تاریخ بروالہ صفحہ 154 تا 156

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 154

قاری جی

ایک خدا رسیدہ بزرگ – واقف راز حقانی حضرت قاری سید محمد حسین گیلانی قدس سرہ بروالہ سیدان کے ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ بروالہ سیدان اور اس کے نواحی علاقہ کے تمام لوگ ان کے عقیدت مند تھے۔ اگرچہ ان کے عقیدت مند اور ۔۔۔۔۔۔۔ برصغیر کے دور دراز شہروں تک میں موجود تھے۔ مگر بروالہ سیدان اور اس کے نواح کے باشندوں کے لیے ان کی ہستی ایک روحانی سہارے کی حیثیت رکھتی تھی۔ مشکل اور مصیبت کے وقت میں لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دعا کی درخواست کرتے تھے اور ان کی دعا کے باعث خود کو مشکلات کے مقابلہ میں طاقتور اور حوصلہ مند محسوس کرتے تھے۔ وہ بینائی سے محروم تھے۔ مگر دینی اور روحانی رہنمائی کا کام بڑی خوبی سے انجام دیتے تھے۔ تمام علاقہ انہیں قاری جی کے نام سے یاد کرتا تھا۔ اور ان کے اس نام کے ساتھ ادب اور احترام کا جذبہ شامل ہوتا تھا۔ بروالہ سیدان کی روحانی اور تہذیبی زندگی پر ان کے اثرات بہت گہرے تھے۔ اس لیے اس کتاب میں ان کا تذکرہ شامل کرنا ضروری خیال کیا گیا۔

پیدائش – قاری جی کی پیدائش بروالہ سیدان میں 1285 ہجری میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید طفیل علی شاہ گیلانی تھا۔ ان کا شجرہ نسب حضرت پیران پیران پیر غوث الاعظم سیدنا میراں محی الدین سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ سے جا ملتا ہے۔ بروالہ سیدان میں سادات کے چند گھرانے ایسے آباد تھے جو گیلانی سید کہلاتے تھے۔ حضرت قاری جی کا تعلق اسی سادات سے تھا۔ اس کتاب کی ترتیب کے دوران راقم الحروف نے بارہا سادات کے گیلانی بزرگوں سے درخواست کی کہ وہ اپنا شجرہ نسب مہیا کر دیں تا کہ اس کتاب میں شامل کیا جا سکے۔ اس سبرہ کی موجودگی کبھی کہروڑ پکا اور کبھی ڈیرہ غازیخان میں بتائی جاتی رہی اور ہر بار پختہ وعدہ کیا جاتا رہا کہ شجرہ جلد مہیا کر دیا جائے گا۔ مگر یہ وعدہ کسی طرح پورا نہیں ہوا۔

تعلیم و تربیت – قاری جی کی زندگی کے حالات تفصیل سے مہیا نہیں ہو سکے ہیں۔ کوئی ایسا بزرگ باقی نہیں ہے جو اس سلسلہ میں کچھ معلومات کا ذریعہ بن سکے۔ چنانچہ چند روایات پر ہی بھروسہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ انہیں دین کے ساتھ بچپن سے ہی لگاؤ تھا۔ مگر بروالہ سیدان ہی نہیں بلکہ پورے علاقہ میں دینی تعلیم کا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔ اس سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ محلہ کی مسجد کے حافظ جی سے قرآن شریف پڑھ لیا جائے۔ کہتے ہیں قاری جی نے قرآن مجید پڑھ لینے کے بعد پانی پت کا رخ کیا جو اس زمانہ میں قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرات و تجوید کے لیے تمام شمالی برصغیر میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔ یہاں رہ کر قاری جی نے حتی المقدور دینی تعلیم کے حصول کا مقصد پورا کیا اور ساتھ ہی قرات و تجوید کے فن میں بھی مہارت حاصل کی۔ اس لیے وہ بعد میں قاری جی کے لقب سے مشہور ہوئے۔

ان کی بیعت اور روحانی تعلیم و تربیت کے بارے میں وثوق سے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ایک روایت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 155

مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ صابری کے زیر تربیت رہے اور انہی سے فیضان حاصل کیا۔ اپنی زندگی میں انہوں نے جو روحانی شجرہ چھپوایا تھا اور جو اپنے ہر مرید کو عطا فرمایا کرتے تھے، اس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ کے فیض یافتہ اور صاحب اجازت تھے۔ یہ غالباً ایسے ہوا ہو گا کہ پانی پت کے قیام کے دوران روحانی تشنگی دور کرنے کے لیے مرشد کی تلاش کی ضرورت پیش آئی ہو گی۔ ان دنوں حضرت مولانا رشید احمد رحمۃ اللہ بہت بلند مقام بزرگوں میں شامل تھے۔ ان کا شہرہ سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ہوں گے اور حلقہ بیعت میں داخل ہو گئے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی کسی بات یا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کتنا عرصہ گنگوہ میں مقیم رہے، روحانی مدارج کی کن بلندیوں تک پہنچے اور مرشد نے کب انہیں صاحب اجازت بنایا۔

روحانی مرتبہ – اس کے بعد ان کی زندگی کا صرف وہ دور سامنے آتا ہے جب ڈھلتی عمر کے ساتھ وہ بروالہ سیدان میں مقیم ہوئے۔ اور آہستہ آہستہ لوگ ان کی جانب رجوع کرنے لگے اور ان کی ذات روحانی خیر و برکت کا باعث سمجھی جانے لگی۔ اگرچہ ان کے مرید بمبئی، میرٹھ اور دیگر دور دراز مقامات تک پھیلے ہوئے تھے اور وہ انہیں اصرار کے ساتھ اپنے ہاں بلاتے رہتے تھے۔ وہ کچھ عرصہ کے لیے ادھر ادھر چلے بھی جاتے تھے، مگر اس کے بعد زیادہ تر ان کا قیام بروالہ میں ہی رہا۔ بروالہ کے نواحی دیہات کے باشندے انہیں اکثر و بیشتر اپنے ہاں لے جایا کرتے تھے۔ لیکن اس بات کی اطلاع تمام علاقہ کو رہتی تھی کہ قاری جی آجکل کس گاؤں میں مقیم ہیں۔ اس طرح لوگ ضرورت پڑنے پر آسانی سے ان تک پہنچ جاتے تھے۔ ان کی روحانی عظمت کا قائل علاقہ کا ہر شخص تھا۔

یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ بروالہ سیدان سے اٹھنے والی روحانی شخصیات پر جلالی رنگ غالب رہا ہے۔ قاری جی کا بھی یہی حال تھا۔ ہرکہ و مہ کی مجال نہیں تھی کہ ان کے شامنے زبان کھول سکے۔ ان کی بزرگی کا بڑا رعب تھا۔ ساتھ ہی بے تحاشا بڑی موٹی موٹی گالیاں دیا کرتے تھے۔ ان گالیوں سے لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ مگر ان کے سامنے بات کرتے ہوئے ہر شخص گھبراتا تھا۔ صرف چند لوگوں کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ ان کے سامنے بے تکلفی کے ساتھ ہر بات کہہ لیتے تھے۔ قرآن پاک سننے کے بڑے شائق تھے، مگر اسی شخص سے سنتے تھے جو اچھی قرات کے ساتھ درست پڑھ سکتا تھا۔ ورنہ فوراً ٹوک دیتے تھے اور فرماتے تھے ۔ "ابے کیوں اللہ میاں کو گالیاں دے رہا ہے۔"

1947 عیسوی میں ان کا کردار – 1947 عیسوی میں تقسیم برصغیر کے زمانہ میں ہنگاموں، فسادات اور تشویشناک حالات کے دوران ان کی ذات بروالہ سیدان کے لیے بڑی تقویت اور سہارے کا باعث بنی رہی۔ بلکہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بروالہ سیدان میں اس وقت ان کی موجودگی اور ان کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالٰی نے بروالہ کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا۔ انہوں نے گھوڑی پر سوار ہو کر چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور تمام قصبہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے کچھ پڑھ کر پھونکتے رہے۔ اس طرح انہوں نے کئی چکر لگائے اور بتایا کہ قصبہ کے گرد انہوں نے حصار کھینچ دیا ہے۔ اس حصار کے اندر کوئی شخص بری نیت سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ قصبہ میں رہنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بستی کی حدود سے ہرگز باہر نہ نکلیں۔ اس ہدایت پر جب تک عمل ہوتا رہے گا قصبہ محفوظ رہے گا۔ قصبہ کے لوگوں نے اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا۔ اور اللہ تعالٰی نے اپنے ایک نیک بندے کی کہی ہوئی بات کی لاج رکھی کہ قصبہ ہر طرح کے نقصان سے بالکل محفوظ رہا۔

پاکستان میں آمد – پاکستان میں آنے کے بعد قاری جی کے خاندان کے لوگ چک نمبر 333/ای-بی میں آباد ہوئے۔ یہ چک بورے والا کے نواح میں ہے۔ مگر قاری جی کبھی ایک جگہ مقیم نہیں ہوئے۔ ان کے عقیدت مند انہیں لیے پھرتے رہتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 156

تھے۔ ابھی ایک جگہ کے لوگ پوری طرح خدمت نہیں کر پائے تھے کہ دوسرے جگہ کے لوگ انہیں لینے کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ ان کی اپنی طبیعت میں بھی کچھ ایسی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی کہ چند دن ٹک کر ایک جگہ قیام کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔ اچھے خاصے ایک جگہ ٹھہرے ہوتے تھے کہ اچانک حکم دے دیتے تھے کہ انہیں فلاں جگہ پہنچا دیا جائے۔ ان کے حکم سے سرتابی کی مجال کسی کو نہیں تھی۔ اس لیے اس کی تعمیل کی جاتی تھی۔ چنانچہ وہ ان مقامات کا چکر لگاتے رہتے تھے جہاں بروالہ کے سادات آ کر آباد ہو گئے تھے۔ یا پھر لاہور کا رخ کرتے تھے۔ یہاں وہ اکثر آتے اور قیام کرتے تھے کیوں حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ سے انہیں بڑی عقیدت تھی۔

ان ایام میں جب کہ وہ مختلف مقامات پر جاتے رہتے تھے اور لوگوں کا رجوع ان کی جانب زیادہ ہو گیا تھا، بہت سے لوگوں کو ان کے نزدیک رہنے اور کچھ خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ اس قسم کے بہت سے واقعات روایتاً بیان کئے جاتے ہیں اور اس بیان کا مقصد قاری جی کی بزرگی کے اظہار کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے واقعات کی روایات کو اگر جمع کیا جائے تو کئ صفحات کا مواد مہیا ہو سکتا ہے۔ مگر اس کا فائدہ کچھ نہیں۔ بس یہ کافی ہے کہ قاری جی ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے اور ان کی بزرگی کا اعتراف دور دور تک کیا جاتا تھا۔

داتا صاحب رحمۃ اللہ سے عقیدت – قاری جی کو حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ سے بہت عقیدت تھی۔ اس لیے وہ اکثر لاہور آیا کرتے تھے اور مہینوں یہاں مقیم رہتے تھے۔ یہاں بھی ان کے بہت سے عقیدت مند تھے جو ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ پاکستان آ جانے کے بعد وہ یا تو بورے والا اور اس کے نواح میں آباد سادات بروالہ کے گھرانوں میں رہتے تھے یا پھر لاہور آ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتے تھے۔ بعض اوقات تو بورے والا کے نزدیک کسی گاؤں میں بیٹھے بیٹھے تیار ہو جاتے اور فرماتے، مجھے لاہور پہنچا دو۔ غرض حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ کے ساتھ انہیں ایسی وابستگی تھی کہ لاہور آنا اور یہاں قیام کرنا انہیں بہت اچھا لگتا تھا۔ اسی لیے دعا کیا کرتے تھے کہ انہیں داتا صاحب کے قریب قبر کی جگہ ملے۔

انتقال – اس دعا کو اللہ تعالٰی نے قبول فرما لیا۔ ان کا جب آخری وقت آیا تو وہ لاہور میں تھے۔ اور حضرت داتا صاحب کی درگاہ میں مقیم تھے۔ یہاں ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور بیمار ہو گئے تو ان کے ایک مرید مولانا عبد العزیز انہین اپنے مکان سنت نگر لے گئے۔ علاج اور دیکھ بھال کی گئی۔ مگر خالق حقیقی کا بلاوا آ گیا تھا۔ چنانچہ یکم جمادی الثانی 1377 ھ کو واصل بحق ہوئے۔ کرشن نگر ساندہ روڈ والے قبرستان میں جناز گاہ کے مغرب میں محراب کے بالکل قریب سپرد خاک کیا گیا۔

مزار اور عرس – بورے والا کے نواح میں کوٹ رامچند میں رہائش پذیر سادات بروالہ کے گھرانے ان کے بہت عقیدت مند ہیں۔ انہوں نے پہلے تو ان کی قبر کے تعویذ کو پختہ بنوایا۔ اس کے بعد روضہ کی تعمیر شروع کرا دی جو آہستہ آہستہ گنبد سمیت مکمل ہو گیا۔ یہی گھرانے ہر سال لنگر کا سامان لیکر مزار پر پہنچتے ہیں اور عرس کا اہتمام کرتے ہیں۔ شروع میں عرس جمادی الثانی کی پہلی اور دوسرے تاریخ کو منعقد ہوتا تھا۔ پندرہ سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ لیکن موسم کے تقاضوں اور دیگر اسباب کی بنا پر 1982 عیسوی میں ان کے عقیدت مندوں اور مریدوں نے طے کیا کہ ہر سال چیت کی چودہ اور پندرہ تاریخوں میں عرس ہوا کرے گا۔ چنانچہ اب یہ عرس ان تاریخون میں ہوتا ہے۔
 
Top