بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا من بک حاجتی و روحی بیدیک
من غیرک اعرضت و اقبلت الیک
مالی عملی صالح ن استظہرت بہ
قد جئتک راجیا توکلت علیک
(اے وہ کہ جس کا میں محتاج ہوں اور میری روح تیرے ہاتھوں میں ہے۔ میں نے تیرے سوا ہر ایک سے منہ موڑ لیا اور تیرے پاس ہی آ گیا۔ میرا عمل صالح نہیں ہے۔ اگر میں اس کا سہارا لوں، تو میں تمہاری طرف امید لے کر آیا ہوں اور میں نے تم پر ہی آسرا کیا ہے۔)
حمد و ثنا، سہو و خطا، شکر و سپاس، وہم و وسواس، کیس حمد اور کس کا شکر، حامد کون کون محمود کیا، شاکر کدھر مشکور کہاں۔ قطرہ ہے تو دریا موہوم، دریا ہے تو قطرہ معدوم۔ جب تک ذرہ ذرہ ہے، آفتاب نہاں ہے۔ جب وجود آفتاب نمودار ہوا تو ذرہ کہاں ہے۔ قطرہ امر اعتباری ہے، ہر قطرہ میں دریا جاری ہے۔ آفتاب سے ذرّہ کا وجود۔ ذرہ سے آفتاب ی نمود۔ قطرہ سے دریا کا ظہور۔ قطرے قطرے میں دریا معمور، لیکن نہ قطرہ نہ دریا، نہ ذرہ نہ آفتاب۔ وہ خود نیست یہ خود نایاب، نہ اِس کا پتہ نہ اُس کا نشان۔ نہ اس کا ٹھکانہ نہ اس کا مکان۔ تحریر و تقریر سے پاک، خارج از فہم و ادراک، جو سمجھے سو غلط، جو لکھا سو خبط اور جو کہا سو جنوں۔تعالی شانہ عما یصفون۔
زبسکہ حسن فزود و غمش گداخت مرا
نہ من شناختم او را نہ او شناخت مرا
(اس کا حسن کچھ اس حد تک بڑھ گیا اور اس کے غم (محبت) نے مجھے اتنا پگھلا دیا کہ نہ تو میں اسے پہچان سکا اور نہ وہ مجھے پہچان سکا۔)
نہیں نہیں صواب و خطا۔ عتاب و عطا۔ فراق و وصال۔ وہم و خیال۔ ذکر و نسیان۔ طاعت و عصیان۔ سب منظور، سب مقبول۔ سب معتبر، سب معقول۔ جب واحد و اثنین نہیں تو سوائے عین العین نہیں۔ کل شئی ھالک الا وجہہ
انت پھوٹ سب ماٹی ہوئے
لینا ایک نہ دینا دوئے
کہاں کا وہم، کیسا قیاس، اپنی حمد، اپنا سپاس، اپنی داستان، اپنا بیان، اپنی مقال، اپنا حال، خود شاکر و مشکور، خود ذاکر و مذکور، قطرے میں دریا غرق۔ دریا میں قطرہ فنا، ذرے پر آفتاب محیط آفتاب پر ذرہ حاوی، دانے میں شجر کے اظہار۔ شجر میں دانہ آشکار، وجود میں شہود، شہود میں وجود، ہوالاوّل و ہوا لآخر، ہوالظّاہر ہوالباطن
او در دل من است و دل من بدست اوست
چوں آئینہ بدست من و من در آئینہ
(وہ میرے دل میں سمایا ہوا ہے اور میرا دل اس کے ہاتھ میں ہے، بالکل اسی طرح، جیسے آئینہ میرے ہاتھ میں ہو اور میں آئینے میں ہوں۔)
نہ ہجر نہ وصال، نہ اتصال نہ انفصال، نہ یکی نہ دوئی، نہ مائی نہ توئی، نہ اقرار سے سود، نہ انکار سے زیاں، نہ کسی سے راز، نہ کسی سے نیاز۔ نہ کچھ برا نہ کچھ بھلا۔ نہ اس کی تمنا نہ اس کی پرواہ، یہ بھی درست وہ بھی بجا۔ اطلاق سے مطلق، قید سے آزاد۔ نہ یاد سے فراموش، نہ فراموشی کو یاد۔ نہ کنارہ نہ حد نہ شمار نہ عدد، قل ہواللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ (کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا، اور نہ اسے کسی نہ جنا ہے۔)
اسم و مسمی میں تمیز نہیں، لفظ و معنی دو چیز نہیں، ذات سمجھو یا صفات، وہی ایک بات ، خیال شخص بے عمر و زید کہاں، اگر ہے تو وہی ہے اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
رباعی
لا آدم فی الکون والابلیس
لاملک سلیمان ولا بلقیس
فالکل عبارت وانت المعانی
یا من ہو اللقلوب مقناطیس
آفتاب کی دید بدونِ آفتاب نا پدید، نور آفتاب نظر میں سمایا تو آفتاب نظر آیا، خود نقاب و خود حجاب، خود ضیا و خود آفتاب، نور میں آفتاب مستور، آفتاب ہمہ تن نور، خود ناظر و منظور، خود شاہد و خود مشہود، خود گویا خود گفتگو، وحدہ لا الہ الّا ھو۔
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہد ہے کس حساب میں
(غالب)
حمد ہے تو غیر کا نشان نہیں۔ شکر ہے تو کسی کا احسان نہیں۔ خود سمیع و خود بصیر، خود کلام و خود کلیم۔ جو چاہا سو کیا۔ کس نے کہا اور کس نے کیا۔ وما رمیت اذ رمیت ولا کن اللہ رمی (اور (اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔)
رباعی
ازحق جز حق دگرچہ روید بابا
از حق جز حق دگر کہ گوید بابا
در شدت ایں ظہور مہجور صفت
حق را جز حق دگر کہ جوید بابا
(حق سے حق کے سوا اور کیا اگتا ہے، بابا! حق سے حق کے سوا دوسرا کون بولتا یا کہتا ہے بابا!۔ اس ظہور (ظاہر ہونا) کی شدت میں جو مہجور کے نداز کا ہے (ہجر کی صورت) حق کو حق کے سوا دوسرا کون تلاش کرتا ہے بابا۔)
حمد عین محمود ہے اور شکر عین مشکور۔ دریائے قِدَم کی موج، حدوث کا اوج، وجود کی نمود، عدم کا شہود، وحدت میں کثرت کی ترکتاز، حقیقت عین مجاز، مرح ذم ہم قدم۔ رنگ و بہرنگی بہم۔ صورت و معنی ہم قافلہ نہ کسی سے شکایت نہ کسی کا گلہ۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا (اے رب تو نے یہ سب بے سود پیدا نہیں کیا۔) ذات سے صفات، صفات سے افعال۔ کمال سے نقصان، نقصان سے کمال، آشکار ہے۔ مسمّی سے اسم، روح سے جسم، بلندی سے پستی، نیستی سے ہستی نمودار ہے۔
برہم بولی کایاکی اولی
کایا بن برہم کیا بولی
ذات اور را بے صفاتش کس ندید
ذات حق باما کند گفت و شنید
(کسی نے بھی اس کی ذات کو صفتوں سے خالی نہیں دیکھا۔ ذات حق ہم سے گفت و شنید کرتی ہے۔)
وفی انفسکم افلا تبصرون۔
(اور خود تمہارے نفوس میں (بہت سی نشانیاں ہیں )تو کیا تم دیکھتے نہیں)
نعت
حسن کو پردہ میں قرار نہیں۔ خوبی بدون اظہار نہیں۔ معشوق کو حجاب۔ عاشق کو تاب کہاں۔ جمال بے تجلی اور طالب کو تسلی محال۔ ع
کہ حسن از پردہ عصمت بروں آرد زلخا را
(کہ حسن، زلیخا کو عصمت کے پردے سے باہر لے آتا ہے۔)
حسن ذات نے حلیہ صفات میں، نگار بیرنگی نے لباس تعینات میں ظہور کیا۔ وہی روز اول، وہی موج اول، وہی تجلی، وہی نزول، وہی مرتبہ اولی، وہی شان اُخرٰی۔ جو حال، جو قال جو عبارت جو اشارت چاہو قرار دو۔ اعتبار، اظہار، تجلی، تفصیل، تغیر تبدل، تصور، تخیل، تشخص، تعین، حدوث، خلق، کون و فساد سب کا ایجاد۔ اول ما خلق اللہ نوری (اور سب سے پہلی چیز جو خدا نے پیدا کی وہ میرا نور تھا۔)
اے پردہ بر گرفتہ ببازار آمدہ
خلقے دریں طلسم گرفتار آمدہ
(اے وہ ذات (حق) کہ تو پردہ کیے ہوئے بازار میں آئی ہے، ایک خلق تیرے اس طلسم میں گرفتار ہو گئی ہے۔)
یعنی غایت مقصود علم میں مقدم مگر ظہور میں مؤخر ہے۔ تخم ریزی سے قبل تم ر مد نظر ہے۔ بعدہ ظہور شجر ہے۔ شاخ و برگ و پھل پھول یہ سب اسی اجمال کی تفصیل ہے۔ انجام کا ثمر کا اظہار۔ ثمر میں تخم مندرج تخم کے اندر ثمر موجود۔ خفا میں ظہور۔ ظہور میں خفا، غیب میں شہادت۔ شہادت میں غیب۔ ظاہر میں باطن۔ باطن میں ظاہر۔ ہوالاوّل ہوالآخر۔
اے ختم الرسل قرب تو معلوم شد
دیر امدہ زراہ دور آمدہ
(اے ختم الرسل (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا قرب معلوم ہو گیا، دیر سے آنے والا یا دیر سے آیا، دور سے آیا ہے۔)
صورت عابد، معنی معبود، ظاہر ساجد، باطن مسجود، شریعت احمد، حقیقت احد، خود وحی و خود الہام، خود صلوت و خود سلام، خود پیمبر و خود پیام ، خود مرسل و خود مرسل الیہ ع از من بمن سلام دہم از من بمن سلام
امدم بر سر مطلب، نہ ما و من نہ کلام و سخن نہ دید و شنید۔ نہ قریب و بعید۔ نحن اقرب الیہ من حبل الورید ۔ نہ شریعت نہ طریقت۔ نہ حق نہ حقیقت۔ وہی دائرہ وہی پرکار۔ وہی مرکز وہی مدار۔
پھر پھر کے دائرے میں رکھتا ہوں میں قدم
آئی کہاں سے گردش پرکار پاؤں میں
چیست توحید آنکہ از غیر خدا
فرد آئی در خلا و ملا
(توحید کیا ہے؟ یہ کہ خدا کے سوا جو کچھ خلا اور ملا (اجتماع) میں ہے سب کا وجود نہیں ہے۔)
وہی علم، وہی ارادہ، وہی ازل وہی ابد، وہی دور جاری و ساری، وہی آثار و اطوار طاری۔ وہی سبو وہی پیمانہ، وہی خم وہی خمخانہ، دریا کا وہی جوش و خروش، موج و حباب کی وہی آب و تاب۔ اسی شان بیچوں و بیچگوں، بے شبہ و بے نموں، نے پردہ اسرار سے یہ تجلی نمودار کی کہ حضرت قبلہ و کعبہ شہنشاہ والا جاہ شاہباز بلند پرواز، شہسوار معارک تجرید، تاجدار کشور توحید، مرد میدان تفرید، عارف بیباک ، اکمل الکملا، وراءالورا، واصل بے حجاب، شاہد بے نقاب، دریائے بے کنار، بحر زخار، جہان عرفان، آفتاب حقیقت، برزخ کبرٰی، تارک ماسوا، جہاں سوز، بزم افروز، خانمان برباد۔ فردالافراد۔ اعنی سید غوث علی شاہ قلندر قادری و سادہ آرائے ہدایت و ارشاد ہوئے۔