تاریخ بروالہ سیدان 232

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۲


کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کردی گء۔مگر مقصد سچا اور نیت پر خلوص ہو تو ہر مشکل اور ہر رکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔وہ کسی بات اور الزام کی پرواہ کئے بغیر مستقل مزاجی سے خاموش کے ساتھ اپنے کام میں رہیں۔اس سکول کا اجراء ان کے اپنے گھر کے صحن میں ایک شاگرد کے ساتھ ہوا تھا۔مگر کچھ عرصہ کے بعد اسے وہ صورت ہوگئی کہ محکمہ تعلیم نے اسے اردو پرائمری سکول کی حیثیت سے منظور کرلیا اور پھر مخالفین کی لڑکیوں نے بھی اسی سکول سے تعلیم حاصل کی۔یہ سکول بروالہ سیدان کی مسلمان لڑکیوں کے لئے علم کی روشنی کا منبع ثابت ہوا اور وہاں کی ہر پڑھی لکھی لڑکی اس کی فیض یافتہ تھی قیام پاکستان تک یہ سکول سیدہ کرم دولت کے آبائی گھر کے ایک حصہ میں قائم تھا۔ان کے بعد ان کی چھوٹی بہنیں اس کی ذمہ دار بنیں جو اسی سکول کی تعلیم یافتہ تھیں۔
سیدہ کرم دولت کی والدہ کا انتقال جلد ہوگیا تھا۔اسلئے گھر کی دیکھ بھال اور چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش کی ذمہ داری انہوں نے سنبھالی۔اس ذمہ داری کو انہوں نے اس تدبر اور سلیقہ سے نبھایا کہ لوگ دیر تک اس کی مثال دیا کرتے تھے۔ان کی اس خوبی کو دیکھ کر سید حسن علی کے صاحبزادے سیدممتاز حسن کیلئے ان کے رشتہ کی درخواست کی گئی۔سید ممتاز حسن غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے حامل شخص تھے۔ان کی توجہشعر و ادب،مطالعہ و تحریر،فنون لطیفہ اور سیر و شکار کی جانب زیادہ رہتی تھی۔زنگی کے مادی پہلو ان کے لئے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔اسلئے انہیں لاابالی اور غیرذمہ دار شخص سمجھاجاتاتھا۔اسی لئے ان کا گھر بسانے کے لئے سیدہ کرم دولت کو چنا گیا تھا۔بعد میں خاندان کے بزرگ ہمیشہ تسلیم کرتے رہے کہ یہ گھر صرف سیدہ کرم دولت کے تدبر اور سلیقہ کی بدولت آباد ہوگیا۔ورنہ یہ کھٹن کام اور کسی خاتون کے بس کی بات نہیں تھی۔
خاوند کی درویش منشی،استغنا اور غیر مادی رویہ نے انہیں ہمیشہ مشکلات میں مبتلا رکھا۔لیکن اپنی خوش تدبیری کے باعث انہوں نے اس گھر کو ہم چشموں میں کبھی کم تر نہیں ہونے دیا۔گھر کے سارے کام پورے وقار ساتھ انجام تک پہنچائے،تمام تقریبات پوری شان و شوکت سے اداکیں۔خاندان کے ساتھ روابط میں خودداری اور توقیر کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔بلکہ علم کے لحاظ سے اپنے گھر کو نہ صرف اپنے خاندان بلکہ تمام علاقہ میں امتیاز اور تفوق کا حامل بنایا۔یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھاکہ تمام علاقہ میں سب سے پہلا مسلمان گریجویٹ ان کا بیٹا بنا۔کالج میں پہنچنے والی سب سے پہلی لڑکیاں ان کی بیٹیاں تھیں اور سب سے ایم۔اے کرنے والا ان کا بیٹا ہے۔علم کے لئے ان کے شوق اور وابستگی کا اظہار ان کے ہر اقدام سے ہوتا تھا۔اپنے بچوں کے لئے بھی ان کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہی تھی کہ وہ علم کے میدان میں آگے بڑھیں۔
ان کے تدبر،سلیقہ اور دانائی کے باعث تمام قصبہ میں انہیں انتہائی احترام اور تکریم کا درجہ حاصل تھا۔مسلمان اور غیر مسلم گھرانوں کے افراد اپنے مسائل ،مشکلات اور اہم معاملات کے بارے میں ان سے مشورے اور ہدایت کے طالب ہوا کرتے تھے۔قصبہ کی معاشرتی زندگی میں انہیں جو قابل احترام درجہ حاصل تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے قصبہ میں ان کی اولاد باپ کے بجائے ماں کے حوالہ سے پہچانی جاتی تھی۔اور اس حوالہ سے ان بچوں جو بے انتہا پیار اور محبت ملتی تھی اس کا سلسلہ غیر مسلم گھرانوں تک پھیلا ہوا تھا۔
نماز،روزہ اور تلاوت کے ساتھ اس قدر شغف تھا کہ لگتاتھا ہروقت ان کا دھیان ان عبادات میں رہتاہے۔کسی نہ کسی بہانے اکثر روزے رکھا کرتی تھی۔نماز کا یہ عالم تھا کہ انتہائی ضروری مصروفیات کے دوران بھی ذرا سی مہلت ملتی تو مصلٰی پر جاکر نفل پڑھنے لگتی تھیں۔ ان کی پسندیدہ جگہ تمام گھر میں وہی تھی۔جہاں مصلٰی بچھاہوتا تھا۔تلاوت میں کبھی ناغہ نہیں ہوتاتھا بلکہ اس کے لئے اس قدر اہتمام تھا کہ آخر عمر تک
 
Top