دوحہ قطر کے مجلے دستاویز کا ’’اردو کی اہم آپ بیتیاں نمبر‘‘-فروری 2016

راشد اشرف

محفلین
دوحہ قطر کے مجلے دستاویز کا ’’اردو کی اہم آپ بیتیاں نمبر‘‘-فروری 2016
راشد اشرف،کراچی


جناب عزیز نبیل کی زیر ادارت دوحہ قطر کے ادبی مجلے دستاویز کا’’ اردو کی اہم آپ بیتیاں نمبر‘‘ شائع ہوگیا ہے۔ دستاویز کا پہلا شمارہ 2011 ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں سالانہ بنیادوں پر شائع ہونے والے اس جریدے نے ’’ اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد‘‘ نمبر اور ’’اردو کے اہم غیر مسلم شعراء و ادباء ‘‘نمبر شائع کیے۔ دستاویز کا ہر شمارہ لگ بھگ 700 صفحات پر مشتمل ہوتا ہے اور تازہ شمارے ( جو دستاویز کا چوتھا شمارہ ہے) میں بھی تعداد صفحات کی یہی روایت قائم رکھی گئی ہے۔

عزیز نبیل اپنے اداریے میں لکھتے ہیں :

’’تصور اور تخلیق کے درمیان وہی فرق ہوتا ہے جو خواب اور تعمیر کے درمیان ہے یا جو سوچنے اور عمل کرنے میں ہے۔ دستاویز کی ٹیم جو سال بہ سال نت نئے موضوعات پر اپنے کتابی سلسلے کو تخلیق کرتی ہے، پہلے نت نئے موضوعات کو تصور کرتی ہے، خاکہ ترتیب دیتی ہے، لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے اور پھر دستاویزی سلسلے تخلیق پاتے ہیں۔ بے شمار تمنائیں، امیدیں اور خواب ...یہی وہ ضروری عناصر ہیں جن کے متعین کردہ خاکے اور نقشے کے مطابق دستاویزی سلسلوں کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ ‘‘

راقم الحروف جو اس منصوبے کے مختلف صبر ٓازما مراحل میں شامل رہا ہے، یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ مدیر دستاویز کا متذکرہ بالا بیان صد فیصد درست ہے۔

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ نقوش کے آپ بیتی نمبر(1964 ء) اور اسی کی دہائی میں شائع ہوئے صابر دت مرحوم کے فن اور شخصیت کے اہم نمبروں کے بعد اردو کی اس اہم ترین صف ادب میں کوئی قابل ذکر کام ہوا ہی نہیں تھا۔ دستاویز کے کتابی سلسلے کا یہ تازہ شمارہ یقیناًاس کمی کو کسی حد تک ضرور پورا کرے گا۔
بقول قدرت اللہ شہزاد (مولف: آپ بیتیوں کے توانا لہجے) : ’’آپ بیتی نام ہے واقعات کے مجموعے کا، واقعات جس قدر اہم اور انوکھے ہوں گے، آپ بیتی اس قدر قابل مطالعہ ہوگی۔ نیز حسن بیان آپ بیتی کو چار چاند لگا دیتا ہے اور یوں توانا لہجے پر ان کا اصرار بھی حسن بیان کی ایک صنف میں نظر آتا ہے۔‘‘

دستاویز کے تازہ شمارے میں مختلف آپ بیتیوں سے ایک بھرپور انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے۔ واقعات اہم بھی ہیں اور انوکھے بھی۔ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ قاری کے لیے اس میں دلچسپی کا سامان موجود ہو۔

مذکورہ شمارے میں مختلف شخصیات سے مختصر آپ بیتیاں بھی لکھوائی گئی ہیں۔ نقوش کے محمد طفیل کہتے ہیں کہ ’’ مختصرلفظو ں میں آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو ۔جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔ اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ
جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں اسے پرکھ سکیں‘‘۔


ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ادیب نے جو بیرون ملک مقیم ہیں، راقم کی درخواست پر اپنی زیر تحریر خودنوشت کا ایک باب ارسال کیا۔ اسے پڑھ کر پیشانی بھیگ گئی، چھکے چھوٹ گئے۔ مدیر دستاویز اور ان کے پرچے کی ضمانت ضبط ہوتی نظر آنے لگی۔ نقوش کے طفیل صاحب کی اوپر درج تعریف میں نہاں خانوں کے پردوں کی بات کی گئی ہے، مذکورہ باب کو پڑھ کر یہ بات سامنے آئی کہ لکھنے والے نے ہر طرح کے پردے اٹھا دیے بلکہ ان میں سے بعضوں کو تو تہس نہس کرڈالا ہے۔ لہذا باب مذکورہ کو چوم کر ایک طرف رکھ دیا۔ شنید ہے کہ جلد ہی یہ کتابی شکل میں آئے گی اور یار لوگ چھپ چھپ کر پڑھیں گے۔

دستاویز کے اردو کی اہم آپ بیتیاں‘‘ نمبر میں شامل مختصر آپ بیتیاں کس حد تک محمد طفیل کے مذکورہ بالا بیان کی صداقت سے میل کھاتی ہیں، اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑنا بہتر ہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ لکھنے والوں نے اپنے ناموں کی لاج رکھی ہے ، کھل کر لکھا ہے اورامید ہے کہ قاری ان میں کئی دلچسپیوں کو اپنا منتظر پائے گا۔

دستاویز کے تازہ شمارے ’’ اردو کی اہم آپ بیتیاں نمبر‘‘ کا پہلا حصہ نقد و نظر کے نام سے ہے۔ اس حصے میں خودنوشت آپ بیتیوں سے متعلق مضامین شامل ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

اردو کی اولین خودنوشت سوانح عمریاں ڈاکٹر معین الدین عقیل
خودنوشت: حدود، امکانات اور جائزے ہمایوں اشرف
اردو میں فن سوانح نگاری احمر رفاعی
اردو کی خودنوشت سوانح عمریاں ضیاء ندیم
تاریخ، سوانح اور خودنوشت کے لوازمات و امتیازات صفدر رانا
اردو میں خواتین کی خودنوشتوں کا سرسری جائزہ ڈاکٹر پرویز پروازی
اردو کی خودنوشتوں پر تحقیقی کام راشد اشرف

دستاویز کا دوسرا حصہ ’’ اہم خونوشتوں کے تعارف و انتخاب‘‘ پر مبنی ہے ۔مذکورہ حصے میں مختلف تجزئیہ نگاروں کے کئی اہم آپ بیتیوں کے تعارف شامل کیے گئے ہیں جن میں خواجہ حسن نظامی، سر علی رضا، مولوی عبدالرزاق، حسرت موہانی، ملا واحدی دہلوی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، جوش، رشید احمد صدیقی، احسان دانش، عابد سہیل، شہاب الدین دسنوی، کلیم عاجز، انتظار حسین، سید محمد عقیل، ڈاکٹر اعجاز حسین، مشتاق یوسفی، ملک زادہ منظور، ادا جعفری، زبیر رضوی، یونس احمر، مزرا ادیب، آل احمد سرور، رام لعل، اے حمید، وزیر آغا، قدرت اللہ شہاب، اختر الایمان، اختر حسین رائے پوری، فیض احمد فیض اور عصمت چغتائی شامل ہیں۔ یہ تما م لکھنے و الے شاعر اور ادیب ہیں جن کی آپ بیتیوں سے منتخب کردہ اقتباسات میں جذبات اور افکار کا تخلیقی اظہار پایا جاتا ہے۔

تیسرے حصے میں سوانحی مضامین شامل کیے گئے ہیں اور اس سلسلے میں کئی اہم شخصیات سے یا تو لکھوایا گیا ہے یا پھر ایسی آپ بیتیوں سے انتخاب کیا گیا ہے جو رسائل و جرائد میں شائع ہوئیں اور کتابی شکل میں ترتیب نہ پاسکیں۔ تفصیل یہ ہے:

تھا میں گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ گوپی چند نارنگ
اوائل عمری کی کہانی ظ انصاری
بیت گئی ہے جیسی بیتی سلمی صدیقی
یادوں کے چراغ اختر انصاری
مکر چاندنی احمد ہمیش
اپنے بارے میں جاوید اختر
میری کہانی خورشید رضوی، لاہور
سب رنگ کی داستان شکیل عادل زادہ، کراچی
میری داستان سید عبداللہ شاہ
ان آنکھوں نے کیا کیا نظارہ دیکھا آصف جیلانی، لندن
سرگزشت اپنی جو لکھیئے تو قلم رکتا ہے سید انیس شاہ جیلانی، صادق آباد، پاکستان
رو میں ہے رخش عمر مظفر حنفی
عمر رفتہ خالد محمود، دہلی
تہذیب سے تعلیم تک علی احمد فاطمی، الہ آباد
آپ بیتی محمد حمزہ فاروقی، کراچی
میرے گزشہ شب و روز ڈاکٹر یونس حسنی، کراچی
ایک آبلہ پا وادی پرخار میں آوے سہیل انجم، دہلی

دستاویز کے آخری حصے میں راقم الحروف کا مرتب کردہ پاک و بھارت کی خودنوشتوں کا ایک اشاریہ بھی شامل ہے۔

عزیز نبیل نے گزشتہ شمارے میں اپنے اداریے میں کہا تھا: ’’ہم نے گزشتہ شمارے میں وعدہ کیا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہر شمارہ ایک مختلف دستاویز ہو، اپنی مثال آپ ہو، ہم اپنی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہو سکے ہیں، یہ فیصلہ اب آپ کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔

یقیناً یہی الفاظ تازہ شمارے کے سلسلے میں بھی کارآمد ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی راقم الحروف اپنا وہ بیان بھی دوہرانا چاہے گا جو اس نے گزشتہ شمارے کی اشاعت کے موقع پر دیا تھا:

"مدیر محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ ایک ایسے ملک (قطر) میں قیام پذیر ہیں جہاں اردو زبان کا مستقبل کچھ غیریقینی سا ہے، اردو زبان سے محبت اور وابستگی و پابستگی کی تمام منزلیں تو آپ طے کرگئے ہیں، گمان ہے کہ اس دوران شاید آپ اور آپ کے آشفتہ سر رفقاء نے اردو کی محبت میں ’وہ قرض بھی اتار ڈالے ہوں جو واجب بھی نہیں تھے‘۔۔۔۔ لیکن اس کے عوض جو ’دام‘ آپ کو اردو سے محبت کرنے والے قاری کی جانب سے ملیں گے، ان کا کوئی مول ہوگا نہیں۔۔۔۔فیصلہ تو کب کا ہوچکا، راقم کے یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ شاید پہلا رد عمل کہلائیں کہ پرچے کی ابتدائی تفصیل کل ہی موصول ہوئی ہے، دنیا بھر سے ستائش کا آنا باقی ہے، خلوص نیت پر قبولیت کی مہر ثبت ہوتی ابھی سے نظر آرہی ہے۔‘‘

دستاویز کی اشاعتی تفصیلات:
تعداد صفحات: 688، بڑے سائز میں
قیمت: پاکستان میں اس کی قیمت 800 سے 1000 روپے کے درمیان ہوگی جس میں ڈاک خرچ شامل ہوگا۔

پاکستان میں بیس سے پچیس روز تک یہ جریدہ پہنچے گا اور ذیل کے پتوں پر دستیاب ہوگا۔

پاکستان میں:
اول: ہاؤس آف نالج، چوک علامہ اقبال، ریلوے روڈ، سیال کوٹ
دوم: راشد اشرف، کراچی
برقی پتہ: ان باکس میں رابطہ کیجیے

انڈیا میں دستیابی:
اول:سیکنڈ فلور، IAAN HOUSE، بھرت نگر، نیو فرینڈز کالونی، نیو دہلی
دوم: آئیڈیل فاؤنڈیشن، ایف 205، نشیمن کالونی، کوسہ، ممبرا، تھانے، مہاراشٹر
سوم: گل بو ٹے پبلی کیشنز، کے ڈی شاپنگ سینٹر، 28۔گراؤنڈ فلور، ناگ پاڑہ جنکشن، ممبئی

رابطہ نمبر مدیر دستاویز: + 974 55296335
برقی پتہ مدیر دستاویز : ان باکس میں رابطہ کیجیے
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
بہت شکریہ
زندہ کتابیں کے تحت شائع ہوئے اس نمبر میں علی سفیان آفاقی مرحوم کی آپ بیتی خصوصی طور پر شامل کی گئی ہے۔
دستاویز کا آپ بیتی نمبر 892 صفحات پر مشتمل ہے
 
آخری تدوین:
Top