چہ عجب اگر دو سلطاں بولایتے نگنجند
عجب ایں کہ می نگنجد بدو عالمے فقیرے


علامہ محمد اقبال، (زبورِ عجم)

اِس میں کیا عجیب بات ہے کہ دو بادشاہ ایک بادشاہت میں نہیں سما سکتے، عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک صاحبِ فقر دونوں جہانوں میں بھی نہیں سما سکتا۔

سبحان اللہ!
ماشاء اللہ!
اس شعر کا اردو ورژن(میرے حساب سے)

نہ چینی و عربی وہ ، نہ رومی و شامی
سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی
 

حسان خان

لائبریرین
بر دل غمِ فراقت آسان چگونه باشد؟
دل را قیامت آمد شادان چگونه باشد؟
(خاقانی شروانی)

دل پر تمہارے فراق کا غم آسان کیسے ہو؟ دل پر قیامت آ گئی، وہ شاداں کیسے ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
خواهم که رازِ عشقت پنهان کنم ز یاران
صحرایِ آب و آتش پنهان چگونه باشد؟
(خاقانی شروانی)

میں چاہتا ہوں کہ تمہارے عشق کا راز یاروں سے پنہاں کر لوں، [لیکن] آب و آتش کا صحرا پنہاں کیسے ہو؟
 
کہ بستر گسترد بہرِ اسیری؟
کہ جز بازوئے خود بالیں ندارد


جو قیدی بجز اپنے بازو کے تکیہ نہیں رکھتا اس کے لیے کون بستر بچھاتا ہے؟

ظہوری ترشیزی
 
ظہوری در غریبی مرد شاد است
کہ مرگش خاطرِ غمگیں ندارد


ظہوری غریبی(وطن سے دوری کی حالت) میں مر گیا (اس پر) خوش ہے (اس لیے) کہ اس کی موت کوئی غمگیں دل نہیں رکھتی۔

ظہوری ترشیزی
 

حسان خان

لائبریرین
هر دل نبَرَد چاشنیِ داغِ محبت
این آتشِ بی‌رنگ نسوزد همه کس را
(بیدل دهلوی)

ہر دل داغِ محبت کا مزہ نہیں اٹھاتا؛ یہ آتشِ بے رنگ ہر شخص کو نہیں جلاتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
یاران نرسیدند به دادِ سخنِ من
نظمم چه فسون خواند که گوشِ همه کر شد
(بیدل دهلوی)

یاراں میرے سخن کی داد دینے نہ پہنچے؛ میری نظم نے [ایسا] کون سا افسوں خوان دیا کہ سب کے گوش ناشُنَوا ہو گئے۔
× افسو‌ں = منتر، خواننا = پڑھنا ، گوش = کان، ناشُنَوا = بہرا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تصحیح کے لیے شکریہ۔ :)

'هل جزاء الإحسان إلّا الإحسان؟' کی متابعت کرتے ہوئے میں بھی ایک نکتہ عرض کر دوں:
ظہوری در غریبی مرد شاد است
کہ مرگش خاطرِ غمگیں ندارد


ظہوری غریبی(وطن سے دوری کی حالت) میں مر گیا (اس پر) خوش ہے (اس لیے) کہ اس کی موت کوئی غمگیں دل نہیں رکھتی۔

ظہوری ترشیزی
مصرعِ ثانی کا یوں بھی ترجمہ کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔کہ اُس کی موت پر کوئی قلب و ضمیر غمگین نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
تصحیح کے لیے شکریہ۔ :)

'هل جزاء الإحسان الّا الإحسان؟' کی پیروی کرتے ہوئے میں بھی ایک نکتہ عرض کر دوں:

مصرعِ ثانی کا یوں بھی ترجمہ کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔کہ اُس کی موت پر کوئی قلب و ضمیر غمگین نہیں ہے۔
شکرگزار ہوں!
لفظی ترجمے کے قریب رہنے کے لیے یوں لکھ دیا۔
اس شعر نے بے ساختہ غالب کے چند اشعار یاد دلا دیے
؎
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
؎
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم

یقیناََ اسی مضمون پر چند اور اشعار بھی تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فرشته را ز حلاوت دهان پُرآب شود
چو از حلاوتِ مَی دل‌برم لبان لیسد
(رودکی سمرقندی)

جب شراب کی حلاوت سے میرا دلبر [اپنے] لبوں کو چاٹے تو فرشتے کا دہن حلاوت سے پُرآب ہو جائے۔
× حلاوت = شیرینی
× مصرعِ ثانی میں 'حلاوتِ مَی' کی بجائے 'حرارتِ مَی' بھی نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آن چه عشقِ دوست با من می‌کند
والله ار دشمن به دشمن می‌کند
(خاقانی شروانی)

جو کچھ میرے ساتھ دوست کا عشق کرتا ہے، واللہ! اگر دشمن [بھی] دشمن کے ساتھ کرتا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا به باطل محتاجِ جاهِ خود شمرند
به حقِّ حق که جز از حق مراست استغنا
(خاقانی شروانی)
وہ مجھے بہ ناحق اپنی جاہ و حشمت کا محتاج شمار کرتے ہیں۔۔۔ حق تعالیٰ کے حق کی قسم! کہ مجھے حق تعالیٰ کے بجز [ہر کسی سے] بے نیازی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای که هستی محبِ آلِ علی
مؤمنِ کاملی و بی‌بدلی
رهِ سنّی گزین که مذهبِ ماست
ورنه گم‌گشته‌ای و در خللی
رافضی کیست؟ دشمنِ بوبکر
خارجی کیست؟ دشمنانِ علی
هر که او هر چهار دارد دوست
امّتِ پاک‌مذهب است و ولی
دوست‌دارِ صحابه‌ام به تمام
یارِ سنّی و خصمِ معتزلی
مذهبِ جامع از خدا دارم
این هدایت بُوَد مرا ازلی
نعمت‌اللهم و ز آلِ رسول
چاکرِ خواجه‌ام خفی و جلی
(شاه نعمت‌الله ولی)
اے وہ کہ آلِ علی (رض) کے محب ہو، تم مؤمنِ کامل ہو اور بے بدل ہو۔۔۔ سُنّی راہ منتخَب کرو کہ جو ہمارا مذہب ہے، ورنہ تم گم گشتہ و گم راہ ہو اور خلل میں ہو۔۔۔ رافِضی کون ہے؟ ابوبکر (رض) کا دشمن۔ خارِجی کون ہےِ؟ علی (رض) کا دشمن۔۔۔ جو بھی شخص چاروں کو دوست رکھتا ہے وہ پاک مذہب امّتی اور ولی ہے۔۔۔ میں صحابہ (رض) کا بطورِ کامل دوست دار ہوں۔۔۔ میں یارِ سُنّی اور دشمنِ مُعتَزِلی ہوں۔۔۔ میں خدا کی جانب سے جامع مذہب رکھتا ہوں، یہ ہدایت مجھے ازل سے نصیب ہوئی ہے۔۔۔ میں نعمت اللہ ہوں اور آلِ رسول (ص) میں سے ہوں (یعنی سّید ہوں)، [اور] میں پیغمبرِ (ص) کا خفی و جلی نوکر ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امیدِ من و قبلهٔ دینِ من
بُوَد نسلِ پاکِ حُسین و حسن
(نامعلوم)
میری امید اور میرے دین کا قبلہ حُسین و حسن کی نسلِ پاک ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیارِ آلِ عثمان کے ایک مولوی شاعر اسرار ددہ (۱۱۶۲-۱۲۱۱ھ) کی ایک رباعی جو بیک وقت ترکی زبان میں بھی ہے اور فارسی زبان میں بھی:
(رباعی)

من بندهٔ احبابِ رسول‌اللهم
نه خارجیم نه شیعیِ گم‌راهم
هم بندهٔ بوبکر و عمر عثمانم
هم خاکِ رهِ علی ولی‌اللهم
(اسرار دده)
میں احبابِ رسول اللہ کا بندہ ہوں؛ نہ خارجی ہوں اور نہ گمراہ شیعہ ہوں؛ ابوبکر، عمر اور عثمان کا بندہ بھی ہوں اور علیِ ولی اللہ کی راہ کی خاک بھی ہوں۔

اب ایک رباعی جو صرف ترکی زبان میں ہے:
(رباعی)

خاکِ رهِ چار یاردر درگاهم
من بندهٔ اصحابِ رسول‌اللهم
بیڭ جانله اولادِ محمد قولیم
خاکِ قدمِ علی ولی‌اللهم
(اسرار دده)
راہِ چار یار کی خاک میری درگاہ ہے؛ میں اصحابِ رسول اللہ کا بندہ ہوں؛ میں ہزار جاں سے اولادِ محمد کا غلام ہوں؛ میں علیِ ولی اللہ کے قدم کی خاک ہوں۔

اور حالا ایک رباعی جو فارسی زبان میں کہی گئی تھی:
(رباعی)

رندم که به درگاهِ تو مست آمده‌ام
افتاده و زار و دل به دست آمده‌ام
ای مظهرِ احسان و کرم مولانا
تعمیرِ دلم کن که شکست آمده‌ام
(اسرار دده)
میں رند ہوں کہ میں تمہاری درگاہ میں مست آیا ہوں؛ افتادہ و زار اور دست میں دل لیے آیا ہوں؛ اے مظہرِ احسان و کرم مولانا [رومی]، میرے دل کی تعمیر کرو کہ میں شکستہ [حالت میں] آیا ہوں۔

× شاعر کا کوئی فارسی دیوان نہیں تھا، بلکہ یہ فارسی رباعی اُن کے ترکی دیوان ہی میں شامل ہے۔
× مولوی = سلسلۂ مولویہ سے تعلق رکھنے والا شخص
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ساقی بیا که باز مَیِ نابم آرزوست
تا کَی غمِ زمانه بدارد فسرده‌ام
(محمد فضولی بغدادی)

اے ساقی آ جاؤ کہ مجھے دوبارہ شرابِ ناب کی آرزو ہے؛ غمِ زمانہ مجھے کب تک افسردہ رکھے؟
× ناب = خالص
 

حسان خان

لائبریرین
در پرده‌های دیده، فضولی! نمانْد نم
از بس که بهرِ گریه دمادم فشرده‌ام
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! میں نے [اپنی] چشم کے پردوں کو گریے کے لیے مسلسل اتنا زیادہ نچوڑ لیا ہے کہ اُن میں نمی باقی نہیں رہی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نیست بی محنتِ اغیار وصالِ رُخِ یار
باغِ عالَم گُلِ بی‌خار ندارد چه کنم
(محمد فضولی بغدادی)
رُخِ یار کا وصال اغیار کے رنج کے بغیر نصیب نہیں ہوتا؛ باغِ عالَم میں کوئی گُلِ بے خار نہیں ہے، کیا کروں؟
 
فارسی شاعری سینکڑوں سال پرانی ہے اور فارسی زبان، شاعری کا اتنا وسیع اور عظیم ذخیرہ رکھتی ہے کہ اسے دنیا کے کسی بھی بڑی زبان کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی، قطعہ اور دیگر اصنافِ سخن کی شکل میں فارسی شاعری کا ایک بے بہا اور لازوال خزانہ ہمارے پاس موجود ہے۔ رودکی سے لیکر ملک الشعراء بہار تک کتنے ہی عظیم فارسی شعراء کا کلام ہمیں ملتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے اسلوب میں زبان و بیان و خیال کے کیا کیا جوہر دکھائے ہیں۔

گو برصغیر پاک و ہند میں فارسی کا وہ رواج نہیں رہا جو کہ کبھی تھا لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ فارسی اور فارسی شاعری کے عشاق اب بھی بہت ہیں اور اسکی ایک مثال ہماری اردو محفل ہی ہے، جہاں نہ صرف فارسی اور فارسی شاعری کو پسند کرنے والے احباب موجود ہیں بلکہ فارسی سمجھنے اور جاننے والے بھی موجود ہیں۔

ذاتی طور پر مجھے فارسی بالعموم اور فارسی شاعری بالخصوص بہت اچھی لگتی ہے گو فارسی میں درک واجبی سا بھی نہیں ہے۔ یہاں میں فارسی کے کچھ خوبصورت اور اپنی پسند کے اشعار پیش کر رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر احباب بھی اپنے پسند کے اشعار یہاں شیئر کریں۔
بہت اچھے وارث صاحب
 
Top