تاریخ بروالہ سیدان 233

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۳


ایک حافظ صاحب روزانہ آتے تھے قرآن پاک سنایاکرتے تھیں۔تہجد گزار تھیں۔غرض انتہائی عبادت گزار اور زاہد خاتون تھیں۔آخر عمر میں اللہ تعالٰی نے حج کی سعادت سے بھی سرفراز فرمادیاتھا۔
اللہ تعالٰی نے انہیں مہلت اور توفیق عطا فرمائی کہ اپنے تمام فرائض انتہائی خیر خوبی کے ساتھ اداکرکے فارغ ہوئیں۔کسی قسم کی حسرت دل میں نہیں رہی ہر تمنا اور خواہش اللہ تعالٰی نے پوراکردیا۔
سادات بروالہ کی وہ واحد خاتون تھیں جنہوں نے اپنے ماحول اور معاشرہ پر دور رس بہتری کے اثرات چھوڑے۔ان کے سکول میں تعلیم پانے والی خواتین کی تعداد ان گنت ہے اور وہ ہمیشہ ان کا ذکر ادب اور احسان مندی کے ساتھ کرتی ہیں۔بروالہ میں ان کی ذات گویا ایک ادارہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ایسا ادارہ جس نے اپنے معاشرہ کے رخ کو تبدیل کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ان کے روشن کئے ہوئے دئے کی روشنی خواہ کتنی بھی مدہم تھی مگر جہالت کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بسا غنیمت تھی جہاں دوردور تک ذرہ برابر چمک کا امکان نظر نہیں آتا تھا۔اس طرح ان کی ذات سادات بروالہ کی خواتین کے لئے ایک نئے دور کی تمہید بنی اور انہیں قابل تقلید سمجھاگیا۔
اللہ تعالٰی نے انہیں مہلت اور توفیق عطا فرمائی کہ اپنے تمام فرائض انتہائی خیر و خوبی کے ساتھ ادا کرکے فارغ ہوئیں۔اپنے تمام بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھا۔ہر تمنااور خواہش کو اللہ تعالٰی نے پورا فرمایا اور کسی قسم کی حسرت دل میں نہیں رہی ۔اور نفس مطمئنہ کی صورت میں اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوئیں آخر وقت تک اپنے معمول کے کاموں مین مصروف رہیں۔نہ بیمار ہوئیں نہ بستر پر پڑیں۔اچانک بلاوا آیا اور انہوں نے بلاوے پر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے لبیک کہا۔اس دن ۷ جون ۱۹۸۰ء کی تاریخ تھی۔انتقال بورے والا میں ہوا اور اپنے شریک حیات کے پہلو میں آخری آرامگاہ بنی۔
 
Top