نبیل

تکنیکی معاون
تذکرہ غوثیہ


ملفوظات و حالات
سید غوث علی شاہ پانی پتی


تالیف
مولانا شاہ گل حسن



تزئین و ترتیب
مولانا محمد اسمعیل میرٹھی
 

نبیل

تکنیکی معاون
پیش لفظ

صوفیانہ کتب میں میں تذکرہ غوثیہ کو قبول عامہ کی جو سند حاصل ہے، وہ باید و شاید۔ اس کی پسندیدگی اور ہر دلعزیزی کی ایک وجہ تو حضرت غوث علی شاہ کا تصرف روحانی بتایا جاتا ہے اور دوسری وجہ اس کی طرز تحریر اور ندرت بیان ہے، جس میں اردو کے معروف نثر نگار اور شاعر مولانا محمد اسمٰعیل میرٹھی کے معجز نما قلم کا بہت بڑا حصہ ہے جو ان کے مرشد یعنی حضرت غوث علی شاہ کی توجہ سے عمر بھی رواں دواں رہا۔

تذکرہ غوثیہ میں سید غوث علی شاہ قلند قادری پانی پتی (م- ١٨٨٠) کے سوانح حیات، ملفوظات اور فرمودات، قلبی و روحانی واردات اور تجربات و مشاہدات کو ایسے دلنشین انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری اس کے سحر میں خود کو فراموش کر دیتا ہے اور کتاب کو ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔

اس کتاب میں شاہ قلند کے اسفار، بزرگان، علماء، مشائخ ، مجازیب اور اولیائے کرام کی دلچسپ حکایات اور حکیمانہ مقالات، اپنی ہمعصر شخصیات سے ملاقاتوں اور تصوف و اخلاق کی چاشنی کے علاوہ لطف زبان اور ندرت بیان کی سادگی اور حکایات کی دلفریبی نے ایک ایسا گلدستہ تیار کیا ہے، جس کی مہک سے ہر قاری کا دل و دماغ معطر ہو جاتا ہے۔

غوث علی شاہ قلندر کی رحلت کے بعد اس تذکرے کی ترتیب و تدوین کا خیال مولانا شاہ گل حسن کے دل میں پیدا ہوا۔ انہیں یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ تقریباً اٹھارہ برس پانی پت میں رہائش پذیر رہے اور ان میں سے کم و بیش بارہ سال اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ان کا تعلق سرحدی علاقے سے تھا، لیکن حقیقی علم کی پیاس اور تلاش شیخ انہیں کشاں کشاں پانی پت کھینچ لائی۔ اپنی طویل حاضری کی وجہ سے مولانا اپنے مرشد کے نجی حالات اور راہ سلوک کے بارے میں ارشادات سے کماحقہ آگاہ تھے، لیکن وہ اپنی یادداشتوں کو باقاعدہ طور پر حیطہ تحریر میں نہ لا سکے۔ ان کے علاوہ دیگر حاضرین اور مریدین ان ارشادات عالیہ سے مستفید ہوتے رہتے تھے، لیکن انہیں بھی اپنے مرشد کی حیات میںان فرمودات کو کاغذ پر منتقل کرنے کا خیال نہیں آیا، لیکن ان کے وصال کے بعد مریدین اور معتقدین کی اکثریت میرٹھ آنے لگی اور وہیں مولانا گل حسن کی تحریک پر ان ارشادات کی جمع آوری کا سلسلہ شروع ہوا اور حاضرین مجلس کے تجربات و مشاہدات کو معرض تحریر میں لایا گیا۔ اس کے بعد مریدان خاص کی ایک کمیٹی نے اخذ و ترک کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ان ارشادات کا خطی نسخہ تیار کیا۔ اس بنیادی کام کے ختم ہوتے ہی مولانا محمد اسمعیل میرٹھی کو یہ کام تفویض کیا گیا کہ وہ انہیں ادبی جامہ پہنا کر دلچسپ پیرائے میں تحریر کریں۔ چنانچہ اس تذکرے کا جو خطی نسخہ مولانا موصوف کے ذاتی کتب خانے سے دستیاب ہوا ہے، اس کا بیشتر حصہ ان کے ہاتھ کا تحریر کردہ ہے اور وہ بجنسہ زیر نظر ایڈیشن میں موجود ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا من بک حاجتی و روحی بیدیک
من غیرک اعرضت و اقبلت الیک
مالی عملی صالح ن استظہرت بہ
قد جئتک راجیا توکلت علیک

(اے وہ کہ جس کا میں محتاج ہوں اور میری روح تیرے ہاتھوں میں ہے۔ میں نے تیرے سوا ہر ایک سے منہ موڑ لیا اور تیرے پاس ہی آ گیا۔ میرا عمل صالح نہیں ہے۔ اگر میں اس کا سہارا لوں، تو میں تمہاری طرف امید لے کر آیا ہوں اور میں نے تم پر ہی آسرا کیا ہے۔)​

حمد و ثنا، سہو و خطا، شکر و سپاس، وہم و وسواس، کیس حمد اور کس کا شکر، حامد کون کون محمود کیا، شاکر کدھر مشکور کہاں۔ قطرہ ہے تو دریا موہوم، دریا ہے تو قطرہ معدوم۔ جب تک ذرہ ذرہ ہے، آفتاب نہاں ہے۔ جب وجود آفتاب نمودار ہوا تو ذرہ کہاں ہے۔ قطرہ امر اعتباری ہے، ہر قطرہ میں دریا جاری ہے۔ آفتاب سے ذرّہ کا وجود۔ ذرہ سے آفتاب ی نمود۔ قطرہ سے دریا کا ظہور۔ قطرے قطرے میں دریا معمور، لیکن نہ قطرہ نہ دریا، نہ ذرہ نہ آفتاب۔ وہ خود نیست یہ خود نایاب، نہ اِس کا پتہ نہ اُس کا نشان۔ نہ اس کا ٹھکانہ نہ اس کا مکان۔ تحریر و تقریر سے پاک، خارج از فہم و ادراک، جو سمجھے سو غلط، جو لکھا سو خبط اور جو کہا سو جنوں۔تعالی شانہ عما یصفون۔

زبسکہ حسن فزود و غمش گداخت مرا
نہ من شناختم او را نہ او شناخت مرا


(اس کا حسن کچھ اس حد تک بڑھ گیا اور اس کے غم (محبت) نے مجھے اتنا پگھلا دیا کہ نہ تو میں اسے پہچان سکا اور نہ وہ مجھے پہچان سکا۔)​

نہیں نہیں صواب و خطا۔ عتاب و عطا۔ فراق و وصال۔ وہم و خیال۔ ذکر و نسیان۔ طاعت و عصیان۔ سب منظور، سب مقبول۔ سب معتبر، سب معقول۔ جب واحد و اثنین نہیں تو سوائے عین العین نہیں۔ کل شئی ھالک الا وجہہ

انت پھوٹ سب ماٹی ہوئے
لینا ایک نہ دینا دوئے

کہاں کا وہم، کیسا قیاس، اپنی حمد، اپنا سپاس، اپنی داستان، اپنا بیان، اپنی مقال، اپنا حال، خود شاکر و مشکور، خود ذاکر و مذکور، قطرے میں دریا غرق۔ دریا میں قطرہ فنا، ذرے پر آفتاب محیط آفتاب پر ذرہ حاوی، دانے میں شجر کے اظہار۔ شجر میں دانہ آشکار، وجود میں شہود، شہود میں وجود، ہوالاوّل و ہوا لآخر، ہوالظّاہر ہوالباطن

او در دل من است و دل من بدست اوست
چوں آئینہ بدست من و من در آئینہ

(وہ میرے دل میں سمایا ہوا ہے اور میرا دل اس کے ہاتھ میں ہے، بالکل اسی طرح، جیسے آئینہ میرے ہاتھ میں ہو اور میں آئینے میں ہوں۔)

نہ ہجر نہ وصال، نہ اتصال نہ انفصال، نہ یکی نہ دوئی، نہ مائی نہ توئی، نہ اقرار سے سود، نہ انکار سے زیاں، نہ کسی سے راز، نہ کسی سے نیاز۔ نہ کچھ برا نہ کچھ بھلا۔ نہ اس کی تمنا نہ اس کی پرواہ، یہ بھی درست وہ بھی بجا۔ اطلاق سے مطلق، قید سے آزاد۔ نہ یاد سے فراموش، نہ فراموشی کو یاد۔ نہ کنارہ نہ حد نہ شمار نہ عدد، قل ہواللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ (کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا، اور نہ اسے کسی نہ جنا ہے۔)

اسم و مسمی میں تمیز نہیں، لفظ و معنی دو چیز نہیں، ذات سمجھو یا صفات، وہی ایک بات ، خیال شخص بے عمر و زید کہاں، اگر ہے تو وہی ہے اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

رباعی

لا آدم فی الکون والابلیس
لاملک سلیمان ولا بلقیس
فالکل عبارت وانت المعانی
یا من ہو اللقلوب مقناطیس

آفتاب کی دید بدونِ آفتاب نا پدید، نور آفتاب نظر میں سمایا تو آفتاب نظر آیا، خود نقاب و خود حجاب، خود ضیا و خود آفتاب، نور میں آفتاب مستور، آفتاب ہمہ تن نور، خود ناظر و منظور، خود شاہد و خود مشہود، خود گویا خود گفتگو، وحدہ لا الہ الّا ھو۔

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہد ہے کس حساب میں
(غالب)

حمد ہے تو غیر کا نشان نہیں۔ شکر ہے تو کسی کا احسان نہیں۔ خود سمیع و خود بصیر، خود کلام و خود کلیم۔ جو چاہا سو کیا۔ کس نے کہا اور کس نے کیا۔ وما رمیت اذ رمیت ولا کن اللہ رمی (اور (اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔)

رباعی

ازحق جز حق دگرچہ روید بابا
از حق جز حق دگر کہ گوید بابا
در شدت ایں ظہور مہجور صفت
حق را جز حق دگر کہ جوید بابا


(حق سے حق کے سوا اور کیا اگتا ہے، بابا! حق سے حق کے سوا دوسرا کون بولتا یا کہتا ہے بابا!۔ اس ظہور (ظاہر ہونا) کی شدت میں جو مہجور کے نداز کا ہے (ہجر کی صورت) حق کو حق کے سوا دوسرا کون تلاش کرتا ہے بابا۔)​

حمد عین محمود ہے اور شکر عین مشکور۔ دریائے قِدَم کی موج، حدوث کا اوج، وجود کی نمود، عدم کا شہود، وحدت میں کثرت کی ترکتاز، حقیقت عین مجاز، مرح ذم ہم قدم۔ رنگ و بہرنگی بہم۔ صورت و معنی ہم قافلہ نہ کسی سے شکایت نہ کسی کا گلہ۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا (اے رب تو نے یہ سب بے سود پیدا نہیں کیا۔) ذات سے صفات، صفات سے افعال۔ کمال سے نقصان، نقصان سے کمال، آشکار ہے۔ مسمّی سے اسم، روح سے جسم، بلندی سے پستی، نیستی سے ہستی نمودار ہے۔
برہم بولی کایاکی اولی
کایا بن برہم کیا بولی
ذات اور را بے صفاتش کس ندید
ذات حق باما کند گفت و شنید


(کسی نے بھی اس کی ذات کو صفتوں سے خالی نہیں دیکھا۔ ذات حق ہم سے گفت و شنید کرتی ہے۔)

وفی انفسکم افلا تبصرون۔
(اور خود تمہارے نفوس میں (بہت سی نشانیاں ہیں )تو کیا تم دیکھتے نہیں)

نعت

حسن کو پردہ میں قرار نہیں۔ خوبی بدون اظہار نہیں۔ معشوق کو حجاب۔ عاشق کو تاب کہاں۔ جمال بے تجلی اور طالب کو تسلی محال۔ ع

کہ حسن از پردہ عصمت بروں آرد زلخا را
(کہ حسن، زلیخا کو عصمت کے پردے سے باہر لے آتا ہے۔)

حسن ذات نے حلیہ صفات میں، نگار بیرنگی نے لباس تعینات میں ظہور کیا۔ وہی روز اول، وہی موج اول، وہی تجلی، وہی نزول، وہی مرتبہ اولی، وہی شان اُخرٰی۔ جو حال، جو قال جو عبارت جو اشارت چاہو قرار دو۔ اعتبار، اظہار، تجلی، تفصیل، تغیر تبدل، تصور، تخیل، تشخص، تعین، حدوث، خلق، کون و فساد سب کا ایجاد۔ اول ما خلق اللہ نوری (اور سب سے پہلی چیز جو خدا نے پیدا کی وہ میرا نور تھا۔)

اے پردہ بر گرفتہ ببازار آمدہ
خلقے دریں طلسم گرفتار آمدہ


(اے وہ ذات (حق) کہ تو پردہ کیے ہوئے بازار میں آئی ہے، ایک خلق تیرے اس طلسم میں گرفتار ہو گئی ہے۔)

یعنی غایت مقصود علم میں مقدم مگر ظہور میں مؤخر ہے۔ تخم ریزی سے قبل تم ر مد نظر ہے۔ بعدہ ظہور شجر ہے۔ شاخ و برگ و پھل پھول یہ سب اسی اجمال کی تفصیل ہے۔ انجام کا ثمر کا اظہار۔ ثمر میں تخم مندرج تخم کے اندر ثمر موجود۔ خفا میں ظہور۔ ظہور میں خفا، غیب میں شہادت۔ شہادت میں غیب۔ ظاہر میں باطن۔ باطن میں ظاہر۔ ہوالاوّل ہوالآخر۔

اے ختم الرسل قرب تو معلوم شد
دیر امدہ زراہ دور آمدہ


(اے ختم الرسل (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا قرب معلوم ہو گیا، دیر سے آنے والا یا دیر سے آیا، دور سے آیا ہے۔)

صورت عابد، معنی معبود، ظاہر ساجد، باطن مسجود، شریعت احمد، حقیقت احد، خود وحی و خود الہام، خود صلوت و خود سلام، خود پیمبر و خود پیام ، خود مرسل و خود مرسل الیہ ع از من بمن سلام دہم از من بمن سلام

امدم بر سر مطلب، نہ ما و من نہ کلام و سخن نہ دید و شنید۔ نہ قریب و بعید۔ نحن اقرب الیہ من حبل الورید ۔ نہ شریعت نہ طریقت۔ نہ حق نہ حقیقت۔ وہی دائرہ وہی پرکار۔ وہی مرکز وہی مدار۔

پھر پھر کے دائرے میں رکھتا ہوں میں قدم
آئی کہاں سے گردش پرکار پاؤں میں
چیست توحید آنکہ از غیر خدا
فرد آئی در خلا و ملا


(توحید کیا ہے؟ یہ کہ خدا کے سوا جو کچھ خلا اور ملا (اجتماع) میں ہے سب کا وجود نہیں ہے۔)

وہی علم، وہی ارادہ، وہی ازل وہی ابد، وہی دور جاری و ساری، وہی آثار و اطوار طاری۔ وہی سبو وہی پیمانہ، وہی خم وہی خمخانہ، دریا کا وہی جوش و خروش، موج و حباب کی وہی آب و تاب۔ اسی شان بیچوں و بیچگوں، بے شبہ و بے نموں، نے پردہ اسرار سے یہ تجلی نمودار کی کہ حضرت قبلہ و کعبہ شہنشاہ والا جاہ شاہباز بلند پرواز، شہسوار معارک تجرید، تاجدار کشور توحید، مرد میدان تفرید، عارف بیباک ، اکمل الکملا، وراءالورا، واصل بے حجاب، شاہد بے نقاب، دریائے بے کنار، بحر زخار، جہان عرفان، آفتاب حقیقت، برزخ کبرٰی، تارک ماسوا، جہاں سوز، بزم افروز، خانمان برباد۔ فردالافراد۔ اعنی سید غوث علی شاہ قلندر قادری و سادہ آرائے ہدایت و ارشاد ہوئے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
دیباچہ

اب بھی دھیان میں سایہ تیری دیواروں کا

مدت ہائے دراز یہی سوزوساز رہا، ہر روز نعمت ہم کلامی، حاشیہ بوسئی بساط گرامی، اجلاس عام کی حضوری، بزم انس کا اختصاص، زیارت صبح و شام، گویا شُرب و مدام ہے۔ ذوق لقا و لطف وصال میں تحریر حالات کی پروا اور تدوین نکات کا دماغ کہاں تھا۔ اور نیز ابتدائے حال سے حضرت قبلہ عالم کو کبھی تصنیف و تالیف منظور خاطر نہ ہوئی۔ عالم بے نشانی مد نظر رہا، پابندی تقلید سے طبع آزاد و نفور تھی۔ جو اشعار و نکات یا رموز اسرار کہ وقتاً فوقتاً زبان فیض ترجمان پر جو شش دریائے غیب نے جاری کیے یا تعلیم و تلقین اصحاب کے اقتضا سے اظہار و بیان میں آئے، بعض ارادت مندوں نے تحریر و تالیف کی اجازت چاہی تو زنہار مرضی مبارک کا میلان اس طرف نہ پایا۔ نقش اول و آخر کو کف دست سے مٹایا۔ البتہ آخر ایام میں اس خاکسار کو ازراہ سفاریت عنایت صرف اتنی اجازت حاصل ہوئی کہ اشعار و مقالات، اشلوک و دوہے و چوپائی وغیرہ جو ارشاد مبارک میں حسب موقع وارد ہوتے تھے، یہ کمترین یادداشت کے لیے فوراً تحریر کر لیتا تھا۔ بجز اس کے کوئی حرف حکایت یا نقل و روایت سوائے سماعت کے سپردقلم نہیں کی گئی۔ جب کہ اس شاہباز کنگرہ تقدیس اور آفتاب جہان تنزیہ نے حجاب و نقاب ظہور چہرہ ذات بے نشان سے اٹھا لیا۔

آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
(وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور وہ ساقی بھی نہ رہا۔)

تو دل بے تاب گھبرایا۔ وصل و بے غمی کا زمانہ نشاط و ہمدمی کا کارخانہ یاد آیا، جوش وحشت حد سے زیادہ ہوا۔ کوئی سبیک کوئی شغل کوئی کام اس کے علاوہ ذہن میں یاد نہ آیا کہ جس کے قرب و وصال و لقاء جمال میں اتنی عمر گزریبقیہ عمر بھی اسی کی یادگاری بس ہے۔ من احب شئیا فکثر ذکرہ

طالب حق ذکر حق دارد مدام
ذکر غیر آمد حرام آمد حرام

(جو طالب حق ہے وہ ہمیشہ ذکر حق میں مصروف رہتا ہے۔ غیر حق ماسوا اللہ کا ذکر حرام ہے حرام ہے)

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

جملہ احباب نے یہ امر پسند کیا اور اظہار اشتیاق سے دل شکستہ کی ہمت کو سہارا دیا۔ ناچار قلم اٹھایا۔ وحشت جدائی اور غم تنہائی کو اس طرح دور کیا۔ اگرچہ اس ہنگامہ قیادت کے بعد فراموشی کا غلبہ اور نسیان کا طغیان تھا، لیکن جب فکر ادھر مصروف ہوا تو عالم غیب سے وہ شاہدان سخن جو از یاد رفتہ ہو گئے تھے، جلوہ گری کرنے لگے۔ ذرا سی بات یاد آئی اور تمام قصہ نے ہنگامہ گذشتہ کا سامان باندھ دیا۔ وہی مرشد وہی ارشاد۔ وہی کلیم وہی کلام۔ وہی بیان وہی زمان، وہی چشم و گوش وہی صدائے نوشا نوش، بزم خیال میں موجود ہو گئے۔ اسی طرح جو کچھ یاد آیاقلم بند کیالیکن بہت کچھ مقالات ہیں کہ ان کا نقش دل و دماغ سے بالکل مٹ گیا اور بے شمار ایسے حالات و معاملات ہیں کہ روز مرّہ اطراف و جوانب اور ممالک دور دراز سے حل مشکلات و مہمات کے لیے خلق خدا آتی تھی اور اپنی مراد و مقاصد و مدعا و مطالب جناب و قبلہ کی فیض نظر اور برکات انفاس سے پاتی تھی اور عجیب و غریب تصرفات و کرامات روزانہ ظہور میں آتے۔ میں نے ان تمام باتوں کو اس نظر سے قلم انداز کیاکہ نہ کبھی جناب و قبلہ نے ان امور کو اپنی طرف منسوب کیا نہ قابل اظہار و مایہ افتخار سمجھا، بلکہ بلکہ ہمیشہ دریائے توحید کی مواجی میں کشف و کرامات اور ظہور کمالات کو ہیچ فرماتے رہے اور تطہیر القلب عن ما سوی اللہ (اور دل کو اللہ کے سوا ہر چیز سے ہاک رکھنے) کو اصل مقصود سمجھا۔

جو کچھ ہونا جسے جسے کہتے ہیں پستی ہے میاں
فقر میں پستی یہی ہے اور پستی کچھ نہیں

اور اگر کسی ارشاد میں اس قسم کی کوئی بات نکلتی ہے تو وہ خوش طبعی پر مذکور ہوتی ہے۔

راہ را اینجا در ناکامی است
کام مرد نیک بدنامی است
(یہاں راستے کے لیے ناکامی کا دروزاہ ہے، نیک آدمی کی آرزو، مراد بدنامی میں ہے۔)

اس کے علاوہ طوالت کتاب کے لحاظ سے بھی اس کے ترک کا خیال رہا۔ اب التماس یہ ہے کہ نیاز مند خاکسار خادم الفقرا گل حسن نہ اردو کا اہل زبان، نہ اس دیار کی پیدائش، آوارہ گرد بے وطن نہ کوئی ماوٰی نہ کہیں مسکن

آن وطن مصر و عراق و شام نیست
آں وطن شہریست کاں را نام نیست

(وہ وطن مصرو عراق اور شام نہیں ہے، وہ وطن ایک ایسا شہر ہے جس کا کوئی نام نہیں ہے۔)

عبارت و الفاظ دل پسند یا شاعرانہ جوڑ بند کہاں سے لاتا۔ ان اوراق کے پڑھنے والے مجھ کو معاف فرمائیں۔ الفاظ و عبارت سے قطع نظر کریں، مضمون و مطالب کو اصل مقصد سمجھیں

قال را بگزارد مر حال شو
پیش مرد کاملے پامال شو

(تو قال کی بات چھوڑ مرد حال ہوجا اور کسی مردکامل کے آگے پامال ہوجا ، جھک جا)

یہ کتاب جس کا نام تذکرہ غوثیہ رکھا، چھ باب اور ایک خاتمہ پر تقسیم کیا۔ وما توفیقی الاباللہ۔
 
Top