جاوید نامہ مصوّر سے ایک منظر کی تصاویر

محمد وارث

لائبریرین
"بانگِ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانے کی ہیں، زیادہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اس (بانگِ درا) سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے، یہ نظم ایک قسم کی "ڈیوائن کامیڈی" ہے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہو جائے، اور اگر اس ترجمہ کا کوئی عمدہ مصوّر (السٹریٹ) بھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصوّر کے لیے بہت عمدہ مسالہ ہے۔"

یہ اُس خط سے ایک اقتباس ہے جو علامہ اقبال نے ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کو 30 مارچ 1933ء کو لکھا، صوفی صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ ان (صوفی صاحب) کا ایک دوست "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کا انگریزی منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔

اسی طرح 25 جون 1935ء کو علامہ اقبال ایک مصوّر ضرار احمد کاظمی کو جو "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کو مصوّر کر رہے تھے، لکھتے ہیں۔

"میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف "جاوید نامہ" ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصوّر طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پوری مہارتِ فن کے علاوہ الہامِ الٰہی اور صرفِ کثیر کی ضرورت ہے۔"

اسی مصور کو اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 18 اپریل 1938ء کو لکھتے ہیں: "پوری مہارتِ فن کے بعد اگر آپ نے "جاوید نامہ" پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔"

ان تمام خطوط کے اقتباسات، جن سے علامہ اقبال کی نظر میں اپنی کتاب "جاوید نامہ" کی اہمیت اور اس کو مصوّر کرنے کی شدید خواہش ظاہر ہوتی ہے، میں نے "جاوید نامہ" کی ایک طبعِ خاص (ڈیلکس ایڈیشن) سے لیئے ہیں، جسے اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے 1982ء میں شائع کیا تھا۔ اس ڈیلکس ایڈیشن کی سب سے خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں "جاوید نامہ" کے مختلف حصوں کی جمی انجنیئر کی مصوّر کی ہوئی تصاویر ہیں۔ دراصل جمی انجنیئر نے علامہ اقبال کے فرزند، ڈاکٹر جاوید اقبال کی اقامت گاہ کی دیواروں پر جاوید نامہ کے جملہ مناظر نقش کیے تھے اور انہی مناظر میں سے اقبال اکادمی نے 35 تصاویر جاوید نامہ کے مذکورہ ڈیلکس ایڈیشن میں شائع کی ہیں۔ کتاب میں شائع کرنے کیلیے تصاویر کو منتخب کرنے کا فریضہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے سرانجام دیا تھا۔ اور اسی ایڈیشن میں سے چار تصاویر میں یہاں پیش کر رہا ہوں، یہ چار تصاویر "جاوید نامہ" کے ایک منظر کو واضح کرتی ہیں۔ ان تصاویر پر میں نے نہ صرف "جاوید نامہ" میں سے متعلقہ حصے کا نام لکھا دیا ہے بلکہ اس طبعِ خاص میں تصاویر کے نیچے جو اشعار دیئے گئے ہیں وہ بھی (مع ترجمہ) لکھ دیئے ہیں اور یوں علیحدہ علیحدہ تصویر بھی اپنی جگہ پر مکمل سی ہے۔ تصاویر کو بڑا دیکھنے کیلیے ان پر 'کلک' کیجیے۔

اس منظر کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ مولانا رومی، علامہ اقبال کو افلاک کی سیر پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جسے علامہ نے "سیاحتِ عالمِ علوی" کا نام دیا ہے۔ اپنے اس سفر پر سب سے پہلے وہ "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں اور وہاں پر چاند کی ایک وادی "یرغمید" کو دیکھتے ہیں۔ اس وادی میں رومی، علامہ کو نبوت کے چار مناظر دکھاتے ہیں۔ اس تصویر میں اسی منظر کی بیان کیا گیا ہے اور اگلی تصاویر میں انہی مناظر کو بڑا کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر میں مولانا رومی علامہ کو سنگِ قمر کی دیورا پر نقش چار "طاسینِ نبوت" یا نبوت کی تعلیمات دکھاتے ہیں جن کی تفصیل نیچے آ رہی ہے، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان حصوں کے عناوین سے بھی علامہ کے تخیل کا اوج دکھائی دیتا ہے۔

JavaidNama-AllamaIqbal-1.jpg



طاسینِ گوتم - توبہ آوردن زنِ رقاصۂ عشوہ فروش یعنی گوتم کی تعلیمات، ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ یہ دراصل گوتم بدھ اور ایک رقاصہ کا مکالمہ ہے، جس میں گوتم بدھ رقاصہ سے بات کرتا ہے اور جواباً رقاصہ توبہ کرتی ہے۔
JavaidNama-AllamaIqbal_2.jpg



اس سے اگلے حصے کا نام "طاسینِ زرتشت - آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی زرتشت کی تعلیمات، اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمائش کرنا۔ یہ بھی ایک مکالمہ ہے جس میں اہرمن، زرتشت کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور جواباً زرتشت اپنے نظریات بیان کرتا ہے۔
JavaidNama-AllamaIqbal_3.jpg




اس سے اگلا حصہ بھی دلچسپ ہے، "طاسینِ مسیح، رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مسیح (ع) کی تعلیمات، حکیم ٹالسٹائی کا خواب۔ افسوس کہ اس منظر کی بڑی تصویر ڈاکٹر جاوید اقبال نے کتاب کے لیے منتخب نہیں کی (نہ جانے کیوں) لیکن پہلی تصویر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مشہور روسی ناول نگار اور مذہبی مصلح، ٹالسٹائی کا ایک خواب علامہ نے دکھایا ہے کہ ایک شخص چاندی کی ندی کے پارے میں کمر تک غرق ہے اور ندی کے کنارے ایک ساحر اور حسین عورت کھڑی ہے اور ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے، وہ عورت، جسے علامہ نے افرنگیں کا نام دیا ہے اور وہ استعارہ ہے مغربی تہذیب کا، اس مرد (یہودیوں) کو طعنہ مارتی ہے کہ تم لوگوں نے مسیح کے ساتھ کیا کیا کہ ان کو سولی پر لٹکا دیا اور اب چاندی کے (یعنی میرے پجاری) بنے ہوئے ہو اور جواب میں وہ شخص اس پر اعتراضات کرتا ہے کہ تم نے ہم لوگوں کو گمراہ کر دیا، یہ دراصل وہ اعتراضات ہیں جو ٹالسٹائی نے اپنی تصنیفات میں عیسائی مذہب پر کیے تھے۔ اس حصے کا یہ شعر بہت خوبصورت ہے۔

آنچہ ما کردیم با ناسوتِ اُو
ملّتِ اُو کرد با لاہوتِ اُو

(وہ شخص، اس عورت کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ) کہ ہم نے جو کچھ بھی اُس (عیسیٰ ع) کے جسم (ناسوت) کے ساتھ کیا، ان کی ملّت نے وہی کچھ ان کی روح (لاہوت) کے ساتھ کیا، یعنی ہم نے تو فقط عیسیٰ کے جسم کو سولی پر چڑھایا تھا، ان کی قوم نے انکی روح کو سولی پر چڑھا دیا۔

اور اس منظر کا آخری حصہ بھی انتہائی دلچسپ پے، "طاسینِ محمد، نوحہ روحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ" یعنی حضرت محمد (ص) کی تعلیمات، ابوجہل کی روح کا حرمِ کعبہ میں نوحہ، یہ مکمل حصہ میں 'انتخابِ فارسی کلامِ اقبال مع اردو ترجمہ' میں پیش کر چکا ہوں، خواہش مند قارئین اس ربط پر اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں ابوجہل کی روح حرم کعبہ میں نوحہ کرتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ انکے اور انکے بتوں کے ساتھ حضرت محمد (ص) نے کیا کیا۔

JavaidNama-AllamaIqba_4.jpg



جمی انجنیئر اپنی اس کاوش میں کس حد تک کامیاب رہے، یہ تو علامہ ہی بہتر بتا سکتے تھے اگر وہ زندہ ہوتے لیکن بہرحال انکی کاوش قابلِ تحسین ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب، لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ علامہ کی شدید خواہش، انکے بڑے بڑے عاشقین، اور اپنے اپنے وقت کے جغادری مصوروں کی موجودگی کے باوجود، جمی انجنیئر کے علاوہ اس کام کو کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب اس سائٹ کا مجھے علم نہیں تھا، نوازش۔ سائٹ پر موجود مناظر کے 'کلوز اپ' کتاب میں موجود ہیں، یہ کام یقیناً جمی کے اوائل جوانی کا ہے لیکن مجھے تو یہ مناظر دلکش لگتے ہیں اور کچھ مسحور سے کر دیتے ہیں :)
 
Top