3]دیوان غالب





مرزا اسداللہ غالب





غزلیات
[/bcolor:93c8c76ae3]​
 

نبیل

تکنیکی معاون
نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا

(1)​

نقش، فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاوکاوِ ‘سخت جانی ہائے‘ تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہِ شمشیر سے باہر ہے، دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا


:!:

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسد! غم خوارِ جانِ دردمند آیا​
 

نبیل

تکنیکی معاون
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

(2)​

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگی۔ چشمِ حسود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت، گیا اور بود،تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سرگشتہِ خمارِ رسوم و قیود تھا
 

نبیل

تکنیکی معاون
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا

(3)​

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
دوست دارِ دشمن ہے! اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا
[]
 

نبیل

تکنیکی معاون
دل مرا سوز نہاں سے بے محابہ جل گیا

(4)​

دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابہ جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بال عُنقا جل گیا
عرض کیجیئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا
دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا؟ کار فرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہل دنیا، جل گیا
 

نبیل

تکنیکی معاون
شوق، ہر رنگ رقیب سروسامان نکلا

(5)​

شوق، ہر رنگ، رقیبِ سروسامان نکلا
قیس، تصویر کے پردے میں بھی، عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی، یارب
تیر بھی سینہ بسمل سے پر اَفشان نکلا
بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
دلِ حسرت زدہ تھا، مائدہِ لذتِ درد
کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا
تھی نو آموزِ فنا، ہمتِ دشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
آہ، جو قطرہ نہ نکلا تھا، سو طوفاں نکلا
 

نبیل

تکنیکی معاون
دھمکی میں مر گیا، جو نہ باب نمرد تھا

(6)​

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ، طلبگار؟ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہِ خیال ابھی فرد فرد تھا
دل تاجگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوہِ گل، آگے گرد تھا
جاتی ہے کوئی؟ کشمکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، بیاں نورد تھا
یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جان کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
 

نبیل

تکنیکی معاون
شمار سبحہ، مرغوب بت مشکل پسند آیا

(7)​

شمارِ سبحہ، مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے ‘بہ یک کف بردنِ صد دل‘ پسند آیا
بہ فیضِ بے دلی، نومیدئ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدہِ مشکل پسند آیا
ہوائے سیرِگل، آئینہِ بے مہرئ قاتل
کہ اندازِ ‘بخوں غلطیدنِ بسمل‘ پسند آیا
 

نبیل

تکنیکی معاون
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا

( 8 )​

دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ، کہ شرمندہِ معنی نہ ہوا
سبزہِ خط سے تراکاکُلِ سرکش نہ دبا
یہ ُزمُرد بھی حریفِ دم افعی نہ ہوا
میں نے چاہا، کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نَفَس جادہِ سرمنزلِ تقوِی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی، راضی، کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہاتھاکہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
مر گیا صدمہِ یک جنبش؟ لب سے غالب
ناتوانی سے حریفِ دم عیسِی نہ ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ستایشگر ہے زاہد ، اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

بیاں کیا کیجئے بیدادِکاوشہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرہء خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نیستاں کا

دکھاؤنگا تماشہ ، دی اگر فرصت زمانے نے
مِرا ہر داغِدل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خُرشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا

اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ ، ویرانی تماشہ کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا

خموشی میں نہاں ، خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مُردہ ہوں ، میں بےے زباں ، گورِ غریباں کا

ہنوز اک پرتوِ نقش خیال یار باقی ہے
دلِ افسردہ ، گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

نہیں معلوم ، کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادہ ء راہِ فنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
 
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا!! جذبہ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچھتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے​
وہ بد خو اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
ادھر وہ بدگمانی ہے ، ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے ، نہ بولاجائے ہے مجھ سے​
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف برطرف نظارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے​
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہوئے مدعی کا ہمسفر غالب
وہ کافر، جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہی مجھ سے​
 

شمشاد

لائبریرین
درد منتِ کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، بُرا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گِلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تُو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خُدائی تھی
بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یُوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رُک گیا روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل، دلستاں روا نہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج “غالب“ غزل سرا نہ ہوا
 

فریب

محفلین
وہ فراق اور وہ وصال کہاں وہ شب و روز وہ ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے ذوقِ نظارہ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا شورِ سودائے خط و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائی خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں
ہم سے چھوٹا قمار خانہ عشق واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب وہ عناصر میں اعتدال کہاں​
 

فریب

محفلین
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم آپنی پریشانئی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کونسے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم “نامِ خدا“ کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِ آشفتہ نوا کہتے ہیں
 

فریب

محفلین

آبرو کیا خاک اُس گُل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
کیا کہوں تاریکئ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں‌ نہیں
رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لزت زخمِ سوزن میں نہیں
بس کہ ہیں ہم اک بہارِ ناز کے مارے ہوُے
جلوہ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خُں بھی ذوقِ درد سے فارغ مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں
ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
تھی وطن میں شان کیا غالب کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں​
 

فریب

محفلین
عہدے سے مدِح‌ناز کے باہر نہ آ سکا
گراک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں
------------------------------------------------------------------
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں‌کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
-------------------------------------------------------------------------
ہم سے کھل جائے بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن
غرّہ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ پوچھ
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ زندگی ایک دن
دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
--------------------------------------------------------------------------
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے عگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباب تو رکھتے ہو تم، گر دھاں نہیں
ہر چند جاں گدازئ قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمئ تاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر وہ سنجِ زمزمہ الاماں نہیں
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہگر خونچکاں نہیں
ہے ننگِ سینہ دل اگ آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِدل نفس اگر آذر فشاں نہیں
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں“
گویا زمیں پہ سجدہ بت کا نشاں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے سخن کی میں
رُوح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں‌نہیں
--------------------------------------------------------------------
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاوں میں زنجیر نہیں
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو جہاں
جادہ غیر از نگہِ دیدہ تصویر نہیں
حسرت لذّتِ آزار رہی جاتی ہے
جادہ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں
رنجِ نو میدیِ جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں
سر کجھاتا ہے جہاں رخمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازہ تقریر نہیں
جب کرم رخصتِ بیباکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجُز خجلتِ تقصیر نہیں
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
“ آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں“
------------------------------------------------------------------
 

الف عین

لائبریرین
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دلِ دوست ثنا موجِ شراب
پوچھ مت وجہ سیہ مستئِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موجِ شراب
جس قدر روح بناتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب
بسکہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہوہوکر
شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب
موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگاہِ خیال
ہے تصوّر میں زبس جلوہ نما موجِ شراب
نشّہ کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ
بس کہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب
ایک عالم پہ ہیں طوفانئِ کیفیّتِ فصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب
شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب

ہوش اڑتے ہیں مرے جلوۂ گل دیکھ، اسد
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ت سے

افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت
کافی ہے نشانی تری چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت

لکھتا ہوں اسد سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
۔۔۔۔

رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
جگر کو مرے عشقِ خوں نابہ مشرب
لکھے ہے ’خداوندِ نعمت سلامت‘
علی اللّرغمِ دشمن، شہیدِ وفا ہوں
مبارک مبارک سلامت سلامت

نہیں گر سر و برگِ ادراک معنے
تماشائے نیرنگ صورت سلامت
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ت سے ایک اور

آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
خانہ ویراں سازئ حیرت تماشا کیجیئے
صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست
عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے
کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست
چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے
یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست

یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آئی ہے آپ
ہے ردیفِ شعر میں غالب زبس تکرارِ دوست
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ج سے

گلشن میں بند وبست برنگِ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمندِ شکارِ اثر ہے آج

اے عافیت! کنارہ کر، اے انتظام! چل
سیلابِ گریہ در پے دیوار و در ہے آج
۔۔۔
 
Top