حقوق و فرائض

ریاست چار لازمی عناصر (آبادی، علاقہ، حکومت اور اقتدارِ اعلیٰ) پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگر ان عناصر میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو وہ اکائی ریاست نہیں کہلا سکتی۔
ریاست ہی کی طرف سے حقوق و فرائض کی تقسیم ہوتی ہے۔ حکومت بھی ریاست کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے اور اس سے تجاوز نہیں کرسکتی اور نہ ہی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کی طرف سے کسی کو دیے گئے حقوق سلب کرسکے۔
آج دنیا کے ہر شعبہ میں، ہر جگہ حقوق و فرائض کی بات کی جاتی ہے۔ اگر کسی ریاست میں حقوق و فرائض کا تصور نہ رہے تو وہ تباہی کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
غور کیجئے تو دراصل ایک بندے کے فرائض ہی دوسرے کے حقوق ہیں۔ اگر آپ اپنا فرض ادا نہیں کررہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی کے حقوق چھین رہے ہیں۔
اس کو عام مثال سے سمجھیے۔ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی منع ہے کیونکہ یہ آلودگی اور بیماریوں کا سبب بنے گی۔ لوگوں کا حق ہے کہ انہیں جینے کے لیے صاف ماحول میسر ہو۔ اگر آپ تمباکو نوشی کرتے ہیں تو آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ عوامی مقامات پر تمباکونوشی سے پرہیز کریں۔ کیونکہ اگر آپ اپنا فرض انجام نہیں دیں گے تو لوگوں کا حق سلب ہوگا، ان کو جینے کے لیے صاف ماحول میسر نہ ہوگا۔
موٹر سائیکل چلانے والے کا فرض ہے کہ وہ اپنی بائیک صرف مقرر کردہ سڑک پر چلائے۔ اگر وہ مخالف سمت پر چلائے یا فٹ پاتھ پر اپنی گاڑی بھگانے لگے تو بلاشبہ وہ دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں یا فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں کا حق سلب کرے گا۔
ایسی بے شمار مثالیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔ بنیادی بات یہ کہ حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ اپنے فرائض ادا نہیں کرتے تو پھر اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ ٹھیک نہیں کہ آپ اگر کہیں کے ملازم ہوں تو وہاں جاکر اپنے فرائض انجام نہ دیں اور کسی کام کو ہاتھ نہ لگائیں لیکن جب حقوق کی بات آئے تو مطالبات کردیں۔ کیونکہ جس نے آپ کو اپنا ملازم رکھا تو اس کا حق تھا کہ اس کا مطلوبہ کام ہوتا اور اس کا حق ہی آپ کا فرض تھا۔ اگر آپ نے اپنا فرض ادا نہ کرکے اس کو اپنے حقوق سے محروم کردیا تو آپ کس طرح اس سے اپنے حقوق طلب کرسکتے ہیں؟
اس حوالہ سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جہاں یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے فرائض ادا کریں، وہاں آپ کو یہ بھی چاہیے کہ اپنے حقوق بھی نہ چھوڑیں کیونکہ یہ بھی معاشرے کے بگاڑ کی طرف جانے والا راستہ ہے۔
اس بات کو یوں سمجھیے کہ میرا حق ہے کہ اگر میں کسی دکان سے کچھ سودا لوں تو اس سے اصرار کروں کہ وہ مجھے تھیلا بھی فراہم کرے۔ تھیلا فراہم کرنا دکاندار کا فرض ہے۔ اگر میں دکاندار کے فرض کا خیال کرکے اپنا حق چھوڑدوں کہ کہیں اس کو تکلیف نہ ہو تو میرا یہ قدم غلط ہے۔ فرض کریں، آج میں نے اپنا حق چھوڑا، کل ایک دو لوگ مزید اپنا حق یہی سوچ کر چھوڑدیں گے تو ایک وقت آئے گا کہ دکاندار اپنے فرض سے غافل ہوجائے گا۔ پھر وہ لوگ جو اپنا حق چھوڑنے پر راضی نہ ہوں گے، وہ دکاندار ان کا حق بھی ادا نہیں کرے گا۔ اس کا ذمہ دار کون؟ کیا میں اس کا ذمہ دار نہ ہوں گا کہ میری بے جا رحم دلی نے دکاندار کو اس امر پر دلیر کیا کہ وہ اپنا فرض ادا نہ کرے؟
یوں ہی اس کو دیگر مثالوں سے بھی واضح کیا جاسکتا ہے۔ یہاں دینی، اخلاقی اور ادبی لحاظ سے کئی باتیں اور حوالہ جات شامل کیے جاسکتے ہیں لیکن فی الوقت اسے ایک علمی مقالہ بنانا مقصود نہیں بلکہ میرا مطمحِ نظر سادہ انداز اور روز مرہ کی مثالوں سے حقوق و فرائض کی اہمیت واضح کرنا ہے۔
ہمارے ہاں ایک مشہور کہاوت ہے کہ:

“اپنا حق مت چھوڑو اور کسی کا حق مت چھینو“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک رائے ہے۔ اختلافِ رائے کی آزادی ہے۔ بحث مقصود نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اچھا موضوع ہے۔ بہت احسن طریقہ سے حقوق و فرائض کی بابت سمجھایا ہے عمار۔
جزاک اللہ خیرا۔
 
Top