خوبصورت نظمیں

ظفری

لائبریرین

خوشحال سے تُم بھی لگتے ہو
یُوں افسُردہ تو ہم بھی نہیں
پر جاننے والے جانتے ہیں
خوش تُم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
تُم اپنی خودی کے پہرے میں
اور دَمِ غرور میں جکڑے ہوئے
ہم اپنی زعم کے نرغے میں
اَنا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
ایک مدّت سے غلطاں پیچاں
ہم اپنے آپ سے اُلجھے ہوئے
پچھتاوے کے انگاروں میں
محصور تلاطم آج بھی ہو
گو تُم نے کنارے ڈھونڈ لیئے
طوفان سے سنبھلے ہم بھی نہیں
کہنے کو سہارے ڈھونڈ لیئے
خا موش سے ہم تم مہر بہ لب
جگ بیت گئے ٹک بات کئے
سنو ! کھیل ادھورا چھوڑتے ہیں
بناء چال چلے ، بناء مات کیئے
جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
وہ سائے رک بھی سکتے ہیں
چلو توڑو قسم ۔۔۔۔ انکار کریں
ہم دونوں جُھک بھی سکتے ہیں۔​
 

ظفری

لائبریرین

اچھا نہیں لوگوں سے کہنا


دونوں نے جب ، سیکھ لیا ہے

خوش خوش اپنے حال میں رہنا

اچھا نہیں لوگوں سے کہنا

عہدِ وفا کس نے توڑا تھا

کس نے کسے کیسے چھوڑا تھا​
 

ظفری

لائبریرین

ہم ہی نادان تھے


ہم ہی نادان تھے
سوچا کرتے تھے جو
کیسے ہو سکتا ہے
ایک وعدہ شکن
اپنی نادانی پر
اب پشیمان نہ ہو
بیتی رُت کے لئے
وہ اکیلا بھی ہو
اور پریشان نہ ہو​
 

ظفری

لائبریرین

اُس شخص کو بھلا کر


اُس شخص کو بُھلا کر

اب زندگی ہماری

پہلے سے بھی زیادہ

دُشوار بن گئی ہے

ہم دَر بنا رہے تھے

دیوار بن گئی ہے​
 

ظفری

لائبریرین

اُس گھڑی یوں لگا



کپکپاتے لبوں سے جو اُس نے کہا

اب یہ طے ہے کہ ہم کو بچھڑ جانا ہے

اُس گھڑی یوں لگا

یہ اَنا بھی کسی ایسے حاکم سے کم تو نہیں

جس کے دربار میں بات جیسی بھی ہو

اُس کی تائید میں ہاتھ اُٹھانا پڑے

سر جھکانا پڑے​
 

دوست

محفلین
محبت روٹھ جائے تو۔۔۔۔۔۔
وفا جب مصلحت کی شال اوڑھے
سرد رت کا روپ دھارے
دل کے آنگن میں اترتی ہے
تو پلکوں پہ ستاروں کی دھنک مسکانے لگتی ہے
کبھی خوابوں کے ان ہیولوں سے بھی
ان دیکھی سی، ان جانی سی خوشبو آنے لگتی ہے
کسی کے سنگ بیتے ان گنت لمحوں کی زنجیریں
اچانک ذہن میں جب گنگناتی ہیں
نفس کے تار میں سناٹا ایک دم چیخ اٹھتا ہے
تو یوں محسوس ہوتا ہے
ہوائیں آکے سرگوشی سی کرتی ہیں
محبت کا تمہیں ادراک اب تو ہوگیا ہوگا
یہ جو بھی زخم دیتی ہے، کبھی سپنے نہیں دیتی
محبت روٹھ جائے تو جینے نہیں دیتی۔۔
 

ظفری

لائبریرین

بھٹکتے بھٹکتے
سارا دن گلیوں میں
آوارگی کرتے کرتے
جب شام کا سورج
ڈھلنے لگا اور
ٹھٹھرتی شام میں
سیاہی مائل اندھیرا چھا گیا
جب ہوا کی سرد لہر
سارے جسم کی رگوں کو
منجمد کرنے لگی
تو آوارہ روح کی طرح
در در بھٹکتی
آخر تیری یاد
میرے دل کے دروازے پر آن پہنچی
رات کے سناٹے میں
میں اور تیری یاد
سرگوشیاں کرتے کرتے
ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے
تیرے انتظار کے دیئے جلائے
یوں تمام رات جلتے رہے
پگھلتے رہے
تیرے انتظار کی
گرہیں گنتے رہے ۔۔۔​
 

پاکستانی

محفلین
پرستش

پرستش

اے رب پاک
شب کی تنہائیوں میں
جب ترے بندے اٹھتے ہیں
تیری عبات کے لئے
تو اس وقت میری بھی آنکھ کھلتی ہے
پر وہ تیری عبادت کے لئے نہیں
وہ تو اس بت کی پرستش کے لئے
جو میرے من میں چھپا ہے
اے رب ذوالجلال
یہ سب تجھے کیسے گوارا ہے
کہ ترا کوئی شریک ہو
میں تو ناتواں ہوں نا سمجھ ہوں
میری تو ایک تجھ سے التجا ہے
یا تو اس بت کو من سے نکال دے
یا پھر اپنا خیال ہی نہ آنے دے
کیونکہ اس ناسمجھ سے
دو خداؤں کی پوجا نہیں ہو سکتی
 

ظفری

لائبریرین

کسی دن میرے گھر آؤ
میرے کمرے میں بیٹھو
اور ہر ایک شے کو دیکھو
بُک شیلف میں پڑی ہوئی
کتابیں اور ڈائریاں
میز پر رکھی ہوئی تصویریں
اور گُلدان میں مرجھائے ہوئے پُھول
تمہیں بتائیں گے
دراز میں موجود کیسٹ
دیواروں پر لگے کارڈز
تُم پر عیاں کریں گے
کہ کیسے میرے ارمانوں نے تیرے خواب دیکھے تھے
اگر ہو سکے تو کسی دن میرے گھر آؤ
دیواروں پر کُھدے ہو حرف
اور بستر پر نقشِ بے قراری تم پر عیاں کریں گی
کہ میری آرزؤں نے کس طرح تمہاری آرزو کی ہے
اور کیسے میرے خوابوں نے تمہارے خواب دیکھے ہیں
اگر ہو سکے تو کسی دن میرے گھر آؤ​
 

حجاب

محفلین
وہی قصہ وہی ملنے کا بچھڑ جانے کا
وہی انداز پرانا کسی افسانے کا
وہی ملنا وہی وعدے وہی پیمانَ وفا
عمر بھر ساتھ نبھانے کی وہ جھوٹی قسمیں
خواب ہو جائیں گے یہ ایک دن ہمارے قصے
اور پھر یونہی کسی روز کسی موڑ تلے
تم یہ چاہو گی کوئی اور سہارا کرلوں
میں بھی چاہوں گا چلو تم سے کنارہ کر لوں
راستے ختم نہ ہوں گے مگر اُس موڑ تلے
تم کسی اور طرف دور نکل جاؤ گی
کئی یادیں کئی پیمان کئی صدمے دے کر
خواب بن جاؤ گی پرچھائیں میں ڈھل جاؤ گی
میں بھی رک جاؤں گا کچھ دیر کو کچھ سوچوں گا
پھر کسی سمت کہیں دور نکل جاؤں گا
پھر نئی صبح نئے لوگ نئے رستوں پر
اُسی قصے اُسی افسانے کو دہرائیں گے
ہاتھ میں ہاتھ دئیے ایک نئے جذبے سے
عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسم کھائیں گے
منزلَ عشق کو پانے کی قسم کھائیں گے
لیکن اس دشت میں مٹی کے کے سوا کچھ نہیں
تجھ سے میری جان گلہ کچھ بھی نہیں
سب کو ایک روز کسی موڑ پر بچھڑ جانا ہے
سانس کا کیا ہے کسی روز اُکھڑ جانا ہے
کیونکہ ہر شخص کی قسمت میں جدائی نکلی
جسم بھی خاک ہوا روح پرائی نکلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 


“ایک اداس نطم“

یہ حسین شام اپنی
ابھی جس میں گھل رہی ہے
ترے پیرہن کی خوشبو
ابھی جس میں کھل رہے ہیں
میرے خواب کے شگوفے
ذرا دیر کا ہے منظر!


ذرا دیر میں افق پہ
کھلے گا کوئی ستارہ
تری سمت دیکھ کر وہ
کرے گا کوئی اشارہ
ترے دل کو آئیگا پھر
کسی یاد کا بلاوا
کوئی قصہء جدائی
کوئی کار نا مکمل
کوئی خواب نا شگفتہ
کوئی بات کہنے والی
کسی اور آدمی سے !


ہمیں چاہیے تھا ملنا
کسی عہد مہرباں میں
کسی خواب کے یقیں میں
کسی اور آسماں میں
کسی اور سر زمیں میں!


(پروین شاکر-انکار)
 
بہت عمدہ امید یہ نظم سنی تو بہت دفعہ تھی آج پڑھ بھی لی اور کیا وجہ ہے کہ اداس نظم کے ساتھ واپسی ہوئی ہے تمہاری ۔ :)
 
احمد ندیم قاسمی کی شہرہ آفاق نظم

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے


کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے


جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے


ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
 
“محبت کم نہیں ہوگی“

مری آنکھیں سلامت ہیں
مرا دل میرے سینے میں دھڑکتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
محبت کم نہیں ہوگی

محبت ایک وعدہ ہے
جو سچائی کی ان دیکھی کسی ساعت میں ہوتا ہے
کسی راحت میں ہوتا ہے
یہ وعدہ شاعری بن کر مرے جذبوں میں ڈھلتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
محبت کم نہیں ہوگی

محبت ایک موسم ہے
کہ جس میں خواب اگتے ہیں تو خوابوں کی ہری
شاخیں
گلابوں کو بلاتی ہیں
انہیں خوشبو بناتی ہیں

یہ خوشبو جب ہماری کھڑکیوں پر دستکیں دے کر
گزرتی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
محبت کم نہیں ہوگی

(نوشی گیلانی-اداس ہونے کے دن نہیں ہیں)


 
پچھلے سال کی ڈائری کا آخری ورق

کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں
کبھی دل کے صفحے پر
تجھے تصویر کرتے ہیں
کبھی پلکوں کی چھاؤں میں
تجھے زنجیر کرتے ہیں
کبھی خوابیدہ شاموں میں
کبھی بارش کی راتوں میں
کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں

نوشی گیلانی
 
Top