تاریخ بروالہ سیداں : صفحہ 28

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
2nteq12.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 28

مانتے ہیں اور اسی نام کی ایک دیوی بھی ہندو دیو مالا میں مذکور ہے۔ یہ علم کی دیوی ہے۔ اس کی تجسیم ایک سفید عورت کی شکل میں کی جاتی ہے۔ جو چنبیلی کے ایک سفید پھول پر کھڑی ہے اور بانسری بجا رہی ہے۔ وہ لوگوں کو علم اور فصاحت بخشنے والی ہے۔ اس کے نام پر بڑی دھوم دھام سے جشن منائے جاتے ہیں۔ (Muhammad Latif Syed, History of the Punjab, Lahore 1981, P.) اس کے علاوہ اس علاقہ میں ایک بستی بھی ہے جس کا نام تاریخ فیروز شاہی میں سرستی لکھا ہے۔ (ضیاء الدین برنی۔ تاریخ فیروز شاہی (اردو ترجمہ) لاہور 1969، ص 793)۔ کچھ لوگوں نے اس بستی کا نام سرسوتی بھی لکھا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو بعد میں سرسہ کے نام سے مشہور ہوا۔

دریائے گھگھر : دریائے سرسوتی کے بارے میں‌ مؤرخین کی آراء کا جائزہ لینے کے بعد دریائے گھگھر کے بارے میں اگر تاریخوں میں پڑھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ دریا بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے کسی طرح کم تر نہیں ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی افادیت، تاریخ اور آثار کے لحاظ سے یہ دریا سرسوتی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس کا ایک اندازہ اسی بات سے ہو سکتا ہے کہ اسے کتنے سارے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ گھگھر، گھاگھرا، مارکنڈا، باکڑا وغیرہ سب اسی کے نام ہیں۔ اگرچہ تاریخ فخرن پنجاب میں دریائے گھگر اور دریائے مارکنڈا کا ذکر دو علٰیحدہ دریاؤں کی حیثیت سے کیا گیا ہے، مگر اس سے اصل حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور پوری تفصیل پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی دریا کی بات کی گئی ہے۔ بلکہ مصنف نے آخر میں خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ پہلے اس نے دریائے مارکنڈا کے بارے میں بیان کیا ہے کہ سرمور کے علاقہ میں ناہن کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا ستر میل چل کر دریائے سرستی میں شامل ہو جاتا ہے، جس کی مشرقی شاخ شرستی اور مخربی شاخ گھگھر کہلاتی ہے۔ مگر طغیانی ے دنوں میں یہ تینوں دریا ایک ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان تینوں دریاؤں کا مخرج بھی ایک ہی پہاڑ ہے جو انتیس میل تک پھیلا ہوا ہے۔ (مفتی غلام سرور لاہوری۔ تاریخ مخزن پنجاب۔ نولکشور، لکھنؤ 1877، ص 8)۔

اس کے بعد دریائے گھگھر کے بارے میں بیان کرتے وقت بھی یہی لکھا ہے کہ کوہ سرمور اور علاقہ ناہن کے پہاڑ سے نکلتا ہے۔ پھر اس کے طویل راستہ کا بیان ہے کہ کس کس مقام سے گزرتا ہوا آخرکار ریگستان میں گم ہو جاتا ہے۔ (مفتی غلام سرور لاہوری۔ تاریخ مخزن پنجاب۔ نولکشور، لکھنؤ 1877، ص 8)۔ اس بیان سے یوں لگتا ہے کہ یہ ایک ہی دریا کا ذکر دو ناموں سے کیا جا رہا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک دریا کی دو مختلف شاخیں ہیں جو خاص مقامات پر الگ الگ ناموں سے معروف ہیں۔ بلکہ ایک تیسرا نام باکڑہ بھی اسی طرح کی ایک شاخ کی بدولت وجود میں آیا ہے۔ اس حد تک کہ اس نام سے تو ایک وادی منسوب ہے۔ اس کے بارے
 
Top