تصور کی طرح تھے ان کے دل میں

تصور کی طرح تھے ان کے دل میں
وہ جوں جیسے نکالے جاچکے ہیں
مرے پیکر سے چھن کر اس طرف بھی
کئی سو تیر بھالے جاچکے ہیں
ترے کوچے سے ہم رخصت نا ہوتے
تھے جنت میں نکالے جاچکے ہیں
ہمارے ضبط کے ہاتھوں ہمارے
کئی دریا سنبھالے جاچکے ہیں
بہت ہلکے پڑے ہیں جو یہ شانے
ہمارے سر اچھالے جاچکے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
آخری تینوں اشعار خوب ہیں، پسند آئے۔ لیکن پہلے دونوں اشعاراپنے انداز بیان ور مفہوم کے لحاظ سے پسند نہیں آئے۔ انہیں دوبارہ کہیں۔
 
Top