تکیہ کلام ۔۔۔۔مجتبیٰ حسین

‘تکیہ کلام ’’سے یہاں ہماری مراد وہ تکیہ کلام نہیں ہے جوبات چیت کے دوران میں بار بار مداخلت جاوبےجا کرتا ہے بلکہ یہاں تکیہ کلام سے مراد وہ کلام ہے جو تکیوں پر زیور طبع سے آراستہ ہوتا ہے اور جس پر آپ اپنا سررکھ کر سو جاتے ہیں اور جو آپ کی نیندیں ‘‘حلال’’کرتا ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ایک دوست کو ادھورے خواب دیکھنے کی بیماری تھی،وہ تھوڑا سا خواب دیکھتے کہ بجلی فیل ہوجاتی اوروہ نیند سے چونک پڑتے۔ ایک دن ہم سے بولے:‘‘بھئی! عجیب بات ہے کہ مجھےادھورے خواب نظر آتے ہیں۔ آخر پورے خواب کیوں نظر نہیں آتے۔ میں خوابوں کے‘ٹریلر’ دیکھتے دیکھتے عاجز آگیا ہوں؟’’ہم نے ان کے بستر کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ تکیہ پر ایسا شعر لکھا ہے جو‘‘بحر’’ سے خارج ہے۔ اس پر ہم نے کہا:‘‘بھئی! اس کا اصل راز یہ ہے کہ تم ایسے تکیہ پر سوتے ہو جس پر بے بحر شعر لکھا ہوا ہےاوراس تکیہ کی کرامت سے تمہارے خواب بھی بحر سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس شعر کو بدلو تو تمہارے خوابوں کی صحت بھی بہتر ہوجائے گی۔’’

یہ تو ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ ہمارے ایک اور دوست کا قصہ ہے کہ انہیں عرصہ سے بلڈپریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ بستر پر سوجاتے تو ان کا بلڈپریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔جب ایلوپیتھی علاج سے فائدہ نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کی خدمت حاصل کی گئیں۔ حکیم صاحب نے ان کا بغور معائنہ کیا۔زبان اتنی بار باہرنکلوائی کہ وہ ہانپنے لگے۔ مگر اسی اثناء میں حکیم صاحب کی نظر تکیہ پر پڑی اور وہ تکیہ کی جانب لپکے، شعر کو غور سے پڑھا اور تنک کر بولے:

‘‘اس تکیہ کو ابھی یہاں سے ہٹائیے۔ بلڈپریشر کی اصل جڑ تو یہ تکیہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کمال کردیا آپ نے۔آپ کو بلڈپریشر کی شکایت ہے اور آپ نے شاعرِ انقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی کا شعر تکیہ پر طبع کروا رکھا ہے۔ جانتے ہیں جوشؔ کی شاعری میں کتنا جوش ہوتا ہے۔ جوشؔ کے شعر پرآپ سو جائیں گے تو دورانِ خون نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا؟ اس تکیہ کو اسی وقت یہاں سے ہٹائیے۔ خبردار جو آئندہ سے آپ نے جوشؔ کے تکیہ پر سررکھا۔اگر شعروں پر سونا ہی ضروری ہے تو داغؔ کے غلاف پرسو جائیے، جگرؔ کے غلاف کو اپنے سر کے نیچے رکھئیے۔ان شعراء کا کلام آپ کے بلڈپریشر کو کم کردے گا۔ آپ کو فرحت ملے گی، بھوک زیادہ لگے گی، آپ کے جسم میں خون کی مقدار میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔’’

حکیم صاحب کے اس مشورے کے بعد ہمارے دوست نے نہ صرف‘‘جوشؔ کا غلاف’’ بدل دیا بلکہ اب وہ جوشؔ کے کلام کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے ہیں کہ کہیں پھر بلڈپریشر کا عارضہ لاحق نہ ہوجائے۔

لیکن تکیوں کے کلام کی ایک افادیت بھی ہوتی ہے جس کا راز صرف اہل دل ہی جانتے ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ ایک اہل دل کی شاعری صرف تکیوں کے اشعار کے باعث ہوتی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ یہ صاحب کہیں مہمان بن کر گئے ہوئے تھے۔ رات میں میزبان کے گھر میں سے ان کے لئے جب بستر آیا تو اس میں ایک تکیہ بھی تھا، جس پر یہ شعر لکھا تھا ؎

شمیم طُرّہ گیسوئے یار لایا ہوں

میں اپنے ساتھ چمن کی بہار لایا ہوں

آدمی چونکہ ہوشیار تھے، اس لئے اس غلاف کا مطلب سمجھ گئے۔

دوسرےدن بازارگئےاورایک ریڈی میڈ غلاف خرید لائے، جس پریہ شعرلکھا ہوا تھا ؎

اُٹھا تو سر پٹک دیا تکیہ پہ بار بار

شب بھر گواہ، یہ بھی مرے دردِ دل کا تھا

اُنہوں نے چپکے سے تکیہ کا پُرانا غلاف اُتارا اور نیا غلاف اس پر چڑھا دیا۔ اب یہ تکیہ ان کا پیام لے کر اندر واپس ہوا۔ نہ جانے اس شعر نے کیا قیامت مچائی۔ شام میں جب تکیہ واپس ہوا تو اس پر ایک نیا شعر لکھا ہوا تھا ؎

مرا جذبِ دل مرے کام آرہا ہے

اب ان کی طرف سے پیام آرہا ہے

دوسرے دن ان صاحب نے یہ غلاف بھی اُتار لیا اور پھر ایک طبع زاد غلاف چڑھا دیا ؎

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے

سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے

غرض اس ‘‘تکیہ بردار’’ عشق نے وہ جوش مارا کہ سلام و پیام کا سلسلہ بڑھتا رہا بالآخر ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ چنانچہ یہ دونوں ایک ہی شعر پر تکیہ کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان کے تکیوں کے اشعار کی ماہیت تبدیل ہوگئی ہے۔چنانچہ ہم نے پرسوں ان کی خواب گاہ میں جو تکیہ دیکھا تھا اس پر یہ شعر درج تھا۔

اس سیاہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں

خوابِ راحت بھی جسے خواب پریشاں ہوجائے

آئیے، اب ذرا شعراء حضرات کے تکیوں کی بات ہوجائے جن کے لئے شاعری اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے۔ یعنی ان کے تکیوں پر شعر ہوتے ہیں۔ حد ہوگئی کہ ہم نے ایک شاعر کی مچھر دانی پر بھی شعروں کا جنگل اُگا ہوا دیکھا۔ ہم نے ایک شاعر کے گھر میں ایک منظوم تکیہ دیکھا تھا جس پر یہ شعر درج تھا ؎

یار سوتا ہے بصد ناز بصد رعنائی

محوِ نظارہ ہوں بیدار کروں یا نہ کروں

ہم نے اس شعرکو پڑھ کر کہا:‘‘بھئی واہ کیا خوب شعر کہا ہے، کس کا شعر ہے؟’’

ہمارے سوال کوسن کران کا چہرہ تمتما اُٹھا اور بولے‘‘معاف کیجئے، میں کسی دوسرے کے کلام پر تکیہ نہیں کرتا۔ یہ شعر میرا ذاتی ہے اور یہ بات میری خود داری کے خلاف ہے کہ میں دوسروں کے اشعار پر سوجاؤں۔ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کوئی شاعر اپنے تکیہ پر میرؔ کے تکیہ کا شعر لکھ مارے ؎

سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

ہم نے ان کے غصّہ کو تاڑ کر معافی مانگ لی اور چپ ہو رہے۔بعد میں ان کے گھر کی اشیاء پر جو نظر ڈالی تو ہر شئے شعر میں لت پت نظر آئی۔ پھر بہت دنوں بعد پتہ چلا کہ شاعر موصوف کی جو غزلیں مختلف رسالوں سے ‘‘ناقابل اشاعت’’قرار پا کر واپس آتی ہیں، انہیں وہ اپنے گھر کی چادروں پر چھپوادیتے ہیں، تکیوں کے غلافوں پر چڑھا دیتے ہیں اور میز پوش پر زیور طبع سے آراستہ کرتے ہیں۔ ہم تکیوں کے ذریعہ ادب کی ترقی کے ضرور قائل ہیں لیکن ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ ناقابل اشاعت اشعار بھی تکیوں پر چھاپے جائیں۔ پھر جب ہماری شاعری میں نئے رجحانات آرہے ہیں تو تکیوں میں بھی نئے رجحانات کا آنا نہایت ضرور ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی سخن فہم اپنے تکیہ پر آزاد نظم لکھوائے۔ اگر تکیہ اس نظم کو قبول کرنے میں تنگ دامنی کا شکوہ کرے تو اس نظم کو دو تین تکیوں پر شائع کیا جائے۔ مثلاً نظم کا ایک بند تو ایک تکیہ پر ہوا اور اس کے نیچے یہ عبارت درج ہو:

‘‘براہ کرم تکیہ الٹیئے۔’’

اورتکیہ الٹنے پربھی کام نہ بنے تو نیچے یہ عبارت لکھی جائے:

‘‘باقی نظم ملاحظہ ہوگاؤ تکیہ (۱) پر۔’’

اور گاؤ تکیہ بھی اس کی طوالت کو برداشت نہ کرسکے تو اس کے نیچے لکھا جائے

‘‘باقی نظم ملاحظہ ہو شطرنجی کلاں پر۔’’

اور جب یہ نظم ختم ہوجائےتو اس کے نیچے،‘غیر مطبوعہ’ کے الفاظ کا بھی اضافہ کردیا جائے۔

ہمیں یقین ہے کہ ‘‘منظوم تکیوں’’کے شائقین اپنے تکیوں کو شاعری کے جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کی سعی فرمائیں گے۔۔۔
 
Top