ص 27
ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سرسوتی کسی زمانہ میں سمندر تک ایک علٰیحدہ دریا کی شکل میں بہتا تھا۔ مگر یہ بات شاید درست نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کا پانی پنجند تک لازماً پہنچتا تھا۔ مگر ان دنوں میں بھی اس میں بہت زیادہ پانی نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ مہا بھارت میں ایک کہانی ملتی ہے کہ برہمن سادھو اُتادھیا کی خوبصورت بیوی کو وَرُوُنا دیوتا اس کی جھونپڑی سے اٹھا کر لے گیا تو سادھو نے اس دریا سے کہا کہ “سَرسوَتی، تُو ریگستان میں غائب ہو جا اور اس علاقہ کو ناپاک ہو جانے دے۔“ اور دریا نے اس کی خواہش پر عمل کیا۔ اس طرح ایک دوسری قدیم روایت اس طرح ہے کہ سَرَسوَتی مہا دیو کی بیٹی تھی۔ ایک دن اس کے باپ نے شراب کے نشہ میں دھت ہو کر اس کا پیچھا کیا۔ وہ اپنا آپ بچانے کے لیے بھاگی۔ مہا دیو اس کے تعاقب میں رہا۔ اور جب اس نے دیکھا کہ اس کا باپ اسے پکڑنا ہی چاہتا ہے تو وہ غوطہ لگا کر زمین کے نیچے چلی گئی۔ جس راستہ پر وہ بھاگ رہی تھی وہاں ایک دریا پیدا ہو گیا۔ وہ دریا اس مقام پر زمین کے نیچے غائب ہو جاتا ہے جہاں وہ زمین کے نیچے چلی گئی تھی۔ یہ دریا زمین کے نیچے بہتا ہوا الٰہ آباد کے قریب پریاگ کے مقام پر گنگا اور جمنا کے مقدس دریاؤں میں جا ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف کے مطابق سَرَ سوَتی اس علاقہ کی ایک سرحد بناتا تھا جسے سیانوں نے “برہما ورت“ کا نام دیا تھا۔ کیونکہ اس میں دیوتا رہتے تھے۔“ 15
گویا یہ دریا جو کسی زمانہ میں پنجند تک بہتا تھا اور وہاں جا کر دریائے سندھ میں شامل ہوتا تھا۔ وہ آریاؤں کے ابتدائی زمانہ میں ایک وسیع علاقہ کو سیراب کرتا تھا اور اس کی سر سبزی اور شادابی کا باعث تھا۔ پروفیسر محمد صدیق چیمہ لکھتے ہیں۔
“آریا قومیں جو ہند میں آئیں۔ وہ سینکڑوں برس تک پنجاب میں آباد رہیں۔ سرسوتی ندی جو کبھی ستلج اور جمنا کے درمیان بہتی تھی اور اب ریگستانوں میں غائب ہے۔ ان دنوں دریائے سندھ میں جا کر گرتی تھی۔ چنانچہ اس ندی کو لوگ پوتر مانتے تھے۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ اس وقت یہ ندی آریاؤں کی بڑی بڑی بستیوں کے بیچ میں سے ہو کر گزرتی تھی اور وہ لوگ غالباً صد ہا سال تک اِسی کے کناروں پر آباد رہے۔“ 16
طبقات ناصری کے ترجمہ کے حاشیہ پر اس دریا کے بارے میں لکھا ہے۔
“اسے سُرسُتی یا سُر سوَتی پڑھنا چاہئیے۔ یہ دریا اب پہلی حالت پر موجود نہیں ہے۔ سرستی دریا کے خشک ہونے پر علاقہ کی شادابی ختم ہو گئی ہے اور آبادی کی پہلی حالت باقی نہیں رہی۔“ 17
اس سلسلہ میں یہ بات شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ سَرسُوَتی ایک دریا کا نام بھی ہے جسے آریا مقدس اور متبرک
-----------------------------
15۔ سرسہ ڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ رپورٹ 1879ء۔83۔ ص 25
16۔ پروفیسر محمد صدیق چیمہ۔ مضمون ، پنجاب کی قدیم تاریخ اور لسانی ورثہ“ ماہنامہ ادب لطیف“ لاہور جلد 71۔ شمارہ 271۔ ص 5
17۔ منہاج سراج۔ طبقات ناصری۔ جلد اول (اردو ترجمہ) لاہور 1975۔ حاشیہ ص 712
۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
ص 19-27