تعصبی بلیاں

ایمرجنسی کے خلاف موثر عوامی احتجاج اور تدبرانہ حکمت عملی نے پیپلز پارٹی کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں‌مخالف بھی اب پی پی پی کی قیادت کو تک رہے ہیں‌اور وہاں‌ سے حکمت عملی کے منتظر ہیں۔ مگر ان حالات میں‌بھی تعصبی بلیوں کو چین نہیں‌ارہا۔ وہ اس بات پر کہ پیپلز پارٹی کی عوامی اور بین الاقوامی حمایت بڑھتی جارہی ہے جلے پاوں‌کی بلی کی طرح بے چین ہورہی ہیں۔
1100299888-1.gif

یہ تعصبی بلیاں‌جن کے بھاگوں‌چھینکا اس وقت ٹوٹتا ہے جب مارشل کا بلا ان کو اپنے حرم میں‌شامل کرتا ہے ۔ مگر اب مارشل لا کا دور گزرگیا اور اب تاج اچھالیں‌جائیں‌گے ۔۔
 
اس وقت میں اس بات سے متفق ہوں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کیا جائے کیونکہ جو بھی پارٹی مشرف کے خلاف احتجاج کر رہی ہے وہ صحیح ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
میرا معاملہ دوسرا ہے ، میں ایک برائی کے خاتمے کے لیئے دوسری برائی کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ سوری ۔ :rolleyes:

میرا تازہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
 
اس وقت میں اس بات سے متفق ہوں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کیا جائے کیونکہ جو بھی پارٹی مشرف کے خلاف احتجاج کر رہی ہے وہ صحیح ہے۔

شکریہ محب۔ اپ بات کو درست تناظر میں‌سمجھے‌ہیں۔
خود میرا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں‌ہے مگر حالات کے پس منظر میں‌ جو بات سمجھ میں‌اتی ہے وہی بیان کردی اپنے پوسٹز میں۔
 

ساجد

محفلین
میں ظفری بھائی سے اتفاق کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ
" ایک برائی کے خاتمے کے لئیے میں اس سے بھی بڑی برائی کا ساتھ نہیں دے سکتا"۔
 

ظفری

لائبریرین
اس وقت میں اس بات سے متفق ہوں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کیا جائے کیونکہ جو بھی پارٹی مشرف کے خلاف احتجاج کر رہی ہے وہ صحیح ہے۔

یہ سب سیاسی شعبدہ بازیاں ہیں محب ۔۔۔۔ تم دیکھنا بینظیر ، مشرف کے ساتھ ہی حکومت بنائیں گی ۔ امریکہ ، بی بی کی عوام پذیرائی اور مشرف کی عسکری قوت کے ذریعے اس ملک کی عوام کو بیوقوف بنا کر اس خطے میں اپنا فائدہ نکالنا چاہتا ہے ۔ لہذا ان دونو‌ں کو ہی اقتدار میں رہنا ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں ایوانِ اقتدار کا راستہ واشنگٹن سے ہی ہو کر گذرتا ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ محب۔ اپ بات کو درست تناظر میں‌سمجھے‌ہیں۔
خود میرا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں‌ہے مگر حالات کے پس منظر میں‌ جو بات سمجھ میں‌اتی ہے وہی بیان کردی اپنے پوسٹز میں۔

میرا یہاں آپ کے تجزیے پر اختلاف مقصود نہیں ہے مگر اس ضمن میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں ‌کوئی شبہ نہیں ہے کہ سیاست حقیقت پسندی سے عبارت ہے ۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں‌ ہونا چاہیئے ہر اخلاقی اصول کی پامالی کو حقیقت پسندی کا عنوان دیکر قابل ِ قبول بنا دیا جائے ۔ معاشرتی تعمیر کے لیئے ضروری ہے کہ جرم کو جرم ہی قرار دیا جائے ۔ اور قطعِ نظر اس کے کہ اس کا ارتکاب کس نے کیا ہے ۔ یا وہ کس ردعمل میں ہوا ہے ۔ سیاست سمیت زندگی کا کوئی شعبہ مثالی نہیں ہوتا لیکن زندہ معاشرے انحرافات کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہیں ۔ ایسے انحرافات کے لیئے جواز تلاش کرنے کا مطلب اخلاقی پیمانوں کی قربانی ہے ۔ کسی معاشرے کیساتھ اس سے بڑا حادثہ نہیں ہوسکتا کہ اخلاقی گراوٹ پر اظہارِ تاسف کے بجائے ان کے لیئے جواز تلاش کیا جائے ۔ اگر آج مشرف کے دور کو بدترین کہا جارہا ہے ۔ اسی طرح محترمہ بینظیر کا ماضی بھی رہا ہے ۔ لہذا اب مشرف کے خلاف یعنی ایک بدترین دور کے خاتمے کے لیئے ماضی کے ایک بدترین دور کا انتخاب کرنا اور پھر اس کو بھرپور حمایت سے سرفراز کرنا ۔ مجھے اس میں کوئی مثبت پہلو نظر نہیں آتا ۔
 
میرا یہاں آپ کے تجزیے پر اختلاف مقصود نہیں ہے مگر اس ضمن میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں ‌کوئی شبہ نہیں ہے کہ سیاست حقیقت پسندی سے عبارت ہے ۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں‌ ہونا چاہیئے ہر اخلاقی اصول کی پامالی کو حقیقت پسندی کا عنوان دیکر قابل ِ قبول بنا دیا جائے ۔ معاشرتی تعمیر کے لیئے ضروری ہے کہ جرم کو جرم ہی قرار دیا جائے ۔ اور قطعِ نظر اس کے کہ اس کا ارتکاب کس نے کیا ہے ۔ یا وہ کس ردعمل میں ہوا ہے ۔ سیاست سمیت زندگی کا کوئی شعبہ مثالی نہیں ہوتا لیکن زندہ معاشرے انحرافات کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہیں ۔ ایسے انحرافات کے لیئے جواز تلاش کرنے کا مطلب اخلاقی پیمانوں کی قربانی ہے ۔ کسی معاشرے کیساتھ اس سے بڑا حادثہ نہیں ہوسکتا کہ اخلاقی گراوٹ پر اظہارِ تاسف کے بجائے ان کے لیئے جواز تلاش کیا جائے ۔ اگر آج مشرف کے دور کو بدترین کہا جارہا ہے ۔ اسی طرح محترمہ بینظیر کا ماضی بھی رہا ہے ۔ لہذا اب مشرف کے خلاف یعنی ایک بدترین دور کے خاتمے کے لیئے ماضی کے ایک بدترین دور کا انتخاب کرنا اور پھر اس کو بھرپور حمایت سے سرفراز کرنا ۔ مجھے اس میں کوئی مثبت پہلو نظر نہیں آتا ۔

اپ کی راہ قابل احترام ہے اور اس پر اعتراض کیے بغیر کچھ باتوں پر غور کرتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہم اس بات پر مرتکز نہیں ہیں کہ مسئلہ اخر ہے کیا؟ کیا سیاست دانوں کی کرپشن مسئلہ ہے ؟ یا بیرونی طاقتوں کا ہمارے اداروں و اختیارات میں دخل اندازی ہے؟ کیا ہم اقتصادی مسائل کا شکار ہیں یا فوجی اداروں کا غلط استعمال مسئلہ ہے؟ جب ہم ایک بات پر مرتکز ہوجائیں گے تو مسائل کے حل پر سوچیں گے۔بیرونی عناصر ہمارے اداروں کو جب استعمال کرتے ہیں جب یہ ادارے کرپٹ ہوچکیں ہوں اور اپنے عوام کے سامنے جواب دہ نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج پاکستانی عوام کی امنگوں کو کچلتی رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے افراد ایک مثبت، تعمیری اور ترقیاتی زندگی چاہتے ہیں۔ وہ متحرک معاشرہ جو اس جانب گامزن ہو اس صورت میں ہی بن سکتا ہے جب افراد میں یہ احساس موجود ہو کہ وہ ایک مثبت و تعمیری عمل کے حصہ دار ہیں۔ یہ احساس اس صورت میں ہی موجود ہوگا جب واقعی عوام عمل میں شامل ہوں۔ بدقسمتی سے موجودہ حالات پاکستانی عوام متحرک معاشرہ کے حصہ نہیں رہے اور وجہ وہی تھی کہ ان کی طاقت فوجی اداروں نےچھین رکھی تھی۔
جلد یا بدیر عوام اپنی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس کی صورت مختلف ہوسکتی ہیں مثلا ایک صورت میں عوام منظم ہو اور کسی ایک نظریہ پر متفق ہو کہ اپنی مجتمع قوت کے ذریعے طاقت واپس حاصل کرسکیں ۔ اس عمل میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور تشدد ہوتا ہے۔ معاشرے کی سطحیں تہہ وبالا ہوجاتی ہیں ۔ اس عمل کو انقلاب کہتے ہیں۔ اگر عوام باشعور، منظم قیادت کے پیچھے نہ چل رہی ہو تواس انقلاب سے ہی تنزلی کا ایک اور شروع ہوتا ہے۔ انقلاب کو عمل پذیر ہونے اور کامیاب ہونے کی صورت یہ ہے کہ عوام ایک نظریہ پر متفق ہوں اور انھیں بے لوث، مخلص اور نے حد متحرک قیادت مسیر ہو۔

دوسری صورت یہ ہے معاشرے میں موجود عوامل ہی متحرک ہوں۔ وہ عناصر جو معاشرے کی جڑوں تک رسائی رکھتے ہوں وہی اگے ائیں اور عوام کو طاقت دیں۔ اس صورت میں تبدیلی بتدریج اور بلاکسی تصادم کے عمل پذیر ہوگی۔ مگر اس طریقہ کی کامیابی کی ایک شرط تبدیلی کی عمل کا تسلسل اور بتدریج مضبوطی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ عناصر جو طاقت پائیں ان میں کچھ کرپٹ طبقہ بھی شامل ہو۔ مگر جہموری عمل جاری رہے تو عوام خود احتساب کرکے ان کرپٹ عناصر کی گوشمالی کرسکتے ہیں۔ یہ عمل پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔ میرا مطلب یہ کہ فوجی اداروں سے جہموری اداروں کی طرف اقتدار کی منتقلی۔ مگر بد قسمتی سے یہ ایک قلیل مدت تک رہا ور اس میں تسلسل بھی نہیں رہا جس کی وجہ سے کرپٹ عناصر کی پکڑ نہ ہوسکی۔ اور اس بے تسلسل عمل کی ذمہ دار بھی ظاہر ہے فوجی عناصر تھے۔
اگر کوئی اور طریقہ ہے تو بتلایے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ نے پہلی سطر میں جن چار مسئلوں کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے اہم اور میں تو یہ کہوں گا کہ واحد مسئلہ ہی سیاست دانوں کی کرپشن ہے ۔ اندورنی اور خارجی وہ قوتیں جو پاکستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں ۔ ان کی ساری سازشوں کا دارومدار ہی انہی کرپٹ سیاستدانوں پر ہے ۔ ریاستی نظام میں اسی وجہ عدمِ استحکام پیدا ہوجاتا ہے اور پھر اس عدمِ استحکام کی وجہ ملک کی اقتصادی حالت پستی کی طرف چل نکل پڑتی ہے ۔ جس سے ملک میں انتشار اور افراتفری کا عالم پیدا ہوجاتا ہے ۔اور پھر اس موقع سے فائدہ اٹھا کر آرمی اسٹیبلشمنٹ میدان میں آجاتی ہے ۔ یہ تو بہت واضع ہے کہ ملک میں ایک مخلص حکومت کا قیام ناگزیر ہے ۔ مگر مخلص حکومت مخلص لوگوں ہی سے بنتی ہے ۔ آپ کی بات بلکل بجا ہے کہ " افراد میں یہ احساس موجود ہو نا چاہیئے کہ وہ ایک مثبت و تعمیری عمل کے حصہ دار ہیں ۔ " اور میں اسی احساس پر زور دے رہا ہوں ۔ اس احساس میں پختگی اور مثبت پہلو تب پیدا ہوگا کہ معاشرے میں مثبت تعمیری عمل کے لیئے ہم ایسے لوگوں کا چناؤ کریں گے ۔ جو ایک عام آدمی کے مسائل کو سمجھتے ہوں گے۔ دراصل ہمارا سیاسی کلچر ہی ایسا ہے کہ اس میں ریاست و حکومت کے معاملات جن کے ہاتھ میں ہیں ان کا تعلق چار گروہوں سے ہے ۔ جاگیردار ، سرمایہ دار ، فوج اور مذہبی پیشوا ۔ اکثر یہ گروہ شراکت ِ اقتدار کے اصول پر باہم مجتمع ہو کر ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں ۔ تاریخ یہ بتاتی ہے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بلعموم وہ پلیٹ فارم ہیں جنہیں یہ گروہ بالواسطہ یا بلا واسطہ سیاسی و جمہوری تاثر دینے کے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔ 1970 سے لیکر آج تک اگر برسرِ اقتدار رہنے والوں کی فہرست بنائی جائے تو یہ معلوم کیا جاسکتا ہے جو لوگ مارشل لا میں وزیر تھے وہی لوگ جہموری حکومتوں میں بھی شراکت دار رہے ہیں ۔ اگر کوئی کسی ایک دور میں اقتدار میں شامل رہا تو وہ بھی کسی سرمایہ دار اور جاگیر دار گروہ کا رکن ہے ۔ مذہیب پیشوا البتہ قدرے تاخیر سے اس کلب میں شامل ہوئے ۔ انہوں نے ایک محدود سطح پر مذہبی و مسلکی عصبیت کو سیاسی عصبیت میں بدلنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔

موجودہ سیاسی کلچر کے مقابلے میں اگر کوئی نیا سیاسی کلچر لانا مقصود ہے تو اس کے لیئے ضروری ہے کہ حکومت اور ریاست کے معاملات ان گروہوں کے ہاتھوں میں ‌ہونے کے بجائے عوام کے ہاتھوں میں ہوں ۔ یا پھر اقتدار اگر ان گروہوں میں سے کسی کے پاس ہے تو وہ بھی اس بات پر مجبور ہوں کہ وہ ریاستی ڈھانچے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے استعمال کریں ۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس بات میں پُرامید نہیں کہ چہرے بدلنے یا پھر وہی چہرے لانے سے کوئی سیاسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ۔ لہذا بینظیر کے رویوں ، خاص کر موجودہ رویئے سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ملک کے موجودہ سیاسی کلچر میں کوئی جوہری تبدیلی لانے سے قاصر ہیں ۔ آپ کے آخری پیراگراف میں کچھ امید افزا بات ہے ۔ ا س مقصد کے لیئے ہم موجودہ دو اہم تبدیلوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ایک تبدیلی آزاد میڈیا ہے ۔ ( میڈیا پر عارضی بندش زیرِ بحث نہیں ) ۔ اور دوسری سول سوسائٹی کی عدلیہ کی آزادی کے لیئے بیداری ہے ۔ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک نیا اضافہ ہے ۔ اہلِ سیاست اگر اندر سے تبدیل نہیں ہوتے تو کم از کم میڈیا اور سول سوسائٹی انہیں ایک حد تک روک سکتے ہیں ۔

اس ساری گفتگو کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات بہت قابلِ فہم ہے کہ وقت ایک نئی لیڈرشپ کا تقاضا کر رہا ہے ۔ جو چار گروہوں میں سے کسی ایک کی بھی رکنیت سے عاری ہو ۔ جسے میڈیا اور سول سوسائٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہو ۔ اور عوام اس لیڈرشپ پر یہ بھروسہ کر سکیں کہ وہ ان چار گروہوں کے سیاسی نظام کے سامنے ڈٹ سکے گی ۔موجودہ تبدیلیوں کی مدد سے ملک ایک نئے سیاسی کلچر کی تہمید کا نشان مل رہا ہے ۔ بس اسی وجہ سے میں بینظیر کا ساتھ دینا مناسب نہیں سمجھتا کہ یہ ایک دائرے کا سفر ہوگا ۔ ہمیں اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ میرا یہی تاثر ہے ۔
 
بڑی خوشی ہوئی اپ کا جواب پڑھ کر۔ اپ کا حق ہے کہ اپ جو مناسب سمجھیں‌اس کی حمایت کریں۔
میں ایک نشست میں لمبی پوسٹ نہیں لکھ سکتا لہذا اپ کے ہر نقطے کا جواب قسطوں میں‌ہی دی سکتا ہوں۔ لہذا مہربانی فرما کر جب پوسٹ کے اخر میں‌لکھا ہو "جاری ہے" تو جواب لکھنے میں‌ جلدی نہ کیجیے گا۔
یہ تو بہت ہی باعث اطمینان ہے کہ اپ اس بات سے مفتق ہیں کہ عوام اگر طاقت پکڑ لیں‌تو معاشرے سے برائیاں‌دور ہوسکتی ہیں۔ یہ جہموری عمل کا خاصہ ہے۔ یہ بات پاکستانی معاشرے کے لیے اس لیے بھی زیادہ متعلق ہے کیونکہ پاکستان کے ائین کی رو سے پاکستان کے اندر نافذ جہموریت اسلامی جہموریت کہلائے گی نہ کہ خالص مغربی۔ اسی لیے میں‌پاکستان میں‌ بالخصوص اس معاشرے کی ساخت کے لحاظ سے بھی جہموریت کا حامی ہوں۔ بہرحال بحث اس پر نہیں‌ہورہی اور میں اپ کے خیال کا حامی ہوں۔ لہذا اس بات کو ہی بنیاد بنا کر چلتے ہیں‌۔
جس بات کا ہم میں‌اختلاف ہے وہ دراصل وہ ہے جو کہ اپ کے (اور میری پوسٹ) کے ابتدا ئی حصہ میں‌ہے ۔ یعنی مسئلہ کی جڑ سیاست دان ہیں یا فوج؟ یا جاگیر دار وغیرہ۔ سب سے پہلے اس پر ہی بات کرتے ہیں۔
دیکھیے جب میری مراد سیاست دان سے ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص جو معاشرے کی مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی مفادات کے تحفظ کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ عوامی سیاستدان وہ جو کہ اکثریتی ابادی کی نمائندگی کرے۔ لہذا میری نظر میں‌عوامی سیاست دان ہے جس کو طاقت ملنی چاہیے یا جو کہ کم کرپٹ ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں‌عوامی سیاستدانوں‌کو اوپر انے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یا تو سازش سے ان کو ھٹادیا گیا یا پھانسی پرلٹکادیا گیا۔ یہ عمل بیوروکریٹس، جاگیردار اور سب سے بڑھ کر فوج نے کیا ہے۔
ایے پاکستان میں‌اقتدار میں‌انے والوں‌ کے نام اور انے کی تاریخ پرنظر ڈالتے ہیں۔

16th October 1951 Nawabzada Liaquat Ali Khan was murdered

17th October 1951 Khawaja Nazimuddin became second Prime Minister of Pakistan under Quad-e-Azam's constitutional framework, Malik Ghulam Muhammad became Governer GeneralMuhammad became Governer General
1953 Khawaja Nazimuddin dismissed by Ghulam Muhammad, and Muhammad Ali Bogra became the Prime Minister of Pakistan

October 24th October 1954 Malik Ghulam Muhammad dissolved the Constituent Assembly of Muhammad Ali Bogra and declared a state of emergency in country

October 15th October 1955 Iskandar Mirza became the Governer General of Pakistan after Malik Ghulam Muhammad

11th August 1955 Chaudry Muhammad Ali was appointed Prime Minister of Pakistan

23rd March 1956 1st constitution of Pakistan was passed under Chaudry Muhammad Ali, Pakistan was declared as Islamic Republic and Iskandar Mirza became the first President of Pakistan after implementation of this constitution

12th September 1956 Huseyn Shaheed Suhrawardy becomes Prime Minister replacing Chaudry Muhammad Ali

October 1957 Huseyn Shaheed Suhrawardy resigned from premiership and Ismail Ibrahim Chundrigar was appointed by Iskandar Mirza as new Prime Minister of Pakistan

16th December 1957 Malik Feroz Khan Noon took over Ismail Ibrahim Chundrigar as Prime Minister

7th October 1958 First Martial Law imposed by Iskandar Mirza and constitution was abrogated, General Muhammad Ayub Khan became Chief Martial Law Administrator, after three weeks, General Ayub Khan ousted Iskandar Mirza and delared himself as President of Pakistan and gave himself the rank of Field Marshal

1st March 1962 1962 constitution was announced by President Ayub Khan
5th December 1963 Huseyn Shaheed Suhrawardy succumbed to death

25th March 1969 General Ayub Khan handed over power to General Muhammad Yahya Khan who imposed second Martial Law

20th December 1971 General Muhammad Yahya Khan resigned and Zulfikar Ali Bhutto of Pakistan Peoples Party took over as Chief Marshal Law Admistrator and President of Pakistan after winning general elections in December 1970

13th August 1973 Zulfiqar Ali Bhutto became the Prime Minister of Pakistan, and Fazal Elahi Choudary became the President of Pakistan.

5th July 1977 Third Martial Law imposed by Zia-ul-Haq, he postponded the announced elections of 15th October 1977, 1973 constitution was suspended

20th March 1985 General Zia-ul-Haq nominated Muhammad Khan Junejo as Prime Minister of Pakistan
November 1988 Pakistan Peoples Party returned to Power after winning elections, Benazir Bhutto becomes the Prime Minister of Pakistan

6th August 1990 Ghulam Ishaq Khan dismissed Benazir Bhutto accusing her of corruption, Ghulam Mustafa Jatoi becomes the care taker Prime Minister until elections
1st November 1990 Nawaz Sharif becomes Prime Minister of Pakistan after winning the elections

19th April 1993 Nawaz Sharif was dismissed by President Ghulam Ishaq Khan, and National Assembly was dissolved once again. Mr Balakh Sher Mizari was appionted care taker Prime Minister by Ghulam Ishaq Khan

8th July 1993 President Ghulam Ishaq Khan and Prime Minister Nawaz Sharif resigned, thus dissolving all National and Provincial assemblies, Moin Qureshi was appointed caretaker Prime Minister and Ghulam Ishaq Khan as caretaker President

19th October 1993 Benazir Bhutto once again gained power after winning elections

5th November 1996 Benazir goverment was dismissed by President Farooq Laghari

6th November 1996 Malik Meraj Khalid was appointed caretaker Prime Minister

17th February 1997 Nawaz Sharif was re-elected as Prime Minister after Muslim League won with an overwhelming majority
2nd December 1997 President Farooq Laghari was dismissed, and Waseem Sijad became the care taker President of Pakistan

1st January 1998 Raffiq Tarrar became the new President of Pakistan

12th October 1999 Army took control of Goverment under Gen.Pervaiz Musharaf, Nawaz Sharif along with his collegues was arrested



]​
معلوم یہ پڑے گا کہ ایک بڑے عرصے کے لیے بیوروکریٹس، جاگیر دار اور فوج ہی برسر اقتدار رہے اور باقی عرصہ اقتدار میں‌انے کے سازش کرتے رہے۔یہ اس بات کی گواہ ہے ان سازشی عناصر نے عوامی سیاست دانوں کو پروان چڑھنے ہی نہ دیا۔
جاری۔۔
 
اندورنی اور خارجی وہ قوتیں جو پاکستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں ۔ ان کی ساری سازشوں کا دارومدار ہی انہی کرپٹ سیاستدانوں پر ہے


میں صرف محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ذولفقار علی بھٹو، اور بے نظیر بھٹو کو ہی عوامی سیاست دانوں میں گنتا ہوں جو مقتدر ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو فوجی حکومت نے سازش کے تحت ھروادیا، اور مجیب الرحمان کو غدار کہہ کر جیل میں ڈال دیا۔ بہرحال موجودہ پاکستان کے سیٹ اپ میں صرف ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر ہی عوامی سیاست دان تھے/ ہیں۔ چونکہ ان سیاست دانوں کا اقتدار میں عرصہ بہت ہی کم ہے ان فوجی حکومتوں سے جو ناجائز طور پر اقتدار میں ائیں لہذا ان سیاسی لوگوں کو یہ دوش دینا کہ وہ تمام برائیوں و مسائل کی جڑ ہیں زیادتی ہوگی۔

ہم اوپر یہ دیکھ ہی چکے ہیں کہ عوامی سیاست دان بہت ہی کم عرصے کے لیے اقتدار میں رہے اور یہ عرصہ بھی فوجی سازشوں اور فوجی حکمرانیوں کی غلط کاریوں کے نتائج کو بھگتنے میں لگا لہذا اپ کا یہ بیان بھی حقیقت سے دور لگتاہے۔ دیکھیے بغداد پیک اور SEATO کے معاہدے پاکستان نے کیے اس وقت بیوروکریٹس حکمران تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ عوامی سیاست دانوں بالخصوص بھٹو اور بے نظیر کو یہ دوش دینا کہ انھوں نے بیرونی طاقتوں کو پاکستان پر تسلط قائم کرنے میں مدد دی غیر حقیقی ہوگا۔

ایوب خان نے بیوروکریٹس پر ایک کاری ضرب لگائی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ قائم کی۔ اس سے پہلے بھی فوجی بہت خودسر واقع ہوئے تھے اور پہلے گورنر جنرل محمدعلی جناح (رح) کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے انگریز چیف اور ارمی نے کشمیر پر حملہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر گورنر جنرل نے فوج کو حلفِ وفاداری یاد دلایا تھا (یہ وہی بیان ہے جو اج کل جیو پر دھرایا جاتا ہے)۔

بہرحال یہ کہنا کہ سیاست دانوں کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی طاقتوں کو موقع ملا کہ وہ پاکستان میں اپنا تسلط قائم کریں ایک غیر حقیقی اور سطحی بیان ہے جو قابل ہے کہ اس رد کردیا جائے۔
جاری۔
 
دراصل ہمارا سیاسی کلچر ہی ایسا ہے کہ اس میں ریاست و حکومت کے معاملات جن کے ہاتھ میں ہیں ان کا تعلق چار گروہوں سے ہے ۔ جاگیردار ، سرمایہ دار ، فوج اور مذہبی پیشوا ۔ اکثر یہ گروہ شراکت ِ اقتدار کے اصول پر باہم مجتمع ہو کر ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں ۔ تاریخ یہ بتاتی ہے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بلعموم وہ پلیٹ فارم ہیں جنہیں یہ گروہ بالواسطہ یا بلا واسطہ سیاسی و جمہوری تاثر دینے کے لیئے استعمال کرتے ہیں

جیسا کہ ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ سیاسی خصوصا عوامی سیاسی قوتوں نے وہ منفی رول نہیں‌ادا کیا جس کا کہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کی شروعات ہی سے جاگیردار و فوج کی ملی بھگت سے پاکستان بننے کے ثمرات سے عوام کو دور رکھا گیا۔ میں اپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ شراکت اقتدار جاگیرداروں اور فوج کے درمیان رہی۔ سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا اس معاملے میں فوجی ایجنٹوں‌کا رول ادا کرتے رہے۔ ضیاالحق کے مارشل لا نے اقتدار کو عوامی نمائندوں سے بلکل کاٹ کر صرف فوج کی باندی بنالیا۔ اسی دور میں پاکستان امریکی مفادات کے تحفظ کا سلسلہ دراز کررکھا جیسا کہ وہ ایوب کے دورمیں‌کررہاتھا ۔ امریکیوں‌نے پاکستانی فوج میں‌موجود اپنے ایجنٹوں سے بھرپور کام لیا۔ چونکہ اس وقت تک فوجی ایجنسیاں بہت مضبوط ہوچکی تھیں لہذا انھوں‌نے اپنے ملک کی سیاسی صورت حال کو بھی اپنے حق میں بدلنے کے لیے جعلی سیاست دانوں، بکاو اخبار نویسوں غرض کہ ہر شعبہ زندگی میں‌اپنے ادمی پلانٹ کیے۔ انھوں‌نے سیاسی جماعتوں‌میں‌بھی اپنے لوگ پلانٹ کیے اور یہ سلسلہ اج بھی جاری ہے۔ ایوب کے لمبے مارشل لا اور ضیا کے لمبے جبری تسلط نے فوجی حمکرانی کو بے حد مصبوط کردیا۔ اس گروہ نے اصلی سیاستدانوں‌ کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا بھی جاری رکھا اور عوام کو ان سے متنفر کررکھا۔
بلاشبہ مسلم لیگ وہ پلیٹ فارم ہے جسے فوجی حکمران اپنے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ مگر پیپلزپارٹی کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ یہ جماعت ضیا کے دور میں‌ زیر عتاب رہی اور امریت کے خلاف تحاریک چلاتی رہی اور اب بھی چلارہی ہے۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ اسی سے ہے۔ کبھی ان کو غدار، کبھی کرپٹ کبھی کچھ مشھور کرنے کی سازش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ خود کرپٹ اور غیر محب وطن ہیں۔ انھیں‌تو اپنے پیسے اور طاقت کے حصول سے واسطہ ہے۔ یہی وجہ رہی کہ بنگال میں‌ جنرل ٹکا خان نے کہا کہ ہم کو صرف زمین چاہیے۔

پیپلزپارٹی کی امریت کے خلاف تحاریک کو دیکھتے ہوئے اور اس کی عوامی قوت و قربانیوں‌کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس پر یہ الزام کہ یہ صرف فوجی و جاگیردار طبقے کے مفادات کی نگراں‌ہے مبنی بر تعصب لگتا ہے۔
جاری۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بھٹو خاندان کی جائیداد کی تفصیل کوئی صآحب دے سکیں؟ یا پھر جاگیردار کی کوئی تعریف مقرر ہو جائے؟ ایک سوال یہ بھی کہ کیا بھٹو خاندان اور پی پی پی کو الگ کیا جا سکتا ہے؟
 
قیصرانی میں اپ کے سوالات کے جواب بھی دینے کی کوشش کروں گا۔ اگر اپ مہربانی فرماکر میرا جواب مکمل ہونے دیں۔ پھر اپ اس کے بخیے اڈھیر سکتے ہیں۔
 
1970 سے لیکر آج تک اگر برسرِ اقتدار رہنے والوں کی فہرست بنائی جائے تو یہ معلوم کیا جاسکتا ہے جو لوگ مارشل لا میں وزیر تھے وہی لوگ جہموری حکومتوں میں بھی شراکت دار رہے ہیں ۔ اگر کوئی کسی ایک دور میں اقتدار میں شامل رہا تو وہ بھی کسی سرمایہ دار اور جاگیر دار گروہ کا رکن ہے ۔ مذہیب پیشوا البتہ قدرے تاخیر سے اس کلب میں شامل ہوئے ۔ انہوں نے ایک محدود سطح پر مذہبی و مسلکی عصبیت کو سیاسی عصبیت میں بدلنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔

اس فوجی حکومتوں‌کے تسلسل نے (ایوب، یحییٰ، ضیا) نے معاشرے میں زھریلا کردار ادا کیا اور ان لوگوں‌کو پنپنے کا موقع ملا جو خوشامدی، موقع پرست اور مطلب پرست تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جب ان فوجی حکمرانوں نے جعلی جہموریت قائم کی تو ان خوشامدی مفاد پرست کے ٹولہ نے ہی فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر ضیا نے طلبا یوننیز پر پابندی لگائی کیونکہ طلبا کبھی بھی جبر برداشت نہیں کرتے اور منظم ہو کر ڈٹ جاتے ہیں۔ ان کا توڑ کرنے کے لیے ضیا نے طلبا تنظیموں‌کو فروغ دیا۔ ان تنظیموں‌میں‌اپنے لوگ داخل کیے یا استعمال کیے پھر ان تنظیموں‌کو اپس میں‌لڑوابھی دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ فوجی حکمرانی کے خلاف کلیدی کردار ادا کرنے سے قاصر ہوگئے جیسا کہ وہ ایوب کے خلاف بھٹو کی قیادت میں‌انجام دے چکے تھے۔
اپ کی یہ بات درست ہے کہ مذہبی تنظیموں‌کو بھی ضیا نے بے حد چالاکی سے استعمال کیا اور ان تنظیموں‌نے مذھبی عصبیت کو سیاسی طور پر استعمال کیا۔ اسلامی تنظیموں‌ کی ضرورت فوج کو اس لیے پڑی کہ سوویٹ یونین افغانستان میں‌ داخل ہوچکا تھا اور امریکہ نے اس دوسری سپر پاور کو یہاں‌ پھسنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی فوج کو استعمال کیا۔ مگر پاکستانی فوج کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ براہ راست خود لڑنے سے گریز کیا جائے۔ یہ حکمت عملی شاید 65 اور 71 کی جنگ کے بعد اختیار کی گئی۔ اس معاملے میں‌مزید تفصیلات میں‌جائے بغیر میں‌ صرف یہ کہنا چاہوں‌گا کہ فوج نے امریکہ کے ٹٹو کا رول ادا کیا بلکہ مذھبی تنظمیوں‌کو بھی استعمال کیا اور امریکی مفاد پورے کیے۔

جاری۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی میں اپ کے سوالات کے جواب بھی دینے کی کوشش کروں گا۔ اگر اپ مہربانی فرماکر میرا جواب مکمل ہونے دیں۔ پھر اپ اس کے بخیے اڈھیر سکتے ہیں۔
لگتا ہے کہ برا مان گئے۔ گفتگو کے دوران چونکہ آپ نے مداخلت سے روکنے کا نہیں‌کہا تھا تو میں نے سوال لکھ دیا
 
موجودہ سیاسی کلچر کے مقابلے میں اگر کوئی نیا سیاسی کلچر لانا مقصود ہے تو اس کے لیئے ضروری ہے کہ حکومت اور ریاست کے معاملات ان گروہوں کے ہاتھوں میں ‌ہونے کے بجائے عوام کے ہاتھوں میں ہوں ۔ یا پھر اقتدار اگر ان گروہوں میں سے کسی کے پاس ہے تو وہ بھی اس بات پر مجبور ہوں کہ وہ ریاستی ڈھانچے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے استعمال کریں ۔

میں اپ کی اس بات سے بلکل متفق ہوں۔ میری پوسٹز کا ایک بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے۔ اگر عوام اہل اقتدار کا احتساب کرسکتے ہوں تو پھر بہتری کی صورت نکلتی رہتی ہے۔

میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس بات میں پُرامید نہیں کہ چہرے بدلنے یا پھر وہی چہرے لانے سے کوئی سیاسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ۔ لہذا بینظیر کے رویوں ، خاص کر موجودہ رویئے سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ملک کے موجودہ سیاسی کلچر میں کوئی جوہری تبدیلی لانے سے قاصر ہیں ۔

میں اپکی اس بات سے بھی کسی حد تک متفق ہوں۔ سوائے اس کے کہ بینظر سیاسی کلچر میں‌جوہری تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔ شاید یہ انڈر ایسٹیمیشن ہے۔ جوہری تبدیلی یہ ہے کہ نظام فوجی امریت سے جہموریت کی طرف ائے۔ جوہری تبدیلی یہ ہے کہ فوج بیرکوں‌میں‌جائے اور ائین کے مطابق قوم کی خدمت کرنے نہ کہ ان کی حاکم بن جائے۔ اگر بے نظیر یہ کام کرتی ہے تو پھر وہ جوہری تبدیلی ہی لائے گی ۔ اس تبدیلی کے بعد باقی تو صرف بہتری کی صورتیں‌ہی بچتی ہیں۔



آپ کے آخری پیراگراف میں کچھ امید افزا بات ہے ۔ ا س مقصد کے لیئے ہم موجودہ دو اہم تبدیلوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ایک تبدیلی آزاد میڈیا ہے ۔ ( میڈیا پر عارضی بندش زیرِ بحث نہیں ) ۔ اور دوسری سول سوسائٹی کی عدلیہ کی آزادی کے لیئے بیداری ہے ۔ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک نیا اضافہ ہے ۔ اہلِ سیاست اگر اندر سے تبدیل نہیں ہوتے تو کم از کم میڈیا اور سول سوسائٹی انہیں ایک حد تک روک سکتے ہیں ۔
درست ۔ اپ درست کہہ رہے ہیں۔ ازاد میڈیا اور ازاد عدلیہ ہی جہموری نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ جہموری سیاسی نظام کو مضبوط کرنے کے الہ کار ہیں۔ درست جہموری نظام کی درستگی کا اندازہ ان اداروں‌کی کارکردگی سے کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ ادارے بذات خود سیاسی نظام کا بدل نہیں۔


اس ساری گفتگو کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات بہت قابلِ فہم ہے کہ وقت ایک نئی لیڈرشپ کا تقاضا کر رہا ہے ۔ جو چار گروہوں میں سے کسی ایک کی بھی رکنیت سے عاری ہو ۔ جسے میڈیا اور سول سوسائٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہو ۔ اور عوام اس لیڈرشپ پر یہ بھروسہ کر سکیں کہ وہ ان چار گروہوں کے سیاسی نظام کے سامنے ڈٹ سکے گی ۔موجودہ تبدیلیوں کی مدد سے ملک ایک نئے سیاسی کلچر کی تہمید کا نشان مل رہا ہے ۔ بس اسی وجہ سے میں بینظیر کا ساتھ دینا مناسب نہیں سمجھتا کہ یہ ایک دائرے کا سفر ہوگا ۔ ہمیں اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ میرا یہی تاثر ہے ۔
وقت ایک اچھی لیڈر شپ کا تقاضا کررہا ہے ۔جو ظاہر ہے کہ ان جاگیر داروں، بیوروکریٹس اور فوج سے طاقت نہ پارہے ہوں۔ اور اس بات سے انکار نہیں‌کہ اسے عوامی طاقت بھی حاصل ہو۔مگر یہ قیادت کہاں‌سے ائے گی۔ یہ ایک مثالی صورت حال ہے جو حقیقت میں‌ موجود نہیں۔ ہم کو کچھ کمپرومائز کرنے پڑیں‌گے تاکہ بہتری کی کچھ صورتیں‌نکلیں۔ موجودہ وقت میں‌ بے نظیر ہی وہ قیادت ہے جو میسر ہے جسے عوام طاقت دیتے ہیں۔ جس کی حمایت اندرون ملک و بیرون ملک موجود ہے۔ پھر پیپلزپارٹی کی تاریخ بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ جماعت امریت کے خلاف ہے۔

اکثر دوست سُرے محل اور دوسرے کرپشن کے الزامات کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ میری اپنی رائے میں‌یہ زیادہ تر پروپیگنڈہ ہے ۔ مگر میں‌پیپلز پارٹی کا ترجمان نہیں‌ہوں ۔ ان کا موقف جاننے کے لیے اپ ان سے رابطہ کریں یا کم از کم یہ لنکز ہی دیکھ لیں۔

فرحت اللہ بابر
اور یہ بھی
انٹرپول ریڈ وارنٹ
کیس سچے ہوتے تو پاکستان کیوں ڈراپ کرتا؟
ایک اور
 
ایمرجنسی کے خلاف موثر عوامی احتجاج اور تدبرانہ حکمت عملی نے پیپلز پارٹی کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں‌مخالف بھی اب پی پی پی کی قیادت کو تک رہے ہیں‌اور وہاں‌ سے حکمت عملی کے منتظر ہیں۔ مگر ان حالات میں‌بھی تعصبی بلیوں کو چین نہیں‌ارہا۔ وہ اس بات پر کہ پیپلز پارٹی کی عوامی اور بین الاقوامی حمایت بڑھتی جارہی ہے جلے پاوں‌کی بلی کی طرح بے چین ہورہی ہیں۔
1100299888-1.gif

یہ تعصبی بلیاں‌جن کے بھاگوں‌چھینکا اس وقت ٹوٹتا ہے جب مارشل کا بلا ان کو اپنے حرم میں‌شامل کرتا ہے ۔ مگر اب مارشل لا کا دور گزرگیا اور اب تاج اچھالیں‌جائیں‌گے ۔۔

حالات اسی طرح مرتب ہورہے ہیں جس طرف میں‌نے اشارہ کیا تھا۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ بی بی شھید اب اس دنیا میں‌نہیں‌ہیں۔
 
Top