حامد میر پر حمہ - ڈاکٹر ضیا الدین خان

یوسف-2

محفلین
idr2.gif
 

فلک شیر

محفلین
حامد میر پہ حملہ قابل مذمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن افواج پاکستان کے خلاف جیو اور جنگ گروپ کی مکروہ اور شرمناک مہم قابل نفرت ۔۔۔۔۔۔۔۔ ریاست کے اس آرگن یعنی میڈیا نے اب کرائے کے ایک بھونپو کی حیثیت اختیار کر لی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیو اس مہم کا چیف بن کر ہر وہ خواہش پوری کرنا چاہتا ہے، جو ایک حرافہ غمزہ و ادا دکھا کر اپنے گاہکوں سے پوری کرواتی ہے۔۔۔۔۔
 
کالم تو جاندار ہے لیکن ایک بات زہن میں رہنی چاہئے کہ حامد میر نے الزام آئی ایس آئی پر نہیں لگایا اسکے سربراہ اور چند افسروں پر لگایا ہے۔ اور ان پر الزام لگانے والوں میں حامد میر اکیلا نہیں ہے اور بھی صحافی الزام لگاتے رہے ہیں۔
آئی ایس آئی میں کام کرنے والے بھی انسان ہیں فرشتے نہیں۔ جب کسی کے پاس بھرپور طاقت ہو اور احتساب سے وہ مبرا ہو تو نیت کسی کی بھی خراب ہو سکتی ہے۔
مجھے نا آئی ایس آئی کی حب الوطنی پر شک ہے اور نا حامد میر کی۔
 
حامد میر۔تینوں رب دیا ںرکھاں...صبح بخیر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود
ایک نہایت عابد و زاہد مہربان کا پیغام آیا کہ مجھے بہت صدمہ ہوا ہے حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ میں اس کی صحتیابی اور عمر دراز کے لئے دعا کررہا ہوں۔ میں اس وقت تک اس خبر سے لاعلم تھا، فوراً ٹی وی آن کیا ،خبر کی تفصیلات پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ گئیں اور میں حامد میر کیلئے ہمہ تن دعا بن گیا کہ ایسے موقعوں پر دعا ہی انسان کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔ کہتے ہیں دکھی دل کی دعا آسمانوں کو چیر کر خالق حقیقی کے پاس پہنچ جاتی ہے اور قبول و منظور ہوتی ہے۔ شام اور رات دیر تک مجھے اس حوالے سے پیغامات ملتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ساری قوم حامد میر کی صحت یابی اور عمر درازی کے لئے دعائیں مانگ رہی ہے۔ جب لوگ اس طرح خلوص اور محبت سے بے لوث جذبے کے ساتھ دعائیں مانگیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رب رحیم و کریم ان دعائوں کو قبول و منظور نہ فرمائیں اور رب رحیم کا رحم جوش میں نہ آئے!!!
حامد میر ایک حق گو اور بیباک صحافی ہے۔ اس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک نڈر قلمکار ہے۔ یہ خوبیاں یا صفات اسے ورثے میں ملی ہیں کیونکہ اس کے والد ماجد پروفیسر وارث میر مرحوم بھی حق گوئی و بیباکی کی تصویر تھے۔ وہ میرے مہربان تھے اور ہمیشہ شفقت سے پیش آتے۔ حامد میر سے میں اپنی طویل زندگی میں صرف ایک بار ملا ہوں اگر وہ چند برس قبل مجھے یوم قائد اعظم کے پروگرام کے لئے اسلام آباد نہ بلاتا تو شاید عمر بھر ہماری ملاقات نہ ہوتی ۔ یہ ملاقات بھی صحیح معنوں میں ملاقات نہیں تھی کہ میں ریکارڈنگ سے چند منٹ پہلے پہنچا، پروگرام ریکارڈ ہوا اور میں ہوٹل واپس چلا گیا۔ نہ اس نے مجھے بٹھایا ،نہ میں نے ہی پروگرام کے بعد بیٹھنا مناسب سمجھا۔ مطلب یہ کہ میری حامد میر سے کوئی ذاتی دوستی نہیں کہ میں اس کی’’ناجائز‘‘ تعریف کروں۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملاقات سے کیا ہوتا ہے؟ ہم لاکھوں لوگوں سے ملتے ہیں اور انہیں بھول جاتے ہیں، نہ ان سے کوئی تعلق قائم ہوتا ہے اور نہ ہی قلب و ذہن کا رشتہ پھر یہ کہ ہم درجنوں لوگوں سے ہر روز یا بار بار ملتے ہیں لیکن ان سے کوئی رشتہ’’تعمیر‘‘ نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ملے بغیر رشتہ قائم ہوجاتا ہے اور وہ رشتہ دائمی نوعیت کا ہوتا ہے۔ محبت کے یہ رشتے نظریاتی ہم آہنگی ، مشترک اقدار اور جذباتی وابستگی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ حامد میر سے میرا ایسا ہی رشتہ ہے۔ شاید میں کبھی اس کا اظہار نہ کرسکتا، کبھی اس کو لفظوں کا پیرہن نہ پہنا سکتا اگر حامد میر پر حملہ نہ ہوا ہوتا اور وہ نڈھال نیم بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال میں نہ پڑا ہوتا۔ یہ یکطرفہ رشتہ کیسے قائم ہوا؟ پہلے تو میں حامد میر کی جرأت رندانہ، حب الوطنی، پاکستانیات، اسلامی اقدار اور فکری صلاحیتوں یا تجزیاتی انداز سے متاثر ہوا۔ پھر حامد میر کے قائد اعظم سے عشق، اقبال سے بے پناہ عقیدت، تحریک پاکستان کے جذبے اور مشاہیر پاکستان سے محبت نے مجھے حامد میر کی محبت کا اسیر بنا دیا جس کا حامد میر کو علم بھی نہیں۔ اسی لئے میں اسے یکطرفہ محبت کہتا ہوں۔ میں اس کی جرأت رندانہ، حق گوئی،حب الوطنی اور محروم طبقوں کے لئے محبت کا کب قائل ہوا؟ جب اس نے گم شدہ افراد، اٹھائے گئے پاکستانیوں اور غائب کردہ حضرات کے حق میں پرزور آواز اٹھانا شروع کی جن میں ملک بھر سے مسنگ (Missing)حضرات کے علاوہ بلوچستان کے پاکستانی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا تو وہ متحرک رہا۔ ہر مظاہرے میں وہ صف اول میں کھڑا نظر آتا۔ میں نے سرکار کی نوکری میں عمر گزاری ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ ان غائب شدہ پاکستانیوں اور ملنے والی لاشوں کے خون سے کن کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، کون لوگ ہیں اور کون سی ایجنسیاں ہیں جو ان خون آلود ہاتھوں پر دستانے پہنے ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہاں!مجھے یہ بھی علم تھا کہ یہ لوگ، یہ ایجنسیاں نہایت طاقتور، منہ زور، بگٹٹ اور آمرانہ سوچ رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف اختلاف برداشت کرتی ہیں نہ کوئی محبت بھرا مشورہ۔ وہ طاقت کے نشے میں دھت ہیں اور ہر مخالف یا تنقیدی آواز کو کچل دینا چاہتی ہیں۔ مجھے احساس تھا کہ انہیں حامد میر کا یہ جرأت مندانہ رویہ ہرگز برداشت نہیں ہوگا۔ وہ پہلے وارننگ دیں گی، کار کے ساتھ بم باندھ دیا جائے گا لیکن وہ پھٹے گا نہیں، اگر پھر بھی حامد میر باز نہ آیا اور اس نے اپنی زبان کو تالا نہ لگایا تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ ’’کچھ‘‘ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے، کوئی ہاتھ ان کے گریبان تک نہیں پہنچ سکا اس لئے وہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ میں نے دیکھا کہ حامد کے پایۂ استقلال میںلغزش نہ آئی، وہ اپنے موقف پہ ڈٹا، اس لئے سچی بات یہ ہے کہ میں اندیشوں میں مبتلارہا اور انہی اندیشوں نے میرے دل میں حامد میر کیلئے جگہ بنادی، ورنہ نہ ہماری میل ملاقات، نہ دوستی، ذاتی تعلق۔ میں سوچتا تھا کہ حامد میر یقیناً باخبر صحافی ہے، اسے یقیناً وارننگ بھی ملی ہوگی، اپنے ذرائع سے اطلاع بھی ملی ہوگی اور اسے ان خطرات کا بخوبی انداز ہ ہوگا لیکن اسکے باوجود وہ اپنے نقطہ پر ڈٹا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ ذرا غور کیجئے کہ کیا یہ اس کا ذاتی ا یجنڈا تھا؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ سیاستدان تھا کہ اپنا سیاسی
حلقہ بنارہا تھا؟ ہرگز نہیں۔ کیا اس سے اسے کوئی مادی منعفت حاصل ہوسکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے کس کیلئے جدوجہد کررہا تھا؟ پاکستان کے استحکام، جمہوریت کے فروغ، جمہوری اداروں کی مضبوطی، عدلیہ کی آزادی، انسانی حقوق، انصاف اور محروم و مظلوم خاندانوں کی حمایت اس کا ایجنڈا، اس کا مقصد اور حاصل تھا اور اسی منزل کے حصول کیلئے وہ زندگی کی پرواہ کئے بغیر رواں دواں تھا۔
وہ بار بار لکھتا تھا کہ ہمیں پاکستان کو قائد ا عظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے کوششیں کرتا رہا وہ نظریاتی حوالے سے قائد ا عظم کا سپاہی ہے اور انشا ء اللہ رہے گا۔ یہی وہ حوالے، علامتیں، نظریاتی بنیادیں اور ذہنی ہم آہنگی ہے جس نے مجھے حامد میر کا دعاگو بنایا۔ انہی حوالوں سے حامد میر سے غائبانہ ملاقات رہتی تھی ورنہ ہماری جسمانی ملاقات تو صرف چند منٹوں پر محیط تھی۔حامد میر کی ایک اور ادا جس نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا وہ تھا ہندوستانی صحافیوں کو لاجواب کرنا۔ ہندوستان جاکر پاکستان کے موقف کی آواز بلند کرنا اور مخالف آوازوں کو دلائل سے چپ کروانا۔ بے شک تمام تر مصروفیات کے باوجود حامد میر مطالعے کا عادی ہے، کتابیں شوق سے پڑھتا اور کالموں میں ان کے حوالے دیتا ہے، ورنہ میں اکثر دانشوروں کو دیکھتا ہوں کہ وہ ہندوستان کی دوستی میں مال مست حال مست ہو چکے ہیں اور اپنے مشاغل کے سبب کتاب سے رشتہ توڑ چکے ہیں۔ نوجوان اور خوبرو حامد میر ان کے عزائم کو بھی طریقے سے بے نقاب کرجاتا تھا۔حامد میر ہسپتال میں زیر علاج ہے اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ کروڑوں لوگ اس کے لئے مغموم اور دعا گو ہیں۔ یہ سعادت کتنے لوگوں کو حاصل ہوتی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان معصوم اور پرخلوص دعائوں کے صدقے حامد میر کو صحت کاملا عطا فرمائے گا اور وہ پھر مزید توانا و مضبوط ہو کر آواز اٹھائے گا۔ جدوجہد جاری رکھے گا اور پاکستان سے شدید محبت کے تقاضے نبھائے گا۔ مجھے یقین ہےکہ رحیم و کریم رب کو ابھی حامد میر سے پاکستان کی خدمت کا کام لینا ہے اور وہ اسے انشاء اللہ عمر دراز عطا فرمائے گا، بقول اقبال؎
ہو سچائی کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
 

یوسف-2

محفلین
حامد میر یا سلطاں راہی
==============
ایک بار میں اور میرا پیارا دوست مولوی سلطان راہی کی ایک پنجابی فلم دیکھ رہے تھے....
فلم کے ایک سین میں حق و باطل کا معرکہ چل رہا تھا...
حق.....
یعنی سلطان راہی جو ابھی کسی دوسرے کی بہن کے ساتھ بارش میں گانا گا کے آرہا تھا....
باطل......
یعنی فلم کے ولن مصطفیٰ قریشی کو پارسائی کا لیکچر دے رہا تھا...
جو گاؤں کی کسی مٹھیار کو اٹھا کے بھاگا تھا...
تو.. تکرار جب حد سے بڑھی تو باطل یعنی ولن نے پستول نکال لیا.....
اور فائر کھول دیا....
6 گولیوں والی پستول سے 7 فائر کئے.....
مگر آفرین ہے سلطان راہی پر وہ اپنی جگہ کھڑا غیرت مندی پر لیکچر دیتا رہا...
حالانکہ اسکا سفید کرتا ٹومیٹو کیچپ کے دھبوں سے بالکل لال ہو گیا...
مگر وہ اپنی جگہ ڈٹا رہا....
میں نے مولوی کے کان میں کہا ..
"یار مولوی! اتنی ساری گولیاں لگی ہیں .....
راہی صاحب کو....
کچھ نہیں ہوا..."
مولوی مسکرائے اور بولے ..
"جسے ڈائریکٹر رکھے...
اسے کون چکھے..."
مولوی کا یہ ڈائیلاگ مجھے کل بے تحاشا یاد آیا....
===========
: حنیف سمانا، فیس بک سے
 

سویدا

محفلین
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ حامد میر کی گاڑی کے دروازے پر دو گولیوں کے نشانات ہیں
جس میں سے ایک گولی کا نشان پیروں کی طرف ہے
جبکہ جنگ اخبار کی خبر ہے کہ حامد میر کو چھ گولیاں لگیں
جس میں تین گولیاں ران میں
ایک گولی پسلی میں
ایک گولی بازو پر
اور ایک گولی پیٹ میں
پھر ساتھ ھی جنگ میں اور جیو پر تواتر اور کثرت سے یہ بات بھی کہی گئی کہ بہت سا خون بہا اور ضائع ہوا لیکن گاڑی کے اندرخون ہی نہیں پایا جاتا
 

آبی ٹوکول

محفلین
میری چھٹی حسں نہ جانے کیوں کہہ رہی ہے کہ حامد میر کا اپنا بیان جو ہوگا وہ اس سارے سلسلے کو تھما دے گا اور مصالحت کی کوئی راہ تلاش کرلی جائے گی یعنی وہ آئی ایس آئی کو بلیم ہرگز نہیں کرئے گا
 

arifkarim

معطل
روزنامہ امت اس قسم کی پھلجھڑیاں پہلے بھی چھوڑتا رہاہے اسلئے سازشی نظریات پر مبنی یہ کالم کم از کم میرے لئے کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اگر حامد میر پر حملہ آئی ایس آئی نے نہیں کروایا تو پھر کس نے کروایا ہے؟ اسکا الزام کالم نگار نے سچے امتی ہونے کی حیثیت سے روائیتی امریکہ اور بھارت پر ڈال دیا۔ یعنی انہوں نے پاکستانی آئی ایس آئی کی "اعلیٰ" کارکردگی پر تعریفات کے پل باندھنے کے بعد یہ ثابت کر دیا کہ آئی ایس آئی جیسی مہلک اور خطرناک خفیہ ایجنسی اگر یہ کام کرنا چاہتی تو دس بارہ برس پہلے ہی کر سکتی تھی۔ تو بندہ انسے پوچھے کہ یہ جن غیر ملکی خفیہ ایجنسیز کی پاکستان میں موجودگی کا پتا اتنے یقین کیساتھ بتلا رہے ہیں کیا انکا مکمل صفایا کرنا مملکت خداداد پاکستان میں ایک عرصہ دراز سے قائم و دائم 30 سے زائد انٹلیجنس ایجنسیاں کا کام نہیں ہے؟ :eek:
http://www.strategypage.com/htmw/htintel/articles/20140408.aspx

حال ہی میں National Intelligence Directorate کے سرکاری اجراء کے ساتھ یہ انکشاف ہوا کہ اس نئے قومی ادارے کا مقصد ملک میں موجود 30 سے زائد ایجنسیاں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کرنا ہے۔ یعنی پاکستان جیسے غریب اور بدحال ملک میں ایک عرصہ درازسے 30 سے زائد ایجنسیاں محض انٹلیجنس اکٹھی کرنے کا کام سرانجام دے رہی ہیں اور انکی موجودگی میں پاکستانی سالمیت کا یہ حال ہے کہ ہر پاکستانی صبح کفن باندھ کر گھر سے نکلتا ہے کہ پتا نہیں گھر بھی واپس لوٹے گا یا نہیں۔ جہاں دہشت گردوں کے متواتر حملوں سے وزراء و سیاست دان محفوظ نہ ہوں، آرمی چیف آف اسٹاف جنرل اور قومی صدر محفوظ نہ ہوں۔ جہاں جج، وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر جیسے اعلیٰ منصبوں پر فائز افراد بند بوریوں سے برآمد ہو رہے ہوں۔ جہاں غیر ملکی صحافیوں کو اذیت ناک طریقے سے ذبح کر کے اسکی ویڈیو آن لائن کر دی جاتی ہو ۔اور ملکی سینئر صحافی شہر کی سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بن رہے ہوں ، اس ملک میں 30 سے زائد انٹلیجنس ایجنسیوں کی ناقابل یقین حد تک ناقص کارکردگی پر شکوک و شبہات نہیں اٹھیں گے تو کیا انکی شان میں قصیدے پڑھے جائیں گے؟ ہماری 30 سے زائد نام نہاد انٹلیجنس ایجنسیاں ایک عالمی نوعیت کے سب سے بڑے اسلامی دہشت گرد اسامہ بن لادن کو اپنے ہی ملک میں اتنے سال پناہ گزین ہونے کے باوجود نہ تلاش کر سکیں اور نہ ہی اسکو امریکی سی آئی اے کے قہر سے بچا سکیں جب وہ بڑے مزے سے دندناتے ہوئے ہمارے اس عظیم ملک کے فوجی شہر ایبٹ آباد میں داخل ہوئے۔ اسامہ کو ہلاک کیا اور اس کے مردہ جسم کو اپنے ساتھ لیکر چلتے بنے! اور بعد ازاں جب ان ایجنسیوں نے بن لادن کے خاندان کو تحویل میں لیکر اپنی نااہلی پوری دنیا پر ثابت کردی تو کھسیانی بلی کی طرح یہ اعلان کردیا کہ یہ سب کچھ تو ہمارے ہی تعاون سے ہوا ہے حالانکہ وکی لیکس اس بات کا انکشاف کر چکی ہے کہ امریکی سفارت کاروں کو پہلے ہی سے علم تھا کہ ہماری اسلامی آئی ایس آئی دنیا کے سب سے بڑے اسلامی دہشت گرد کی پشت پناہی کر رہی ہے اور اسی وجہ سے کسی بھی پاکستانی خفیہ ایجنسی کو سی آئی اے کے اس خفیہ مشن کے بارہ میں پہلے سے مطلع نہیں کیا گیا، وگرنہ یہ ایجنسی والے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے بھی غائب کر کے اسلام آباد پہنچا دیتے!
http://en.wikipedia.org/wiki/Allegations_of_support_system_in_Pakistan_for_Osama_bin_Laden
 
آخری تدوین:
یہ بات تو جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ آئی ایس آئی نے یہ حملہ نہیں کیا لیکن اس کے بعد کی بیان کردہ داستان"تفتیش پر اثر انداز " ہونے کی قبل از وقت کوشش لگتی ہے ۔
زیک نے جو بات انگریزی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے اس کا بامحاورہ ترجمہ صاحب سجدہ نے پیش کردیا ہے پڑھیئے اور سَرکو دھنیئے
 
کیا محب وطن پاکستانی ہونے کا تقاضا ہے کہ میں آئی ایس آئی کے تمام افسران کو تمام غلطیوں اور جرائم سے پاک اور معصوم سمجھ لوں؟ اور یہ یقین رکھوں کہ اسکے افسران طاقت اور اختیارات کو اپنے ذاتی اور غیر پیشہ ورانہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرتے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا محب وطن پاکستانی ہونے کا تقاضا ہے کہ میں آئی ایس آئی کے تمام افسران کو تمام غلطیوں اور جرائم سے پاک اور معصوم سمجھ لوں؟ اور یہ یقین رکھوں کہ اسکے افسران طاقت اور اختیارات کو اپنے ذاتی اور غیر پیشہ ورانہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرتے؟
محب وطن ہونے کا تقاضا تو یہ بھی کہتا ہے جناب کہ سیاست دانوں کے بارے بھی یہی گمان رکھا جائے، بالخصوص وہ جن کے کاروبار پاکستان سے باہر ہوں، جن کے محلات پاکستان سے باہر ہوں، جن کی اولاد اور رشتہ دار، دوستوں نے تمام اہم عہدوں پر قبضہ جمایا ہوا ہو :)
ظاہر ہے کہ میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ کسی بھی ادارے، قوم، مذہب یا ملک میں تمام فرشتے نہیں بستے اور نہ ہی تمام تر شیاطین :)
 
محب وطن ہونے کا تقاضا تو یہ بھی کہتا ہے جناب کہ سیاست دانوں کے بارے بھی یہی گمان رکھا جائے، بالخصوص وہ جن کے کاروبار پاکستان سے باہر ہوں، جن کے محلات پاکستان سے باہر ہوں، جن کی اولاد اور رشتہ دار، دوستوں نے تمام اہم عہدوں پر قبضہ جمایا ہوا ہو :)
ظاہر ہے کہ میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ کسی بھی ادارے، قوم، مذہب یا ملک میں تمام فرشتے نہیں بستے اور نہ ہی تمام تر شیاطین :)
فوج اور آئی ایس آئی کے ملازم اور دوسرے سول سرکاری اہلکار دونوں میں فرق یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کے پاس کرپشن کی وجوہات کم ہیں زیادہ تنخواہ اور سخت سزا کی صورت میں لیکن فوج اور آئی ایس آئی کے اہلکار نیت خراب ہونے پر کسی بے گناہ پر اچھا خاصا ظلم کرنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں اس کی ایک مثال صحافی بھی ہوسکتے ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اور محب الوطنی کا یہ بھی تقاضا میری طرفسے تمام احباب نوٹ فرمالیں کہ اس مافیائی میڈیا اور صحافتی گماشتوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے انھے بھی مقدس گائے نہ تصور کیا جائے آہو
 
Top