تاریخ بروالہ صفحہ 159 سے 193

نایاب

لائبریرین
(١٥٩)

شجرہ نسب
شجرہ نسب کی حفاظت
بہت سے ممتاز قبائل اور برادریوں کی طرح سادات میں بھی اپنے شجرہ نسب کی حفاظت کا اہتمام پرانے زمانوں سے کیا جاتا رہا ہے ۔ لیکن یہ اہتمام زیادہ تر خاندانوں کی بنیاد پر ہی کیا جاتا تھا ۔ ہر خاندان میں کبھی نہ کبھی کوئی بزرگ ایسا نکل آتا تھا ۔ جو شجرہ کو تحریری شکل دے دیتا تھا ۔ اس کے بعد یہ شجرہ ایک انتہائی قیمتی دستاویزات کی شکل میں پشت در ہشت محفوظ رکھا جاتا تھا ۔ بلکہ بعض اوقات تو اس کی حفاظت میں اس قدر شدت سے کام لیا جاتا تھا کہ غیر خاندان کے کسی شخص کو اس کی شکل دکھائی جانی تو دور کی بات ہے ۔ خاندان کے افراد بھی اس کی زیارت سے محروم رہتے تھے ۔ ایسے بزرگ شجروں کو طبع کرانے کے ہمیشہ مخالف رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ شجرے کو طبع کر لیا جائے تو اس کی حرمت ختم ہو جاتی ہے ۔ اور غیر خاندانوں کے لوگوں کے لیے یہ آسانی پیدا ہو جاتی ہے کہ کسی مرحلے پر اس شجرہ میں اپنا نام شامل کر لیں ۔
مگر اس کے باوجود کچھ بزرگوں نے سادات کے شجروں کو مرتب کر کے کتابی شکل میں چھپوانے کی کوشش ہر زمانہ میں کی ہے ۔ ان میں سے بعض بزرگوں نے تو حقیقتا بڑی عرق ریزی سے کام لیا ۔ عمر عزیز کا ایک بیش قیمت حصہ اس کام پر صرف کیا ۔ جگہ جگہ بکھرے ہوئے خاندانوں کے شجروں کو یکجا کیا ۔ تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے انہیں درست شکل میں مرتب کیا اور کتاب کی صورت دینے میں کامیاب ہوئے ۔ اس قسم کے بزرگوں کی محنت و مشقت کے نتیجہ میں سادات کے انساب کی بعض اہم کتابیں مرتب ہوئیں ۔ ان میں سے کچھ چھپ گئیں اور کچھ قلمی نسخوں کی شکل میں ان کے خاندانوں میں محفوظ رہیں ۔ قیام پاکستان سے قبل اس قسم کی کتابوں کی ضرورت واضع طور پر محسوس نہیں کی جاتی تھی ۔ سادات کی آبادیاں صدیوں سے اپنی جگہ جمی ہوئی تھیں سب لوگ اک دوسرے کو جانتے تھے ۔ خاندانوں کے شجرے کسی نہ کسی طرح محفوظ تھے ۔ تشخص اور پہچان کے وقت کسی قسم کی کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی ۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد سادات کے انساب کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کرنے کی ضرورت ہر جگہ بڑی شدت سے محسوس کی گئی ۔ اپنی آبادیوں سے اکھڑ کر لوگ جگہ جگہ بکھر گئے ۔ ہر جگہ انہیں اپنی پہچان اپنے تشخص اور تحفظ نسب کا مسلہ پیش آیا ۔ اس مسلہ کو حل کرنے کا ایک موثر طریقہ یہ تھا کہ اپنے خاندان اور بستی کے خاندانوں کے شجرہ کو کتاب کی شکل میں مرتب کر کے چھپوا لیا جائے ۔ اس طریقہ پر عمل کرتے ہوئت سادات کے خاندانوں کے انساب کو محفوظ کرنے کے لیے بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے ہر کتاب اپنی جگہ اک قابل قدر کوشش ہے اور ایک خاص حلقہ تک بے انتہا افادیت کی حامل ہے ۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کے ترتیب دیے جانے کے باوجود سادات کے بہت سے مراکز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٠)

ایسے باقی رہ گئے جن کا ذکر کسی کتاب میں نہیں ملتا ۔ ایسے مراکز میں بروالہ سیدان کے علاوہ جودھ پور ، جے پور ، سانبھر ، اجمیر ، ٹونک ، شاہپورہ ، ؟؟؟÷ ، رائے بریلی وغیرہ کے نام مثال کے طور پر لیے جا سکتے ہیں ۔ یہ تمام کے تمام مقامات سادات کی آبادیاں تھیں ۔ بعض جگہ اب بھی سادات کے خاندان آباد ہیں ۔ مگر ان کا ذکر اس سلسلہ میں لکھی گئی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے ۔
اس صورت حال کی دو بڑی وجوہ نظر آتی ہیں ۔ اول تو یہ کہ ان مقامات پر آباد سادات نے اس کام کی جانب خود کبھی توجہ نہیں دی ۔ شجرے کو جمع کرنا اور اس کی ترتیب و تسوید ایک ایسا کام ہے کہ اسے اپنے درمیان سے ہی کوئی شخص انجام دے سکتا ہے ۔ کسی دوسرے سے کبھی یہ توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی کہ اس کام کی جانب توجہ دے گا ۔ البتہ اگر خود کام شروع کر لیا جائے تو کسی جانب سے اعانت کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ پنجاب اور راجپوتانہ کے علاقہ میں آباد سادات کے خاندانوں نے کبھی خود ہی اس کام میں دلچسپی نہیں لی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انساب سادات کی کتابوں میں کہیں ان کے ذکر کو شامل نہیں کیا گیا ۔ البتہ یو پی ، دہلی اور دیگر علاقوں میں آباد سادات نے اس کام کی اہمیت محسوس کی اور اس جانب پوری توجہ دی تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں اس موضوع پر بڑی بیش قیمت کتابیں مل جاتی ہیں ۔
دوسری وجہ یہ نظر آتی ہے کہ شیعہ حضرات کے ہاں ترتیب و تحفظ انساب کا ایک خاص ذوق پایا جاتا ہے اور سنی حضرات اس ذوق سے کم ق بیش محروم ہیں ۔ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ قریبا ان تمام مقامات کے سادات کے خاندانوں کے انساب پر کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ جہاں کے سادات شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مگر سنی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے سادات کے مراکز اس امتیاز سے کم و بیش محروم ہیں ۔
بر والہ سیدان کی صورتحال یہ تھی کہ اگرچہ سادات کی بہت قدیم اور مشہور بستی تھی مگر یہاں وہ دونوں خامیاں موجود تھیں ۔ جو نسب نامہ کی ترتیب و تحفظ میں رکاوٹ بنتی تھیں ۔ اور جن کا ذکر اوپر ہوا ۔ یعنی اول یہ کہ یہ بستی پنجاب میں واقع تھی اور پنجاب کے بھی ایسے پسماندہ ، دورافتادہ اور جاہل علاقہ میں جہاں تعلیم برائے نام تھی ۔ اور علمی کام کرنے کا کسی کو خیال بھی نہیں آ سکتا تھا ۔ دوم یہ کہ اس بستی کے سادات کی غالب اکثریت سنی عقیدہ رکھتی تھی ۔ شیعہ عقیدہ رکھنے والےتو تین چار گھرانے تھے ۔ انہیں بھی یہ عقیدہ اختیار کیے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا ۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ اس قدیم بستی کے سادات کے گھرانوں کا شجرہ مرتب شکل میں کسی کے پاس موجود نہیں تھا ۔ صرف خاندانی شجرے الگ الگ خاندانوں میں موجود تھے ۔
شجرہ کے تحفظ کے ذرائع
شجرہ کے مرتب اور مدون شکل میں موجود نہ ہونے کے باوجود تقسیم ملک سے قبل اس کی حفاظت کے تین ذرائع تھے ۔ پہلا ذریعی تو حسینی برہمن تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ برہمنوں کا ایک فرقہ تھا جو حضرت امام حسین کے ساتھ عقیدت کی نسبت رکھتے تھے اور اسی لیے حسینی برہمن کہلاتے تھے ۔ ان کا مرکز ریاست الور کے کسی مقام پرتھا ۔ وہ ہر سال محرم کے اختتام پر ٹولیوں کی شجکل میں نکلتے تھے اور راجپوتانہ اور آس پاس کی سادات کی تمام بستیوں میں پہنچتے تھے ۔ ہر بستی میں وہ نوزائیدہ بچوں کے نام ان کے گھرانوں کے ساتھ تحریر کر لیتے تھے ۔ ہر خاندان کا شجرہ پوتھیوں کی شکل میں ان کے پاس موجود ہوتا تھا ۔ ہر بستی میں چند دن قیام کر کے ان شجروں کو مکمل کرتے تھے اور اپنی نذر نیاز وصول کر کے سال بھر کے لیے رخصت ہو جاتے تھے ۔
دوسرا ذریعہ خاندانی میراثی تھے ۔ ہر خاندان کا ایک مخصوص میراثی ہوتا تھا اور اسے اس خاندان کا پورا شجرہ زبانی یاد ہوتا تھا ۔ خاندانی تقریبات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦١)
خصوصا شادی کے موقع پر وہ کھڑا ہو کر اس شجرہ کو بلند آوازسے پڑھتا تھا اور اس کے عوض انعام پاتا تھا ۔ یہ بالکل وہی رسم تھی جو ہندو راجپوتوں کے ہاں موجود رہی ہے ۔ ان کے ہاں یہ خدمت انجام دینے والے کو بھاٹ کہا جاتا تھا ، یہاں یہ کام میراثی کرتا تھا ۔
تیسرا ذریعہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے اپنے طور پر شجرہ کو لکھ کر محفوظ کر لیا تھا ۔ ایسا بزرگ ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا تھا ۔ مگر اس کا محفوظ کردہ شجرہ کچھ زیادہ وسیع نہیں ہوتا تھا ۔ یہ اپنے خاندان یا زیادہ سے زیادہ اپنے ٹھلہ تک محدود ہوتا تھا ۔ کالا پانہ اور گورا پانہ کے ایک دو بزرگوں نے ایک آدھ دفعہ کوشش کی تو صرف اپنے پانہ کا شجرہ مرتب کر سکے ۔ پورے قصبے کے خاندانوں کا شجرہ یکجا کبھی مرتب نہیں کیا گیا ۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حسینی برہمن تو ہندوستان میں رہ گئے ، میراثیکا ادارہ ختم ہو گیا ، اور وہ میراثی مر کھپ گئے جنہیں شجرے یاد تھے ۔ جن بزرگوں نے اپنے طور پر شجرے مرتب کیے تھے ان کے کاغذات ہجرت کے وقت دیگر سامان کے ساتھ ہندوستان میں رہ گئے اور یہ بزرگ بھی ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اس صورت حال میں شجرہ کی ترتیب بڑا جان جوکھوں کا کام تھا ، جن چند بزرگوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہیں شجرہ یاد ہے ان تک جب یہ راقم الحروف پہنچا تو پتہ چلا کہ انہیں تو ان باتوں کا بھی پتہ نہیں جن کا مجھے علم ہے ۔ غرض سیکڑوں کتابیں کھنگالنے ، مدتوں کی مغز کھپائی اور بڑی عرق ریزی کے بعد میں جو شجرہ مرتب کرنے میں کامیاب ہوا ہوں وہ اس کتاب میں شامل ہے ۔ اپنی تحقیق اور معلومات کی حد تک یہ کہ سکتا ہوں کہ یہ شجرہ اس حد تک درست اور مکمل ہے کہ سادات بروالہ کا ایسا شجرہ کبھی مرتب نہیں کیا گیا ہو گا ۔ دوسری بات یہ کہ بروالہ سیدان کی نقوی بخاری سادات کا پورا شجرہ اس کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے ۔ اب اس خانوادہ کی کوئی معلوم شاخ ایسی باقی نہیں رہ گئی جس کا اندراج اس کتاب میں نہ ہو گیا ہو ۔ بروالہ سیدان کے نقوی بخاری سادات کے تمام تر خانوادوں کی ہر شاخ کا مکمل اور پورا شجرہ اس کتاب میں موجود ہے ۔
موجودہ شجرہ
امام سید علی نقی ( ٢١٤ - ٢٥٤ ھجری مطابق ٨٢٩-٣٠ --٨٦٨ عیسوی ) کی نرینہ اولاد کے بارے میں متعدد روایات ہیں اور ان کی تعداد کے متعلق بڑا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ان روایات کے محتاط مطالعہ اور تحقیق کے بعد اکثر ماہرین انساب نے چار ناموں پر اتفاق کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کے چار فرزند تھے (١) سید محمد (٢)امام حسن عسکری (٣) سید جعفر الذکی (٤) سید حسین ۔ اس جگہ ان چاروں کا مختصرا ذکر کیا جاتا ہے ۔ (١)
(١) سید محمد ۔۔ آپ کا مزار سامرہ اور کاظمین کے درمیان بلد کے مقام پر واقع ہے ۔
(٢) امام حسن عسکری ، آپ کا اسم گرامی مشہور زمانہ ہے ۔ آئمہ اثنا عشر کے گیارہویں امام ہیں ۔ تواریخ میں تفصیلی حالات مرقوم ہیں ۔
(٣) سید جعفرالذکی ، یہی وہ بزرگ ہیں جنہیں بروالہ سیدان کے بزرگ اپنے شجروں میں ابو عبداللہ جعفر کے نام سے یاد کرتے ہیں برصغیر کی کم و بیش تمام سادات نقویہ کے شجرے آپ سے ملتے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حضرت امام علی نقی کی پچانوے فیصد سے زیادہ اولاد آپ ہی سے چلی ہے ۔
(٤) سید حسین ، آپ کی اولاد بہت کم ہے اور برصغیر میں تو شائد ایک آدھ خاندان ہی آپ کی اولاد سے موجود ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سید مقصود نقوی ، ریاض الانساب ؁١٩٧٩ ص ٨٢
 

نایاب

لائبریرین
(١٦٢)
امام سید علی نقی کی وفات ٢٥٤ ہجری (٨٦٨ عیسوی) سے سید امیر حسین کی شہادت ٥٨٨ ہجری (١١٩٢ عیسوی ) تک سوا تین صدی کا عرصہ بنتا ہے ۔ بروالہ سیدان میں مروجہ شجرہ نسب میں سب سے زیادہ غلطیاں اسی زمانہ کے شجرہ میں موجود ہیں ۔ مختلف بزرگوں سے جو مختلف روایات اس زمانہ کے شجرہ کی حاصل ہوئی ہیں ۔ ان کی تعداد پانچ ہے ۔ دو روایتوں میں پانچ پیڑھیوں کا ذکر ہے ۔ ایک روایت میں چھ پیڑھیاں ہیں ۔ ایک میں سات اور ایک میں چار ہی پیڑھیاں ہیں ۔
البتہ ان تمام روایات میں جن مختلف ناموں کا ذکر آیا ہے ان کی تعداد نو ہے ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان نو ناموں کو ان روایات کی روشنی میں صحیح ترتیب دے دوں ۔ اور یہی ترتیب غالبا درست شجرہ کی ہو سکتی ہے ۔ سرسید نے اپنی کتاب “ الخطاب الاحمدیہ فی العرب و سیرت النبی “ میں علم الانساب کا یہ مسلمہ اصول نقل کیا ہے کہ ایک صدی میں انسانوں کی اوسطا تین نسلیں گزر جاتی ہیں ۔ (٢) اس لحاظ سے سوا تین صدی کے عرصہ میں نو نسلیں گزرنی چاہئیں ۔ چنانچہ میری ترتیب کے مطابق شجرہ کی جو پیڑھیاں بنتی ہیں انہیں اس شجرے کا حصہ بنایا ہے ۔
ایک دلچسپ صورتحال
اس کتاب کے حصہ اول میں بتایا جا چکا ہے کہ سید نعمت اللہ بخاری اپنے بھائیوں سمیت شہاب الدین غوری کے لشکر کے ساتھ برصغیر میں تشریف لائے اور ہانسی کے قلعہ کی فتح کے دوران اپنے دو بھائیوں سید امیر حسین اور سید کریم اللہ سمیت شہید ہوئے ۔ ان تینوں بھائیوں کے مزارات ان کی جائے شہادت پر ہی بنے ۔ ان کے بھائی سید ناصر شہید بدخشاں میں رک گئے تھے ۔ جب انہیں بھائیوں کی شہادت کی خبر ملی تو ان کے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ہانسی تشریف لائے اور ان کے مزارات پر حاضری دی ۔ اس کے بعد ہی سادات کے یہ افراد بروالہ سیدان میں آباد ہوئے ۔
بروالہ سیدان میں نسلا بعد نسل یہ روایت نقل ہوتی چلی آئی ہے کہ ان چاروں بھائیوں میں سے دو بھائی سید نعمت اللہ شہید اور سید ناصر شہید کی کوئی اولا نہیں تھی ۔ باقی دو بھائیوں سید امیر حسین اور سید کریم اللہ صاحب اولاد تھے ۔ ان میں سے سید کریم اللہ کی اولاد تو دھرسو نواز پور میں آ کر آباد ہو گئی ۔ جو دہلی کے مضافات کی کوئی بستی تھی ۔ سید امیر حسین کی اولاد بروالہ میں آباد ہوئی ۔ اس کے ساتھ ہی اک روایت کے مطابق سید امیر حسین کی عمر شہادت کے وقت صرف تئیس سال تھی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے بچے جب برصغیر میں آئے تو بہت کم عمر ہوں گے اور یہاں سید ناصر شہید نے کافی عرصہ تک ان کی پرورش کی ہو گی ۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوئے ہوں گے کہ بروالہ میں جا کر آباد ہوں سکیں ۔
ادھر ضلع ٹونک (راجھستان ) کی ایک بستی مالپورہ میں نقوی بخاری سادات کی آبادی ہے ۔ تقسیم برصغیر کے بعد اس جگہ کے کچھ سادات ؟؟؟؟؟ پاکستان آ کر کراچی میں آباد ہو گئے ہیں ۔ مگر زیادہ آبادی اب تک راجھستان میں ہی ہے ۔ سادات کے ان خاندانوں کے اکثر افراد اعلی تعلیم یافتہ روشن خیال اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔ اس بستی کے ساداست کا کہنا ہے کہ وہ سید ناصر شہید کی اولاد ہیں ۔ ان کے ایک بزرگ سید حامد علی نقوی ایم اے (علیگ ) نے سادات مالپورہ کے حالات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جو ١٩٦١ عیسوی میں کراچی سے چھپی تھی ۔ اس کتاب کا نام انہوں نے سید ناصر شہید کی نسبت میں “ تاریخ ناصری “ رکھا ہے ۔ اس کتاب میں تاریخی واقعات اکثر گڈ مڈ کر دیے گئے ہیں ۔ بہت سے واقعات تحقیق کے بغیر لکھ دیے ہیں جن کا درست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢) سید شبیر بخاری ۔ انساب سادات چونیاں ۔ لاہور ١٩٠٤ حاشیہ ص ٧٠

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٣)

ہونا ذرہ مشکوک ہے ۔ “ سنین “ اکثر غلط لکھے گئے ہیں ۔ لیکن اصل بات جس کا سادات بروالہ سے تعلق ہے وہ اس کتاب کا یہ بیان ہے کہ سید ناصر شہید کے چار فرزند اور ایک دختر فاطمہ تھی ۔ ان میں سے دو بیٹوں کی اولاد تو بروالہ میں رہی اور دو بیٹے ابراہیم اور وزیرالدین راجھستان آ کر آباد ہو گئے ۔ یہی دونوں بھائی مالپورہ سادات کے جد امجد تھے ۔ (٣) اس کتاب میں سید ناصر شہید کا شجرہ نسب بھی درج ہے ۔ (٤) جو کہ درست نہیں ہے ۔ مصنف کے بقول یہ شجرہ مالپورہ کے بزرگوں کی روایت سے ان تک پہنچا ہے ۔ مگر اس بات کا اعتراف وہ بھی کرتے ہیں کہ شجرہ کے تحفظ کا کوئی باقاعدہ نظام ان کے ہاں موجود نہیں تھا ۔ اس لیے اس میں غلطی کا واقع ہو جانا بعید نہیں ہے ۔ خود بروالہ میں بھی یہی عالم تھا ۔ سید ناصر شہید کے بعد اب تک کا شجرہ ان کے ہاں محفوظ ہے جیسا کہ بروالہ میں بھی تھا ۔ البتہ سید ناصر شہید سے اوپر امام علی نقی تک کی پیڑھیاں دونوں جگہ محفوظ نہیں رکھی گئی تھیں ۔
بروالہ کے بزرگوں کی روایت اور مالپورہ کے بزرگوں کی روایت میں سید ناصر شہید کے صاحب اولاد ہونے یا نہ ہونے کا تضاد کوئی ایسا مسلہ نہیں ہے جس کا حل تلاش نہ کیا جا سکے ۔ دونوں مقامات کے بزرگوں کی روایات اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں ۔ مسلہ غالبا ایک معمولی سی غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے ۔ یہ ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ سید امیر حسین کے کم سن بچوں کی پرورش سید ناصر شہید نے کی تھی ۔ اور جس بچہ کی پرورش انتہائی کم سنی سے کی جائے وہ بمنزلہ اولاد کے ہی ہو جاتا ہے ۔ ہو سکتا ہے سید ناصر شہید کے بھائیوں کی اولاد میں سے وہ افراد راجھستان چلے گئے ہوں ۔ اس لیے سید ناصر شہید کے فرزند مشہور ہوئے ہوں کہ انہوں نے ان کی پرورش کی تھی ۔ مزید یہ کہ سید ناصر شہید کے تینوں بھائی تو کافی دنوں پہلے ہانسی کے قلعہ پر شہید ہو چکے تھے ان کی اولاد میں سے کوئی فرد کسی دوسری جگہ جا کر اپنا تعارف کرا سکتا تھا تو وہ سید ناصر شہید کے حوالہ سے کرا سکتا تھا ۔ اس لیے ان دونوں بھائیوں کی نسبت سید ناصر شہید سے مشہور ہو گئی ہو گی ۔ اس طرح مالپورہ کے بزرگوں میں مروج روایت کو درست تسلیم کرنے کے باوجود بروالہ میں رائج اور تسلیم شدہ روایت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ صرف اتنا ہے کہ مالپورہ کے سادات کو اپنی ایک شاخ تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ اور ایسا کرنے میں غالبا کوئی حرج نہیں ہے ان کے پاس نہ صرف اپنے شجرے محفوظ ہیں بلکہ اورنگ زیب عالمگیر کی زمانہ کی لکھی ہوئی دو دستاویزات بھی موجود ہیں جو سادات خاندان پر دال ہیں ۔ بلکہ ان کے ہاں مروج یہ روایت بھی درست ہے کہ بروالہ سیدان میں چار میں سے دو بھائیوں کی اولاد آباد ہے ۔ باقی دو کے بارے کچھ وضاحت نہیں ملتی کہ ان کی اولاد تھی یا نہیں تھی ۔ اور اگر تھی تو کہاں آباد ہوئی ۔ حالانکہ اس سے ایک نسل پہلے کے بزرگوں کے بارے میں پوری وضاحت ملتی ہے کہ دو بھائیوں کے اولاد تھی اور دو کے نہیں تھی ۔ جن دو کی اولاد تھی ان کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کہاں کہاں آباد ہوئی ۔ گویا سید امیر حسین کے جن دو بیٹوں کی اولاد کا ذکر بروالہ کے شجرہ میں موجود نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے وہی راجھستان کی جانب چلے گئے ہوں اور وہاں کے شجروں میں مختلف ناموں سے مذکور ہو گئے ہوں ۔
سادات مالپورہ کے بزرگوں کا بارہ افراد پر مشتمل ایک وفد ؁١٩٤٣ میں بروالہ سیدان آیا تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ ان بھائیوں کے درمیان پھر سے تعلقات استوار ہو جائیں جو صدیوں قبل ایک دوسرے سے بچھڑ کر دور ہو گئے تھے ۔ یہ وفد کچھ دنوں بروالہ میں مقیم رہا ۔ وہاں کے سادات کے بزرگوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣) سید حامد علی نقوی ۔ تاریخ ناصری الموسوم بہ تذکرہ آل پاک ۔ کراچی ۔ طبع اول ۔ ص ١٤
(٤) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا ص ١٥
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



(١٦٤)

ملاقاتیں کیں ۔ سید ناصر شہید کے مزار پر حاضری دی اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی حاصل کی ۔ اس کے بعد بروالہ سیدان کے بزرگوں کے ایک وفد کا مالپورہ جانا طے پایا تھا ۔ اس وفد کی تشکیل اور سفر کے پروگراموں کی تفصیل طے ہوتے تاخیر ہوتی چلی گئی ۔ اور اس کی روانگی ملتوی ہوتی رہی یہاں تک کہ تقسیم ملک کے ہنگامے شروع ہو گئے اور سادات بروالہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ۔ مگر بزرگوارم سید محمد شفیع نقوی صاحب کی دلچسپی کے باعث یہاں آنے کے بعد بھی سادات مالپورہ سے رابطہ قائم رہا ۔ بروالہ میں بھی وہی خط و کتابت کے ذریعہ سے یہ رابطہ برقرار رکھے ہوئے تھے ۔ راقم کو بھی انہوں نے ان تمام حالات سے آگاھ فرمایا اور تاریخ ناصری کی ایک جلد بھی عنایت فرمائی ۔ سادات مالپورہ کے دو افراد ایئر کموڈور سید احتشام حسین نقوی اور ان کے چھوٹے بھائی سے راقم کی ملاقات بھی بورے والا میں انہی کے دولت خانہ پر ہوئی جب کہ یہ دونوں بھائی وہاں آئے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ احتشام حسین نقوی صاحب سے خط و کتابت کے ذریعہ بھی راقم کا رابطہ رہا ۔ یہ اصحاب اس کتاب میں بڑی دلچسپی کا اظہار کرتے تھے جو میں سادات بروالہ کے حالات پر مشتمل لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔
گیسو دراز
سید نعمت اللہ بخاری کے والد کا نام شجروں میں سید احمد گیسو دراز درج ہے ۔ بالکل اسی نام کے ایک بزرگ کافی عرصہ بعد برصغیر میں گزرے ہیں ۔ اس التباس کو رفع کرنے کے لیے یہاں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے ۔ برصغیر میں جو اسی نام کے بزرگ گزرے ہیں ان کے بارے میں ایک تذکرہ کا بیان ہے ۔
“ آپ پسر و مرید سید محمد کے اور عاشق نام پاک سید محمد گیسودراز کے تھے ۔ ان کی مطابعت میں آپ نے بھی گیسودراز کیے ۔ سماع کو بہت دوست رکھتے تھے ۔ ہندی اور فارسی میں شعر فرماتے تھے ۔ اور مسائل توحید و مقدمات شیخ محی الدین ابن عربی کے اوپر اعلانیہ تقریر دلپذیر فرماتے تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی تصانیف سے “ جوامع الکلم “ اور “ مشاہدات “ ہیں ۔ وفات حضرت کی ؁١٠٥٨ میں ہوئی ۔ “ (٥)
گویا یہ بزرگ سید احمد گیسودراز جن کے مرید اور بیٹے تھے ان کا نام سید محمد گیسودراز تھا ۔ ان کے بارے میں اسی تذکرہ میں لکھا ہے ۔
“ سید محمد گیسودراز بن سید محمد یوسف چشتی حسینی دہلوی عظام اولیائے ہند اور خلیفہ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کے تھے ۔ عبادت و کرامت اور ولایت میں عالیشان اور بلند رتبہ رکھتے تھے ۔ لکھا ہے آپ بمقام دہلی ؁٧٢٠ ھجری میں عہد سلاطین خلجی تولد ہوئے ۔ چونکہ آپ کے والد خلیفہ مخدوم کے تھے ۔ اول روز سے تعلیم درویشی شروع ہوئی ۔ چند روز میں علم ظاہری حاصل کیا ۔ صاحب الاخیار لکھتے ہیں کہ تاحیات پیرومرشد دہلی میں رہے اور بعد انتقال شیخ دکن تشریف لے گئے ۔ وہاں کی خلقت دور دور سے آ کر مطیع اور معتقد ہوئی اور وہیں انتقال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاح معارج الولایت ناقل ہیں کہ عمرشریف حضرت کی ایک سو پچاس برس ہوئی ۔ اور وفات حضرت کی ؁٨٣٥ ھجری میں ہوئی ۔ مزار آپ کا حیدرآباد دکن میں زیارت گاھ خاص و عام ہے ۔ “ (٦)
اس طرح پتہ چل جاتا ہے کہ “ گیسو دراز “ کہلانے والے باقی دو بزرگ برصغیر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اور بہت بعد کے زمانہ کے ہیں ۔ ان کے مزارات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٥) مرزا محمد اختر صاحب دہلوی ۔۔ تذکرہ اولیائے ہند اور پاکستان ۔ دہلی ۔ طبع ششم ص ٢٣١
(٦) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص ١٢٤ و ١٢٥
 

نایاب

لائبریرین
(١٦٥)

جنوبی ہند میں ہیں ۔ اور سادات بروالہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سادات بروالہ کے جو بزرگ “ گیسودراز “ مشہور ہیں وہ کبھی برصغیر تشریف نہیں لائے ۔
ایک قابل توجہ بات
ہانسی کا قلعہ شہاب الدین غوری نے ١١٩٢ عیسوی میں فتح کیا ۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی سادات بروالہ کے اجداد اس بستی میں آ کر آباد ہو گئے ہوں گے ۔ اس کے بعد ١٩٤٧ عیسوی میں پاکستان کی جانب ہجرت کرنے تک سادات بروالہ میں آباد رہے ۔ یہ قریبا ساڑھے سات سو سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ یہ کافی طویل زمانہ ہے ۔ مگر اس قدر طویل مدت کے دوران سادات کچھ زیادہ پھلے پھولے نہیں ۔ اور نہ کسی میدان میں آگے بڑھے ۔ اگرچہ چند انفرادی مثالیں استشنی کی ملتی ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک روایت کے مطابق مغلوں کے زمانہ میں بروالہ کے ایک سید متھرا کی گورنری کے عہدہ تک پہنچے تھے ۔ اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ سیدان بادشہ گر کے خاندان کی ایک لڑکی بہو بن کر بر والہ کے کسی سید خاندان میں آئی تھی ۔ مگر ایسی مثالیں اکادکا ہی ہیں ۔ اور ان کی تصدیق کے لیے بھی کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے ۔ بظاہر یہ سادات ہر طرح سے اپنی اس بستی میں محدود رہے ۔ اور اسی بات میں خوش رہے کہ آس پاس کے تمام علاقہ میں ان کی عزت و احترام ہے ۔ اور جس جگہ ہیں بادشاہ سے کم نہیں ہیں ۔ اسی طرح ان کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہوا ۔ اتنی صدیوں کے بعد بھی ایک بستی تک محدود تھے ۔ بروالہ کے بزرگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس صورت حال کی وجہ دادا ناصر شہید کی وہ بددعا ہے جو نافرمانی کے باعث انہوں نے بروالہ کے سادات کو دی تھی اور جس کا ذکر اس کتاب میں پہلے بھی کسی مقام پر ہو چکا ہے ۔
نقوی لکھنے کی ابتدا
سادات بروالہ کے افراد ہمیشہ ہی خود کو بخاری لکھتے چلے آئے تھے ۔ چنانچہ محکمہ مال کے کاغذات میں بھی ہر جگہ ان کی ذات کے خانہ میں “ سید بخاری “ لکھا ہوا تھا ۔ ان کاغذات میں اب تک بھی یہی صورت ہے ۔ “ بخاری “ کے بجائے “نقوی “ کی نسبت اختیار کرنے کی ابتدا سید جمیل حسین نقوی مرحوم نے کی ۔ وہ اولین فرد ہیں جو سادات بروالہ کے پورے قصبے میں سے کالج کی تعلیم تک پہنچے ۔ وہی اس قصبہ کے سب سے پہلے گریجوایٹ تھے ۔ ورنہ ان سے قبل اس قصبہ میں اعلی تعلیم کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ۔ وہ کالج میں پہنچے اور وہاں انہوں نے دیکھا کہ اکثر و بیشتر طلبا اپنے ناموں کے ساتھ خاندانی نسبت کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں ۔ انہوں نے بھی اس کی ضرورت محسوس کی “ بخاری “ کا لفظ اگرچہ موجود تھا ۔ مگر انہوں نے علاقائی نسبت پر خاندانی نسبت کو ترجیح دی اور اپنے نام کے ساتھ نقوی لکھنے کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد ہی سادات بروالہ کے افراد نے اس نسبت کو اپنے نام کا حصہ بنایا ہے ۔ راقم کو بعد میں اسی کتاب کے لیے تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ سادات بروالہ کے ایک بزرگ سید بندہ علی گذشتہ صدی کے آخر میں ریاست پٹیالہ میں جا کر ملازم ہو گئے تھے ۔ وہ صاحب تصنیف بزرگ تھے ۔ آگے چل کر ان کا تذکرہ کتاب میں شامل ہے ۔ انہوں نے بھی اپنی تصانیف میں خود کو نقوی بخاری لکھا ہے ۔ مگر وہ شائد مستقل طور پر پٹیالہ میں ہی رہے ۔ ان کے گھرانے کے کسی فرد کو علم نہیں کہ انہوں نے کوئی کتاب بھی لکھی تھی ۔ اس لیے ان کا خود کو نقوی لکھنا ان کی ذات تک ہی محدود رہا ۔ سید جمیل حسین نقوی نے اس کی ابتدا کی تو تمام قصبہ میں اس کی پیروی کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٦)

سادات بروالہ کے جد امجد
برصغیر میں آمد
شہاب الدین غوری جب ١١٩٢ عیسوی مطابق ٥٨٨ ہجری میں دوسری بار ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ اس عزم کے ساتھ آیا تھا کہ اپنی گذشتہ سال کی شکست کا پوری طرح بدلہ لے گا ۔ یہاں ہندوستان کے راجہ بھی اس کے خطرے سے غافل نہ تھے ۔ اور پرتھوی راج نے ہندوستان کے سینکڑوں راجوں کو مسلمانوں کے خلاف مقابلہ کے لیے متحد کر لیا تھا ۔ مگر اس دفعہ ہندو راجوں کی متحدہ فوج اور پرتھوی راج کی تمام تیاریاں شہاب الدین غوری کا راستہ نہ روک سکیں اور ترائن کے میدان میں ہندو لشکر کو شکست فاش ہوئی ۔ پرتھوی راج سمیت اکثر ہندو راجہ قتل ہوئے اور غوری کے لیے دہلی تک پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا ۔ مگر دہلی جانے سے قبل ان قلعوں کا فتح کرنا ضروری تھا ۔ جو راستہ میں واقع تھے ۔ اور ان میں سب سے مضبوط ہانسی کا قلعہ تھا ۔
شہاب الدین غوری کے لشکر میں سادات خاندانوں کے بہت سے افراد شامل تھے ۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی کے اجداد بھی اسی لشکر کے ساتھ ہندوستان پہنچے تھے ۔ ان کے بارے میں پروفیسر ابراہیم خلیل اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں “ ان کا (سید سلیمان ندوی ) خاندان شہاب الدین غوری کے ساتھ ہندوستان آیا “ (١)
سادات خاندانوں کے انہی افراد میں وہ چار بھائی بھی شامل تھے جو سادات بروالہ کے جدامجد ہیں ۔ ان چار بھائیوں کے نام یہ ہیں ۔
١۔ سید نعمت اللہ
٢ ۔ سید ناصر الدین شہید
٣ ۔ سید امیر حسین
٤ ۔ سید کریم اللہ
ان میں سے سید ناصر الدین شہید کے علاوہ تینوں بھائیوں کے مزارات ہانسی کے قلعہ میں واقع تھے اور تقسیم برصغیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) پروفیسر ابراہیم خلیل ۔ مضمون ۔ سید سلیمان ندوی ۔ ماہنامہ معارف لاہور جولائی ١٩٨٣عیسوی ص ٣


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(١٦٧)

تک ان کے تعویذ موجود تھے ۔ سید نعمت اللہ کا مزار قلعہ کے اندر شمالی دیوار سے متصل تھا ۔ سید امیر حسین کا مزار قلعہ کی خندق کے قریب تھا ۔ اور سید کریم اللہ کا مزار قلعہ کے اندر حوض اور غلہ کے گودام کی دیوار کے متصل سید نعمت اللہ کے مزار کے پائینتی واقع تھا ۔ یہ تینوں مزار عین اسی جگہ بنائے گئے تھے جہاں یہ بزرگ لڑائی کے دوران شہید ہو کر گرے تھے ۔ البتہ سید ناصر الدین شہید کا مزار بروالہ سیدان کے نواح میں واقع تھا ۔ اس کا ذکر اس کتاب کے پہلے حصہ میں بروالہ کے اہم مقامات کے سلسلہ میں ہو چکا ہے ۔
ان چاروں بھائیوں کے متعلق تاریخی شواہد موجود ہیں کہ شہاب الدین غوری کے لشکر کے ساتھ ہانسی پہنچے اور اس قلعہ کو فتح کرنے کے لیے برپا ہونے والی جنگ میں بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات سپاہی پیشہ تھے ۔ مگر ان کا مرتبہ اس سے کچھ بلند بھی تھا ۔ جس کی شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ ان کی شہادت کے مقامات کو محفوظ رکھا گیا ۔ انہی مقامات پر ان کے مزار بنائے گئے اور ان مزارات کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا ۔ خاص طور سے سید نعمت اللہ کے مزار کا احاطہ اورساتھ مسجد کی تعمیر سے ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اور ثابت ہوتا ہے کہ غوری کے لشکر میں ان سید زادوں کو محض سپاہی یا لشکری سے بڑھ کر مقام دیا جاتا تھا ۔ اور ان کی عزت و احترام اس حد تک تھا کہ اسے ان کی شہادت کے بعد بھی باقی رکھا گیا ۔ اس عزت و احترام کی ایک وجہ وہ کردار بھی بنا ہو گا جو اس مشکل اور مضبوط قلعہ کو فتح کرنے کے سلسلہ میں ان بھائیوں نے ادا کیا تھا ۔
غیر مصدقہ روایات
اس سلسلہ میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ شہاب الدین غوری جب ہانسی پہنچا اور یہاں کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا تو اسے انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ڈیڑھ صدی قبل سلطان محمود غزنوی کو پیش آئییں تھیں ۔ بلکہ اب تو یہ قلعہ اور بھی زیادہ مستحکم اور مضبوط بنایا جا چکا تھا ۔ پرتھوی راج نے اس کی وسعت ، تعمیر نو اور ناقابل تسخیر بنانے پر خصوصی توجہ دی تھی ۔ چنانچہ غوری کی تمام تر کوششوں کے باوجود قلعہ فتح ہونے میں نہیں آتا تھا ۔ وہ اسی فکر میں غلطاں تھا کہ کسی ذریعہ سے اسے پتہ چلا کہ اس کے لشکر میں سپاہی کے بھیس میں ایک بزرگ موجود ہیں ان کی مدد اور دعا سے قلعہ فتح ہو سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہی روایت بیان کی جاتی ہے جو کئی اور جگہ بھی بیان کی گئی ہے کہ غوری قلعہ کی فتح کے بارے میں انتہائی فکرمندی کے عالم میں اللہ تعالی سے دعا کر رہا تھا ۔ اسی حالت میں اسے غنودگی ہوئی اور اسے بتایا گیا کہ شام کے وقت شدید آندھی آئے گی ۔ اس آندھی کے باعث لشکر کے تمام خیموں کے چراغ بجھ جائیں گے ۔ صرف اک خیمہ میں چراغ روشن رہے گا ۔ اس خیمہ میں جو سپاہی موجود ہو گا اس سے استمداد کی جائے تو قلعہ فتح ہو جائے گا ۔
شہاب الدین غوری کو قلعہ کے فتح ہونے کی بشارت ملی تو وہ خوش ہو گیا ، اس کے دل کا بوجھ گویا دور ہو گیا اور وہ اطمینان کے ساتھ شام کا انتظار کرنے لگا ۔ شام کو مغرب کے بعد ایک دم شدید آندھی آ گئی ۔ تمام فوج نے اپنے اپنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٦٨)

خیموں میں پناہ لے لی ۔ اندھیرا چھا گیا ۔ کسی جانب روشنی باقی نہیں رہ سکی ۔ مگر شہاب الدین غوری اسی عالم میں لشکر کے پڑاؤ میں چکر لگاتا پھر رہا تھا ۔ اور اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر نظر دوڑاتا تھا ۔ آخر دور سے اسے ایک خیمے میں روشنی کی جھلک نظر آئی ۔ وہ لپکتا ہوا خیمے کے دروازے پر پہنچا تو اندر ایک لشکری کو چراغ کی روشنی میں اطمینان سے تلاوت میں مشغول پایا ۔ غوری خیمہ کے اندر داخل ہوا اور تعظیم بجا لا کر مدد کا طالب ہوا ۔ یہ لشکری سید نعمت اللہ تھے ۔ انہوں نے قلعہ کی فتح کے لیے دعا بھی فرمائی اور دوسرے دن تینوں بھائیوں کو ساتھ لے کے قلعہ پر حملہ کرنے میں فوج کی رہنمائی بھی کی اور اسی حملہ میں قلعہ فتح ہو گیا ۔
اس روایت میں کچھ غیر حقیقی عناصر بھی شامل ہو گئے ہوں گے ۔ لیکن اس بات میں کسی شک کی گنجائیش نہیں ہے کہ اس قلعہ کی فتح میں ان بھائیوں نے بہت بہادرانہ اور نمایاں کردار ادا کیا تھا ۔ اسی لیے انہیں اتنی اہمیت حاصل ہوئی کہ ان کی شہادت کے مقامات پر ہی ان کے مزارات تعمیر کیے گئے اور بعد میں ان مزارات کی حفاظت بھی کی جاتی رہی ۔
مذکورہ بالا روایت کے واقعات تو ممکن الوقوع ہیں اور اس کا اکثر حصہ قابل یقین ہے ۔ مگر اسی سلسلہ میں ایک بالکل ناقابل یقین روایت بھی بیان کی جاتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب ہانسی کے قلعہ پر آخری اور فیصلہ کن حملہ کیا گیا تو یہ چاروں بھائی فوج کی رہنمائی کرتے ہوئے اس قدر بے جگری سے لڑے کہ یکے بعد دیگرے سب نے وہیں شہادت کا درجہ حاصل کر لیا ۔ مگر ہوا یوں کہ سید ناصر الدین شہید کے علاوہ تینوں بھائی تو شہید ہو کر اپنے گھوڑوں سے جہاں گرے وہیں ان کے مزار بنائے گئے ۔ البتہ سید ناصر الدین شہید گردن کٹ جانے کے باوجود گھوڑے پر سوار رہے اور ان کا گھوڑا انہیں بروالہ کی جانب لے آیا ۔ بروالہ کے نواح میں آ کر جہاں آپ گھوڑے سے گرے وہیں آپ کا مزار بنایا گیا ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ ان بزرگوں کی اولاد کو ہانسی کے بجائے بروالہ میں رہائیش اختیار کرنی چاہیئے ۔
اسی سلسلہ میں ایک اور روایت بیان کی جاتی ہے کہ ان چاروں بھائیوں کے ساتھ ان کے سات بھانجے بھی غوری فوج میں شامل تھے ۔ وہ ہانسی کی فتح کے بعد اسی علاقہ کے مختلف مقامات پر آباد ہو گئے تھے ۔ ان کے ناموں یا کارناموں کا تو پتہ نہیں چلتا ۔ البتہ ان میں سے پانچ کے مزارات کی نشان دہی کی جاتی تھی اور ہر جگہ اسے سید نعمت اللہ کے بھانجے کا مزار یا سید ناصر الدین شہید کے بھانجے کا مزار کہا جاتا تھا ۔ ان میں سے ایک مزار تو ہانسی کے قلعہ میں ہی تھا ۔ یہ مزار شمالا جنوبا کی بجائے شرقا غربا بنا ہوا تھا ۔ اس کے بارے مشہور تھا کہ وفات کے بعد انہیں ایسی جگہ دفن کر دیا گیا تھا کہ ان کے پاؤں سید نعمت اللہ کی تربت کی جانب ہوتے تھے ۔ یہ بات چونکہ خلاف ادب تھی اس لیے ان کی قبر شمالا جنوبا کے بجائے خود بخود رخ تبدیل کر کے شرقا غربا ہو گئی ۔ تاکہ ماموں کی تربت کی جانب پاؤں نہ ہو ں ۔ بعد میں یہ قبر اسی حالت میں برقرار رہی اور تقسیم برصغیر تک اسی حالت میں تھی ۔ دوسرے بھانجے کا مزار سید ناصر الدین شہید کے مزار کے احاطے کے قریب واقع تھا ۔ تیسرے بھانجے کا مزار بروالہ کے ایک نواحی موضع ڈھیری میں تھا ۔ چوتھا مزار موضع ڈھاڈ میں تھا ۔ جو بروالہ سے پانچ کوس کے فاصلہ پر تھا ۔ پانچواں مزار کافی فاصلہ پر جنید شہر میں بنا ہوا تھا ۔ باقی دو مزارات کا علم نہ ہو سکا ۔ اس روایت پر یقین نہ کرنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(١٦٩)

کی البتہ کوئی وجہ نہیں ہے ۔ یہ مزارات صدیوں سے ان مقامات پر موجود تھے اور اسی حیثیت سے معروف رہے تھے ۔
بروالہ میں آمد
سید ناصر الدین شہید کے بارے میں جو روایت ہے کہ ہانسی کے قلعہ پر حملہ کے دوران اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ آپ بھی شہید ہو گئے تھے ، وہ اس طرح غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ بعد میں بروالہ میں سادات کا آباد ہونا آپ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہوا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہانسی کے قلعہ کی فتح کے دوران سید نعمت اللہ اور ان کے وہ دونوں بھائی شہید ہوئے تھے جن کے مزارات ہانسی کے قلعہ پر موجود تھے ۔ سید ناصر الدین شہید کے متعلق دو روایات ہیں ۔ ایک تو یہ ہے کہ ہانسی کے معرکہ کے بعد وہ خود اپنے شہید بھائیوں کی اولاد اور دیگر عزیزوں کو ساتھ لے کر بروالہ چلے گئے تھے اور وہاں آباد ہو ئے ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ہاسنسی پر حملہ کے وقت وہ وہاں موجود ہی نہیں تھے اور غوری کی فوج کے ساتھ ہی نہیں آئے تھے بلکہ کسی وجہ سے غزنی میں رک گئے تھے ۔ ہانسی کے فتح ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد وہ یہاں آئے تو ہانسی میں شہید ہو جانے والے ان کے بھائیوں کی اولاد بھی ان کے ساتھ تھی ۔ یہاں آ کر کسی غیبی اشارے کے تحت انہوں نے ہانسی کے بجائے بروالہ کے نواح کو اپنا مسکن بنایا اور ان کے بھتیجے بروالہ میں آباد ہوئے ۔ تاریخ مخزن پنجاب میں بروالہ کے بیان میں لکھا ہے ۔
“ سلطان شہاب الدین غوری کے عہد میں سید نعمت اللہ ولی اور امیر حسین دونوں بھائی لشکر کے ساتھ آئے ۔ نعمت اللہ تو لڑائی میں شہید ہوئے اور ہانسی کے قلعہ میں دفنائے گئے اور امیر حسین کی اولاد وہاں سے بروالہ میں آ کر بسے ۔ رفتہ رفتہ وہی اس گاؤں کے مالک ہو گئے ۔ “ (٢)
بروالہ کے بزرگ بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سادات بروالہ سید امیر حسین کی اولاد سے ہیں اور سید ناصر الدین شہید کے کوئی اولاد نہیں تھی ۔ بلکہ بروالہ کے بزرگ تو صدیوں سے یہ بتاتے رہے ہیں کہ سید ناصر الدین شہید عمر بھر غیر شادی شدہ رہے تھے ۔ سراج النسب میں البتہ بروالہ کے سادات کو ان کی اولاد بتایا گیا ہے ۔ اس کا بیان ہے ۔
“ ناصر شہید حضرعت قطب اول جمال الدین ہانسوی کے حقیقی ماموں تھے ۔ بروالہ ایک قصبہ سادات عظام کا ہانسی کے قریب آباد ہے ۔ تین میل کے فاصلہ پر ناصر شہید کا مزار ہے ۔ کل قصبہ آپ کی اولاد سے ہے ۔ “
اس سلسلہ میں یہ تاویل کی جا سکتی ہے کہ آپ کے ساتھ آنے والے آپ کے شہید بھائیوں کی اولاد تھے اور وہ بمنزلہ آپ کی اولاد کے ہی تھے ۔ اس لیے بعد میں وہ آپ کی اولاد کے طور پر ہی معروف ہو گئے ۔ سید ناصر الدین شہید کے صاحب اولاد ہونے کے ثبوت میں سراج النسب کا یہ بیان بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب نوکلشور لکھنؤ ١٨٧٧ عیسوی ص ٦٣
(٣) محمد سراج الحق ۔ سراج النسب قادیاں ١٣١٤ ہجری ص ٢١ بحوالہ تاریخ مشائخ چشت
 

نایاب

لائبریرین
(١٧٠)

“ آپ کی بیٹی کی شادی قطب اول کے فرزند قطب دوم حضرت برہان الدین صوفی سے ہوئی ۔ جو ٦٥٩ ہجری میں پیدا ہوئے تھے “
یہ بیان اس لیے محل نظر ہے کہ ہانسی کے قلعہ کے فتح ہونے کے سال ٦٨٨ ہجری اور حضرت برہان الدین صوفی کی پیدائیش کے سال ٦٥٩ ہجری میں بہتر سال کا فاصلہ ہے ۔ اس لیے یہ شادی کی روایت درست ثابت نہیں ہوتی ۔ حقیقت دراصل وہی ہے جس کی روایت بروالہ میں نسل در نسل کرتے آئے ہیں کہ سید ناصر الدین شہید اپنے شہید ہو جانے والے بھائیوں کی اولاد کو لے کر یہاں پہنچے تھے ۔ سید ناصر الدین شہید نے تو بروالہ کی آبادی سے کافی فاصلہ پر وہاں قیام فرمایا جہاں اب ان کا مزار واقع ہے ۔ آپ کے ساتھ آنے والے دیگر افراد بروالہ کی بستی میں جا کر آباد ہو گئے ۔
اس سلسلہ میں بروالہ کے بزرگوں نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ سید ناصر الدین شہید کی خواہش یہ تھی کہ سادات کے افراد بروالہ کی بستی میں داخل نہ ہوں اور اسی جگہ آباد ہو جائیں جہاں انہوں نے قیام فرمایا تھا ۔ مگر سادات کے افراد ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بروالہ کی بستی میں چلے گئے ۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ آنے والے افراد آپ کی اولاد میں سے نہیں تھے ۔ اگر وہ آپ کی حقیقی اولاد ہوتے تو آپ کے حکم کی اس طرح خلاف ورزی نہ کرتے ۔ اس طرح وہی بات حقیقت کے قریب معلوم ہوتی ہے جو بروالہ میں نسل در نسل روایت ہوتی چلی آئی ہے ۔
ایک اور روایت
بروالہ سیدان کے بزرگوں میں ایک اور روایت مشہور چلی آئی ہے کہ سادات کے بروالہ میں آنے سے قبل اس قصبہ میں جو قوم آباد تھی وہ “ شیخ سالار “ کہلاتی تھی ۔ سادات نے اس قوم کے افراد کو قتل کر کے اس آبادی پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں آباد ہو گئے تھے ۔ تاریخ مخزن پنجاب نے بھی اس بیان کی تائید کی ہے ۔ بروالہ کا ذکر کرتے لکھا ہے ۔
“ مگر انقلاب کی عملداریوں کے باعث سے کئی دفعہ یہ ویران ہو گیا ۔ اور قوم شیخ سالار یہاں کے مالک ہوا کرتے تھے “ (٥)
اس بارے میں مزید کسی تفصیل کا پتہ نہیں چلتا کہ یہ کیسی قوم تھی اور اسے شیخ سالار کیوں کہا جاتا تھا ۔ اس قوم کے نام سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمان قوم تھی ۔ لیکن ان دنوں میں یہاں مسلمانوں کی آبادی کا ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔ شہاب الدین غوری کے حملہ سے کوئی ڈیڑھ صدی قبل سلطان مسعود غزنوی نے ہانسی کا قلعہ ایک مرتبہ فتح کر لیا تھا ۔ مگر چند سال بعد ہی یہ قلعہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا ۔ اس کے ڈیڑھ صدی بعد شہاب الدین غوری نے اسے فتح کیا اور اس قدر طویل عرصہ تک کسی مسلمان بستی کا اس علاقہ میں باقی رہنا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ اس لیے یقینا یہ مسلمان قوم نہیں ہو گی جسے “ شیخ سالار “ کہا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤) محمد سراج الحق ۔ سراج النسب قادیاں ١٣١٤ ہجری ص ٢١ بحوالہ تاریخ مشائخ چشت
(٥) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب نوکلشور لکھنؤ ١٨٧٧ عیسوی ص ٦٣

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

(١٧١)

البتہ اس روایت سے یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ سید ناصر الدین شہید سادات کے افراد کو بروالہ کی بستی سے باہر آباد کرنے کے کیوں خواہاں تھے اور بستی کے اندر جانے کی اجازت کیوں نہیں دیتے تھے ۔ دراصل انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں قتل اور خون ریزی کا اندیشہ ہے ۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ سادات وہاں ان کی قیام گاہ کے آس پاس ہی آباد ہو جائیں مگر وہاں آباد ہونے کے لیے سادات کو نئی آبادی تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آتی جو ذرا محنت طلب کام تھا ۔ چنانچہ انہوں نے آسان راستہ اختیار کیا اور بنی بنائی بستی پر قبضہ کر لیا ۔ اور وہاں آباد ہو گئے ۔
بروالہ کے سادات کو اپنی جہالت ، پسماندگی ، اکھڑ پن اور کم نصیبی کا ہمیشہ احساس رہا ہے ۔ اس صورت حال کے اسباب کے طور پر کئی روایات بیان کی جاتی رہی ہیں ۔ ان میں سب سے پہلی روایت یہی ہے کہ انہوں نے سید ناصر الدین شہید کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی ۔ اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ سادات ان کے منع کرنے کے باوجود بروالہ کی بستی میں چلے گئے تو ان کی خدمت میں صرف قائم خان رہ گیا ۔ جو آخر وقت تک ان کی دیکھ بھال اور خدمت میں مصروف رہا ۔ یہاں تک کہ آخری وقت میں اپنا عصا ، پیالہ اور کھڑاؤں بھی انہوں نے قائم خان کو ہی عطا فرمائے ۔ اس طرح سادات کو ان کی ناخوشی اور ناراضی کے نقصانات کا نشانہ بننا پڑا اور قائم خان کو ان کی خوشنودی اور دعاؤں کی برکت سے اتنا پھلنا پھولنا نصیب ہوا کہ آج برصغیر کے ایک سرے سے دوسرے تک اس کی نسل موجود ہے جو اس کے نام کی نسبت سے قائم خانی راجپوت کہلاتے ہیں ۔ یہ بھی حضرت کی دعاؤں کی برکت ہے کہ قائم خانی جہاں بھی ہیں اور جس شعبہ زندگی میں بھی ہیں اکثر و بیشتر خوشحال اور آسودگی کی زندگی گزار تے ہیں ۔
قائم خان
یہ ایک بااثر ہندو راجپوت تھا ۔ اس کا اصل نام ایک روایت کے مطابق کرم سنگھ تھا ۔ بعد میں یہ مسلمان ہو گیا اور سید ناصر الدین شہید کے خادم خاص ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے وہ حضرت کے آخری وقت میں بھی ان کے پاس موجود تھا اور ان کے خاص تبرکات اور خصوصی دعاؤں سے بہرہ یاب ہوا ۔ اس کے مسلمان ہونے کی دو روایات ہیں ۔ پہلی روایت تو یہ ہے کہ وہ سید ناصر الدین شہید کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا ۔ حضرت نے اس کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور اس غرض سے وہ کافی عرصہ ان کی خدمت میں رہتا رہا ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اسے قطب اول حضرت جمال الدین ہانسوی نے مسلمان کیا تھا ۔ چنانچہ سراج النسب میں لکھا ہے ۔
“ بہادر قوم قائم خانی کے مورث اعلی قائم خان کو حضرت جمال الدین ہانسوی نے مسلمان کیا تھا ۔ اور اپنے حقیقی ماموں ناصر الدین بروالوی کی خدمت میں تعلیم و تلقین کے لیے سپرد کر دیا تھا ۔ ہانسی میں قطب جمال الدین کی خانقاہ کے قریب شمال کی طرف قائم خان کا پختہ گنبد اب تک موجود ہے ۔ اور گنبد کے قریب ایک تالاب قائم سر کے نام سے مشہور ہے ۔ (٦)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٦) محمد سراج الحق ۔ سراج النسب قادیاں ١٣١٤ ہجری ص ٦٧ بحوالہ تاریخ مشائخ چشت


،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

(١٧٢)

ان دونوں میں سے قائم خانی بزرگوں کے ہاں اول الذکر روایت کو ہی درست تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس لیے وہ اب تک حضرت سید ناصر الدین کے احسان کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اور بر والہ کے سیدوں سے بڑے احترام اور ادب سے پیش آتے ہیں ۔
ایک مشہور روایت
سادات کا نسب سید جلال الدین سرخ بخاری کی اولاد سے چلا ہے اور برصغیر میں جس قدر بھی نقوی بخاری سادات ہیں اس کے جدامجد سید جلال الدین سرخ بخاری ہیں ۔ اور ان سے قبل اس خانوادے کا کوئی فرد برصغیر میں نہیں پہنچا تھا ۔ یہ روایت شائد اس لیے مشہور ہو گئی تھی کہ اس خانوادے کے سب سے بلند مرتبت بزرگ جو بخارا سے برصغیر میں وارد ہوئے آپ ہی تھے ۔ ورنہ آپ سے قبل بھی نقوی بخاری سادات کے کچھ بزرگ برصغیر میں پہنچ کر یہاں آباد ہو چکے تھے ۔ اس کی سب سے نمایاں اور واضع مثال سید بدرالدین بھکری ہیں جو سید جلال الدین کے عم زادگان میں سے تھے اور ان سے کافی عرصہ قبل برصغیر میں آکر آباد ہو چکے تھے ۔ اس سلسلہ میں تحفتہ الکرام کا بیان ہے ۔
“ سید جلال بخاری جنہیں سید جلال سرخ بخاری کا لقب حاصل ہے ، وہ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مرید اور یار ہیں ۔ یہ بزرگ آپس میں چار یار کہلاتے ہیں ۔ شیخ بہاؤ الدین ، شیخ فرید الدین ، شیخ عثمان مروندی ، اور سید جلال سرخ بخاری ۔ سید جلال ایک کامل ولی ہیں ۔ ایک بار وہ اپنے دو فرزندوں سید علی اور سید جعفر کے ساتھ ملتان سے بھکر آئے ہوئے تھے جہاں آنحضرت سلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے سید بدر الدین کی ( جن کا ذکر آگے آئے گا ) دو بیٹیوں سے یکے بعد دیگرے شادی کا حکم دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سید بدرالدین کو بھی خواب میں ایسا ہی ارشاد ہوا ۔ چنانچہ سید جلال الدین نے اس قرابت کا شرف حاصل کیا ۔ پھر کچھ عرصہ بعد بھائیوں کے تنازغہ اور حسد سے مجبور ہو کر وہ اچ چلے آئے ۔ جہاں ان کے دو فرزند تولد ہوئے ۔ سید علی ، سید جعفر ، سید محمد غوث ، سید احمد کبیر ۔ (٧)
اس اقتباس میں کچھ تاریخی غلطیاں موجود ہیں ۔ مثلا ایک تو یہ کہ حضرت جلال الدین سرخ بخاری ملتان پہنچنے کے بعد پھر بھکر گئے تھے ۔ دوسری یہ کہ سید بدر الدین بھکری کی دو بیٹیوں سے یکے بعد دیگرے شادی کی تھی ۔ لیکن اصل واقعہ کی شہادت اس اقتباس سے مل جاتی ہے کہ سید بدر الدین بھکری ان سے قبل برصغیر میں آ کر رہائش اختیار کر چکے تھے ۔ اس سلسلہ میں درج ذیل اقتباس زیادہ قرین حقیقت اور واضع ہے ۔ سید جلال الدین سرخ بخاری کے بارے میں بیان ہوا ہے ۔
“ آپ حضرت امام نقی رضی اللہ عنہ کی ساتویں پشت کے بزرگ ہیں جو سب سے پہلے بخارا سے بھکر ( سندھ ) بعہد سلطان شمس الدین التمش ( ٦٠٧ ہجری ١٢١٠ عیسوی ۔۔ تا ۔۔ ٦٣٣ ہجری ١٢٣٦ عیسوی ) تشریف لائے ۔ اور یہاں آپ نے اپنے بنی اعمام سید بدر الدین بھکری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٧) میر علی شیر قانع ٹھٹوی ۔ تحفتہ الکرام ۔ ترجمہ اختر رضوی ۔ سندھی ادبی بورڈ کراچی ۔ بار اول ١٩٥٩ عیسوی ص ٣٦٧

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٧٢)

( متوفی ٦٨٠ ہجری ) ابن سید محمد مکی کی صاحبزادی بیبی فاطمہ سے شادی کی ۔ جن کے والد ماجد حضرت سید اسماعیل ابن ابی الحسن علی الاشقر کی اولاد میں سے تھے ۔ اور یہ بھی حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ( ٥٧٨ ہجری تا ٦٦٦ ہجری ) کے مرید تھے ۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت جلال اعظم عالم شباب میں ہندوستان وارد ہوئے ۔ تقریبا پچاس ساٹھ سال تک ہندوستان میں رشد و ہدایت کا بازار گرم رکھا ۔ آپ کے لاکھوں مرید تھے ۔ “ (٨)
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ سید جلال سرخ بخاری جب برصغیر میں وارد ہوئے تو سب سے پہلے بھکر پہنچے جہاں ان کے بنی اعمام سے سید بدر الدین پہلے سے رہائیش پذیر تھے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس خاندان کے کچھ بزرگ کافی دنوں پہلے یہاں آ کر آباد ہو چکے تھے اور سید جلال سرخ بخاری یہاں پہنچے تو اپنے عم زادگان سے ملاقات کے لیے ہی بھکر گئے تھے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہاں جانے کے بعد قرابت داری کا سلسلہ بھی پیدا ہو گیا ۔
ایک شبہ کا ازالہ
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سید بدر الدین بھکری اگرچہ سید جلال سرخ بخاری کے بنی اعمام میں سے تھے ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کے اجداد بخارا سے ہی برصغیر میں وارد ہوئے ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سید جلال سرخ بخاری کے اعمام میں سے کوئی بزرگ بخارا کے بجائے کسی اور مقام سے برصغیر آ گیا ہو اور سید بدر الدین ان کی اولاد میں سے ہوں ۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے “ جواہر الاولیا “ سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ یہ کتاب سید جلال الدین سرخ بخاری کے اخلاف میں سے ایک برگزیدہ شخص کی تصنیف ہے اور مستند مانی جاتی ہے ۔ اس میں سید بدر الدین بھکری کا پورا شجرہ نسب دیا ہوا ہے ۔ اس شجرہ کے دوران جہاں سید جعفر ثانی کا نام آ یا ہے ۔ وہاں تحریر ہے “ داو شنید از پدر خود سید جعفر ثانی کہ جد ساداتاں بخاریان و بھکریان است “ (٩) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھکر کے سادات کے بزرگ بھی بخارا سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔
بخارا کی اہمیت
حقیقت یہ ہے کہ بخارا سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کی غرض سے سادات خاندان کے بزرگ بہت عرصہ قبل برصغیر میں آنے شروع ہو گئے تھے ۔ چنانچہ سید اسماعیل بخاری تو حضرت داتا گنج بخش سے بھی قبل یہاں وارد ہونے والے بزرگوں میں سے ہیں ۔ وہ بڑے بلند مرتبت بزرگ تھے اور اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ کے سلسہ میں انہیں بڑا اہم مقام حاصل ہے ۔ ان کا سن وفات ٤٨٠ ہجری ہے ۔ اور ان کا مزار ہال روڈ لاہور پر واقع ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ پہلے اموی خاندان اور اس کے بعد عباسی خاندان کی حکمرانی کے دور میں سادات بنی فاطمہ پر جو ابتلا برابر مسلط رہی اس کا سلسلہ کئی صدیوں پر محیط ہے ۔ اس صورت حال کے باعث اس سادات کے بہت سے بزرگ ایسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٨) محمد سخاوت مرزا ۔ تذکرہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ۔ حیدرآباد دکن ۔ ١٩٦٣ عیسوی ص ٢٢
(٩) سید باقر بن سید عثمان بخاری ۔ جواہر الاولیا ۔ اسلام آباد ۔ ١٩٧٦ عیسوی ص ٣٢٣

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٧٤)
مقامات پر منتقل ہو گئے جو حکومت کے مراکز سے بہت دور تھے اور جہاں حکمرانوں کی نگاہ سے اوجھل رہا جا سکتا تھا ۔ عباسی دور میں سمرقند اور بخارا کا علاقہ غالبا اسلامی دنیا کا بعید ترین علاقہ تھا ۔ چنانچہ سادات کے بزرگوں نے اسی علاقہ کو اپنا مسکن بنا لیا ۔
خاص طور پر بخارا کو انہوں نے دینی ، علمی اور روحانی مرکز کی شکل دیدی تھی ۔ بعد میں اسی مرکز کے دینی اور روحانی فیضان نے اسلامی دنیا کے دوردراز گوشوں کو منور کیا ۔ خصوصا بر صغیر میں سادات عظام کے جو بزرگ وارد ہوئے وہ اکثر و بیشتر بخارا کے علمی و دینی مرکز سے تعلق رکھتے تھے ۔ مثا؛ل کے طور پر بھکری سادات ، اچ کے سادات ، سید سلیمان ندوی کے اجداد کے بارے میں بیان ہو چکا ہے کہ بخارا سے برصغیر پہنچے تھے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے جد امجد خواجہ علی بھی بخارا سے آ کر ہی بدایوں میں وطن پذیر ہو گئے تھے ۔ (١٠)
اس طرح بروالہ کے سادات کے جد امجد کا تعلق بھی بخارا سے تھا ۔ برصغیر میں ان کی آمد کا حال گذشتہ اوراق میں بیان ہو چکا ہے ۔ تاریخی حقائق سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سادات بروالہ کے اجداد کی برصغیر میں آمد سید جلال الدین سرخ بخاری کی آمد سے پچاس سال قبل کی ہے ۔ اس طرح یہ روایت درست ثابت نہیں ہوتی کہ نقوی ، بخاری ، سادات میں سے برصغیر تشریف لانے والے پہلے بزرگ سید جلال بخاری ہیں ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس خانوادے کے اولین بلند پایہ بزرگ اور قد آور شخصیت وہی ہیں جو برصغیر میں تشریف لائے ۔ بعد میں ان کی نسل میں اللہ تعالی نے اس قدر برکت دی کہ برصغیر کے گوشے گوشے میں اس نسل کے افراد پہنچے اور ان میں سے ان گنت افراد کو روحانی بزرگی کا درجہ حاصل ہوا ۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠) محمد سخاوت مرزا ۔ تذکرہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ۔ حیدرآباد دکن ۔ ١٩٦٣ عیسوی ص ٢١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
(١٧٥)

سید نعمت اللہ بخاری ہانسوی
سادات بروالہ کے جو اجداد شہاب الدین غوری کے لشکر کے ساتھ برصغیر پہنچے اور جنہوں نے ہانسی کے مضبوط اور ناقابل تسخیر قلعہ کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ ان میں سب سے بلند مرتبت سید نعمت اللہ ہیں ۔ یہ اپنے دوسرے بھائیوں سمیت اس لشکر میں موجود تھے ۔ اور قلعہ کی فتح کے دوران بہادرانہ لڑتے ہوئے انہوں نے اپنے دو بھائیوں سمیت جام شہادت نوش کیا ۔ اس سلسلہ میں جو روایت مشہور ہے اور جس کا گذشتہ اوراق میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ قلعہ فتح نہ ہو سکنے کے باعث شہاب الدین غوری انتہائی فکرمند تھا تو اسے بشارت ہوئی اور اس نے ان بزرگ کو تلاش کیا جن کے خیمے کا چراغ شدید آندھی میں بھی روشن تھا ۔ اور یہ بزرگ سید نعمت اللہ تھے جن کی مدد سے قلعہ فتح ہو گیا ۔ اگر اس روایت کو جوں کا توں تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات مسلمہ ہے کہ اس قلعہ کو فتح کرنے کے سلسلہ میں انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ آپ کے اور آپ کے دونوں بھائیوں کے مزارات انہی مقامات پر تعمیر کئے گئے جہاں ان کی شہادت ہوئی تھی ۔ ان مزارات کی بعد میں بھی حفاظت کی جاتی رہی ۔ ظاہر ہے کہ ان مزارات کو اس قدر اہمیت بلاوجہ نہیں دے دی گئی تھی ۔ یہ مزارات ان بزرگوں کے تھے جو بلند مرتبہ و مقام کے حامل تھے ۔ اور انہوں نے بہت اہم کارنامہ انجام دیا تھا ۔ اس لیے ان کے مزارات کو اس احترام سے باقی رکھا گیا ۔ ورنہ اس جنگ میں حصہ لینے والے بڑے مناصب اور بڑے عہدوں والے سینکڑوں امیر اور عہدیدار اور جرنیل ہوں گے جو کام آئے ہوں گے اور جن کے نام کا بھی کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ کوئی انتہائی اہم اور خاص امتیاز ان بزرگوں کو حاصل ہو گا کہ اس جنگ کے بعد صرف ان کے مزارات اور نام باقی رہے ۔ یہ مزارات قلعہ کی فتح کے بعد کچھ زیادہ عرصہ گزرنے سے قبل ہی تعمیر کئے گئے تھے ۔ ڈسٹرکٹ گزیٹیٹر کا بیان ہے ۔
“ سید نعمت اللہ کا مقبرہ اور اس کا احاطہ غالبا محمد غوری کے ہانسی فتح کرنے کے بعد نزدیکی زمانہ میں ہی بنایا گیا تھا “ (١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹر ۔ ضلع حصار و لوہارو ۔ ١٩٠٤ عیسوی ص ٣١٩

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٦)

اسی زمانہ میں مزارات اور مقبرہ کی تعمیر اس بات کی مزید شہادت ہے کہ یہ بزرگ روحانی طور پر بلند مراتب کے حامل تھے ۔ اس کا اعتراف ان کے مزارات کو تعمیر کر کے کیا گیا ۔ یہاں بھی حفظ مراتب کا خیال رکھا گیا ہے کہ باقی دونوں بھائیوں کے تو صرف مزار بنائے گئے تھے ۔ مگر اید نعمت اللہ کے مزار پر مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا ۔ گزیٹییر میں اس کا ذکر اس طرح سے ہے ۔
“ قلعہ کے اندر کچھ گودام بنے ہوئے ہیں ۔ جن کی عمارت جدید دور کی ہے ۔ اور ساتھ ہی ایک احاطہ بھی ہے ۔ اس احاطہ کے اندر دو مسجدیں ہیں اور سید نعمت اللہ کا مقبرہ ہے جو محمد بن سام کے ہانسی پر حملہ کے دوران مارے گئے تھے ۔ (٢)
مفتی غلام سرور لاہوری نے بھی ہانسی کے تاریخی مقامات کا ذکر کرتے ہوئے “ خانقاہ شیخ نعمت اللہ ولی “ کے عنوان کے تحت لکھا ہے ۔
“ یہ حضرت بڑے بزرگ و شہید ہیں ۔ جن کی بزرگی کا تمام علاقہ قائل ہے ۔ یہ بھی ہمراہ سلطان شہاب الدین غوری کے آئے تھے اور رائے پتھورا کی لڑائی میں قلعہ ہانسی پر مارے گئے تھے ۔ جن کی قبر قلعہ کے اندر جانب شمال موجود ہے ۔ یہ حضرت رشتہ میں بھی قطب جمال الدین کے ماموں تھے اور ان کے مزار پر ایک کتبہ بخط عربی لکھا ہے ۔ اس میں سال ٥٩٣ ہجری لکھا ہے اور ایک مسجد بہت وسیع و بلند جو آگے اس مزار کے بنی ہوئی ہے ۔ اس کے دروازے کے ہمراہ کتبہ عربی پر ٥٩٧ ہجری لکھا ہے ۔ “ (٣)
ان تاریخی شہادتوں سے ان بزرگوں کے روحانی مقام و مرتبہ کا اندازہ ہونے کے ساتھ یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہانسی کی فتح میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔ اس سلسلہ کی عوامی روایت واقعاتی اعتبار سے خواہ درست نہ ہو لیکن جو مفہوم وہ ادا کرنا چاہتی ہے وہ بالکل درست ہے ۔
نامور بزرگ
سید نعمت اللہ کو اپنے روحانی مرتبہ کی بلندی اور ہانسی کے قلعہ کی فتح میں نمایاں کردار ادا کرنے کے باعث اس قدر شہرت حاصل ہوئی کہ بعد میں صدیوں تک برصغیر میں ان کا نام معروف رہا ہے ۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ بعد میں نعمت اللہ نام رکھنے والے جو بزرگ بھی پیدا ہوئے ان کے کام کو سید نعمت اللہ ہانسوی سے ہی منسوب کر دیا گیا ۔ اس سلسلہ کی سب سے اہم مثال شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کی ہے ۔ یہ وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ فارسی میں کچھ ایسے قصائد لکھے ہیں جن میں آئندہ زمانہ کے بارے میں پیش گوئیاں کی گئی ہیں ۔ ان میں سے وہ قصیدہ سب سے زیادہ مشہور ہے جس کا مطلع یہ ہے ۔
راست گویم پادشاہی در جہاں پیدا شود
نام اور تیمور شاہ صاحب قراں پیدا شود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹر ۔ ضلع حصار و لوہارو ۔ ١٩٠٤ عیسوی ص ٣١٨
(٣) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور لکھنؤ ١٨٧٧ عیسوی ص ٦٠

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٧٧)
یہ بزرگ کرمان کے رہنے والے تھے ۔ وہاں ٧٣٠ ہجری ١٣٣٠ عیسوی میں پیدا ہوئے اور کرمان میں ہی ٨٣٤ ہجری ١٤٣١ عیسوی میں وفات پائی ۔ (٤)
ان کے تفصیلی حالات مختلف تذکروں میں مہیا ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ صرف ان کی سوانح بیان کرنے کے لیے مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ ان کتابوں کے مطابق یہ بزرگ ولی اللہ تھے اور سیاح بھی تھے ۔ عمر کا بیشتر حصہ سیاحت میں بسر کیا ۔ اس سلسلہ میں برصغیر میں تشریف لائے اور کافی عرصہ یہاں مقیم رہے ۔ روحانی طور پر بلند مرتبہ کے حامل تھے اور کچھ مابعدالطبیعاتی علوم پر انہیں بڑی دسترس حاصل تھی ۔ انہی علوم سے کام لیکر انہوں نے ایک یا دو قصائد ایسے لکھے جن میں آنے والے زمانہ کو بیان کیا گیا ہے ۔ یہ قصائد کچھ نامکمل شکل میں وقتا فوقتا برصغیر میں چھپتے رہے ہیں ۔ مگر ان کی نسبت ہمیشہ سید نعمت اللہ شہید ہانسوی سے کی جاتی رہی ہے ۔ چنانچہ مرزا ضیاالدین بیگ نے بتایا ہے کہ ۔۔
“ رسالہ “ تائید غیبی “ مولفہ جناب محمد اسلم علوی قادری رضوی صاحب مالک سنی دارالاشاعت لائل پور میں قصیدہ نمبر ٢ یعنی “ پارینہ قصہ شویم “ معہ ترجمہ شائع ہوا ہے ۔ اس کو حضرت سید شاہ نعمت اللہ بخاری سے منسوب کر کے آپ کو بخارا کے رہنے والے اور چھٹی صدی ہجری کے بزرگ بتایا گیا ہے “ (٥)
یہی مصنف اپنی کتاب میں اسی قسم کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
“ ہفتہ وار “ آزادی “ مورخہ ٢١ مارچ ١٩٤٨ عیسوی ۔ مجریہ حیدآباد دکن (جو سولہ صفحات پر مشتمل ہے اور جس کی قیمت چار آنے درض ہے ) میں مذکورہ بالا قصیدہ معہ ترجمہ سید محمد مختار کرمانی صاحب مدیر نے شائع کیا ہے ۔ اس میں درج ہے کہ حضرت شاہ بخاری نسبتا سید تھے ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ،لتا ہے ۔ آپ بخارا کے رہنے والے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قصیدہ آپ نے ٦١٨ ہجری میں تصنیف فرمایا تھا ۔ (٦)
اسی کتاب میں آگے چل کر اسی سلسلہ میں مزید لکھا ہے ۔
“ سید عبدلصبور طارق صاحب نے روزنامہ جنگ کراچی یکم نومبر ١٩٧١ عیسوی کی اشاعت میں یہی قصیدہ “ پارینہ قصہ شویم از تازہ بند گویم “ معہ ترجمہ شائع کرایا ہے ۔ اور حالات یہ لکھے ہیں کہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی مشہور صوفی اور درویش منش انسان تھے ۔ ان کا اصل وطن بخارا تھا ۔ جہاں سے ان کے آباؤاجداد ہجرت کرکے سلطان معزالدین غوری کے عہد میں برصغیر پاک و ہند چلے آئے اور ہانسی میں سکونت اختیار کر لی “ (٧)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٤) الحاج مرزا ضیاالدین بیگ ، احوال و آثار حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کراچی ١٩٧٥ عیسوی
(٥) ایضا ص ٨٣
(٦) ایضا ص٨٤
(٧) ایضا ص ٨٥


-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------




(١٧٨)


ان اقتباسات سے دو باتیں واضع ہوتی ہیں ۔ اول تو سید نعمت اللہ کے حالات کی اس حد تک تصدیق ہوتی ہے کہ سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ بخارا سے ہجرت کر کے برصغیر میں پہنچے تھے اور ان کی آمد شہاب الدین غوری کے ساتھ ہوئی تھی ۔ دوم یہ کہ سید نعمت اللہ اس قدر بلند مرتبہ بزرگ تھے اور ان کی بزرگی کی شہرت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ ساڑھے سات سو سال بعد بھی برصغیر میں صرف ان کا نام گونجتا تھا ۔ اور ان کے ہم نام جو بھی بزرگ اس دوران میں ہوئے ان کے کارناموں کجو ان کے نام سے ہی منسوب کر دیا جاتا رہا ۔ یہاں تک کہ شاہ نعمت اللہ کرمانی جیسے بزرگ جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی جنہوں نے جگہ جگہ کی سیاحت کی اور اس سلسلہ میں کافی عرصہ برصغیر میں بھی مقیم رہے ۔ جنہوں نے مشہور عالم اور مقبول قصیدے لکھے ۔ جن کے حالات زندگی بڑی تفصیل سے مہیا ہو جاتے ہیں ۔ انہیں بھی لوگوں نے جاننے سے انکار کر دیا اور ان کے قصائد کو بھی سید نعمت اللہ بخاری سے منسوب کیا جاتا رہا ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سید نعمت اللہ بخاری کا روحانی مرتبہ و مقام اتنا اونچا تھا اور وہ اس درجہ بلند پایہ بزرگ تھے کہ ان کے مقابلہ میں لوگ اس نام کے کسی اور بزرگ سے واقف ہی نہیں ہوتے تھے ۔ اور ان کی شہرت لوگوں کے ذہنوں پر اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ کسی ہم نام کو متعارف نہیں ہونے دیتی تھی ۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر جیسے بلند پایہ عالم اور محقق بھی اس سلسلہ میں وہی بات لکھتے ہیں جو دوسرے مصنفین نے بیان کی ہے ۔ ١٨٥٧ عیسوی کی جنگ آزادی کے حالات لکھتے ہوئے جہاں وہ بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں پیشن گوئیوں پر مشتمل یہ قصائد بہت مشہور تھے ۔ وہاں انہوں نے لکھا ہے ۔
“ ان سب باتوں پر مستزاد یہ کہ شاہ نعمت اللہ ولی نام ایک ہانسوی بزرگ کی پیشن گوئیوں کا خاص چرچا ہوا ۔ جو ایک یا دو قصیدوں کی شکل میں پہلے سے چلی آتی تھیں “ (٨)
اس تفصیل سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان قصائد کی نسبت صدیوں تک برابر سید نعمت اللہ بخاری کی جانب کی جاتی رہی ہے ۔ حالانکہ یہ اسی نام کے دوسرے بزرگ کے لکھے ہوئے ہیں ۔
ایک اور بزرگ
نعمت اللہ نام رکھنے والے شاید کچھ اور بزرگ بھی برصغیر میں گذرے ہوں ۔ مگر یہ نام رکھنے والے ایک اور بزرگ ایسے ہیں جن کا ہانسی سے تعلق ہے ۔ اس لیے ان کا مختصر سا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے ۔ انواراصفیا میں لکھا ہے کہ ان کی ولادت ٨٣٤ ہجری ١٤٣١ عیسوی میں نانول میں ہوئی تھی ۔ ان کے جد امجد قاضی سید بدرالدین کی برصغیر میں آمد بھی شہاب الدین غوری کے لشکر کے ساتھ ہوئی تھی ۔ وہ غزنی سے ہجرت کر کے آئے تھے اور یہاں آ کر ہانسی میں آباد ہو گئے تھے ۔ اکبر کے زمانہ تک ان کی کئی پشتیں ہانسی میں گزریں ۔ لیکن ہمایوں کے زمانہ میں سید نعمت اللہ کے والد سید مشرف ہانسی سے ترک وطن کر کے نارنول چلے گئے تھے ۔ اور وہیں آباد ہو گئے تھے ۔ وہیں سید نعمت اللہ کی ولادت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٨) غلام رسول مہر ١٨٥٧ عیسوی کتاب منزل لاہور ص ٨٤

---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 

نایاب

لائبریرین
(١٧٩)

ہوئی ۔ وہ بلند مرتبہ صوفی اور پاک منش درویش تھے ۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ بھی سیاحت میں گذرا ۔ آخری وقت تک بھی وطن سے باہر رہے ۔ یہاں تک کہ ان کی جائے وفات اور تاریخ وفات کا پتہ نہیں چلتا ۔ (٩) ان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ ضیا تسنیم بلگرامی نے تحریر کیے ہیں ۔ (١٠)
ایک عجیب پہلو
نعمت اللہ نام کے ان تمام بزرگوں کے حالات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سب سے مشہور وہی بزرگ ہیں جو زمانی حیثیت سے اولیت رکھتے ہیں ۔ اور جن کا مزار ہانسی میں ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے مقابلہ میں اور کسی بزرگ کو پہچانا بھی نہیں جاتا ۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جو بزرگ مشہور نہیں ہیں اور علمی حلقوں میں جنہیں ٹھیک سے پہچانا بھی نہیں جاتا ۔ ان کے حالات تو بڑی تفصیل کے ساتھ مہیا ہو جاتے ہیں ۔ اور جو بزرگ اس قدر مشہور ہیں کہ ان کی قد آور شخصیت کے سامنے دوسرے بزرگوں کی پہچان گم ہو جاتی ہے ، ان کے حالات کی معمولی سی تفصیل بھی کسی جگہ سے نہیں ملتی ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں آمد کے بعد ان کی زندگی کا عرصہ بہت ہی کم رہا ۔ جو شاید چند ہفتوں سے زیادہ طویل نہیں تھا ۔ وہ غوری کے لشکر کےساتھ یہاں پہنچے ۔ ترائن کی جنگ میں حصہ لیا ۔ وہاں فتح حاصل کرنے کے بعد آگے بڑھے تو ہانسی کا معرکہ پیش آیا ۔ اس معرکہ کو سر کرنے کے دوران انہیں شہادت کا مرتبہ عطا ہو گیا ۔ یہ وقت ظاہر ہے کہ بہت کم تھا اور یہ تھوڑا سا وقت بھی میدان جنگ میں گذرا ۔ اس لیے ان کے حالات کی کوئی تفصیل مہیا ہونی ممکن نہیں تھی ۔ یہ تو ان کی بزرگی اور بلند مرتبت کا اعجاز ہے کہ ان کا نام اور اس قدر شہرت اس خطہ میں باقی ہے ۔ ورنہ برصغیر میں انہوں نے جو چند دن گذارے ہیں ان میں تو شاید یہ بھی ممکن نہ ہوتا کہ لوگ ان کے نام سے ہی واقف ہوتے ۔
ان کے تفصیلی حالات کا علم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اس ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ برصغیر میں ابھی مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی ۔ اس لیے تصنیف و تالیف کا کام شروع نہیں ہو سکا تھا اور نہ کسی کو یہ خیال آیا تھا کہ بزرگوں کے حالات کو محفوظ کیا جانا چاہیے ۔ اس صورتحال کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہانسی ایک مضبوط فوجی مستقر تو ضرور تھا ۔ مگر علمی و ادبی لحاظ سے اسے کبھی قابل ذکر حیثیت حاصل نہیں رہی ۔ فوجی مرکز ہونے کے بعد اگر اس کی کوئی حیثیت تھی تو وہ روحانی اہمیت تھی ۔ تصنیف و تالیف کا کام بھی وہی ہوا جو روحانی بزرگوں نے کیا ۔ اس لیے یہاں کے بزرگوں کے حالات تفصیل سے کہیں مہیا نہیں ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر سید نعمت اللہ بخاری کے حالات کا تو بہت ہی کم علم ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٩) ادارہ تصنیف و تالیف ۔ انوار اصفیا ۔ غلام علی اینڈ سنز لاہور ص ٤٠٢ تا ٤١٠
(١٠) ضیا تسنیم بلگرامی ۔ مضمون “ روشن ضمیر “ ماہنامہ سب رنگ ڈائجسٹ کراچی ستمبر ١٩٧٣ عیسوی

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(١٨٠)


چاروں قطب
بروالہ کا روحانی اور ثفاقتی تعلق
بروالہ سیدان میں جن بزرگوں کے ساتھ نزدیکی تعلق محسوس کیا جاتا تھا ۔ ان میں اپنے خاندانی اور مقامی بزرگوں کے علاوہ چاروں قطب کو ایک اہم مقام حاصل تھا ۔ چاروں قطب کی درگاہ سے لوگ روحانی وابستگی کو محسوس کرتے تھے ۔ وہاں حاضری دینا ضروری خیال کرتے تھے ۔ اور وہاں کے سالانہ عرس میں شرکت کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ اس طرح چاروں قطب کی درگاہ کو سادات بروالہ کی روحانی اور ثقافتی زندگی میں ایک اہم مقام حاصل تھا ۔ اسی حوالہ سے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس درگاہ کا اور اس درگاہ میں آرام فرما بزرگوں کا ذکر کسی قدر تفصیل سے کر دیا جائے ۔ ان بزرگوں کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ سادات بروالہ کے جدامجد کے ساتھ قطب اول کا قرابت داری کا بھی تعلق رہا ہے ۔ شاید یہی تعلق اس واسطہ کی بنیاد بنا جو بعد میں ہمیشہ قائم رہا ۔ سب سے پہلے ان بزرگوں کے حالات یکے بعد دیگرے لکھے جاتے ہیں ۔
قطب اول شیخ جمال الدین
شہرہ آفاق بزرگ ہیں ۔ مگر ان کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مہیا نہیں ہیں ۔ اس صورتحال کی وجوہات بھی غالبا وہی ہیں جن کا ذکر سید نعمت اللہ بخاری کے سلسلہ میں ہو چکا ہے ۔ لیکن سید نعمت اللہ کے برعکس قطب اول مدت العمر ہانسی میں مقیم رہے ۔ اپنے علم و فضل سے یہاں کے لوگوں کو فیض پہنچایا اور روحانی فیوض سے لوگوں کے دلوں کو روشن کیا اور روحانی اور علمی دنیا میں زندہ و جاوید کارنامے انجام دیے ۔ اس لیے تواریخ اور تذکروں میں جہاں تہاں ان کا ذکر ضرور ملتا ہے ۔ مگر حالات کی وہ تفصیل نہیں ملتی جو ان کے بلند مقام اور مرتبہ کے شایان ہو ۔ معتبر اور مستند کتابوں میں ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کے چند اقتباسات یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔ مفتی غلام سرور لاہوری نے لکھا ہے ۔
“ قطب جمال الدین ہانسوی اس شہر ہانسی میں بڑے بزرگ ہو گذرے ہیں ۔ حال ان کا یہ ہے کہ جب سلطان شہاب الادین غوری ہندوستان آیا ۔ تب اس کے ہمراہ شیخ جمال الدین ، سلطان مظفر کا پوتا بھی یہاں آیا(؟) ۔ بعد فتح قلعہ ہانسی وہ یہاں ہی رہ گیا ۔ اول اول تدریس و تعلیم و فتوی دہی میں مصروف رہا ۔ پھر اس کام کو چھوڑ کر خواجہ فرید الدین شکر گنج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(؟) مقامی لہجہ میں اسی طرح بولا جاتا تھا

-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


((١٨١)

اجودھنی چشتی کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ پیر روشن ضمیر کی توجہ سے ولایت کے بڑے اعلی مراتب پر پہنچا ۔“ (١)
شیخ عبدالحق محدث نے لکھا ہے ۔
“ شیخ جمال الدین ہانسوی (٦٢٨ تا ٧٠٠ ہجری )آپ بہت بڑے خطیب و مقرر تھے ۔ آپ کا سلسلہ نسب امام ابو حنیفہ سے ملتا ہے ۔ شیخ فرید الدین گنج شکر کے بڑے خلفا میں سے تھے ۔ کمالات ظاہریہ اور باطنیہ کے حامل تھے ۔شیخ فرید کو آپ سے بڑی محبت تھی ۔ اسی وجہ سے انہوں نے بارہ برس ہانسی میں گذار دیے ۔ وہ آپ کے متعلق فرمایا کرتے تھے “ جمال ہمارا دل ہے “ اور کبھی یوں فرماتے تھے کہ جمال “ میری خواہش ہے کہ تمہارے اردگرد چکر لگایا کروں “ شیخ فرید جس کسی کو خلافت دیتے اسے جمال کے پاس بھیج دیتے ۔ اگر شیخ جمال اسے قبول کر لیتے تو خلافت قائم رکھتے ۔ اور اگر شیخ جمال اس کو ناپسند کرتے تو اس کی خلافت ختم کر دیتے تھے ۔ اور پھر شیخ فرید اسے دوبارہ قبول نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ جس کو جمال پھاڑ دے ۔ اسے فرید نہیں سی سکتا “ (٢)
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام “ ہانسوی “ کے عنوان کے تحت بیان کرتا ہے ۔
“ شیخ جمال الدین جنہیں قطب جمال الدین بھی کہا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں چشتی سلسلہ کے صوفی بزرگ ہیں ۔ پیدائیش (٥٨٠ ہجری ١١٨٤÷٨٥ عیسوی ) اور ہانسی میں وفات (٦٥٩ ہجری ١٢٦٠÷٦١ ) ہوئی ۔ وہ امام ابو حنیفہ کی نسلسے تھے اور شیخ مسعود الدین شکر گنج کے سب سے بڑے خلیفہ تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت بابا فریدالدین کے مرید ہوئے تو وہ ہانسی کے خطیب تھے ۔ لیکن اپنے روحانی راستہ کو اختیار کرنے کی خاطر انہیں اپنے عہدہ اور اس کے مادی مفادات سے دستبردار ہونا پڑا ۔“ (٣)
آئین اکبری کا بیان ہے ۔
شیخ جمال ادین ہانسوی ۔ آپ امام ابو حنیفہ کی اولاد میں سے ہیں ۔ اور خطابت و فتوی نویسی میں مشغول رہتے تھے ۔ آپ اس مشغلہ سے دستبردار ہو گئے اور شیخ فرید الدین گنج شکر سے بیعت کر کے بلند مرتبہ حاصل کیا ۔ شیخ فریدالدین گنج شکر جس شخص کو خلافت نامہ دیتے تھے اس کو شیخ جمال الدین ہانسی کے پاس بھیج دیتے تھے ۔ اگر آپ اس خلافت نامہ کو قبول فرما لیتے تو وہ جائز قرار پاتا ۔ اگر آپ قبول نہ فرماتے تو شیخ فریدالدین گنج شکر اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرماتے کہ جمال کی پارہ کی ہوئی چیز کو فرید نہیں جوڑ سکتا ۔ مزار آپ کا ہانسی میں ہے “ ۔ (٤)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نولکشور ، لکھنؤ ١٨٧٧ عیسوی ص ٥٩
(٢) شیخ عبدالحق محدث دہلوی ۔ اخبارالاخیار ۔ اردو ترجمہ مولانا سبحان محمود و مولانا محمد فاضل ۔ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ص ١٥١ ÷ ١٥٢
(٣) Encyclopeadia of Islam Leadon 1979 .. P167
(٤) ابوالفضل آئین اکبری ۔ اردو ترجمہ ۔ مولوی محمد فدا علی طالب ۔ لاہور ١٩٧٨ عیسوی جلد دوم ۔ ص ٣٣٥

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

(١٨٢)

تاریخ مشائخ چشت میں یہی حالات بیان کرتے ہوئے ایک لطیف واقعہ بھی تحریر کیا ہے ۔
“ شیخ جمال الدین ہانسوی بابا فرید کے بہت عزیز خلیفہ تھے ۔ ان کی محبت میں بابا صاحب بارہ سال ہانسی میں مقیم رہے ۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جمال حقیقت میں ہمارا جمال ہے ۔ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے ایک مرتبہ بابا صاحب کو لکھا کہ میرے تمام مریدوں اور خلفا کو لے لو اور جمال الدین کو مجھے دے دو ۔ اور مروت کی بات یہ ہے کہ یہ سودا درہم برہم نہ کیا جائے ۔ بابا صاحب نے جواب میں لکھا کہ جمال میرا جمال ہے ۔ معاوضہ مال میں ہو سکتا ہے نہ کہ جمال میں ۔ بابا فرید کا یہ دستور تھا کہ جسے خلافت نامہ دیتے ، فرماتے کہ جمال الدین سے اس پر دستخط کرا لینا ۔ “ (٥)
حصار گزیٹیئر نے ان کے بارے لکھا ہے کہ وہ شہاب الدین غوری کی اس فوج میں شامل تھے جس نے ہانسی فتح کیا تھا مگر بعد میں ان کا دل دنیا کی دلچسپیوں سے پھر گیا اور انہوں نے مکمل طور پر ترک دنیا کر کے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سے خود کو وابستہ کر لیا ۔ اس طرح انہیں ایک بلند مرتبہ اور کامل مرشد کی رہنمائی حاصل ہوئی ۔ ادھر طلب بھی صادق تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے سلوک کی منازک تیزی سے طے کیں اور روحانی طور پر اس قدر بلند مرتبہ پر پہنچے کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ان کے پاس محبت میں بارہ سال ہانسی مقیم رہے ۔ وہ حضرت قطب شیخ جمال الدین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے “ شیخ جمال جمال ماست “ مزید یہ کہ حضرت بابا صاحب جسی کو سند خلافت عطا فرماتے تو اسے ہدایت کرتے کہ ہانسی جا کر اس سند پر شیخ جمال الدین سے تصدیق کرا لائے ۔ اس تصدیق کے بغیر یہ سند بیکار ہوتی تھی ۔ (٦)
ان اقتباسات میں سے گزیٹئیر کا یہ بیان تو بالکل بے بنیاد ہے کہ شیخ جمال الدین اس فوج میں شامل تھے جس نے ہانسی فتح کیا تھا ۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق شیخ جمال کی پیدائیش (٥٨٠ ہجری ١١٨٤-٨٥ عیسوی ) میں ہوئی تھی ۔ اور ان کی ولادت کی یہی تاریخ درست ہے ۔ شیخ عبدالحق کی بیان کردہ تاریخ درست نہیں ہے ۔ ہانسی کی فتح ( ٥٨٨ ہجری ١١٩٢ عیسوی ) میں ہوئی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہانسی کی فتح کے وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی ۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ شیخ جمال الدین کے والد قاضی حمید الدین ایک بلند پایہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ فن سپہ گری میں بھی ماہر تھے ۔ وہ سلطان شہاب الدین غوری کی اس فوج میں شامل تھے جس نے ہانسی کو فتح کیا تھا ۔ اس شہر کے فتح ہو جانے کے بعد شہاب الدین غوری نے انہیں شہر کا قاضی اور خطیب مقرر کر دیا تھا ۔ اس طرح وہ یہیں آباد ہو گئے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی یہیں بلا لیا ۔ یہاں آ کر شیخ جمال الدین نے دینی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور علمی لحاظ سے وہ بلند مرتبہ حاصل کیا کہ اپنے والد کی حیات میں ہی شہر کے خطیب مقرر ہو گئے تھے ۔ اس لیے بعض تذکروں میں انہیں شیخ جمال الدین خطیب بھی لکھا گیا ہے ۔ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ درس تدریس اور فتوی نویسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٥) خلیق احمد نظامی ۔ تاریخ مشائخ چشت ۔ دارالمولفین ۔ اسلام آباد ص ١٦٣ - ٦٤
(٦) پنجاب ڈسٹرکٹ گزئیٹیرز ۔ حصار اور لوہارو سٹیٹ ۔ ١٩٠٤ عیسوی

---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(١٨٣)
میں بھی مشغول رہتے تھے اور اپنے زمانہ کے بلند مرتبت علما میں شمار ہوتے تھے ۔ لیکن حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی ملاقات نے ان کی کایا پلٹ دی ۔ تمام علم و فضل کو ایک طرف رکھ کر ان کے مرید ہو گئے اور درویشانہ زندگی اختیار کر لی مگر درویشی میں بھی وہ کمال کا وہ درجہ حاصل کیا ۔ جس کی عکاسی مذکورہ بالا اقتباسات سے ہو جاتی ہے ۔
شیخ جمال الدین نہ صرف بلند پایہ عالم و فاضل ہستی تھے بلکہ صاحب تصانیف بزرگ اور فارسی کے بہت اچھے شاعر بھی تھے ۔ ان کی شخصیت کے اس پہلو کے متعلق انسائیکلوپیڈیا آف اسلام نے لکھا ہے ۔
“ ان کی تصنیف کردہ دو کتابیں مشہور ہیں ۔ ان کی “ ملہمات “ (عربی ۔ لیتھو ۔ الور ١٣٠٦ ہجری ، دہلی ١٣٠٨ہجری ) صوفیانہ کلمات کا مجموعہ ہے ۔ جن میں زاہد اور عارف کے درمیان امتیاز کو واضع کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے ۔ جب کہ خاص طور پر برصغیر کے حالات کا کوئی خصوصی حوالہ نہیں دیا گیا ۔ اور ان کا دیوان (فارسی ۔ لیتھو ۔ دہلی ١٣٠٦ ہجری ) غالبا اولین شعری مجموعہ ہے ۔ جو ایک چشتی بزرگ نے مرتب کیا ہے ۔ اس میں شامل کلام صوفیانہ مضامین کے ساتھ ساتھ اپنے زمانہ کے مذہبی اور سیاسی خیالات اور اداروں پر روشنی ڈالنے کے لحاظ سے بہت قیمتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس مجموعہ سے بہت قیمتی معلومات اس بارے میں بھی حاصل ہوتی ہیں کہ شمالی برصغیر میں ساتویں صدی ہجری ÷ تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں عوامی عقائد اور رسم و رواج کیا تھے ۔ نیز صوفیا کے مشاغل اور زندگی کے بارے میں ان کے رویہ کے متعلق بہت قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔“ (٧)
ان کی تصانیف کے متعلق کئی تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے ۔ مگر اس قدر مختصر کہ ذرا بھی پتہ نہیں چلتا کہ تصانیف کیا ہیں اور ان میں کیا کہا گیا ہے ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے ۔
“ شیخ احمد ہانسوی کے متعدد رسالے اور اشعار ہیں ۔ ایک رسالہ عربی میں بھی ہے جس میں مختلف کلمات کو بحیثیت سجع جمع کیا گیا ہے ۔ اس کا نام “ ملہمات “ ہے ۔“ (٨)
اعجازالحق قدوسی لکھتے ہیں ۔
“ شیخ جمال شاعر اور صاحب تصانیف تھے ۔ ان کا فارسی میں ضخیم دیوان چھپ چکا ہے ۔ ان کی تصانیف میں ایک رسالہ “ ملہمات “ کا پتہ چلتا ہے ۔ “ (٩)
خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب کے اصل متن کے حاشیہ میں ان کتابوں کا ذکر کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٧) Encyclopeadia of Islam Leadon 1979 .. P167
(٨) شیخ عبدالحق محدث دہلوی ۔ اخبارالاخیار ۔ اردو ترجمہ مولانا سبحان محمود و مولانا محمد فاضل ۔ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ص ١٥٢
(٩) اعجازالحق قدوسی ۔ تذکرہ صوفیا ئے پنجاب ۔ کراچی ١٩٦٢ عیسوی ص ٥١٧

۔۔۔۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 

نایاب

لائبریرین
(١٨٤)

“ شیخ جمال الدین ہانسوی کا دیوان اپسالہ یونیورسٹی میں موجود ہے ۔ اور شیخ کی ایک عربی تصنیف “ ملہمات ‘ ہے جو ١٣٠٦ ہجری میں الور اور ١٨٩٧ عیسوی میں دہلی سے چھپی تھی ۔ “ (١٠)
اس سلسلہ ،یں یہ ذکر کر دینا ضروری ہے کہ ملہمات کے دو ایڈیشن پاکستان بننے کے بعد بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ حضرت قطب صاحب کے اخلاف میں سے ایک علم دوست اور علم پرور فرد جناب جسٹس عبدالشکور السلام (١١) صاحب نے اسے دونوں بار لاہور سے شائع کرایا ہے ۔ پہلی بار ان کے اہتمام سے یہ کتاب ١٩٦١ عیسوی میں چھپی ۔ یہ ایڈیشن دہلی کے ایڈیشن ١٨٨٩ عیسوی کے عین مطابق تھا ۔ کہ عربی متن کے نیچے فارسی اور اردو ترجمے بھی اوپر نیچے دیے ہوئے تھے ۔ دوسری بار لاہور سے یہ کتاب ١٩٨٥ عیسوی میں چھپی ہے ۔ اس دفعہ اس میں کچھ اضافے بھی کیے گئے ہیں ۔ اصل عربی متن اور فارسی اور اردو کے دونوں ترجمے تو جوں کے توں ہیں ۔ آخر میں انگریزی ترجمہ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ جو سردار علی احمد خاں کی کاوش فکر کا نتیجہ ہے ۔ جناب جسٹس عبدالشکور السلام صاحب کا ایک دیباچہ بھی انگریزی زبان میں شامل ہے ۔ چند مضامین بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے دو مضامین سردار علی احمد خاں کے ، ایک حضرت قطب صاحب کے احوال و آثار کے بارے میں اور ایک شہر ہانسی کے بارے میں ، اہم ہیں ۔ قطب جمال الدین صاحب کے متعلق پروفیسر محمد مسعود احمد کا مضمون بھی اہم ہے ۔ لیکن ان تمام مضامین میں چند واقعاتی اور تاریخی اور کتابت کی بہت غلطیاں رہ گئی ہیں ۔ جو اگر دور کر دی جاتیں تو کتاب کی وقعت مزید بڑھ جاتی ۔
قطب جمال الدین کے زیادہ سے زیادہ حالات جو مہیا ہوتے ہیں وہ یہی کچھ ہیں جن کا اوپر کی سطور میں مختلف حوالوں سے ذکر کیا گیا ہے ۔ ان حالات کے مطالعہ سے یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے بہت بھرپور زندگی گزاری ۔ علمی اور روحانی کمالات کے ایسے جامع بزرگ تھے کہ ان کے حالات و ملفوظات پر مشتمل کئی تصنیفات موجود ہونی چاہیے تھیں ۔ مگر اصل صورت حال یہ ہے کہ اکثر تذکروں میں ان کا ذکر تک موجود نہیں ہے ۔ اور جن کتابوں میں ان کے حالات ملتے ہیں وہ انتہائی مختصر اور تشنہ ہیں ۔ یہاں تک کہ حضرت بابا فریدالدین شکر گنج نے ہانسی میں جو بارہ سال کا عرصہ گزارا ۔ اس کی بھی کوئی تفصیل کسی جگہ نہیں ملتی ۔ جہاں بھی اس کے بارے میں لکھا ہے ، وہ ایک سرسری سا ذکر ہے ، مثال کے طور پر تذکرہ “ خاصان خدا “ میں لکھا ہے ۔
“ رخصت حاصل فرمانے کے بعد شہر ہانسی تشریف لے گئے اور ایک مدت تک وہاں اقامت پزیر رہے ۔ (١٢)
ہانسی میں قیام کا اتنا ہی ذکر کافی سمجھا گیا ہے اور شیخ جمال الدین کا تذکرہ تو اس جگہ ضمنا بھی موجود نہیں ہے ۔ یہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠) خلیق احمد نظامی ۔ تاریخ مشائخ چشت ۔ دارالمولفین ۔ اسلام آباد ۔ حاشیہ صفحہ ١٦٣
(١١) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
(١٢) مصطفائی بیگم ۔ تذکرہ خاصان خدا ۔ لاہور ۔ ١٩٩٧٧ عیسوی ۔ ص ١٨٤

----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

(١٨٥)

حال “ تذکرہ اولیائے کرام “ کا ہے ۔ اس میں حضرت بابا صاحب کے ذکر میں لکھا ہے ۔
مرشد کی صحبت میں تعلیم پا چکے تو گنج شکر دہلی سے ہانسی آئے ۔ مگر وہاں کے لوگوں کے ہجوم سے گھبرا کر ہانسی سے اجودھن روانہ ہوئے ۔ یہاں تنہائی اور سکون پایا تو اسی کو اپنا مسکن بنایا ۔ (١٣)
یعنی ہانسی کا ذکر ایک لائن میں مکمل ہو گیا اور شیخ جمال الدین کا نام تک موجود نہیں ہے ۔ ایک اور کتاب “ تذکرہ اولیائے ہندوپاکستان “ میں بھی یہی صورت ہے ۔ حضرت بابا صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دہلی میں آپ کی شہرت بڑھی تو خلقت کا ہجوم رہنے لگا ۔ اس سے گھبرا کر آپ ہانسی تشریف لائے ۔ وہیں تھے کہ مرشد بزرگوار کی رحلت کی خبر ملی ۔ دہلی پہنچے اور مرشد کی امانتیں حاصل کیں ۔ اور واپس ہانسی آ گئے ۔ وہاں بھی خلق کے ہجوم سے گھبرائے تو اجودھن چلے گئے ۔ (١٤) آگے چل کر اسی کتاب میں بتایا گیا ہے ۔
“ آپ کے متعدد خلفا ہوئے ۔ جن میں سے حضرت قطب جمال الدین ہانسوی ۔ خواجہ نظام الدین اولیا ۔ اور حضرت علاؤالدین صابر کلیری ممتاز ہیں ۔ “ (١٥)
ان ممتاز خلفا میں سے مصنف نے قطب جمال الدین کا کہیں ذکر نہیں کیا ۔ باقی دونوں خلفا کے تذکرے کتاب میں شامل ہیں ۔ ایک اور کتاب “ خواجگان چشت موسوم بہ رشک ہشت بہشت “ میں حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کا تذکرہ اس قدر تفصیل سے موجود ہے کہ کتاب کے صفحہ ٤٧ سے صفحہ ٨٧ تک چالیس صفحے اس کے لیے وقف ہیں ۔ (١٦)۔ مگر ہانسی کا ذکر بالکل اس سرسری انداز سے ہے جس طرح دوسری کتابوں میں ہے ۔ نیز ان کے خلفا میں سے شیخ جمال الدین کا ذکر کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ باقی خلفا کے تذکرے موجود ہیں ۔
“ سیرالعارفین “ صوفیا کے تذکروں میں اولین اور پرانی کتاب ہے ۔ اس کے مصنف حامد بن فضل اللہ جمال (مولود ٩٤٢ ہجری بمطابق ١٥٣٦ عیسوی ) ہیں ۔ اس میں بالکل وہی کچھ لکھا ہے جو دوسرے تذکروں میں ہے ۔ غرض نئے اور پرانے تمام تذکروں کا حال یکساں ہے کہ قطب جمال الدین کے تفصیلی حالات کہیں سے مہیا نہیں ہوتے ۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے کہ وہ ایک ایسے دورافتادہ علاقہ میں رہائیش پزیر تھے جہاں تصنیف و تالیف کا شگف رکھنے والے لوگوں کا رابطہ نہیں تھا ۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت بابا صاحب کے دوسرے دو ممتاز خلفا کی طرح آپ کا کوئی الگ روحانی سلسلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣) صباح الدین عبدالرحمن ۔ تذکرہ اولیائے کرام ۔ لاہور ١٩٥٥ عیسوی ص ٦٥
(١٤) مفتی ولی حسن تونکی ۔ تذکرہ اولیائے ہندوپاکستان ۔ کراچی ص ٧٢
(١٥) ایضا ص ٧٧
(١٦) مولوی محمد منیر صاحب منیر لکھنوی ۔ خواجگان چشت موسوم بہ بہشت ہشت ۔ کراچی ١٣٩١ ہجری

-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

(١٨٦)

قائم نہیں ہوا ۔ کیونکہ آپ کا انتقال حضرت بابا صاحب کی حیات میں ہی ہو گیا تھا ۔ اس کے متعلق “ انوارالاصفیا ‘ میں لکھا ہے ۔
“ حضرت بابا صاحب سے چشتیہ خاندان کے تین سلسلے جاری ہوئے ۔ ایک نظامیہ ، دوسرا صابریہ ، تیسرا جمالیہ ۔ جمالیہ سلسلہ نظامیوں میں مدغم ہو گیا ۔ کیونکہ بابا صاحب کے خلیفہ اول مخدوم جمال الدین ہانسوی کے جانشین ان کے پوتے حضرت مولانا قطب الدین منور کو حضرت خواجہ نظام الدین اولیا سے خلافت ملی تھی ۔ (١٧)
حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی کی سادات بروالہ سے قرابت داری کا ذکر گذشتہ صفحات میں سید ناصر الدین شہید کے حالات کے ضمن میں گزر چکا ہے کہ ایک روایت کے مطابق قائم خان کو مسلمان کرنے کے بعد شیخ جمال الدین نے تعلیم و تلقین کے لیے اسے اپنے حقیقی ماموں سید ناصر الدین شہید کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ ایک روایت کے مطابق سید نعمت اللہ بخاری اور سید ناصر شہید کی دو بہنیں تھیں ۔ ایک بی بی حافظہ جمال تھیں ۔ جو شیخ شرف الدین بو علی قلندر کی والدہ تھیں ۔ اور دوسری بی بی سائرہ تھیں ۔ جو قطب اول شیخ جمال الدین کی والدہ ماجدہ تھیں ۔ اس طرح شیخ جمال الدین اور بو علی قلندر آپس میں خالہ زاد بھائی تھے ۔ ان کے درمیان دوسرا رشتہ یہ تھا کہ حضرت بو علی قلندر کی ہمشیرہ شیخ جمال الدین ہانسوی کی دوسری بیوی تھیں جو قطب دوم حضرت شیخ برہان الدین کی والدہ تھیں ۔ شیخ برہان الدین ابھی صغیر سن ہی تھے کہ ٦٥٩ ہجری میں شیخ جمال الدین کی وفات ہو گئی ۔
قطب دوم شیخ برہان الدین صوفی
اپنے والد کی وفات کے وقت بہت صغیر سن تھے ۔ انہیں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ تو انہوں نے خلافت نامہ ، مصلی اور عصا عطا فرمایا اور وہ نعمت عطا فرمائی جو ان کی والد سے خاص تھی ۔ اس کے بعد مزید تربیت کے لیے انہیں حضرت نظام الدین اولیا کے سپرد کر دیا ۔ (١٨)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ان کے بارے میں لکھا ہے ۔
“ آپ شیخ جمال الدین ہانسوی کے فرزند تھے ۔ اپنے والد کے انتقال کے وقت کم عمر تھے ۔ جب آپ کو شیخ فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں لایا گیا تو آپ بڑی مہربانی کے ساتھ پیش آئے اور خلافت نامہ ، جا نماز ، اورعصا کے ساتھ وہ تبرکات جو ان کے والد شیخ جمال الدین ہانسی کو دیے تھے انہیں بھی عطا فرمائے ۔ اور خواجہ نظام الدین اولیا سے حصول فیض کا حکم دیا ۔ چنانچہ آپ ہر سال نظام الدین اولیا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے تربیت حاصل کرتے ۔ “ (١٩)
سراج النسب میں ان کا تذکرہ اس طرح ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧) ادارہ تصنیف و تالیف ۔ انوارالاصفیا ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز ۔ لاہور ص ٢٠٦
(١٨) مرزا محمد اختر دہلوی ۔۔ تذکرہ اولیائے ہند اور پاکستان ۔ دہلی ۔ طبع ششم ۔ ص ٩٤
(١٩) شیخ عبدالحق محدث دہلوی ۔ اخبارالاخیار ۔ ترجمہ اردو مولانا سبحان محمود و مولانا محمد فاضل ۔ مدینہ پبلشنگ کمپنی ۔ کراچی ۔ ص ١٥٣

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

(١٨٧)

صغر سنی میں حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے آپ کو خلافت اپنی طرف سے اور ان کے والد کی طرف سے عطا فرمائی ۔ اور آپ نے حسب ارشاد ھضرت بابا صاحب ، حضرت نظام الدین محبوب الہی سے ظاہری اور باطنی تعلیم حاصل کی ۔ تصوف میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ اس لیے صوفی لقب پایا ۔ آپ حضرت قلندر پانی پتی کے سگے بھانجے ہیں ۔ چالیس سال کی عمر میں ٦٩٩ہجری میں انتقال فرمایا ۔ (٢٠)
بیان کیا جاتا ہے کہ آپ حضرت نظام الدین اولیا کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ جو شخص بھی مرید ہونے کے لیے آتا اسے محبوب الہی کے پاس بھیج دیتے تھے ۔ اور خود مرید نہ کرتے تھے ۔ حضرت نظام الدین اولیا نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا کہ آپ اور ہم ایک ہی شیخ کے مرید اور خلیفہ ہیں ۔ اس لیے اس قدر انکسار نہ کیا کریں اور لوگوں کو میرے پاس بھیجنے کی بجائے خود بیعت لے لیا کریں ۔ مگر وہ بھی اپنی روش پر قائم رہے اور تمام عمر کسی کو مرید نہیں کیا ۔ بلکہ اپنے صاحب زادے شیخ قطب الدین منور کو بھی ان سے ہی بیعت کرایا ۔ شیخ نظام الدین اولیا کی حیات میں ہی انہوں نے وفات پائی ۔
قطب سوم شیخ قطب الدین منور
ان کے بارے شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے
“ آپ برہان الدین ولد شیخ جمال الدین ہانسوی کے فرزند ارجمند اور خواجہ نظام الدین اولیا کے جلیل القدر ، جامع کمالات ، اور مظہر کرامات خلیفہ تھے ۔ تکلف اور تصنع سے آپ کو طبعا نفرت تھی ۔ لوگوں کے شوروغل سے دور رہتے تھے ۔ عمر بھر اپنے اختیار سے آپ نے اپنے کمرے سے باہر قدم نہ نکالا تھا ۔ امرا کے دروازے پر کبھی نہ جایا کرتے تھے ۔ اور پوری زندگی توکل ، صبروقناعت میں بسر کی ۔ “ (٢١)
ایک اور تذکرہ میں ان کے بارے اس طرح لکھا ہے ۔
“ خلیفہ و مرید حضرت سلطان شیخ المشائخ کے تھے ۔ حضرت نے ان کو علوم ظاہری و باطنی سے مستغنی فرمایا ۔ اور خرقہ خلافت عطا فرمایا کہ آپ جامع کمالات و مظہر کرامات ہوئے ۔ فقر و تجرید میں یگانہ ، صحبت خلق سے بیگانہ کہ تمام عمر اپنے حجرے سے قدم باہر نہ رکھا ۔ مگر ہر سال واسطے زیارت اپنے پیر روشن ضمیر کے ہانسی سے دہلی آ کر تربیت پاتے تھے ۔ یہ حضرت خاندان قطب جمال میں آفتاب ہوئے ۔ کس واسطے کہ سلسلہ جمالی معدوم ہو چکا تھا ۔ ان حضرت نے انواروبرکات نظامیہ سے بہرہ مند ہو کر خاندان جدی کو بھی روشنی بخشی ہے ۔ منور اسم با مسمی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٧٦٠ ہجری میں انتقال فرمایا ۔ (٢١)
اس طرح شیخ جمال الدین ہانسوی کی تیسری پشت میں ان کا سلسلہ چشتیہ جمالیہ ، سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مدغم ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢٠) محمد سراج الحق ۔ سراج النسب ۔ قادیان ١٣١٤ ہجری ص ٢٢ بحوالہ تاریخ مشائخ چشت ۔
(٢١) شیخ عبدالحق محدث دہلوی ۔ اخبارالاخیار ۔ ترجمہ اردو مولانا سبحان محمود و مولانا محمد فاضل ۔ مدینہ پبلشنگ کمپنی ۔ کراچی ۔ ص ١٩٢
(٢٢) مرزا محمد اختر دہلوی ۔۔ تذکرہ اولیائے ہند اور پاکستان ۔ دہلی ۔ طبع ششم ۔ ص ١٠٩
 

نایاب

لائبریرین
(١٨٨)

قطب چہارم شیخ نور الدین
آپ شیخ قطب الدین منور کے صاحبزادے تھے ۔ ظاہری اور باطنی تعلیم اور روحانی فیضان اپنے والد سے حاصل کیا اور ان کی وفات کے بعد اپنی آبائی درگاہ کو رونق بخشی ۔ آپ بھی صاحب کمال بزرگ تھے ۔ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے رہے ۔ تمام عمر ہانسی میں مقیم رہے اور وہیں وفات پائی ۔
چاروں قطب کی درگاہ
یہ چاروں بزرگ ایک ہی مقبرے میں دفن ہیں اور یہ مقبرہ چاروں قطب کی درگاہ کہلاتی ہے ۔ یہ درگاہ ہانسی شہر کے مغرب کی جانب واقع ہے ۔ اس میں تین احاطے ہیں ۔ ایک میں مسجد ہے ۔ جو ١٤٩١ عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی ۔ اس کو بنانے والا کوئی شخص ابوبکر جوانی تھا ۔ اس مسجد کے اندر ایک حوض بھی تھا ۔ دوسرے احاطے میں ایک مقبرہ ہے ۔ جس پر گنبد بنا ہوا ہے ۔ اس کے اندر حضرت قطب جمال الدین ہانسوی اور اس کے تینوں جانشینوں کے مزارات ہیں ۔ تیسرے احاطے میں علی تجار کا مقبرہ ہے جو حضرت قطب جمال الدین کا مرید تھا ۔ اس مقبرہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانہ میں اس قدر خوبصورت تھا کہ پنجاب میں واقع بہترین مقبروں میں سے تھا ۔ (٢٣)
مفتی غلام سرور لاہوری اس درگاہ کے بارے لکھتے ہیں ۔
“ شیخ جمال الدین ١٢ شعبان ٦٥٩ ہجری کو فوت ہوکر یہاں دفن ہوئے ۔ اس کے بعد برہان الدین صاحبزادہ ، اور اس کے بعد منور الدین اور اس کے بعد نور الدین قطب پشت بہ پشت چلے آتے رہے ۔ ان چاروں حضرات کو لوگ چار قطب کہتے ہیں ۔ روضہ ان کا بہت پرانا بنا ہوا ہے ۔ اس کے باہر کی جانب کرنل سکنر صاحب و عبدالصمد خاں رئیس دجانہ نے دالان وسیع اور بلند تعمیر کرائے تھے ۔ اور عقب میں ایک مسجد اچھی بنی ہوئی ہے ۔ مسجد کے صحن میں حوض پر آب و فوارہ جاری رہتا ہے ۔ ہر سال بارہ شعبان کو یہاں میلہ لگتا ہے اور دو دن تک رہتا ہے ۔ ان چاروں قطبوں کی اولاد ہانسی میں پیر زادے مشہور ہیں اور انہی میں سے ایک شخص گدی نشین ہوتا ہے ۔ “ (٢٤)
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام نے اس خانقاہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے ۔
“ شہر کے مغرب میں چار قطب کا مقبرہ اور مسجد واقع ہے ۔ چار قطب سے مراد قطب جمال الدین اور ان کے تین جانشین ہیں۔ ان کا مقبرہ ٩٠٣ ہجری ١٤٩٦ عیسوی تک تعمیر نہیں ہوا تھا ۔ مگر ایک مسجد کے احاطہ میں ان قبروں پر ایک کتبہ لگا ہوا تھا ۔ جس پر یکم ذی قعدہ ٦٢٢ ہجری ٤ نومبر ١٢٢٥ عیسوی کندہ ہے ۔ یقینا یہ ہندوستان کا قدیم ترین کتبہ ہے جو کسی مزار پر لگا ہوا ہے ۔ قریب ہی ایک مسجد پر تاریخ محرم ٨٧٧ ہجری جون ١٤٧٢ کندہ ہے ۔ اسی احاطہ میں علی میر تجار کا مقبرہ موجود ہے جو قطب جمال الدین کا مرید تھا ۔ اس کا مقبرہ شہر کی بہترین عمارت ہے ۔ اس پر ایک چہار گوشہ گنبد بنا ہوا ہے ۔ اور تمام مقبرہ پر چمکدار ٹائلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
((٢٣) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹئیرز ۔ ضلع حصار اور ریاست لوہارو ۔ ١٩٠٤ عیسوی ص ٣١٩ ، ٣٢٠
(٢٤) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور لکھنؤ ١٨٧٧ عیسوی ص ٥٩ ، ٦٠

---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(١٨٩)
لگائی گئی ہیں ۔ جن پر خوبصورت گلکاری بنی ہوئی ہے۔ یہ مقبرہ بظاہر نویں صدی ہجری یا پندرھویں صدی عیسوی کی تعمیر ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ مقامی طور پر اسے ساتویں صدی ہجری یا تیرھویں صدی عیسوی کی تعمیر بتایا جاتا ہے ۔ (٢٥)
اس درگاہ پر ہر سال ١٢ شعبان کو بڑے اہتمام سے عرس منایا جاتا تھا ۔ تمام علاقے کے لوگ پورے اہتمام کے ساتھ اس میں شامل ہوا کرتے تھے ۔ بروالہ کے سادات بھی اس میں شمولیت کو لازم گردانتے تھے ۔ تقسیم برصغیر تک یہ عرس پورے علاقہ کے لیے ایسے روحانی اور ثقافتی تقریب کی حیثیت اختیار کیے رہا جس کے لیے لوگ کافی دنوں پہلے سے تیاری کیا کرتے تھے ۔ تقسیم ملک اور مسلمانوں کے مشرقی پنجاب سے ہجرت کے بعد یہ سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے معطل ہو گیا تھا ۔ چند سال بعد اسے بحال کر دیا گیا اور اب بھی اس میں ہر مذہب کے لوگ پوری عقیدت کے ساتھ تمام علاقہ سے شریک ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢٥) Encyclopeadia of Islam Leadon 1979 .. P167

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٩٠)
شجرہ نسب کی ترکیب
ایک روایت کی پابندی
سادات کے نسب ناموں کی ترتیب کے وقت ہمیشہ اس قاعدے کی پابندی کی گئی ہے کہ نسب نامہ کی ابتدا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے کی جاتی ہے اور اس کے بعد پشت در پشت ناموں کے اندراج کے بعد موجودہ دور تک پہنچا جاتا ہے ۔ یہ قاعدہ ایک ایسی روایت کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ اس کی پابندی کو لازمی خیال کیا جانے لگا ہے ۔ اس لیے راقم الحروف بھی اس روایت پر عمل کر رہا ہے ۔ اس نسب نامے کی ترتیب کے سلسلہ میں راقم الحروف نے کئی کتابوں سے مدد لی ہے ۔ مگر دو کتابیں خاص طور پر پیش نظر رہی ہیں ۔ اور علامہ شبیر بخاری کی کتاب “ انساب (١) “ سادات چونیاں اور دوسری سید مقصود نقوی کی کتاب “ ریاض الانساب (٢) “ ۔ ان دونوں کتابوں کو میں نے اس لحاظ سے مفید پایا کہ اول ان میں وہ الجھنیں نہیں ہیں جو دوسری کتابوں کے مطالعہ کے وقت پیش آتی ہیں ۔ دوم ان کتابوں میں وہ بہت سی معلومات مہیا کی گئی ہیں ۔ جو دوسری اکثر کتابوں میں نہیں ملتیں ۔ سوم ان کتابوں میں شجرہ نسب مکمل حالت میں درج ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے قصی تک شجرہ کی ترتیب میں ان کتابوں سے خصوصی استفادہ کیا گیا ہے ۔
شجرہ نسب
+ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام (عمر ٩٣٠ سال) ، شیث ، بازو ، حنق ، عائیقا ، نشائل ، اشوش ، ثمود ، کیو مرث ، ہولو ، کیو ، قین ، ضروت ، مولائی ، ہابیلی ، سندر ، نشائیل ، ہواسن ، عالغ ، ہوزہ ، ملفوفہ ، سبدہ ، اسما ، سمانہ ، مہمنا ، سہیلہ ، سمعیانہ ، میمونہ ، لہونہ ، انسابی ، بحرہ ، سمیہ ، مانہ ، حاضرہ ، قیماں ، صنیہ ، قمیہ ، عمارہ ، لیوزہ ، تہیبح ، قابیل ۔
حضرت شیث علیہ السلام (عمر ٩١٢ سال ) ۔ حنطل ، اہلنہ ، کیال ، رھنور ، سہیلہ ، سہیل ، مریط ، بربایک ، براکیل ، اسرائیل ، ابواکیل ، عریاد ، سمال ، رجس (مادر بیارو ) ، سنون ، بجلا ( مادر مہلائیل ) ، انوش یا پانس ۔
حضرت انوش یا پانس علیہ السلام (عمر ٩٠٥ سال ) قینان ، طالب ، برکہ ، سینہ ، مکفوفہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) شبیر بخاری ۔ انساب سادات چونیاں لاہور ١٩٨٤ عیسوی
(٢) سید مقصود نقوی ۔ ریاض الانساب ، المعروف بہ گلزار نقی ۔ لاہور ١٩٧٩ عیسوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٩١)
حضرت قینان علیہ السلام (عمر ٩٢٠ سال ) مہلائیل ، حسان ، مرسمیہ ، ہرمز ، قیمان ۔
حضرت مہلائیل علیہ السلام (عمر ٨٩٥ سال ) ، بیارو ، النان ، سمہلہ ، سومہ ، جار ۔
حضرت بیارو علیہ السلام (عمر ٢٤٠ سال ) اخنوخ یا ادریس ، مسمور ، مسرسمیہ ، ناج جیرکہ ، بلیغ ، بلغ ۔
حضرت اخنوخ یا ادریس علیہ السلام (عمر ٦٥٠ سال ، متوشح ، حوائل ، شیریر ، حویل ، سالخ ، صامہ ، صلحہ ، متوشبح ۔
حضرت متوشح (عمر ٩١٠ سال ) ملک نیک نام ، قیوش ، دشام ، مشروبہ ، ثرون ، سنونہ ، مہمینہ ، براکیل ۔
حضرت ملک نیک نام (٧٨٠ سال ) نوح ، مسمرکان ، یوقا ، مسمار ، سماریہ ، صارعہ ۔
ابوالبشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام (عمر ٩٥٠ سال ) سام ، یافث ، سقلاب ، سند راشد نحیف ، حاورہ ، ضمام ، غمر ، مسماروبہ ، حام ،
حضرت سام علیہ السلام ، ارفخشد ، ارم اکبر ، اسہور ، عویلم ، لاوز
حضرت ارفخشد یا ذوالحاد نبی اللہ ، ذوالبع ، غاہر ، سالخ ، سرقس ، فحب بانو
حضرت سالخ ذوالطبع علیہ السلام ، عابر یا ہود ، کاؤ غدیر ، سنیہ ، ہارو ، ہمیہ
حضرت عابر یا ہود علیہ السلام (عمر ٤٧٠ سال ) فالخ ، ایاز ، ذرع ، ذرار ، مومنہ ، قحطان ، مومرہ
فالغ یا شاہد (عمر ١٧٠ سال ) ارغو ، صادر بانو ، مسینیہ ، ملکان
ارغو یا عابد (عمر ١٧٩ سال ) شاروع یا قابض ، اشیا خانص ، ففر شاہ عاشق ، مگن بانو ، عاناطق ، عرس قبط
شاروع یا قابض (عمر ٢٣٠ سال ) ناخور ابوالفاتح منافق ، سارہ بانو ، ملکان ، مکنہ
ناخور (عمر ٢٤٠ سال ) تارخ ، باذر ، شاسح ، آذر ، ماذر ، بیقال ، باران
تارخ ۔۔۔ ابراہیم ، ناخور ، ہاران
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام (عمر ٢٠٠ سال ) ۔۔ اسماعیل ۔ اسحاق ، مدین ، مدان ، ایقشان
حضرت اسماعیل ذبیح اللہ (عمر ١٣٠ سال ) ۔ (٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣) حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد عدنان تک قریبا چالیس پشتوں کا فاصلہ ہے ۔ ان پشتوں کے نام واضح نہیں تھے ۔ اور مکمل طور پر معلوم نہیں تھے ۔ بقول علامہ شبیر بخاری صاحب سر سید احمد خاں نے تاریخ کی متعدد کتب اور اناجیل سے تحقیق کر کے ان ناموں کو معلوم کیا اور ترتیب دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٩٢)
قیدار ،، عوام ،، عوص اول ،، مرا ،، سمائے ،، رزاخ ،،ناجب ،، معصر ،، ایہام ،، افشار ،، عیسی علیہ السلام ،، حسان ،، عنقا ،، ارغو ،، ارعوا ،، بلخی ،، سجری ،، بری ،،یاسین ،، حمران ،، الرعا ،، عبید ،، عنف ،، عسقی ،، ماحی ،، ناحور ،،فاجم ،، کالح ،، بدلان ،، یلدارم ،، حرا ،، ناسل ،، ابی العوام ،، مہنسادیل ،، برد ،، عوص دوم ،، سلامان اول ،، الہمیسع اول ،، اود اول ،، عدنان اول (٦٠٠ ق م ) ،، سعد اول (٥٨٨ ق م )
سعد اول ۔۔ حمل ، ایاد ، قصاعہ ، فیض
حمل ۔۔ ثابت ، فلیظان ، ہجملان ، حومنہ ، سامرہ ، جامدہ
ثابت ۔۔ سلامان دوم
سلامان دوم ۔۔ الہمیسع دوم
الہمیسع دوم ۔۔ الیسع
الیسع ۔۔ اود دوم
اود دوم ۔۔ اد
اد ۔۔ عدنان دوم ، شمنان ، قرنان ، حسنان
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
(١٩٣)

عدنان دوم ۔۔ معد دوم ، حارثہ واسا ، قیدار ، عشرک ، عاقب ، ذوالعقد ، سالم ، طارخا ، زید ، عارفا ، مشمورہ ، مستورہ ، عقیلہ ، ثاقب ، مغرب ، عشرت ، مسعد
معد دوم یا ذو المعد ۔۔ نزار ، ضحاک ، خطار ، علوس ، فرار ، صحار ، مغرب ، حلہ بانو
نزار ۔۔ مضر ، اسد ، مصر ، مریم ، ربیعہ ، سلمی
مضر ۔۔ الیاس ، سراد ، صاوا ، صداف ، مسان ، عباس ، انب ، عیاف ، مناس ، سیادہ بانو ، ماریہ بانو
الیاس ۔۔ مدرکہ ، سرکو بانو ، مرکو بانو ، صدری خان
مدرکہ ۔۔ خزیمہ
خزیمہ ۔۔ کنانہ ، اسد ، سانہ بانو ، مادی بانو ، مالک
کنانہ ۔۔ نضر ، حزر ، بکر ، مضر خان ، مسوبہ ، شرطہ ، مرنقہ ، خضر
نضر ۔۔ مالک ، مشہو خان ، ذرہ خان ، مسنونہ
مالک یا ملک ۔۔ فہر ، حار ، مکرمہ
فہر (قریش ) غالب ، حارث ، طالب ، مرک
غالب یا سیلائیل ۔۔ لوی ، مرد ، حسان ، لابک خان ، علو خان ، صفت خان ، امام خان ، سیف خان ، حالف خان
لوی ۔۔ کعب ، عاز ، عرب ، ملہون ، تراب عمر
کعب ۔۔ عدی ، ملاح مسیدی ، معروف ، ہصیص ، سامرہ بانو
عدی ۔۔ مرہ ، سود ، زراخ
مرہ ۔۔ کلاب ، تیم ، عمر اصغر ، دلال ، حلاب ، حارث ، عمر
کلاب ۔۔ قصی ، مراب ، نصاب ، عبدالعزی ، بہرہ ، میمونہ
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 
Top