دُر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویش

خاورچودھری

محفلین
دُرّ۔۔۔۔۔ویش


یہ تیرہ سال اُدھرکی بات ہے----------رات اوس میں ڈوب رہی تھی اورایک خوش گلو،خوش رواورخوش سلیقہ شخص #
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
کہہ رہاتھااوریہی شخص آج کی رات کاصدرنشیں تھا--------------6اکتوبر1994ء کی اس رات سکائی ویزہوٹل کھاریاں کے دالان میں برپاہونے والامشاعرہ بھلا دینے کے لیے تونہیں-----------ملک بھرسے لکھنے والے یہاں جمع ہوئے-------------اوردل کی باتوں کوزبان پرلائے۔
جب احمدفرازماحول پرمنترپھونک رہے تھے تواس سے کچھ دیرپہلے ایک اوررنگ کی تقریب سجی تھی---------وہ تقریب جومجھے ارشد محمود ناشاد سے ملانے کا سبب بنی۔”قلم قافلہ“کے مدیراعلیٰ اوردرجنوں کتابوں کے مرتب گل بخشالوی انوکھے آدمی ہیں-------اوریہ انوکھاکام انھیں کا تھا کہ ملک بھرمیں پھیلے ہوئے لکھنے والوں کے درمیان غزل کامقابلہ کروایا-----------آج غزل ایوارڈتقیسم ہوناتھے۔اسٹیج سیکرٹری نے ایک نام پکارا --------------اور پھر دوسر ا----------- مشکل سے چندساعتیں گزری ہوں گی کہ ایوارڈوصول کرنے کے لیے میرانام پکاراگیا۔
میں فخرسے اپنی نشست سے اُٹھااوراسٹیج تک پہنچ آیا-----------احمدفرازنے غزل مقابلے میں دوسراانعام میرے حوالے کیااورایک ہتھیلی میرے کاندھے پر جمادی----------------تب میں بہت خوش تھااورخوش ہوناضروری بھی تھا-----------اس لیے کہ یہ ایوارڈمیں نے وصول کیاتھا،اس شخص کے لیے جومیری مٹی کابیٹاتھا۔مشاعرہ ختم ہوا---------------میں اورتوقیرعلی زئی مرحوم حضرولوٹ آئے۔نہیں جانتاہوں کتنے دن بعدمحمدنگرگیاتووہاں غم نے چادرتان رکھی تھی اوردوتخلیق کارایک چارپائی پر سر نیہواڑے بیٹھے تھے۔تعارف ہوا------اورمیں نے مدعابیان کیا -------------ناناکی جدائی کاغم بھاری تھا،اس لیے ناشادکے چہرے پروہ لکیرنہ اُبھرسکی جوکسی جیتنے والے کے رُخ پرظاہرہوتی ہے۔یہ ناشادسے میری پہلی ملاقات تھی۔ میں 94ء کی اخیرمیں کراچی کی خاک چھاننے چلاگیا--------------یوں دوبارہ رابطہ نہ ہوا۔ جب لوٹا تو یہاں سے”حضرو“کے نام سے ہفت روزہ اخبارجاری کردیا۔مصروفیت بڑھی کہ بس---------------!وقت کے چہرے پرگردکی تہیں برابرجمتی رہیں۔اِدھرمیں نے ادبی رسالہ”سحرتاب“جاری کیا اورپھر ہفت روزہ”تیسرارُخ“--------------اس سارے عرصہ میں ارشدمحمودناشادسے چندایک خطوط کاتبادلہ ہوا،مگرملاقات نہ ہوئی۔
ایک روزمیں”تیسرارُخ“کے دفترمیں بیٹھاہوں،ایک صاحب اندرآئے ----------دماغ میں تونقش جاگ رہاتھالیکن میں جان نہیں پایاتھا۔آنے والے نے بتایاتوخوشی سے دل باغ باغ ہوگیا-------------کم وبیش نوسال بعدکی یہ ملاقات بہت خوش کن رہی،کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔تب ناشادنے بتایاکہ وہ پی ایچ ڈی کررہاہے------------میں نے رشک سے اس کی طرف دیکھااوراس کی کام یابی کے لیے دعاکی---------- ملاقاتیں بڑھ گئیں،ایک دوسرے کوجاننے کاموقع ملا----------------- مختلف حوالوں سے اورمختلف موضوعات پربات چیت کاسلسلہ چل نکلا۔
جب ناشادنے چھاچھی بولی پرکام کیاتوایک بارپھرمجھے اس شخص کی ہمتوں پررشک آیا۔میں جوایک عرصہ سے یہاں بیٹھاہوا ہوں اس حوالے سے کام نہ کرسکاتولامحالہ مجھے ناشادکااحسان مندہوناپڑاکہ اس نے ہمارابوجھ اُٹھایا۔جب وہ پی ایچ کی ڈگری لے آیاتب بھی مجھے رشک آیاتھااورمیرے دل سے اس کے لیے ڈھیروں دعائیں خودسے ہی نکلناشروع ہوگئی تھیں-----------میں اگرنہ بھی کہوں تودنیائے ادب کے لوگ اس کے کام سے واقف ہیں۔جوپتھر ہم جیسے سہل کارچوم کرچھوڑنے سے بھی ڈرتے ہیں یہ مردِجری تیشہ بہ کف آگے بڑھ جاتا ہے----اورپھراپنی جرات اوربانکپن سے اس کاسینہ چیرکر شبیہ نکال لیتاہے۔
ڈاکٹرارشدمحمودناشادبہت خوب صورت آدمی ہے-------------بے شمارخوبیوں والا-----------ان گنت ذائقوں والا------مگردھیان رہے،یہ تیکھا بھی اتناہی ہے جتنا کے بانکاہے اورسچ کہوں تواس کاتیکھاپن میرے دل میں کُھب کررہ گیاہے۔فن کے حوالے سے اس کارویہ انتہائی سخت اور غیرلچک دارہے-----------چھوٹ کا لفظ اس کی لغت میں نہیں----------سامنے والاکتناہی نام ورکیوں نہ ہو--------کتناہی مشہورکیوں نہ ہوجواس نے محسوس کیابلاتکلف کہہ دیا،کہ یہی سچے اورکھرے شخص کی نشانی ہے۔ ایک اوربات جومیں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ کہ اس نے کوئی بہروپ نہیں بھرا۔اندرباہرسے ایک سادِکھتاہے اوراس پرمستزادیہ کہ بعضوں کی طرح ہروقت دوسروں پراپنی ڈاکٹری کا رعب بھی نہیں ڈالتا پھرتا، میں نے تویہاں ایسے بھی دیکھے ہیں جودومصرعے موزوں کرلیں تواقبال وفیض کومشورہ دینے بیٹھ جاتے ہیں،میر#وغالب کوخود سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔
ناشادکاایک اوروصف بھی ہے-----------جہاں لوگ اپنے تعلق داروں کودوسروں سے چھپاتے پھرتے ہیں وہاں یہ شخص اپنے دوستوں کواپنے تعلق داروں سے نہ صرف ملاتاہے بل کہ انھیں اچھاماحول فراہم کرتاہے---------وہ جانتاہے کہ نیاملنے والااس کے تعلق میں رخنہ نہیں ڈال سکتا۔اس کااپنی ذات پریہ اعتبار اس لیے ہے کہ وہ اندرسے خالی نہیں اورجولوگ اندرسے خالی ہوتے ہیں وہ اپنے نام ورتعلق داروں سے اپنا تعلق چھپاتے ہیں۔یہاں تویہ عالم ہے کہ لوگ رسائل پر غلاف چڑھاکررکھتے ہیں کہ مباداکوئی دیکھ لے اوراپنی تخلیق روانہ کردے۔
میں ناشادسے جب بھی ملاہوں--------اس نے ہربارایک ہی بات کہی”کام کرو---------بس کام۔لوگ کیاکہتے ہیں،کیاسوچتے ہیں، اس پردھیا ن نہ دو۔“
میں ہربارسوچتاہوں اب اس کی”نصیحت“پلوسے باندھ لوں گا---------مگرہربارچھوٹ جاتی ہے۔وہ فطرتاًجوڑنے والاہے توڑنے والا نہیں۔ میں نے اکثراوقات مشاہدہ کیاجب کوئی دوست کسی دوسرے دوست کاگراں طبعی سے تذکرہ کرتاہے توناشادبے ساختہ اپناہاتھ مدمقابل کے ہاتھ پرمارتاہواکہتاہے”باواجی ہو ر سُنا وٴ ! “ --------------اوراس ہورسناوٴکامطلب ہوتاہے بک بک بندکرواور کام کی بات کرو۔
سچ کہوں توڈاکٹرارشدمحمودناشاداٹک کا”دُرّ---------ویش“ہے۔ہمہ وقت لفظوں کے موتی لٹانے کے درپے ہوتاہے۔چاہتاہے کوئی ان خزانوں سے فیض یاب ہوجواس نے ذرّہ ذرّہ اپنی پوروں سے چن کراکٹھے کیے ہیں ۔چاہتاہے کوئی اس کے ناخنوں میں پڑے ہوئے وقتوں سے لطف اٹھائے۔ چاہتا ہے کوئی اس کی آنکھوں سے ان جہانوں کی وہ سیردیکھے جواس نے دیکھی۔چاہتاہے کہ کسی اورکے حیطہ ء خیال میں بھی وہ منظرجاگیں جواس کے ہاں متحرک ہیں------------اوروہ بھی اس عمرمیں جب سب کچھ اپنے ہاں جمع رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
میں سمجھتاہوں ایسے لوگ کم کم ملتے ہیں۔میری مٹی خوش نصیب ہے کہ وہ ارشد محمودناشادجننے کے قابل ہوئی- میرے لوگ ثروت مندہیں کہ ناشادان میں موجودہے---------------اورمیں کیاکم قسمت کادھنی ہوں کہ ناشادمجھے اپنے دوستوں میں شمارکرتاہے۔


(خاورچودھری)

30 ستمبر2007 شب ساڑھے تین بجے
(ڈاکٹر ارشدمحمود ناشاد نے اردو میں پی ایچ ڈی کی اور ان دنوں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں اردو کے استاد ہیں)
 
Top