بیوی کو قتل کرنے کا سہل ٹوٹکا۔۔۔ وہ بھی عین اسلامی فتوے کی روشنی میں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسینی

محفلین
مجھے ایک تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اسلامی قوانین فٹا فٹ مرنے مارنے پر کیوں اتر آتے ہیں؟ :)
۔
بالکل برعکس۔۔۔۔ اسلام تو انسانی جان اور ناموس کی سب سے زیادہ قیمت اور عزت کے قائل ہے۔۔۔ اور اک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور اک شخص کے زندہ کرنے کو ساری انسانیت کی زندگی سمجھتا ہے۔۔
البتہ انسانی جان ومال اور ناموس کی حفاظت کی ہی خاطر اسلام نے قصاص اور دیت کے سخت قوانین بنائے ہیں۔۔۔ کہ جن قوانین کو ان کی روح کے ساتھ اگر معاشرے میں رائج کیا جائے تو گارنٹی کے ساتھ تمام جرائم فورا سے پہلے ختم ہوجائیں گے۔۔ اسی لیے اسلام نے کہا کہ قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے۔۔ حالانکہ اک شخص کی زندگی جا رہی ہے۔۔ لیکن اس کے زندگی جانے میں ہی باقی سب کی زندگی آئندہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگی۔۔ اور آئندہ کسی کو ایسا جرم کی جرات نہ ہوگی۔
البتہ میں ان باتوں سے لڑی کے عنوان میں موجود فتوے کی ہرگز حمایت نہیں کر رہا۔۔۔ اور احباب کہہ چکے ہیں کہ غلطی مسلمان کی ہے۔۔۔ اسلام کی نہیں۔
 
بھئی واہ، حضور کیا ہی ایمان افروز اور مفید مراسلہ ہے۔
ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی آپ کو مخلصانہ طور پر ایک راہ حل سجھا رہا ہے، تو اس پر طنز کرنے کے بجائے اس کو تشویق کرنا چاہیے۔۔۔
:)
 

حسیب

محفلین
البتہ اس حوالے سے اتنا سنا ہوا تھا کہ وہ شوہر اس شخص مثلا زید کو اسی جگہ یعنی اپنے بیڈروم میں قتل کر سکتا ہے جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ بدفعلی کر رہا ہے۔۔۔
چونکہ بعد میں اس پر گواہ قائم کرنا ممکن نہیں۔۔۔ اور یہ قتل، قتل عمد شمار نہیں ہوگا۔
البتہ بیوی کو مارنے کے بارے میں ایسا کبھی نہیں سنا تھا۔۔۔
بہر حال موضوع تحقیق طلب ہے۔۔۔ ۔ اسلام خون اور ناموس کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس ہے۔۔۔ اور کسی کی جان لینے کی آسانی سے اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔
اس کو قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟؟؟
 

فاتح

لائبریرین
[quote="حسینی, post: 1536363, member: 6735"]البتہ اس حوالے سے اتنا سنا ہوا تھا کہ وہ شوہر اس شخص مثلا زید کو اسی جگہ یعنی اپنے بیڈروم میں قتل کر سکتا ہے جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ بدفعلی کر رہا ہے۔۔۔
چونکہ بعد میں اس پر گواہ قائم کرنا ممکن نہیں۔۔۔ اور یہ قتل، قتل عمد شمار نہیں ہوگا۔
البتہ بیوی کو مارنے کے بارے میں ایسا کبھی نہیں سنا تھا۔۔۔
بہر حال موضوع تحقیق طلب ہے۔۔۔ ۔ اسلام خون اور ناموس کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس ہے۔۔۔ اور کسی کی جان لینے کی آسانی سے اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔
اس کو قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟؟؟[/quote]
حسینی بھائی نے ;)
 

حسیب

محفلین
بالکل برعکس۔۔۔ ۔ اسلام تو انسانی جان اور ناموس کی سب سے زیادہ قیمت اور عزت کے قائل ہے۔۔۔ اور اک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور اک شخص کے زندہ کرنے کو ساری انسانیت کی زندگی سمجھتا ہے۔۔
البتہ انسانی جان ومال اور ناموس کی حفاظت کی ہی خاطر اسلام نے قصاص اور دیت کے سخت قوانین بنائے ہیں۔۔۔ کہ جن قوانین کو ان کی روح کے ساتھ اگر معاشرے میں رائج کیا جائے تو گارنٹی کے ساتھ تمام جرائم فورا سے پہلے ختم ہوجائیں گے۔۔ اسی لیے اسلام نے کہا کہ قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے۔۔ حالانکہ اک شخص کی زندگی جا رہی ہے۔۔ لیکن اس کے زندگی جانے میں ہی باقی سب کی زندگی آئندہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگی۔۔ اور آئندہ کسی کو ایسا جرم کی جرات نہ ہوگی۔
البتہ میں ان باتوں سے لڑی کے عنوان میں موجود فتوے کی ہرگز حمایت نہیں کر رہا۔۔۔ اور احباب کہہ چکے ہیں کہ غلطی مسلمان کی ہے۔۔۔ اسلام کی نہیں۔
آپ کی دونوں پوسٹیں ایک دوسرے کے متضاد لگ رہی ہیں
 

حسینی

محفلین
اس کو قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟؟؟
اس کو قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟؟؟
حسینی بھائی نے ;)[/quote]

نہ میں نے فتوی دیا ہے۔۔۔۔ اور نہ ہی شریعت کا حکم کا بیان کیا ہے۔۔۔ بس اتنا کہا تھا کہ اس طرح کی بات پہلے سنی تھی۔۔۔ اور موجودہ لڑی میں اک نئی بات سننے کو ملی۔
آپ دونوں نے میرا پہلا پوسٹ صحیح طرح سے نہیں پڑھا۔۔۔ اور چڑھانے دوڑھ پڑے۔
اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا
بہر حال موضوع تحقیق طلب ہے۔۔۔ ۔ اسلام خون اور ناموس کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس ہے۔۔۔ اور کسی کی جان لینے کی آسانی سے اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔
لہذا کہیں کوئی تناقض نہیں ہے۔۔۔ لیکن بعض لوگوں کو اسلام فوبیا ہے۔۔۔ جو اک شخص کی حرکت اور جرم کو اسلام کا جرم سمجھنے لگے ہیں۔۔۔ مذکورہ فتوے کے بعد مصر کے اندر بھی مسلمانوں نے بہت زیادہ رد عمل دکھایا تھا۔
 

x boy

محفلین
ملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملا اسلامی سائٹ نہیں ہے اور پاکستان اسلامی ملک نہیں ہے

اردو کی خدمت کریں،،، کیا ملا ملا ملاملا ملا ملاملا ملا ملا
http://islamqa.info/ur/4060
 
آخری تدوین:

ساجد

محفلین
بھئی ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی مرد اپنی منکوحہ کو خدانخواستہ اس حالت میں دیکھ لے تو اسے بیوی کو قتل کرنے کی بجائے پروفیسر حکیم سیلمان ، آزادی چوک لاہور سے رابطہ کرنا چاہئیے :)
 

شوکت پرویز

محفلین
2۔ مثلاً زید اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور عدالت میں بیان دیتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو بکر کے ساتھ زنا کرتے دیکھا تھا اور اس امر پر چار مرتبہ قسم بھی کھا لیتا ہے۔ (یاد رہے کہ بیوی کو وہ قتل کر چکا ہے لہٰذا وہ تو جواباً قسم کھا کر اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتی) اور اس نے موقع پر ہی بیوی کو زنا کے جرم کی سزا کے طور پر قتل کر دیا ہے۔ شیخ صاحب کے مطابق تو ایسے شریف انسان کو قتل عمد کا مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
فاتح بھائی!
آیت میں یہ کہیں بھی نہیں کہ زید (شوہر) اپنی بیوی کو اس حالت میں قتل کردے پھر چار مرتبہ قسم کھا کر سزا سے بچ سکتا ہے یا سزا کم کروا سکتا ہے۔۔۔
بلکہ
اگر شوہر اپنی زوجہ کو اس حالت میں دیکھے تو وہ (بغیر کوئی قتل کیے) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر اس بات کی گواہی دے،
اور اگر بیوی بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر اس بات کا انکار کرے
تو
دونوں فِری (بری)، کسی پر کوئی مواخذہ نہیں، اور ان میں آٹومیٹک طلاق مانا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو چار مرتبہ قسم کھانے کی بات ہے وہ قتل کے بارے میں نہیں،
بلکہ
وہ اس حالت میں دیکھنے کے بارے میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہی بات قتل کی، تو شوہر کو اس قتل کی سزا دی جائے گی، اور اس بارے میں دلیل اس 'آنر کلنگ' والے لنک میں واضح ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
سورۃ نور کی پیش کردہ آیات کی تفسیر
۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

" اس آيت كريمہ ميں خاوند كے ليے نكلنے كى راہ بيان كى گئى ہے كہ جب ان ميں سے كوئى اپنى بيوى پر بدكارى كى تہمت لگائے، اور اس كے ليے اسے ثابت كرنا اور گواہ پيش كرنے مشكل ہوں تو پھر وہ بيوى كے ساتھ لعان كر سكتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا ہے.

وہ اس طرح كہ وہ بيوى كو قاضى اور حكمران كے سامنے لا كر اس كے ساتھ اس تہمت پر لعان كرے، تو قاضى اور حاكم چار گواہوں كے مقابلہ ميں اسے چار بار اللہ كى قسم اٹھوائے كہ وہ سچ بول رہا ہے، يعنى اس نے جو اس پر زنا كى تہمت لگائى ہے وہ اس ميں سچا ہے، اور پانچويں بار يہ كہے كہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ كى لعنت ہو.

جب يہ كہہ چكے تو اس لعان كى بنا پر شافعى حضرات اور علماء كى ايك جماعت كے ہاں عورت اس كے نكاح سے نكل جائيگى اور اس پر ہميشہ كے ليے حرام ہو جائيگى، اور خاوند اسے اس كا مہر ادا كريگا، اور اس عورت پر زنا كى حد واجب ہو گى.

اور اس سے يہ حد اس وقت تك ختم نہيں ہو سكتى جب تك وہ بھى لعان نہ كر لے، اگر وہ بھى پانچ قسميں اٹھائے، چار بار كہے كہ اللہ كى قسم وہ جھوٹا ہے، اور پانچويں بار كہے كہ اگر وہ ( خاوند ) سچا ہو تو اس ( مجھ ) پر اللہ كا غضب ہو "
 

S. H. Naqvi

محفلین
بھئی ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی مرد اپنی منکوحہ کو خدانخواستہ اس حالت میں دیکھ لے تو اسے بیوی کو قتل کرنے کی بجائے پروفیسر حکیم سیلمان ، آزادی چوک لاہور سے رابطہ کرنا چاہئیے :)
ادھر پنڈی پونچھ ہاؤس میں بھی رابطہ ہو سکتا ہے، دواخانہ حکیم سلیمان، پونچھ ہاؤس صدر راوالپنڈی:p:p
 

x boy

محفلین
کون کس کو سمجھا رہا ہے واہ بھئی واہ یہ لڑی بنی اسلئے کہ مسلمانوں کے ساتھ تمسخر کیا جائے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top