تصوف اسلام

شاکرالقادری

لائبریرین
تصوّف
لغوی بحث

لفظ ”تصوف “اور” صوفی“ کی لغوی بحث میں ماہرین لسانیات و محققین کا ہر دور میں اختلاف رہا ہے چونکہ قر Èن و صحاح ستہ میںیہ لفظ موجود نہیں اور عربی زبان کی قدیم لغات میں اس لفظ کا وجود نہیں اس لیے ہر دور کے علماءاور محققین اس بارے میںمختلف Èراءاور خیالات ظاہر کرتے رہے ۔ حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش (٠٠٤۔٥٦٤ھ/٩٠٠١۔٢٧٠١ئ) (١) فرماتے ہیں:
”مردمان اندر تحقیقِ ایں اسم بسیار سخن گفتہ اند و کتب ساختہ“
لوگوں نے اس اسم کی تحقیق کے بارے میں بہت گفتگو کی ہے اور کتابیں لکھی ہیں۔(٢)
کسی کا کہنا ہے کہ عہد جاہلیت میں ”صوفہ“ نامی ایک قوم تھی جو اللہ تعالیٰ کے لیے یکسو ہوگئی تھی، بت پرستی سے گریز کرتی تھی اور خانہ خدا کی خدمت کے لیے اپنے Èپ کو وقف کر دیا تھا پس جن لوگوں نے اس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔ چنانچہ کوفہ کے ایک محدث ولیدبن القاسم(م:٣٨ھ/٢٠٧ئ)(٣) سے صوفی کی نسبت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
’قوم فی الجاھلیة یقال لھم صوفہ انقطوا الی اللّٰہ عزوجل وقطنواالکعبہ فمن تشبہ بھم فھم الصوفیة۔‘
جاہلیت میں صوفہ کے نام سے ایک قوم تھی جو اللہ تعالیٰ کے لیے یکسو ہوگئی تھی اور جس نے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے اپنے Èپ کو وقف کر لیا تھا پس جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔(٤)
”صوفہ “ قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور حاجیوں کے Èرام و Èسائش کے لیے انتظامات کیا کرتے تھے اس قوم کا پہلا شخص ”غوث بن مُر“ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ غوث کی ماں کی کوئی اولاد نہ تھی اور اس نے منت مانی تھی کہ اگر اسکے لڑکا تولد ہوا تو وہ اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کرے گی چنانچہ لڑکا تولد ہوا تو اس کا نام ” غوث“ رکھا گیا جوکہ بعد میں ” صوفہ“ کے نام سے مشہور ہوا اور اس کی اولاد بھی صوفہ کہلائی۔ صوفہ کو” Èل صوفان“ اور ” Èل صفوان “کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔(٥)
لفظ صوفی کے اس اشتقاق کے بارے میں علماءمختلف الخیال ہیں کچھ کے نزدیک عربی زبان و قواعد کی رو سے لفظ”صوفہ“ سے ”صوفی “ نہیں بلکہ ”صوفانی“ بنتا ہے۔جبکہ بعض ماہرین فن اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ”کوفہ“ سے”کوفانی“ کا الف نون گرا کر ”کوفی“ بن سکتا ہے تو ”صوفہ“ سے”صوفی“ کا اشتقاق کسی طور غلط نہیں ہوسکتا۔تاہم اس رائے کا اعتباراس وجہ سے نہیں کہ ایک غیر معروف قوم جس کا امتیاز رہبانیت رہا ہو، کی طف انتساب کو مسلمان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے۔
کسی کا خیال ہے کہ صوفی یا تصوف لفظ ” صف“ سے ماخوذ ہے کیونکہ صوفیہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے حضور صف اول میں کھڑے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیںچنانچہ شیخ ابوالحسین نوری(م ٥٩٢ھ/٧٠٩ئ) (٦)کا قول ہے:
’الصوفیة ھم الذی صفت ارواحھم فصاروا فی الصف الاول بین یدی الحق۔‘
”صوفیہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی روحوں کو صاف کیا پس وہ اللہ کے حضور صف اول میں ہو گئے“(٧)
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری(٦٧٣۔ ٥٦٤ھ / ٦٨٩۔ ٢٧٠١ء)(٨)کے نذدیک تصوف ”صفوة“ سے بنا ہے جس کے معنی بزرگی کے ہیں اس لفظ کو بہترین اور خالص کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام موصوف کے بیان کے مطابق ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’ذھب صفوالدنیا و بقی الکدر فالموت الیوم تحفة لکل مسلم‘
”دنیا کی صفائی جاتی رہی اور کدورت باقی رہی پس موت Èج ہر مسلمان کے لیے تحفہ ہے“(٩)
امام قشیری کے بقول چونکہ اس جماعت کے لوگ خدا اور رسول سے خالص تعلق پر زور دیتے ہیں اس لیے یہ صوفیہ کہلائے اوریہ جماعت اسی نام سے مشہور ہوئی۔امام قشیری کا کہنا ہے کہ عربی زبان کے قیاس اور قاعدہ ¿ اشتقاق سے اس نام کی تائید نہیں ہوتی اس لیے لگتا ہے کہ یہ لقب کے طور پر مشہور ہوا۔(٠١)
ایک طبقہ کی رائے ہے کہ صوفی ”صفا“ سے مشتق ہے اور صوفیہ کی ایک بڑی جماعت اس رائے کی قائل ہے چنانچہ شیخ بشر بن الحارث الحافی٠٥١۔٧٢٢ھ/٧٦٧۔١٤٨ئ(١١) کا قول ہے کہ:
’الصوفی من صفا قلبہ للّٰہ‘
” صوفی وہ ہے جس نے اللہ کے لیے اپنے دل کو صاف کیا“(٢١)
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش ، شیخ زکریا انصاری(٣٢٨۔٦٢٩ھ / ٠٢٤١۔٠٢٥١ئ) (٣١) ، غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی(١٧٤۔١٦٥ھ/٨٧٠١۔٦٦١١ئ)(٤١) اور بہت سے دوسرے اکابر صوفیا اسی نظریہ سے متفق ہیں۔
غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کا قول ہے:
” صوفی ”فوعل“ کے وزن پر ہے اور یہ مصافاة سے ماخوذ ہے یعنی وہ بندہ جسے حق تعالیٰ عزو جل نے صاف کیا“(٥١)
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
ہر ایک کے نزدیک تصوف کے معانی کی تحقیق میں بہت سے لطائف ہیں مگر لغت کے اعتبار سے اس لفظ تصوف کے مفہوم سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔پس ان سب میں سے صفا قابل تعریف ہے اور اس کی ضد کدورت ہے۔رسول اللہ نے فرمایا ہے:”دنیا کی صفائی جاتی رہی اور اس کی کدورت باقی رہ گئی“ کسی چیز کی لطافت، خوبی اور پاکیزگی کا نام صفائی اور کسی چیز کی کثافت اور میلا پن اس کا تکدرہے پس جب اس قصہ والوںیعنی اہل تصوف نے اپنے تمام اخلاق و معاملات کو مہذب کر لیا اور اپنی طبیعت کو Èفات و رزائل بشری سے بچا لیا اس لیے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔(٦١)
حضرت داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں کسی شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے جس سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے:
ان الصفا صفة الصدیق
ان اردت صوفیا علی التحقیق
” اگر تم حقیقتاً صوفی بننا چاہتے ہوتو تمہیں صدیق اکبر کی پیروی کرنا ہوگی کیونکہ صفائے باطن ان کی صفت ہے“۔(٧١)
بعض مورخین صوفی کو یونانی لفظ ”سوف“ سے ماخوذ بتاتے ہیں جس کے معنی حکمت و دانائی کے ہیں۔ یورپ کے کچھ مستشرقین کا خیال بھی یہی ہے۔ علامہ ابو ریحان البیرونی (٣٦٣۔٠٤٤ھ/٣٧٩۔٨٤٠١ئ) (٨١) کتاب الہند میں لکھتے ہیں:
’ھذا رای السوفیہ و ہم الحکماءفان سوف بالیونانیة الحکمة وبھا یسمی الفیلسوف فیلاسوفا ای محب الحکمة ولما ذھب فی الاسلام قوم الی قریب من رایھمسموا باسمھم ولم یعرف اللقب‘
” یہ صوفیہ کی رائے ہے جو حکماءہیں کیونکہ سوف یونانی زبان میں حکمت کو کہتے ہیں اسی لیے فلسفی کو فلاسفر کہا گیا کیونکہ وہ حکمت سے محبت رکھتا ہے۔ اور مسلمانوں میں ایک طبقہ ان کی رائے کے قریب ہو گیا تو وہ بھی انہی کے نام سے موسوم ہوا“(٩١)
علامہ شبلی نعمانی (٧٥٨١۔١٤٩١ئ)(٠٢)بھی اسی رائے کی تائید کرتے ہیں ان کے خیال میں تصوف کا لفظ ”سین“ سے تھا جس کا ماد ” سوف“ یعنی حکمت تھا دوسری صدی میں یونانی کتابوں کے تراجم ہوئے تو یہ لفظ عربی میں Èیا اور بعد میں ”ص“ سے لکھا جانے لگا۔(١٢)
بعض علماءکا خیال ہے کہ صوفی کی اصل ”صفہ“ ہے صفہ پیش دالان یا چبوترہ کو کہتے ہیں عہد رسالت میں کچھ لوگ مسجد نبوی کے شمال میں واقع ایک چبوترے پر قیام رکھتے تھے۔ انہیں ”اصحاب صفہ“ کہتے ہیں۔ یہ وہ صحابی تھے جن کے پاس بجز توکل اور فقر و قناعت کے کوئی سرمایہ نہ تھا۔ اور یہ ماسوائے عبادت کے دنیا کے کسی کام میں دلچسپی نہ لیتے تھے انہوں نے دنیا کو بالکل ترک کر رکھا تھا حتیٰ کہ کھانے پینے سے بھی کوئی رغبت نہ رہتی تھی۔اس نظریہ کے حامل علما ¿ کی رائے میں یہ صوفیہ کی پہلی باقاعدہ جماعت تھی جس نے صوفیانہ ریاضت و مجاہدہ کو تمام دنیوی امور پر مقدم سمجھا اور مستقل طور پر بارگاہ نبوی میں رہ کر سلوک و طریقت کی منازل طے کیں، انہی کے بارے میں یہ Èیت نازل ہوئی:
وَلَاتَطرُدِالَّذِینَ یَدعُونَ رَبَّھُم بِالغَدَوٰ ةِ وَالعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجہَہُ
”اور ان لوگوں کو دور نہ کیجئے جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی ذات پاک کی خواہش رکھتے ہیں“(٢٢)
اور ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے:
’للفقراءالذین احصروا فی سبیل اللّٰہ لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیائَ من التعفف تعرفھم بسیماھم‘
خیرات ان لوگوں کاحق ہے جو اللہ کی راہ میں رکے ہوئے ہیں(کسب کے قابل نہیں رہے دین کے کاموں میں ہمہ تن مشغول ہیں) وہ زمین پر چل پھر نہیں سکتے ناواقف ان کو سوال نہ کرنے کے باعث تونگر اور دولت مند سمجھتے ہیں تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان لیتے ہو۔(٣٢)
لفظ صوفی کی اصل”صفہ“ ہونے کے قائلین کا خیال ہے کہ اصحاب صفہ ہی در اصل گروہ صوفیہ کے پیش رو تھے۔ان کے نزدیک لغوی طور پر”صفہ “سے لفظ ”صوفی“ کا بننا درست نہ قرار پائے تب بھی معنوی طور پر بالکل درست ہے کیونکہ” صوفیہ “ کا حال بالکل ” اصحاب صفہ“ کے مشابہہ و مماثل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام صوفیہ اصحاب صفہ کی طرف منسوب ہونا اپنے لیے باعث فضیلت و افتخار سمجھتے ہیں۔
اصحاب صفہکی تعداد سترسے سات سو تک بیان کی جاتیہے۔ یہ لوگ مسجد نبوی کے چبوترہ پر قیام کرتے اور ہمہ وقت تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کی جدوجہد میں مضروف رہتے تھے ۔اصحاب صفہ میں کم کھانا اور تجرد، دو نمایاں خصوصیات تھیں۔
امام ترمذی روایت کرتے ہیں:
’کان اذا صلی بالناس بخر رجال من قامتھم فی الصلاة من الخصل صہ وھم اصحاب الصفہ حتی تقول الاعراب ھولاءمجانین او مجانون فاذا صلی رسول اللہ انصرف الےھم فقال لو تعلمون مالکم عند اللہ لا جیتم ان تزدادو افاقہ و حاجہ ‘
جب حضور نماز پڑھا رہے ہوتے تو اصحاب صفہ میں کئی افراد بھوک کے باعث کمزوری کی وجہ سے گر پڑتے اعراب کہتے یہ لوگ پاگل ہیں۔جب حضور نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے © ”اگر تمہیں معلوم ہو تاکہ تمہارے لےے اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا (ثواب) ہے تو تم فقر اور فاقہ کا اضافہ چاہتے۔“(٤٢)
اصحاب صفہ کے تجرد کے بارے میں امام صاوی اور علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔
” ان لوگوں نے اپنی زندگی صرف عبادت اور انحضرت کی تربیت پذےری پر نذر کر دی تھی۔ان کے بال بچے نہ تھے اور جب شادی کرلےتے تو اس حلقہ سے نکل جاتے تھے“(٥٢)
حضرت عبداللہ بن عباس سے راوی ہیں کہ:
وقف رسول اللہ اصحاب الصفتہ فرای فقرھم وجھہ ھم و طلب قلوبھم فقال ابشر وایا اصحاب الصفتہ فمن بقی من امتی علی النعت الذی انتم علےہ رضیاً بم È فیہ فانھم من رفقائی فی الجنتہ۔
رسول اللہ اصحاب صفہ کے پاس جا کی کھڑے ہو گئے اور ان کی تنگ دستی اور مجاہدے اور پھر اس حالت میں ان کے قلوب کے اطمےنان کو دےکھا تو فرمایا اے صفہ والو !تمہیں مبارک کہ میری امت کا جو شخص اس صفت پر رہے گا جس پر تم ہو پھر اس پر راضی بھی رہے تووہ جنت میں میرے رفقاءمیں ہو گا۔(٦٢)
بیشترعلما جن میں شیخ ابوبکر کلاباذی(م:٠٨٣ھ/٠٩٩ئ)(٧٢) امام ابن تیمیہ (٣٦٢١ئ۔٨٢٣١ئ) ((٨٢) علامہ ابن خلدون(م:٢٣٣١۔٦٠٤١ئ)(٩٢) وغیرہ شامل ہیںکے مطابق تصوف ”صوف“ یعنی اُون سے بنا ہے اس نظریہ کے قائلین کا خیال ہے کہ چونکہ اونی لباس انبیائے کرام اور اولیائے عظام کا پہناوا اور شعار رہا ہے اور صوف کو ہمیشہ ترک دنیا کی علامت سمجھا گیا ہے اس لیے اہل تصوف نے اس لباس کو اختیار کیا جس کی بنا پر یہ گروہ صوفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے نزدیک ان کا یہ معمول سنت نبوی سے ماخوذ ہے چنانچہ مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ:
’فغسل وجھہ و یدیہ و علیہ جبہ من صوف‘
”پھر Èپ نے اپنے چہرہ اقدس اور دونوں ہاتھوں کو دھویا اس وقت Èپ نے اونی جبہ زیب تن فرمایا ہوا تھا“ (٠٣ )
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ:
’لبس رسول اللّٰہ() الصوف‘
”رسول اللہ() نے اونی لباس پہنا“(١٣)
المواہب اللدنیہ میں روایت ہے:
’کان رسول اللّٰہ() یلبس ثیابا من الصوف‘
”حضور() اونی لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے“ (٢٣ )
لفظ ”صوفی“ کے اشتقاق کے بارے میں علامہ ابن خلدون کی رائے کچھ اس طرح ہے:
”ہمارے نزدیک یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ صوفی کا اشتقاق ”صوف“ ہی سے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اول اول جب دوسرے لوگوں نے لباس فاخرہ پہننا شروع کیا تو انہوں نے پشمینہ کو ترجیح دی تاکہ ان میں اور ان لوگوں میں امتیاز ہو سکے جن کی توجہات دینی کو دنیا کی لذتوں نے اپنی طرف کھینچ لیا۔پھر جب زہد اور مخلوق سے علیحدگی و انفراد اور عبادت و ذوق ہی ان کا شیوہ قرار پایا تو ترقیات روحانی ان کے ساتھ مخصوص ہوئیں اور یہی اختصاص ان کی پہچان ہوئی۔“(٣٣)
شیخسیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش کشف المحجوب پشمینہ پوشی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”یادرکھیں صوفیا کا طریقہ کمل اور گدڑی پہننا ہے اور مرقعات پہننا سنت ہے بایں وجہ کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے’ علیکم بلبس الصوف تجدون حلاوة الایمان فی قلوبکم‘ اپنے اوپر صوف کا پہننا لازم کر لوتو دلوں میں ایمان کا مٹھاس پائوگے نیز ایک صحابی کا قول ہے ’کان النبی صلی اللہ علیہ و Èلہ وسلم یلبس الصوف و یرکب الحمار‘ نبی کریم رو ¿ف الرحیم صوف پہنتے تھے اور گدھے پر سواری فرمایا کرتے تھے نیز پیغمبر علیہ السلام نے سیدہ طاہرہ حمیرا حضرت عائشہ سے فرمایا ’ولاتضیعی الثوب حتیٰ ترقعیہ‘جب تک کپڑے پر پیوند نہ لگا لو کپڑے کو ضائع نہ کیا کرواور فرمایا تمہیں پشم کا لباس پہننا چاہیے“(٤٣)
حضرت داتا گنج بخش ایک اور مقام پر خواجہ حسن بصری(١٢۔٠١١ھ/٣٤٦۔٨٢٧ئ)(٥٣) کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ:
میں نے ستر بدری صحابہ کی زیارت کی جن کا لباس پشم کا تھاحضرت ابوبکر صدیق اپنے تجرد عن الدنیا کی وجہ سے ہمیشہ صوف کا لباس پہنتے تھے“(٦٣)
مزید لکھتے ہیں:
”امیر المو ¿منین عمر ابن خطاب، امیر المو ¿منین سید ناعلی ابن ابی طالب اورحرم بن حیان سے مروی ہے کہ انہوں نے اویس قرنی کو بھی اون کا لباس پہنے دیکھاجس پر کئی پیوند لگے تھے۔“(٧٣)
اس کے علاوہ مختلف کتب تصوف و تاریخ میں اکثر اکابر صوفیا کی پشمینہ پوشی کے بارے میںتواتر سے لکھا گیا ہے جس کی اجمالی صورت کچھ اسطرح ہے :
O اور داو ¿دطائی جوکہ محقق صوفیا میں سے ہیں صوف کا لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔(کشف المحجوب)
O حضرت ابراہیم بن ادھم اون کا لباس زیب تن فرما کر حضرت امام اب حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(کشف المحجوب)
O بہلول ابن ذہیب نے جب زاہدانہ زندگی اختیار کی تو صوف پہن کر مدینہ کی پہاڑیوں میں چلا گیا۔
O شیخ ابراہیم بن ادھم نے زوہد اختیار کیا تو ایک گڈریے سے صوف کا جبہ حاصل کیا۔(طبقات الصوفیہ)
O حضرت حماد بن سلمہ جب بصرہ گئے تو حضرت حسن بصری کے شاگرد فرقد سے سبخی صوف کا لباس پہنے ان سے ملنے Èئے ۔(العقد الفرید)
O عبدالکریم ابو امیہ صوف کا لباس پہن کر ابوالعالیہ کے پاس گئے ۔(تلبیس ابلیس)
O قتیبہ بن مسلم نے بصرہ کے ایک زاہد محمد بن واسع سے صوف پہننے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا میں نہیں چاہتا کہ Èپ سے کہوں کہ فقر کی وجہ سے پہنا ہے اس صورت میں اپنے رب کی شکایت کروں گا اور یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ زہد کی وجہ سے پہنا اس صورت میں اپنی بزرگی جتلائوں گا۔(العقد الفرید ،احیاءالعلوم)

صوف تارک الدنیا لوگوں کے لباس کی حیثیت سے اس قدر مشہور ہو چکا تھا کہ نام نہاد صوفی اور زاہد بھی اس لباس کو اپنانے لگے اور بعض ایسے لوگ بھی اس لباس کو پہننے لگے جو اپنے دلوں میں کبر و نخوت کے بت سجائے ہوئے تھے اور یہ محض ایک رسم و رواج بن کر رہ گیا۔حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں :
اب اگر اہل زمانہ سے بعض دنیاوی جاہ جمال کی خاطر گدڑی پہنتے ہیں اور ان کا باطن ظاہر حال کے خلاف ہے تو یہ جائز ہے اس لےے کہ پورے لشکر میںمرد میدان بہادر تھوڑے ہوتے ہیں ۔اور اسی طرح پوری قوم میں محقق ایک Èدھ ہوا کرتا ہے لےکن ان کے تمام اصحاب کو انہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لےے کہ وہ ایک چیز میں تو ان سے مشابہ ہوتے ہیں اس لےے گدڑی پوش بھی ایک Èدھ چیز میں تو صوفیوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور نبی کریم کا فرمان علی شان ہے کہ ’من تشبہ بقوم فھو منھم‘ جس نے کسی قوم کی لباس یا اعتقاد رسم و رواج میں مشابہت اختیار کی اس قوم سے شمار ہو گا ایک جماعت کی نگاہ ان کی ظاہری راہ و رسم پر پڑتی ہے اور دوسری جماعت کی ان کے باطن کی صفائی اورستر پر پڑتی ہے۔(٨٣)
ززز
حواشی و حوالہ جات
(١) حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش (٠٠٤۔٥٦٤ھ/٩٠٠١۔٢٧٠١ئ)ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گائوں ہیں شروع میں Èپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ سے ملتا ہے۔روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی سے پائی ۔پیر کے حکم سے ٩٣٠١ءمیں لاہور پہنچے کشف المحجوب Èپ کی مشہور تصنیف ہے۔لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر Èپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔عوام Èپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیںاور Èپ انہی القابات سے مشہور ہیں (انسائیکلو پیڈیا فےروز سنز)
(٢) حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری۔کشف المحجوب۔ ص ٧٢،٨٢
(٣) الولید بن القاسم بن الوید ہمدانی کا تعلق کوفہ سے تھا۔ علماءرجال میں سے امام احمد بن حنبل، ابن حبان اور ابن عدی انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں مگر مشہور ماہر فن یحییٰ ابن معین انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ ابن حجر عسقلانی انہیں حفاظ حدیث کے Èٹھویں طبقہ میں شمار کرتے ہیں۔ اس طبقہ میں شامل افراد پر ضعف کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ ضعف کی صراحت نہیں کی گئی۔
(٤) محمد بن طاہر المقدسی، صفوة التصوف،تعلیق احمدشرباصی،دارالتصنیف مصر، ٠٧٣١ھ/ ١٧٩١ء، ص: ٧
بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قر Èن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ، لاہور، ٧٧٩١ئ
(٥) ابوالقاسم محمود بن عم الزمحشری۔ اسا س البلاغة۔ تحقیق استاذ عبدالرحیم محمود © دارالمعرفة، بیروت لبنان،٢٠٤١ھ/٣٨٩١ئ۔ص:٢٦٢۔بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف (قر Èن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ٧٧٩١ئ
(٦) ابوالحسین احمد بن محمدبن محمدالمعروف بہ شیخ ابوالحسین نوری بغداد میں پیدا ہوئے شیخ سری سقطی کے مرید تھے۔ سلسلہ نوریہ Èپ سے منسوب ہے۔ Èپ کی تعلیمات سلسلہ جنیدیہ سے ملتی جلتی ہیں۔شیخ جنید بغدادی Èپ کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ Èپ صاحب کشف و شہود بزرگ تھے۔(حلیة الاولیائ، طبقات الکبریٰ، نفحات الانس وغیرہ)
(٧) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٣٦
(٨) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری(٦٧٣۔ ٥٦٤ھ / ٦٨٩۔ ٢٧٠١ء) خراسان میں علم و فضل کے امام اور تصوف کے شیخ تھے شیخ ابو علی دقاق سے خرقہ تصوف حاصل کیا۔ نیشا پور میں وفات پائی اور اپنے مرشد کے پہلو میں دفن ہوئے”الرسالة القشیریہ“ Èپ کی مشہور تصنیف ہے( خطیب بغدادی۔ تاریخ بغداد۔بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قر Èن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد ساہد عادل ،لاہور، ٧٧٩١ءحاشیہ،ص:٨١
(٩) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری۔ الرسالة القشیریہ ©۔
(٠١) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری۔ الرسالة القشیریہ ©۔
’ لیس یشھد لھذاالاسم من حیث العربیة قیاس ولا اشتقاق والاظھرانہ فیہ کاللقب۔‘
(١١) ابونصر بشر بن الحارث بن علی بن عبدالرحمن المعروف بہ حافی مرو کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے بعداد میں مشہور Èئمہ سے حدیث سنی زہد و تقویٰ اور ریاضت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ Èپ کو تمام Èئمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے۔ Èپ کا انتقال ہوا تو تمام محدثیں کو انتہائی رنج ہوا۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی موت کی خبر سن کر فرمایا ” انہوں نے اپنی مثال نہیں چھوڑی“ (الطبقات الکبریٰ، البدایہ والنہایہ، سفینة الاولیاءوغیرہ)
(٢١) ابوالعلا عفیفی، التصوف، اسکندریہ، مصر،٣٦٩١ءص:١٣بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قر Èن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ٧٧٩١ئ: حاشیہ ص:٠٢
(٣١) شیخ زکریا انصاری(٣٢٨۔٦٢٩ھ / ٠٢٤١۔٠٢٥١ئ) شیخ الاسلام ،قاضی،مفسر اور عالم حدیث تھے مصر میں پیدا ہوئے۔قاضی کے عہدے سے معزولی کے بعد جامع مسجد میں فقروفاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے ۔رات کو نکلتے تو تربوزہ کے چھلکے اٹھا کر کے کھاتے ۔مدتوں ان کے زہدوتقویٰ اور فضل و کمال کا لوگوں کو پتا نہیں چلا۔تفسیر ، حدیث ،فقہ اور منطق میں کثیر التصانیف عالم تھے۔(مطالعہ تصوف(قر Èن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ٧٧٩١ئ: حاشیہ ص:١٢)
(٤١) غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی(١٧٤۔١٦٥ھ/٨٧٠١۔٦٦١١ئ)مشہور صوفی بزرگ ،ایران کے قصبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔٨١سال کی عمر میںوالدہ کی اجازت سے بغرض حصول تعلیم بغداد تشریف لے گئے تعلیم کی تکمیل کے بعد عبادات و مجاہدات شروع کیے ٥٢ برس تک رات دن یاد حق کے سوا کچھ کام نہ تھا۔سالہا سال عشا کے وضو میں صبح کی نماز پڑھی۔بے شمار راتیں Èنکھوں میں گزرگئیں اور پلک سے پلک نہ ملنے دی۔نیند کا غلبہ ہوتا تو ایک پائوں پر کھڑے ہو جاتے اور نفلوں میں پورا قر Èن شریف ختم کر دیتے۔عبادات و ریاضت اور صحرانوردی میں عرصہ در از گزرنے کے بعد بغداد میں وعظ کرنے لگے ۔ Èپ کے صاحبزادے ابو عبداللہ راوی ہیں کہ Èپ ہفتے میں تین بار تقریر عام کرتے تھے۔چالیس برس تک دین کی علمی و روحانی خدمت نجام دی۔چار سو Èدمی Èپ کا وعظ قلمبند کرتے جاتے تھے۔فقہ میں Èپ امام شافعی اور امام جنبل کے پیرو تھے۔ Èپ کی تصانیف”فتوح الغیب اور غنیہ الطالبین“بہت مشہور ہیں۔تمام اکابرصوفیا Èپ کی جلالت منصب کے قائل ہیں۔صوفےہ کا کوئی تذکرہ Èپ کے ذکر سے خالی نہیں۔تصوف میں سلسلہ قادریہ Èپ ہی سے منسوب ہے۔(انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(٥١) حضرت عبد القادر جیلانی ۔غنیہ الطالبین ص ٩٠١۔
(٦١) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٤٥
(٧١) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٥٥
(٨١) ماہر طبیعات و فلکیات، محقق و مو ¿رخ یونانی اور ہندی فلسفہ کے ماہر اور ریاضی داں ابوریحان محمد بن احمد البیرونی شہر خوارزم کے محلہ بیرون میں پیدا ہوئے اسی نسبت سے البیرونی کہلائے کئی برس تک ہندوستان میں قیام کیا اور سنسکرت زبان سیکھی محمود غزنوی کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ © ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حالات پر معرکة ال Èراءکتاب لکھی جس کا نام ”کتاب الہند“ ہے خوارزم میں انتقال کیا۔( انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز)
(٩١) ابوریحان البیرونی۔ کتاب الہند۔ص٦١
(٠٢) علامہ شبلی نعمانی (٧٥٨١۔١٤٩١ئ) مشہور شاعر، محقق، نقاد، مو ¿رخ اور سیرة نگار ، اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔علوم دینیہ کے فروغ کے لیے قائم ہونے والے مشہور ادارے” ندوة العلماء“کے بانی، حکومت کی جانب سے شمس العلماءکا خطاب ملا، ترکی کے سلطان کی جانب سے تمغہ مجیدی عطا ہوا۔ان کا خاص موضوع تاریخ تھا۔جدید طرز تنقید و تنقیح کے مطابق کئی سیاسی اور ادبی تاریخیں لکھیں، اردو اور فارسی دو نوں میں شعر کہتے تھے۔ ان کی تصانیف میں: الفاروق، المامون، الغزالی اور سیرة النبی وغیرہ شامل ہیں ۔ (انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(١٢) علامہ شبلی نعمانی۔ الغزالی،ص٤٠١
(٢٢) القر Èن الحکیم:سورہ الانعام٦:٢٥
(٣٢) القر Èن الکریم: سورہ بقرہ٢:٢٧٢
(٤٢) جامع الترمذی :٢:٩٥
(٥٢) سیرت النبی مطبوعہ اعظم گڑھ، ١:١٧٢ وحاشیہ الصاوی مطبوعہ مصر،١:٠٣١
بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری۔سلوک و تصوف کا عملی دستور۔
منہاج القر Èن پبلی کیشنز، لاہور،٢٠٠٢، ص٥٤
(٦٢) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٧٢١
(٧٢) ابوبکرمحمد بن ابراہیم الکلاباذی البخاری، بخارا کے محلہ کلاباذ کے رہنے والے اور اسی سے منسوب ہیںحفاظ حدیث اور کبار صوفیہ میں ان کا شمار ہوتا ہے تصوف میں ان کی کتاب ”التعرف لمذہب اہل التصوف“ بہت مشہور ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بزرگ کا قول ہے اگر کتابالتعرف نہ ہوتی توتصوف نہ جانا جاتا۔ یہ تصوف کی بنیادی کتابوں میں سے ہے(کشف الظنون و سفینة الاولیاءوغیرہ)
(٨٢) تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبدالحکیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن محمد الحرافی الحنبلی، ساتویں پشت میں ان کی ایک دادی” تیمیہ“ علم و فضل میں صاحب کمال تھین اسی وجہ سے اس خاندان کا ہر شخص ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہوا ابن تیمیہ موصل اور شام کے درمیاںن ایک چھوٹے سے شہر حران میں پیدا ہوئے بیس سال کی عمر میں تحصیلات سے فارغ ہوکر علمائے کبار میں شمار ہونے لگے۔علوم عقلی و نقلی اور علوم اہل کتاب کے فاصل تھے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں امام ابن تیمیہ متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں۔ تین سو کے قریب تصنیفات ہیں۔ (انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز)
(٩٢) مشہور مو ¿رخ ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان، پورا نامابو زید ولی الدین عبدالرحمن ابن خلدون ہے۔ تیونس میں پیدا ہوئے۔انہیں علم تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے ان کا سب سے بڑا کارنامہ”المقدمة فی التاریخ“ کی تصنیف ہے جو کہ مقدمہ ¿ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاسیات، عمرانیات ،فلسفہ، ادبیات اور اقتصادیات کا گرانقدر سرمایہ ہے۔(انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(٠٣) صحیح بخاری، ٢:٣٦٨
(١٣) سنن ابن ماجہ:٣٦٢
(٢٣) المواہب اللدنیہ:٧٥
(٣٣) مولانا محمد حنیف ندوی © ۔ افکار ابن خلدون، ادارہ ¿ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ٧٨٩١ئ، ص٢١٢
(٤٣) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٣٧
(٥٣) خواجہ ¿ خواجگان حضرت ابو محمد حسن بصری کی ولادت با سعادت ١٢ہجری بمطابق٢٤٦ءکو خلیفہ ¿ ثانی حضرت عمر فاروق کے دور میں ہوئی Èپ کے والد ماجد موسی راعی زیدبن ثابت انصاری کے Èزاد کردہ غلام تھے ۔ Èپ کی والدہ ماجدہ ،ام المو ¿منین حضرت ام سلمہ کی لونڈی تھیں۔ تمام اکابر صوفیہ بالاتفاق Èپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں اور Èپ کا حضرت علی سے اکتساب فیض اور خرقہ ¿خلافت پانا تسلیم کرتے ہیں ۔ Èپ نے Èخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی وہیں پانچویں رجب المرجب سن ٠١١ہجری بمطابق ٨٢٧ءواصل بحق ہوئے اور وہیں Èپ کا مزار پرانوار ہے۔(سید شاکر القادری ۔چشمہ ¿ فیض،ن والقلم ادارہ مطبوعات اٹک ،ص ٥)
(٦٣) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٣٧
(٧٣) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٤٧
(٨٣) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب ©،، مترجم محمد اسحاق ظفر ©، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:٤٧
 
Top