خواب نگر

الف عین

لائبریرین
انتساب

عائیشہ حنا
توصیف احمد
اور
محمّد انس
کے نام جو میرے
جگر پارے اور
اس خواب نگر کے باشندے بھی ہیں!
 

الف عین

لائبریرین
حمد

حمد و ثنا اسی کی جس نے جہاں بنایا
مٹّی میں جان ڈالی آرامِ جاں بنایا
غنچے کھلائے اس نے پھولوں کو تازگی دی
اظہارِ التجا کو حرف و بیاں بنایا
پیروں تلے ہمارے ممتا بھری زمیں دی
مشفق سا اپنے سر پر اک آسماں بنایا
راہیں اسی کی صنعت سمتیں اسی کی قدرت
بخشے ہیں ہم قدم بھی اور کارواں بنایا
بربادیوں رکھ دی امن و اماں کی صورت
عشرت کد وں کو اس نے عبرت نشاں بنایا
لفظوں کی ساری دنیا اس کی ثنا سے قاصر
اک لفظِ کن سے اس نے سارا جہاں بنایا
 

الف عین

لائبریرین
اے دو جہاں کے مالک
اے دو جہاں کے مالک
ہر جا ہے تیری قدرت
سبزہ دیا زمیں کو
سورج کو روشنی دی
ٹھنڈک ہوا میں بھر دی
پھولوں کو روشنی دی
اے دو جہاں کے مالک
ہر جا ہے تیری قدرت
چڑیوں کے چہچہے ہیں
ہونٹوں پہ قہقہے ہیں
بہنے لگیں ہوائیں
جھرنے امڈ پڑے ہیں
اے دو جہاں کے مالک
ہر جا ہے تیری قدرت
منزل کا تُو پتہ دے
راہیں سجھائے تُو ہی
تُو تشنگی بڑھائے
چشمہ دکھائے تو ہی
اے دو جہاں کے مالک
ہر جا ہے تیری قدرت
دن تھک گیا تو تُو نے
شب کا دیا بچھونا
تارے سجادئے اور
اک چاند بھی اگایا
اے دو جہاں کے مالک
ہر جا ہے تیری قدرت
رشتوں کو دی حلاوت
ماں باپ کی محبتّ
ہمجولیوں کی الفت
رحم و وفا ، مروّت
اے دو جہاں کے مالک
ہر جا ہے تیری قدرت
 

الف عین

لائبریرین
نعت

رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی
آپ کی زندگی روشنی روشنی
خوابِ غفلت سے اک دن جگایا ہمیں
زندگی کا قرینہ سکھایا ہمیں
آپ ہی نے خدا سے ملایا ہمیں
ہم کو کافی ہے بس آپ کی رہبری
رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی
دے گئے ہم کو انسانیت کا چلن
دشمنی دوستی میں بدلنے کا فن
اپنے مالک سے ملنے کی سچّی لگن
کیسی نایاب چیزیں عطا آپ کی
رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی
ظلم و ظلمت میں سب کا سہارا بنے
علم و حکمت کے د ر وا کئے آپ نے
عدل و انصاف زندہ ہوا آپ سے
آپ دنیا میں حق کاپیام آخری
رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی
آپ کی زندگی روشنی روشی
روشنی ،روشنی ،روشنی ،روشنی
 

الف عین

لائبریرین
حمد گاتی ہے زمیں

مالکِ ارض و سما کو یاد کرتا ہے جہاں
حمد گاتی ہے زمیں ،تسبیح پڑھتا آسماں
ہاتھ باندھے پیڑسارے جنگلوں میں ہیں کھڑے
سب مویشی اس کی عظمت میں رکوع کرتے ہوئے
جانور سب رینگتے سجدے میں ہیں گویا پڑے
ذرہ ذرہ اس زمیں کا رب کا ہے تسبیح خواں
یاد کرتا ہے خدا کو ہر گھڑی سارا جہاں
یہ زمیں اﷲکی حمد و ثنا میںہے مگن
اس کی پاکی کو بیا ں کرتا ہوا نیلا گگن
عظمتِ رب کے قصیدہ خواںہیں یہ کوہ و دمن
اک اسی کے نام سے روشن ہوئے کون و مکاں
یاد کرتا ہے خدا کو ہر گھڑی سارا جہاں
اس کی عظمت کے شواہد چار جانب ہیں عیاں
ہے ہر اک ذرّہ کے دل میں مالکِ مُلکِ جہاں
کیوں مگر انسان اپنے ر ب سے غافل ہے یہاں
مالکِ ارض و سما کو یاد کرتا ہے جہاں
حمد گاتی ہے زمیں ،تسبیح پڑھتا آسماں
 

الف عین

لائبریرین
راشٹر گیت (منظوم ترجمہ)

(رابندرا ناتھ ٹیگور کے تخلیق کردہ ترانے "جن گن من۔۔" کا منظوم ترجمہ)

ہر ذہن و دل پہ یا رب پر تیری ہی حکمرانی
بھارت کا ہو مقدّر ہر گام کامرانی

پنجاب ہو کہ مہاراشٹر ،بنگال یا اڑیسہ
گجرات و سندھ کی ہو یا ہو زمیں دکن کی

بامِ فلک کو چھوتے یہ وندھیہ یہ ہماچل
گنگ و جمن کی موجیں ،بحرعرب کا پانی

ہر چیز پر ہے گویا تیرا نشان،عظمت
ہر لہر میں ہے تیرا ذکرِ مدام جاری

تیرا ہی نامِ اقدس لے کر اٹھے زباں پر
ہم خیر کے ہیں طالب مصروفِ حمدِباری

خوشیاں جہان بھر میں تقسیم کرنے والے
بھارت کا ہو مقدّر تاحشر کامرانی
 

الف عین

لائبریرین
چھٹّی کا زمانہ

اسکول بند ہیں سب اب سیر کو ہے جانا
لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا
بستہ کتاب کاپی سب چھٹّیاں منائیں
بارِگراں سے ان کے ہم بھی نجات پائیں
بستے میں جو بندھا ہے اس کو جہاں میں دیکھیں
کیا کیا کہاں چھپا ہے آ ؤ پتہ لگائیں
سنتے ہیں کچھ عجب ہے دنیا کا کارخانہ
لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا
آؤ سنیں کہانی ، کوئی نئی پرانی
نانی سنائیں یا پھر ، دادی کی ہو زبانی
اک راکشس بھی آئے ،ہو خوب کھینچا تانی
ایسی لڑائی ہو کہ آجائے یاد نانی
پھر خاتمہ میں آکر دشمن کا ہار جانا
لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا
بس کھیلنے کی خاطر یہ چھٹّیاں ملی ہیں
ہر سو کھلاڑیوں کی کچھ ٹولیاں بنی ہیں
لہرا رہے ہیں بلّے ، گیندیں اچھل رہی ہیں
فٹ بال کی بھی ٹیمیں میداں میں آ گئی ہیں
تگڑا مقابلہ ہے کچھ کرکے ہے دکھانا
لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا
ہر سمت ہر ڈگر پر چھٹی کا راج قائم
آنکھوں میں جھلملاتے ہیں سیر کے عزائم
جی چاہتا ہے صدیوں زندہ رہیں یہاں ہم
قائم رہے یہ چھٹّی ، دائم رہے یہ موسم
بس سوچ ہی تو ہے یہ ،ممکن نہیں یہ مانا
لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا
 

الف عین

لائبریرین
مرغا
ککڑوں کوں جی ککڑوں کوں

دیکھو میں اک مرغا ہوں

تم ہو انساں سوئے ہوئے
اور میں دیکھو جاگا ہوں

رات کو جاتے دیکھ چکا
صبح کی آہٹ سنتا ہوں

منظر صبح کا ہے ایسا
تم کو کیوں آواز نہ دوں

سورج کا رتھ نکلا ہے
بستر میں تم چھپے ہو کیوں

سن لی میری بانگ مگر
پھر بھی نہ رینگی کان پہ جوں
 

الف عین

لائبریرین
سرکس

شہر میں سرکس آیا ہے
کھیل تماشے لایا ہے
ہاتھی اونٹ اور گھوڑے ہیں
سب ہی یوں تو بھگوڑے ہیں
سب کو پکڑ کر لایا ہے
شہر میں سرکس آیا ہے
اڑتی اچھلتی کار بھی ہے
کھیلوں کی بھر مار بھی ہے
سارے کھلاڑی اور جوکر
تار پہ چلتے ہیں سرسر
شہر امڈ کر آیا ہے
شہر میں سرکس آیا ہے
شیر بھی ہے اور بکری بھی
کتّوں کی اک ٹولی بھی
ایک بڑا سا بھا لو ہے
کچھ اس کے ہمجولی بھی
بھان متی کا کنبہ ہے
جو سرکس نے جوڑا ہے
ہاتھی پوجا پاٹھ کرے
بندر بندر بانٹ کرے
بھالو ناچ دکھاتا ہے
طوطا توپ چلاتا ہے
سبھی دکھاتے ہیں کرتب
جوکر اب گرا یا تب
سب کے من کو بھایا ہے
شہر میں سرکس آیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
خواب نگر

آؤخواب نگر چلتے ہیں
آؤخواب نگر چلتے ہیں
ڈھونڈنے ایسی بستی جس میں خوشحالی بھی بستی ہو
خون نہ ہو پانی جیسا نہ موت جہاں پر سستی ہو
امن اور چین جہاں کے باسی رعنائی سر مستی ہو
آؤٔخواب نگر چلتے ہیں
خواب نگر میں سنتے ہیں کچھ پیڑ بھی اونچے اونچے ہیں
جن کی شاخوں پر جھولا کرتے سپنوں کے خوشے ہیں
سپنوں کی گٹھلی کے اندر رستے راج محل کے ہیں
آؤخواب نگر چلتے ہیں
خوابوں میں رس گلّے ،بالو شاہی ،حلوہ پوری ہو
بریڈ پکوڑے ،شاہی ٹکڑے گپ چپ اور کچوری ہو
بریانی کے ساتھ ہو قلیہ ،روٹی بھی تندوری ہو
آؤخواب نگر چلتے ہیں
سونے چاندی کی دیواریں ،اونچے اونچے بنگلے ہوں
ہیروں کا آنگن ہو اور بلّوریں سارے جنگلے ہوں
دم بھر میں دھنوان ہمارے شہر کے سارے کنگلے ہوں
آؤخواب نگر چلتے ہیں
اچّھے انساں بننے کا اک پیارا خواب سجائیں
آؤ ہم اس دھرتی کے چاند ستارے بن جائیں
سچ ہو جائیں خواب ہمارے ایسا کچھ کر جائیں
آؤ خواب نگر چلتے ہیں
آؤ خواب نگر چلتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
گیت مالا

ہرے بھرے جنگل میں، سندر سا اک پیڑ کھڑا تھا
پیڑ پہ بیٹھے پنچھی، بنتے رہتے گیت کی مالا

ہوا نے میٹھے گیت کی مالا اپنے گلے میں ڈالی
اُڑتی پھری پھر وہ دیوانی پربت پربت ڈالی ڈالی

دھرتی نے جب گیت سنے تو لینے لگی انگڑائی
انگڑائی نے بادل کو اس گیت کی بات بتائی

بادل بھیس بدل بارش کا دوڑا دوڑا آیا
ساری دھرتی جل تھل ہوگئی ٹوٹ کے پانی برسا

پنچھی اُڑ اُڑ کر آئے سب چہکے گیت سنایا
بادل بارش کا موسم بن جنگل میں لہرایا
 

الف عین

لائبریرین
چوہوں کا ہنگامہ

اک دن چوہے کچن میں آئے
اچھلے ،کودے ،ناچے گائے
خالی دیکھ کے پورا کمرہ
ڈال دیا ان سب نے ڈیرہ
سامنے ان کے جو کچھ آیا
کچھ کچھ کھایا ،بہت گرایا
دانتوں سے اک کیک بھی کترا
ننھا سا بادام چرایا
فرش پہ چینی بھی پھیلادی
مکھّن کی شیشی لڑھکادی
ڈھمّک ڈھمّک ڈھول بجاتے
ٹین کے ڈبّوں پر جا بیٹھے
رات ہوئی تو میاں پکوڑے
لوٹ کے جب دفتر سے آئے
کچن کا جاکر کھولا تالا
وہاں پہ دیکھا حال نرالا
کمرہ میں تھے کچھ تو چوہے
باقی پیٹ میں دوڑ رہے تھے
ٹھن ٹھن کرتی ہانڈیوں سے
کچھ اپنا سر پھوڑ رہے تھے
سارا اچھّا مال اڑا کر
بیٹھے تھے سب راج جماکر
غصّے میں تھے میاں پکوڑے
ادھر ادھر وہ جم کر دوڑے
چوہا کوئی ہاتھ نہ آیا
گھنٹہ بھر تک انھیں تھکایا
اتنے میں پھر ہوا دھماکہ
کھڑکی سے بلّی نے جھانکا
کہ کر میاوں جو ہانک لگائی
جان پہ چوہوں کے بن آئی
مرنے کی جب نوبت آئی
پھر نہ کچھ بھی دیا سجھائی
دُمیں دباکر سارے بھاگے
بلّی پیچھے ، چوہے آگے
 

الف عین

لائبریرین
مچھر نامہ

بھن بھن کرتا آئے مچّھر
کان ہمارے کھائے مچّھر
شام ہوئی تو فوج بناکر
گھر گھر میں گھس آئے مچّھر
خون تمہارا ہم کو پیارا
گیت یہی اک گائے مچّھر
ہر کوئی بیزار ہے ان سے
کب ہیں کسی کو بھائے مچّھر
خون کے پیاسے ذرا ذرا سے
کیسا خوف جگائے مچّھر
ننّھے ننّھے ڈراکیولے ہیں
خون کی کھوج میں آئے مچّھر
ڈستے ہی سب چینخ اٹھے ہیں
ہائے رے مچّھر ہائے مچّھر
ڈستا تو ہے سانپ بھی لیکن
خون بھی پی کر جائے مچّھر
گندے پانی کے یہ ساتھی
کیچڑکے ہمسائے مچّھر
تحفہ لے کر بیماری کا
بستی بستی جائے مچّھر
میٹ ،کوائل اور مچّھر دانی
ان سب سے گھبرائے مچّھر
انساں ہی کے خون پہ پل کر
اس جیسا اترائے مچّھر
خون بہاتے انسانوں کو
دیکھے اور شرمائے مچّھر
 

الف عین

لائبریرین
چچانرالے

چھتری تالے کولر والے
چاچا ہیں اک بڑے نرالے
کام سے ان کے ہے یہ ظاہر
اپنے فن میں ہیں یہ ماہر
ہر شے کی یہ کریں مرمّت
لوگوں کو پہنچائیں راحت
گرمی میں پنکھا بنوالو
کولر روٹھ گیا ہو لاؤ
چھتری سے گر ٹپکے پانی
ہوئی ہو ٹیڑھی کوئی کمانی
پھٹا ہوا ہو اس کا کپڑا
ٹوٹ گیا ہو کوئی پرزہ
ٹارچ میں ، اسٹو میں ،کولر میں
کوئی خرابی ہو مکسر میں
ہر گڑبڑ پر نظریں گہری
غضب کے ہیں یہ کاریگر بھی
چپکے سے برسات گئی تو
چھتری اس کے ساتھ گئی لو
جب جب دھندہ پڑا ہے مندہ
چاچا نے تب بدلا دھندہ
چابی گم ہو جائے جب بھی
چاچاجی کو ڈھونڈیں سب ہی
بن تالے کی چابی لاؤ
ہر تالے کی چابی پاؤ
ساری چیزیں ان سے بولیں
اپنے دل کا دکھڑا رولیں
ہرشے کا یہ کریں علاج
اس پیشے میں ان کا راج
چھتری تالے کولر والے
چاچا ہیں اک بڑے نرالے
 

الف عین

لائبریرین
مسٹرٹوٹ بٹوٹ

آئیے ا ن سے ملواتے ہیں یہ ہیں مسٹر ٹوٹ بٹوٹ
اپنی دسویں سالگرہ پر سلوایا ہے کیسا سوٹ

ٹھنڈی راتوں جیسی ان کی لمبی سی اک ٹائی
جھل جھل کرتا ان کا چشمہ ،چم چم کرتا ان کا بوٹ

سالگرہ کی تیّاری کا کچھ ایسا ہنگامہ تھا
ان کے ڈیڈی کے بٹوے کی مچی ہوئی ہو جیسے لوٹ

اتنے لوگوں کو دیکھا تو تن میں جوش سمایا
کیک کو اتنے زور سے کاٹا ،گئی چھری ہی ٹوٹ
 

الف عین

لائبریرین
ماما

الٹا کرتہ پہنیں ، الٹا ہی پاجامہ
ساری دنیا کہتی ہے ان کو ماما

جوتے کی جوڑی کا بچھڑ گیا اک جوتا
دیکھو ان کے گھر میں برپا ہے ہنگامہ

نام ہی نام ہے ان کا کوئی کام نہیں ہے
نام نہ لکھنا جانیں کہلائیں علّامہ

بہادری میں ان کا کوئی نہیں ہے ثانی
گلی میں جیسے چوہا ، گھر کے اندر گاما

سورج ان کی چہرہ میں اپنا مکھڑا دیکھے
صورت سے وہ لگتے ہیں خود بھی چندا ماما

خواب نگر کے اندر وہ دن اور رات بِتائیں
جانے کب پہنائیں گے خواب کو عملی جامہ
 

الف عین

لائبریرین
ان سے ملئے

آئیے ان سے ملواتے ہیں یہ ہیں مسٹر انسٓ
نام ہے ان کا ننّھا منّا عمر بھی ہے دو برس

کالے کالے بال نرالے جیسے شام اودھ کی
نکھرا نکھرا گورا مکھڑا جیسے صبحِ بنارس

چوکڑیاں یوں بھرتے ہیں یہ جیسے ہرن جنگل میں
دھیان میں ایسے مست کھڑے ہیں جیسے کوئی سارس

بڑے نڈر ہیں بڑے بڑوں سے نہیں یہ ڈرنے والے
اپنے سے چھوٹوں پر لیکن کھا لیتے ہیں ترس

ہر شے کو چھوتے پھر نے کی ادا اچھوتی ان کی
جیسے خود کو سمجھ رکھا ہو چلتا پھرتا پارس

جہاں یہ جائیں رنگ جمائیں ،ایسے ان کے ڈھنگ
جس محفل میں یہ نہ ہو وہ محفل ہے بے رس
 

الف عین

لائبریرین
مسٹر چیونگم

ان سے ملئیے
یہ ہیں مسٹر چیونگم
منھ میں اپنے رکھ لو ان کو
دانتوں سے پھر کچلو ان کو
چکھ لو پر نہ نگلو ان کو
چکھنے سے نہ ہوں گے کم
یہ ہیں مسٹر چیونگم
بچّے بڑے ان کے دیوانے
چلے ہیں سارے ان کو کھانے
جان کے بنتے یہ انجانے
ان کو کوئی نہیں ہے غم
یہ ہیں مسٹر چیونگم
لال ہرے اور پیلے ہیں
کپڑے بھی بھڑکیلے ہیں
نٹ کھٹ چھیل چھبیلے ہیں
مزہ ہے ان کا یا سرگم
یہ ہیں مسٹر چیونگم
 

الف عین

لائبریرین
بِھنڈی بولی ٹِنڈے سے

بھنڈی بولی ٹنڈے سے ؛
”اکڑرہے ہو ٹھنڈی سے!
آئے کہاں سے ہو بابو ؟“

ٹِنڈا بولا ؛
”میں آیا جی ، بھٹِندے سے “
بھنڈی نے پھر منھ کھولا ؛
”کب سے ہو اس منڈی میں؟“

بولا؛
”پچھلے سنڈے سے “
’دوستی بھی ہے کسی سے کی؟
”بس مرغی کے انڈے سے“
”ڈرتے بھی ہو کسی سے تم‘
”جی بائی جی! ڈنڈے سے “
 
Top