دل

تیشہ

محفلین
hhhh222.jpg




dil5.gif



hearts1234.jpg


heartsSky.jpg
 

تیشہ

محفلین
یہ دل ، یہ پاگل دل میرا کیوں بجھُ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا !
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی

لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جیئں ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی !

یہ درد کی تنہائیاں ،یہ دشت کا ویران سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی

اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا
اس سمت لہروں کی دھمک ،کچا گھڑا ، آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی ۔

(محسن نقوی )،
 

تیشہ

محفلین
دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نہ گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم کوئی نشتر ہو

ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندر ماہ
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیونکر ہو

اب حسن کا رتبہُ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہو
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو

جس چیز سے تجھکو نسبت ہے جس چیز کی تجھکو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

اب انشاء جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن رات برابر ہو

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اس سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دُکھ کا سورج سر پر ہو ،
 

تیشہ

محفلین
حسنُ ِ فطرت نے مجھ پہ جادو کیا ، دل وہیں رہ گیا
پھول، کہسار، جنگل، ستارے، ہوا، دل وہیں رہ گیا

تم مجھے ساتھ لے آئے اچھا کیا، پر تمھیں کیا پتہ
میرے محسن مرے یار درد آشنا دل وہیں رہ گیا

یوں ہوا جیسے بجلی سی چمکی وہاں اور کیا ہو بیاں
آنکھ کھلتے ہی دیکھا سب ٹھیک تھا ، دل وہیں رہ گیا

میں خداؤں کی بستی میں محبوس تھا، ذہن مفلوج تھا
جس جگہ کوئی انساں مجھکو ملا، دل وہیں رہ گیا

خرمن ِجاں پہ جب برق وحشت گری تب کسے ہوش تھا
جسم کو خیر میں نے سنبھالا دیا ،دل وہیں رہ گیا

اس نے خالد مجھے آج اپنا کہا، کیسے ممکن ہوا
گھر تو آگیا سوچتا سوچتا ، دل وہیں رہ گیا

11111.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
 

تیشہ

محفلین
لہو دل کا جلاؤ تم محبت سانس لیتی ہے
غزل تازہ سناؤ تم محبت سانس لیتی ہے


مجھے اشعار کی صورت کئی الہام ہونے ہیں
کبھی خوابوں میں آؤ تم محبت سانس لیتی ہے

بدن میں رُوح کی مانند تری انمول سوچوں میں
مجھے دل سے بتاؤ تم محبت سانس لیتی ہے

ہوا کی حکمرانی ہے ابھی شبنم ہے پھولوں پر
پرندو چہچہاؤ تم محبت سانس لیتی ہے




grek.jpg
 

تیشہ

محفلین
جب بھی دل اکیلا ہو ، دل میں تم مہکتے ہو
ہر سوُ غم کا میلہ ہو ، دل میں تم مہکتے ہو

کب پریشاں ہوتا ہوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ؟
زخم جتنا گہرا ہو، دل میں تم مہکتے ہو

کیسی کیسی خوشبوئیں مجھکو تھام لیتی ہیں
چاند جب نکلتا ہو، دل میں تم مہکتے ہو

ساز جاں کے پردوں سے اک صدا سی آتی ہے
جیسے کوئی کہتا ہو ''دل میں تم مہکتے ہو ''

ایک ہی عبارت کو دیکھتا ہوں خوابوں میں
جیسے ہر سوُ لکھا ہو ،دل میں تم مہکتے ہو
 

تیشہ

محفلین
دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں

چوب ِغم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھُ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں

کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ نہ کہیں اور سسکتے جاویں

ہم نوا سنج ِمحبت ہیں ہر اک رُت میں فراز
وہ قفس ہو کہ گلستان ہو ، چہکتے جاویں ،
 

تیشہ

محفلین
آج تھوڑی سی دل لگی کرلیں
ہم بھی ساجن سے بے رخی کرلیں

ہم ستائیں اُسے اُسی کی طرح
اُس کے دشمن سے دوستی کرلیں
،
 

تیشہ

محفلین
زیست آوارہ سہی ،زلف ِپریشاں کی طرح
دل بھی اب ٹوٹ چکا ہے تیرے پیماں کی طرح

تو بہاروں کی طرح مجھ سے گریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دل و جاں کی طرح

زندگی تیری تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابر ِگریزاں کی طرح

اس کی قربتوں میں گزارے ہوئے لمحوں کا خیال
اب بھی پیوست ہے دل ِ میں کسی پیکاں کی طرح

اسکی آنکھوں میں بھی روشن ہیں تمنا کے چراغ
اسکا دامن بھی ہے اب میرے گریباں کی طرح

اب کسی جان ِ تمنا کو بھلا کیا معلوم
دل سلگتا ہے چراغ تہہ ِداماں کی طرح ۔ ۔، ،،
 

تیشہ

محفلین
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو ،
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنالیں تم کو

پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھوں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تمکو

جیسے بالوں میں کوئی پھول چناُ کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجالیں تمکو

کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کرکے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تمکو

اسقدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تمکو
 

زھرا علوی

محفلین
میری نظر میں اس سے بڑا حادثہ نہیں
وہ شہر میں ہے اور کوئی رابطہ نہیں
ملتے بچھڑ کے روز سفیران اہل دل
ترک تعلقات کوئی سلسلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسنین محسن
 

تیشہ

محفلین
سلیقہ عشق میں میرا، بڑے کمال کا تھا
کہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا

میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سے
وہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا

رفو میں کرتی رہی پیرہن کو اور اُدھر
گماں اسے مرے زخموں کے اندمال کا تھا

یہ اور بات کہ اب چشم پوش ہوجائے
کبھی تو علم اسے بھی ہمارے حال کا تھا

محبتوں میں ، میں قائل تھی لب نہ کھلنے کی
جواب ورنہ میرے پاس ہر سوال کا تھا

درخت جڑ سے اکھڑنے کا موسموں میں بھی
ہوا کا پیار شجر سے عجیب کمال کا تھا،
 
Top