حیوانوں کی بستی - کوہاٹ ۔ پہلی قسط

تفسیر

محفلین
.
اگلی قسط
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کوہاٹ
سکینہ کوجمیتِ اسلامی زنان افغانستان (Revolutionary Association of the Women of (Afghanistan) نے" عورتوں کے حقوق " پر تقریر کے لئے بلایا تھا۔ کیونکہ میں مصروف نہیں تھا میں بھی ساتھ چلا آیا۔افغانستان کی روشن خیال عورتوں نے" مینا" کی نمائندگی میں افغانستان کی عورتوں کےانسانی حقوق اور سماجی انصاف کے لے 1977 میں ایک تحریک شروع کی جو آج RAWA کہلاتی ہے۔مینا نے کالج کو چھوڑ کر اپنی چھوٹی زندگی کے بارہ سال افغانی عورتوں کے لے گزاردیے۔
1987 میں روس نےحکمت یار کی مدد سے مینا کو کوہاٹ میں گلبدن کےلوگوں سےقتل کروادیا۔ مینا مرگئی لیکن جمیعت آج بھی زندہ ہے اور افغانی عورتوں کی فلاح اور بہبود کے لئے کام کررہی ہے۔​

٭ ٭٭​
سکینہ
اسٹیج پرتھی اور میں شامیانےمیں۔ جدھر دیکھو عورتیں ہی عورتیں تھیں اور میں اپنے کو بے جگہ محسوس کررہا تھا۔
" تفسیر جی"۔ کسی نے کہا۔
میں نے آواز کی جانب نگاہ کی۔
" آداب عرض ہے"۔
میری ایک ہم عمر عورت مجھ سے مخاطب تھی ۔
" آداب "۔ میں نے سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔
میرا نام ساجدہ ہے اور میں“ راوا “ کےاسپتال میں کام کرتی ہوں۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔
میں نے اپنا ہاتھ ملانے کےلئے بڑھایا۔ لیکن اسکا ہاتھ آگےنہ بڑھا۔ میں نےاپنا ہاتھ شرمندگی سےگرادیا۔
"بُرا نا مانیں - اگر میں آپ کو پاکستان سے باہر ملتی تو نہ صرف آپ سے ہاتھ ملاتی بلکہ گلےلگ جاتی ، آپ میرے ہیرو ہیں۔ آپ ہی کی وجہ ہے کہ میں نیویارک کے بجائے یہاں پریکٹس کر رہی ہوں۔
مجھ کوحیرت میں دیکھ کر وہ ہنسی۔ " میں آپ کو اس لئے جانتی ہوں کہ دو سال پہلےنیویارک میں نے, آپکی کتاب ' پختون کی بیٹی ' پڑھی تھی۔اس کے پچھلےصفحہ پر آپکی تصویر تھی۔ میں اس کتاب کو پڑھ کر بہت روئی تھی۔ اوراُسی دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میڈیکل کالج ختم کرنے کے بعد میں پاکستان میں پریکٹس کروں گی اور اپنی بہنوں کی خدمت کروں گی"۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسے موقع پر کیا کہا جاتاہے۔ پہلی بار زندگی میں میرے ساتھ یہ ہورہا تھا۔ میں خاموش رہا۔
" میں نے آپ کی کوئی دوسری کتاب نہیں دیکھی۔ کیا آپ اب بھی لکھتے ہیں؟
"میرا کام اور دوسری مصروفیات اسکی اجازت نہیں دیتے "۔ میں نےاس عورت سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ میں چاہتا تھا کہ یہ موضوع کس طرح جلد ختم ہوجائے۔
"اب صرف خبریں رہ گی ہیں اور کہانیاں کھوگی ہیں"۔ میں نے جھنجلا کرجواب دیا۔
" کیااچھاہوتا کہ آپ لکھنا جاری رکھتے۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کی سب بہنوں کو"۔
" میرے پاس ایک کہانی ہے جو صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیں"۔ ساجدہ نے کہا۔
اس نے سکینہ کو ہماری طرف آتے دیکھا۔
"وہ جو ، ہماری طرف آرہی ہیں کیا آپ کی بیوی ہیں؟"
" آپ ان کونہیں جانتیں، وہ سکینہ ہیں"۔ میں نے قہقہہ لگا کرکہا۔
" جو میں نے پڑھاتھا تو وہ سب حقیقت تھی “۔ ساجدہ نے کہا۔
"اچھا میں چلتی ہوں۔ میں نے جو کہا ہے آپ اس کے بارے میں سوچیں۔ خدا حافظ"۔
" وہ کون تھی؟۔ میں تم کو ایک لمحہ بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتی"۔ سکینہ نے ہنس کر مذاق کیا۔
" وہ ' راوا ' کی ایک ڈاکٹر ہے۔ 5 سال پہلےجس طرح تم نے چاہا تھا کہ میں تمہاری گل کی کہانی لکھوں آج وہ بھی تمہاری ہی طرح یہ چاہتی ہے کہ میں ایک کہانی لکھوں “۔
"ہاں مجھے چھوڑ کے ، تمہں تو جانے کی بہت پریکٹس ہے"۔ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
سکینہ نے اپنا منہ دوسری پھر لیا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں غلط تھا۔ مگر ہم بے وقوف مرد ہمشہ عورت کو اپنی کمزوی کا الزام دیتے ہیں۔ایک سکوت طاری ہوگیا۔
گاڑیوں کی بھیڑ میں ہم نےجیپ تلاش کی۔ اور کوہاٹ کا راستہ پکڑا۔
٭ ٭٭
فون کی گھنٹی بجی۔ آفس سکریٹری نے کہا۔ ڈاکڑساجدہ کی کال ہے۔
میں نے کہا۔ " کنکٹ کرو"۔
"ہیلو"۔
"تفسیر صاحب"۔
"ساجدہ کیا حال ہیں "
" ٹھیک ہیں۔ آپ نے پھر سوچا۔ کہانی لکھنے کا "۔
" کیا میں نے وعدہ کیا تھا؟ " میں نے بےدلی سے پوچھا۔
" نہیں تو۔ لیکن میں نےسوچا ، میرا ہیرو مجھے مایوس نہیں کرے گا "۔ اس نے ہنس کر کہا۔
"میں نے چند سالوں میں کچھ نہیں لکھا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میں اب لکھ سکتا ہوں "۔
"یہ کہانی اپنےآپ کو خود لکھےگی "۔ ساجدہ بولی
" hmm۔۔۔ آفس کا نمبر کیسے ملا “۔
" کوہاٹ میں کوئی شخص ایسا نہیں جو سکینہ اور اسکے شوہر نسیم اعوان کو نہیں جانتا ہو اس لئے آفس کا نمبر حاصل کرنا مشکل نہیں تھا "۔
" اچھا۔ میں کہانی لکھنے کے بارے میں سوچوں گا "۔ میں نے بے دلی سے کہا۔
ساجدہ نے کہا۔ فی الحال میرے لئے یہ کافی ہے۔ میں آپ کو اگلے ہفتہ کال کروں گی۔ خدا حافظ"۔
میں نے فون رکھ دیا۔
سینکہ آفس میں داخل ہوئی۔
کیا ہورہا ہے؟ سکینہ نے کہا۔
" کچھ نہیں۔ وہی جو پہلے تھا۔ میں ناصرہ کو‘ بلا کنڈ ‘ سے نکالنے کا طریقہ کار سوچ رہا تھا "۔
" آج ہمارے گھر کیسے آنا ہوا ؟ " میں نے پوچھا۔
" تم دوپہر کے کھانے پر کیا کررہے ہو؟ "
" کیوں؟ "
" چلو ساتھ کھاتے ہیں "۔ سکینہ نے جواب دیا۔
" کیا آج نسیم آفس نہیں آئے ؟ "
"وہ ہیں یہاں۔ مگر ان کو پتہ ہے کی میں تمہارے ساتھ لنچ کررہی ہوں "۔
میرے کان کھڑے ہوگے۔ پچھلےدوسالوں میں بہت ہی کم ایساہوا کہ میں اور سکینہ نے اکیلے کھانا کھایا ہو۔ میں ہمشہ اکیلا کھاتا ہوں یا پھر ہم تین ساتھ کھاتے ہیں۔ لیکن میں خاموش رہا۔
شہر کی طر ف جانے کے بجاے سکنیہ نےگاڑی کو ہا نگو ضلع کیطرف موڑ دیا۔ میں جان گیا کہ ہم ٹانڈا ڈیم جارہے ہیں جو دریا ٹوی پر بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیم ، کوہا ٹ سے 7 کلومیٹر پر ہے۔ کوہاٹ کے بیرونی عللاقوں میں پانی کھیت باڑی کا پانی مہیا کرنے کے لئے ٹانڈا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔آس پاس کے لوگ بڑی تعداد میں پکنک کے لئے یہاں آتے ہیں۔ہم نے پانی کے قریب ایک سایہ دار جگہ تلاش کی اور زمین پر دری بیچھا کےاس پر بیٹھ گے۔ سکینہ نےگاڑی سے کھانا نکال کرچادر پرلگایا۔ ہم کھانے کےدوران قدرتی خوبصورتی کا نظرا کرتے رہے۔ کھانے کے بعد سکینہ نے تھرماس سےگرم گرم چائے نکالی۔
" تم بدھو ہو "۔ سکینہ نے کہا۔
یہ وہ ہی پرانی سکینہ تھی جیسےمدت ہوئے میں جانتا تھا۔
" تم ساجدہ کی بات کیوں نہیں مانتے؟ "
" میں اب سمجھا ، تواس لئے تم نے میرے لئے یہ مزے دارکھانا بنایا ہے۔
سکینہ نےاقرار کیا کہ ساجدہ نے مجھ کو راضی کرنے کے لئے اُس سے درخواست کی تھی۔
" اور تم کو بھی کچھ وقت آفس سے دور چاہیے۔ پچھلےدوسال میں تم نے ایک دن کی بھی چھٹی نہیں کی ہے”۔
" آفس سے دور ۔ وہ کیسے؟
" یہ کہانی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے؟۔
" کیا، مطلب ، کہاں ہے؟
"مجھے نہیں پتہ “ سکینہ نے کہا۔
"لیکن تمہیں اس کہانی کو لکھنا چاہیے۔ یہ کام تم کو پھر سے بیدار کردے گا۔ میں تمہیں روز دیکھتی ہوں۔ تم ایسے لگتے ہو جیسے تم کھوگے ہو۔اور نہیں جانتے کہ کیا کرو "۔ سکینہ کی آنکھیں نم ہوگیں۔
" تم میرا پہلا پیار ہو، اور کوئی مجھ کواس پیار سے جدا نہیں کرسکتا ، تم میرے پہلے دوست ہو اور زندگی بھر کے لئے دوست ہو۔ ہم دونوں نے کچھ فیصلے کئے ، صحیح یاغلط مگروہ ہماری ، خود کی مرضی تھی۔ اب ہم ان فیصلوں کو بدل نہیں سکتے"۔
میں نےاُن گلابی گا لوں پر دو آنسووں کے قطروں کو پھسلتے دیکھا۔ بڑی مشکل سے میں نےاپنے آپ کو ان موتیوں کو پینے سے روکا۔


.
 

تفسیر

محفلین

کوہاٹ کے جنوب میں 37 میل کے فاصلہ پر ہے اور تقریباً گاڑی کا سفرڈیڑھ دو گھنٹے کا ہے۔ آپ دو راستے لے سکتے یا تو پرانا ، آرمی روڈ جو1901 میں بنایا گیا تھا یہ آرمی روڈ خطرناک سڑک ہے۔ لیکن کوہاٹ پوسٹ خوبصورت نظاروں سے بھری ہے۔ پشاور کا سفراس سے دو گھنٹے کا ہے یا پھر آپ ڈیرہ آدم خیل (کوہاٹ پاس) جو خوبصورت سرنگ کھود کر بنایا گیا ہے یہ بھی کوہاٹ سے پشاور لے جاتا ہے۔ میں ڈیڑھ گھنٹے بعد پشاور میں تھا۔
میں “ راوا “ کےآفس پر روکا۔ ایک نوجوان افغانی سامنے کے کمرے میں بیٹھا لفافے کھول کر بنک چیک اور نقدی کے نذرانوں کو علحیدہ کر رہا تھا۔
"ڈاکٹرساجدہ ہیں؟ " میں پوچھا۔
"وہ آج فیلڈ میں ہیں”۔
"یہ فیلڈ کہاں ہے؟ ۔ تھوڑی دیر میں ڈرائیور وہاں جانے والا ہے۔ آپ اسکا پیچھا کرسکتے ہیں" ۔
"اچھا میں سامنے والی ریسٹورانٹ میں چائے پیتا ہوں۔ ڈرا ئیور کو بتادینا”۔
میں نے دودھ میں بنی ہوئی گرم چائے کی پیالی خرید ی اور آہستہ آہستہ اس کے مزے سے لطف اندوز ہونے لگا۔
"صاحب ، تیار ہو"۔ ڈرائیور نے پوچھا۔
فیلڈ ، انسانوں اور خیموں کا ایک سمندر تھی۔ جگہ جگہ پرغلاضت کےڈھیر تھے۔ ہرطرف پانی کےجوہڑ تھے۔ بچوں کے رونےاور چلانے کی آوازیں آرہی تھی۔ خمیوں کے دروازے کھلے تھے۔ مرد بت بنے بیٹھے تھےاور عورتیں دوپہر کا کھانا بنانے کی تیاریاں کررہی تھیں۔ سب کہ چہروں پر ایک بے کسی تھی۔ میں خاموشی سے ڈرائیور کے پیچھے چلتا رہا۔ آخر ہم ایک کھلی جگہ میں پہنچے۔ وہاں پر ایک بڑا اور ایک چھوٹا خیمہ تھا۔ چھوٹے خیمے کے سامنے ایک لمبی قطار تھی۔قطار میں کوئی چالیس یا پچاس عورتیں اپنے بیمار بچوں کو لئے کھڑی تھیں۔
ڈرائیور نے کہا۔ "بابو جی، ڈاکٹرنی صاحبہ چھوٹے والے خیمہ میں ہونگی”۔
میں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور خیمہ کیطرف چلا۔
ساجدہ کا سیدھا کندھا دروازے کی طرف تھا اور وہ کسی کو ٹیکے لگا رہی تھی۔ میں نے مداخلت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں کافی دیر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ ساجدہ نے موڑ کر قطار کو دیکھا اس کی نظر مجھ پڑی اور وہ کھڑی ہوگی۔
میں کہا۔ "تم اپنا کام جاری رکھو میں انتظار کرسکتا ہوں"۔
"اچھا آپ مجھے 15 منٹ دیجئے۔ نرس ساڑھے بارہ بجے آتی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔
میں جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔
ٹھیک 15 منٹ کے بعد ساجدہ اپنے آفس سے باہر نکلی۔ اس کے ہاتھ میں ایک کھانے کا ٹفن کیریر تھا۔ اس نے زمیں پر چادر بچھائی اور دو پلیٹوں میں گرم گرم پلاؤ نکالا اور کہا “ کھائے“۔ مجھے بھوک لگی تھی اور پلاؤ کی خوشبو نے بھی مجبور کردیا۔ میں نےشکریہ کہہ کر کھانا شروع کردیا۔ کھانے کے دوران ساجدہ نے پوچھا توآپ نے فصیلہ کیا؟
"میں پہلے کہانی سنناچاہتا ہوں”۔
"یہ میری کہانی نہیں یہ ریمشاں کی کہانی ہے۔ میں آپ کو اس سے ملوادیتی ہوں”۔
"ریمشاں ایک سولہ سال کی افغانی لڑکی ہے۔ وہ یہاں نرس کی مدد کرتی ہے۔ بہت دکھی ہے لیکن کسی کو بتاتی نہیں ، سوتے میں ماں ماں چلاتی ہے۔ اس کی تمام فمیلی مرچکی ہے۔ ' راوا ' کے نفسیات کی ماہر ڈاکٹر جمیلہ کو دکھایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ریمشاں کو کسی طرح بولنا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے پرابلم کوسطح پر لے آئے”۔
"ساجدہ رُکو ۔ تم نے کہا تھا۔کہ یہ کہانی ہے جو خود کو لکھوائے گی”۔
"ہاں تمیں کہانی سننانے والے کو راضی کرنا ہے اور کہانی خود کو لکھوائے گی”۔
میں جنھجلا کر کہا”۔ تم پاگل ہوگی ہو کیا"۔ اس ماحول نے تم سےعقل چھین لی ہے"
" تم اُس سے صرف ایک دفعہ مل لو - وہ بڑے خیمہ میں ہے"۔
میں اتنی دور تک آیا تھا۔ میرے دل میں ایک دفعہ سے پھرلکھنے کی خواہش پیداہوئی تھی۔ لیکن یہ حالت میری علمیت سے باہر تھی۔ میں ساجدہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ ناجانے کیوں عورت کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل پگھل جا تا ہے۔
" کہاں ہے وہ؟ "
" اسپتال میں۔ وہ جو بڑا خیمہ ہے"۔ میں کہا ۔
کھانے کا شکریہ ادا کرکےمیں اسپتال کی جانب چلا۔ خیمہ میں آٹھ دس پلنگ تھے۔ان پر پتلےگدے اورسفید چادریں تھیں۔ تمام بستر مریضوں سے بھرے تھے۔ ایک طرف الماری تھی جسکا دروازہ کھلا تھا اوراس میں کچھ دوائیں رکھی تھیں۔ ایک طرف چھوٹی سی میز پر اور کرسی تھی۔ وہ ایک سفید کوٹ میں تھی۔ ایک پلنگ سے دوسرے پرجاتی اور مریضوں کودوا پلا رہی تھیْ۔ میں دروا زے کی قریب بیٹھ گیا۔ جب وہ دوا دینے سے فارغ ہوئی تو اس نے مجھے وہاں بیٹھا دیکھا۔ مجھ پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوگی۔ایک اورکچھ وقت گزرگیا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے دیکھا اورنظر انداز کردیا۔ کچھ اور وقت گزرا اور ساجدہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اسں نے مجھے دیکھا اور پھر ریمشاں کو۔
"ادھر آؤ "۔ ساجدہ نے ریمشاں کو آنے کا اشارہ اور میر ے نزدیک زمین پر بیٹھ گئی۔
"یہاں بیٹھو"۔ ریمشاں نے اپنا کوٹ اتار کر میز پر رکھ دیا اور ساجدہ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔
"یہ تم سے ملنے آے ہیں۔ یہ سچی کہانیاں لکھتے ہیں"۔
نرس خیمہ میں داخل ہوئی اور ساجدہ کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔
ساجدہ نے کہا - “ دیکھوں کیا ہوا”۔
ریمشاں سر جھکائے بیٹھی رہی۔
" تمہارا نام ریمشاں ہے"۔
ریمشاں نے سر اٹھا۔ ان آنکھوں میں بے انتہا کرب اور سوز تھا۔
" تم 15 یا 16 سال کی لگتی ہو؟ "
کوئی جواب نہیں۔
" میری ایک بہن ہے جو بلکل تمھاری طرح ہے۔ وہ مجھے بہت پیاری ہے۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔
اس کا نام سعدیہ ہے"۔
کوئی جواب نہیں۔
" کیا تم اردو پڑھ سکتی ہو؟"
کوئی جواب نہیں۔
میں نے اپنے بیک پیک سے میری کتاب " پختون کی بیٹی " نکالی اور اس کے سامنے زمین پر رکھ دی۔
وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ آج زبان نہیں کھولے گی۔
جب تم اس کو پڑھ لو تو ڈاکٹر صاحبہ سے کہنا کی تم مجھے کتاب واپس کروگی۔
ڈاکٹر صاحبہ مجھے فون کردیں گی۔
کوئی جواب نہیں۔
“خدا حافظ“۔
کوئی جواب نہیں۔
مجھے ڈاکٹرساجدہ کو خیمے کے باہر ملی۔ ہم دونوں میری جیپ کیطرف چلے۔ جب ہم خیمےسےدور تھے۔
ڈاکٹر ساجدہ نے کہا۔" میں نے سب سننا”۔
میں نے ہی نرس سے کہا تھا کہ تھوڑی دیر میں آ کرمجھے بلالینا۔
میں نے کہا۔ " دیکھو کیا ہوتا۔ مجھے کوئی امید نہیں"۔
" وہ آپ کی کتاب پڑھےگی۔ وہ دس جماعت تک پڑھی ہوئی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔
“ اس کتاب میں ایک جادو ہے۔ وہ اس سحر سے نہ بچ پائے گی۔ ساجدہ نے قہقہ لگایا۔
" میں اسکا انتطار کروں گا “ ۔

 
Top