خواب نگر

الف عین

لائبریرین
پوچھو کیوں ؟

ڈال پہ بیٹھی اک چڑیا
گاتی ہے چوں چوں چوں
پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

باغ میں ہے اک پھول کھلا
ہرسو سبزہ ہرابھرا
جھرنے کا پانی بہتا
بول رہا ہے کابک میں
ایک کبوتر غٹرغوں
پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

مہکی مہکی ہوا چلی
اٹھلاتی ہے اک تتلی
نیل گگن میں پتنگ اڑی
پنکھ پسارے جنگل میں
مور کرے پیہوں پیہوں
پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

بوند آسماں سے ٹپکی
سوندھی سوندھی مہک اٹھی
بادل میں ہے دھنک تنی
پچھواڑے گلیارے میں
کتّا بھونکا بھوں بھوں بھوں
پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

مالک ڈنڈا برسایا
کتّا کوئی نیا آیا
چور کو کوئی دوڑایا
آج اچانک صبح صبح
بلّی بولی میاؤں میاؤں میاؤں
پوچھو ، پوچھو ، پوچھو کیوں؟

مکّھن دودھ نظر آیا
پیار سے کوئی سہلایا
یا پھر بلّا غرّایا!
 

الف عین

لائبریرین
آؤ پیڑ لگائیں

آؤ بچائیں
اس دھرتی کو کمہلانے سے
برساتوں کو رک جانے سے
ہرے بھرے ہر منظر کو
دھوئیں کے اندر کھو جانے سے

آؤ پیڑ لگائیں !
اس دھرتی کو خوب سجائیں
ہرے بھرے ان پیڑوں کی
جھنڈی لے کر
بادلوں کی رکی ہوئی
ٹرین کے آگے لہرائیں
آؤ ہم سب پیڑ لگائیں !
 

الف عین

لائبریرین
پیڑنہ کٹنے پائے

پھولوں سے ہر شاخ لدی ہے
ٹھنڈک ہر سو پھیل رہی ہے
دنیا ان سے ہری بھری ہے

پیڑ ہمارے ہمسائے
دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

چین و سکوں ان ہی سے پایا
اس دھرتی کا یہ سرمایہ
دھوپ میں تپ کر دیں یہ سایہ

جینے کا انداز سکھائے
دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

دور دور سے پنچھی آئیں
پیڑ پہ بیٹھیں گیت سنائیں
سرد پڑی ہیں گرم ہوائیں

پیڑ پھلوں کے تحفے لائے
دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے
 

الف عین

لائبریرین
نغمۂ استقبالیہ

یہی ہے راہِ معرفت ، ہے منزلوں کا یہ نشاں
ہے فکرو فن کا یہ جہاں ، یہ حکمتوں کا راز داں
یہ علم کی ہے سر زمیں ، فضیلتوں کا آسماں
مہک اٹھی فضائیں بھی ہر ایک سمت روشنی
مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی
خوش آمدید خوش آمدید
قدم قدم ہے فرش گل ،نظر نظر ہے کہکشاں
نگاہِ دلنواز میں بلندیاں ، تجلّیاں
ہے اک خرا مِ ناز سے یہ قافلہ رواں دواں
دیارِ علم و فضل میں ہے آمد اک بہار کی
مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی
خوش آمدید خوش آمدید
یہ پتّیاں ، یہ کونپلیں ، یہ برگِ گل ،رویدگی
یہ فرشِ خاک ، یہ زمیں ، نموپذیر زندگی
بشارتِ جہانِ نو ، نوید ہے بہار کی
نگاہ و دل ہے فرشِ گل ،ان آہٹوں پہ آپ کی
مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی
خوش آمدید خوش آمدید
 

الف عین

لائبریرین
یومِ آزادی
آزاد یہ زمیں ہے آزاد یہ گگن ہے
آزاد ہیں ہوائیں آزاد یہ چمن ہے
دامن میں بھر کے اپنے خوشیاں ہزار لایا
تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد ہم ہوئے تھے تفریقِ من و تو سے
آزادیاں ملیں ،جب سینچی زمیں لہو سے
اہلِ وطن کو جینا تب سازگار آیا
تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپو کی آس ہے یہ نہرو کا خواب ہے یہ
آزاد کی تمنّا اک آفتاب ہے یہ
بامِ افق ہے روشن اک زرنگار آیا
تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راتیں وہ ڈھل چکیں ہیں راہیں کھلی ہوئی ہیں
کچھ دور منزلیں ہیں آواز دے رہی ہیں
اجڑے ہوئے چمن میں بن کر بہار آیا

تاریخِ ہند میں یہ
دن یاد گار آیا
 

الف عین

لائبریرین
اے میرے پیارے وطن

اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں
یہ جہاں اک شہر ہے ، تیری زمیں ہے گلستاں

گاندھی نہرو کی زمیں ،سردار و جوہر کا وطن
دھرتی یہ آزاد کی ، آزاد ہے اس کا گگن
امرت ہے یہ گنگ و جمن، باغِ عدن اس کے چمن

عکس تاروں کا تیرے ذرّوں میں اب بھی ہے نہاں
اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

حال بھی تو ہی میرا ،تو ہی میرے خوابوں کا کل
تو میرا ارمان ہے ، آموجۂ خوں میں مچل
آمیری آواز بن ، آجا میرے نغموں میں ڈھل

میری آواز و قلم سب ہی ہیں تیرے نغمہ خواں
اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

ایک ہے یہ گلستاں ،گو رنگ و بو ئے گل جدا
ایک ہیں بندے سبھی ، اور ایک ہے ان کا خدا
ایکتا کے درس سے مہکی ہوئی اس کی فضا

تیرے دامن میں نہاں ہے آرزوؤں کا جہاں
اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں
 

الف عین

لائبریرین
میرا بھارت مہان
م محبّت ہمیں اپنے پیارے وطن سے
ی یہاں کی زمیں سے یہاں کے گگن سے
ر رہے اس کی قسمت کا اونچا ستارہ
ا اسے رہبری کا ہو حاصل اجارہ

بھ بھٹکتی ہے تاریکیوں میں یہ دنیا
ا اسے ہند سے ہو میسّر اجالا
ر رہی یہ زمیں علم و عرفاں کا مسکن
ت تمدّن کا تہذیب و الفت کا گلشن

م ملے اس کی ندیوں میں امرت کے دھارے
ہ ہمالہ سے اونچے عزائم ہمارے
ا الگ ہے زمانے سے انداز اپنا
ن نرالے ہیں نغمے، جدا ساز اپنا
 

الف عین

لائبریرین
الوداع
)تضمین(
)اسکول میں الوداعی تقریب میں پیش کی گئی ایک نظم(
اشک آنکھوں میں جھلملائے ہوئے
دل میں طوفان اک اٹھائے ہوئے
لبِ اظہار تھر تھر ائے ہوئے
کیسا لمحہ یہ وقت لے آیا
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
لطف و مہر و وفا بھری باتیں
علم و دانش ادب کی سوغاتیں
جگمگائیں گی عمر بھر یادیں
ساتھ لے جائیں گے یہ سرمایہ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
اے میری درس گاہِ عرفاں جو
تجھ سے ہے علم کی ضیاءہر سو
میرے کردار میں تری خوشبو
تجھ سے رازِ حیات ہے پایا
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
 
Top