دو غزلوں کو تجزیہ درکار

کشفی ملتانی کی مشہور غزل "شور ہے ہر طرف سحاب سحاب" اور داؤد اورنگ آبادی کی غزل "مست ہوں مست ہوں خراب خراب" دونوں ایک ہی زمین میں ہیں۔ دونوں کے مطلع کا ثانی بھی ایک ہی ہے، یعنی "ساقیا ساقیا شراب شراب"۔ ظاہرا دونوں غزلوں میں بدیعی صنعت بھی ایک سی ہی معلوم ہوتی ہے۔ البتہ داؤد اورنگ آبادی کے ہاں صنعت کا حسن زیادہ ہے، یعنی تکرار حسین۔
ان دو غزلوں کی صنایع بدایع پر مزید تبصرے کا خواہاں ہوں، نیز یہ کہ کوئی کرم فرما وضاحت کرے کہ ان میں سے کس نے کس کی زمین پر غزل کہی ہے!
کشفی ملتانی کی غزل

شور ہے ہر طرف سحاب سحاب
ساقیا ساقیا! شراب شراب

آب حیواں کو مے سے کیا نسبت
پانی پانی ہے اور شراب شراب

رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب

اک وہی مست با خبر نکلا
جس کو کہتے تھے سب خراب خراب

مجھ سے وجہ گناہ جب پوچھی
سر جھکا کے کہا شباب شباب

جام گرنے لگا تو بہکا شیخ
تھامنا تھامنا کتاب کتاب

کب وہ آتا ہے سامنے کشفیؔ
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب

اور داؤد اورنگ آبادی کی غزل

مست ہوں مست ہوں خراب خراب
ساقیا ساقیا شراب شراب

آتش عشق سوں تری جل جل
دل ہوا دل ہوا کباب کباب

دور مکھ سوں عرق نہ کر گل رو
دے مجھے دے مجھے گلاب گلاب

کہہ اپس چشم با حیا کوں صنم
رفع کر رفع کر حجاب حجاب

دیکھ چھپتا ہے ابر میں خورشید
دور کر دور کر نقاب نقاب

منتظر دل ہے یار کے خط کا
قاصد آ قاصد آ شتاب شتاب

شیوۂ گل رخاں ہے اے داؤدؔ
غمزہ و غمزہ و عتاب عتاب
 
اسی صنعت میں ایک مزید غزل ملاحظہ ہو حسرت عظیم آبادی کی:
کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل
ایک دم اے غنچہ لب ہم سے کبھی تو کھل کے کھل

بے سرو برگوں کو کیا نسبت ہے سیر باغ سے
داغ دل ہیں ہم تہی دستان پا در گل کے گل

اس کی جنگ بے سبب کا ہے تغافل ہی علاج
آپ ڈھیلا ہو کے آوے گا ادھر ڈھل ڈھل کے ڈھل

زیر ابرو اس طرح مژگاں نہیں رہتی مدام
سر پہ میرے جوں رہے ہے تیغ اس قاتل کی تل

ربط کچھ بزم مشائخ سے نہیں رندوں کے تئیں
کب لئے یہ مست ساغر کے سوا قلقل کی قل

ہو سکے تو بخیہ و مرہم کا یارو وقت ہے
جاں نہ جاوے اس تن مجروح میں گھائل کے گھل

با قد خم گشتہ ہوں رونے سے نت کے میں خراب
موج دریا توڑتے ہیں جس طرح پل پل کے پل

چلے کی مانند کھینچوں جب تلک بر میں نہ تنگ
کب مٹے ہے اس بت ہرجائی چنچل کی چل

دور میں اس زلف کے ہے بس کہ دیوانوں کی دھوم
سنتا ہوں چاروں طرف سے میں صدائے غل کے غل

حسرتؔ اس کے دام میں پھنسنا مقدر تھا مرا
تھے مری نظروں میں تو پیچ و خم اس کاکل کے کل​
 
سر یہ شاعری میں کسی چیز کو کہتے ہیں جیسے قافیہ ردیف ہوتے ہیں ایسے ہی یہ کچھ ہے مجھے بھول گیا ہے ۔۔۔اسی لیے پوچھا تھا۔۔۔سر الف عین کو ٹیگ کریں و ہ بتائیں گے
اصطلاح میں تو نہیں البتہ شاعری میں ابرو کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ملتا ہے!
 

محمد وارث

لائبریرین
غزل کی زبان سے صاف ظاہر ہے کہ داؤد اورنگ آبادی کی غزل بہت پہلے کی ہے لیکن کشفی ملتانی کی غزل زیادہ اچھی لگی :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اصطلاح میں تو نہیں البتہ شاعری میں ابرو کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ملتا ہے!
استعارے کی کیا حاجت حاجب تو ہے ہی ابرو۔معروف عربی ضرب المثل ہے ۔ کہ ۔العين ما تعلى على الحاجب۔آنکھ(کبھی ) بَھووں سے اونچی نہیں ہو تی۔
اورنگ آبادی کی غزل میں تکرار کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے ا س سے غزل کے ہر شعر میں مطلع کی سی شان پیدا ہو گئی ہے باوجود اس کے کہ بیانیہ قید ہوا لیکن اس مہارت سے کہ تکلف بھی محسوس نہیں ہو ا،زبان بھی خوب کلاسیکی ہے۔
البتہ ملتانی صاحب کی بھی یقیناََ خوب ہے۔
 
Top