دنیا سے کوئی ہو گیا بے زار تو کیا ہے ۔۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دنیا سے کوئی ہو گیا بے زار تو کیا ہے
اک شخص اگر ہے ترا بیمار تو کیا ہے
چل آج ہی مر جائیں کہ مرنا تو ہے اک دن
سر پر ہے لٹکتی ہوئی تلوار تو کیا ہے
دیوانے تو دیوانے ہیں بے خود ہی رہیں گے
اب راہ میں ہے آپ کا دربار تو کیا ہے
یہ عشق ہے کچھ آپ بتا دیجئے ان کو
لوگوں کو وضاحت ہے جو درکار تو کیا ہے
سچ بول رہے ہیں تو خدارا نہ جھجکیے
دنیا ہے اگر آپ سے بے زار تو کیا ہے
کم کب ہے جو مل جائے وہ خوشبو ہی گلی سے
ہوتا ہی نہیں آپ کا دیدار تو کیا ہے
اک راہ جو چن لی ہے تو ہم اس پہ چلیں گے
آساں ہے تو کیا ہے جو ہے دشوار تو کیا ہے
آنکھوں سے ہی کہہ دیں گے جو کہنا ہے ضروری
کھلتے ہی نہیں اب لبِ گفتار تو کیا ہے
ہے چاہنے والوں کو سمجھنے کا سلیقہ
کمزور ہے گر قوتِ اظہار تو کیا ہے
اب آپ ہی جیتے ہیں یہی جیت ہماری
ہم ہار کے نکلے ہیں جو ہر بار تو کیا ہے
 

عاطف ملک

محفلین
دنیا سے کوئی ہو گیا بے زار تو کیا ہے
اک شخص اگر ہے ترا بیمار تو کیا ہے
چل آج ہی مر جائیں کہ مرنا تو ہے اک دن
سر پر ہے لٹکتی ہوئی تلوار تو کیا ہے
واہ۔۔۔۔۔۔بہت خوب شاہد بھائی!
اک راہ جو چن لی ہے تو ہم اس پہ چلیں گے
آساں ہے تو کیا ہے جو ہے دشوار تو کیا ہے
لاجواب!
کم کب ہے جو مل جائے وہ خوشبو ہی گلی سے
ہوتا ہی نہیں آپ کا دیدار تو کیا ہے

سچ بول رہے ہیں تو خدارا نہ جھجکیے
دنیا ہے اگر آپ سے بے زار تو کیا ہے
میری رائے یہ ہے کہ ان اشعار میں تھوڑا سی چاشنی کم ہے جو معمولی سی توجہ سے بڑھ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ردیف "تو کیا ہے" کی وجہ سے میرے خیال میں سبھی اشعار میں شرطیہ رنگ ہونا چاہیے۔
ذاتی رائے ہے۔اگر مناسب لگے تو اس پر غور کیجیے گا۔
غزل بلاشبہ بہت خوب ہے اور طویل غیر حاضری کے بعد آپ نے دھماکہ خیز انٹری دی ہے۔
بہت سی داد قبول کیجیے :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت شکریہ عاطف ملک صاحب!
آپ کے تاثرات جان کر حوصلہ افزائی ہوئی۔۔۔
غزل میں شرطیہ رنگ لانے کی مزید کوشش سے بہتر کیا یہ نہ ہوگا کہ ہم کمزور اشعار حذف کردیتے ہیں۔۔
ایک بار پھر شکریہ ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اکثر جگہ ردیف کا صیغہ درست نہیں۔ کہیں ’تو کیا ہوا‘ درست لگ رہا ہے، تو کہیں محض ’تو کیا؟‘

دنیا سے کوئی ہو گیا بے زار تو کیا ہے
اک شخص اگر ہے ترا بیمار تو کیا ہے
÷÷÷ کچھ دو لختی محسوس ہوتی ہے۔

چل آج ہی مر جائیں کہ مرنا تو ہے اک دن
سر پر ہے لٹکتی ہوئی تلوار تو کیا ہے
÷÷÷پہلے مصرع میں ’چل‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ ردیف بھی معنی خیز نہیں

دیوانے تو دیوانے ہیں بے خود ہی رہیں گے
اب راہ میں ہے آپ کا دربار تو کیا ہے
÷÷÷کمزور شعر ہے۔ ردیف فٹ نہیں لگ رہی۔

یہ عشق ہے کچھ آپ بتا دیجئے ان کو
لوگوں کو وضاحت ہے جو درکار تو کیا ہے
÷÷÷ایضإً
بعد کے اشعار تقریباً سبھی درست لگے مجھے۔
 
استادِ محترم کی اصلاح کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجائش تو نہیں بچی لیکن چونکہ یہ غزل میں نے آف لائن اصلاح کے لئے کاپی کر لی تھی، اب اتنی محنت کی ہے تو پیش بھی کر دیتا ہوں، استادِ محترم کی اجازت سے۔
دنیا سے کوئی ہو گیا بے زار تو کیا ہے
اک شخص اگر ہے ترا بیمار تو کیا ہے
بیمارِ عشق کے دنیا سے بیزار ہونے کی بجائے دنیا کا اس شخص سے بیزار ہونا بہتر لگتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیار کرنے والے دنیا کی بیزاری کی پرواہ نہیں کرتے۔
میں ہوں جو ترے عشق کا بیمار تو کیا ہے
دنیا ہے مرے درد سے بیزار تو کیا ہے
چل آج ہی مر جائیں کہ مرنا تو ہے اک دن
سر پر ہے لٹکتی ہوئی تلوار تو کیا ہے
مایوسی کی بجائے جینے کی ترغیب دینی چاہیئے۔

اور بات بھی عجیب لگ رہی ہے کہ ایک طرف تو موت کی لٹکتی ہوئی تلوار کی پرواہ نہیں کی جارہی اور دوسری طرف مرنے کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے۔
ہے موت تعاقب میں تو کیا چھوڑ دیں جینا
سر پر ہے لٹکتی ہوئے تلوار تو کیا ہے



دیوانے تو دیوانے ہیں بے خود ہی رہیں گے
اب راہ میں ہے آپ کا دربار تو کیا ہے
پہلے مصرعہ میں روانی کا فقدان ہے۔ بدل کر مقطع بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ہم اہلِ وفا سر کو جھکاتے نہیں شاہد
حاکم کا ہے گر سامنے دربار تو کیا ہے


یہ عشق ہے کچھ آپ بتا دیجئے ان کو
لوگوں کو وضاحت ہے جو درکار تو کیا ہے
پہلے مصرعہ میں وضاحت کرنے کا کہا جا رہا ہے جبکہ دوسرے مصرعہ کا مطلب ہے کہ لوگوں کو وضاحت درکار ہے تو ہوتی رہےدو مختلف باتیں نہیں ہو جاتیں؟
کیوں ترکِ تعلق کا سبب سب کو بتائیں
لوگوں کو وضاحت ہے جو درکار تو کیا ہے


سچ بول رہے ہیں تو خدارا نہ جھجکیے
دنیا ہے اگر آپ سے بے زار تو کیا ہے
پہلا مصرعہ وزن میں نہیں، دوبارہ کوشش کریں۔

کم کب ہے جو مل جائے وہ خوشبو ہی گلی سے
ہوتا ہی نہیں آپ کا دیدار تو کیا ہے
پہلا مصرعہ روانی کا متقاضی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں "ہی" کی بجائے "جو" ہونا چاہیئے، یوں بھی کیا جا سکتا ہے، یا کچھ اور۔
کافی ہے ہمیں آپ کی خوشبو کا سہارا
ہوتا جو نہیں آپ کا دیدار تو کیا ہے


اک راہ جو چن لی ہے تو ہم اس پہ چلیں گے
آساں ہے تو کیا ہے جو ہے دشوار تو کیا ہے
درست


آنکھوں سے ہی کہہ دیں گے جو کہنا ہے ضروری
کھلتے ہی نہیں اب لبِ گفتار تو کیا ہے
دوسرے مصرعے میں "اب" اضافی لگ رہا ہے، "اب" کی جگہ "ہیں" بھی کیا جا سکتا ہے، یا مصرعہ بدل کر دیکھیں۔

ہے چاہنے والوں کو سمجھنے کا سلیقہ
کمزور ہے گر قوتِ اظہار تو کیا ہے
ماشاءاللہ خیال اچھا ہے۔ ابلاغ میں بہتری کی گنجائش ہے۔

اب آپ ہی جیتے ہیں یہی جیت ہماری
ہم ہار کے نکلے ہیں جو ہر بار تو کیا ہے
پہلا مصرعہ کمزور ہے "جیت ہماری" کے ساتھ "ہے" ہوتا تو بھلا ہوتا۔ یوں کر لیں یا کچھ اور کوشش کریں۔
جیتے ہیں کئی لوگ ہمارے ہی سبب سے
ہم ہار کے نکلے ہیں جو ہر بار تو کیا ہے

 

شاہد شاہنواز

لائبریرین


دنیا سے کوئی ہو گیا بے زار تو کیا ہے​
اک شخص اگر ہے ترا بیمار تو کیا ہے​

سچ بول رہے ہیں تو خدارا نہ جھجکیے​
دنیا ہے اگر آپ سے بے زار تو کیا ہے​

کم کب ہے جو مل جائے وہ خوشبو ہی گلی سے​
ہوتا ہی نہیں آپ کا دیدار تو کیا ہے​

اک راہ جو چن لی ہے تو ہم اس پہ چلیں گے​
آساں ہے تو کیا ہے جو ہے دشوار تو کیا ہے​

آنکھوں سے ہی کہہ دیں گے جو کہنا ہے ضروری​
کھلتے ہی نہیں اب لبِ گفتار تو کیا ہے​

ہے چاہنے والوں کو سمجھنے کا سلیقہ​
کمزور ہے گر قوتِ اظہار تو کیا ہے​

اب آپ ہی جیتے ہیں یہی جیت ہماری​
ہم ہار کے نکلے ہیں جو ہر بار تو کیا ہے

۔۔۔ فی الحال یہی حاصل سمجھ میں آیا ہے۔۔۔​
پہلے شعر میں دولختی کے باوجود رکھ لیا ہے۔۔۔
باقی حذف کردئیے۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
استادِ محترم کی اصلاح کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجائش تو نہیں بچی لیکن چونکہ یہ غزل میں نے آف لائن اصلاح کے لئے کاپی کر لی تھی، اب اتنی محنت کی ہے تو پیش بھی کر دیتا ہوں، استادِ محترم کی اجازت سے۔
ماشاء اللہ ۔۔آپ نے بہت اہمیت دی اور بہت خوب لکھا۔۔۔ میری غزل بھی طویل تھی اور آپ کو محنت بھی بہت کرنا پڑی۔
اس توجہ کے لیے بے حد شکریہ ۔۔۔
 
Top