بیٹیاں - لوک کہانی (پنجاب)

اس لوک کہانی کی نوک پلک سنوارنے میں جناب تلمیذ صاحب نے میری مدد کی ہے۔ بہت شکریہ سر
۔۔۔۔

کہانی کچھ یوں ہے کیونکہ عموماً ایک دفعہ کا ذکر ہوتا ہے تو ۔۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے راجہ کی بیوی فوت ہو گئی، راجہ کی دوبیٹیاں تھیں، جو کم عمر تھیں اور راجہ خود بھی جوان تھا، سو کچھ عرصہ بعد اس نے دوسری شادی کر لی۔ اب جو خاتون سوتیلی ماں بن کر آئی تو اسے راجہ کی پہلی بیوی سے ہوئی دونوں بیٹیاں ہر وقت کھٹکتی رہتیں اور وہ یہی سوچتی کہ ان دونوں سے کس طرح چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ ایسے میں وہ سارا دن دونوں لڑکیوں کو مختلف کاموں پر لگائے رکھتی اور ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ بھی جاری رکھتی اور جیسے ہی راجہ کے گھر آنے کا وقت ہوتا تو سر باندھ کر لیٹ رہتی اور راجہ کو کہتی کہ تیری دونوں بیٹیوں نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اور میں تو سارا دن ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو جاتی ہوں۔ راجہ کبھی بیٹیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور کبھی چپ ہو رہتا۔ بچیاں ادب کی وجہ سے باپ کے سامنے کوئی بات نہ کرتیں۔ لیکن بچیوں کی سوتیلی ماں روزانہ نت نئی شکایات لگاتی رہتی ۔۔ اس نے راجہ کو بہت تنگ کیا اور ایک دن کہہ دیا کہ یا یہ دونوں اس گھر میں رہیں گی یا میں۔۔۔ بیوی کی بات سن کر راجہ سوچ میں پڑ گیا ۔

راجہ کی بیٹیاں تھیں تو کم عمر لیکن انھیں ہر بات کا علم تھا کہ ان کی سوتیلی ماں کیسے ہر روز ان کے والد کو ان کے خلاف بھڑکاتی رہتی ہے۔جب سوتیلی ماں نے یہ کہا کہ یا یہ رہیں گی یا میں۔۔تو انھوں نے اپنے والد کو پریشانی سے بچانے کا فیصلہ کر لیا ، اور خود ہی کہا کہ آپ ہمیں ہماری ماں کی قبر پر چھوڑ آئیں، ہم یہاں نہیں رہیں گی تو ہماری سوتیلی ماں آپ کو تنگ بھی نہیں کرے گی۔ راجہ۔۔مرتا کیا نہ کرتا، دونوں بیٹیوں کو لے گیا اور ان کی ماں کی قبر پر چھوڑکر خود گھرآ گیا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ میں انھیں ان کی ماں کی قبر پر چھوڑ آیاہوں۔

وہ دونوں بہنیں ماں کی قبر پررہنے لگیں۔ قبر کے ساتھ بیری کا ایک درخت لگا ہوا تھا۔۔دن میں وہ دونوں اس کی چھاؤں میں بیٹھی رہتیں، ماں کی قبر کے اردگرد جھاڑو پھیرتیں، صفائی ستھرائی کرتیں اور گرنے والے بیروں سے پیٹ بھر لیتیں۔اور رات کو وہیں سو جاتیں۔

ادھر کچھ دن گزرے تو سوتیلی ماں کو خیا ل آیا کہ پتہ تو کروں کہ وہ زندہ ہیں کہ مر گئی ہیں۔ اس نے اپنی پالتو بلی کو جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا۔ بلی نے واپس آکر بتایا کہ وہ دونوں زندہ ہیں اورماں کی قبر پر لگی بیری کی چھاؤں میں سارا دن آرام کرتی ہیں اور گرنے والے بیروں کو چن کر پیٹ بھر لیتی ہیں۔ یہ سن کر اسے بہت غصہ آیا۔ شام کو راجہ گھر آیا تواس نے راجہ سے کہا میں سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی ہوں اور کوئی کام کرنا چاہتی ہوں۔ تم ایسا کرو کہ مجھے چرخا بنوا کر دو ۔اور چرخا بھی اس بیری کا جوتمھاری پہلی بیوی کی قبر پر لگا ہوا ہے۔ راجہ جو مکمل طور پر اس کے دام میں آ چکا تھا ، اس نے وہ بیری کٹوا دی اور اپنی بیوی کو چرخا بنوا کر دے دیا۔

جب بیری کٹ گئی تو دونوں بہنیں پریشان ہوئیں کہ اب کیا کھائیں گی ؟ ۔۔دونوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور روزانہ شام کو کہیں سے چاولوں کی ایک پلیٹ وہاں آ نے لگ گئی اور وہ دونوں وہی کھا کر اپنے دن گزارنے لگیں۔۔۔ بڑی بہن روزانہ چھوٹی بہن کوکھانے سے پہلے سمجھایا کرے کہ دیکھنا کوئی چاول کا دانہ نیچے ناگر جائے، اور رزق کی بے حرمتی نہ ہو۔۔ یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہم دونوں سے ناراض ہو جائیں اور ہمیں یہ چاول ملنے بند ہوجائیں۔

کچھ دن اور گزرے تو راجہ کی بیوی نے پھر اپنی بلی کو بھیجا اور اس سے کہا کہ جاؤ دیکھ کر آؤ کہ وہ زندہ ہیں کہ مر گئی ہیں۔۔ اگر زندہ ہیں تو کیا کھاتی ہیں۔۔؟

بلی وہاں چلی گئی اور چھپ چھپ کر انھیں دیکھتی رہی ۔۔۔اب چھوٹی بہن ہر ممکن کوشش کرتی کہ کوئی دانہ نیچے نہ گرے، لیکن چھوٹی تھی، زیادہ دن خیال نہیں کر سکی اور ایک دن اس سے ایک دانہ نیچے گر گیا۔۔ بلی نے فٹا فٹ وہ دانہ اٹھایا اپنےکان میں رکھا اور واپس اپنی مالکن کے پاس پہنچ گئی۔۔۔اورساری صورتحال بتائی کہ وہ دونوں زندہ ہیں اور یہ کھاتی ہیں۔ سوتیلی ماں کو اور غصہ چڑھ گیا کہ دو تین کوششیں کر کے دیکھ لیا، لیکن یہ دونوں زندہ بھی ہیں اور انھیں کھانے کو بھی مل رہا ہے۔

شام کوراجہ آیا تو اس نے ایک نئی بات کی۔۔ کہ تمھاری دونوں لڑکیاں روزانہ مجھے خواب میں آ کر ڈراتی ہیں اور میں نے فلاں فلاں سے پوچھا ہے کہ اس کا کیا حل ہے؟ تو اس نے کہا ہےکہ جب تک وہ دونوں لڑکیاں تمھارے شوہر کی سلطنت میں رہیں گی تو تمھیں خواب میں ڈراتی رہیں گی۔۔تم ایسا کرو کہ انھیں کہیں دور چھوڑ آؤ۔ راجہ جو مکمل طور پر اس کی گرفت میں آ گیا تھا اس نے حامی بھر لی کہ وہ کل ہی انھیں کہیں دورچھوڑ آئے گا۔

اگلی صبح راجہ سویرے سویرے اپنی بیوی کی قبر پر پہنچ گیا اور دونوں بیٹیوں سے کہا کہ آؤ کچھ گوبر اکٹھا کر لیں۔۔۔دونوں بیٹیاں باپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور اس کے ساتھ گوبر اکٹھا کرنے لگ گئی اوروہ تینوں دوپہر تک چلتے چلتے کافی دور نکل آئے ۔ جب دوپہر تھوڑا ڈھل گئی تو راجہ نے دونوں بیٹیوں کو ایک درخت کے نیچے بٹھایا اورانھیں کہا کہ تم دونوں یہاں کھیلو میں ذرا اپنی پگڑی دھو لوں۔۔ کافی میلی ہو گئی ہے ۔ دونوں بیٹیاں وہاں کھیلنے لگ گئی اور راجہ ایک طرف چلا گیا۔ بیٹیوں کو کچھ دیر بعد ٹھک ٹھک کی آواز آنے لگ گئی جیسے کوئی ڈنڈے سے کپڑے دھو رہا ہو۔۔

کافی وقت گزر گیا اور شام ہونے والی ہوئی تودونوں بیٹیاں پریشان ہو گئیں کہ اتنی دیر ہو گئی ہمارا والد واپس نہیں آیا اور آواز بھی آرہی ہے۔ آخر دونوں ندی کی طرف چل پڑیں، وہاں پہنچ کر کیا دیکھا کہ ایک درخت کی شاخ سے کپڑے کے ٹکڑے کے ساتھ ایک انگلی لٹک رہی ہے اور ہوا کے چلنے کے ساتھ ہل ہل کر درخت کے تنے سے ٹکرا رہی ہے، جس سے ایسی آواز پیدا ہو رہی جیسے کوئی ڈنڈے سے کپڑے کوٹ رہا ہے۔ دونوں کو سمجھ آ گئی کہ ان کا والد انھیں اکیلا چھوڑ کر چلاگیاہے۔

اب اندھیرا بھی بڑھ چکا تھا ۔۔دونوں پریشان ہوئیں کہ اب کہاں جائیں! اتنے میں بڑی بہن نے چھوٹی کو کہا کہ تم کسی درخت پر چڑھو اور دیکھو کسی طرف روشنی ہے؟ چھوٹی بہن نے ایک درخت پر چڑھ کر چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے ایک طرف روشنی دکھائی دی وہ نیچے آ ئی اور بہن کو بتایا کہ اس طرف روشنی ہے۔۔بڑی بہن نے کہا کہ اس کا مطلب ہے وہاں کوئی نہ کوئی گھر ہے ، آؤ، ادھر چلتے ہیں شاید کوئی ہمیں رات بھر کے لیے پنا ہ دے دے۔ آخر اس سمت چلتے چلتے وہ ایک گھر تک پہنچ گئیں۔

وہ گھر ایک بڑھیا کا تھا۔ بڑی بہن نے بڑھیا کو اپنے ساتھ بیتنے والےسارے واقعات سنا کر ایک رات ٹھہرنے کی اجازت مانگی۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ ۔۔۔بیٹا۔۔۔ میں تم دونوں کو ہمیشہ کے لئے رکھ لوں لیکن ایک مسئلہ ہے۔۔وہ کیا اماں۔۔۔؟ بڑی بہن نے پوچھا۔۔۔بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔۔ کہ میرا ایک بیٹا ہے جو بندے کھاتا ہے۔۔۔اور وہ تم دونوں کو بھی کھا جائے گا۔۔۔ بڑی بہن نے کہا۔۔کہ اماں جی۔۔ آپ اس کے آنے پر ہمیں کہیں چھپا دینا۔۔۔ ایک رات کی ہی تو بات ہے ۔۔۔ہم۔۔۔صبح چلی جائیں گی۔ اماں مان گئی اور دونوں کو مکان کے اندر بلا لیا۔

آدھی رات کے وقت بڑھیا کا بیٹا گھر آیا تو بڑھیا نے فوراً دونوں لڑکیوں کو چھپا دیا ۔۔۔بڑھیا کا بیٹا اندرآتے ساتھ ہی ۔۔۔آدم بو۔۔ آدم بو۔۔ کی آواز لگانے لگ گیا ۔۔ اور ماں سے کہا کہ اماں ہمارے گھر میں کوئی ہے۔۔ بڑھیا نے بہتیرا کہا کہ بیٹا میرے سوا کوئی نہیں۔۔لیکن وہ نہیں مانا اور گھر میں تلاشی شروع کر دی۔۔۔ جب اس نے دانے رکھنے والےبھڑولے میں ہاتھ مارا تو چھوٹی بہن مل گئی اور کپڑوں والی پیٹی سے بڑی بہن بر آمد ہو گئی ۔۔۔ دو دو لڑکیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا کہ آج کھانے کو بہت ملے گا ۔۔۔اس نے کڑاہے میں تیل ڈال کر اس کے نیچے آگ لگا دی اور دونوں لڑکیوں کو کہا ۔۔کہ چلو اس کے گرد چکر لگاؤ ۔

بڑھیانے پہلے ہی دونوں لڑکیوں کو بتا دیاتھا کہ وہ بندے کو اس کے گرد چکر لگواتا ہے اورجب آٹھ دس چکرہو جاتے ہیں تو اٹھا کر کڑاہے میں پھینک دیتا ہے۔۔اور بھون کر کھا جاتا ہے۔۔ ادھر وہ دونوں بہنیں بھی منصوبہ بنا چکی تھیں کہ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں اٹھا کر پھینکے ہم اسے پھینک دیں گی۔۔ اورہوا بھی یونہی ۔۔ وہ تیل میں جل کر مر گیا اور بڑھیا کی بھی ایسے ناخلف بیٹے سے جان چھوٹ گئی۔

اگلے دن سے وہ دونوں وہیں رہنا شروع ہو گئیں۔ چھوٹی بہن دن میں جانوروں کو چرانے لے جاتی اور بڑی بہن نے گھر میں کھانے پکانے ، سینے پرونے اور صفائی ستھرائی میں بڑھیا کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ۔

اسی طرح کچھ وقت گزر گیا اور وہ دونوں بھی ادھر ہی رہنے کی عادی ہو گئیں ، کہ ایک دوپہر دروازہ کھٹکا، بڑھیا دروازے پر گئی تو وہاں ایک گھڑ سوار موجود تھا، اس نے بڑھیا سے کہاکہ اماں میں فلاں ملک کا شہزادہ ہوں اور شکار پر نکلا ہوں لیکن اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہوں۔۔۔ میرے پاس یہ بٹیر ہیں تم مہربانی کر کے انھیں بھون دو، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔ بڑھیا نے اس سے بٹیر لےکر بڑی بہن کو دئیے کہ وہ اسے بھون دے۔۔ بٹیر بھن گیا تو بڑھیا نے شہزادے کو دے دیا اور وہ چلا گیا۔ لیکن۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں شہزادہ پھر واپس آگیا اور بڑھیا سے پوچھا کہ بٹیر کس نے بھوناتھا !!!۔۔۔بڑھیا نے کہا کہ میری بڑی بیٹی نے۔۔۔ شہزادے نے کہا کہ یہ جس نے بھی بھونا ہے وہ بہت سگھڑ ہے، کیا تم اس کی شادی میرے سے کرو گی ۔۔۔ بڑھیا نے اندر جا کر لڑکی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ میری ماں ہی ہیں جو فیصلہ کریں گی مجھے منظور ہے ۔۔بڑھیا نے باہر آ کر شہزادے کو ہاں کہہ دیا اور اسے کچھ دن بعد بارات لانے کا کہا۔

بارات کے آنے سے کچھ دن پہلے چھوٹی بہن نے بڑی بہن سے کہا کہ باجی تم دور چلی جاؤ گی اور کبھی میرا ملنے کا دل کیا تو کیسےڈھونڈوں گی تمھارا گھر!! بڑی بہن نے جواب دیا کہ میں ڈولی میں ایک برتن سرسوں کے بیجوں کا رکھ لوں گی اور راستے میں پھینکتی جاؤں گی جب تمھارا ملنے کو دل کرے تو تم سرسوں کو دیکھتے دیکھتے میرے پاس پہنچ جانا۔

دن گزرتے گئے، شہزادہ مقررہ دن بارات لیکر بڑھیا کےمکان پر پہنچ گیا اور بڑی بہن کو بیاہ کر ساتھ لے گیا۔ وہ سرسوں کے بیج سارے راستے میں بکھیرتی گئی۔۔لیکن شومئی قسمت ،کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بیج ختم ہو گئے۔

چند ماہ گزرے تو چھوٹی بہن کا دل چاہاکہ اپنی بہن سے جا کر ملوں۔ اس نے بڑھیا سے جانے کی اجازت مانگی اور سرسوں کے پھوٹے ہوئے پودوں کو دیکھتے دیکھتے اپنا سفر شروع کر دیا ۔۔۔لیکن ایک شہر کے نزدیک جا کر سرسوں کے پودے ختم ہو گئے ۔۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ اب کیا کرے۔۔۔ آخر۔۔ اس نے وہیں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنا لیا اور ایک تندور لگا کر لوگوں کو روٹیاں لگانے اور دانے بھون کر دینے لگی۔

تندور کے لیے لکڑیاں اور گھانس پھونس اکٹھا کرنے کے لیے وہ اردگرد جاتی رہتی تھی، اسی طرح ایک دن وہ کہیں سے لکڑیاں اکٹھی کر رہی تھی کہ اسے بچے کے رونے کی آوازآئی۔اس نے دیکھا کہ ایک بچہ کوڑا کرکٹ پر پڑا ہوا ہے ۔وہ بچے کو اٹھا کر اپنے جھونپڑے میں لے آ ئی ۔۔ اور اسے پالنا پوسنا شروع کر دیا ۔۔۔جب بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے اسے کچھ کھلونے لا کر دئیے، جس میں لکڑی کا گھوڑا بھی تھا ۔

بچہ ایک دن اپنے لکڑی کے گھوڑے کو ندی پر لے گیا اورآواز لگائی ۔۔۔آٹھ کاٹھ کے گھوڑے پانی چھو پی جا۔۔وہاں پر نزدیک ہی وہی شہزادہ اپنے گھوڑے کو پانی پلا رہا تھا۔ اس نےبچے سے یہ بات سنی تو اس سے کہا کہ بھلا کبھی آٹھ کاٹھ کے گھوڑے نے بھی پانی پیا ہے!!!

بچہ جب گھرآیا تو اس نے اپنی 'ماں' سے کہا کہ آج ندی پر ایک ایسا ایسا لباس پہنے گھڑ سوار تھا اس نے مجھے کہا ہے کہ کبھی آٹھ کاٹھ کے گھوڑے نے بھی پانی پیا ہے !!! ۔۔۔۔ اس کی ماں نے یہ بات سنی تو اسے کہا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کہے تو تم اسے یہ جواب دینا۔۔کہ کبھی بادشاہ زادیوں نے بھی چھاج انگاروں کا پیدا کیا ہے!!!

کچھ دنوں کےبعد بچہ اور شہزادہ پھر ایک ہی وقت ندی پر اکٹھے ہوئے تو بچے نے پھر ' آٹھ کاٹھ کے گھوڑے پانی چھو پی جا' کی صدا لگائی، شہزادے نے یہ سنا تو اسے کہا کہ تمھیں پہلے بھی کہا ہے کہ آٹھ کاٹھ کے گھوڑے پانی نہیں پیتے۔۔۔بچے نے اسے جواب دیا کہ 'اگر بادشاہ زادیاں چھاج انگاروں کا پیدا کر سکتی ہیں تو آٹھ کاٹھ کے گھوڑے بھی پانی پی سکتے ہیں' شہزادہ یہ جواب سن کر فوراً اپنے گھر روانہ ہو گیا۔

شہزادے نے گھر پہنچ کر اپنی ساری بیویوں کو اکٹھا کیا اور انھیں مارا پیٹا کہ آج ایک چھوٹے سے بچے نے مجھے یہ بات کی ہے، سچ سچ بتاؤ۔ (اصل میں ہوا کچھ یوں تھا کہ شہزادہ ایک مہم کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے گھر سے دور گیا ہوا تھا اور اس دوران اس کی نئی بیوی (بڑی بہن) کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ لیکن شہزادے کی دوسری بیویوں نے حسد میں آ کر اس بچے کو کوڑاکرکٹ پر پھینک دیا اور جب شہزادہ واپس آیا تو انھوں نے بتایا کہ بچہ ضائع ہو گیا ہے)۔ اب جب شہزادے نے سختی کی تو اس کی بیویوں نے سچ اگل دیا ۔ ساری بات شہزادے کی سمجھ میں آ گئی ۔۔ وہ بچے کو ڈھونڈتا ہوا جھونپڑے تک آیا اور اپنی بیوی کی بہن اور بیٹے کو اپنے گھر لے آیا ۔۔ دونوں بہنیں ہنسی خوشی رہنے لگیں۔

یہاں یہ داستان ختم ہو گئی ۔۔ لیکن ایک دن دروازے پر کوئی فقیر آیا ۔۔۔ چھوٹی بہن اسے خیرات دینے گئی تو کھلے دروازے سے بڑی بہن نے بھی فقیر کی جھلک دیکھی۔ چھوٹی بہن دروازہ بند کر کے واپس مڑی تو بڑی بہن نے کہا ۔۔۔پتہ نہیں مجھے کیوں شک پڑ رہا ہے کہ یہ فقیر ہمارا والد ہے۔۔۔تم جاؤ اور ذرا اسے اندر بلا کر لاؤ۔۔ بڑی بہن نے فقیر کو پہچان لیا وہ واقعی ہی ان کا والد تھا۔ جس سے سارا مال ودولت اور سلطنت دوسری بیوی نے اپنے بھائیوں کے ساتھ ملکر چھین لی تھی اور اب وہ در دربھیک مانگ رہا تھا ۔۔ لیکن بیٹیاں آخر بیٹیاں ہوتی ہیں۔۔۔انہوں نےوالد کو بھی اپنے گھر میں رکھ لیا۔
 
بہترین کہانی ہماری نظر سے نہ جانے کہاں چھپی رہ گئی تھی۔
دل تو بچہ ہے جی
شمالی پنجاب اور ہزارہ کے کچھ علاقوں میں اس سے ملتی جلتی کہانی سینہ بہ سینہ دادیوں، نانیوں اور ماؤں سے اگلی نسل کو منتقل ہوتی رہی ہے۔ اب شاید یہ رواج ہی ختم ہو گیا۔
اردو میں لکھی اس کہانی میں وہ مزا اور سرُور نہیں جو اسے پنجابی میں سننے میں ہے۔
 
Top