جدید اردو انشاء پردازی

بڑے بھائ کا خط چھوٹے نافرمان بھائ کے نام
برخودار چوٹا بائ

وعلیکم السلام
یہ میرا تمھارے نام ایک سو سولہواں خط ہے …… ہر بار خط لکھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ تمہیں آئیندہ کچھ نہیں لکھوں گا کہ اب چاہے شہر کی دیوار پر چڑھ کر اُلٹا چلانگ لگاؤ یا کنویں میں الٹی موٹر سیکل چلاؤ … اماری طرف سے باڑ میں جاؤ
آنکوں پر خوش فیمی کا سیاہ چشمہ لگائے….. کانوں پر “سب اچّا” کا ہیڈ پُون سجائے …… اور کوپڑی میں وزارتِ عظمی کا بُوت بٹھائے …… اندھا دھند بھاگے جا رہے ہو …. بہت بری سنگت ملی ہے تمہیں …… ام سگریٹ کو چرس نسوار کو پان کہتے ہیں … ٹوکریں کھا کر بھی جسے عقل نہ آئے اسے امران کھان کہتے ہیں
تومیں کتنی بار تمہیں سمجھایا کہ اللہ کے بندر اپنا کام پر توجہ دو … لیکن تم کسی ضدی بچے کی طرع ہمیشہ روتا رہا روتا رہا اور ساتھ جمات اسلامی کو بی رلاتا رہا رلاتا رہا …. 28 بار تمہارے پاس چل کر گیا ….. اس باگ دوڑ میں ….. اب تک امارہ دو پشاوری چپل ٹوٹ چکا اے ……. لیکن تمہارا ضد نہیں ٹوٹا
تمہاری وجہ سے محلے میں جو توڑا بہت عزت تھا …. وہ بھی ہاتھ سے گیا-اب تو دودھ والا بھی ادھار بند کر چکا ہے ….. کیونکہ تم نے “لر افغان” میں دودھ کا جو نہر کُدوایا تھا ناں …. اوس دودھ والے کا کاروبار ٹپ او گیا ہے
چوٹا بائ
تمہارا کھلنڈرا قسم کا طبیعت اے …. لیکن ہم جیسا درویش کے لیے… سیاست میں دو کوڑی کی عزت ہی سب کچ ہے
ایک دفعہ پھر یہ مسکین ہاتھ جوڑتا کر لکھتا ہے کہ بس کرو بس کرو بس کرو …. خدا کےلیے بس کرو … چوڑو یہ پنامہ شنامہ … الیکشن کا تیاری کرو خود تو ڈوبو گے میرے بھائ جمات اسلامی کو بھی لے ڈوبو گے……ابھی کچھ سال باقی ہیں الیکشن میں اور ملک میں کوئ بڑا نفسیاتی شفاخانہ بھی نہیں….کہاں کہاں لیے پھروں گا تمہیں……..اگر کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو

خط کا جواب جلدی دینا
عطر کا شیشی پتھر میں مار کور توڑ دوں گا

اگر راہ راست پر نہ آیا تو سر اپنا پھوڑ دوں گا
فقط تمھارا دکھی بھاٰئ
سراج دین….درزی درویش

منصورہ جنرل اسٹور
لاہور
ازقلم… ظفر اقبال محمّد
 
Top