دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
سرآغاز

شاید کبھی افشا ہو،نگاہوں پہ تمہاری
ہر سادہ ورق، جس سخنِ کُشتہ سے خوں ہے

شاید کبھی اُس گیت کا پرچم ہو سرافراز
جو آمدِ صرصر کی تمنا میں نگوں ہے

شاید کبھی اُس دل کی کوئی رگ تمہیں چُبھ جائے
جو سنگِ سرِراہ کی مانند زبوں ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
تقریر

فیض صاحب کی تقریر جو انہوں نے ماسکو میں بین الاقوامی لینن امن انعام کی پر شکوہ تقریب کے موقع پر اردو زبان میں کی:

محترم اراکینِ مجلسِ صدارت ، خواتین اور حضرات!

الفاظ کی تخلیق وترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے۔لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے_____آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آرہے ، جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی،سوویٹ یونین کے مختلف اداروں ،دوستوں اور سب خواتین اورحضرات کا شکریہ خاطر خواہ طور سے ادا کرسکوں۔لینن امن انعام کی عظمت تو اسی ایک بات سے واضح ہے کہ اس سے لینن کا محترم نام اور مقدس لفظ وابستہ ہے۔لینن جو دور حاضر میں انسانی حریت کا سب سے بزرگ علم بردار ہے اور امن جو انسانی زندگی اور اس زندگی کے حسن وخوبی کی شرطِ اول ہے۔مجھے اپنی تحریر وعمل میں ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا جس اس عظیم اعزاز کے شایان شان ہو۔لیکن اس عزت بخشی کی ایک وجہ ضرور ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس تمنا اور آدرش کے ساتھ مجھے اور میرے ساتھیوں کو وابستگی رہی ہے یعنی امن اور آزادی کی تمنا وہ بجائے خود اتنی عظیم ہے کہ اس واسطے سے ان کے حقیر اور ادنیٰ کارکن بھی عزت اوراکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

یوں تو ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور سبھی تصور کرسکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت،دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ،شاعر کا قلم ہے اور مصور کاموئے قلم اورآزادی ان سب صفات کی ضامن اورغلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اورحیوان میں تمیز کرتی ہے۔یعنی شعور اورذہانت ،انصاف اور صداقت،وقار اورشجاعت،نیکی اور رواداری____اس لئے بظاہر امن اورآزادی اورکے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے کہ انسانیت کی ابتدارء سے اب تک ہر عہداور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِعمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں ،تخریب وتعمیر،ترقی اور زوال،روشنی اور تیرگی،انصا ف دوستی کی قوتیں۔یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے۔دورِ حاضر میں جنگ سے دوقبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے۔نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں امنِ آدم کی بقااور فنا۔بقااورفنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔انہیں پرانسانوں کی سرزمین کی آبادی اوربربادی کا انحصار ہے۔یہ پہلا فرق ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اوربرادری کی ضرورتیں پوری طرح تسکین پاسکتیں۔اس لئے آپس میں چھین جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود ہے۔لیکن اب یہ صورت حال نہیں ہے۔انسانی عقل ، سائنس اورصنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھرسکتی ہیں۔بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن،بعض اجارہ داروں اورمخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لئے نہیں،بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیں۔اورعقل اورسائنس اورصنعت کی کل ایجادیں اورصلاحتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں۔لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اورانسانی معاشرے کے ڈھانچے کی بنائیں ہوسِ ،استحصال اوراجارہ داری کے بجائے انصاف برابری،آزادی اوراجتماعی خوش حالی میں اٹھائیں جائیں۔اب یہ ذہنی اورخیالی بات نہیں،عملی کام ہے۔اس عمل میں امن کی جدوجہد اورآزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔اس لئے کہ امن کے دوست اوردشمن اورآزادی کے دوست اس دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ،ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ایک طرف وہ سامراجی قوتیںہیں جن کے مفاد،جن کے اجارے جبر اورحسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اورجنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اورساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔سیاست واخلاق،ادب اورفن،روزمرہ زندگی،غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اورتخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے۔

آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاز اورہرصورت پر توجہ دینا ضروری ہے۔مثال کے طور پر سامراجی اورغیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلاف موجود ہیں،جنہیں حال ہی میں آزادی ملی۔ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان میں موجود ہیں۔بعض عرب ہمساہہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔ظاہر ہے کہ ان کے اختلافات سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں جو امن عالم اورانسانی برادری کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں۔اسلئے صلح پسنداورامن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ حل پر غوروفکر اوراس حل میں امداددینا بھی لازم ہے۔

اب سے کچھ دن پہلے جب سوویت فضاؤں کا تازہ کارنامہ ہر طرف دنیا میں گونج رہا تھاتومجھے باربارخیال آتا رہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کرسکتے ہیںتوچھوٹی چھوٹی کمینگیاں،خود غرضیاں ،یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کو کوششیں اورانسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعیدازعقل باتیں ہیں۔اب جبکہ ساری کائنات کے راستے ہم پرکشادہ ہوگئے ہیں۔ساری دنیاکے خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں،توکیاانسانوں میں ذی شعور،منصف مزاج اوردیانت دارلوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے جو سب کو منواسکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو۔یہ بم اورراکٹ ،توپیں بندوقیں سمندر میں غرق کردو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو۔جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے،جہاں کس کو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے،جہاں لا محدود فضائیں ہیں اوران گنت دنائیں۔مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اورمشکلوں کے باوجود ہم لوگ اپنی انسانی برادری سے یہ بات منواکررہیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی اب بھی فتح یاب ہوکررہے گی۔اورآخرِکار جنگ ونفرت اورظلم کدورت کے بجائے ہمارے باہمی زندگی کی بناوہی ٹھہرے گی جس کی تلقین اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ نے کی تھی

خلل پذیر بود ہر بناکہ می بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است
 

فرخ منظور

لائبریرین
فیض از فیض

اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے ۔اس لئے کہ سب لوگوں کا مرغوب مشغلہ یہی ہے۔اس انگریزی لفظ کے معذرت چاہتاہوں لیکن اب تو ہمارے ہاں اس کے مشتقات بوریت وغیرہ بھی استعمال میں آنے لگے ہیں۔اس لئے اب اسے اردو میں روزمرہ میں شامل سمجھنا چاہیے۔تومیں یہ کہہ رہا تھاکہ مجھے اپنے بارے میں قیل وقال بری لگتی ہے۔بلکہ میں تو شعر میں بھی حتیٰ الامکان واحد متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا،اور ’’میں ‘‘کے بجائے ہمیشہ’’ہم‘‘لکھتاآیا ہوں۔چنانچہ جب ادبی ساغران حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعرکیوں کہتے ہو تو بات کو ٹالنے کے لئے جو دل میں آئے کہہ دیتاہوں۔مثلاً یہ کہ بھئی میں جیسے بھی کہتاہوں جس لئے بھی کہتا ہوں تم شعر میں خود ڈھونڈواورمیرا سر کھانے کی کیاضرورت ہے۔لیکن ان میں ڈھیٹ قسم کے لوگ جب بھی نہیں مانتے۔چنانچہ آج کی گفتگوکی سب ذمہ داری ان حضرات کے سر ہے مجھ پر نہیں ہے۔

شعر گوئی کا واحدعذرِ گناہ تومجھے نہیں معلوم۔اس میں بچپن کی فضائے گردوپیش میں شعر کا چرچا دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگی سبھی کچھ شامل ہے۔یہ نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں ۹۲۔۸۲ء سے۵۳ء تک کی تحریریں شامل ہیں،جو ہماری طالب العلمی کے دن تھے۔یوںتوان سب اشعارکاقریب قریب ایک ہی ذہنی اورجذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جواس عمر میں نوجوان دلوں پر گزرجایاکرتا ہے۔لیکن اب جو دیکھتا ہوں تویہ دور بھی ایک دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے۔جن کی داخلی اورخارجی کیفیت کافی مختلف تھی۔وہ یوں ہے کہ۰۲ء سے۰۳ء تک زمانہ ہمارے ہاں معاشی اورسماجی طورسے کچھ عجب طرح کی بے فکری،آسودگی اورولولہ انگیزی کا زمانہ تھا،جس میں اہم قومی اورسیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر ونظم میں بیشتر سنجیدہ فکرومشاہدہ کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا اندازتھا۔شعر میںاولاً حسرت موہانی اوران کے بعد جوش،حفیظ جالندھری اوراختر شیرانی کی ریاست قائم تھی،افسانے میں یلدرم اورتنقید میں حسن برائے حسن اور ادب برائے ادب کا چرچاتھا۔نقشِ فریادی کی ابتدائی نظمیں ، ’’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوارہوتو‘‘مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘‘ تہ نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں‘‘وغیرہ وغیرہ اسی ماحول کے زیراثر مرتب ہوئیں اور اس فضا میں ابتدائے عشق کا تحیر بھی شامل تھا۔لیکن ہم لوگ اس دور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ صحبتِ یار آخرشد۔پھر دیس پرعالمی کساد بازاری کے سائے ڈھلنے شروع ہوئے۔کالج کے بڑے بڑے بانکے تیس مارخاں تلاشِ معاش میں گلیوں کی خاک پھانکنے لگے۔یہ وہ دن تھے جب یکایک بچوں کی ہنسی بجھ گئی‘اجڑے ہوئے کسان کھیت کھلیان چھوڑکر شہروں میں مزدوری کرنے لگے اوراچھی خاصی شریف بہو بیٹیاں بازار میں آبیٹھیں۔گھر کے باہر یہ حال تھااورگھر کے اندر مرگِ سوزِ محبت کا کہرام مچاتھا۔یکایک یوں محسوس ہونے لگا کہ دل و دماغ پر سبھی راستے بندہوگئے ہیں اور اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔اس کیفیت کا اختتام جو نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی آخری نظموں کی کیفیت ہے ایک نسبتا غیر معروف نظم پر ہوتا ہے، جسے میں نے یاس کا نام دیا تھا۔وہ یوں ہے:

یاس

بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل

مٹ گئے قصہ ہائے فکر وعمل
برم ہستی کے جام پھوٹ گئے

چِھن گیا کیف کوثر و تسنیم
زحمتِ گریہ و بکا بے سود

شکوہ بختِ نارسا بے سود
ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول

بند ہے مدتوں سے بابِ قبول
بے نیازِ دُعا ہے رب کریم

بُجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل

انتظارِ فضول رہنے دے
راز الفت نباہنے والے

بارِ غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے
 

فرخ منظور

لائبریرین
34ء میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور 35ء میں میں نے ایم اے او کالج امرتسر میں ملازمت کرلی۔یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصرلکھنے والوں کی ذہنی اورجذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔اس دوران کالج میں اپنے رفقاء صاحب زادہ محمود الظفر مرحوم اوران کی بیگم رشیدہ جہاں سے ملاقات ہوئی۔پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی ، مزدور تحریک کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھاکہ اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنااول تو ممکن ہی نہیں،اس لئے کہ اس میں بہر حال گردوپیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اوراگر ایسا ممکن ہوبھی تو انتہائی غیر سودمند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اورکدورتوں مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت محدود اورحقیر شے ہے۔اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اورجذباتی رشتے ہیں،خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔چنانچہ غمِ جاناں اورغمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔اسی نئے احساس کی ابتداء نقشِ فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے۔اس نظم کا عنوان ہے ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘

اور اگر آپ خاتون ہیںتو’’مرے محبوب نہ مانگ‘‘

’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھاتھا کہ توہے درخشاں ہے حیات

تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تومل جائے تو تقدیر نِگُوں ہوجائے
یوں نہ تھا،میں نے فقط چاہاتھا یُوں ہوجائے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت سے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کوبھی نظرکیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن ،مگرکیا کیجئے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس کے بعد تیر ہ چودہ برس’’کیوں نہ جہاں کا غم اپنالیں‘‘میں گزرے اورپھر فوج،صحافت ٹریڈیونین وغیرہ میں گزارنے کے بعد ہم چار برس کے لئے جیل خانے چلے گئے۔نقشِ فریادی کے بعد کی دوکتابیں’’دست صبا‘‘اور’’زنداں نامہ‘‘اسی جیل خانے کی یادگار ہیں۔بنیادی طورپر تویہ تحریریں انہیں ذہنی محسوسات اور معمولات سے منسلک ہیں جن کا سلسلہ مجھ سے پہلی سی محبت ،سے شروع ہو اتھالیکن جیل خانہ عاشقی کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے،جس میں فکرونظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خودبخود کھل جاتا ہے۔چنانچہ اول تویہ ہے کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات یعنی(Sensations)پھر تیز ہوجاتی ہیں اور صبح کی پَو،شام کے دُھندلکے،آسمان کی نیلاہٹ،ہوا کے گذار کے بارے میں وہی پہلا سا تحیر لوٹ آتا ہے۔دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کا وقت اورفاصلے دونوں باطل ہوجاتے ہیں۔نزدیک کی چیزیں بھی بہت دور ہوجاتی ہیں اوردور کی نزدیک اورفرداودی کا تفرقہ کچھ اس طور سے مت جاتا ہے کہ کبھی ایک لمحہ قیامت معلوم ہوتا ہے اورکبھی ایک صدی کل کی بات۔تیسری بات یہ ہے کہ فراغتِ ہجراں میں فکرومطالعہ کے ساتھ عروسِ سخن کے ظاہری بناؤ سنگھاؤ پر توجہ دینے کی زیادہ مہلت ملتی ہے۔جیل خانے کے بھی دو دور تھے۔ایک حیدرآباد جیل کا جواس تجربے کے انکشاف کے تحیر کا زمانہ تھا،ایک منٹگمری جیل کا جو اس تجربے سے اکتاہٹ اورتھکن کا زمانہ تھا۔ان دو کیفیتوں کی نمائندہ یہ دو نظمیں ہیں ،پہلی’’دستِ صبا‘‘ میں ہے دوسری’’زندان نامہ‘‘میں ہے۔

زندان نامہ کی ایک شام

شام کے پیچ و خم ستاروں سے

زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات

یوں صبا پاس سے گزرتی ہے

جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات

صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار

سرنگوں ، محو ہیں بنانے میں

دامنِ آسماں پہ نقش و نگار

شانہ بام پر دمکتا ہے

مہرباں چاندنی کا دست جمیل

خاک میں گُھل گئی ہے آب نجوم

نُور میں گُھل گئی ہے عرش کا نیل

سبز گوشوں میں نیلگوں سائے

لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں

موجِ دردِ فراقِ یار آئے

دل سے پیہم خیال کہتا ہے

اتنی شیریں ہے زندگی اس پل

ظلم کا زہر گھولنے والے

کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل

جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں

وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا

چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
’’اے روشنیوں کے شہر‘‘

سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی،بڑھتی ،اٹھتی،گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اِس کُہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نورکھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سُو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شبخوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی ،ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں اونچی رکھیں لو


زنداں نامے کے بعد کچھ ذہنی افراتفری کا زمانہ ہے جس میں اپنا اخباری پیشہ چُھٹا ،ایک بار جیل گئے۔مارشل لاء کا دور آیا،اورذہنی گردوپیش کی فضا میں پھر سے کچھ انسداد راہ اورکچھ نئی راہوں کی طلب کا احساس پیداہوا۔اس سکوت اورانتظار کی آئینہ دار ایک نظم ہے’’شام‘‘اور ایک نامکمل غزل کے چند اشعار:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی!
فیض
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہُوا آباد
کِس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو
 

فرخ منظور

لائبریرین
دستِ تہِ سنگ آمدہ

بیزار فضا ، درپئے آزارِ صبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے
ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
اب سیر کے قابل روشِ آب و ہوا ہے
اُمڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر وانگ ملامت کی گھٹا ہے
وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی
ہر کاسۂ مے زہرِ ھلاہل سے سوا ہے
ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لبِ شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے
اس جذبۂ دل کی نہ سزا ہے نہ جزا ہے
مقصودِ رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے
احساسِ غمِ دل جو غمِ دل کا صلا ہے
اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے
ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے
ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے
ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرفِ تمنّا ترے قدموں کی صدا ہے
تعزیرِ سیاست ہے ، نہ غیروں کی خطا ہے
وہ ظلم جو ہم نے دلِ وحشی پہ کیا ہے
زندانِ رہِ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے ، نہ کوئی بند بپا ہے
"مجبوری و دعوائے گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے"
 

فرخ منظور

لائبریرین
میخانوں کی رونق ہیں ، کبھی خانقہوں کی
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلداریِ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
پیکنگ
یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے
دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال
میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری
میرے مقدور میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
سِنکیانگ
اب کوئی طبل بجے گا ، نہ کوئی شاہسوار
صبحدم موت کی وادی کو روانہ ہوگا!
اب کوئی جنگ نہ ہوگی نہ کبھی رات گئے
خون کی آگ کو اشکوں سے بُجھانا ہوگا
کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں
وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا
سہم ، خونخوار درندے کی طرح آئے گا
اب کوئی جنگ نہ ہوگی مے و ساغر لاؤ
خوں لُٹانا نہ کبھی اشک بہانا ہوگا
ساقیا! رقص کوئی رقصِ صبا کی صورت
مطربہ! کوئی غزل رنگِ حِنا کی صورت
 

فرخ منظور

لائبریرین
بساطِ رقص پہ صد شرق و غرب سے سرِ شام
دمک رہا ہے تری دوستی کا ماہِ تمام
چھلک رہی ہے ترے حُسنِ مہرباں کی شراب
بھرا ہوا ہے لبالب ہر اِک نگاہ کا جام
گلے میں تنگ ترے حرفِ لطف کی راہیں
پسِ خیال کہیں ساعتِ سفر کا پیام
ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے صُحبتِ شب
ہر ایک روئے حسیں ہوچلا ہے بیش حسیں
ملے جو کچھ ایسے ، جُدا یوں ہوئے کہ فیض اب کے
جو دل پہ نقش بنے گا وہ گُل ہے ، داغ نہیں

ہانگ چاؤ (چین)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جشن کا دن

جنُوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے
صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے
طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن
جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے
تنک مزاج ہے ساقی نہ رنگِ مَے دیکھو
بھرے جو شیشہ ، چڑھاؤ کہ جشن کا دن ہے
تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن
ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا دن ہے
ہے انتظارِ ملامت میں ناصحوں کا ہجوم
نظر سنبھال کے جاؤ کہ جشن کا دن ہے
وہ شورشِ غمِ دل جس کی لے نہیں کوئی
غزل کی دُھن میں سُناؤ کہ جشن کا دن ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سُلگاؤ آبگینوں میں
دلِ عُشاق کی خبر لینا
پھول کِھلتے ہیں ان مہینوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
 

فرخ منظور

لائبریرین
شام

اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا ، بے نُور پُرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام ، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے ، ماتھے پہ سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بُجھے گی نہ اندھیرا ہوگا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہوگا

آسماں آس لئے ہے کہ یہ جادو ٹُوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے ، وقت کا دامن چُھوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی ، کوئی پایل بولے
کوئی بُت جاگے ، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے
 

فرخ منظور

لائبریرین
جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بُجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ گئے ہیں
قریب آ اے مہِ شبِ غم ، نظر پہ کُھلتا نہیں کچھ اس دم
کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے ، کون سے نام بُجھ گئے ہیں
بہار اب آکے کیا کرے گی کہ جن سے تھا جشنِ رنگ و نغمہ
وہ گل سرِ شاخ جل گئے ہیں ، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں!

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم
منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے ، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم ، بار کہسار غم
جس کو چُھوکر سبھی اک طرف ہوگئے
بات کی بات میں ذی شرف ہوگئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کِھلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق ، نعرئہ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو ماتمِ جسم وجاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ دید ہے نہ سخن ، اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے
اُمیدِ یار ، نظر کا مزاج ، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے


لاہورجیل
۲۱ دسمبر ۱۹۵۸
 
Top