حضرت عبداللہ (والد ماجد حضور) کا حسن و جمال۔
حضرت عبداللہ کے حسن و جمال کی شہرت عام ہوگئی تھی اور ذبیح و فدیہ کا واقعہ مزید شہرت کا باعث ہوا تو قریش کی عورتیں ان کے جمال و وصال کی طالب بن کر سرراہ نکل کھڑی ہوئیں اور ان کو اپنی جانب بلانے لگیں۔ مگر حق تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔
اہل کتاب بعض علامتوں اور نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود گرامی حضرت عبداللہ کے صلب میں ودیعت ہے۔ وہ ان کے دشمن بن کر ہلاکت کے درپے ہو گئے۔ اور اطراف و جوانب سے ان کو ہلاک کرنے کے ارادے سے مکہ آنے لگے۔یہاں انہوں نے عجیب و غریب آثار و قرائن کا مشاہدہ کیا اور وہ خائب و خاسر بے نیل و مرام لوٹ گئے۔۔۔
ایک دن حضرت عبداللہ شکار کے لئے تشریف لے گئے تو اہل کتاب کی ایک بہت بڑی جماعت شام کی جانب سے تلوار سونت کر حضرت عبداللہ کے قتل کے ارادے سے نمودار ہوئی۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے والد حضرت وہب بن مناف بھی جنگل میں موجود تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ چند سوار جن کی شکل و صورت اس دنیا کے لوگوں سے مشابہ نہ تھی غیب سے ظاہر ہوئے اور وہ اس حملہ آور گروہ کو حضرت عبداللہ کے آگے سے دور کرنے لگے۔ وہب بن مناف نے گھر آکر اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کی سیدہ آمنہ کا نکاح حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب سے کردوں۔ اور پھر یہ بات اپنے دوستوں کے ذریعہ حضرت عبدالمطلب کی خدمت میں پہنچائی۔ حضرت عبدالمطلب بھی یہی چاہتے تھے کہ عبداللہ کی شادی ہو جائے۔اس سلسلہ میں وہ کسی ایسی عورت کی جستجو میں تھے جو شرف حسب ونسب اور عفت میں ممتاز ہو۔ آمنہ بنت وہب میں یہ صفات موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو پسند کیا اور حضرت عبداللہ کا ان کے ساتھ نکاح کر دیا۔۔۔
منقول ہے کہ حضرت عبداللہ ، بنی اسد کی ایک عورت کے سامنے سے گزرے جو خانہ کعبہ کے پاس کھڑی تھی اور اس کا نام رقیصہ یا قتیلہ بن نوفل تھا۔ جب اس عورت کی نظر حضرت عبداللہ پر پڑی تو وہ آپ کے حسن وجمال پر فریفتہ ہو گئی اور کہنے لگی وہ سو اونٹ جو تم پر فدا کئے گئے ہیں میرے ذمہ ہیں میں پیش کروں گی۔ حضرت عبداللہ کو اس عفت و حیا دامنگیر ہوئی اور آپ انکار کر کے آ گے نکل گئے۔
دوسرے دن ایک خشعمی عورت نے جو علم کہانت میں ماہر اور خوب مالدار تھی نے بھی اپنے مال کے ذریعہ حضرت عبداللہ کو ورغلانا چاہا۔ اسی طرح بہت سی عورتوں نے پیشکش کی مگر حضرت عبداللہ کسی کے فریب میں نہ آئے۔ جب گھر تشریف لائے تو حضرت آمنہ سے زفاف ہوا۔ اور نور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت مبارک سے منتقل ہو کر رحم آمنہ میں جلوہ فگن ہوا ۔ اور وہ حاملہ ہو گئیں۔ یہ منیٰ کے ایام تھے۔جیسا کہ آگے آئے گا۔ پھر جب دوسری مرتبہ اس عورت کے سامنے سے حضرت عبداللہ گزرے تو اس عورت نے حضرت عبداللہ کی پیشانی میں وہ نور مبارک نہ پایا تو وہ ان سے کہنے لگی کہ پہلی مرتبہ میرے پاس سے جانے کے بعد تم نے کسی عورت سے صحبت کی ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں میں نے اپنی منکوحہ بی بی آمنہ بنت وہب سے زفاف کیا ہے۔ اس خشعمی عورت نے کہا ، اب مجھے تم سے کوئی سروکار نہیں میں تو اس نور مبارک کی خواستگار تھی جو تمہاری پیشانی میں جلوہ افروز تھا۔ اب وہ دوسرے کے نصیب میں چلا گیا۔۔۔
استقرار حمل:-
جاننا چاہیئے کہ استقرار نطفہ زکیہ مصطفوی و ابداع ذرہ محمدیہ در صدف رحم آمنہ رضی اللہ عنہا، قول اصح کے بموجب ایام حج کے درمیانی تشریق کے دنوں میں شب جمعہ میں ہوا تھا۔ اسی بناء پر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک شب جمعہ، لیلۃ القدر سے افضل ہے۔ اس لئے کہ اس رات سارے جہان اور تمام مسلمانوں پر ہر قسم کی خیروبرکت اور سعادت و کرامت جس قدر نازل ہوئی اتنی قیامت تک کسی رات میں نہ ہو گی۔ بلکہ تا ابد کبھی نازل نہ ہوں گی۔ اور اگر اس لحاظ سے میلاد شریف کی رات کو شب قدر سے افضل جانیں تو یقیناً یہ رات اس کی مستحق ہے جیسا کہ علماء اعلام رحمہم اللہ نے اس کی تصریح کی ہے۔
حدیثوں میں آیا ہے کہ اس شب کو عالم ملکوت میں ندا کی گئی کہ سارے جہان کو انوار قدس سے منور کرو اور زمین و آسمان کے تمام فرشتے خوشی و مسرت میں جھوم اٹھے۔ اور داروغہ جنت کو حکم ہوا کہ فردوس اعلیٰ کو کھول دے اور سارے جہان کو خوشبوؤں سے معطر کردے۔ اور زمین و آسمان کے ہر طبقہ اور ہر مقام میں خوشخبری سنادے کہ نور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج رات رحم آمنہ میں قرار پکڑا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ تمام خیرات و برکات، کرامات و سعادات اور انوار و اسرار کا مصدر اور مبداء خلق عالم، اصل اصول بنی آدم کے اس عالم میں تشریف آوری اور اس کے ظہور کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ یقیناً تمام جہان والوں کو منور و مشرف اور مسرور ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔
قریش کا یہ حال تھا کہ شدید قحط اور عظیم تنگی میں مبتلا تھے۔ چنانچہ تمام درخت خشک ہو گئے تھے اور تمام جانور نحیف و لاغر ہو گئے تھے۔ پھر حق تعالیٰ نے بارش بھیجی۔ جہان بھر کو سر سبز و شاداب کیا۔درختوں میں تروتازگی آئی۔ خوشی و مسرت کی ایسی لہر دوڑی کہ قریش نے اس سال کا نام "سنۃ الفتح والابتہاج" رکھا۔۔۔
حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم شکم مادر میں نو مہینے کامل رہے۔ مادر محترمہ نے عام عورتوں کی طرح کسی قسم کی گرانی، بار ، درد اور طبیعت کی بدمزگی محسوس نہ کی۔ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ میں حمل سے ہوں۔ صرف اتنا تھا کہ حیض بند ہو گیا تھا۔۔۔ ابو نعیم، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت آمنہ کے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاملہ ہونے کے دلائل میں سے ایک بات یہ تھی کہ قریش کے ہر چوپایہ نے اس رات گویائی کی اور کہا کہ قسم ہے خانہ کعبہ کے رب کی، آج رات اللہ کا رسول حمل میں تشریف لایا ہے جو ساری دنیا کا امام اور تمام جہان والوں کا آفتاب ہے۔۔۔
سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ میں خواب و بیداری کی درمیانی حالت میں تھی کہ کسی نے ندا دی، اے آمنہ تم حمل سے ہو، گویا کہ میں نہیں جانتی تھی کہ میں حمل سے ہوں۔ اس کے بعد بتایا کہ تم اس امت کے افضل سے حاملہ ہو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ساری مخلوق سے افضل سے حاملہ ہو۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میں حمل سے ہوں۔۔۔۔۔۔
سیدہ آمنہ کے بطن اقدس سے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور کوئی فرزند تولد نہ ہوا۔ اور نہ ہی حضرت عبداللہ سے حضور کے سوا کوئی اور فرزند پیدا ہوا۔۔۔
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ حضرت عبداللہ کی وفات ہو گئی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ آٹھ ماہ یا سات ماہ یا دو ماہ کے گود میں تھے کہ وفات پائی۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ان دنوں وہ بسلسلہ تجارت قریش کے ساتھ تھے۔ جب واپسی میں مدینہ منورہ سے گزر ہوا تو قافلہ سے جدا ہو کر اپنے بھائیوں کے پاس جو بنی نجار تھے ٹھہر گئے۔ جب قافلہ کے لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ کے بارے میں دریافت کیا تو قافلہ والوں نے بتایا کہ ہم نے انہیں بیمار چھوڑا ہے۔ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے اپنے بڑے فرزند حارث کو ان کو لانے کے لئے بھیجا۔ جب حارث مدینہ پہنچے تو ان کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ "دار نابغہ" میں دفن کئے جا چکے تھے۔ لیکن بعض کہتے ہیں مقام ابواء میں مدفون ہوئے تھے۔ ابواء مدینہ شریف کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔اور لوگوں میں یہی مشہور ہے۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائی تو فرشتوں نے مناجات کی کہ اے ہمارے رب، ہمارے سردار محمد مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تیرے نبی اور تیرے حبیب ہیں ، یتیم ہو گئے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، ان کا میں حافظ و ناصر اور کفیل ہوں۔ ان پر صلوٰۃ و سلام بھیجو اور ان کے لئے برکتیں مانگو اور ان کے لئے دعائیں کرو۔ صلوات اللہ تعالیٰ وملائکتہ والنبین والصدیقین والشہداء والصالحین علیٰ سیدنا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب وبرکاتہ وسلامہ۔۔۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
( از مدارج النبوۃ۔ شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
۔۔۔