مصحفی جان سے تا وہ مجھے مار نہیں جانے کا - غلام ہمدانی مصحفی

کاشفی

محفلین
غزل
(غلام ہمدانی مصحفی)

جان سے تا وہ مجھے مار نہیں جانے کا
جان جاوے گی ولے یار نہیں جانے کا

بعد مُردن جو رہیں گے یونہیں وَادِیدہء شوق
المِ حسرت دیدار نہیں جانے کا

مرضِ عشق کی شاید ہو پسِ مرگ، شفا
زندگی میں تو یہ آزار نہیں جانے کا

رحم کر ضعف پر اُس کے کہ چمن تک صیاد
نالہء مرغِ گرفتار نہیں جانے کا

دستِ چالاک کی یہ خو ہے تو مرتے مرتے
ہاتھ سے دامنِ دلدار نہیں جانے کا

گر یہی چشم کی مستی ہے تری اے ساقی
میکدہ سے کوئی ہُشیار نہیں جانے کا

اے طبیبو! نہ اذیت دو مجھے بہر خُدا
آپ دردِ دلِ بیمار نہیں جانے کا

گر شبِ وصل بھی ہم لوگ کریں گے نالہ
یہ یقیں ہے کہ وہ بیکار نہیں جانے کا

کوچہء عشق میں سخت اس نے اذیت کھینچی
اب اُدھر مصحفیء زار نہیں جانے کا
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، بہت شکریہ جناب کاشفی صاحب اس پوسٹ کیلیے!

کئی اشعار میں اضافتیں لگانے کی ضرورت ہے لیکن اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا، لیکن اس شعر میں مرگ کے بعد ایک اضافت لگ گئی ہے جس کے نہ ہٹانے سے مطلب بگڑتا ہے، ہو سکے تو درست کر دیں، نوازش!


مرض عشق کی شاید ہو پسِ مرگِ شفا
زندگی میں تو یہ آزار نہیں جانے کا


مرضِ عشق کی شاید ہو پسِ مرگ، شفا
زندگی میں تو یہ آزار نہیں جانے کا
 

کاشفی

محفلین
شاہ حسین صاحب!

سخنور صاحب!

فاتح صاحب!

اور

محمد وارث صاحب!

آپ چاروں اراکینِ بزم کا بیحد شکریہ۔خوش رہیں۔
 
Top