تبسم خدا جانے دلوں کے درمیاں یہ کیسا پردا ہے ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
خدا جانے دلوں کے درمیاں یہ کیسا پردا ہے
کہ جو بھی آشنا ہے ایک بیگانہ سا لگتا ہے

یہ میرے شوق کی ہے ابتدا یا انتہا کیا ہے
کہ جو بھی بات لب پر آ گئی حرفِ تمنّا ہے

نظر کی بات ہے ورنہ حجابوں میں رکھا کیا ہے
تمھارے منہ چھپانے پر بھی کیا کیا ہم نے دیکھا ہے

وفورِ ذوقِ نغمہ سے ملی منقار بلبل کو
مرا حسنِ نظر میری ہی تخلیقِ تمنّا ہے

جو کچھ ہم دیکھنا چاہیں وہی آئے نظر ہم کو
یہ دنیا تو ہماری آرزوؤں کا سراپا ہے

یونہی کہہ دی غزل ورنہ بقولِ حضرتِ غالب
"اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے"

یہ آنسو ہی نہیں تنہا فسانہ درد مندی کا
تبسّمؔ بھی تو آخر بے کسی کا ایک دکھڑا ہے

(صوفی تبسم)​
 
Top