حسان خان

لائبریرین
شنیده‌ام ز لبت در ازل حدیثی چند
هنوز لذّتِ آوازِ تُست در گوشم
(عمادالدین فقیه کرمانی)
میں نے ازل میں تمہارے لب سے چند سُخن سنے تھے؛ ہنوز تمہاری آواز کی لذّت میرے کان میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دی چو پیش آمد به راه آن دلبرِ رعنا مرا
من ز شرم او را ندیدم، او ز اِستِغنا مرا
(مولانا عیاری استرآبادی)
دِیروز جب میرا وہ دلبرِ رعنا راہ میں نزدیک آیا تو میں نے شرم کے باعث اُس کو نہیں دیکھا، [جبکہ] اُس نے بے نیازی کے باعث مجھ کو [نہیں دیکھا۔]
× دِیروز = روزِ گذشتہ، گذرا ہوا کل
 
شد از وعیدِ تو پر گوش ما چہ می گوئی
اگر بہ حشر
بریم از تو ماجرا واعظ

اے واعظ! تیری وعید سے ہمارے کان بھر گئے، اگر روزِ حشر تجھ سے ماجرا پوچھا گیا تو تو کیا جواب دے گا؟
یہاں بریم کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ جدا ایک لفظ ہے یا مصدر "بردن" کے مضارع کا صیغہء جمع متکلم ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
کیا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر ہمارا ماجرا بہ روزِ حشر تجھ سے لیں(دریافت کریں)؟
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'ماجرا' کا ایک معنی 'نِزاع و جِدال و دعویٰ بھی ہے۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ اِس بیت کے یہ دو مفہوم ہو سکتے ہیں:
۱) اے واعظ! اگر ہم بروزِ حشر تمہارا ماجرا بیان کر دیں تو تم اپنے دفاع میں کیا کہو گے؟ تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو، لہٰذا واقف ہی ہو گے کہ تمہارے اُن پوشیدہ اعمال کی سزا کیا ہو گی۔
۲) اے واعظ! اگر ہم اِس جدال کو داوری کے لیے بروزِ حشر داورِ محشر کے سامنے پیش کریں اور خدا سے تمہاری شکایت کریں کہ تم نے وعیدوں سے دنیا میں ہمارے کان پُر کر دیے تھے تو تم کیا کہو گے؟

آپ کے ذہن میں بیت کا کوئی اور مفہوم آ رہا ہو تو لکھیے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُشوَّش است دلم از کرشمهٔ سلمیٰ
چنان که خاطرِ مجنون ز طُرّه لیلیٰ

سلمیٰ کے غمزہ و ناز سے میرا دل پریشان ہے؛ جس طرح لیلیٰ کی زُلف سے مجنون کا ذہن پریشان تھا۔

× سَلْمیٰ = ایک عرب معشوقہ کا نام، جو مجازاً معشوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

× سعید نفیسی نے اِس بیت کو رُودکی سمرقندی سے منسوب کیا ہے، لیکن یہ بیت قطران تبریزی کے تصحیح شدہ دیوان میں بھی موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز شاعر زنده می‌مانَد به گیتی نام شاهان را
فروغ از رودکی دارد چراغِ دُودهٔ سامان
(ابنِ یمین فریُومَدی)

دنیا میں پادشاہوں کا نام شاعر کے باعث زندہ رہتا ہے؛ آلِ سامان کے چراغ میں روشنی رُودکی سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به چشمِ دلت دید باید جهان
که چشمِ سرِ تو نبیند نهان
(رودکی سمرقندی)

تمہیں دنیا کو چشمِ دل سے دیکھنا چاہیے کیونکہ تمہاری چشمِ سَر باطن نہیں دیکھتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ما را نہ غمِ دوزخ و نے حرصِ بہشت است
بردار ز رُخ پردہ کہ مشتاقِ لقائیم


مولانا رُومی

ہمیں نہ تو دوزخ کا کوئی غم اور ڈر ہے اور نہ ہی بہشت کی کوئی حرص اور خواہش ہے، بس تُو اپنے چہرے سے پردہ اُٹھا دے کہ ہم تو تیری دید ہی کے مشتاق ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
منکرِ آن قامتی زاهد، ز ایمان دم مزن
چون مسلمانی که انکارِ قیامت می‌کنی؟
(حسن بیگ رفیع مشهدی)

اے زاہد! تم اُس قامت کے منکر ہو، ایمان کا دعویٰ مت کرو۔۔۔ تم کس طرح مسلمان ہو کہ تم قیامت کا انکار کرتے ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
خاکِ شیراز که سرمنزلِ عشق است و امید
قبلهٔ مردمِ صاحب‌دل و صاحب‌نظر است
(رهی مُعیِّری)

خاکِ شیراز، کہ جو عشق و امید کا مقام و مسکن ہے، صاحب دل و صاحب نظر مردُم کا قبلہ ہے۔
 
از آن پیش بتان رقصیدم و زنار بربستم
که شیخ شهر مرد باخدا گردد ز تکفیرم


بتوں کے سامنے میں نے اس لیے زنار باندھا اور رقص کیا تا کہ شہر کا شیخ میری تکفیر سے خدا رسیدہ ہو جائے۔

علامہ محمد اقبال
 

حسان خان

لائبریرین
مَلَک‌خُویی که فرزندِ رسول است
اگر زردار نبْوَد، ناقبول است
به دستِ هر که نقدِ سیم باشد
سگِ او واجب التعظیم باشد
بیا فخری خیالِ سیم و زر کن
غمِ تحصیلِ علم از سر به در کن
(فخری بنارسی)
وہ فرشتہ فطرت شخص، کہ فرزندِ رسول ہے، اگر زردار و مالدار نہیں ہے تو ناقَبول ہے۔
جس شخص کے بھی دست میں چاندی کی نقدی ہو، اُس کا سگ بھی واجب التعظیم ہوتا ہے۔
آؤ، اے فخری، سیم و زر کی فکر کرو، اور غمِ تحصیلِ علم کو سر سے بیرون کر دو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ناصح از دردِ دلِ ما کَی خبر دارد که ما
در میانِ موجِ دریاییم و او بر ساحل است
(شاه قاسم انوار)

ناصح کو ہمارے دردِ دل کی کب خبر ہو گی کہ ہم تو موجِ دریا کے درمیان ہیں اور وہ ساحل پر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
توبه از عشق کرد زاهدِ شهر
از چنین توبه، توبه یا توّاب
(شاه قاسم انوار)

زاہدِ شہر نے عشق سے توبہ کر لی۔۔۔ اِس طرح کی توبہ سے توبہ، یا توّاب!
 

حسان خان

لائبریرین
درودش بر محمّد صد هزاران
پس آن‌گه بر همه فرخُنده یاران
درودش بر علی هرچ آن نکوتر
و بر جُفتِ وی آن پاکیزه دختر
پس آن‌گه بر حُسین و بر حسن بر
به فرزندانِ ایشان تن به تن بر
(حکیم مَیسَری)

خدا کے صد ہزاراں دُرود ہوں محمّد پر! بعد ازاں، اُن کے تمام مبارک اصحاب پر! خدا کا خوب سے خوب تر دُرود ہو علی پر! اور اُن کی زوجہ پر، جو [رسول کی] پاکیزہ دُختر ہیں؛ بعد ازاں دُرود ہو حُسین پر اور حَسَن پر! اور اُن کے ایک ایک فرزند پر!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
درودش صد هزاران بر پیمبر
خداوندِ لِوا و تاج و منبر
ابر بوبکر و بر عمّر و عثمان
که کردش او به ما بر جمعِ قرآن
ابر حیدر که باشد او چهارم
که هست این دوستی‌شان یادگارم
(حکیم مَیسَری)
خدا کے صد ہزاروں دُرود ہوں پیمبر پر! جو صاحبِ پرچم و تاج و منبر ہیں۔ دُرود ہو ابوبکر پر اور عمر پر اور عثمان پر، کہ جنہوں نے ہمارے لیے قرآن جمع کیا؛ دُرود ہو حیدر پر کہ جو خلیفۂ چہارم ہیں! کہ اُن تمام کی یہ دوستی میری یادگار ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در این بازارِ عطّاران مرو هر سو چو بی‌کاران
به دُکّانِ کسی بِنْشین که در دُکّان شَکَر دارد
(مولانا جلال‌الدین رومی)
عطّاروں کے اِس بازار میں بے کاروں کی مانند ہر جانب مت جاؤ؛ [بلکہ] اُس شخص کی دکان میں بیٹھو جو دکان میں شَکَر رکھتا ہو۔
 
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است

علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ


جو منبر پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ملت وطن سے بنتی ہے یہ لوگ محمد عربی ﷺ کے مقام سے کتنے بے خبر ہیں۔
تو حضورﷺ کی ذات تک رسائی حاصل کر لے کے وہ سراپا دین ہیں ۔اگر تو اُن تک رسائی نہ حاصل کر سکا تو تیرا ہر عمل بو لہب کے عمل جیسا ہے۔
 
Top