حجاب کے پانچ رعائتی نمبر

پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک تجویز پر غور کیا تھا کہ ایسی طالبات کو پانچ نمبر اضافی دیے جائیں جو حجاب پہنیں۔ مزید برآں ایسی طالبات کو حاضری میں بھی پانچ فیصد رعایت دی جائے- تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ سہولت ان کو دی جائے گی جو سارا سال حجاب پہنیں گی یا فقط امتحان والے روز پہن کر آئیں گی- سارا سال کے لیے گویا حاضری رجسٹر میں ایک خانہ حجاب کا بھی ڈالنا ہو گا- باقی امتحان والے دن حجاب پہننے سے مجھے وہ لڑکے یاد آگئے جو باریش پروفیسر صاحب سے اچھے نمبر لینے کے لیے باجماعت صف اول میں نماز ادا کرنا شروع کر دیتے تھے- ایک یاد میری ایک پولستانی استانی کی بھی ابھرتی ہے جس نے ایک بار کہا تھا جس دن ہمارا زبانی امتحان ہوا کرتا تھا تو ہم مختصر ترین سکرٹ پہن کر امتحان دینے جایا کرتے تھے۔
ویسے میں یہ بتا دوں کہ میں قطعاً خواتین کے پردہ کرنے کے خلاف نہیں بلکہ میرے سے تو پوچھیں تو میں تو یہ تجویز دوں گا کہ خواتین کو چھوڑیں ہر مرد کی آنکھوں پر چرمی غلاف چڑھانا لازمی کر دیا جائے کہ تو نہ صرف مردوں کے گھورنے کو کنٹرول کیا جا سکے گا بلکہ خواتین کے بے جا فیشن سے بھی جان چھوٹنے کا واضح امکان ہے کہ جب تماشائی اور داد دینے والے نہ ہوں بندہ کب تک محنت کیے رکھے گا۔
واضح رہے اس کج بحثی کا اصل مقصد حجاب کی مخالفت یا حمایت نہیں بلکہ اس بلاگ کا باعث اضافی یا رعائتی پانچ نمبر ہیں۔
جب ہم نے پڑھنا شروع کیا تو اس زمانے میں خوش خطی کی بڑی اہمیت تھی- اور ایسے طلبہ کو سراہا جاتا جنکا خط تحریر عمدہ ہوتا- تاہم جب پیپر میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ خوش خطی کے پانچ نمبر اضافی ہیں تو یقین مانیے پاس ہونے کا تمام جوش و جذبہ وہیں جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتا تھا- ایسا لگتا تھا کہ پرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی ہمیں فیل کرنے کی سازش تیار کر لی گئی ہے اور ہمارے لیے بقیہ پچانوے نمبر رہ گئے ہیں- حالانکہ اپنی طرف سے ہم مکمل کوشش کرتے کہ خوشخطی اختیار کریں لیکن دوسرے صفحے تک کوشش بمشکل تاب آتی اور جب امتحان کے بعد پرچے دکھائے جاتے تو میں خود اپنا لکھا پڑھنے سے قاصر رہتا- شروع میں تو میں اساتذہ کی قابلیت کا قائل رہا کہ "یار نجانے کیسے پڑھ لیتے ہیں"۔ لیکن جیسے جیسے بڑی کلاسوں میں پہنچا اور پڑھنے (اسباق یاد کرنے) کا تکلف حتی الاختیار اٹھا رکھنا شروع کیا تو اساتذہ پر غصہ آنا شروع ہو گیا کہ ہم نے جواب نہ آنے پر اپنی بُری لکھائی میں دانستہ مزید خرابی کا تڑکہ لگا کر پیش کرنا شروع کیا اور جب دس میں سے دو نمبر دیکھتا تو رو پڑتا کہ یا ر جب میں خود یہ لکھائی نہیں پڑھ سکتا تو استاد نے کیسے پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ فقط دو نمبر دیے جائیں- ہو سکتا ہے کہ جواب میں نے درست ہی لکھا ہو-
میٹرک میں پہنچے تو پریکٹیکل کے نمبروں سے آگاہی ملی جس کے بارے دوستوں نے یہ بتایا کہ یہ مفت کے پچیس نمبر ہیں۔ تاہم میٹرک کے اختتام تک میں یہ بات سمجھ چکا تھا کہ یہ پچیس نمبر حکومت نے اس مقصد کے تحت رکھے ہیں کہ وہ لوگ جو سفارش وغیرہ کرا سکتے ہیں یا ایسے سکولوں میں پڑھتے ہیں جنکے تعلقات اچھے خاصے ہیں کو نوازا جا سکے- حالانکہ ملتان پبلک سکول ایسا گیا گزرا نہیں تھا لیکن ہم گئے گزرے ضرور تھے کہ ہم ان دس فیصد میں شامل تھے جن کو کسی پریکٹیکل میں اٹھارہ نمبر تک نہیں ملے تھے۔
انٹرمیڈیٹ میں خود حکومت بھی ہمارے خلاف میدان میں اتر آئی اور این سی سی NCC جس کو عرف عام میں لازمی فوجی تربیت کہتے تھے کو منسوخ کردیا- لیکن ویسے اللہ جانتا ہے تب تک ہم اپنے خلاف اس سازش کے ایسے عادی ہو چکے تھے کہ 20 نمبروں سے زیادہ افسوس یہ رہا کہ بندوق، بمب چلانے کا موقع ضائع ہو گیا کہ اب تک واحد بندوق پانی والا پستول ہی چلایا ہے۔
میں نے ایف ایس سی میں کمپیوٹر رکھا جس کے چالیس نمبر کا پریکٹیکل تھا اور ہم نے سوچا چالیس نمبر تو ہو گئے پکے کہ ہم تب فورٹران Fortran (کمپیوٹر پروگرامنگ کی پرانی زبان) میں ماہر ہو کرتے تھے۔ پریکٹیکل جب ہوا تو سینٹر میں سب سے پہلے پروگرام کر کے دینے کے باوجود ، اپنی طرف سے سفارش کرانے کے باوجود فقط چوبیس نمبر حاصل کر پائے- البتہ ہمارے چند دوست ایسے بھی رہے جنکے پریکٹیکل میں تو پچیس میں سے پچیس رہے البتہ تھیوری کے پرچے میں پچھتر میں سے وہ فقط گیارہ حاصل کر پائے۔ باقی پریکٹیکل مذاق یعنی پریکٹیکل امتحانات میں کیا ہوا وہ اس لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
تاہم یہ بات میرے دماغ میں راسخ ہو گئی کہ پاکستان میں پریکٹیکل فقط نوازنے کا ایک ذریعہ ہیں- اس لیے اب کہ رعائتی نمبروں کا سنا تو یہ پرانے زخم یاد آگئے کہ ایک بار پھر پانچ نمبر ہمارے خلاف دینے کی تیاری کی جارہی ہے- لیکن کہتے ہیں ہر شخص کے دنیا میں سات ہم ذات ہوتے ہیں یعنی کم از کم چھ نیک بخت تو ہم جیسے اور ہیں ہی ہیں۔ اس لیے وہ لڑکیاں جو حجاب پہنتی ہیں کو میں کہنا چاہوں گا کہ اس سب کے باوجود بھی لازم نہیں کہ وہ یہ پانچ نمبر حاصل کر سکیں کہ پہلی بات اس خبر کی تردید حکومت پنجاب خود کر چکی ہے اور ایسا کچھ ہو بھی گیا تو کچھ ہمارے جیسے خوش قسمت و سبز قدم بھی ہوا کرتے ہیں۔
اس طرف سے۔ماہنامہ کمپیوٹنگ
 

La Alma

لائبریرین
"چادر " کے نام پر تو اضافی نمبروں کی پیشکش ہو گئی، اب " چار دیواری " پر بھی محکمہ تعلیم کو کچھ سوچنا چاہیے. جو لڑکیاں جتنی کلاس میں کم حاضر ہوتی ہیں اور گھر بیٹھ کر یہ وقت کھانا پکانے اور سینے پرونے میں گزارتی ہیں ان کے لیے بھی اضافی نمبر ہونے چاہیے .
 
کسی دور میں مشہور تھا ایک نمبر ضرور کاٹا جاتا ہے پیپر میں لکھائی کا صرف ریاضی میں 100٪ نمبر مل سکتے تھے لیکن آج کل تو فل بٹہ فل کا دور ہے
 
Top