حصول تعلیم، ہمارا معاشرتی المیہ صائمہ رمضان- چراغ سحر

ہمارا معاشرہ جس میں بہت سے لوگ رہتے ہیں جن میں پنجابی، پٹھان، کشمیری اور بہت سے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں مختلف نسلیں اور ذاتیں آباد ہیں ہر ایک خاندان ،نسل اور ذات اپنا اصول اور نقطہ نظر رکھنے والی ہے۔ بہر حال جوبھی ہے ہم پاکستانی ہیں اورمسلمان ہیں ۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم دیگر مسلمانوں کی فلاح کے لیے بھی سوچیں۔ ،مگر آج کے دور میں بہت سے فرقے اورگروہ بنے ہوئے ہیں وہ لوگوں کو غلط راستے کی طرف راغب کررہے ہیں جس وجہ سے نئی نسل بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے ہر کوئی اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ مگر ان سب معاملات میں ان معصوم بچوں کا کیا قصور؟ ویسے تو ہمارے معاشرے میں بہت نزدیک جرائم اور مظالم پائے جاتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس قوم پر سب سے بڑا ظلم نئی نسل کو ان کے حق سے دور رکھناہے والدین کا کام صرف بچے پیدا کرنا ہی تو نہیں کہ یہ اب اس دنیا میں آ گئے ہیں تو خود ہی پل جائیں گے بلکہ بچوں کی پرورش اور ان کی مناسب تعلیم و تربیت بھی والدین کے ذمہ ہےاگر چہ اللہ تعالیٰ رزق کا ذمہ دار ہے مگر والدین کا بھی تو فرض بنتا ہے کہ جو نعمت اللہ نے انہیں دی ہے اسے خوشی سے قبول کریں اور جب آپ والدین بن چکے ہیں تو آپ کا یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کریں پرورش سے مراد یہ نہیں کہ آپ انہیں اچھے اور قیمتی سوٹ بوٹ لے کر دیں اچھی جگہ پر لے کر جائیں اچھے کھانے کھلائیں نئی ایجادات کی چیزیں لے کر دیں بلکہ پرورش کا مطلب ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بتائیں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر رحم کرنا سکھائیں یہ سب صرف باتیں کرنے یا نصیحتیں کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پرکرنے سے ہوتا ہے۔
آج کل جیسے کہ اب تعلیم حاصل کرنا مشکل نہیں ہے پھر بھی لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلاتے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر ایک کھیت میں بیچ بودئیے جائیں اور پھر اسے وقت پر پانی نہ دیا جائےنہ ہی ان کا خیال رکھا جائے تو کیا آپ امید کرتے ہیں کہ ایک دن وہ ایک گھنا سایہ دار درخت بن کر آپ کو چھا ؤں دے گا بلکہ وہ تو شروع میں ہی تباہ ہوجائے گا یہی حال ہمارے بچوں کا ہے اگر ہماری نئی نسل پڑھےگی نہیں، لکھے گی نہیں، تو وہ ہمیں کل کی مشکلات سے کل کی دھوپ سے (بیرون ملک یاکسی کی سازش و حملہ سے)کیسے بچائے گی یہ قوم ہی تو ہمارا مستقبل ہے اگر یہ بچے کامیاب طور پر تیار نہیں ہوں گے تو ہم تیز آندھی اورطوفان سے کیسے بچیں گے اور کیسے ان کا مقابلہ کریں گے۔ان سب امور سے نبٹنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا اورانہیں خود کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ تعلیم وتربیت کے بغیر ہم یہ سب کچھ نہیں کر سکتے ۔یہ ہمیں ہی کرنا ہوگا ہم کریں گے ،ہم ہی ہیں، وہ ہم ہی ہیں جو اس ملک وقو م کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے کر جائیں گے ۔ ہماری قوم کے لوگ خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے،ان کا خیال ہے کہ ایک لڑکی کے پڑھنے کا کیا فائدہ آخر سنبھالنا تو اس نے چولہا ہی ہے ،دھونے تو اس نے برتن اور کپڑے ہیں، پیدا تو کرنے بچے ہیں پھر ان سب مشکلوں کا کیا فائدہ اس نے کونسا کوئی نوکری کرنی ہے کمانا تو مرد کا کام ہے مگر ایسے والدین کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر وہ عورت نوکری نہ بھی کرے پھر بھی ہے تووہ ایک انسان! اور تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگر وہ تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو اپنے گھر کوکیسے سنبھالے گی اپنے خاوند کو کیسے سمجھے گی پھر جو اس کی اولاد ہوگی اس کی پرورش کیسے کرے گی جو کہ بچے کی اہم ضرورت ہے۔
اگر وہ ان پڑھ ہوگی تو اس کی اولاد بھی ویسے ہی غیر تربیت یافتہ رہ جائے گی ایک تعلیم یافتہ فرد ہی تعلیم کی قدر سمجھ سکتا ہے ان پڑھ کو اس سے کیا واسطہ بات صرف اتنی ہے کہ تعلیم ضرورت ہے ہر عورت کی ہر لڑکی کی ہر بچی کی خواہ وہ ایک نوکری کرنے والی عورت ہو یا وہ ایک گھر سنبھالنے والی عورت ہو ایک پڑھی لکھی عورت سے گھر محض اینٹوں کا گھر نہیں بلکہ ایک خوبصورت جنت بن جاتا ہے حال میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ چند ایسے مسائل معاشرے میں جنم لے چکے ہیں کہ بچیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے ایک طرف تو مالی حالات کی بات سامنے آتی ہے جس کی وجہ سے غریب خاندان اس مہنگائی کے زمانہ میں بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے وہ مشکل سے صرف دو وقت کی روٹی کما کر کھا سکتے ہیں پھر وہ اپنے بچوں کی فیسیں کیونکر ادا کر سکیں گے ویسے تو ہماری حکومت نے دہم کلاس تک تعلیم مفت کردی ہے جہاں طلباء اور طالبات مفت نصاب بھی حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ بے حس معاشرے کے لوگ ہیں جو ننھے بچوں کی آنکھوں سے خواب چھین لیتے ہیں ان کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب پکڑانے کی بجائے کام کرنے والی چیز پکڑا دیتے ہیں کندھوں پر بستہ ڈالنے کی بجائے مزدوری کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔
تعلیم حاصل کرنا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرض قرار دیا ہے پھر یہ کونسا قانون ہے جس میں ننھے بچوں کے ساتھ ایسی بے انصافی ہو رہی ہے انصاف کی تو بات ہی نہ کریں۔ جو والدین بچوں خصوصاً لڑکوں کو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں گے وہ ان کو کما کر دیں گے اور لڑکیوں کو صرف اس لئے نہیں پڑھاتے کہ یہ تو پرایا دھن ہوتی ہیں ہم نے کونسا ان کو نوکری کروانی ہے ہم نے کونسا ان کی کمائی کھانی ہے۔خدارا! یہ سوچ بدل دیں کچھ تو خوفِ خدا کریں۔ بچے آپ کی اولاد ہیں پیسے کمانے والی مشین تو نہیں۔ تعلیم حاصل کرنا ان کا حق ہے اور آپ ان کا حق ان سے نہیں چھین سکتے۔ رحم کریں۔ یہ بچے تو اس منزل کا ایک پل ہیں جس پر کامیابی آپ کی منتظر ہے۔ یہ تو غربت زدہ لوگوں کی بات تھی اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جن کے بوجھ تلے ننھے بچے اور بچیاں دبے ہوئے ہیں حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں بہت سے جرائم معاشرے میں جڑیں پکڑ چکے ہیں جن میں بے حیائی، بے شرمی، دہشت گردی اور بہت سے دوسرے عناصر شامل ہیں۔ کچھ مثالیں ایسی ہیں جنہیں لکھتے وقت میرا قلم کانپتا ہے جن کی وجہ سے ایک عورت اپنے آپ کو بے بس اور لاچار سمجھتی ہے آج کل تعلیمی اداروں میں سے بے حیائی کے جیسے واقعات سامنے آتے ہیں جن سے معاشرے پر بڑا منفی اثر پڑتا ہے والدین اپنی بچیوں کو گھرسے باہر تعلیم دلوانے سے ڈرتے ہیں کہ خدانخواستہ ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آجائے پس لوگ مجبور اور لاچار ہوگئے ہیں چند اداروں اور چند بگڑے ہوئے بچوں کی وجہ سے سب کو ہی ایسے دیکھا جاتا ہے مگر اس وجہ سے ہم پیچھے تو نہیں ہٹ سکتے بلکہ ہمیں مل کر ڈٹ کر ان سب مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ہمارے ملک کی ذمہ داری اب ہمارے کندھوں پر ہے ہم اپنے ملک کی خاطر جان بھی دے سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں یہ ہمارا ملک ہے ہم اس کے محافظ ہیں۔ ان شاء ا للہ! ایک نہ ایک دن ہم اپنی کوشش میں کامیاب ضرور ہوں گے۔

 
Top