جب شامِ سفر تاریک ہوئی ، وہ چاند ہویدا اور ہوا

الف نظامی

لائبریرین
جب شامِ سفر تاریک ہوئی ، وہ چاند ہویدا اور ہوا
منزل کی لگن کچھ اور بڑھی ، دل زمزمہ پیرا اور ہوا
جب کہر فضاوں پر چھائی ، جب صورتِ فردا دھندلائی
منظر منظر سے جلوہ فشاں وہ گنبدِ خضرا اور ہوا
ہر حال میں ان کی موجِ کرم تھی چارہ گرِ ادبار و الم
حد سے گزری جب تلخی ء غم ، لطفِ شہِ بطحا اور ہوا
جوں جوں وہ حرم نزدیک آیا ، کب نظارے کا یارا تھا
جھکتی ہوئی نظریں اور جھکیں ، سوچوں میں اجالا اور ہوا
اندازِ پذیرائی سے ہوا رنگ ان کی محبت کا گہرا
رحمت کے دریچے اور کھلے ، مدحت کا تقاضا اور ہوا
پہلے بھی اُس کی تابانی کچھ روئے زمیں پر کم تو نہ تھی
جب ثور کی منزل سے گزرا ، اُس ماہ کا چرچا اور ہوا
حفیظ تائب ، 20 اگست 1995
دفتر "درویش" لاہور

nawadrat4.jpg
 
Top