بہت ہی دل نشیں آوازِ پا تھی ۔ نوشاد علی

فرخ منظور

لائبریرین
بہت ہی دل نشیں آوازِ پا تھی
نہ جانے تم تھے یا بادِ صبا تھی

بجا کرتی تھیں کیا شہنائیاں سی
خموشی ہی ہماری جب نوا تھی

وہ دشمن ہی سہی یارو ہمارا
پر اس کی جو ادا تھی کیا ادا تھی

سبھی عکس اپنا اپنا دیکھتے تھے
ہماری زندگی وہ آئینہ تھی

چلا جاتا تھا ہنستا کھیلتا میں
نگاہِ یار میری رہنما تھی

چلو ٹوٹی تو زنجیرِ محبت
مصیبت تھی قیامت تھی بلا تھی

نہ ہم بدلے نہ تم بدلے ہو لیکن
نہیں جو درمیاں وہ چیز کیا تھی

محبت پر اداسی چھا رہی ہے
ہے کیا انجام اور کیا ابتدا تھی

شگوفے پھوٹتے تھے دل سے نوشادؔ
یہ وادی پہلے کتنی پر فضا تھی

(نوشاد علی، موسیقار اعظم)
 
Top