خدایا یہ تیری جنت

سید عمران

محفلین
جن لوگوں نے دنیا میں آخرت کی تیاری کے لیے مشقتیں اٹھائیں۔۔۔مصیبتوں پر۔۔۔ بیماریوں پر۔۔۔ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں پر۔۔۔ ان کے کالے کرتوتوں پر۔۔۔ اذیتوں پر۔۔۔ رزق کی تنگی پر۔۔۔ جانی مالی نقصان پر۔۔۔ اور۔۔۔ گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔۔۔ سخت سے سخت حالات میں بھی اپنی تقدیر سے۔۔۔ اللہ سے ناراض نہیں ہوئے۔۔۔ کوئی شکوہ نہیں کیا۔۔۔آج ان کے صبر اور برداشت کا انعام مل رہا ہے۔۔۔ آج ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔۔۔ مارے خوشی کے دمک رہے ہیں ۔۔۔ ایک طرف اللہ کے رسول ان سے خوش۔۔۔ تو دوسری طرٖف اللہ ان سے راضی۔۔۔ دنیا کی تکلیفیں برداشت کرنا رائیگاں نہیں جارہا ہے۔۔۔ دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آئیں انہیں سہنا بڑا کام آرہا ہے۔۔۔
آج فرشتے اعلان کررہے ہیں ۔۔۔کائنات کی عظیم الشان کامیابی مبارک ہو۔۔۔دنیا کے رنج و الم کے گھر سے نجات مبارک ہو۔۔۔اب چلو جنت کو۔۔۔ امن و سکون والے گھر کو۔۔۔ رنگ و نور والی دنیا کو۔۔۔ خوشیوں اور شادمانیوں کو۔۔۔ جہاں ہمیشہ موج مستیاں ہیں۔۔۔ بیوی بچوں سے خوش گپیاں ہیں۔۔۔دوستوں کی محفلیں ہیں۔۔۔ دعوتیں ہیں۔۔۔ نعمتیں ہیں۔۔۔ اور وہ کچھ ہے جو ہم بیان نہیں کرسکتے اور تم دیکھے بغیر سمجھ نہیں سکتے۔۔۔
جنت روانگی کے اس عظیم الشان قافلے کی روانگی کا عجیب منظر ہے۔۔۔ دنیا میں تقویٰ سے رہنے والے۔۔۔گناہوں سے بچنے والے۔۔۔نیک اعمال کرنے والے۔۔۔آج گروہ در گروہ جنت کی جانب رواں دواں ہیں۔۔۔گاتے مسکراتے۔۔۔ہنستے ہنساتے۔۔۔نہ کوئی فکر نہ کوئی غم۔۔۔ نہ کوئی پریشانی نہ کسی نقصان کا اندیشہ۔۔۔
جنت کے راستے میں پانی کی ایک نہر ہے۔۔۔ اس کی لطافت۔۔۔ رنگ و روشنی۔۔۔ خوشبو اور مہک کون بیان کرسکتا ہے۔۔۔ کہا جائے گا اس سے غسل کرو۔۔۔ چمکتی دمکتی جنت میں جانے کے لیے خود بھی مہک جاؤ۔۔۔ چمک جاؤ۔۔۔ دمک جاؤ۔۔۔تب جو اس پانی سے نہائے گا۔۔۔معطر ہوجائے گا۔۔۔ رنگ و نور کا سیلاب اس کے جسم پر چھا جائے گا۔۔۔ اس کا لباس بن جائے گا۔۔۔
آگے جو نگاہ گئی۔۔۔ تو جنت کے دروازے پر اٹک گئی۔۔۔ کیا چمک ہوگی۔۔۔ کیا شعاعیں پھوٹ رہی ہوں گی۔۔۔ عقل دنگ اور زبان گنگ ہوجائے گی۔۔۔ جب۔۔۔ نگاہ جمائے ایک عالم گذر جائے گا۔۔۔ تب ۔۔۔ فرشتے کہیں گے۔۔۔ خدا کے ولی۔۔۔ چالیس برس بیت گئے۔۔۔ اب مزید کتنا انتظار؟؟؟ سب کہیں گے کیا یہ حسن کسی جنت سے کم ہے؟؟؟ کیا یہی ہماری جنت نہیں ہے؟؟؟ فرشتے ان کی معصومیت پر مسکرائیں گے۔۔۔ انہیں ترغیب دلائیں گے۔۔۔ آگے کی جانب بڑھنے کی۔۔۔ دائمی گھر میں جانے کی۔۔۔
پھر ۔۔۔ وہ بھی ایک منظر ہو گا جب لاکھوں کروڑوں لوگ جنت کے دروازے سے گذر رہے ہوں گے۔۔۔ بھیڑ کی وجہ سے کندھے سے کندھا چھل رہا ہوگا۔۔۔ ہنسنے بولنے سے رونق میلہ لگا ہوگا۔۔۔اور اس میلے کی رونق بڑھانے۔۔۔ خوشیوں کو چار چاند لگانے۔۔۔ فرشتوں کی ٹولیاں آئیں گی۔۔۔ ایک جائے گی دوسری آئے گی۔۔۔دوسری جائے گی تیسری آئے گی۔۔۔ پررونق چہروں کے ساتھ۔۔۔ نورانی جسموں کے ساتھ۔۔۔ استقبال کرنے کے لیے۔۔۔ خوش آمدید کہنے کے لیے۔۔۔ اھلاَ و سھلاً مرحبا۔۔۔سلامٌ علیکم طِبْتُمْ۔۔۔آئیے۔۔۔تشریف لائیے۔۔۔مبارک۔۔۔ سلامت۔۔۔ امن کے شہر میں۔۔۔ خوشیوں کے دیس میں۔۔۔ نعمتوں کے ملک میں داخلہ مبارک۔۔۔ اب یہاں سے کوئی نہیں نکالے گا۔۔۔ کبھی نہیں نکالے گا۔۔۔
اور۔۔۔ جنت پہلی دفعہ دیکھنے کے باوجود کسی کو اجنبی نہیں لگے گی۔۔۔ جانی پہچانی لگے گی۔۔۔ گویا اس سے کچھ بھولی بسری یادیں وابستہ ہیں۔۔۔ گویا کبھی ہم بھی اسی دیار کے باشندے تھے۔۔۔ گویا کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا۔۔۔آج رحمتِ خداوندی سے مومنوں کو ان کی میراث واپس مل رہی۔۔۔ تاکہ ان کے لیے رحمتوں کا اتمام ہو۔۔۔ نعمتوں کا اہتمام ہو۔۔۔ اور خدا کا فضلِ عام ہو۔۔۔
جنت میں داخل ہوتے ہی۔۔۔۔ فرشتوں کی مبارک سلامت وصول کرتے ہی۔۔۔ سب بکھر جائیں گے۔۔۔ اپنی اپنی جنتوں کی جانب روانہ ہوجائیں گے۔۔۔ خود بخود ہی۔۔۔ اپنے آپ ہی۔۔۔ جیسے وہ برسوں سے ان ہی راستوں پر چلتے رہے ہوں۔۔۔ اچانک راستے میں خوش لباس، خوش شکل، نور کے پیکر ان کو گھیر لیں گے۔۔۔ ان کے قدموں میں قالین بچھائیں گے۔۔۔ خوشبوؤں کی برسات کریں گے۔۔۔ کہیں گے ہم آپ کے خادم ہیں۔۔۔ آپ کے غلام بے دام ہیں۔۔۔ ہم آپ کے باغات تک۔۔۔ آپ کے محلات تک آپ کے ہمراہ ہوں گے۔۔۔
ان باغات۔۔۔ محلات۔۔۔ اور اشجار و انہار کا کیا کہنا۔۔۔ ایک طرف نظر دوڑائی تو دیکھا نعمتوں سے لدے گہرے سبز باغات ہیں۔۔۔ ایک باغ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔ دوسرا ختم تو تیسراشروع۔۔۔ دوسری طرف دیکھیں گے تو ایک کے بعد دوسرا محل۔۔۔ دوسرے کے بعد تیسرا۔۔۔ چم چم کرتے چاندی کے کلس۔۔۔ شعاعیں بکھیرتے سونے کے مینار۔۔۔ اور سرخ یاقوت کا گنبد سبز باغات کے درمیان ایسا سج رہا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔۔۔پلٹ کر پیچھے نظر دوڑائی تو سرسبز گھاس پر۔۔۔ رنگ برنگے خوشبو بکھیرتے پھولوں کے درمیان۔۔۔ چمک دار موتیوں کی مانند چھوٹے چھوٹے کم عمر خادم پھر رہے ہیں۔۔۔ کوئی جامِ شراب لارہا ہے تو کوئی گرم گرم کباب۔۔۔
نہریں ہیں کہ کہیں قدموں کو چھو کر گزر رہی ہیں۔۔۔ تو کہیں محل کے نیچے سے بہہ رہی ہیں۔۔۔ اور کہیں ہاتھ میں موجود سونے کی چھڑی کے اشارے سے رُخ بدل رہی ہیں۔۔۔ کہیں ٹھنڈے میٹھے۔۔۔ بے بدل ذائقے والے پانی کی نہریں ہیں ۔۔۔تو کہیں دودھ، شہد اور شراب نہروں کی شکل میں بہہ رہے ہیں۔۔۔ نہروں میں رواں کشتیوں پر بیٹھے سوار کو مچھلیاں پیشکش کرتی ہیں۔۔۔ ہمیں نوشِ جان فرمائیں تو ایسا ذائقہ کہیں نہ پائیں۔۔۔
وہم و گمان سے ماوراء ان حسین مناظر کے طلسم میں گم کتنے عالم گذر جائیں گے۔۔۔ کون جانتا ہے۔۔۔ وہاں کون ہے جو وقت کا حساب رکھے۔۔۔ اعمال کی کتاب لکھے۔۔۔ پھر۔۔۔ اچانک کانوں میں رس گھولتی آواز گونجے گی۔۔۔ جیسے فضاؤں میں گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔ سُر بکھر گئے۔۔۔ ترنم نے انگڑائیاں لیں۔۔۔ تب وہ چونکے گا۔۔۔ مخاطب کو دیکھے گا ۔۔۔ حسن و جمال کا پیکر جس کی خوبصورتی پر شاعری دم توڑ دے۔۔۔ غزل اپنی ذات پہ شرمندہ ہوکر منہ چھپاتی پھرے۔۔۔ سورج کی روشنی اندھیر ہوجائے۔۔۔ اور۔۔۔ چاند اپنی بے رونقی پر خاک اُڑائے۔۔۔
اس پیکر حسن و جمال کے سر کا ایک ایک بال اپنی تعریف خود کروائے گا۔۔۔ دانتوں کو موتی سے تشبیہ دینا ان کی توہین ہے۔۔۔ کیوں کہ۔۔۔ موتیوں سے نور نہیں نکلتا۔۔۔ کئی کئی لباس میں ملبوس ہونے کے باوجود ایک ایک لباس الگ الگ نظر آئے گا۔۔۔ لباس کا گھیر اتنا طویل کہ سینکڑوں حسین خادمائیں قطار اند قطار اس کی کمر سے دور تک جاتا دامن تھامے کھڑی ہوں گی۔۔۔ بڑی بڑی آنکھوں میں معصومیت، حیرت اور انتظار ہوگا۔۔۔ حیرت اس پر کہ بھلا میرے ہوتے ہوئے کسی اور جانب بھی نظر اٹھ سکتی ہے۔۔۔ اور انتظار اس بات کا کہ ہجر مزید کتنا طویل ہوگا!!!
دوستوں یاروں کی محفل کا۔۔۔ مجلس کا۔۔۔ بے تکلفی کا الگ ہی مزا ہے۔۔۔ دسترخوان اتنا وسیع کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں لیکن سب نظر کے اتنا نزدیک جیسے سامنے بیٹھے ہوں۔۔۔ اس دعوت میں شور ہوگا۔۔۔ ہنگامہ ہوگا۔۔۔ چھینا جھپٹی ہوگی۔۔۔ بد مزگی کوئی نہ ہوگی۔۔۔ شراب کا جام لیے موتی جیسے خادم اس انداز سے حاضر ہوں گے کہ سونے کے شفاف جام میں سرخ چمکتی شراب دور سے نظر آئے گی۔۔۔ یہ دنیا کی شراب کی طرح ناپاک نہ ہوگی۔۔۔ بدبودار نہ ہوگی۔۔۔بد ذائقہ نہ ہوگی۔۔۔ بد رنگ بھی نہ ہوگی۔۔۔ اسے پی کر نہ کوئی بے ہوش ہوگا۔۔۔نہ الٹیاں ہوں گی۔۔۔ اورنہ ہی کسی کے سر میں درد ہوگا۔۔۔اِدھر غلمان۔۔۔ وِلدان ۔۔۔ سرخ جام ہتھیلی پر دھرے حاضر ہوں گے۔۔۔ اُدھر درختوں کی شاخیں جھکی چلی آئیں گی۔۔۔ اپنے ثمر لُٹا ئیں گی۔۔۔ فضاؤں سے بھنے ہوئے پرندے اور دریاؤں سے تلی ہوئی مچھلیاں آئیں گی۔۔۔ اور ان کی بچی ہوئی ہڈیاں دوبارہ زندہ ہوکر واپس چلی جائیں گی۔۔۔ کیوں کہ جنت میں کسی کو موت نہیں۔۔۔ کسی کو بھی نہیں!!!
ایک دن۔۔۔ اچانک۔۔۔ یکایک ۔۔۔ معلوم ہے کیا ہوگا؟؟؟ عجب سماں ہوگا۔۔۔ جنت کا نور ایسا نکھرے گا کہ کبھی کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔۔۔ فرشتوں میں ہل چل مچ جائے گی جیسے کوئی عظیم الشان واقعہ رونما ہونے والا ہو۔۔۔ تب ۔۔۔سب اوپر کی طرف۔۔۔ اس نور کی طرف دیکھنے لگیں گے۔۔۔ جو ہر آن۔۔۔ ہر لحظہ۔۔۔ ہر لمحہ بڑھ رہا ہے۔۔۔ پھر اس حجاب سے۔۔۔ نور کے نقاب سے۔۔۔ کائنات عالم کے خالق۔۔۔ جنت کے مالک۔۔۔ مخلوقات کے رب۔۔۔ عزتوں کے رب۔۔۔ اللہ رب العزت بذات خود اپنی شان کے مطابق جنتیوں کو مخاطب کریں گے۔۔۔ شور و مستیوں کی ۔۔۔رنگ و نور کی اس جنت میں چاروں طرف سناٹا چھایا ہے۔۔۔ سانس سینوں میں رُک گئی ۔۔۔ پلکیں جھپکنا اور دل دھڑکنا بھول گیا۔۔۔
تب ان کی جانب سے سلام ہوگا۔۔۔ لطف آفریں کلام ہوگا۔۔۔ اللہ ایک ایک جنتی سے اس کا حال پوچھیں گے۔۔۔ پوچھیں گے تمہیں یہاں کوئی تکلیف تو نہیں؟؟؟ کسی چیز کی کمی تو نہیں؟؟؟ تم یہاں خوش تو ہو؟؟؟ تب سب کہیں گے۔۔۔ ہمیں امیدوں سے بڑھ کر ملا، گمان سے زیادہ پایا، جن کے حق دار نہ تھے وہ نعمتیں ملیں۔۔۔ ہماری اوقات سے زیادہ نوازا گیا۔۔۔ اب نہ کوئی حسرت ہے نہ آرزو۔۔۔ مگر یہ کہ آپ ہوں ہمارے روبرو!!!
تو اللہ کہیں گے کہ اچھا آجاؤ میدانِ مزید میں۔۔۔ یہاں دیدار عام ہوگا۔۔۔ کوئی محروم نہ ہوگا۔۔۔ سب کشاں کشاں اس میدان کی جانب چلیں گے جس کانام ’’مزید‘‘ ہے۔۔۔ اعلان ہوگا منبر سجایا جائے۔۔۔داؤد علیہ السلام کو بٹھایا جائے۔۔۔ پھر داؤد ہوں گے اور زبور کے نغمے۔۔۔ خدا کی حمد کے ترانے۔۔۔ ایک سماں ہوگا۔۔۔ سب دم بخود ہوں گے۔۔۔ ایک زمانہ گذرے گا تو یہ سحر ٹوٹے گا۔۔۔ جب داؤد خاموش ہوں گے تو اعلان ہوگا۔۔۔ منبر سجایا اور محمد کو بٹھایا جائے۔۔۔ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم۔۔۔ آج وجد میں سارا جہاں ہے کہ رسول عربی کی زباں ہے اور تلاوتِ قرآں ہے۔۔۔
آپ خاموش ہوں گے تو عالم پہ سناٹا طاری ہو گا۔۔۔ اربوں کھربوں لوگ ہوں گے لیکن سانسوں کی بھی آواز نہ ہوگی۔۔۔ پھر خداوندِ عالم کہیں گے۔۔۔ اب مجھ سے بھی کچھ سنو۔۔۔ اب میں اپنے بندوں کو۔۔۔ جنت کے مہمانوں کو سناؤں گا۔۔۔ پھر ان کی کیا شان ہوگی۔۔۔ ناقابل بیان ہوگی۔۔۔ تعریف سے لغت حیران ہوگی۔۔۔ بلاغت پریشان ہوگی۔۔۔ پھر جب اللہ تعالیٰ خاموش ہوں گے۔۔۔ تب۔۔۔ نگاہ مشتاق ہوگی۔۔۔ روح بے تاب ہوگی۔۔۔ کہ کب وعدۂ خدا پورا ہوگا۔۔۔ جن کی خاطر دُکھ جھیلے ان کا وصل ہوگا۔۔۔ آخر جنت کے داروغہ رضوان کو حکم ہوگا۔۔۔ یا رضوان ارفع الحجب۔۔۔ اے رضوان ہمارے اور ہمارے بندوں کے درمیان سے پردے اٹھانا شروع کرو۔۔۔ حکم کی تعمیل ہوگی۔۔۔ ایک ایک کرکے حجاب اٹھتے جائیں گے۔۔۔ دل خاموش ۔۔۔ سانس خاموش۔۔۔ نگاہیں متجسس۔۔۔ کب دیدار عام ہوگا۔۔۔ جلوہ تام ہوگا۔۔۔ یہاں تک کہ سارے حجاب اٹھ جائیں گے۔۔۔ آج لوگ اپنے خدا کو دیکھیں گے۔۔۔ مسکراتا ہوا۔۔۔ راضی اور خوش۔۔۔ نور ہی نور۔۔۔اللہ نور السموات و الارض!!!
لذت و انبساط کا یہ عالم ہوگا کہ کسی کو یاد نہ ہوگا کہاں کی جنت، کون سی حوریں۔۔۔ محبوب رب سامنے ہے۔۔۔ حواس گم ہیں۔۔۔ رخِ جلوۂ جاناں کے سامنے جنت ہیچ۔۔۔ حوریں ہیچ۔۔۔ ہر نعمت ہیچ۔۔۔ مخلوق اور خالق کا کیا مقابلہ ۔۔۔ اللہ خالق ہے۔۔۔ اللہ اللہ ہے۔۔۔ اللہ لا مثل لہُ ہے۔۔۔ سب کہیں گے بس خدا ہو اور ہم ہوں۔۔۔ یہ منظر یوں ہی قائم رہے۔۔۔
تب۔۔۔ مدتوں بعد۔۔۔ حجاب دوبارہ گرنے لگیں گے۔۔۔اللہ کہیں گے۔۔۔ بس اب اپنی اپنی جنتوں کو لوٹ جاؤ۔۔۔ ان نعمتوں میں مگن ہوجاؤ جو ہم نے تمہارے لیے بنائی ہیں۔۔۔ ہم نے تمہارے ذرّہ برابر عمل کو بھی ضائع نہیں کیا۔۔۔ ہر عمل کا اجر بڑھا چڑھا کر دیا۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دیا۔۔۔ اس میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔۔۔ جاؤ لوٹ جاؤ خوشیوں کے گھر۔۔۔ آج میں تم سے ایسا راضی ہوں کہ اب کبھی خفا نہ ہوں گا۔۔۔کبھی ناراض نہ ہوں گا ۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔
کیوں کہ ہم کو تم سے محبت جو بڑی ہے!!!
 
بہت ہی خوب ۔ بڑا دلپذیر نقشہ کھینچا ۔ رب کریم ہمیں معاف فرمائے اور اپنے کرم سے جنتیوں میں شامل فرما دے۔
آپ نے بہت محنت سے بہت لمبی تحریر لکھی اس وجہ سے پڑھنے میں ذرا سستی ہو گئی ۔
 
آپ انشا‌پردازی بہت اچھی کر سکتے ہیں، عمران بھائی۔ اب سے پہلے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ کی مزاحیہ تحریریں نظر سے گزری ہیں۔ مگر آپ کا اصل میدان شاید وہ نہ تھا۔ آج جوہر نکھر کے سامنے آئے ہیں۔
بہت پسند آئی تحریر۔ اللہ آپ کو جزا دے اور سب نیکو‌کاروں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے گناہ‌گاروں کو بھی ان جنات کا حق‌دار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

سید عمران

محفلین
آپ انشا‌پردازی بہت اچھی کر سکتے ہیں، عمران بھائی۔ اب سے پہلے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ کی مزاحیہ تحریریں نظر سے گزری ہیں۔ مگر آپ کا اصل میدان شاید وہ نہ تھا۔ آج جوہر نکھر کے سامنے آئے ہیں۔
بہت پسند آئی تحریر۔ اللہ آپ کو جزا دے اور سب نیکو‌کاروں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے گناہ‌گاروں کو بھی ان جنات کا حق‌دار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
لکھنے کے بارے میں آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔۔۔
لکھنے سے پہلے کسی کے ذہن میں مضمون کا خاکہ تو ہوسکتا ہے مگر سارے الفاظ نہیں۔۔۔
جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کوئی اور لکھوارہا ہے۔۔۔
کام کسی اور کا ہوتا ہے اور نام ہمارا ہوجاتا ہے۔۔۔
بقول مولانا رومی۔۔۔
رشتہ ٔ برگردنم افگندہ دوست
می کشد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
میری گردن میں میرے دوست کی رسی ہے۔۔۔
وہ جہاں چاہے مجھے کھینچ کر لے جاتا ہے!!!
 

اے خان

محفلین
واہ بہت ہی خوبصورت منظر کو الفاظ میں سمویا ہے.
وہ کیا دن ہوگا. جب مسلمان اپنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ہونگے. اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک سے حوص کوثر سے ہر مسلمان کو جام بھر کر دے گا.
اللہ تعالٰی ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.
 

با ادب

محفلین
یا رضوان ارفع الحجب. . .
یہاں دل رک گیا. . . . . . . . . . سانس تھم گئی. . . . .

۲۰۰۴ کی بات ہے میں نے قرآن کو پڑھنا شروع کیا ..ایک دن کہیں اقبال کی ایک بات پڑھی کہ قرآن یوں پڑھو جیسے تمھارے دل پہ نازل ہو رہا ہے. بات کو پڑھنا اور بات ہے بات سمجھ آجانا اور ..اور بات کا سمجھ آجانا یہ اپنے اختیار میں بھی نہیں.
ہم نے بھی فقط پڑھا سمجھا نہیں. بھلا قرآن دل پہ کیسے نازل ہوسکتا ہے یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم.کے قلب پہ نازل ہوا تھا ہماری کیا اوقات ہے.
سورہ فاتحہ سے سورہ النور تک سال بھر پڑھتے رہے سمجھتے بھی تھے اللہ کا.احسان تھا قرآن و خود اس کی زبان میں پڑھا قرآن کا ترجمہ پڑھنا اور چیز ہے قرآن کو عربی میں سمجھنا اور چیز. اس کا اندازہ کسی لسانیات کے ماہر استاد کو ہو سکتا ہے انگریزی سے اردو ترجمہ بالکل الگ کیفیت ہے. اسلوب بدل جاتا ہے زبان کا.
اللہ نے اپنے فضل سے تفسیر التحلیلی پڑھنے کا بھی موقع دیا.
لیکن بس ہم پڑھتے تھے اور گھر آجاتے تھے.
سورہ النور آیت النور آئی
.
پڑھتے پڑھتے کیفیت بدل گئی. سال بعد دل بدلنے کا عمل.آیا
اللہ نور السموات والارض
یہ آیت آتی ہے اور آنکھوں سے سیل رواں بہتا ہے. ہم شرمندہ لوگ کیا کہیں گے آنسو پونچھتے ہیں آنسو بہتے جاتے ہیں. ایسا لگتا دل پھٹ جائے گا. وحی کا بوجھ سہارنا مشکل. قرآن دل پہ نازل ہورہا ہے. اللہ نور ہے. . . اور بس دل بند. . . . مفسر پڑھتا ہے کیسا نور؟ . . کمشکوٰت. . . . ارے کو ئی چپ کرواؤ اسکو. آج کیا جان.لے کے ٹلے گا. . . . چراغ کی مانند. . . روشن چمکدار. . زیتون کے مبارک.تیل سے جلتا ہے. . نور علی نور. .
بس دل بند ہوگیا. . .
کلاس ادھوری چھوڑ کے گرتی پڑتی گھر آئی. . کتنے دن سنبھلنا مشکل. . . . اللہ نور ہے. . . آنکھیں نم آنسو رکتے نہیں. گھر والے دوست احباب پریشان ہو کیا گیا یے. بیان مشکل. . .
آج آپکی تحریر نے میرے دل کی وہ کیفیت تازہ کر دی. . . . کیا سماں ہوگا. . . . .
اللہ سے ملاقات ہوگی. .
جب میں چھوٹی تھی میں صحابہ کی نبی صلی اللہ عیلہ وسلم سےمحبت کے قصے پڑھتی سوچتی مجھے اتنی محبت کیوں نہیں. . . مجھے لگتا مجھے اللہ سے زیادہ محبت ہے اللہ کے ذکر پہ آنکھ نم.ہو جاتی. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم.کے ذکر پہ میں زبردستی کیفیت طاری کرتی. . . یہ بات مجھے دکھ دیتی تھی مجھے لگتا میرا ایمان خام ہے. .
بہت وقت میں ان کیفیات کا شکار رہی. جب پہلی بار ڈنمارک کا واقعہ ہو نعوذ باللہ ( یہ الفاظ کہنا میرے لئیے دنیا کا سب سے مشکل کام ہے. )
تب دل اداس تھا لیکن سمجھ نہ آتی میری کیفیت کیا ہے.
ایک دن میں محلے کی مسجد کے پاس سے گزر رہی تھی مولانا صاحب اس واقعے کا ذکر کر رہے تھے کیا کہہ رہے تھے میں نے سنا نہیں بس اتنا سنا کہ ڈنمارک نے. . . . . . . . کیا نعوذ باللہ. . . . گستاخی کے لفظ نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی آنسو دکھ اور درد کی انتہا سے بہنے لگے. جی چاہتا مسجد جا کے مولوی سے کہوں چپ کر جائے. کیوں منبر پہ کہہے کہ میرے نبی میرے پیارے نبی کی شان میں کسی نے گستاخی کی. . . . ارے چاند کا تھوکا منہ پہ آتا ہے . . . اللہ دل پھٹتا ہے کیوں میرے نبی کو کوئی برا کہہے. اللہ ان کی سیرت میں کیا برا ہے. اٹھا کے دیکھو محمد کے منکرو کیسی پیاری شخصیت ہیں. بیٹی آتی ہے شفقت اور تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں. . . لاڈلی عائشہ سے ہنسی مذاق کرتے ہیں. . . طائف کے سنگدلوں کو دعا دیتے ہیں. اعلیٰ ظرفی بہترین اخلاق. اتنی پیاری ہستی. اور لوگوں کی اخلاقی گراوٹ. اس دن نبی کی محبت جاگ اٹھی. دل پہ ضرب لگ گئی.
پھر مجھے لگتا ایک دن محمد مجھ سے کہیں گے آؤسمیرا تم آئی ہو. میں کہوں گی سیدی اللہ میرا حساب کر رہے ہیں میرے پوشیدہ عیب ظاہر ہونے والے ہیں پیر کامل سخت مشکل میں ہوں. تمام عمر گناہ کئیے. پر آپ سے اور اللہ سے محبت بہت ہے. . پیارے حبیب محبت کا عملی ثبوت نہیں پاس خالی ہاتھ ہوں. آپ سفارش کر دیجیئے. دنیا میں بھی آپ کا فراق سہا ہے آج بھی سہا تو سب رائیگاں گیا.
محمد اٹھیں گے میرے ساتھ چلیں گے اللہ سے سفارش کریں گے اللہ سمیرا کی سفارش لایا ہوں اسے اپبی رحمت سے معاف کیجیئے جنت بھیج دیجیئے.
بس یہ واحد امید ہے
پھر میں اس جنت میں جاؤں گی. منظر پڑھ کے روح باغ باغ ہو گئی سب کثافتیں دھل گئیں.
اللہ آپ کو اجر دے آمین.
میں سورہ واقعہ پڑھتی ہو ں تو ولدان مخلدون پہ مسکراتی ہوں. ماء مسکوب پہ خوش ہوتی ہوں. ظل ممدود کی نعمت. .
اور جب جہنم کا ذکر آتا ہے تو پناہ مانگتی ہوں. دل.مطمئن رہتا ہے پیر کامل وہاں ہیں
اتنی.لمبی پوسٹ کر دی لفظ رکتے نہیں تھے روکنے پڑے اب.
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
یا رضوان ارفع الحجب. . .
یہاں دل رک گیا. . . . . . . . . . سانس تھم گئی. . . . .

۲۰۰۴ کی بات ہے میں نے قرآن کو پڑھنا شروع کیا ..ایک دن کہیں اقبال کی ایک بات پڑھی کہ قرآن یوں پڑھو جیسے تمھارے دل پہ نازل ہو رہا ہے. بات کو پڑھنا اور بات ہے بات سمجھ آجانا اور ..اور بات کا سمجھ آجانا یہ اپنے اختیار میں بھی نہیں.
ہم نے بھی فقط پڑھا سمجھا نہیں. بھلا قرآن دل پہ کیسے نازل ہوسکتا ہے یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم.کے قلب پہ نازل ہوا تھا ہماری کیا اوقات ہے.
سورہ فاتحہ سے سورہ النور تک سال بھر پڑھتے رہے سمجھتے بھی تھے اللہ کا.احسان تھا قرآن و خود اس کی زبان میں پڑھا قرآن کا ترجمہ پڑھنا اور چیز ہے قرآن کو عربی میں سمجھنا اور چیز. اس کا اندازہ کسی لسانیات کے ماہر استاد کو ہو سکتا ہے انگریزی سے اردو ترجمہ بالکل الگ کیفیت ہے. اسلوب بدل جاتا ہے زبان کا.
اللہ نے اپنے فضل سے تفسیر التحلیلی پڑھنے کا بھی موقع دیا.
لیکن بس ہم پڑھتے تھے اور گھر آجاتے تھے.
سورہ النور آیت النور آئی
.
پڑھتے پڑھتے کیفیت بدل گئی. سال بعد دل بدلنے کا عمل.آیا
اللہ نور السموات والارض
یہ آیت آتی ہے اور آنکھوں سے سیل رواں بہتا ہے. ہم شرمندہ لوگ کیا کہیں گے آنسو پونچھتے ہیں آنسو بہتے جاتے ہیں. ایسا لگتا دل پھٹ جائے گا. وحی کا بوجھ سہارنا مشکل. قرآن دل پہ نازل ہورہا ہے. اللہ نور ہے. . . اور بس دل بند. . . . مفسر پڑھتا ہے کیسا نور؟ . . کمشکوٰت. . . . ارے کو ئی چپ کرواؤ اسکو. آج کیا جان.لے کے ٹلے گا. . . . چراغ کی مانند. . . روشن چمکدار. . زیتون کے مبارک.تیل سے جلتا ہے. . نور علی نور. .
بس دل بند ہوگیا. . .
کلاس ادھوری چھوڑ کے گرتی پڑتی گھر آئی. . کتنے دن سنبھلنا مشکل. . . . اللہ نور ہے. . . آنکھیں نم آنسو رکتے نہیں. گھر والے دوست احباب پریشان ہو کیا گیا یے. بیان مشکل. . .
آج آپکی تحریر نے میرے دل کی وہ کیفیت تازہ کر دی. . . . کیا سماں ہوگا. . . . .
اللہ سے ملاقات ہوگی. .
جب میں چھوٹی تھی میں صحابہ کی نبی صلی اللہ عیلہ وسلم سے قصے پڑھتی سوچتی مجھے اتنی محبت کیوں نہیں. . . مجھے لگتا مجھے اللہ سے زیادہ محبت ہے اللہ کے ذکر پہ آنکھ نم.ہو جاتی. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم.کے ذکر پہ میں زبردستی کیفیت طاری کرتی. . . یہ بات مجھے دکھ دیتی تھج مجھے لگتا میرا ایمان خام ہے. .
بہت وقت میں ان کیفیات کا شکار رہی. جب پہلی بار ڈنمارک کا واقعہ ہو نعوذ باللہ ( یہ الفاظ کہنا میرے لئیے دنیا کا سب سے مشکل کام ہے. )
تب دل اداس تھا لیکن سمجھ نہ آتی میری کیفیت کیا ہے.
ایک دن میں محلے کی مسجد کے پاس سے گزر رہی تھی مولانا صاحب اس واقعے کا ذکر کر رہے تھے کیا کہہ رہے تھے میں نے سنا نہیں بس اتنا سنا کہ ڈنمارک نے. . . . . . . . کیا نعوذ باللہ. . . . گستاخی کے لفظ نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی آنسو دکھ اور درد کی انتہا سے بہنے لگے. جی چاہتا مسجد جا کے مولوی سے کہوں چپ کر جائے. کیوں منبر پہ کہہے کہ میرے نبی میرے پیارے نبی کی شان میں کسی نے گستاخی کی. . . . ارے چاند کا تھوکا منہ پہ آتا ہے . . . اللہ دل پھٹتا ہے کیوں میرے نبی کو کوئی برا کہہے. اللہ ان کی سیرت میں کیا برا ہے. اٹھا کے دیکھو محمد کے منکرو کیسی پیاری شخصیت ہیں. بیٹی آتی ہے شفقت اور تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں. . . لاڈلی عائشہ سے ہنسی مذاق کرتے ہیں. . . طائف کے سنگدلوں کو دعا دیتے ہیں. اعلیٰ ظرفی بہترین اخلاق. اتنی پیاری ہستی. اور لوگوں کی اخلاقی گراوٹ. اس دن نبی کی محبت جاگ اٹھی. دل پہ ضرب لگ گئی.
پھر مجھے لگتا ایک دن محمد مجھ سے کہیں گے آؤسمیرا تم آئی ہو. میں کہوں گی سیدی اللہ میرا حساب کر رہے ہیں میرے پوشیدہ عیب ظاہر ہونے والے ہیں پیر کامل سخت مشکل میں ہوں. تمام عمر گناہ کئیے. پر آپ سے اور اللہ سے محبت بہت ہے. . پیارے حبیب محبت کا عملی ثبوت نہیں پاس خالی ہاتھ ہوں. آپ سفارش کر دیجیئے. دنیا میں بھی آپ کا فراق سہا ہے آج بھی سہا تو سب رائیگاں گیا.
محمد اٹھیں گے میرے ساتھ چلیں گے اللہ سے سفارش کریں گے اللہ سمیرا کی سفارش لایا ہوں اسے اپبی رحمت سے معاف کیجیئے جنت بھیج دیجیئے.
بس یہ واحد امید ہے
پھر میں اس جنت میں جاؤں گی. منظر پڑھ کے روح باغ باغ ہو گئی سب کثافتیں دھل گئیں.
اللہ آپ کو اجر دے آمین.
مجں سورہ واقعہ پڑھتی ہو ں تو ولدان مخلدون پہ مسکراتا ہوں. ماء مسکوب پہ خوش ہوتا ہوں. ظل ممدود کی نعمت. .
اور جب جہنم کا ذکر آتا ہے تو پناہ مانگتی ہوں. دل.مطمئن رہتا ہے پیر کامل وہاں ہیں
اتنی.لمبی پوسٹ کر دی لفظ رکتے نہیں تھے روکنے پڑے اب.
ہمیں بھی صرف ریٹنگ سے تسلی نہیں ہوئی۔۔۔
اس لیے کمنٹ بھی کررہے ہیں۔۔۔
آپ کی پوسٹ سے تو پتھر دل پر بھی اثر ہوا ہوگا!!!
 

La Alma

لائبریرین
ایسی طلسم نگاری تھی کہ پتا ہی نہیں چلا کہ تحریر کب ختم ہو گئی . اگر صرف بیان میں ایسی سحر انگیزی ہے تو حقیقت میں جنت کا کیا عالم ہو گا. لمحاتی ہی سہی لیکن سب غم غلط ہو گئے . جزاک اللہ.
 

جاسمن

لائبریرین
کیا کہوں!!!
یہ الفاظ آپ کے تو نہیں ہیں۔
یہ بیان بھی آپ کا نہیں ہے۔
کوئی ہے جو لکھوا رہا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب بہت ہی خوش قسمت لوگ ہیں کہ "ہمارے پاس اللہ ہے۔"
اور مجھے ترس آتا ہے،ہمدردی محسوس ہوتی ہے ان لوگوں پہ جو اللہ کو نہیں مانتے۔
میں خود بہت مغرور ہوتی ہوں۔ناز کرتی ہوں۔فخر ہی فخر ہے کہ میرے پاس میرے پیارے۔۔۔میرے پیارے۔۔میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
میری دعا ہے کہ جو آپ صلی اللہ وآلہ وسلم پہ یقین نہیں رکھتے۔۔۔اللہ انہیں بھی یقین کی دولت سے نوازے۔
جنت ۔۔۔۔۔میں سب سے زیادہ جو بات خوش کرتی ہے۔۔۔وہ پیارے نبی صلی اللہ و آلہ وسلم کو دیکھنا۔۔۔ان سے باتیں کرنا۔۔۔ان کے ساتھ رہنا۔۔۔۔
اور دل بند ہونے لگتا ہے یہ سوچ کے کہ جو رب ہے ۔۔۔۔ہم نمانے۔۔۔ہم گناہگار۔۔۔۔ہم۔۔۔۔اپنے بنانے والے سے بات چیت کر سکیں گے!
ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے!
آہ!آپ نے یہ تحریر لکھ کے ہمیں کیا کیا مناظر دکھا دیے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا کثیرا۔۔۔۔۔
اللہ آپ کو اسی طرح الفاظ و بیان عطا کرتا رہے۔آمین!
 

سید عمران

محفلین
کیا کہوں!!!
یہ الفاظ آپ کے تو نہیں ہیں۔
یہ بیان بھی آپ کا نہیں ہے۔
کوئی ہے جو لکھوا رہا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب بہت ہی خوش قسمت لوگ ہیں کہ "ہمارے پاس اللہ ہے۔"
اور مجھے ترس آتا ہے،ہمدردی محسوس ہوتی ہے ان لوگوں پہ جو اللہ کو نہیں مانتے۔
میں خود بہت مغرور ہوتی ہوں۔ناز کرتی ہوں۔فخر ہی فخر ہے کہ میرے پاس میرے پیارے۔۔۔میرے پیارے۔۔میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
میری دعا ہے کہ جو آپ صلی اللہ وآلہ وسلم پہ یقین نہیں رکھتے۔۔۔اللہ انہیں بھی یقین کی دولت سے نوازے۔
جنت ۔۔۔۔۔میں سب سے زیادہ جو بات خوش کرتی ہے۔۔۔وہ پیارے نبی صلی اللہ و آلہ وسلم کو دیکھنا۔۔۔ان سے باتیں کرنا۔۔۔ان کے ساتھ رہنا۔۔۔۔
اور دل بند ہونے لگتا ہے یہ سوچ کے کہ جو رب ہے ۔۔۔۔ہم نمانے۔۔۔ہم گناہگار۔۔۔۔ہم۔۔۔۔اپنے بنانے والے سے بات چیت کر سکیں گے!
ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے!
آہ!آپ نے یہ تحریر لکھ کے ہمیں کیا کیا مناظر دکھا دیے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا کثیرا۔۔۔۔۔
اللہ آپ کو اسی طرح الفاظ و بیان عطا کرتا رہے۔آمین!
خدا و رسول کی محبت پر آپ کے خیالات پڑھ کر دل میں بےساختہ یہ شعر آیا...

یا رب تو کریمے و رسولے تو کریم
صد شکر کہ ما ایم میان دو کریم

اے رب آپ بھی کریم اور آپ کے رسول بھی کریم...
لاکھوں کروڑوں شکر کا مقام ہے کہ ہم دو کریم کے درمیان ہیں...
 
Top