خدا کس کی سنتا ہے! اشفاق احمد

خدا کس کی سنتا ہے! اشفاق احمد


ہم اہلِ ’’زاویہ‘‘ کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ ابھی تھوڑی دیرپہلے جب ہم میز کے گرد جمع ہو رہے تھے تو ہم دریاؤں، پانیوں اور بادلوں کی باتیں کر رہے تھے اور ہمارے وجود کا سرا ،اندرونی حصہ ، پانیوں میں بھیگا ہوا تھا اور ہم اپنے اپنے طور پر دریاؤں کے منبع ذہنی طور پر تلاش کر رہے تھے کیونکہ زیادہ باہر نکلنا تو ہمیں نصیب نہیں ہوتا۔ جغرافیے کی کتابوں یا رسالوں جریدوں کے ذریعے ہم باہر کی دنیا بارے معلوم کرنا چاہتے ہیں اور معلوم کر بھی لیتے ہیں۔ دریاؤں کی باتیں جب ہو رہی تھیں تو میں سوچ رہا تھا کہ دریا بھی عجیب و غریب چیز ہیں،نہ ان کا کوئی نروس سسٹم ہے نہ دماغ ہے پھر کس طرح سے دریا کو پتہ چل جاتا ہے کہ سمندر کس طرف ہے اور اسے ایک دن جا کے ملنا ہے بغیر کسی نقشے کے۔ دریا بغیر کسی سے پوچھے سمندر کی طرف رواں دواں ہے اور کہیں اگر اس کے دو حصے ہو جاتے ہیں تو وہ دونوں چکر کاٹ کے مل کے پھر سمندر ہی کی طرف محوِ سفر رہتے ہیں اور بد قسمتی سے اگر دریا کی کوئی شاخ کسی ایسے مقام پر رُک جاتی ہے جہاں بہت ہی سنگلاخ چٹان ہو اور وہ شاخ اس سے سر ٹکراتی ہے اور وہاں سر پھوڑتی ہے کہ مجھے مت روکو مجھے جانے دو اور سنگلاخ چٹان اسے کہتی ہے کہ میں تو سوا کروڑ سال سے یہاں کھڑی ہوں میں کیسے ایک طرف کو ہٹ جاؤں۔ وہ بھی دریا کی شاخ ضدی ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر تو مجھے نہیں گزرنے دے گی تو میں بھی یہاں کھڑی ہوں چنانچہ دریا کے اس پانی کے ساتھ جو اس سنگلاخ چٹان کے ساتھ ٹکراکے رُک جاتا ہے کیڑے پڑے جاتے ہیں وہاں، بھینسیں آجاتی ہیں گوبر جمع ہونے لگتا ہے۔ بدبو دار اور متعفن پانی گزرتا ہے اور اس کا وہ حصہ جو سفر پر رواں دواں تھا اور ایسی سنگلاخ چٹان آنے پر راستہ چھوڑ کے دوسری طرف سے گزر جاتا ہے وہ دریا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے بالکل اسی طرح سے انسانی زندگی ہے جہاں انسان ضد میں آکر رُکتا ہے لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو پھر اس کے آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے جو بھی مقامات ہیں وہ مسدود ہو جاتے ہیں۔ آج سے بہت عرصہ پہلے میرے خیال میں سوڈیڑھ سو برس قبل کی بات ہے لکھنؤ کے قریب ایک قصبہ سندیلہ ہے وہاں کے لڈو اور شاعر مشہور ہیں۔ وہ شاعر بڑے اعلیٰ پائے کے ہیں۔ لکھنؤ میں بڑے شاعر تھے لیکن سندیلے کے شاعر اصلاح دیتے تھے اور اس کی اُجرت وصول کرتے تھے۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ سندیلے میں بہت زبردست Drought یعنی خشک سالی ہو گئی اور وہاں کے نواب اور چھوٹی چھوٹی راج دھانیاں تمام کی تمام سوکھے کا شکار ہو گئیں۔ اس قدر صورتحال خراب ہوئی کہ زمین کا کلیجہ خشکی سے پھٹنے لگا۔ جگہ جگہ پر پھٹی ہوئی زمین کے آثار نظر آنے لگے۔ ڈھورڈنگر، مویشی مرنے لگے اور ان کے بڑے بڑے پنجر اور سینگ جگہ جگہ پڑے نظر آتے۔ پرندوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ گئے تو پھر لوٹ کے نہیں آئے لوگوں نے آکر مکھیا کے پاس شکایت کی۔ وہ مکھیا لڑکھڑاتا نواب کے پاس گیا کہ حضور لوگ گاؤں چھوڑ کر جانا چاہ رہے لہٰذا نمازِ استسقاء پڑھی جانی چاہیے کیونکہ اس طرح تو گاؤں ہی خالی ہو جائے گا۔ چنانچہ نمازِ استسقاء ادا کی گئی لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا جس سے لوگوں کی مایوسیوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ہندوؤں نے کہا کہ ہم اپنا ناقوس بجا کر اور بھجن گا کر بھگوان کو راضی کرتے ہیں شاید وہ بارش بھیج دے۔ انہوں نے اپنا پورا زور لگایا لیکن کچھ نہ ہوا۔ جب ڈھور ڈنگروں کے بعد انسان بھی مرنے لگے تو اس علاقے کی طوائفیں وہ سارے اُتر پردیش میں بہت مشہور تھیں اپنا چھوٹا سا گر وہ لے کر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ جنتاپر بہت کڑا اور برا وقت آیا ہے اور اس برے وقت سے ہم سب مایوس ہو گئے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ایک بات آتی ہے اگر ہمیں اس کی اجازت دی جائے تو ہم شاید اس علاقے اور آپ کی کچھ مدد کر سکیں۔ نواب صاحب نے کہا کہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے طوائفوں نے کہا کہ ہم بھی ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر کھلے میدان میں جا کر بیٹھیں گی اور ہم بھی کچھ گریہ وزاری کریں گی لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی آدمی اس طرف نہ آنے پائے۔ اُن کی وہ شرط منظور کر لی گئی۔ وہ اپنے قیمتی گھروں اور سونے چاندی کے زیورات اور جو بھی کچھ ان کے پاس تھا اپنے بالا خانوں پر چھوڑ کر سیڑھیاں اُتریں۔ انہوں نے سفید رنگ کی نیلی کنی والی دھوتیاں باندھی ہوئی تھیں۔ ایک چرواہے نے یہ آنکھوں دیکھا حال بتایا تھا حالانکہ کسی مرد کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ جب اس مخصوص جگہ پر آئیں تو انہوں نے گڑگڑا کر اللہ سے درخواست کی اے خدا تو جانتا ہے ہمارے افعال کیسے ہیں اور کردار کیسا ہے اور ہم کس نوعیت کی عورتیں ہیں۔ تو نے ہمیں بڑا برداشت کیا ہے۔ ہم تیری شکر گزار ہیں لیکن یہ ساری مصیبت جو انسانیت پر پڑی ہے یہ ہماری ہی وجہ سے ہے۔ اس علاقے میں جو خشک سالی آئی ہے وہ ہماری موجودگی سے آئی ہے اور اس ساری خشک سالی کا کارن ہم ہیں۔ ہم تیرے آگے سجدہ ریز ہو کر دل سے دُعا کرتی ہیں کہ بارش برسا اور اُن لوگوں اور جانوروں کو پانی عطا کرتا کہ اس بستی پر رحم ہو اور ہجرت کر کے جانے والے پرندوں کو واپس آنے کا پھر موقع ملے اور وہ یہاں خوشی کے نغمے گائیں۔ چرواہا کہتا ہے کہ جب انہوں نے سجدے سے سر اُٹھایا تو اتنی گھر کے سیاہ گھَٹا آئی اور وہ چشمِ زدن میں بارش میں تبدیل ہو گئی اور ایسی زبردست موسلا دھار بارش ہوئی کہ سب جل تھل ہو گیا اور وہ عورتیں اس بارش میں بھیگیں اور اُن کی بغلوں میں چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں تھیں جنہیں لے کر وہ ایک طرف کو نکل گئیں۔ پھر کسی نے نہ اُن کا پوچھا اور نہ ہی اُن کا کوئی پتہ چلا کہ وہ کہاں سے آئیں تھیں اور کدھر چلی گئیں۔ انہیں زمین چاٹ گئی یا آسمان کھا گیا لیکن ساری بستی پھر سے ہری بھری ہو گئی۔ اُن طوائفوں کے گھروں کے دروازے کھلے تھے لوگوں نے ایک دو ماہ تو خود پر جبر کیا لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا قیمتی سامان چرانا شروع کر دیا اور تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان کے گھروں سے بڑی دیر تک ایسی قیمتی چیزیں برآمد ہوتی رہیں اور اناڑی چور اور پکے چور کئی سال تک وہاں سے چیزیں لاتے رہے۔ ان کی یہ Sacrifice ان کی یہ قربانی اور لوگوں کے ساتھ محبت اور تال میل اور گہری وابستگی کو جب میں آج کے تناظر میں دیکھتا ہوں اور آج میں اپنا اخبار پڑھتا ہوں تو مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ ہم جو پڑھے لکھے لوگ ہیں جو اُن طوائفوں سے بہت آگے نکل کر پانی پر جھگڑا کرتے ہیں کہ اس صوبے نے میرے اتنے قطرے پانی کے چھین لیے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں نے تجھے اتنے قطرے زیادہ دے دئیے۔ ان بیبیوں جیسی بلکہ بازاری بیبیوں جیسی کام کی بات نہیں کرتا اور ایسی کوئی بات کسی کے دل میں نہیں آتی اور کوئی بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ یہ پانی جو اللہ کی عطا ہے اور جو ہم کو جس قدر بھی مل رہا ہے اس کو بانٹ کے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ جب بھی ایسی خبریں دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں اور دل اغراض و مقاصد اور فوائد کے لیے اس طرح کی بانٹ یا اس طرح کی بندر بانٹ ہم کو سکھاتے ہیں۔ اگر ہم میں حُب الوطنی کا جذبہ بیدار ہو جائے اور ہم سمجھیں کہ اتفاق اور محبت سے ہی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ وہ بیبیاں جن کی مثال دی گئی ہے وہ متحد ہو کر جنگل میں گئی تھیں۔ اور اُن کے دل میں درد تھا اور انہوں نے اپنا ذاتی فائدہ چھوڑ دیا تھا تب وہ مسئلہ حل ہوا تھا۔ ہمارے اوپر جو بھی مسائل آرہے ہیں وہ پانی کے ہوں یا اناج کے اس میں Vested Interest کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔‘‘ ٭…٭…٭
 
Top