تاریخ بروالہ سیداں۔ ص 19-27

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 19

بروالہ سیدان کا محلِ وقوع، قدامت ، وجہ تسمیہ

بروالہ سیدان
بررالہ سیدان ایک بہت مشہور اور قدیم تاریخی قصبہ ہے۔ یہ ضلع حصار (ہندوستان) میں واقع ہے۔ تقسیمِ برصغیر سے قبل اس کی آبادی کی غالب اکثریت سادات خاندانوں پر مشتمل تھی۔ اس کے نام ہی سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ سادات کی بستی تھی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پورے ضلع حصار میں صرف یہی ایک قصبہ تھا جہاں سادات کے گھرانے آباد تھے۔ اس کے علاوہ تمام ضلع سادات میں کوئی آبادی نہ تھی۔ اس ضلع میں اگر کسی بستی میں ایک دو گھرانے سادات کے موجود تھے تو ان کا تعلق بھی بروالہ سیدان سے ہی تھا۔ مثال کے طور پر ہانسی میں دو تین گھرانے سادات کے تھے۔ وہ کچھ عرصہ قبل بروالہ سیدان سے ہی وہاں جا کر آباد ہو گئے تھے۔
پنجاب کی اولین مستند تاریخ "تاریخ مخزن پنجاب" میں اس قصبہ کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے۔
"بروالہ۔ حصار کے ضلع میں قدیمی آبادی کا مکان ہے" ؂۱
ڈبلیو۔ ڈبلیو ہنٹر نے اس کے باشندوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
"آبادی کی اکثریت سید ہیں۔ جو قریبی زمینوں کے مالک ہیں۔"؂۲

بروالہ سیدان کا محلِ وقوع
یہ قصبہ ۲۲َ °۲۹درجہ شمالی عرض بلد اور َ۵۷ °۷۵ درجہ مشرقی طول بلد پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی ۷۳۰ فٹ ہے۔ حصار شہر سے شمال مشرق کی جانب واقع ہے اور حصار شہر سے اس کا فاصلہ ساڑھے اٹھارہ میل ہے اور ہانسی سے اس کا فاصلہ اٹھارہ میل ہے؂۳۔ دہلی بٹھنڈہ مین لائن پر واقع جاکھل جنکشن سے ایک برانچ لائن حصار تک جاتی ہے۔ اسی لائن پر بروالہ سیدان کا اسٹیشن واقع ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؂۱ مفتی غلام سرور لاہوری، تاریخ مخزن پنجاب، نولکشور ، لکھنؤ ۱۸۷۷ء ، ص ۶۳
؂۲ W W. Hunter, Imperial Gazetteer of India, London 1885, P. 179
؂۳ حصار ڈسٹرکٹ گزیٹیر ، جلد دوم ۱۹۳۵ء ، شماریاتی چارٹ نمبر ۳۰
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 20

تقسیمِ برِصغیر کے بعد اس اسٹیشن کا نام صرف "بروالہ" رہ گیا ہے۔ تقسیم سے قبل کوئی پکی سڑک اس علاقہ میں موجود نہیں تھی۔ البتہ ایک کچی سڑک تھی جو ہانسی سے بروالہ سیدان ہوتی ہوئی اکلانہ منڈی تک جاتی تھی۔ اس سڑک پر بعض اوقات لاریاں بھی چلتی تھیں۔ تقسیم کے بعد اس علاقہ کو بہت ترقی حاصل ہوئی ہے۔ اب یہاں سے حصار ، ہانسی اور دیگر کئی اطراف کو پکی سڑکیں نکلتی ہیں اور اس قصبہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

بروالہ سیدان کی قدامت
بروالہ سیدان کے بارے میں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ یہ ایک بہت قدیم آبادی کا قصبہ ہے۔ اس کی قدامت کا اندازہ اس کی وضع قطع کو ایک نظر دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے۔ یہ سارا قصبہ اونچے اونچے ٹیلوں پر آباد ہے۔ یہ ٹیلے اپنے اردگرد کی زمین سے پچیس تیس فٹ تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بلند ہیں۔ قصبہ کے چاروں جانب اور قصبہ کے درمیان بھی جا بجا کھنڈرات بکھرے ہوئے تھے۔ جو تقسیمِ برِصغیر کے بعد آبادی کے پھیلاؤ کے باعث باقی نہیں رہے ہیں۔ ان ٹیلوں اور کھنڈرات کو جب کسی غرض سے کھودنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو ان کے اندر سے قدیم اشیاء برآمد ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر مٹی کے نقشین برتنوں کے ٹکڑے، قدیم سکے اور مٹی کے کھلونے وغیرہ اکثر ملا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سرکاری طور پر بھی قصبہ کے شمال میں ایک ٹیلہ کے تھوڑے سے حصے کی کھدائی کی گئی تھی۔ جس کے نتیجہ میں ایک عمارت کے آثار برآمد ہوئے تھے۔ اس کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ مسجد ہے۔ مگر اس کے بعد نامعلوم وجوہ کی بنا پر مزید کھدائی نہیں کی گئی۔ کھدائی نہ ہو سکنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قدیم ٹیلے جہاں کھدائی کی ضرورت تھی وہ تمام کے تمام آبادی میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے اوپر رہائشی مکانات بنے ہوئے تھے۔ دوسرے یہ بات بھی ہو گی کہ اس قدر دور افتادہ مقام کو حکومت کی جانب سے اتنی اہمیت نہیں دی گئی کہ اس کی کھدائی کے اخراجات برداشت کئے جاتے۔ جہاں تک وہاں کی آبادی کا تعلق ہے تو وہاں کے باشندوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اپنے قصبہ کے تاریخی رشتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کے لئے یہ اعزاز ہی بہت کافی تھا کہ ایک بہت قدیم ، تاریخی اور مشہور قصبہ کے باشندے تھے۔
البتہ کبھی کبھار اتفاقاً بھی ایسے آثار ظاہر ہو جاتے تھے جو بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ 1936ء میں قصبہ کے مغرب کی جانب قصبہ سے بالکل متصل ایک تالاب کو صاف اور وسیع کرنے کے لیے اس کی کھدائی کی گئی تو قدیم طرزِ تعمیر کی سیڑھیاں، نالیاں اور شیشہ سے ڈھکی ہوئی روشیں برآمد ہوئی تھیں۔ اس تالاب کا نام "سیہانی" تھا اور قصبہ کے آس پاس واقع تمام تالابوں سے بڑا اور قدیم تالاب یہی تھا۔ اس تالاب کے شمالی کنارے پر ایک سفید گنبد بنا ہوا تھا ، جس کا دروازہ جنوب کی جانب عین تالاب پر کھلتا تھا۔ 1939ء میں کالا پانہ کے سیدوں نے اس گنبد کی تاریخی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اس کی مرمت کرا دی تھی۔
ان تمام ظاہری آثار و شواہد سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بروالہ سیدان ایک بہت قدیم اور بہت اہم تاریخی مقام تھا اور تاریخ کے کسی موڑ پر لازماً خصوصی امتیاز کا حامل رہا ہو گا۔ چنانچہ اس کی اس اہمیت کو تمام مؤرخ تسلیم کرتے ہیں۔ تاریخ مخزن پنجاب میں لکھا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 21

“ اس قصبہ کی آبادی ایک اونچے اور قدیمی ٹیلہ پر اب مختصر سی ہے۔“ ؂ 4
ہنٹر نے اس کے بارے لکھا ہے۔
“ اس کے چاروں جانب پھیلے ہوئے کھنڈرات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ قصبہ بہت اہم مقام رہا ہے۔“ ؂ 5
لیکن مورخین کے ان بیانات سے اس بات کے تعین میں کوئی مدد نہیں کہ یہ قصبہ کب آباد ہوا اور کتنا قدیم تھا۔ اگر یہاں کے کھنڈرات کی کبھی کھدائی کی جاتی تو شاید اس کی قدامت کا تعین ہو سکتا۔ اور ہو سکتا تھا کہ یہاں سے ایسے تاریخی آثار دریافت ہو سکتے جو اس علاقہ کی تاریخ کے نئے پہلوؤں کو ظاہر کرنے والے ہوتے۔ مگر ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اس کوشش کی غیر موجودگی میں اس قصبہ کی قدامت کا اندازہ کرنے میں سید محمد لطیف سے ہی ہمیں کچھ مدد ملتی ہے۔ پنجاب کی تاریخ پر وہ انتہائی قابلِ اعتماد مصنف مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ضلع حصار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
“ کوئی مسافر اس علاقہ میں جا نکلے تو جنوب مشرق کی جانب حصار کا ویران اور بے آباد علاقہ اور چچ دو آب کا باڑ کا علاقہ ایک عجیب منظر اس کی نظروں کے سامنے پیش کرے گا۔ اسے حد نظر تک ختم نہ ہونے والا ویران علاقہ نظر آئے گا۔ جس میں جنگلی گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں اگتی۔“
“ اس ویرانی میں کہیں کہیں کوئی جھونپڑی نظر آ جاتی ہے۔ جس میں وہ نیم وحشی لوگ آباد ہیں۔ جن کی گزر بسر اونٹ کے دودھ پر ہے۔ لیکن انسانوں سے بھری پری پُررونق آبادیوں سے دور دراز فاصلہ پر واقع اس ویران اور بے آباد علاقہ میں قدیم شہروں، دیہاتوں ، مندروں، تالابوں، کنوؤں اور ندی نالوں کے کھنڈرات اور آثار جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی زمانہ میں یہ علاقہ بھی اپنی رونق اور آبادی کے لحاظ سے کسی طرح کم تر نہیں تھا۔“ ؂ 6
یہاں تک تو وہی بات بیان کی گئی ہے جو بروالہ سیداں کے سلسلہ میں پہلے سے سامنے آ چکی ہے کہ کسی زمانہ میں یہ علاقہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ لیکن یہ بات کہ یہ زمانہ کون سا تھا۔ اور اس کے بعد اس علاقہ کی ویرانی کا سبب کیا ہوا؟ اس کے لیے ہمیں آگے چل کر اسی کتاب سے بڑی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

آریاؤں کا اولین وطن
چنانچہ آگے چل کر اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ آریا پہلے پہل برصغیر میں وارد ہوئے تو ان کا اولین وطن پنجاب کا خطہ بنا تھا۔ اِسی علاقہ میں ان کے اولین شہر اور بستیاں آباد ہوئیں اور ان کی سب سے پہلی مقدس کتاب بھی یہیں لکھی گئی۔

---------------------------
؂ 4 ۔ مفتی غلام سرور لاہوری۔ تاریخ مخزن پنجاب۔ نولکشور۔ لکھنؤ 1877ء ۔ ص 63
؂ 5۔ W.W. Hunter, Imperial Gazetteer of India, London 1885, P. 179
.؂ 6 Muhammad Latif Syed, History of the Punjab, Lahore 1991, P. 12
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 22

“ہندوستانی آریا شروع شروع میں صرف دریائے سندھ اور پنجاب کے علاقہ تک محدود تھے۔ چنانچہ ان کے پرانے نوشتوں میں دریائے سندھ کا ذکر بار بار ملتا ہے اور دریائے گنگا کا ذکر نہیں ملتا۔ اس طرح اس حقیقت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ گندم گوں نسل جب کوہ قراقرم کی بلندیوں سے اتر کر اس علاقہ میں داخل ہوئی تو اس نے سب سے پہلے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر قبضہ کیا تھا۔“ ؂7
بلکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق اب تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اس تہذیب کا مرکز ہی ہریانہ کا علاقہ تھا۔ چنانچہ کورو کھشیتر یونیورسٹی کے ماہرین کی اس تحقیق کے بارے میں 3 جنوری 1987ء کے روزنامہ “نوائے وقت“ لاہور میں ایک خبر شائع ہوئی ہے۔ جو یہاں نقل کی جاتی ہے۔
“ نئی دہلی 2 جنوری (ن۔ر) بھارت کی کوروکھشیتر یونیورسٹی کے ماہرین نے وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے۔ جس کے مطابق موہن جوڈارو اور ہڑپہ کی تہذیب کا دریائے سندھ یا وادیٔ سندھ سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اس تہذیب نے بھارتی صوبہ ہریانہ کے ضلع حصار میں دریائے سرسوتی کے کنارے جنم لیا۔ اور راجستھان اور گجرات کے علاقہ میں نشوونما پائی۔ اس طرح “ سندھو دیش“ موجودہ صوبہ سندھ کے کسی حصہ کو نہیں بلکہ بھارت کے ضلع حصار کو کہا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر وشنو شرمی دھر کے مطابق ضلع حصار میں بیس سال قبل کھدائی شروع کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں دریائے سرسوتی کے کنارے قدیم سندھی تہذیب کے نو سو آثار دریافت ہوئے ہیں اور مزید آثار ملنے کی توقع ہے۔ جب کہ صوبہ سندھ میں سندھی تہذیب کے صرف تیس آثار موجود ہیں۔ ڈاکٹر شرمی دھر کا کہنا ہے کہ قدیم زمانہ میں دریائے سرسوتی پانی پت کے قریب سے گزرتا تھا۔ اور مہا بھارت کی جنگ اس دریا کے کنارے لڑی گئی۔ جنگ کے بعد دریا خشک ہو گیا اور اس جنگ کے آثار رفتہ رفتہ معدوم ہوتے گئے۔
سید محمد لطیف نے آگے چل کر اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
“ رِگ وید (لغوی معنی سرچشمہ علم یا سر چشمہ بصیرت) جسے ہندو سب سے بلند مرتبہ ، سب سے زیادہ مقدس اور سب سے زیادہ قدیم شاستر تسلیم کرتے ہیں، اور جسے وہ الہامی کتاب مانتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ خدائی کلام ہے ، اس لئے مکمل ہے ، غلطیوں سے مبرا ہے اور تمام سچائیوں کا جامع ہے۔ یہ کتاب مقدس دعاؤں کا مجموعہ ہے جو بھجنوں کی شکل میں ہیں اور جن کی تعداد 1017 ہے۔“؂8
“رِگ وید کے بھجن پنجاب اور دریائے سندھ کے کنارے پر آباد بستیوں میں لکھے گئے تھے۔ یہاں (پنجاب) ہی یہ بھجن
------------------------------------------------------------------------------------------
؂7 ۔ ایضاً۔ ص 24
؂8۔ ایضاً۔ ص 28
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 23

گائے جاتے تھے تا کہ خدا ان کی برکت سے سیاہ چمڑی والی مقامی آبادی پر آریاؤں کو فتح عطا فرمائے۔ دریائے سندھ کو آریا دولت کی بخشیش کرنے والا دیوتا خیال کرتے تھے اور یہ دریا خصوصی تعریف اور احترام کا حقدار سمجھا جاتا تھا۔ “سپتا سندھوا“ یعنی سات دریاؤں کا ذکر بھی اس کتاب میں آریاؤں کے وطن کے سلسلہ میں کیا گیا ہے۔ ان سات دریاؤں میں سے ساتواں دریا سَر سَوتِی ہے جسے سَرسُوتی بھی کہا جاتا ہے۔ ان دریاؤں کو وید میں سات بہنوں کا نام دیا گیا ہے۔ ان ہی دریاؤں کے باعث یہ علاقہ خوب سیراب تھا اور سر سبز چراگاہوں سے پُر تھا۔“
“ اس کتاب میں گنگا اور جمنا کا نام کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ کوہ بندھیاچل اور نربدا کا تو قطعاً کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب اس کتاب کے بھجن لکھے گئے تھے، اس وقت تک آریا پنجاب کے علاقہ میں محدود تھے۔ بہادرانہ گیتوں کے اس زمانہ میں انہوں نے اپنی جو آبادیاں قائم کیں، ان میں سے ایک مشہور آبادی سرسوتی اور دریشدوتی(گھگھر) کے درمیان تھی۔ چونکہ زمین خداؤں( دیوتاؤں) کی پیدا کی ہوئی تھی۔ اس لیے انہوں نے اس تمام علاقہ کا نام ‘برہما ورت‘ رکھ دیا (یعنی مقدس گیتوں کی سرزمین)۔ یہ زمین اب تک بھی مقدس خیال کی جاتی ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے آریا آہستہ آہستہ جمنا اور گنگا کے زرخیز میدانوں تک پہنچے۔“ ؂9
اس بارے میں ایک اور مؤرخ نے رگ وید کے علاوہ یجر وید کی شہادت اس طرح بیان کی ہے۔
“بحر وید میں آریاؤں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آریا قوم جمنا اور گنگا کے درمیان زرخیز میدان کی جانب پیش قدمی کرنے سے پہلے اس مقدس علاقہ میں رہائش پذیر تھی جو دریائے سرسوتی اور دریائے دریشدوتی کے درمیان واقع ہے۔ یہ کورو کھشیتر کا میدان تھا۔ جسے بعد میں ہمیشہ تقدیس کے جذبہ کے ساتھ یاد کیا جاتا رہا ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں مہا بھارت جنگ لڑی گئی۔“ ؂10
ہندوؤں کے اس مقدس مقام کا ذکر “ تاریخ مخزن پنجاب“ میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں تھانیسر شہر کا حال بیان کرتے وقت لکھا ہے کہ ہندو اس شہر اور شہر کے نواح کو انتہائی متبرک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ایک قدیم راجہ نے جس کا نام کور تھا، اس جگہ اڑتالیس کوس مربع زمین، یعنی شہر کے چاروں جانب بارہ بارہ کوس زمین کو اپنے ہاتھ سے قلبہ رانی کر کے صاف کیا اور پھر اس جگہ بیٹھ کر برھما کی پرستش شروع کی۔ کئی سال کی اس طرح پرستش کے بعد برھما جی نے خوش ہو کر اس کو درشن دیا اور اس سے اس کی خواہش دریافت کی تو اس نے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ جو شخص اس اڑتالیس مربع کوس کے اندر مرے وہ مکت کو پراپت ہو جائے۔ برھما نے اس کی درخواست قبول کی اور اسی دن سے اس جگہ کانام “کور چھتر“ یا کور کھتر“ مقرر ہوا۔ بعد میں کورو

----------------------------------------------
؂9۔ ایضاً ص 28۔
؂10۔ E.J. Ropson, Ancient India, Cambridge University Press 1914, P. 47
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 24

اور پانڈو کے درمیان لڑائی ہوئی تو انہوں نے اپنے ایک بزرگ کے حکم کے مطابق لڑائی کے لیے اس جگہ کو پسند کیا۔ یہ لڑائی مہا بھارت کے نام سے مشہور ہے۔ اب اس اڑتالیس کوس کے اندر جا بجا مندروں اور تیرتھوں کے استھان بنے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا تیرتھ شہر میں ایک تالاب ہے۔ جس میں ایک شوالہ بنا ہوا ہے۔ یہاں مہا دیو کی پرستش ہوتی ہے۔ دوسرا سنت تالاب ہے۔ اس کے کناروں پر بھی مندر بنے ہوئے ہیں۔ شہر سے باہر کچھ فاصلہ پر ایک جھیل ہے کو ایک میل لمبی اور آدھ میل چوڑی ہے۔ اس کے درمیان ایک بریرہ 235 گز چوڑا ہے۔ اس پر آمد و رفت کے لیے دو پُل بنے ہوئے ہیں۔ جن کا طُول 235 گز سے زیادہ نہیں ہے۔ جھیل میں طغیانی آتی ہے تو پانی پُلوں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ یہاں تیسرا پُل اورنگزیب عالمگیر نے بنوایا تھا جو اب مسمار ہو گیا ہے۔ اس جزیرہ پر کوئی مندر نہیں ہے۔ صرف چاروں طرف سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ جن پر بیٹھ کر ہندو نہاتے اور پرستش کرتے ہیں۔ اس جھیل کا نام کورو کشیتر کی جھیل ہے۔ اس کے کناروں پر مہادیو اور لچھمی نارائن کے عالیشان مندر بنے ہوئے ہیں۔ پلوں کے نیچے اور کاثر مقامات پر گھاٹ بھی پختہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں کے اشنان کا ہندوؤں کی کتاب میں بڑا مہاتم لکھا ہوا ہے۔ اور سورج گرہن کے روز یہاں ہزاروں ہندو جمع ہوتے اور غسل کرتے ہیں۔ اس جھیل کے کنارے پر بے شمار درخت لگے ہوئے ہیں جو عجیب بہار دکھاتے ہیں۔ ؂11

سات دریاؤں کی سرزمین
آریاؤں نے برصغیر میں وارد ہونے کے بعد جس سرزمین کو اپنی رہائش گاہ بنایا اسے وہ “سپت سندھو“ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کہتے ہیں۔ یہی دریا ہیں جن کے کنارے انہوں نے اپنی اولین آبادیاں بسائیں اور جنہیں رگ وید کے گیتوں میں پیار سے سات بہنیں یا سات مائیں کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پروفیسر محمد صدیق چیمہ نے لکھا ہے۔
“دراوڑی اقوام پر آریاؤں کا غلبہ 2000 قبل میسح تک مکمل ہو چکا تھا۔ آریاؤں نے سب سے پہلے خطۂ پنجاب کو ہی رنگین کیا تھا۔ اور یہیں اپنی منتشر قوتوں کو متجمع کر کے آگے بڑھے تھے۔ قدیم ویدوں میں اس خطہ کو “سپت سندھوں“ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ ویدوں کی رزمیہ نظموں میں ان سات دریاؤں کا ذکر ہے۔1۔ سندھو(سندھ) 2۔ ودشتا (جہلم) 3۔ چندر بھاگا (چناب) 4۔ ایراوتی (راوی) 5۔ وپاس (بیاس) 6۔ شوتدری (ستلج) 7۔ سرستی (سرسوتی)۔ گویا سندھ سے لے کر سرسوتی تک کا علاقہ آریوں کے زیر نگین تھا۔ اور یہی علاقہ پنجاب کہلاتا ہے۔ رگِ وید میں بالخصوص دوسرے منڈل سے لے کر دسویں منڈل تک اس علاقہ کی معاشرتی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔“
“جس سرزمین میں آریا لوگ اپنے دیوتاؤں کی آمد و رفت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یا یہ مانتے تھے کہ اس کو انہوں نے پیدا کیا ہے۔ اس کا نام منو نے “برھما ورت“ لکھا ہے۔ غالباً اس نام سے پنجاب کا وہ کل حصہ مراد ہے۔ جہاں آریا ہندوستان میں

------------------------------------
؂11۔ مفتی غلام سرور لاہور۔ تاریخ مخزن پنجاب۔ نولکشور۔ لکھنؤ 1877۔ ص 81، 82
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 25

آگے بڑھنے سے پہلے آباد تھے۔“ ؂12
سات دریاؤں کی سرزمین کے بارے میں ایک اور مؤرخ لکھتے وقت سرسوتی کی جگہ گھگھر کا نام لکھتے ہیں۔
“پنجاب کے ساتوں دریا یعنی سندھ ، جہلم ، چناب، راوی، بیاس، ستلج اور گھگھر ہمالیہ سے نکلتے ہیں اور برف پوش پہاڑوں کے درمیان طویل راستہ طے کر کے ، جو بعض اوقات کئی سو میل پر مشتمل ہے، میدانی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں۔ میدانی علاقہ کا ڈھلان جنوب اور جنوب مغرب کی جانب ہے۔ اور بہت آہستہ ہے جو ایک میل میں دو فٹ سے زیادیہ نہیں ہوتا۔ یہی بات ان دریاؤں کے راستہ کو متعین کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر دریا نے اپنے لیے ایک وادی پیدا کر لی ہے۔“ ؂13
اس طرح اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ سرسوتی اور گھگھر ایک ہی دریا کے دو نام ہیں۔آریاؤں کی اولین رہائش گاہ بننے والی سرزمین میں بہنے والے دریاؤں کی تعداد تو سات ہی ہے۔ اس تعداد کا تعین ہندوؤں کی مقدس کتاب میں کر دیا گیا ہے۔ اس لیے یہی بات قرین قیاس نظر آتی ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی دریا کے ہیں۔ اگر انہیں الگ الگ دریاؤں کے نام تسلیم کیا جائے تو اس علاقہ کے دریاؤں کی تعداد آٹھ ہو جاتی ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی سید محمد لطیف کی بات بھی بہت وزن رکھتی ہے جو گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکی ہے کہ آریاؤں کی ابتدائی آبادیوں میں سے ایک مشہور آبادی سرسوتی اور دریشدوتی (گھگھر) کے درمیان واقع تھی۔ اس طرح یہ دونوں نام الگ الگ دریاؤں کے نظر آتے ہیں۔ اس مسئلہ کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ناموں سے موسوم دریا یا دریاؤں کے بارے میں مؤرخین نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ایک سرسری جائزہ لے لیا جائے۔ اور اس کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
یہ جائزہ بہت ضروری ہے اولاً اس لیے کہ مذکورہ سات دریاؤں میں سے صرف دو دریا ایسے ہیں جنہیں آریا مقدس مانتے ہیں۔ پہلا دریا سندھ ہے جسے وہ دولت کی بخشیش کرنے والا دیوتا سمجھتے تھے اور دوسرا دریا سرسوتی ہے۔ جسے وہ نہ صرف مقدس اور متبرک سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک دیوی کا روپ دیتے تھے اور اس کی پرستش کرتے تھے۔ بلکہ آج تک بھی اسی نام کی ایک دیوی ہندو علم اصنام میں موجود ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ دریائے سرسوتی اور دریائے گھگھر کا علاقہ ہی وہ خطہ ارضی ہے جہاں بروالہ سیدان آباد ہے۔ ثالثاً اس لیے کہ یہی وہ دریا ہے جسے پنجاب کا “نظر نہ آنے والا دریا“ (Unseen River) یا “سندھ کا گمشدہ دریا " (Lost river of Sindh) کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں بحث و مباحثہ اور قیاس ارائیاں طویل عرصہ سے جاری ہیں۔ اس سلسلہ میں پہلے ہم سرسوتی کے بارے میں مورخین کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں۔

دریائے سرسوتی
پنجاب کی اولین مستند تاریخ “تاریخ محزن پنجاب“ میں اس دریا کا نام “سُرسَتِی “ لکھا ہے اور تفصیل اس طرح بیان کی ہے۔

---------------------------------------
؂12۔ پروفیسر محمد صدیق چیمہ۔ مضمون۔ پنجاب کی قدیم تاریخ اور لسانی ورثہ ، ماہنامہ ادب لطیف، لاہور۔ جلد 71 شمارہ 271۔ ص 5۔
؂13۔ Bekhsish Singh Nijar, Punjab Under the Mughals, Lahore 1977, P. 26
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 26

“ہندوؤں کے عقیدہ میں یہ دریا انتہائی متبرک ہے۔ اور اس کے پانی سے غسل کرنا بڑا ثواب ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اصل میں سرستی برہما کی لڑکی کا نام ہے۔ جو عقل کی دیوی کہلاتی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو اس دریا کی صورت میں ظاہر کیا ہے۔ اور چونکہ تھانیسر کے آگے عین میدانِ گورنگ کے جنگل میں جا کر گم ہو جاتی ہے۔ تو اصل میں پانی اس کا جذب نہیں ہوتا بلکہ زمین کے اندر گھس کر الٰہ آباد کے قلعہ کے نیچے جا نکلتا ہے۔ اور وہاں سے تھوڑی دور چل کر گنگا و جمنا کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔ باعث اس کا یہ ہے کہ جب یہ سرستی پہاڑ سے اتری تو اس کے ہاتھ میں کتاب یعنی عقل کی پوتھی تھی۔ اس کو وہ دیکھتی ہوئی گورنگ کے میدان تک پہنچی۔ وہاں راکشش یعنی بھتنے حملہ آور ہوئے اور چاہا کہ اس سے وہ کتاب چھین لیں۔ اسی وقت وہ ندی کی صورت بن کر شرم کے مارے زمین میں گھس گئی۔ اور زمین کے اندر ہی اندر بہتی ہوئی گنگا کے پاس الٰہ آباد کے قلعہ میں جا پہنچی۔ اور وہاں زمین سے نکل کر باہر گنگا میں شامل ہو گئی۔ دراصل یہ دریا سرمور کے پہاڑ ناہن کے جنوب مشرقی گوشہ سے نکلتا ہے۔ اور جنوب مشرق کی سمت چل کر جب تیس میل کا راستہ طے کر لیتا ہے تو ایک اور پہاڑی ندی جس کا نام کہرکی ہے۔ اس کے ساتھ شامل ہو کر، پھر تھوڑا سا اسی سمت چل کر یہ دریا دو شاخوں میں منقسم ہو جاتا ہے۔ مشرقی شاخ کا نام چھتنگ اور مغربی شاخ کا نام سرستی ہے۔ برسات کے موسم میں یہ اور دریائے گھگھر اور مارکنڈا تینوں ایک ہو جاتے ہیں۔ صرف وہ گاؤں جو اونچے ٹیلوں پر آباد ہیں۔ اس کی طغیانی سے محفوظ رہتے ہیں۔ کیونکہ پانی ان کا بذریعہ مصنوعی اور قدرتی نہروں اور کھیت میدانوں تک دور دور تک پھیل جاتا ہے۔ دو شاخوں میں تقسیم ہونے کے بعد جنوب مغرب کی طرف کو پینتیس میل چل کر تھانیسر تک آ پہنچتا ہے۔ وہاں سے پھر مغرب کی سمت کو سترہ میل چل کر مارکنڈا سے مل جاتا ہے۔ پھر قریب چالیس میل کے اور چل کر دریائے گھگھر میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ شمول کی حالتیں اس کی اس حالت میں ہیں کہ جب اس میں پانی کثرت سے ہو۔ اور اگر پانی کم ہو تو تھانیسر کے آگے بڑھ کر گورنگ کے ریگی میدانوں میں پانی اس کا بالکل جذب ہو جاتا ہے۔ سردی کے موسم میں پانی اس میں بہت ہی کم ہو جاتا ہے۔ اور دور سے اس کے پانی کی سفیدی ایک لمبے تاگے کی مانند دکھائی دیتی ہے۔“ ؂14
سرکاری انتظام میں لکھی گئی ایک کتاب میں اس دریا کے بارے میں اس طرح لکھا ہے۔
“سرسوتی دریا کے بارے میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں اس کا پانی باکڑہ کی وادی میں بہتا تھا۔ جب کہ آجکل سرسُوتی کا زائد پانی اس وادی کی جانب رخ کرتا ہے۔ صورتِ حال چونکہ یہ تھی کہ جمنا اور ستلج کے درمیان بہنے والے تمام ندی نالوں کا پانی سرسوتی دریا میں جمع ہو جاتا تھا اور یہ دریا اس خشک علاقہ کو سیراب کرتا تھا جو دریائے سندھ اور دریائے گنگا کی وادیوں کے درمیان واقع تھا۔ اس لیے اس علاقہ کے رہنے والے اور اس علاقہ سے گزرنے والے اس دریا کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس دریا کا ذکر رگِ وید میں ان الفاظ میں ملتا ہے۔ وہ دیوی جو پہاڑوں سے سمندر تک پوتر ہے۔“

------------------------
؂14۔ مفتی غلام سرور لاہوری۔ تاریخ مخزن پنجاب۔ نولکشور۔ لکھنو 1877ء۔ ص 918
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 27

ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سرسوتی کسی زمانہ میں سمندر تک ایک علٰیحدہ دریا کی شکل میں بہتا تھا۔ مگر یہ بات شاید درست نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کا پانی پنجند تک لازماً پہنچتا تھا۔ مگر ان دنوں میں بھی اس میں بہت زیادہ پانی نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ مہا بھارت میں ایک کہانی ملتی ہے کہ برہمن سادھو اُتادھیا کی خوبصورت بیوی کو وَرُوُنا دیوتا اس کی جھونپڑی سے اٹھا کر لے گیا تو سادھو نے اس دریا سے کہا کہ “سَرسوَتی، تُو ریگستان میں غائب ہو جا اور اس علاقہ کو ناپاک ہو جانے دے۔“ اور دریا نے اس کی خواہش پر عمل کیا۔ اس طرح ایک دوسری قدیم روایت اس طرح ہے کہ سَرَسوَتی مہا دیو کی بیٹی تھی۔ ایک دن اس کے باپ نے شراب کے نشہ میں دھت ہو کر اس کا پیچھا کیا۔ وہ اپنا آپ بچانے کے لیے بھاگی۔ مہا دیو اس کے تعاقب میں رہا۔ اور جب اس نے دیکھا کہ اس کا باپ اسے پکڑنا ہی چاہتا ہے تو وہ غوطہ لگا کر زمین کے نیچے چلی گئی۔ جس راستہ پر وہ بھاگ رہی تھی وہاں ایک دریا پیدا ہو گیا۔ وہ دریا اس مقام پر زمین کے نیچے غائب ہو جاتا ہے جہاں وہ زمین کے نیچے چلی گئی تھی۔ یہ دریا زمین کے نیچے بہتا ہوا الٰہ آباد کے قریب پریاگ کے مقام پر گنگا اور جمنا کے مقدس دریاؤں میں جا ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف کے مطابق سَرَ سوَتی اس علاقہ کی ایک سرحد بناتا تھا جسے سیانوں نے “برہما ورت“ کا نام دیا تھا۔ کیونکہ اس میں دیوتا رہتے تھے۔“ ؂15
گویا یہ دریا جو کسی زمانہ میں پنجند تک بہتا تھا اور وہاں جا کر دریائے سندھ میں شامل ہوتا تھا۔ وہ آریاؤں کے ابتدائی زمانہ میں ایک وسیع علاقہ کو سیراب کرتا تھا اور اس کی سر سبزی اور شادابی کا باعث تھا۔ پروفیسر محمد صدیق چیمہ لکھتے ہیں۔
“آریا قومیں جو ہند میں آئیں۔ وہ سینکڑوں برس تک پنجاب میں آباد رہیں۔ سرسوتی ندی جو کبھی ستلج اور جمنا کے درمیان بہتی تھی اور اب ریگستانوں میں غائب ہے۔ ان دنوں دریائے سندھ میں جا کر گرتی تھی۔ چنانچہ اس ندی کو لوگ پوتر مانتے تھے۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ اس وقت یہ ندی آریاؤں کی بڑی بڑی بستیوں کے بیچ میں سے ہو کر گزرتی تھی اور وہ لوگ غالباً صد ہا سال تک اِسی کے کناروں پر آباد رہے۔“ ؂16
طبقات ناصری کے ترجمہ کے حاشیہ پر اس دریا کے بارے میں لکھا ہے۔
“اسے سُرسُتی یا سُر سوَتی پڑھنا چاہئیے۔ یہ دریا اب پہلی حالت پر موجود نہیں ہے۔ سرستی دریا کے خشک ہونے پر علاقہ کی شادابی ختم ہو گئی ہے اور آبادی کی پہلی حالت باقی نہیں رہی۔“ ؂17
اس سلسلہ میں یہ بات شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ سَرسُوَتی ایک دریا کا نام بھی ہے جسے آریا مقدس اور متبرک

-----------------------------
؂15۔ سرسہ ڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ رپورٹ 1879ء۔83۔ ص 25
؂16۔ پروفیسر محمد صدیق چیمہ۔ مضمون ، پنجاب کی قدیم تاریخ اور لسانی ورثہ“ ماہنامہ ادب لطیف“ لاہور جلد 71۔ شمارہ 271۔ ص 5
؂17۔ منہاج سراج۔ طبقات ناصری۔ جلد اول (اردو ترجمہ) لاہور 1975۔ حاشیہ ص 712



۔۔۔۔۔۔۔۔​
اختتام​
ص 19-27​
 
Top