دیدۂ اشک بار لے کے چلے ۔ نوشاد علی

فرخ منظور

لائبریرین
دیدۂ اشک بار لے کے چلے
ہم تری یادگار لے کے چلے

دل میں تصویرِ یار لے کے چلے
ہم قفس میں بہار لے کے چلے

خواہش دید لے کے آئے تھے
حسرتِ انتظار لے کے چلے

سامنے اس کے ایک بھی نہ چلی
دل میں باتیں ہزار لے کے چلے

ہوسِ گل میں ہم بھی آئے تھے
دامنِ تار تار لے کے چلے

جو مرے ساتھ ڈوبنا چاہے
مجھ کو دریا کے پار لے کے چلے

تم سے اپنا ہی بار اٹھ نہ سکا
ہم زمانے کا بار لے کے چلے

ہم نہ عیسیٰ نہ سرمد و منصور
لوگ کیوں سوئے دار لے کے چلے

بھر کے دامن میں خاک اس در کی
ہم تو کوئے نگار لے کے چلے

زندگی مختصر ملی تھی ہمیں
حسرتیں بے شمار لے کے چلے

روپ نغموں کا دے کے ہم نوشادؔ
اپنے دل کی پکار لے کے چلے

(نوشاد علی، موسیقار اعظم)
 
Top