بھولی بسری یادیں،!!!!!!

بھولی بسری یادیں،-41 - لڑکپن اور فلموں کا شوق، !!!!!

اب تو میں بڑی مشکل سے نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا، آرٹس کے صرف چار مضامین تھے، جنہیں پاس کرنا تھا، کوشش اس دفعہ ساری کی کہ سارے پیپر کلئیر ھوجائیں، اور بہت امید بھی تھی، مگر پھر بھی کچھ اپنے شوق بھی تھے، لوگوں کی پسند کی تصویریں بنانا اور ان میں تقسیم بھی کرنا اس کے علاوہ قلمی دوستی بھی جاری رھی، لیکن اخباروں اور بچوں کے رسالوں میں بھی لکھنے میں وقت کی تنگی کے باعث بہت زیادہ کمی آگئی تھی،

ھمارے اسکول کے نزدیک پہلے ایک ائرکنڈیشنڈ سینما بھی ھوا کرتا تھا، اور اکثر اسکول کے لڑکے ھاف ٹائم میں بھاگ کر فلم دیکھنے جاتے تھے، مجھے بھی اسکا بھی ایک شوق پیدا ھوگیا تھا، اس وقت بھی اتوار کو ھی چھٹی ھوا کرتی تھی تو ھم دو تیں دوست بھی کسی نہ کسی طرح ہاف ٹائم کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فلم دیکھنے کیلئے جاتے تھے اس وقت آگے کی کلاس کا ٹکت 4 آنے کا ھوتا تھا اور پورا مہینہ کچھ نہ کچھ خرچی میں سے بچاکر اور سودے میں سے بھی بچا کر باقی کے پیسے جوڑ کر 4 آنے بنا ھی لیتا تھا،

گھر میں کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ میں فلم دیکھ کر آرھا ھوں، اس شوق نے اور پڑھائی کی طرف اور بھی توجہ کم کردی اب مہینہ میں ‌‌‌ایک دفعہ کے بجائے دو دفعہ فلم دیکھنے کا چکر پال لیا تھا، ایک دفعہ اسکول سے بھاگ کر کافی لڑکے فلم دیکھنے پہنچ گئے اور شاید اسکول میں کسی مخبری کی وجہ سے یہ بھید کھل گیا، ویسے بھی اس دن ایک ڈراونی سی فلم “خاموش رھو“ لگی ھوئی تھی، فلم کے دوران ھی اسکول کا چھاپہ پڑ گیا وہ بھی والدین کے ساتھ، اندھیرے میں ھی آواز آئی چلئے اپنے اپنے بچوں کو پہچانئے، منہ پر ٹارچ کی روشنی سے والدین اور کلاس ٹیچرز بچوں کو پہچان کر اٹھا رھے تھے اور فلم بھی ساتھ ساتھ چل رھی تھی،

ایک تو فلم ڈراونی اوپر سے اسکول کا چھاپہ سب سے پہلے تو میں نے اپنا اسکول بیگ سیٹ کے نیچے پھینکا اور قمیض اُتار کر الٹی پہن لی یعنی اوپن سائڈ پیچھے گھما دی،اور قمیض کو اوپن ھی رکھا اور بالوں کو بھی خوب بکھیر دیا، قمیض بھی الٹی، ایک ّعجیب ھی شاھکار لگتا اگر اندھیرا نہ ھوتا تو، ایسے وقت میں شیطانی دماغ بھی خوب چلتا ھے، ساتھ والے دوست نے بھی ایسا ھی کیا کیونکہ سامنے کی جیب پر اسکول کا مونوگرام بنا ھوا تھا اس سے پہچاننے میں اور بھی آسانی ھورھی تھی، اسکول کے ٹیچرز اور والدین اسکول کے بچوں کو پہچانتے ھوئے ھماری ظرف ھی بڑھ رھے تھے میں نے فوراً اپنے پیر بھی جوتے اتار کر آوپر رکھ لئے تھے-

جیسے ھی وہ میرے نزدیک پہنچے، مجھ پر ایک ٹارچ کی روشنی سی پڑی، میں تو ایک دم گھبرا سا گیا، لیکن پھر بھی ھمت پکڑی ھوئی تھی، ایک نے فوراً دوسرے سے میری قمیض کی طرف ٹارچ کی روشنی ڈالتے ھوئے کہا کہ یہ اسکول کا لڑکا نہیں لگتا، اور اوپر سے میں نے بھی تھوڑا اپنے منہ کو ٹیڑھا کیا اور ذرا غصہ کا موڈ بناتے ھوئے وہاں کے مکرانی لہجے میں کہا کچھ اسی طرح کہا کہ!!!!!!!!!

!!!!! اڑے تم کو ارو برو نظر نہیں آتا ھے کیا، تم لوک کا دماغ تو خراب نہیں ھوگیا نی، اڑے سامنے سے ھٹو ایسا پنچ مارے گا سارا بتیسی باھر کردیگا، !!!!!!!!!!

وہ دو آدمی تھے اور اسکول کے ٹیچر ھی تھے، پھر بھی انکے ری ایکشن سے ڈر بھی لگ رھا تھا، کہ کہیں پہچاں نہ لیں لیکن جان بچ گئی انہوں نے واقعی میرے ایکشن کا آخر اثر لے ھی لیا اور معذرت کے انداز میں کہا کہ !!!
!! بھئی ذرا معاف کیجئے گا کچھ غلط فہمی ھوگئی تھی!!!

یہ کہتے ھوئے وہ دونوں کچھ آگے بڑھ گئے!!!!!!!!!!

کبھی کبھی شیطانی دماغ بھی کام کرجاتا تھا، اور کئی جگہوں پر میں بال بال بچا بھی ھوں، اور کبھی کبھی شکنجے میں جکڑا بھی گیا ھوں، وہ لوگ جیسے ھی سینما کے دروازے سے باھر نکلے اور ادھر ھم دونوں نے اپنی اپنی قمیضیں سیدھی کیں اور سیٹ کے نیچے سے بستہ نکالا، خاموشی سےپیچھے کے دروازے سے بھاگنے کی کوشش کی، جیسے ھی دروازہ کھولا، جان ھی نکل گئی، آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے، کاش کے ھم فلم ختم ھونے کے بعد ھی نکلتے تو بہتر ھوتا !!!!!!!!!

سامنے اپنے کلاس ٹیچر کو پایا، انہوں نے خاموشی سے ایک طرف اشارے سے کھڑے ھونے کو کہہ دیا وہ شاید اس وقت سینما کے منیجر سے ھم لڑکوں کے متعلق ھی کوئی ایک ایکشن پلان بنا رھے تھے، اور اسی دوران انہوں نے ھمیں اپنے پاس بلایا اور ایک ھاتھ سے میرے کان پکڑے اور دوسرے ھاتھ سے دوسرے دوست کے کان پکڑے اور ساتھ ساتھ گھماتے ھوئے مروڑتے رھے، اور اسی طرح دونوں کو سب کے سامنے کان مروڑتے ھوئے اسکول کا رخ کیا اور ساتھ ھی کچھ سوال بھی پوچھتے جارھے تھے، ویسے سارے سوال جواب اب یاد تو نہیں ھیں لیکن ان کا انداز گفتگو اور ھمارے جوابات کا ملا جلا انداز کچھ یوں تھا، اگر جواب میں ھم کچھ دیر کرتے یا جھجکتے تو کانوں پر کچھ اور زیادہ دباؤ پڑ جاتا:

ھاں تو بیٹا بتاؤ تو کیسی فلم تھی؟؟؟
اچھی تھی !!!!!

اس فلم میں کون ھیرو تھا؟؟؟
محمدعلی!!!!!!

ھیروئین کون تھی؟؟؟
نیلو!!!!!!

اسکی اماں کون تھی؟؟؟
مینا شوری!!!!!

اچھا اس کی کچھ کہانی تو سناو،؟؟؟؟
کچھ یاد نہیں ھے پوری فلم ھم نے نہیں دیکھی تھی!!!!!!

چلو آج اسکول کے اندر، میں تم دونوں کو میں پوری فلم کی کہانی سناتا بھی ھوں اور ساتھ دکھاؤں گا بھی !!!!!!!!!!!!!!!!

جتنے تمھارے اچھے نام ھیں اور کرتوت تو سارے شیطانوں کی طرح ھیں!!!!

اسکول پہنچنے تک تو انہوں نے ھمارے کانوں کا تو حشر نشر کر ھی دیا تھا، کان بالکل شل ھوگئے تھے اور ساتھ ھی بہت دکھ رھے تھے، ھمیں تو اس تکلیف کا اتنا احساس تو نہیں تھا لیکن جو آگے سزا ملنے والی تھی اسکی زیادہ فکر لاحق تھی کہ نہ جانے کیا ھونے والا ھے !!!!

جیسے ھی اسکول پہنچے تو کیا دیکھتے ھیں پہلے ھی سے جن بچوں کو پکڑ کر لے گئے تھے، ان سب کو اسکول کے درمیان کے پارک میں مرغا بنایا ھوا تھا اور کوئی اگر بیٹھنے کی کوشش کرتا تو فوراً اسے پیچھے سے ٹھیک ٹھاک ایک ڈنڈے سے ٹھکائی ھوتی، یہ دیکھ کر تو ھماری سٹی ھی گم ھو گئی، آواز تو نکل ھی نہیں رھی تھی!!!!!

مگر اسکول کے اندر گھستے ھی کلاس ٹیچر نے ھمارے کان چھوڑ دئیے اور سیڑھیوں کے پاس ھمیں اپنی کلاس میں جانے کو کہا ھماری کلاس پہلے ھی فلور پر تھی، فوراً ھم دونوں بھاگے اور کلاس روم میں پہنچے تو کوئی بھی نہ تھا، سارے گیلری میں سے نیچے بچوں کو سزا ملتے ھوئے دیکھ رھے تھے، اور ھم دونوں نے بستے اپنی ڈیسک میں رکھے اور باھر گیلری میں آکر دوسروں کے ساتھ نیچے لڑکوں کا حشر دیکھنے لگ گئے، مگر ساتھ ساتھ اپنے اپنے کانوں کو سہلا بھی رھے تھے!!!!!!!

اور ھم دونوں حیران بھی تھے کہ ھمارے ساتھ اتنی مہربانی کیوں ؟؟؟؟

ھماری کلاس سے اس دن صرف ھم دونوں نے ھی آدھے دن کی چھٹی لی تھی اور وہ بھی اپنے کلاس ٹیچر کے کام ھی کی وجہ سے، انہوں نے کچھ ھمیں پیسے دیئے تھے کچھ باسمتی چاول کیلئے، جوکہ ھمارے ملٹری کوٹہ پر اس وقت والد صاحب کو کسی نہ کسی جان پہچان کی وجہ سے رعایتی دام پر اور اچھے قسم کے ملتے تھے، اور میں نے یہ کہہ کر چھٹی لی تھی کہ آج اسٹور جانا ھے اور آپکے لئےچاول لانے ھیں، اگر آپ اجازت دے دیں تو میں اپنے دوست کر لے جاؤں، تاکہ واپسی ہر کرائے کی سائیکل پر شام تک اسکول میں ھم دونوں چاول آپ تک پہنچادیں گے، شاید 10 سیر چاول تھے، اور ویسے بھی والد صاحب ھر ایک کی خدمت اسی طرح ھمیشہ کرتے ھی رھتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں تمام راشن، جس میں آٹا، چاول، دالیں اور خاص کر چینی گھر کے ممبران کے مطابق بذریعہ راشن کارڈ ماھانہ کوٹہ کے صرف مخصوص گورنمنٹ کے راشن شاپس پر ھی ملا کرتا تھا اور ھمیں ملٹری کے کوٹہ پر کچھ زیادہ ھی مل جاتا تھا تو والد صاحب اکثر اسی بہانے سے بھی لوگوں کی ضرورتیں پورا کرتے رھتے تھے -

ماسٹر صاحب کے لئے اباجی نے چاول پہلے ھی سے لاکر گھر میں رکھے ھوئے تھے اور مجھے کہہ بھی دیا تھا کہ جب بھی موقعہ ملے تو انہیں پہنچا دینا یا انہیں کہہ دینا کہ گھر آکر خود لے جائیں، اور میں اس موقعہ کو کھونا نہیں چاھتا تھا، لیکن افسوس کہ ذرا سی ایک غلطی سے اس موقعہ کو فلم دیکھنے کے چکر میں وہ بھی نامکمل اور بےعزتی جو الگ ھوئی سو الگ، بے فضول ضائع کردیا، ویسے میری پلاننگ کبھی ضائع بےکار تو نہیں جاتی تھی، لیکن بس اس دفعہ مقدٌر نے ھم سے کچھ رخ ھی پھیر لیا تھا، اور فلم کے پیسے بھی اسی میں سے خرچ کردئے تھے، تاکہ کرائے کی سائیکل کے بجائے دونوں ملکر وہ چاول اٹھاکر اسکول تک پہنچا دیں گے،

اور وہ چاول ایسے تھے کہ اگر صرف جیب رکھ کر لے جاؤ تو جہاں جہاں سے گزرو گے اسکی مہک ساتھ ساتھ خوشبو بکھیرتی چلی جائے گی، اور اگر ایک گھر میں پک رھے ھوں تو پورے محلے میں پتہ چل جاتا تھا کہ آج کسی گھر میں یہ چاول پک رھے ھیں، اور یہ ھمارے ملک کے باسمتی چاول اب تک عام لوگوں کو دیکھنے کو بھی نہیں ملتے، کیا بات ھے میرے سوھنے دیس کی۔!!!!!!!!

فلم دیکھنے ھی کے لئے ھر ھفتے یا پندرہ دن کے اندر کوئی نہ کوئی ھم دونوں بہانہ تلاش کرلیتے تھے، مگر اس دفعہ نشانہ کچھ چُوک ھی گیا تھا، اور دوسری طرف ھمارے کلاس ٹیچر کو اس بات پر فخر بھی تھا کہ ان کی کلاس کے تمام لڑکے بہت ھی زیادہ لائق اور ھونہار ھیں اور پورے اسکول میں یہ بات مشہور تھی، مگر ھم دونوں نے ان کے اعتماد کو آخر ٹھیس پہنچا ھی دی، مگر پھر بھی کسی نہ کسی ظرح انہوں نے اپنے ساتھ ھماری عزت بھی رکھ لی ورنہ تو ھم دونوں بھی دوسرے لڑکوں کی طرح سب کے سامنے مرغے بنے ھوئے سزا پا رھے ھوتے،

بہرحال بڑی شرمندگی ھوئی، ویسے تو کبھی شرمندہ نہیں ھوئے کیونکہ ایسی حرکتوں میں تو ھم نے پہلے سے ھی “پی ایچ ڈی“ کیا ھوا تھا، لیکں اس دفعہ کچھ غیرت جاگی صرف اپنے کلاس ٹیچر کی وجہ سے جو واقعی بہت اچھے اور بہت مہربان بھی تھے، اور انہوں نے پہلے ھی تاکید کردی تھی کہ اپنے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا، مگر پھر بھی کئی لڑکے، جنہیں اسی سلسلے میں سزا ملی تھی وہ بس اسی فراق میں لگے ھی رھے کہ ھم دونوں بھی تو فلم دیکھنے گئے تھے، ھم کیوں نہیں پکڑے گئے، کئی دفعہ انہوں نے ھمارے کلاس ٹیچر سے شکایت بھی لگانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکو ڈآنٹ کر ٹال دیا!!!!!!!!!!!!!

اسی دن شام کو کلاس ٹیچر میرے گھر پہنچنے کے فوراً بعد ھی پہنچ گئے، میں ایک دفعہ پھر سہم گیا، اس سے پہلے ھی میں نے والد صاحب کو ان سے لئے ھوئے چاولوں کی قیمت کے پیسے دے چکا تھا، جو پیسے فلم میں خرچ ھوئے تھے، اسے والدہ سے کوئی اور بہانہ کرکے پورے کردئیے تھے، میں اس بات سے ڈر رھا تھا کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ کلاس ٹیچر میری والد صاحب سے شکایت ھی نہ کردیں، میں بہت ڈرا ھوا اور سہما ھوا ان دونوں کے بیچ کھڑا تھا، اور کلاس ٹیچر میری والد صاحب سے شکایت کے بجائے تعریف ھی کررھے تھے بہت ھی اچھا محنتی اور لائق لڑکا ھے وغیرہ وغیرہ!!!!!!!!!

اور میں کچھ اور ھی سونچ میں لگ گیا کہ اب فلم دیکھنے کیلئے اور دوسری کونسی صورت اختیار کی جائے، کیونکہ یہ عادت بھی بہت بری طرح چپک گئی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-42- لڑکپن- شکر خورے کو شکر مل ھی جاتی ھے،!!!!!!!

آجکل جو سیکنڈری اسکول کے واقعات جو سنا رھا ھوں، مجھے ان کا صحیح وقت اور تاریخ یاد نہیں ھے لیکن یہ1962 سے لےکر 1964 تک کے واقعات میں سے ھی ھیں، جب میں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا، اور جو جو مجھے واقعات یاد ھیں وھی آپ تک پہنچانے کی کوشش کررھا ھوں اور لازمی بات ھے کہ جہاں میں نے ڈائیلاگ لکھے ھیں وہ اس وقت کے حالات اور واقعات کی روشنی میں لکھے ھیں، کیونکہ مجھے وہ واقعات تو یاد ھیں لیکں ڈائیلاگ کی حقیقی ڈلیوری ایک تسلسل کے ساتھ زبانی یاد نہیں ھیں، مگر اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظوں کو اسی وقت کے بالکل قریب ترین واقعات کی روشنی میں ضم کرنے کی کوشش ضرور کی ھے، تاکہ کہانی کا تسلسل اور دلچسپی برقرار رھے،

اور میں کچھ اور ھی سونچ میں لگ گیا کہ اب فلم دیکھنے کیلئے اور دوسری کونسی صورت اختیار کی جائے، کیونکہ یہ عادت بھی بہت بری طرح چپک گئی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!

کہتے ھیں نا کہ شکرخورے کو شکر ضرور مل جاتی ھے، اسی طرح اپنے اس فلموں شوق کیلئے ایک نئے راہ ھموار ھوتی نطر آرھی تھی، کیونکہ اسکول سے بھاگ کر تو اب فلم دیکھنے کا راستہ تو بند ھی ھوگیا تھا، کوئی اب نیا راستہ تلاش تو کرنا ھی تھا!!!!!!!!

والدصاحب اب ریزرو فورس میں تو آگئے تھے، لیکن ان کا بلاوا کبھی بھی آسکتا تھا، اور وہ گھر آکر بہت دُکھی تھے، کہ اب کیا کیا جائے، اب ایک چھوٹی سی پنشن سے کیسے گزارا ھو، وہ اسی فکر میں لگ گئے تھے، دو تیں دن ھوگئے تھے کہ ایک دن اچانک ان کے ملٹری کے زمانے کے دوست گھر پہنچ گئے وہ ھمارے دور کے ایک رشتہ دار بھی تھے، اور ایک کسی بڑی کنسٹرکشن کمپنی میں کسی اچھی پوزیشن میں فائز بھی تھے -

آتے ھی وہ اباجی سے کچھ یوں مخاطب ھوئے ارے سیٌد بھائی تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم ملٹری سے فارغ ھوگئے ھو، اباجی نے جواباً یہ کہا کہ نہیں نہیں یہ بات نہیں ھے، شاید مجھے کچھ سول کام اسی جگہ پر مل ھی جائے، مگر انکے دوست نے کہا کہ ایسا کرو کہ کل ھماری کمپنی میں کچھ انٹرویوز ھونے والے ھیں، فوراً پہنچ جاؤ، تمہارا کام ھوجائے گا، شاید اکاونٹس کلرک کی جگہ خالی تھی، یہاں ملٹری میں بھی وہ حولدار کلرک کے عہدہ پر ھی فائز تھے -

دوسرے دن والد صاحب وھاں پہنچ گئے، انہوں نے بعد میں آکر بتایا کہ وہاں پر تو بہت رش تھا مشکل ھے کہ سلیکشن ھو جائے، لیکن شام کو وہی دوست جنکا نام غالباً نقوی صاحب ھی تھا، گھر پہنچ گئے، وہ اس کمپنی کے اُس وقت ایڈمن آفیسر تھے، آتے ھی انھوں نے خوشخبری سنائی کہ سیٌد بھائی کل سے ڈیوٹی پر آجانا اور تقرری کا خطابی ورقہ، لفافے سمیت انہیں تھما دیا، جس میں تنخواہ کے ساتھ ساتھ کمپنی کے قواعدوضوابط تحریر کئے ھوئے تھے، تنخواہ شاید اس وقت 175 روپے تھی اور ساتھ ھی اؤرٹائم کا بھی کچھ ذکر خیر تھا -

دیکھئے اللٌہ تعالیٰ کی شان کہ ایک در بند ھوا تو اس نے دوسرا در فوراً کھول دیا، وہ فرشتہ صفت انسان اب اس دنیا میں نہیں ھیں لیکن والد صاحب انکے لئے آخری وقت تک دعائیں کرتے رھے، اور ساری زندگی ان کی خدمت میں بھی گزاردی اسکے علاوہ وہ ایک سگے بھائی سے بھی زیادہ ان کاحق ادا کیا اور اپنا فرض نبھایا، ان کے دوست کہہ لیں یا رشتے میں چچازاد بھائی کہہ لیں، والد صاحب کے لئے تو وہ فرشتہ رحمت ھی بن کر آئے تھے، نقوی صاحب کو کسی اور ذریئے سے معلوم ھوا تھا کہ سید صاحب آج کل فوج سے فارغ ھوگئے ھیں، اور وہ یہ سنتے ھی دوڑے دوڑے گھر چلے آئے، اللٌہ کی شان ھے -

اس دن مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ انکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اور سب کو وہ اپنا کمپنی کی طرف سے جاری کردہ تقرری کا خط خوشی خوشی دکھاتے پھر رھے تھے اور بازار سے مٹھائی لاکر سب کو بانٹی بھی تھی، اور کافی اسی سلسلے میں دعوتیں بھی ھوئیں،

اور اب آپ لوگ کہیں گے کہ بات ھورھی تھی شکرخورے کی شکر کی اور یہ دوسرا موضوع کہاں سے آٹپکا، مگر میرے بھی ایک شوق کا راستہ گل ھوا تو ساتھ ھی ایک دوسرا موقعہ ھاتھ لگ گیا، جو اسی واقعہ کے ساتھ ھی کچھ ایسا لنک بناتا ھوا شروع ھوا کہ کافی عرصہ تک چلا اور چلتا ھی چلا گیا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-43- لڑکپن اور فلموں کے شوق کا نیا راستہ،!!!!!!!

اس دن مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ انکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اور سب کو وہ اپنا کمپنی کی طرف سے جاری کردہ تقرری کا خط خوشی خوشی دکھاتے پھر رھے تھے اور بازار سے مٹھائی لاکر سب کو بانٹی بھی تھی، اور کافی اسی سلسلے میں دعوتیں بھی ھوئیں،

اور اب آپ لوگ کہیں گے کہ بات ھورھی تھی شکرخورے کی شکر کی اور یہ دوسرا موضوع کہاں سے آٹپکا، مگر میرے بھی ایک شوق کا راستہ گل ھوا تو ساتھ ھی ایک دوسرا موقع ھاتھ لگ گیا، جو اسی واقعہ کے ساتھ ھی کچھ ایسا لنک بناتا ھوا شروع ھوا کہ کافی عرصہ تک چلا اور چلتا ھی چلا گیا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!


جنہوں نے اباجی کو نوکری دلا کر ان کی نظر میں جہاں ایک محسن بن گئے وہاں وہ میرے لئے بھی ایک بڑے کرم فرماء ھو گئے، اب ھر اتوار کو صبح چھٹی کے روز مجھے ان انکل کے گھر کچھ نہ کچھ اباجی کی طرف سے تحفہ یا نذرانہ لے کر جانا پڑتا تھا، حالانکہ انہوں نے کئی دفعہ منع بھی کیا لیکن اباجی بضد تھے، اور میرے لئے تو انکی ضد ھی میرے سینما کے شوق میں مزید اضافہ کا باعث بن گئی - ان صاحب نے اباجی کو گھر پر اور دفتر میں بھی کافی ناراضگی سے بھی منع کیا بس والد صاحب کا ایک ھی جواب ھوتا کہ میں تمھارا بڑا بھائی ھوں اور اور یہ میرا فرض ھے، اور یہ بچوں کے لئے ھے بس، وہ بھی گھر آکر اسی طرح تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے، جو میرے لئے ایک اور ڈبل خوشی کا باعث بن جاتا، والد صاحب کو بھی وہاں ھر ھفتہ والے دن جو ھاف ڈے ھوتا تھا اس دن دفتر میں بھی اچھا خاصہ اورٹائم بھی لگ جاتا تھا اور دیر تک بیٹھنے پر انہیں اس وقت لنچ ڈنر کا خرچ اور ٹیکسی کا کرایہ دفتر سے گھر تک نقد بھی مل جاتا تھا !!!!!!

والد صاحب شاید انہیں پیسوں میں سے جو لنچ، ڈنراور کنوینس کے نقد ملتے تھے، یہ تحفے تحائف چھٹی سے ایک دن پہلے ھی سے لاکر، میری ذمہ داری میں سونپ جاتے یا کبھی کبھی اسی دن مجھے بازار سے دلادیتے تھے، اور پہلی بس میں مجھے سوار کراکے گھر واپس چلے جاتے پہلے دن تو مجھے ان کا گھر ڈھونڈنے میں کچھ تھوڑی سی مشکل پیش آئی، لیکن اس مشکل سے ایک فائدہ یہ ھوا کہ وہاں انکے گھر کے نزدیک ھی ایک سینما حال سے شناسائی ھوگئی، جہاں ھر ھفتہ ایک نئی فلم لگتی تھی -

بس پھر کیا تھا کہ وقت کی ایسی پلاننگ کی تھی کہ، اتوار کو چھٹی والے صبح دس بجے کے وقت گھر سے نکلتا اور ان انکل کی امانت انکے گھر پہنچا کر جیسے ھی سینما حال کی طرف بھاگتا تو وہاں پرصبح گیارہ بجے کا مارننگ شو کے ٹکٹ کی کھڑکی کھلنے والی ھوتی یا چند منٹ باقی ھوتے، مگر میں تو ھمیشہ بلیک سے ھی بغیر لائن میں لگے ھوئے ٹکٹ خریدتا تھا، کیونکہ اتننا وقت ھوتا نہیں تھا کہ لائن سے ٹکٹ خرید سکوں، اس وقت وھاں پر چھ آنے کا ٹکٹ بلیک میں آٹھ آنے کا آسانی سے مل جاتا تھا،

مجھے والد صاحب راستے کیلئے، بس کا کرایہ اور کھانے پینے کیلئے ھمیشہ ایک روپیہ ضرور دیتے تھے لیکن کبھی حساب کتاب نہیں لیا، وہ بھی خوشی سے مجھے کہتے کہ جو بھی پیسے بچے وہ تمھارے ھوئے، بس کے کرائے میں آنے جانے تک کے کبھی چھ آنے تو کبھی آٹھ آنے لگ جاتے تھے، اور آٹھ آنے کا سینما ٹکٹ اور اگر دو آنے کا کوئی بند کباب خرید کر اپنی بھوک کو مٹاتا تھا ورنہ تو سینما کیلئے بھوک بھی قربان، اور تقریباً دوپہر کے ڈیڑھ بجے تک فلم ختم ھوجاتی، واپسی پر بھاگتا ھوا بس اسٹاپ پر پہنچتا، اور ایسی بس کے روٹ کو پکڑتا کہ مجھے دوسری بس کے روٹ پر پہنچنے میں آسانی ھو، اس طرح میرا آدھا گھنٹہ بج جاتا، ٹھیک دو یا سوا دو بجے تک میں گھر پر ھوتا، گھر آتے ھی ابا جی پوچھتے کھانا کھا لیا، میں جواباً یہی کہتا کہ ھاں کھا لیا، مگر بھوک تو سخت لگ رھی ھوتی، دو آنے کا بندکباب آخر کب تک پیٹ میں رہ سکتا تھا، کبھی کبھی تو وہ بھی پیسوں کی کمی کے سبب کھا بھی نہیں سکتا تھا، لیکن میں کسی نہ کسی طرح اماں سے کہہ کر کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے دوپہر کا بچا ھوا کھانا یا بےچاری میری خاطر کچھ نہیں تو انڈا ھی پراٹھے کے ساتھ تل لاتیں تھیں اور ساتھ میرے باقی بہں بھائی بھی شریک ھوجاتے تھے،

حالانکہ آنکل اور آنٹی دونوں بہت ضد کرتے کہ کچھ کھا پی لو لیکن میں کہتا کہ بہت مشکل ھے پیٹ بھرا ھوا ھے، ناشتہ بہت زیادہ کرلیا تھا اب گنجائش نہیں ھے، کیونکہ اس وقت مجھے سینما کے تاخیر سے پہنچنے کی فکر زیادہ ستا رھی ھوتی تھی، اس بات کا بھی کسی کو پتہ نہ چل سکا،

مگر سوچنے کی بات یہ تھی کہ اباجی نے اس بات پر کبھی غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ آنے جانے میں چار گھنٹے انکے صاحبزادے کہاں لگاتے تھے؟؟؟؟؟؟؟؟

اس دور کی تمام نئی فلم میری نظروں سے بچ نہیں سکیں اور یہ کافی عرصہ تک چلا جبتکہ ان انکل کا وہاں سے تبادلہ نہیں ھوگیا ان کا تبادلہ کیا ھوا اپنے شوق کا بھی تبادلہ ھوگیا !!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-44- لڑکپن کا آخری دور،!!!!!!

مگر سوچنے کی بات یہ تھی کہ اباجی نے اس بات پر کبھی غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ آنے جانے میں چار گھنٹے انکے صاحبزادے کہاں لگاتے تھے؟؟؟؟؟؟؟؟

اس دور کی تمام نئی فلم میری نظروں سے بچ نہیں سکیں اور یہ کافی عرصہ تک چلا جبتکہ ان انکل کا وہاں سے تبادلہ نہیں ھوگیا ان کا تبادلہ کیا ھوا اپنے شوق کا بھی تبادلہ ھوگیا !!!!!!!!!!!!!!


فلم دیکھنے اور گھومنے پھرنے کا تو واقعی مجھے جنون کی حد تک شوق تھا، فلموں کا شوق تو آہستہ آہستہ فلموں کے معیار کا پیمانہ گرتے ھی کم ھونا شروع ھوگیا تھا، لیکن گھومنے پھرنے کا شوق اب تک رھا ھے اور وہ بھی اب عمر کے ساتھ ساتھ ختم ھوتا جارھا ھے -

یہی وجہ تھی کے اس وقت پڑھائی کی طرف دھیان بہت کم ھوگیا تھا، اگر میں چاھتا تو کچھ تھوڑا بہت بھی پڑھائی کی طرف راغب ھو کر اچھے نمبروں سے آٹھویں جماعت میں کامیاب ھوسکتا تھا، اور مزید مشکل یہ کہ امتحانات کے دنوں میں مجھے ٹائیفایڈ ھوگیا تھا، جس کی وجہ سے والد صاحب نے میرے اس خراب نتیجہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، وہ یہی سمجھے کہ اس بیماری کی وجہ سے ھی میں اتنے اچھے نمبر نہ لاسکا،

ویسے اس دفعہ بہت شرمندگی بھی محسوس ھوئی جو میری ملکہ باجی نے خوب شرم دلائی، کیونکہ وہ ایک میری رازداں بھی تھی اور وہ میری تمام اچھی بری عادتوں کو جانتی بھی تھیں، انہوں نے مجھے کافی حد تک سدھارنے میں کافی مدد کی، یہ ھر اتوار کی چھٹی والے دن جو میں چار گھنٹے اپنے کام کے ساتھ فلم بھی دیکھ کر آتا تھا اسکا علم ملکہ باجی کو بھی نہیں تھا لیکن ان کو شک ضرور تھا کہ میں فلم دیکھ کر ھی آتا ھوں،

بہرحال جب نویں کلاس میں پہنچا تو یہ سنڈے بازار کی مہم کا خاتمہ تو ھو ھی چکا تھا، اور کچھ میں بھی تقریباً ایک سال تک یہ ذمہ داری اٹھاتا اٹھاتا تھک بھی چکا تھا، اور اب یہ دل میں ٹھان لیا تھا کہ میں اب پڑھائی کی طرف توجہ زیادہ دو‌ں گا، اور ملکہ باجی سے یہ بھی قسم کھائی تھی کہ اس دفعہ اچھے نمبر لاؤنگا اور انہوں نے بھی اس میں میری کافی مدد کی، فلم دیکھنے کیلئے انہوں نے مہینے میں ایک دفعہ کی اجازت بھی دے دی، اور وہ مجھے اور ان کی چھوٹی بہن زادیہ کے ساتھ مل کر پڑھائی میں کافی مدد کرتی رھیں-

اور روز کے معمولات جیسے گھر کا پانی بھرنا، سودا لانا اور دوپہر سے اسکول وغیرہ، میں کوئی خاص کمی نہ آئی، صرف پڑھائی کی طرف کچھ زیادہ ھی توجہ ھوگئی، اس کے علاوہ کھیلنے میں تو بالکل کمی ھی کردی تھی، اور اس دفعہ نویں جماعت جو بورڈ کےچار پیپر کے ھی امتحانات میں بیٹھنا تھا اور باقی پانچ یا چھ پیپر میٹرک میں دینے تھے اور آرٹس گروپ تھا کوئی اتنا مشکل بھی نہ تھا، دل میں تو گرہ باندھ ھی لی تھی کہ ساری کوششیں اچھے نمبروں کو حاصل کرنے میں لگادی جائیں اور ھم تینوں کے اس طرح پڑھنے سے خاص طور پر والدین بہت خوش تھے کہ چلو اب ھمارا بیٹا کچھ تو محنت کرے گا باقی بہن بھائی بھی اپنی اپنی کلاسوں میں اچھا ھی پڑھ رھے تھے-

آخر وہ امتحانات کے دن بھی سر پر آپہنچے، اس دفعہ چاروں مضامین میں اچھے نمبر لے آیا والد صاحب بہت خوش ھوئے اور اس کا سہرا ھماری باجی کے سر تھا، سب لوگ خوش تھے، اور میں اس محلے کا پہلا لڑکا تھا جو اس سال میٹرک میں پہنچ گیا تھا اور اس وقت تو اپنی بڑی واہ واہ تھی، اور یہی کوشش میں نے میٹرک کے وقت بھی وھی رکھی، اور بلکہ کچھ اور اپنی محنت میں مزید کچھ ضرورت سے زیادہ ھی اضافہ کردیا-

دن تیزی سے گزرتے جارھے تھے اور سارے کا سارا دھیان بالکل پڑھائی کی طرف تھا، بس کبھی کبھی مصوری کا شوق کسی نہ کسی کی تصویر بنانے پر مجبور کردیتا اور جسکی رھنمائی بھی یہ دونوں بہنیں بھی کرتی تھیں، اور اب ھم تینوں نے زیادہ تر وقت پڑھائی کی طرف لگانا شروع کردیا اور میں اور باجی ھی اس وقت میٹرک کا ھی امتحان دے رھے تھے اسکول بھی ایک ھی تھا اور زادیہ نویں کلاس میں تھی، یہ خود اب مجھے تعجب ھورھا ھے جب میں ساتویں میں تھا تو بڑی مجھ سے ایک سال آگے تھی اور چھوٹی ایک سال پیچھے تھی، لیکن تعجب کی یہ بات ھے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان باجی اور میں ایک ساتھ دے رھے تھے، صرف زادیہ ھی ایک سال پیچھے تھی کچھ ھوسکتا ھے کہ یادداشت میں فرق ھوگیا ھو ، یا باجی ھی ایک کسی کلاس میں رہ گئی ھوں یا ایک سال ویسے ھی ضائع ھوگیا ھو-

1965 کا زمانہ میٹرک کے امتحانات کے دن، میری 15 سال کی عمر ھوگی، ھم تینوں نے بہت محنت کی اور میں نے تو بالکل شرارتوں کی طرف سے بالکل ھاتھ ھی کھینچ لیا اور سنجیدگی اختیار کرلی، جبھی کوئی اور ایسا واقعہ بھی یاد نہیں آرھا تھا جس کے سنانے سے کوئی دلچسپی ھو اور کہانی آگے بڑھے، بس وہ اتنی جلدی سالانہ امتحانات کے دن بھی آگئے اور واقعی جو محنت کی تھی اس سے امید بھی تھی کہ اچھے نمبر آئیں گے مگر یہ بورڈ کے امتحانات تھے، کچھ ڈر بھی لگ رھا تھا -

امتحانات سے فارغ ھونے کے بعد ھمارے اسکول میں ایک میٹرک کے طلباء کے رخصت ھونے کی الوداعی پارٹی نویں جماعت کے لڑکوں نے دی جو ھمیشہ سے دستور رھا ھے، اور سب دوستوں کو اس اسکول سے جدا ھونے کا بہت دکھ ھورھا تھا، لیکن دوسری طرف کالج میں جانے کی خوشی ھو رھی تھی -

آخر وہ دن بھی آگیا جس کا بےچینی سے انتطار تھا، میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ جو اخبار لئے اپنے اپنے رول نمبر کی تلاش کررھے تھے، سب تو سیکنڈ ڈویژن میں پاس ھوگئے تھے لیکن میرا رول نمبر نظر ھی نہیں آرھا تھا تھرڈ ڈویژن کے کالم میں بھی دیکھا کچھ نظر نہیں آیا میرے دوست بھی پریشان اور میرا تو دماغ خراب ھو گیا کہا کہ یہ تو ھوھی نہیں سکتا اگر سیکنڈ ڈویژن نہ سھی مگر تھرڈ ڈویژن میں تو پاس ھونا ھی چاھئے تھا-

اسی پریشانی میں، میں تو گھر بھی نہیں گیا اور اپنی قسمت کو کوستا ھوا اسی چوراھے کے پارک میں جاکر بیٹھ گیا جو میرا شروع سے اچھے اور برے وقت کا ساتھی رھا ھے!!!!!!!!!!!!!‌

میں پھر ایک نئی پریشانی کا شکار ھوگیا تھا، کہ اس دفعہ اتنی محنت کرنے کے باوجود ایسا کیسے ھوگیا، مجھے ویسے پکا یقین تھا کہ کہیں کوئی غلطی ضرور ھے، میں اسی سوچ میں بیٹھا تھا کہ دیکھا میرا ایک اور دوست سڑک کے دوسری طرف سے مجھے آوازیں دے رھا تھا، میں فوراً اٹھا اور جلدی سے سڑک عبور کرکے اسکے پاس پہنچا، اس نے کہا کہ تم نے اپنا رزلٹ دیکھا میں نے کہا کہ ھاں یار میں تو فیل ھوگیا، کس نے کہا کہ تم فیل ھوگئے دیکھو میرا اور تمھارا دونوں کے رول نمبر ساتھ ساتھ سیکنڈ ڈویژن کے کالم میں چھپے ھوئے ھیں، مبارک ھو، میری تو خوشی کا ٹھکانہ ھی نہ رھا، میں فوراً بھاگتا ھوا گھر پہنچا وھاں پر تمام محلہ ھی اکھٹا ھوا تھا اور سب ھمارے گھر والوں کو مبارکباد دے رھے تھے!!!!!!

میں فوراً مٹھائی لینے بازار بھاگا مگر پہلے ان دوستوں کے پاس دوسرے محلے میں بھاگا اور انہیں پکڑ کر پوچھا کہ تم نے میرا رزلٹ کیسے دیکھا کہ مجھے تو پریشان ھی کردیا، انہوں نے پھر وھی اخبار میں دوبارہ چیک کیا تو دیکھا کہ سیکنڈ ڈویژن کے بقایا نتائج دوسرے صفحے پر تھے، شکر ھے ایک بہت بڑا ایک اور دھچکا لگتے لگتے رہ گیا!!!!!!!

میرا تو خوشی کے مارے برا حال تھا، ملکہ باجی بھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ھوگئی تھیں اور زادیہ تو اب شاید میٹرک میں پہلے ھی پہنچ چکی تھی، ھم سب خوشیوں سے لبریز اچھلتے کودتے پورے محلے میں یہ خوشخبری سناتے پھر رھے تھے!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-45- لڑکپن- میٹرک کے بعد کے حالات،!!!!!!!

میں فوراً مٹھائی لینے بازار بھاگا مگر پہلے ان دوستوں کے پاس دوسرے محلے میں بھاگا اور انہیں پکڑ کر پوچھا کہ تم نے میرا رزلٹ کیسے دیکھا کہ مجھے تو پریشان ھی کردیا، انہوں نے پھر وھی اخبار میں دوبارہ چیک کیا تو دیکھا کہ سیکنڈ ڈویژن کے بقایا نتائج دوسرے صفحے پر تھے، شکر ھے ایک بہت بڑا ایک اور دھچکا لگتے لگتے رہ گیا!!!!!!!

میرا تو خوشی کے مارے برا حال تھا، ملکہ باجی بھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ھوگئی تھیں اور زادیہ تو اب شاید میٹرک میں پہلے ھی پہنچ چکی تھی، ھم سب خوشیوں سے لبریز اچھلتے کودتے پورے محلے میں یہ خوشخبری سناتے پھر رھے تھے!!!!!!!!!!!!!!!!!


ادھر ھمارے سیکنڈری اسکول میں میٹرک کا دور ختم ھوا اور ادھر جنگ کے آثار شروع ھوگئے، والد صاحب کا بھی ملٹری سے بلاوا آگیا، وہ بھی کمپنی سے مختصر چھٹی لے کر چلے گئے، سب نے انہیں بڑی گرم جوشی سے رخصت کیا، بہرحال جنگ ختم ھوئی اور ساتھ ھی والد صاحب بھی واپس آگئے اور پھر سے جنگ کے پعد زندگی معمول پر آگئی،

سیاست اور ملکی معشیت پر کیا اثر پڑا اس کا اس وقت تو اندازہ تو نہیں تھا اور نہ ھی عام لوگوں میں کوئی اتنی سیاست کی سمجھ بوجھ تھی، لیکن عام تاثر یہی تھا کہ 1965 کے بعد ملکی حالات میں کافی تبدیلیاں آئیں، مہنگائی کا دور آہستہ آہستۃ پروان چڑھتا چلا گیا، مگر اس کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہیں ھوا، جس کی وجہ سے ملک میں کرپشن، رشوت اور بلیک میلنگ کا دور بھی چھوٹے پیمانے سے بڑھ کر بڑے پیمانے میں داخل ھوگیا 1971 کے جنگ کے بعد تو برائیوں کی جڑیں اور بھی مضبوط ھوگئیں، اور اب تک اس طرح جاری ھے، مگر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ!!!!!!!!!

کسی چیز پر کوئی کنٹرول نہیں رھا، لوگوں کا صبر ختم ھوگیا، حرص اور ھوس، تعصبیت، حسد اور لالچ لوگوں کی نس نس میں گھستی چلی گئی، لاقانونیت بڑھتی چلی گئی، اور نشہ کا زھر شراب، چرس، افیوں کے بعد ھیروین اور دوسرے خطرناک جان لیوا منشیات کا کاروبار سرعام ھونے لگا، اور اب ھر گلی کوچے میں کہیں نہ کہیں یہ زھر پھیلانے کے اڈے بڑے بڑے اثر رسوق کی پشت پناھی اور سرپرستی میں چل رھے ھیں، ان تمام وجوھات کی بناء پر ھماری تین نسلیں اس کا بری طرح شکار ھوئی ھیں، اب ھم خود اس بات سے اندازہ لگا سکتے ھیں کیا کبھی ھماری نوجوان نسلوں کو اس طرح کے حالات میں اپنے پیروں پر کھڑا ھوکر اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا موقع ملے گا -

اب بھی ھمارے پاس موقعہ ھے اب ھم اپنی آنے والی چوتھی نسل کو اس سے بالکل بچا سکتے ھیں، یہ ھماری ھی اولاد ھیں ھمارے ھی جگر کا ٹکڑا ھیں، اب بھی ھمیں اپنے چند روپوں کی لالچ میں آکر انکے مستقبل کو برباد کرنے پر تلے ھوئے ھیں، آج آپ صرف یہ سوچ لیں کہ ھم جس لڑکے اور لڑکی کو غلط راستے پر ڈال رھے ھیں، ھوسکتا ھے کہ کل کو آپ کے بیٹے یا بیٹی کو بھی کوئی اسی طرح غلط ماحول سے آشنا کراسکتا ھے،

اور ھم جو اتنی بڑی بڑی معاشرے کی برائیوں کو روکنے کیلئیے تقریریں کرتے ھیں اور بڑے بڑے اجتمعات میں جاتے ھیں، لمبے لمبے مباحثوں میں نیک کاموں کیلئے شریک ھوتے ھیں،
کیا ھم یہ کوششیں اپنی گلی اور محلے میں ان خرافات اور برائیوں کو روکنے کیلئے کوئی مل جل کر قدم اٹھا نہیں سکتے،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا ھم یہ کوشش اپنے گھر سے شروع نہیں کرسکتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ایک واقعہ چند محلے کے معزز حضرات نماز پڑھنے جارھے تھے، اور انہوں نے اپنی گلی میں ھی ایک بچے کو ایک غنڈے سے نہ جانے کس بات پر بری طرح مار کھاتے ھوئے دیکھا اور وہ معزز حضرات بغیر کسی مداخلت کئے ھوئے آگے اپنے آپ کو بچاتے ھوئے مسجد کی طرف بڑھ گئے اور کسی کے پوچھنے پر یہی کہا کہ نماز کو دیر ھورھی ھے اور پھر ھم شریف لوگ ھیں، پولیس کچہری کے چکر میں نہیں پڑتے، محلہ کا بچہ اور محلہ کا ھی غنڈہ، کیا کسی مضلوم کی کی کسی ظالم کے پنجے سے جان چھڑانا ایک جہاد نہیں ھے، اس کا مطلب ھے کہ آپ کو اللٌہ کے آحکامات سے زیادہ آپکے محلے کے اس اکیلے غنڈے سے ڈر لگتا ھے -

کسی نہ کسی محلے اور اسکی گلی میں پان کی دکان ھو یا کوئی چھوٹی سی نکڑ پر دکان ھو کہیں نہ کہیں یہ نشے کی زھر کا سامان کسی نہ کسی شکل میں بکتا ھے اور ھم تمام جو معزز لوگ کہلاتے ھیں، ان کو اس بارے میں پتہ بھی ھے اور ایک کونے میں پولیس کی موبائیل بھی کھڑی ھے، اور ان دکانوں سے کیا؟؟ آپ کے بچے گھروں میں چوریاں کرکے اپنے نشے کی عادت کو پورا نہیں کرتے ھیں،؟؟ اگر گھر میں چوری نہ کرسکیں تو یہی آپکے بچے مجبور ھوکر اسی دکان پر لوگوں کی جیبوں پر ھاتھ صاف کرتے ھیں اور نقدی کے علاوہ موبائیل سیل بھی سب کی نظروں کے سامنے سے اڑا لے جاتے ھیں، یہاں پر وہ جہاد کا فلسفہ کہاں چھپ جاتا ھے، ھر برائی کو ختم کرنا بھی ایک جہاد ھے، مگر ھم سب ملکر سڑکوں پر گھیراؤ اور جلاؤ کرنے تو نکل آتے ھیں، مگر کبھی اکھٹا ھو کر ان برائیوں کو روکنے کیلئے سامنے نہیں آتے، ارے بھائی یہ بھی تو جہاد ھے، چار پانچ آدمی اپنے ھی محلے میں چھوٹی سی برائی کو ختم کرنے کیلئے ایک بدمعاش کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ھیں اسلام کو بچانے کی، !!!!!!!!

آج کل ھم جیسے لوگ 1965 کے بعد ھی سے اپنے ملک کو چھوڑ کر باھر کا رخ کرنے لگے، پہلے کبھی پاسپورٹ بنانا بہت مشکل تھا، لیکن آنے والی حکومتوں نے پاسپورٹ کا اجراء کچھ آسان کردیا ایجنٹوں کا دھندہ سرعام ایک اور نشہ کی طرح پھیلتا گیا کئ معصوم شریف لوگ ان ایجنٹوں کے چکر میں آکر لاکھوں روپیہ اپنے گھر کے زیورات مکانات اور جو بھی چھوٹی موٹی جائیداد تھی وہ بھی بیچ کر ان کی جیبیں بھریں اور جائز ناجائز طور سے دوسرے ملکوں میں کمانے کی غرض سے داخل ھوئے اور اب تک اسکی سزا بھگت رھیں ھیں، اور پھر بھی کوئی اثر نہیں ھوتا، اب بھی چلے آرھے ھیں اور یہاں بیٹھ کر پچھتا بھی رھے ھیں،!!!!!

معاف کیجئے گا کچھ جذباتی ھوگیا ھوں، نہ ھم اپنے لئے کچھ کرسکے اور نہ ھی اپنے ملک کا کچھ نام کے آگے کوئی اسٹار لگا سکے، بچوں کی فکر میں کہ وہ وھاں کوئی غلط صحبت یا کسی بری لت میں نہ پڑ جائی اور بیویوں کی جدائی بھی برداشت نہ کرتے ھوئے کافی روپیہ مزید خرچ کرکے سب کو یہاں بلوا بھی لیا، اب یہ صورتحال یہ ھے نہ اپنے گھر کے رھے اور نہ گھاٹ کے رھے، نہ کوئی پیسہ بچا سکے جس نے بھی کچھ بھیجنے کی کوشش کی یا ضرورت کے تحت بھیجا بھی تو وہاں کسی اور محسن کے قبضے میں چلا گیا یا کسی کے ساتھ کاروبار میں لگا کر بندہ برباد ھو گیا اور اگر خود گیا تو گھر پر پہنچنے سے پہلے ھی لٹ گیا ورنہ گھر پر ھی ڈاکہ پڑنے کی اخبار میں سرخی لگی ،

اب جب بھی اپنے ملک جاتے ھیں، تو بالکل ایک مہمانوں کیطرح سلوک ھوتا ھے اپنائیت کے بجائے ایک اجنبئیت محسوس ھوتی ھے، اور ڈرتے رھتے ھیں کہ کسی کو اپنے گھر میں ھی پتہ نہ چل جائے کہ ھم لوگ باھر سے آئیں ھیں اور وہاں کے لوگ بھی اب ھم سے اتنا ڈرتے ھیں کہ رات کو ھم کہیں رک نہ جائیں کیونکہ اگر کسی مخبر کو پتہ چل گیا تو کہیں ایسا نہ ھو کہ ڈاکہ بھی پڑے اور اخبار میں تصویروں کے ساتھ لوگوں کا مجمع بھی گھر پر تعزیت کیلئے لگا رھے!!!!!!!!!!!!!!!!!

ھم جیسے کئی ایسے بھی ھیں کہ بڑے ھونے کے ناتے تمام گھر والوں کی ذمہ داریاں اپنا فرض سمجھ کر نبھاتے رھے، جب سب بہن بھائی بڑے ھوگئے اور اپنی اپنی تعلیم پوری کرکے، اپنے اپنے روزگار اور گھروں کے ھوگئے، ملنا تو چھوڑیں، سلام دعاء سے بھی گئے، اور جو کچھ والدیں کا بچا کھچا اثاثہ تھا، خریدوفروخت کرکے یہ کہہ کر ھضم کر گئے کہ آپ کو کیا کرنا ھے آپ تو باھر ھیں آپ کے پاس تو کافی مال ھوگا،

اب ھماری باری آئی ھے کہ اب ھمیں کسی سہارے یا مدد کی ضرورت ھے، تو سب نے اپنے اپنے منہ موڑ لئے، مگر اب بھی ایسے خدا ترس لوگ موجود ھیں، جو واقعی ھم لوگوں کی حالت کو جانتے ھیں وہ اب بھی ھماری ھر لحاظ سے دل کھول کر مدد کرتے ھیں، جبکہ وہ اپنے ملک میں ھیں، اور اب ھمیں اپنے حال پر شرمندگی ھوتی ھے کہ ھم یہاں پر ھوکر بھی اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں کرسکے، کئی بچوں کی تعلیم ھی ادھوری رہ گئی، اور جب چھٹی جاتے ھیں اور واپسی پر پھر ایک اور سال بھر کا قرضہ چڑھا کر آجاتے ھیں اور پھر سال بعد جب پہلا قرضہ ختم ھوجاتا ھے تو پھر سے چھٹی جانے کی تیاری کرتے ھیں،

اسی گردش میں اپنی ساری عمر تمام ھوگئی، لیکں پھر بھی اللٌہ کا شکر ھے کہ بات اب تک بنی ھوئی ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!

بس کبھی کبھی دل اداس ھوتا ھے تو دل کی ساری بھڑاس نکال لیتا ھوں، ورنہ ھم لوگ کیا کرسکتے ھیں، ھم نے تو خود اپنے پیروں تلے گڑھے کھود رکھے ھیں، ھم نے اپنے بچوں کا مستقبل خود اپنے ھاتھوں سے ھی تباہ کردیا ھے، یہلی نسل کو تو سوچنے کا موقعہ ھی نہ ملا، دوسری نسل کو برے معاشرے نے ھاتھوں ھاتھ لے لیا جب تیسری نسل سامنے آئی تو وسائل کی کمی کا شکار ھوگئی، جس کا ذمہ دار وہ ھمیں ٹہراتی ھے!!!!!!!!

اب ھم اپنا کیا بتائیں کہ ھم نے بھی ڈر کے مارے اپنے ملک کو اس وقت چھوڑا جس وقت ملک کو ھماری سخت ضرورت تھی، ھمارے ملک کے اچھے اچھے ٹیلنٹڈ ھنر مند لوگوں نے اپنی اپنی ساری ایمانداری اور محنت اپنے ملک میں انجام دینے کے بجائے دوسرے ملکوں میں جاکر ان کو فائدہ پہنچایا اور ساتھ اپنے پورے خاندان در خاندان کو بھی ساتھ لے گئے، ھماری سونا جیسی اگلتی زمینوں کو تقسیم کرکے، کچھ بیچ کر ایسے لوگون کے ھاتھ فروقت کر آئے جنہوں نے اس پر ہل کے بجائے بلڈوزر پھرواکر کالونیاں اور بلند و بالا اسٹینڈرڈ کی سوسائٹیاں بنانے اور جوکچھ بچی تھیں وہ ان معصوم کسانوں سے انہیں کی زمینوں پر ہل جتوا کر انکے پرکھوں کا قرضہ اب تک وصول کررھے ھیں،

پھر بھی ھمارے کے کچھ محنت کش کسان سارا سال محنت کرتے ھیں لیکن ان کی یہاں پھر بھی فاقے ھی فاقے ھیں، ان کی محنت کا اصل سرمایہ تو بڑی بڑی تجوریوں میں بند ھے، بڑے بڑے ذخیرہ اندوزوں کے محلات میں ائرکنڈیشنڈ گوداموں میں بند ھے جو مصنوعی قلت پیدا کرکے مال کو آہستہ آہستہ اپنے گوداموں سے نکال کر بلیک میں بیچتے ھیں یا اسمگل کردیتے ھیں اور صارفین کے ھاتھوں تک پہنچتے پہنچتے ان کی قیمتیں دس، بیس گنا بڑھ جاتی ھیں،

ھمارے ملک میں کھیتوں کے کھیت، اور پھلوں اور سبزیوں کے باغوں کے باغ جن پر کسانوں نے دن رات محنت کرکے فصلوں کو سبزیوں اور پھلوں کو تیار کرتے ھیں وہ صرف چند ھی لمحات میں اور تھوڑی سی رقم کی عوض وہ زبردستی نیلام ھوجاتے ھیں، کسان اپنی مرضی سے اپنے ھی ھاتھوں سے اُگایا ھوا مال اپنے ھاتھوں سے مارکیٹ میں نہیں بیچ سکتا اور نہ ھی تھوک مارکیٹ میں مال لے کر داخل ھوسکتا ھے-

کبھی ھمارے سیاست دانوں نے ان حالات کی ظرف بھی غور فرمایا ھے کہ جس ملک کی معیشیت ھی مکمل طور پر زراعت پر منحصر ھے، وہ کس طرح بے چینی کا شکار ھے ھم اگر اپنے وطن سے ذرا سا بھی مخلص ھوں تو اپوزیشن میں بھی رہ کر اپنے وطن کے تمام مسائل کو بہت اچھی طرح حل کیا جاسکتا ھے، مگر افسوس اس بات کا ھے ھر چاھے کسی بھی اسمبلی کا ممبر ھو یا حکومت کا نمایندہ ھو اپوزیشن میں ھو یا اقتدار میں ھو، جو بھی الیکشن میں جیت کر اپنی اس سیٹ پر بیٹھ کر پورے ملک کے عوام کی ترجمانی کرتا ھے، سب سے پہلے تو وہ یہ سوچتا ھے کہ جتنا مال روپیہ پیسہ الیکشن میں لگایا ھے اسے کم سے کم ڈبل تو کرلیا جائے پھر ملک کے بارے میں سوچیں گے، اسی دوران حکومت ھی ختم ھوجاتی ھے یا اسمبلی ھی ٹوٹ جاتی ھے، ایک بھوکے کا پیٹ بھرتا ھی نہیں تو دوسرا اپنا پیٹ خالی لئے کھڑا ھوتا ھے،

اس سیاست داں سے زیادہ مالدار اور بڑا سورس تو کسی بھی گورنمنٹ کے محکمہ کا چپراسی ھوتا ھے، جو آپکا کام اگر کسی منسٹر سے نہ ھو تو یہ چپراسی کچھ رقم کے بدلے آپکا کام منٹوں میں کراسکتا ھے،

کبھی ھم نے ھمارے پیغمبروں کے دور حکومت کے بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کی ھے کبھی ایک مسلمان ھونے کے ناتے اس اس دور کے حکمران اور رعایاء سے رشتہ کے تعلقات کو پہچاننے کی کوشش بھی کی ھے،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اگر ھم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ھیں، تو ھم کہیں پر بھی، کسی جگہ بھی، کسی مقام پر بھی ھوں، اپنے اپنے فرائض ایمانداری اور نیک نیتی سے انجام دیں تو ھم ھی نہیں بلکہ ھمارے ملک کی ترقی میں بھی حصہ لے سکتے ھیں،!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-46- لڑکپن، اسکول سے کالج کی طرف پہلا قدم،!!!!!!!

اسی گردش میں اپنی ساری عمر تمام ھوگئی، لیکں پھر بھی اللٌہ کا شکر ھے کہ بات اب تک بنی ھوئی ھے!!!!!!!!!!!!!!!!!

اپنی کہانی کو شروع کرتا ھوں مگر پھر کچھ ایسی تلخیاں سامنے آجاتی ھیں تو لکھے بناء رہا بھی نہیں جاتا کیا کریں مجبوری ھے، بات ھورھی تھی کہ ھم لوگوں نے باھر آکر اپنے لئے اور اپنے ملک کیلئے کیا کچھ کیا، بلکہ یہ سوچیں کہ،!!!!!!

کیا کھویا کیا پایا
جو بھی کمایا لٹایا

بچوں کی پڑھائی تو ویسے ھی برباد کردی، کچھ نے تو اپنے بچوں کو ، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ میں بھی بھیجا وہ تو وہاں جاکر وہیں کے ھوکر رہ گئے، واپس آنے کی ذحمت گوارا ھی نہیں کی، کچھ نے تو وہیں شادی کرکے اپنا ڈیرا مکمل طور سے ڈال لیا، کچھ گوری میموں نے تو بھتہ بھی وصول کرنا شروع کردیا، کئی نے تو بے چارے والدیں کو بلا کر وہیں بیگم کے نیچے ھی نوکرانیوں جیسا سلوک شروع کردیا، اب آپ سچ پوچھیں تو وہاں کا ماڈرن معاشرہ آپکے بچوں کو ڈانٹنے کا بھی حق نہیں دیتا، کبھی کبھی تو والدین اپنے ھی بچوں کی زیادتیوں کی وجہ سے ھی عدالت میں کھڑے اپنی سزا اور جرمانے کے منتظر ھوتے ھیں،

آج جب بھی والدین کسی نہ کسی طرح زبردستی اپنے بچوں کو پاکستان لے کر آتے ھیں تو آپ کو کیا جواب ملتا ھے، سنئے!!!

ممٌا پاپا !!!! اپ ھم کو کدھر کو لایا ادھر کیا ھے بالکل کچرا ھی کچرا ھے، “بیک ورڈ“ لوگ ادھر کو رھتا، یہ ٹھیک نہیں ھے وہ ٹھیک نہیں ھے گرمی بہت ھے، ائر کنڈیشنڈ نہیں ھے ادھر بوڑھا بوڑھا لوگ ھمارا مذاق اُڑاتا ھے، ابھی ھم کل ھی واپس جانے کو مانگتا ھے، وہاں ھمارا دوست “جمٌی یا کمٌی“ ھمارا انتظار کرتا ھوئے گا، اور ھمارا پاسپورٹ واپس کرو ورنہ!!!!!!!!

یہ تو ھے یورپ اور امریکہ میں رھنے والوں کی پوزیشن جن کے بچے انکے اپنے ھی قابو میں نہیں ھیں تو وہ پاکستانی کلچر کو کیسے اپنائیں گے، یہاں شادیاں کرکے اپنے گھر کیسے بسائیں گے، لوگ کوشش تو بہت کرتے ھیں کہ یہاں سے کسی نہ کسی لڑکے یا لڑکے کو خرید کر وہاں لے جائیں اور اپنے بچوں کی طرح انکی زندگی کو بھی ایک عذاب میں ڈال دیں کبھی آپ میں سے کسی نے بھی اپنی بیٹی کی خبر لی بھی ھے جسے بڑی دھوم دھام سے بیاہ تو دیا لیکن وہ وہاں کیسے جی رھی ھے اگر پتہ بھی چل جائے تو کیا کرسکتے ھیں، اگر لڑکے کو وہاں وداع کیا ھے تو اسے تو بالکل بھول ھی جائیں تو بہتر ھی ھے،

اور ھم جیسے والدیں جو برسوں سے یہاں مڈل ایسٹ میں اپنے بچوں کے ساتھ پڑے ھوئے ھیں ان کی کیا زندگی ھے، پاکستاں چھٹی جاتے ھیں تو بچوں کو وہاں کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی کوئی علاقہ اچھا نہیں لگتا، وہ بھی ائرکنڈیشنڈ کی بات کرتے ھیں، کیونکہ گرمیوں میں ھی چھٹیاں ملتی ھیں، یہاں ائرکنڈیشنڈ کی وجہ سے ھی بہت سی بیماریوں میں مبتلا ھوچکے ھیں، دھوپ میں کچھ دیر بھی کھڑے ھونے کی عادت نہیں ھے، ورزش کا یہاں کوئی رواج ھی نہیں ھے، انٹرنٹ کے عادی بن چکے ھیں اب تو ھر بچے کے پاس اس کا اپنا موبائیل، باپ کے پاس گاڑی ھو نہ ھو بیٹوں کے پاس گاڑیاں بھی ھیں اور شکر ھے کہ سعودیہ میں تو عورتوں کو گاڑی چلانے اور بغیر عبایہ کے باھر نکلنے پر پابندی ھے، ورنہ یھاں بھی عورتیں گاڑی دوڑاتی نظر آتیں،

نہ ھم یہاں کے رھے نہ اپنے ملک کے رھے، بس یہاں ایک خوش قسمتی سے عمرہ اور حج کرنے کی سہولت اور روضہ مبارک:saw: کی زیارت تو ممکن ھے جس سے اب تک بہت سے لوگوں کا ایمان اب تک تازہ ضرور ھے، اور کچھ نہیں تو کم از کم زیادہ تر لوگ پانچوں وقت کی نمازیں تو ادا کرتے ھیں،!!!!!!!!!!!

چلئے پھر وہیں سے اپنی یادوں کو سمیٹتا شروع کرتا ھوں، جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا،!!!!!!

ادھر ھمارا سیکنڈری اسکول میں میٹرک کا دور ختم ھوا اور ادھر جنگ کے آثار شروع ھوگئے، والد صاحب کا بھی بلاوا آگیا، وہ بھی کمپنی سے مختصر چھٹی لے کر چلے گئے، سب نے انہیں بڑی گرم جوشی سے رخصت کیا، بہرحال جنگ ختم ھوئی اور ساتھ ھی والد صاحب بھی واپس آگئے اور پھر سے جنگ کے پعد زندگی معمول پر آگئی،

آج جب میٹرک سے فارغ ھوئے تو ایسا لگا کہ کھلی فضا میں سانس لے رھے ھوں، اس وقت تو میٹرک کرنا ایک بہت بڑی خوش نصیبی سمجھی جاتی تھی، میٹرک پاس کرنے والا تو ایسا مشہور ھوجاتا تھا کہ دور دور سے لوگ اسے مبارکباد دینے چلے آتے تھے، اور آج کل کوئی ماسٹر بھی کرلیتا ھے تو کوئی پوچھتا ھی نہیں!!!!!!

اب کالج میں داخلے کے لئے لوگوں سے مشورے شروع ھوگئے والد صاحب بضد تھے کہ میں کامرس اور اکاونٹس کو لے کر آگے چلوں اور میرا خیال آرٹ، مصوری، اور اردو ادب سے تھا، جس کے لئے میں آرٹس کونسل آف پاکستان میں داخلہ لینا چاھتا تھا، تاکہ اپنے شوق کو پروان چڑھاؤں، لیکن والد صاحب نے میری ایک نہ سنی بلکہ فوراً ھی اسلامیہ کامرس کالج میں صبح کی شفٹ میں داخل کرادیا -

مجبوری تھی ورنہ تو میرا بالکل بھی دل نہیں چاھتا تھا کہ کامرس گروپ لوں، خیر کیا کرتا اباجی کے آرڈر تھے، ماننا پڑا اور چل دئیے دوسرے دن سے اسلامیہ کالج، والد صاحب کو یہ کالج کا نام اچھا لگا، جبکہ اور بھی اچھے اچھے کالج تھے، ویسے اس کالج کی بلڈنگ بہت خوبصورت اور بہت بڑی تھی، اس کالج میں کامرس کے علاؤہ سائنس اور آرٹس گروپ بھی تھے، اور ان کے رخ اور گیٹ بھی الگ الگ تھے، ساتھ ھی مزارِ قائدآعظم چند قدم کے فاصلے پر تھا، اور کالج کے میں گیٹ کے سامنے روڈ پر ایک چوراھے کے بیچ دنیا کا بہت بڑا گول گلوب بنا ھوا تھا، جب چاھو اس کے گرد گھوم کر بغیر ٹکٹ دنیا کی سیر کرلو اور اس سے اسلامیہ کالج کا نظارہ بھی بہت ھی خوبصورت لگتا تھا، ھمارے کالج کے سامنے ایک انجیرنگ کالج بھی تھا جس کا نام شاید داؤد انجینئر کالج تھا،

پہلے دن میں کچھ زیادہ ھی اسکول کی طرح کتابیں اور کاپیاں کا بوجھ لاد کر لے آیا جبکہ دوسرے لڑکے صرف ایک ھی پلاسٹک کی فائیل لے کر آئے تھے، مجھے یہ دیکھ کر تعجب بھی ھوا، بہرحال پہلا دن تھا تعارفاتی پروگرام میں ھی سارا دن گزر گیا، ھاف ٹائم میں بھی بس اکیلا ھی گھومتا رھا، کینٹین گیا ایک شوقیہ طور پر چائے منگوائی، مگر کوئی دوست نہ بنا پایا، اور کوئی بھی میرے اسکول سے یہاں داخلہ لینے نہیں آیا، بس مختصر سی علیک سلیک ھوئی اور کوئی خاص لفٹ نہیں ملی، کلاس میں کرسی سے ھی ایک جڑی ھوئی صرف فائیل رکھنے کی ایک چوڑی سی جگہ بنی ھوئی تھی، اور اسکول کی طرح کوئی ڈیسک وغیرہ نہیں تھی،

دوسرے دن سے باقائدہ طور سے کلاسس شروع ھوگئی تھیں،ایک اور چیز نے پھر مجھے تعجب میں ڈال دیا کہ اسکول میں ھر پیریڈ کے بعد تو ٹیچرز، کلاس روم میں آتے تھے، لیکں یہاں اسٹوڈنٹس کو لیکچرار کے کمرے میں جانا پڑتا تھا، ھر ایک کے پاس ھر کلاس کا ٹائم ٹیبل بھی تھا، یہ بھی میرے لئے ایک نئی چیز تھی، اس کے علاؤہ لڑکیاں بھی ساتھ ھی پڑھتی تھیں مجھے اس بات کی حیرانگی بھی ھوئی کہ پرائمری اسکول میں بھی لڑکیوں کا ساتھ تھا اور پھر کالج میں بھی لڑکیوں کا ساتھ دیکھا لیکن سیکنڈری اسکول میں لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھتے نہیں دیکھا، ھوسکتا ھے کہ اس میں بھی کوئی منطق شامل ھو، ھمیں کیا، ھمیں تو پڑھائی سے ھی غرض رکھنا تھا -

مجھے تو اور بھی زیادہ خوشی ھوئی کہ صرف ایک ھی فائیل لے کر جانا پڑتا تھا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ کوئی حاضری بھی نہیں لگتی تھی اسکے علاؤہ بغیر یونیفارم کے، میرا مطلب ھے کہ کوئی بھی ڈریس پہن کر اسکول جاسکتے تھے ، ھر کسی کو دیکھا نئے نئے اسٹائیل کے کپڑے، ہیرو کے اسٹائیل کے بال سیٹ کئے ھوئے، دھوپ کا بلیک چشمہ لگائے جیمز بونڈ کی طرح چلتے ھوئے کالج میں داخل ھوتے تھے، اور لڑکیاں تو ان سے دو ہاتھ آگے تھیں، ان لڑکوں کو زیادہ تر لڑکیوں کے گروپ کے ساتھ یا تو کالج کے کینٹین میں یا کالج کے درمیان کے پارک میں گھومتے پھرتے یا پھر کامن روم میں شور مچاتے ھوئے کیرم بورڈ یا ٹیبل ٹینس کھیلتے ھوئے دیکھا تھا، کبھی کبھی لڑکیوں کے ساتھ بھی کھیلتے ھوئے پایا اور قائد کے مزار پر بھی حاضری دیتے ھوئے دیکھا، وہاں کالج سے زیادہ رش ھوتا تھا، شاید سب قائد کی پیروی کرنے وہاں ان کا اثر لینے جاتے ھونگے -

میں اپنے آپ کو ان سب کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا محسوس کر رھا تھا، کیونکہ ایک تو میرے کپڑے اور خاص طور سے میرے بالوں کا اسٹائیل کو تو والد صاحب اپنے فوجی کٹ کے حساب سے ھی رکھواتے تھے، اسکول کی حد تک تو صحیح تھا لیکن کالج میں مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رھا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ مجھے کچھ وہاں پر لفٹ نہیں مل رھی تھی، گھر پر آکر اباجی کے بجائے اماں سے کہا کہ میں یہ کپڑے پہن کر کالج نہیں جاونگا، مجھے بازار سے اچھے ٹیلر کے پاس سے کپڑے سلوا کر دیں اور ساتھ ایک اچھا سا باٹا ایک کا جوتا، ایک نہیں کم سے کم چار جوڑے تو ھوں، (کیونکہ کالج میں تو ھر روز لڑکے نئے نئے جوڑے ھی پہن کر آتے دیکھتا تھا) اور یہ میرے بال اباجی سے کہیں کہ سولجر کٹ نہ کٹائیں، مجھے اس طرح ان کپڑوں میں کالج جاتے ھوئے شرم بھی آتی ھے، اور اگر اسکا بندوبست نہ ھوا تو میں کل سے کالج نہیں جاونگا، یہ الٹی میٹم اماں کو تو سنا دیا، اور ڈر ڈر کر ابا حضور کا انتطار کرنے لگا -

شام کو جب اباجی دفتر سے گھر پہنچے تو ھماری اماں نے میری یہ شکایت والد صاحب کے حضور رکھ دی، ارے باپ رے والد صاحب بہت گرم ھوئے، انکا فوجی مزاج، کبھی زندگی میں تو کالج گئے نہیں، اور بس انگریزوں کے زمانے میں انہوں نے شاید میٹرک پاس کیا ھوگا، انہیں کیا پتہ کہ کالج میں کیسے پڑھا جاتا ھے، کس طرح رھا جاتا ھے میں بستر پر فوجی کمبل اوڑھے اپنے آپ سے ھی بکتا جارھا تھا،

ایک اور زور کی آواز سنائی دی کہ میرے پاس کوئی قارون کا خزانہ نہیں کہ اس لاٹ صاحب کو یہ نوابی چیزیں خرید کر دوں،!!!!! مارے گئے کچھ ایسے ھی کچھ مکالمات سے انہوں نے آغاز لیا اور اختتام اس جملے سے کیا کہ،!!!! اس نواب صاحب کو کہہ دو کہ اگر کالج میں پڑھنا ھے تو اسی حالت میں جانا ھوگا ورنہ کوئی ضرورت نہیں ھے کالج جانے کی، اس کو میں کسی مکینک کے ساتھ ھی لگادونگا، جہاں کپڑے بھی کالے، منہ بھی کالا!!!


اور میں نے دل میں روتے ھوئے کہا کہ وہاں میکینک کے پاس تو منہ دھونے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، کیا پتہ لگے گا کہ منہ دھویا بھی ھے یا نہیں، پانی کی بھی بچت ھوجائے گی!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-47- لڑکپن، اسکول کے بعد کالج کے ٹھاٹھ،!!!!!!!

اور میں نے دل میں روتے ھوئے کہا کہ وہاں میکینک کے پاس تو منہ دھونے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، کیا پتہ لگے گا کہ منہ دھویا بھی ھے یا نہیں، پانی کی بھی بچت ھوجائے گی!!!!!!!!!!!!

کچھ دیر بعد خودبخود ھی والد صاحب کا غصہ ٹھنڈا ھوگیا، مجھے کہا کہ، کل کسی طرح گزارلو اور شام کو میرے دفتر آجانا وہاں سے سیدھا بازار چلیں گے اور جو تمھیں پسند ھوں خرید لینا، یہ کہہ کر وہ باھر کہیں چلے گئے اور میرا خوشی کے مارے ٹھکانا ھی نہ رھا، اب کل تک وقت گزارنا بہت مشکل تھا، شام کو ملکہ باجی کو بتایا اور وہ بھی بہت خوش ھوئیں، ان کے بس میں نہیں تھا ورنہ وہ بھی مجھے ایک سے ایک اچھے جوڑے بناکر دیتی، انہوں نے کالج میں تو داخلہ نہیں لیا لیکن پرائیویٹ امتحان دینے کا ارادہ ضرور تھا، وہ بھی مجھے بہت چاھتی تھیں اور ھمیشہ مجھے اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دلاتی رھتیں، اور وہ مجھے ھمیشہ والدیں کا حکم ماننے پر بہت نصیحتیں کرتی رھیں -

دوسرے دن میں تیار ھو کر کالج پہنچا لیکن بالکل دل نہیں لگا، کیونکہ وہاں کے لڑکوں کے ساتھ میرا کچھ دل نہیں مان رھا تھا بہت تیز اور طرار تھے اور لگتا تھا کہ زیادہ تر امیر خاندان کے بگڑے ھوئے نواب تھے، کچھ اچھے بھی لڑکے تھے، خیر اب مجبوری تھی کہ اسی کالج میں پڑھنا تھا، دوپہر کو کالج سے واپسی ھوئی اور کھا پی کر فارغ ھوا اور پھر والد صاحب کے دفتر جانے کی تیاری کی اور کچھ اپنی شکل ضرورت کے مظابق ٹھیک ٹھاک کرلی اور دو بسیں بدل کر تقریباً ایک گھنٹہ میں وہاں پہنچا، اب تو میرا قد پہلے سے کافی لمبا ھوگیا تھا مگر دبلا پتلا تھا،!!!!!!

والد کے آفس کافی عرصہ کے بعد گیا تھا، وہاں پر والد کے تمام دوست مجھے اچھی طرح جانتے بھی تھے، مگر وہاں اب ان کے نئے باس تھے، وہ بھی بہت اچھے اور ملنسار طبعیت کے مالک تھے، لیکن کمپنی کے بہت پرانے افسران میں سے تھے والد صاحب میرے پہنچتے ھی مجھے ان کے پاس لے گئے اور انہوں نے مجھے بہت مبارکباد دی اور اچھا پڑھنے کیلئے مجھے کافی ساری معمول کے مطابق نصیحتیں بھی کیں، جس کا کہ میں پہلے ھی سے سننے کا عادی تھا جہاں بھی جاو خیر خیریت کے بعد یہی نصیحتیں ملتی تھیں، شاید لگتا تھا کہ اباجی نے ان سے ھی کوئی ایڈوانس میرے لئے لیا ھوگا -

اباجی کا آفس ساڑے چار بجے ھی بند ھوجاتا تھا، چھٹی ھوتے ھی کمپنی کی گاڑی میں بیٹھے اور مین صدر بازار کے نزدیک اتر گئے ان کے ساتھ ان کے ایک دوست بھی اتر گئے، حالانکہ وہ دفتر کے نزدیک ھی رھتے تھے لیکن وہ والد صاحب کی مدد کیلئے ساتھ آئے تھے اور میرے لئے انہوں نے ریڈی میڈ تین پینٹ قمیض کے جوڑے اور ایک باٹا کے جوتے کا جوڑا بھی دلوایا انہیں کافی تجربہ تھا اسلئے ابا جی انہیں ساتھ لے آئے تھے،!!!!

مجھ سے اپنی خوشی چھپائے چھپ نہیں رھی تھے، زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے اچھے اور مہنگے کپڑے دیکھنے کو ملے تھے، والد صاحب کو ان کے دوست نے زبردستی یہ ایک اچھی ریڈی میڈ دکان سے یہ کپڑے دلوائے تھے ورنہ اگر والد صاحب کی پسند ھوتی تو شاید ایسے نہ ھوتے ان کا بھی کیا قصور وہ بھی اپنا ھر کام بجٹ میں ھی رہ کر کرتے تھے لیکن شاید یہ پہلی مرتبہ وہ بجٹ سے باھر آگئے، کچھ پریشان بھی تھے، شاید کچھ پیسے کم پڑنے کی وجہ سے انہیں اپنے دوست سے کچھ قرض بھی لینا پڑا اور شاید یہ انکا پہلا موقع تھا-

گھر آکر تو بس مت پوچھئے کہ کیا حال ھوا، دوسرے بہن بھائیوں کو تو بہت مشکل سے والد صاحب نے سمجھایا کیونکہ وہ بھی نئے کپڑوں کے لئے ضد کررھے تھے، اور پھر رات کو تمام کپڑے گھر کی کوئلے کی استری سے تمام کپڑوں کو استری کئے اور جوتے تو ویسے ھی نئے تھے پھر بھی خوب کپڑے اور برش سے چمکا لئے تھے، اور میں ویسے بھی کپڑے استری کرنے میں اور جوتے چمکانے میں ماسٹر تھا گھر کے سب بہن بھائیوں کے کپڑے بھی میں خود ھی استری کرتا تھا، کیونکہ کوئلے کی استری کو گرم کرنا اور استری کرنا انکے بس کا روگ نہیں تھا-

صبح صبح کچھ جلدی اٹھ گیا اور دوسر بچوں کے ساتھ میں بھی تیار ھو گیا، ائینہ میں اپنی شکل دیکھی تو بالکل اپنے آپ کو بدلا ھوا پایا، اور میں نے آہستہ آہستہ پہلے سے ھی بال بڑھانے شروع کردئیے تھے، جس کیلئے والد صاحب کئی دفعہ بال کٹوانے کو کہہ چکے تھے، مگر میں ھمیشہ چکر ھی دے دیتا، کل ھی کالج سے واپسی پر نائی کی دکان پر جاکر صرف استرے سے سایڈ کی قلمیں ھی بنوا کر بال سیٹ کروا لئے تھے، اور والد صاحب کے سامنے خوب بالوں میں پانی اور تھوڑا سا تیل لگا کر بالوں کو چپکا کر گیا تھا تاکہ وہ کہیں ڈانٹیں نہ، لیکن شکر ھے ان کی نظر میرے بالوں پر گئی نہیں اس لئے انہوں نے کچھ محسوس ھی نہیں کیا،!!!!!

بہرحال جب نیا جوڑا پہنا اس پر نئے چمکتے ھوئے بوٹ چڑھا کر خود کو آئینے کے سامنے دیکھ کر اتراتا ھی رھا، اوپر سے ایک خوبصورت سا گھر کا بنا ھوا نیا سویٹر بھی چڑھا لیا، کیونکہ سردی کا موسم تھا، کالج کی فائیل پکڑی اور جیسے ھی باھر نکلا تو مجھے بہت شرم سی کچھ جھجک سی محسوس ھوئی، جیسے ھی باھر سب کو سلام کرتا ھوا نکلا تو گھر کے بعد فوراً اپنی ملکہ باجی کے پاس گیا وہ خود بھی مجھے دیکھ کر حیران ھوگئیں اور فوراً ماتھے پر پیار کیا اور میری نظر اتاری اور کہا کہ آج تو واقعی لاٹ صاحب لگ رھے ھو، انکی چھوٹی بہن زادیہ، امی اور نانی جان بھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوئیں،

میں جب اس محلے سے نکل رھا تھا تو ھر کوئی مجھے ایک عجیب ھی طریقے سے دیکھنے لگا، جیسے میں کوئی عجوبہ ھوں اور میں بھی شرماتا ھوا نکل رھا تھا اور بار بار اپننی قمیض اور پینٹ کو راستے میں ٹھیک کرتا جارھا تھا اس کے علاوہ کالج پہنچنے سے پہلے کئی دفعہ اپنے جوتوں کو بس میں ھی، کچھ نہ ملا تو دوسروں کے ھی کپڑوں سے ھی کھڑے کھڑے صاف کرلئے تھے، اور صبح صبح رش میں کسی کو کیا پتہ چلتا، مگر اب جب سوچتا ھوں تو بہت افسوس ھوتا ھے کے کالج کے زمانے میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے!!!!!!!!!!

اس وقت کو تو چھوڑیں اب بھی بہت سے ایسے لوگ ھیں جو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت ھی نہیں کرسکتے، اور اخراجات صرف کالج کی فیس تک ھی محدود نہیں ھوتی آپ کے بچے کے اسٹینڈرڈ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ھے کہ کہیں آپکا بچہ کالج میں اپنے لباس اور رکھ رکھاؤ کے لحاظ سے اپنے آپ کو احساس محرومی یا کمتری کا شکار تو نہیں سمجھ رھا ھے، ھمیں معلوم ھے کہ والد صاحب نے ھم بہن بھائیوں کو بہت کم وسائل میں بھی کتنی محنت اور تکلیفوں سے پڑھایا، ھمارے اسٹینڈرڈ کا بھی خیال رکھا اور کتنے قرض میں ڈوبتے چلے گئے، لیکن ھر ایک کی بس کی بات نہیں ھے، ھمارے ملک کی تعلیمی پالیسی بالکل غریبوں کے حق میں نہیں ھے، اور ناخواندی کا ھمارے ملک میں کیا تناسب ھے یہ سب کو پتہ ھے، کسی بھی غریب کا بچہ میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل ھی نہیں کرسکتا اور ھماری ھر حکومت یہی کہتی ھے کہ ھمیں اپنے مستقبل کے معماروں کے لئے ایک نئی تعلیمی پالیسی مرتب کررھے ھیں جس سے ھر عام شخص بھی فائدہ اٹھا سکے گا -

ھمیں آج تک یہ نہیں پتہ چل سکا کہ وہ عام شخص کون ھے اور سرکاری تعلیمی پالیسی کونسی ھے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ ھمارے تعلیمی محکمہ سے تعلق رکھنے والے خود معیاری تعلیم کے تعلیم یافتہ نہیں ھیں تو وہ کیا تعلیمی پالیسی بنائیں گے، یہ تو سب جانتے ھیں کہ وہاں پر کیا کیا بدعنوانیاں ھوتی ھیں، خود وہاں کے برسوں سے کرسیوں سے چمٹے ھوئے ذمہ دار اہلکار ھمارے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے والے معمار، کیا کبھی آپ نے ان کو اپنی سیٹوں پر بیٹھے کوئی کام کرتے ھوئے دیکھا ھے، کیا کبھی کسی بھی علاقے کے تعلیمی معیار کا انہوں نے سروے بھی کیا ھے، ان سے صرف سروے، اور پلاننگ کا اصل مظلب ھی پوچھ لیں تو انہیں واقعی معلوم نہیں ھوگا اس کے علاؤہ پالیسی کیسے مرتب کی جاتی ھے، شاید ھی کسی کو پتہ ھو،


ھاں یہ بات ضرور ھے کہ یہی تعلیمی محکمے کا ھی نہیں ھر کسی سرکاری محکمے میں زیادہ تر ملازمیں تنخواہ تو سرکار سے لیتے ھیں، مگر نوکری کسی اور کی کرتے ھی!!!!

ھمارے یہاں اسی طرح کے تعلیمی خرچے صرف اعلیٰ افسران ھی برداشت کرسکتے ھیں، جن کے بچوں کے لئے گاڑی سرکار کی، تعلیمی خرچ بھی سرکار کے، لانے لے جانے کیلئے نوکر سرکار کے، گھر کے سارے کام سرکاری کھاتے میں، اور یا جو اوپر سے اتنا پیدا کرلیتے ھیں کہ اگر وہ چاھیں تو پورے محلے کے سارے بچوں کے تعلیمی اخراجات آسانی سے پورے کرسکتے ھیں، اچھے اور معیاری اسکولوں میں اوٌل تو داخلہ نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ھے تو ایک اچھے خاصے چندے کا مطالبہ ھوتا ھے جو ھر ایک کے بس کی بات نہیں ھے، کئی لوگ پھر مجبوری میں ناجائز ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لاتے ھیں،

کاش کہ ایسے مخلص لوگ ھماری حکومت یا اپوزیشں میں آئیں، جو خلوص نیٌت سے ملک اور عّوام کی خدمت کرسکیں، کوئی ایسی پالیسی بنا سکیں جو صرف اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں ھو نہ کے انکے خود کے مفاد میں، جو وعدے کریں ان پر عمل بھی کرین، سب سے پہلے کرپٹشن کو ختم کریں ان کی جڑوں کو بالکل مٹا دیں، اور یہ سب ھم جانتے ھیں کہ کہاں کہاں بدعنوانیاں ھورھی ھیں -

کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ان عوام کی خدمات کے سرکاری اداروں کے محنت کش غریب ملازمین کو اتنی مراعات دیں کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو پرسکون طریقے سے چلاسکیں، اور وہ اپنی زندگی کی مشکلات کے حل کےلئے ناجائز ذرائع اور وسائل کا شکار نہ بنیں!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-48- لڑکپن سے جوانی کی طرف پہلا قدم،!!!!!!!!

میں جب اس محلے سے نکل رھا تھا تو ھر کوئی مجھے ایک عجیب ھی طریقے سے دیکھنے لگا، جیسے میں کوئی عجوبہ ھوں اور میں بھی شرماتا ھوا نکل رھا تھا اور بار بار اپننی قمیض اور پینٹ کو راستے میں ٹھیک کرتا جارھا تھا اس کے علاوہ کالج پہنچنے سے پہلے کئی دفعہ اپنے جوتوں کو بس میں ھی، کچھ نہ ملا تو دوسروں کے ھی کپڑوں سے ھی کھڑے کھڑے صاف کرلئے تھے، اور صبح صبح رش میں کسی کو کیا پتہ چلتا، مگر اب جب سوچتا ھوں تو بہت افسوس ھوتا ھے کے کالج کے زمانے میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے!!!!!!!!!!

آج کچھ کالج کے لڑکون کے ساتھ میں کچھ تو میچ کر رھا تھا، میں بہت خوش تھا، مگر جوتا بہت تنگ کرنے لگا، شام تک کلاسوں میں گھومتے گھومتے جوتے نے کاٹنا شروع کردیا، تھوڑی سی لنگڑاہٹ پیروں میں آگئی اور ساری اسمارٹنس دھری کی دھری رہ گئی، اسی طرح لنگڑاتے ھوئے گھر پہنچے، جوتے اتارے پیروں میں چھالے پڑچکے تھےَ، خیر مرھم وغیرہ لگاکر چارپائی پر پیر پھیلا کر بیٹھ گئے، جیسے مایوں کی رسم میں دولھا بیٹھا ھو،

ھم غریبوں کو تو کوئی خوشی بھی راس نہیں آتی، اب کل کیسے کالج جائیں، دوسرے دن آرام کیا ایک دن تک جوتوں کو کچھ نرم کرنے کیلئے کچھ قوت آزمائی کی اور تیسرے دن روئی وغیرہ جوتے میں پھنسا کر پیروں کو اس میں ڈال کر خراماں خراماں ایک اور نئے جوڑے کو پہن کر کچھ اتراتے اٹھلاتے گھر سے باھر کالج کیلئے نکلے، اس سے پہلے چمڑے کے جوتے نہیں پہنے تھے ھمیشہ کینویس کے جوتے جنہیں پی ٹی شو کہتے ھیں، اسی کی شروع عادت رھی، خیر کیا کرتے، چال میں تو فرق آنا ھی تھا -

وہ کیا کہتے ھیں کہ کوا چلا ھنس کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا !!!!!!

دو تین دن کے استعمال کے بعد جوتے بھی اپنے ساتھ کچھ مانوس سے ھوگئے، چال بھی کچھ ٹھکانے آگئی، بس ایک مشکل تھی کہ گھر سے بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے جوتوں پر اتنی دھول گرد جم جاتی کہ مجبوراً بس سے اترنے سے پہلے ھی بس میں ھی دوسروں کے کپڑوں سے جوتوں کی صفائی کرلیتا، اگر بس میں رش نہ ھو تو، ورنہ پھر ایک چار آنے جیب خرچ میں سے بچاکر کالج پہنچنے سے پہلے ھی اپنے جوتے پالش کرالیتا، اور بڑے احتیاط سے قدم بڑھاتا ھوا کالج میں داخل ھوتا، کہتے ھیں کہ کپڑے کیسے ھی کیوں نہ پہنے ھوں، لیکن انسان کی شخصیت لباس سے زیادہ جوتوں کی چمک سے کچھ زیادہ ھی نکھر آتی ھے -

واقعی نئے نئے لباس چمکتے ھوئے جوتوں نے کمال تو دکھایا، کچھ لڑکے تو نزدیک آگئے اور ھر کلاس میں ساتھ ھی بیٹھنے لگے، اب ھماری بھی کچھ گردن اکڑ گئی، اور ایک اپنے بالوں کے اسٹائیل کے ساتھ ساتھ باتوں کا اسٹائیل بھی کچھ بدل گیا، کچھ فلموں کا اثر تھا اور کچھ نئے دور کے دوستوں کی سنگت نے اپنا کمال کر دکھایا، شروع شروع میں تو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کینٹین میں جاکر تو اپنے پاس سے چار آنے کی اسپشل چائے کا آرڈر ایسے کرتا تھا جیسے واقعی کوئی بگڑا ھوا نواب ھوں، اور کبھی کبھی ایک آنہ چائے لانے والے لڑکے کو بخشش بھی دے دیتا تھا، اگر جوتے پالش نہ کرائے ھوتے تب،!!!!!!

وہاں ایک بات ضرور تھی کہ لڑکے اپنا اپنا ھی خرچا کرتے تھے، کبھی کبھی کوئی موڈ ھو تو چائے پلا دیتا تھا مگر وہ اسکے ڈبل ھی وصول کرکے چھوڑتا تھا، ایک بات تو بعد میں پتہ چلی کہ لڑکوں کے ٹھاٹ باٹ زیادہ تر لنڈابازار کے خریدے ھوئے کپڑوں سے ھوتی تھی، مگر والد صاحب کو پسند نہیں تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ سادہ اور سستے ھوں مگر اپنے ھوں، لیکن ایک دو دفعہ میں نے چپکے سے والدہ سے کچھ پیسے لے کر ایک دوست کے ساتھ لنڈابازار جاکر سردیوں کے لئے ایک سوٹ کا بھی بندوبست کرلیا تھا جو اس دکان والے نے دوسرے دن کچھ اپنے سائز کے مطابق فٹ کرکے دیا تھا جو اسی قیمت میں شامل تھا، اور ایک اور براؤن کلر کا جوتا بھی سیکنڈ ھینڈ خرید لیا تھا، گھر میں ایک سویٹر تو تھا ھی، ایک اور خوبصورت س پٹیوں والا وہایٹ اور براؤن رنگ کا سویٹر اور ساتھ دو تین قمیضیں بھی وہیں لائٹ ھاؤس کے پاس لنڈابازار سے خرید لیں وہ دوست ان چیزوں میں ماسٹر تھا اور اس نے مجھ سے سختی سے منع کیا تھا کہ یہ راز کسی کو بھی نہیں ‌بتانا جبکہ سب لڑکے وہیں سے ھی کپڑے وغیرہ خریدتے تھے-

اب تو اس سوٹ نے کمال ھی کر دکھایا، بالکل لگتا ھی نہیں تھا کہ لنڈا بازار کا ھے، اب تو میں سوٹ بوٹ میں گھر سے نکلا کرتا اور اب تو کچھ عادت سی بھی ھو گئی تھی، بے چارے محلے کے لڑکوں کے ساتھ آہستہ آہستہ دوستی بھی ختم ھوتی جارھی تھی، اب زیادہ تر میں باھر ھی وقت گزارتا تھا، شام تک ھی گھر کا رخ کرتا اور بہانہ ٹیوشن کا کرلیتا تھا یا کسی پارٹی کا کہہ کر گھر سے اجازت لے لیتا تھا، مگر اسی دوست کے علاؤہ کسی کو بھی اپنے گھر کا ایڈریس پتہ نہیں تھا، ورنہ ساری پول پٹی کھل جاتی -

اور زیادہ تر رات کو کھانا کھا کر ھماری باجی کے ھاں ریڈیو کے پروگرام سننے چلے جاتا، میرے ساتھ میرے بہن بھائی بھی ھوتے کبھی کبھی میرے والدیں بھی ساتھ رھتے اور ان سے گپ شپ کرکے ریڈیو کے کچھ اھم ڈرامے وغیرہ سنتے، والدیں الگ گپ شپ میں مصروف اور ھم لوگ الگ انکے صحن میں ھی کھیلتے یا باتیں کرکے ٹائم پاس کرتے اور ہفتہ والے دن کافی رات گئے تک وھیں رھتے کیونکہ اب ان دونوں بہنوں پر باھر کھیلنے پر پابندی لگ چکی تھی، شاید وہ کچھ عمر کے ساتھ قد میں بھی بڑی ھورھی تھیں، غرض کہ دونوں فیملیاں آپس میں بہت اچھے تعلقات رکھے ھوئے تھیں اسکے علاوہ ھمارے ساتھ کبھی کبھی دوسری فیملیز بھی شریک ھوجاتیں اور ساتھ ھی ھر ویک اینڈ پر باھر گھومنے کا پروگرام بھی بن جاتا، بہت ھی اچھے دن گزر رھے تھے،

ایک بات بتانا تو بھول ھی گیا اباجی نے بڑی مشکل سے ایک ھاتھ کی سیکنڈ ھینڈ گھڑی 35 روپے کی خرید کر بھی دی تھی، جسے ھر روز چابی بھی دینی پڑتی تھی، اس سے ھماری شان میں ایک اور اضافہ ھوگیا تھا، اب تو ایک سوٹ بوٹ اور اوپر سے گھڑی آستیں سے بار بار جھٹکا دے کر باھر نکالنا اور بالوں کے لئے ایک اسپشل کنگھی بھی خرید لی تھی، جیسے ھی کوئی موقع دیکھتا بالوں میں گھما لیتا، ویسے تھا میں دبلا پتلا لیکن سوٹ پہن کر میں کچھ بھرا بھرا سالگتا تھا، مگر ایک ھی سوٹ آخر کب تک ھماری شان بڑھائے رکھتا ایک اور صرف کوٹ بھی اسی مارکیٹ سے سستا ھی خرید لیا اور مختلف پتلوں کے ساتھ چڑھا لیتا ایک تین چارٹائیاں بھی ساتھ پہلے سے ھی خرید لیں تھیں اور بدل بدل کر میچنگ کے ساتھ چلا رھا تھا-

کیا بات تھی چھوٹے سیٌد صاحب کی، مجھے اکثر باھر اباجی کے دوست چھوٹے سیٌد صاحب ھی کہہ کر بلاتے تھے، اور اباجی بھی میرے روز کا کالج بڑے اھتمام سے جانا اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر بہت خوش ھوتے تھے، اور گھر میں بھی ان کو دکھانے کیلئے کتابیں ھاتھ میں لے کر کچھ دیر والد صاحب کو مظمئین بھی کرلیتا، لیکن اب ایک اور عادت پڑ چکی تھی روز ایک آنے کرایہ پر کوئی نہ کوئی “ابن صفی“ کی جاسوسی ناول کی آفریدی یا عمران کی سیریز کی کتاب لے آتا اور رات کو بستر میں سوتے وقت اپنے کالج کی کسی بھی کتاب کے بیچ میں رکھ کر بستر کے کنارے ایک جھولتی ھوئی ٹیبل پر ایک لالٹین کی روشنی میں پڑھتا تھا -

ابا جی پھر ایک دفعہ میرے اپنے ھی بنائے ھوئے دھوکے کے چکر میں آکر بہت خوش تھے، کالج تو باقاعدہ جاتا لیکن بمشکل کوئی کلاس اٹینڈ کرتا بس ھر مہینے فیس ضرور بھرتا تھا اور ھر روز دوسرے دوستوں کے ساتھ یا تو کینٹین میں چائے پی رھا ھوتا یا کبھی کیرم بورڈ کھیلنے میں مشغول رہتا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا کالج میں بالکل آزادی تھی، حاضری ھوتی ھی نہیں تھی، اور مجھے ان لیکچرار سے بہت سخت نفرت تھی، صرف اردو کے ٹیچر کے علاؤہ، کیونکہ باقی سارے انگلش کے علاوہ کچھ منہ سے بولتے ھی نہیں تھے جو اپنے بالکل پلے پڑتی ھی نہیں تھی، اور وہ لوگ سوال بہت کرتے تھے اور وہ بھی انگلش میں، اور ھمیشہ میں ھی نشانہ بنتا تھا اور جواب کیا آتا جب سوال ھی نہیں سمجھ سکتا تھا -

یہ انگلش میری بہت بڑی کمزوری تھی اور شروع شروع میں تو اسی طرح جو بھی لیکچرار مجھ سے ایگلش میں سوال کرتا دوسرے دن سے اس کا پیریڈ میں جانا ھی چھوڑ دیتا تھا، صرف اردو اور اکنامکس اینڈ کمرشل جغرافیہ کے پیریڈ ھی اٹینڈ کرتا، کیونکہ ان مضمون کو وہ کم از کم اردو میں تو پڑھاتے تھے، یا ھوسکتا ھے کہ وہ بھی میری طرح انگلش سے دور ھی بھاگتے ھوں،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

1967 کے بہار کے موسم میں سال داخل ھورھا تھا، سردیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی آخری ھچکیاں لے رھی تھی اور میں اپنی زندگی کے 17 سترویں بہار کے موسم میں ایک خوبصورت موڑ میں داخل ھو رھا تھا، مجھے وہ دن اپنی زندگی کا کبھی نہیں بھولتا، جب شام کا وقت اور آسمان پر بادلوں کی گھٹایں، گھرے ھوئے کسی ظوفانی بارش کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس دن میں نے پہلی بار کسی کی آنکھوں میں میرے اپنے لئے ایک عجیب سی بسنت کی ایک خوبصورت کہکشاں کے رنگ کے ساتھ چمکتی ھوئی شرماتی سی جھلک دیکھی، جو میں خود نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیا چیز ھے جو مجھے ایک حسیں خواب کی طرح ایک عجیب سے نشے میں ڈبوئے جارھی تھی، میں خود بخود اسکے نزدیک پہنچا اسے دیکھا، چند لمحے وہ آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے تھیں جنہیں میں کبھی بھُلا نہیں سکتا تھا، یا یہ میری نظروں کا دھوکا تھا،!!!!!!!!!!!

اچانک اسے کسی نے آواز دی اور وہ دوڑتی ھوئی واپس اسی آواز کے ساتھ گم ھوگئی اور میں حیران پریشاں گم سم سا اس دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رھا اور شام کا وقت ھلکی ھلکی خنکی سی کچھ بارش کی بوندا باندی شروع ھوچکی تھی، پانی کے قظرے میرے بالوں سے اترتے ھوئے میرے چہرے پر ٹپ ٹپ گر رھے تھے اور میں خاموش تھا، یہ کوئی خواب یا کوئی افسانوی ماحول نہیں تھا یہ واقعی زندگی میں پہلی بار مجھے کچھ محسوس ھورھا تھا جسکے بارے میں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا‌!!!!!!

وہ دیوار آج بھی اسی جگہ موجود ھے، اور جب بھی میں اسی دیوار کے نزدیک اسی جگہ پر جاتا ھوں تو مجھے وھی حسیں منظر ایک وھی بھینی بھینی بسنت کی خوشبو کے ساتھ وھی پیارا سا خوبصورت حسین معصوم سا چہرہ یاد آجاتا ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-49- جوانی کے پہلے سہانے خواب کی جھلک،!!!!!!

1967 کے بہار کے موسم میں سال داخل ھورھا تھا، سردیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی آخری ھچکیاں لے رھی تھی اور میں اپنی زندگی کے 17 سترویں بہار کے موسم میں ایک خوبصورت موڑ میں داخل ھو رھا تھا، مجھے وہ دن اپنی زندگی کا کبھی نہیں بھولتا، جب شام کا وقت اور آسمان پر بادلوں کی گھٹایں، گھرے ھوئے کسی ظوفانی بارش کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس دن میں نے پہلی بار کسی کی آنکھوں میں میرے اپنے لئے ایک عجیب سی بسنت کی ایک خوبصورت کہکشاں کے رنگ کے ساتھ چمکتی ھوئی شرماتی سی جھلک دیکھی، جو میں خود نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیا چیز ھے جو مجھے ایک حسیں خواب کی طرح ایک عجیب سے نشے میں ڈبوئے جارھی تھی، میں خود بخود اسکے نزدیک پہنچا اسے دیکھا، چند لمحے وہ آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے تھیں جنہیں میں کبھی بھُلا نہیں سکتا تھا، یا یہ میری نظروں کا دھوکا تھا،!!!!!!!!!!!

اچانک اسے کسی نے آواز دی اور وہ دوڑتی ھوئی واپس اسی آواز کے ساتھ گم ھوگئی اور میں حیران پریشاں گم سم سا اس دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رھا اور شام کا وقت ھلکی ھلکی خنکی سی کچھ بارش کی بوندا باندی شروع ھوچکی تھی، پانی کے قظرے میرے بالوں سے اترتے ھوئے میرے چہرے پر ٹپ ٹپ گر رھے تھے اور میں خاموش تھا، یہ کوئی خواب یا کوئی افسانوی ماحول نہیں تھا یہ واقعی زندگی میں پہلی بار مجھے کچھ محسوس ھورھا تھا جسکے بارے میں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا‌!!!!!!


وہ دیوار آج بھی اسی جگہ موجود ھے، اور جب بھی میں اسی دیوار کے نزدیک اسی جگہ پر جاتا ھوں تو مجھے وھی حسیں منظر ایک وھی بھینی بھینی بسنت کی خوشبو کے ساتھ وھی پیارا سا خوبصورت حسین معصوم سا چہرہ یاد آجاتا ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

بارش تیز ھوچکی تھی، مجھ سمیت تمام گھر والے کمروں میں بند کھڑکی سے باھر طوفانی بارش کا منظر دیکھ رھے تھے، بادلوں کی گرجنے کی آوازیں بھی اس دفعہ کچھ زیادہ ھی دل کو دھلارھی تھیں، والدہ حسب معمول باورچی خانے میں مصروف تھیں اور والد صاحب بھی شاید بارش کی وجہ سے مسجد نہ جاسکے اور گھر پر ھی مغرب کی نماز پڑھ رھے تھے، میں بھی ایک کنارے روز کی طرح کتاب اٹھائے پڑھ تو نہیں رہا تھا بلکہ یونہی ٹہل رھا تھا کہ بارش کم ھو تو باھر بھاگوں، ویسے بھی میں بہت بےچین تھا کچھ اپنے آپ کو یقین دلانے کیلئے، لیکن ایسی مجبوری تھی کہ والد صاحب گھر سے بالکل نکل ھی نہیں رھے تھے، اور ان کی وجہ سے میں بھی گھر میں قید تھا، ورنہ اگر اباجی گھر پر نہیں ھوتے تو میں تو ویسے بھی بارش ھو طوفان ھو گھر پر ٹکتا ھی نہیں تھا -

آج کی رات مجھ پر کچھ زیادہ ھی بھاری تھی، نہ والد صاحب کہیں ھل رھے تھے اور نہ ھی بارش بند ھورھی تھی، کراچی کا موسم بھی محبوب کے مزاج کی ظرح ھی تھا، کبھی اچانک بے موسم کی طرح بارش ھوجاتی اور کبھی اتنی گرمی کے مت پوچھیں، کبھی ٹھنڈ تو کبھی سردیوں کے موسم میں گرمی اور کبھی گرمیوں میں بھی شام کو موسم ٹھنڈا ھوجاتا تھا، والد صاحب کو بھی بارش کے دنوں میں بھی چین نہیں آتا تھا ذرا سی کہیں سے چھت ٹپکتی تو وہ فوراً ھی چھت پر چڑھ جاتے اور کوئی نہ کوئی چھت کی مرمت میں لگ جاتے تھے اور ھماری ڈیوٹی جہاں جہاں سے چھت ٹپک رھی ھوتی تھی، وھاں پر کوئی ڈرم یا بالٹی لگا کر رکھنے کی ذمہ داری اور ساتھ بارش کے پانی کو باھرخالی کرنے کی بھی ھوتی تھی، بارش کے دوران تو ھماری مت ھی ماری جاتی تھی، گھر کے اندر جمع ھوا پانی کو باھر نکالتے نکالتے کمر بھی دوھری ھوجاتی تھی، لیکں والد صاحب اوپر چھت سے ھی ھماری نگرانی بھی کرتے کہ ھم بہن بھائی کہیں باھر نہ نکل جائیں، خود تو بھیگتے رھتے مگر ھمارے لئے پابندی تھی -

آج تو میں کچھ زیادہ ھی بے چین تھا کہ ذرا سا بھی مجھے موقعہ ملے اور میں باھر بھاگوں، شاید عشاء کے وقت کچھ بارش کا زور ٹوٹا تو کچھ امید نظر آئی، والد صاحب جیسے ھی نماز کےلئے باھر نکلے ادھر میں فورآً منہ ھاتھ دھو کر کچھ آچھے کپڑے پہنے اور آئینہ کی طرف لاٹین کی مدھم ھی روشنی میں رات کو پہلی بار شاید بالوں میں کنگھی کی اور کچھ “تبت ٹالکم پاوڈر“ وغیرہ چھڑکا اور اوپر چہرے پر “تبت سنو کریم لگائی، اس وقت زیادہ تر ھم غریبوں کے پاس یہی چہرہ چمکانے کیلئے تبت کی مصنوعات جو کہ سستی چیزیں ھوتیں تھیں، استعمال کے لئے گھر پر اماں چھپا کر رکھتیں تھیں اور مجھے تو خاص کر ان کی یہ جگہیں چھپی نہیں رھتی تھیں،

باھر نکلنے سے پہلے پھر ایک دو بار پھر اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھا، کریم لگانے کے باوجود بھی کچھ اپنے چہرے کا رنگ اتنا صاف نہیں ھوسکا تھا، لیکن اتنا برا بھی نہیں لگ رھا تھا، یعنی گزارا تھا، یہ تو روز صبح کالج جانے سے پہلے اس طرح جوتے چمکانے کے ساتھ ساتھ کچھ چہرے کو بھی ان تبت کے پاوڈر اور کریم سے چمکاھی لیتا تھا، مگر رات کو پہلی مرتبہ وہ بھی مدھم روشنی میں چہرے کو کچھ چمکاتے وقت کچھ عجیب سا لگ رھا تھا -

چپکے سے میں اس دن اکیلا ھی باھر نکلا، جب کہ سب بہن بھائیوں کو اکثر ساتھ لے کر ریڈیو سے رات کے ڈرامے اور مزاحیے خاکوں کے پروگرام سننے کے لئے ملکہ باجی کے گھر ضرور جاتا تھا اور کبھی کبھی والدیں بھی وہاں آجاتے تھے اور اچھی خاصی ایک رونق رھتی تھی اور میرا دل بھی وہیں بہت لگتا تھا، مگر آج یہ اچانک اکیلے اکیلے چمک دمک کر جانے کی کہاں تیاری کرلی، میں ‌خود اپنے آپ سے پوچھ رھا تھا -

جیسے ھی باھر نکلا تو دیکھا باقی بہن بھائی بھی میرے سے پہلے ھی تیار باھر کھڑے نظر آئے، میں نے غصہ سے ان سب کو دیکھا اور کہا کہ بارش ھورھی ھے باہر مت نکلو، ایک نے ڈرتے ھوئے جواب دیا کہ بھائی جان بارش تو رک گئی ھے اور آپ بھی تو جارھے ھیں میں نے فوراً کہا کہ میں وہاں نہیں جارھا ھوں، ادھر سے ھماری اماں باورچی خانے سے ھی چیخیں ارے جاتے جاتے ان سب کو ملکہ باجی کے گھر چھوڑتا ھوا چلا جا، میں بھی کام ختم کرکے تمھارے ابا کے ساتھ وہیں آتی ھوں، مجھے خیال آیا کہ آج تو واقعی کوئی خاص ھی ڈرامہ نشر ھونے کا دن تھا یہ تو بڑی مشکل ھوگئی، اب کیا کیا جائے !!!!!!!!!!!!!!

اب پوری ٹیم کو مجبوراً لے کر نکلنا پڑا، ارے بھیا آج یہ چمک چمکا کر کہاں نکلے ایک بہن نے مجھے ٹوکتے ھوئے کہا اور میں نے فوراً ڈانٹ دیا اور غصہ سے کہا تم سے مطلب، اور یہ کہتے ھوئے انہیں باجی کے گھر باھر دروازے پر چھوڑا اور ان ھی کے عیں گھر کے دروازے کا سامنے وھی ملٹری کی دیوار سے ٹک کر کھڑا ھوکر کچھ خیالات میں گم کچھ سوچنے لگا، جہاں کچھ دیر پہلے ھی بارش کے دوران شاید چند ان لمحات میں ایک کسی خوبصورت شریک سفر کی آنکھوں میں ایک میرے سہانے خواب کی ایک جھلک دیکھی تھی !!!!!!!!!

میں تو وھاں کھڑا انتظار ھی کرتا رھا، کہ شاید ایک اور جھلک کا کوئی معجزہ ھی ھوجائے لیکن وہ تو نہیں بلکہ والد صاحب وارد ھوگئے، پیچھے سے ھاتھ رکھ کر ھاتہوں سے اشارہ کیا کہ کدھر کھوئے ھوئے ھو، اور یہ کہتے ھوئے چلے گئے، جب کافی انتظار کے بعد کچھ اِدھر اُدھر سے آگے پیچھے ھر طرف نظر دوڑائی کہیں بھی وہی چہرہ نظر نہیں آیا، مگر میں اسے گھر جاکر ڈسٹرب کرنا نہیں چاھتا تھا، اور یہ بھی ھوسکتا تھا کہ جو میں اپنے دل میں سوچ رھا تھا وہ خیال بالکل غلط ھو، مگر میرا دل دوسری طرف سے یہ بھی کہتا تھا کہ اس کی نظریں کچھ نہ کچھ تو کہہ رھی تھیں اور میری اندر ایک ھلچل سی مچی ھوئی تھی، اور اتنی ھمت بھی نہیں تھی کہ اس سے جاکر کچھ پوچھ سکوں -

لیکن کچھ ھمت کی اور ان کے گھر میں چلا ھی گیا، وھاں پر ریڈیو پر ڈرامے کا آخری حصہ نشر ھورھا تھا، اور کسی نے بھی میری ظرف دھیان نہیں دیا، سب بہت انہماک سے ڈرامہ سننے میں مشغول تھے، بہں بھائی بھی موجود تھے اور والدہ نہیں تھیں، وہ شاید خالہ کے ساتھ مصروف گفتگو تھیں اور خالو بھی آنکھ میں ایک طرف جھوٹی دوربین لگائے لالٹین کی روشنی میں شاید ایک ھاتھ کی گھڑی کھولے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے، میں ایک کونے میں بیٹھا کسی اور سوچ میں گم تھا،

باجی نے کہا کہ کہاں تھے، اتنا اچھا ڈرامہ تھا، اور تم نے سارا ڈرامہ نکال دیا، میں نے آہستہ سے جواب دیا کہ ادھر میرے ساتھ ھی ڈرامہ ھوگیا تو کیا ڈرامہ سنتا، انہوں نے سنا نہیں اور میں دور سے ھی زادیہ کی ظرف ٹکٹی لگائے دیکھ رھا تھا کہ کوئی اشارا تو مل جائے مگر کوئی ایسے حالات یا کوئی اسکی طرف سے ایسی بات نظر نہیں آئی، بلکہ مجھے دیکھتی ھی بولی آج کیا بات ھے لگتا ھے کچھ تمھارا دماغ کام نہیں کررھا ھے، فوراً میرے پاس آئی اور کہنے لگی شاید وہ بالکل مجھے دیکھ کر سنجیدگی سے بولی کیوں کیا طبعیت خراب ھے، میں نے جواب دیا کہ نہیں !!! مگر تم یہ بتاؤ کہ تم باھر سخت بارش میں کیا کررھی تھی، اس نے جواب دیا کہ واقعی آج تمھارا دماغ چل گیا ھے، میں تو شام سے باھر نکلی ھی نہیں، مگر یہ تو پتاؤ کہ آج یہ چمک چمکا کر کہاں سے آرھے ھو یا جارھے ھو، آج تم نے ڈرامہ بھی پورا نہیں دیکھا -

میں اسے کیا بتاتا، وہ تو کوئی بھی بات سنجیدگی سے لے ھی نہیں رھی تھی، بلکہ مذاق پہ مذاق کئے جارھی تھی اور سب میرا ھی مذاق اڑا رھے تھے، ارر ملکہ باجی بھی کسی اور کام میں مصروف تھیں، آج کوئی بھی میری سننے کو تیار بھی نہیں تھا، جب کسی سے کوئی لفٹ نہیں ملی تو سیدھا خالو کے پاس ھی پہنچ گیا اور انھیں گھڑی بناتے ھوئے دیکھنے لگا وہ مجھے دیکھے بغیر ھی بولے!!!! کیا بات ھے بیٹا !!!!! آج لگتا ھے کہ کوئی بھی تمہیں لفٹ نہیں کرارھا، کیا کسی سے کچھ جھگڑا ھوا ھے، میں نے کہا نہیں تو !!!! بس آج میرے دل کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رھا ھے، اکثر میں ان کے ساتھ بھی کافی فری ھوکر باتیں کرتا تھا اور واقعی جب باجی یا زادیہ سے کسی بھی بات پر جھگڑا ھوجاتا تو بس میں خالو کے پاس پہنچ جاتا وہ نہیں ھوتے تو انکی نانی کے پاس جاکر خوب دونوں کی شکایتیں لگاتا اور یہ بچپن سے ھی ایسا چلا آرھا تھا اور اب ھم سب بڑے بھی ھوگئے تھے لیکن حرکتیں وھی بچپن کی تھیں اور خالہ تو دونوں طرف سے ھی بولتی تھیں غرض کہ وہ پوری فیملی مجھے دل وجان سے چاھتی تھی اور میں بھی ان سب کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا -

اگر کالج سے آنے میں یا کہیں اور سے بھی اگر مجھے آنے میں دیر ھوجاتی تو یہ دونوں دروازے پر اپنی نانی یا امی کے ساتھ میرا بےچینی سے انتظار کرتی ھوئی ملتیں، اور باجی تو میرا لحاظ کئے بغیر کان سے پکڑ کر اندر لے جاتیں اور سب کے سامنے مجھے بہت ڈانٹتیں اور اس وعدہ پر کہ آئندہ ایسا نہیں ھوگا مجھے چھوڑ دیتی اور اس وقت یہ ضرور کہتیں !!!!! کہ جاؤ گھر کپڑے بدل کر آؤ آج تمھاری پسند کی ایک چیز بنائی ھے، اگر میں غصہ میں نہیں بھی آتا تو یہ دونوں میرے گھر پر ھی کھانا وغیرہ لے کر پہنچ جاتیں، خیر کے ھماری یہ دونوں فیملیز کے آپس میں بہت اچھے اور گہرے تعلقات تھے، اور میں تو خاص کر زیادہ تر وقت ان کے ھی گھر میں گزارتا تھا،

اب مجھے ایک اور بے چینی کھائے جارھی تھی اور جانے کیوں میرا دل یہ کہتا تھا کہ زادیہ بھی وھی میرے بارے میں تاثرات رکھتی ھے جو میرے دل میں ھے، دوسرے دن کالج بھی بے دلی سے گیا اور فوراً بغیر کسی پیریڈ میں گئے واپس گھر کی طرف پلٹا اور گھر میں آکر کپڑے وغیرہ تبدیل کرکے سیدھا ان کے گھر پہنچا باجی گھر پر ھی تھیں اور زادیہ اسکول گئی ھوئی تھی اس کا بھی یہ سال میٹرک کا ھی تھا، باجی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھے خاموشی سے یہ کہا کہ تمھارے اباجی نے کل ھمارے گھر میں ایک بات کہی تھی!!! میں فوراً گھبرا گیا کہ اب یہ کونسی مصیبت آگئی تھی اور باجی کے چہرے پر بھی بہت ھی سنجیدگی کے آثار تھے !!!!!

وہ کہنے لگیں کہ تم اپنی اس بات پر اپنی بالکل دل سے رائے دینا اور کوئی زبردست کی بات نہیں ھے، اگر تمھیں کوئی اعتراض نہ ھو تو کہوں !!!!! میں تو اور ھی پریشانی کا شکار ھوگیا، دماغ پہلے کہیں اور بھٹک رھا تھا اور باجی بھی ایک نئے مسئلے کے ساتھ مجھ سے پہیلیوں میں بات کرھی تھی، میں نے کہا!!!!! ارے کیا بات ھے کیوں مجھے پریشان کررھی ھو فوراً بولو !!!!! مگر وہ بار بار مجھے سسپنس میں ڈال دیتی تھیں اور بالکل سنجیدگی سے بات کررھی تھیں، اور میں تو بس ایک عجیب سی حالت سے دوچار تھا، اور دل میں یہی سوچ رھا تھا کہ کوئی بڑی ھی مصیبت کا شکار ھونے والا ھوں -

آخر کو انہوں نے بھی ایک لمبا سکوت توڑا اور اس وعدہ پر کہ یہ بات میں کسی سے نہ کہوں اور خاص طور سے زادیہ سے بھی نہیں، پھر یہ مجھے کہنے لگی کہ !!!!!!!!!!!!!!

کل تمھارے اباجی نے ھماری امی ابا سے مذاقاً یا سنجیدگی سے یہ کہا کہ میں آپکی چھوٹی بیٹی زادیہ کو اپنی بہو ضرور بناوں گا، میں بالکل ہکابکا ھی رہ گیا، ساتھ ھی مجھ سے پوچھا کہ!!! تمھارا کیا خیال ھے
میں نے کہا کہ باجی میں کیا کہہ سکتا ھوں، ابھی میں تو یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ھوں، لیکن میں آپکی کسی بھی بات کو ٹال نہیں سکتا، جو بھی آپ کا مشورہ ھوگا میں اس پر عمل کرونگا، مگر کیا زادیہ اس کے لئے راضی بھی ھوگی یا نہیں !!!!!! باجی نے کچھ بھی جواب نہیں دیا !!!!!!!!

میرے تو دل میں بہت خوشی کے لڈو پھوٹ رھے تھے، اور جیسے ھی میں انکے گھر سے باھر نکلا تو وہ اسکول سے واپس آرھی تھی اور مجھے دروازے پر ٹکرائی، ارے آج تم کالج نہیں گئے !!!!! اس نے ذرا غصہ سے پوچھا !!!!ھم دونوں کی عمر میں کوئی خاص فرق نہیں تھا شاید وہ مجھ سے ایک یا دو سال چھوٹی ھوگی اور ھم دونوں زیادہ تر بچپن سے لڑتے ھی رھتے تھے، دل تو چاھا کہ کچھ بولوں موقعہ بھی تھا لیکن ھمت ھی نہیں ھوئی، اسکے غصہ کو دیکھتے ھوئے !!!! اور فوراً چیختی ھوئی اپنے گھر میں داخل ھوئی کہ!!!!!!!!!!

دیکھ باجی آج پھر اس نے کالج کی چھٹی کی ھے یہ کہتے ھوئے اندر چلی گی اور میں نے دل میں یہ سوچا رہ گیا کہ آخر یہ لڑکی کب سنجیدہ ھوگی !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-50- جوانی کے خوابوں کی تصوراتی دنیا،!!!!!

دیکھ باجی آج پھر اس نے کالج کی چھٹی کی ھے یہ کہتے ھوئے اندر چلی گی اور میں نے دل میں یہ سوچا رہ گیا کہ آخر یہ لڑکی کب سنجیدہ ھوگی !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

اب گھر کے روزمرٌہ کے کام کاج کی فکر تو تھی ھی نہیں، کیونکہ اب سب چیزوں کی ذمہ داری بس اب چھوٹے بہن بھائی پر آگئی تھی، اور کچھ میری اب کالج کی مصروفیات زیادہ بڑھ گئی تھی، اور کچھ بڑے ھونے کے ناتے اب چھوٹے اس قابل ھوگئے تھے کہ وہ گھر کے کاموں میں ھاتھ بٹا سکیں، بس کبھی کبھی زیادہ راشن لانے اور ماھانہ سودے سلف کیلئے والد صاحب اپنے ساتھ مدد کےلئے تھوک کے بازار ضرور لے جاتے، گھر کے علاؤہ محلے کے لوگوں کا سامان بھی فی سبیل اللٌہ لے کر آتے تھے اور تھوک کے حساب سے ھی تقسیم کرتے تھے، مگر اب نہ جانے مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا تھا، ایک تو کالج کا اسٹوڈنٹ دوسرے ذرا سوٹ بوٹ پہن کر کچھ ایسی عادت سی ھوگئی تھی کہ اس طرح کمر پر راشن کا اٹھانا اور گدھا گاڑی پر سامان لاد کر، پھر اس کے اُوپر بیٹھ کر سرعام سڑک پر سرپٹ دوڑے چلے آنا، ایسا لگتا تھا کہ میں بھی ان گدھوں کے ساتھ ساتھ، تمام پبلک اور سڑک کے بیچوں بیچ دوڑتا چلا جارھا ھوں،

مجھے اب بہت شرم آتی تھی، پیدل سفر گوارا تھا لیکن گدھا گاڑی پر مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، مجھے یہ بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں کالج کے دوست مجھے دیکھ نہ لیں، اور جب بھی کوئی بس گدھا گاڑی کا برابر سے گزرتی میں فوراً ھی گردن جھکا لیتا، کہ میرا چہرہ کوئی دیکھ نہ سکے، راشن شاپ سے جو سودا لانا ھوتا تھا وہ میں ایک کرایہ کی ایک سائیکل لے کر چار پانچ چکر لگا کر سودا گھر پہنچا دیتا تھا اور ایک گھنٹے میں سارا سامان جس میں زیادہ تر چینی، شکر، چاول، اور آٹا وغیرہ شامل ھوتے تھے، اور اسی طرح میں نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لی تھی، اور ھفتہ میں ایک دفعہ کرایہ کی سائیکل کسی نہ کسی بہانے سے لے کر خوب گھماتا تھا اور بچوں کو اس پر سیر بھی کراتا تھا -

اب اپنے آپ کو کچھ زیادہ ھی سنوارنے میں لگا رھتا تھا بالوں کے نئے نئے اسٹائیل بنانا، آٹھ آنے میں اس وقت بہتریں بال کٹتے تھے لیکن اگر والد صاحب کے ساتھ جاؤں تو وہ تو بالکل چھوٹے چھوٹے اور پیچھے اور سایڈ سے استرے سے سولجر کٹ بنوادیتے تھے لیکن میں نے جب سے کالج جانا شروع کیا تو اباجی کے ساتھ بال کٹوانا بھی جانا بند کردیا وہ تو وہان پر بھی تھوک کے بھاؤ ایک روپے کے چار کے حساب سے، اپنے سمیت سارے چھوٹے بھائیوں کے بال کٹوالیتے تھے اور ساتھ بال کاٹنے والے سےاسی دوران پوری دنیا کی باتیں بھی کرلیتے تھے، ویسے بھی جہاں جاتے وہ شروع ھوجاتے تھے یہاں تک کہ وہ گدھا گاڑی والے کے ساتھ بھی اپنی راستہ میں ھی رشتہ داری بنا لیتے تھے اور گھر پہنچنے پر اسے چائے پانی تو کم از کم پلا کر ھی چھوڑتے تھے، کبھی کبھی کھانے کا اگر وقت ھوتا تو اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے تھے -

اب تو میں اپنے اندر ھی ایک بڑے ھونے کی وجہ سے ھمیشہ ایک ھیرو کی تصوراتی دنیا میں کھویا رہتا تھا اور اس محلے میں ایک میں ھی تھا جو کالج جارھا تھا اس کی وجہ سے بھی کچھ لوگ میری قدر بھی کرتے تھے، جیسے ایک مثال ھے کہ “اندھوں میں کانا راجہ“ اور چھوٹے تو مجھ سے اب مرعوب بھی رھنے لگے تھے، کچھ فلموں کا بھی اثر تھا، اپنے آپ کو اسی فلمون کے ھیرو کے اسٹائیل میں رکھتا تھا، ھر مہینے ایک نئے فیشن کا جوڑا ضرور ابا یا امی سے رو دھو کر ضرور بنوالیتا تھا چاھے وہ لنڈابازار کا پرانا ھی کیوں نہ سلا ھوا ھو، اب تو میں بھی کافی فیشن کا ماسٹر ھوگیا تھا، سیلیکشن ایک سے ایک، پتہ ھی نہیں چلتا تھا کہ یہ پرانا مال ھے، ایک آدھ بلیک چشمہ بھی جیمز بانڈ کی طرح آنکھوں پر چڑھا لیتا تھا، اور ھمیشہ باھر جانے سے پہلے اکیلے میں آینے آپ کو آئینے کے سامنے رکھ کر کافی دیر تک بناتا اور سنوارتا رھتا تھا،

اور ایک چھوٹی کنگھی ضرور اپنی پتلون کی پچھلی جیب میں ضرور رکھتا تھا جہاں موقعہ ملتا کسی سائیکل والے کے شیشے میں یا کسی بھی مکان کے کھڑکی کے شیشے میں دیکھ کر بالوں کو دوبارہ سنوار لیتا اور کبھی کبھی کسی کی کھڑکی کے شیشے میں کنگھی کرتے کرتے پیچھے سے صاحب مکان سے مار بھی کھا لیتا تھا، اگر وہ مجھے جانتا نہ ھو تب، کیونکہ پیچھے سے تو پتہ ھی نہیں چلتا تھا کہ کون ھے بعض اوقات تو لگتا تھا کہ اندر جھانک رھا ھوں، بس ایک خراب عادت سی پڑ گئی تھی اور کیونکہ بالوں کو تو ھمیشہ سیٹ کر کے رکھنا پڑتا تھا، کہ نہ جانے کب، کہاں، کسی سے ملاقات ھوجائے، مگر کسی بھی لڑکی کو دیکھتے ھی اپنی تو سیٹی ھی گم ھو جاتی تھی-

گھر میں اب تو رات کو سونے سے پہلے فلموں کے ڈائیلاگ ضرور یاد کرنے کی کوشش کرتا جسکا کہ سب بہں بھائی میرا مزاق بھی اڑاتے، لیکن میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا سوائے اباجی کے، مگر اباجی کا یہ فیصلہ کہ وہ زادیہ کو اپنی بہو بنائیں گے، یہ انہوں نے گھر پر اپنا کبھی کوئی بھی اس قسم کا اظہار نہیں کیا تھا کئی دفعہ اماں سے پوچھنے کی کوشش بھی کی لیکن ھمت جواب دے گئی، ویسے وہ ھمیشہ ان دونوں بہنوں کی تعریف ضرور کرتے تھے وہ دونوں واقعی بہت خوبصورت اور ساتھ ھی خوب سیرت بھی تھیں، مین تو بس ایک دبلا پتلا سا اور بس کیا کہوں کہ گزارا ھی تھا، مجھے ان کے ساتھ اپنے آپ کو اس مناسبت سے رشتہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے رکھ رکھاؤ اور رھن سہن لباس کی نوعیت اور ان کا سیلکشن کا وہ خود بھی اور انکے والد بھی بہت خیال رکھتے تھے اور انکی آمدنی بھی اچھی خاص لگتی تھی، اسکے علاؤہ وہ ان کے والد ان دونوں کا بہت ھی ان کی ھر خواھش کا احترام کرتے تھے، اور سات ساتھ میری بھی کئی خواھشیں ان کے کہنے پر پورا کرتے تھے، اور ویسے بھی مجھے اپنی اولاد کی طرح بہت زیادہ پیار بھی کرتے تھے -

مگر جیسے جیسے دن گذرتے جارھے تھے، میرے دل میں زادیہ کیلئے ایک کونے میں محبت تیزی سے پروان چڑھتی جارھی تھی، روز سوچتا تھا کہ آج اس سے کچھ نہ کچھ کہہ کر ھی رھونگا، لیکن جیسے ھی آمنا سامنا ھوتا سارے ڈائیلاگ ھی بھول جاتا اس کے سامنے نہ جانے کیوں ھمت ھی نہیں پڑتی تھی، ھالانکہ ھم دونوں ایک دوسرے سے بہت زبردست بحث کرتے تھے اور خوب باتیں کرتے تھے کبھی کبھی میں موضوع کو فلموں کی طرف بھی موڑ لیتا تھا اور کسی بھی فلم کی کہانی بھی سنانا شروع کردیتا تھا، تمام فلموں کے ھیرو کے ڈائیلاگ بھی رومانی انداز میں بہت بہترین طریقے سے ادائیگی بھی کرتا اور مجھے اکثر وہ فلم اسٹار کمال سے ملا دیتے، اور یہ بھی کہتے کہ اگر تم تھوڑے سے موٹے ھوجاؤ تو کسی بھی فلمی اداکار سے کم نہیں ھوگے -

کیونکہ میں ڈائیلاگ ڈیلیوری میں شروع سے ھی ماسٹر تھا لیکن جب اصل زندگی میں جب کسی کے سامنے بولنے کا موقعہ ھاتھ آیا تو زبان ھی گنگ ھوگئی، نہ جانے کیوں !!!!!!!!!!!

وقت تیزی سے گزرتا جارھا تھا اور ایک ایک دن مجھ پر بھاری تھا اور مجھے اپنے آپ سے شرم آتی تھی کہ صرف ایک دو لفظ صرف کنفرم کرنے کیلئے اپنی زبان کھول نہیں سکتا تھا، ایک دفعہ تو ھمت کر ھی لی بہت اچھی طرح کچھ ڈائیلاگ یاد کرکے ان کے گھر پہنچ گیا اور ویسے بھی اس گھر کے ایک میں ممبر کی حیثیت سے ھی، زیادہ تر وہیں رہتا تھا، سب سے بہت زیادہ فری تھا خوب مذاق بھی کرتے تھے ایک دوسرے سے جھگڑا بھی کرتے تھے، لیکن جو میں اس سے کہنا چاہتا تھا وہ نہیں کہہ سکتا تھا، اس دن تو سوچ ھی لیا اور میں اس کے پاس بیٹھا ھوا اپنی تمام کوششیں کرڈالیں کہ کچھ کہوں مگر چہرہ سرخ ھوگیا پسینے آگئے مگر وہ ڈائیلاگ منہ سے بالکل نہیں نکلے، اس نے بھی مجھ سے بڑے پیار سے پوچھا کہ “میں نے یہ محسوس کیا ھے کہ تم مجھ سے کچھ کہتے کہتے رک جاتے ھو اور آج بھی تمھاری حالت کچھ ایسی ھی لگ رھی ھے“، مجھ میں کچھ ھمت آئی اور!!!!!

کچھ کہنے کےلئے زبان کھولی ھی تھی کہ اچانک انکی اماں نے آواز دے ڈالی سارے موڈ کا ستیاناس ھوگیا، کچھ انتظار کے بعد پھر وہ بھاگ کر میرے پاس آئی اور پوچھا کہ اب بتاؤ کہ کیا بات ھے، پھر میں نے تھوڑی سی ھمت کی لیکن پھر زبان میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے رھی تھی، پھر دوبارہ اس نے مجھ سے کہا دیکھو میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی اور نہ ھی تمہاری کسی بات کا برا مانوں گی، کہو تو سہی، یہ بھی ھوسکتا تھا کہ وہ میرے کہنے سے پہلے ھی سمجھ چکی تھی لیکن وہ مجھ سے ھی کہلوانا چاہ رھی ھو،!!!

جب اس نے بہت ضد کی تو میرے دل نے کہا کہدے اور کہتے کہتے زبان کچھ ڈر کے پھسل گئی، اور کچھ منہ سے جملے نکلتے نکلتے کچھ یوں بدل سے گئے،

“ارے بس کچھ نہیں بس تمھارے بارے میں ایسے ھی سوچ رھا تھا کہ اگر تمھاری شادی ھوجائے گی تو تمھاری مجھے بہت یاد آئیگی“ کچھ تھوڑی سی ھمت اور پکڑی اور کہا کہ “ فرض کرو کہ اگر تمھیں کوئی یہ کہے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاھتا ھے تو تمھارا جواب کیا ھوگا“

یہ کہہ تو دیا لیکن میری جان ھی نکل گئی اور میں اس کے جواب کا انتظار ایسے کررھا تھا جیسے میں نے کوئی پہیلی بوجھی ھو اور دماغ خراب سوال بھی تو ایسے ھی کیا تھا اپنے آپ کو اندر ھی اندر برا بھلا کہہ رھا تھا کہ باھر تو بڑا رومانٹک ھیرو بنتا ھے اور ادھر اسکے سامنے بالکل بھیگی بلی کی طرح ھو جاتا ھے -

اس نے ھنستے ھوئے بغیر کسی جھجک کے کچھ اس طرح کے ملے جلے الفاظوں میں کہا کہ “دیکھو بدتمیز!!! اوٌل تو میں شادی کرونگی ھی نہیں، جسکی وجہ سے تمھیں مجھے یاد کرنے کی نوبت آئے اور اگر کسی نالائق نے اگر اس قسم کی حرکت بھی کی اور یہ الفاظ کہنے کی ھمت بھی کی تو تم دیکھنا اس کے گال پر اتنے زور سے تھپڑ ماروں گی کہ وہ زندگی بھر یاد کرے گا اور ساتھ اسکا خاندان بھی ھمیشہ روتا ھی رھے گا“

“ارے باپ رے“ میں نے دل میں‌ کہا اور فورآً اپنے گال پکڑ لئے اور لگا اپنے گال سہلانے، اور رھی سھی جو ھمت پکڑی تھی وہ بھی کھڈے میں ھی چلی گئی !!!!!!!!!!!!!

اور وہاں سے بھاگنے کی ھی سوچ رھا تھا کہ اس نے اپنی باجی کو آواز دے ڈالی اور جو رھی سھی کسر باقی رہ گئی تھی وہ بھی پوری ھونے جارھی تھی، !!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-51- جوانی کے پہلی محبت کی تصوراتی دنیا،!!!!!

“ارے باپ رے“ میں نے دل میں‌ کہا اور فورآً اپنے گال پکڑ لئے اور لگا اپنے گال سہلانے، اور رھی سھی جو ھمت پکڑی تھی وہ بھی کھڈے میں ھی چلی گئی !!!!!!!!!!!!!
اور وہاں سے بھاگنے کی ھی سوچ رھا تھا کہ اس نے اپنی باجی کو آواز دے ڈالی اور جو رھی سھی کسر باقی رہ گئی تھی وہ بھی پوری ھونے جارھی تھی، !!!!!!!!!!!!!!


اس وقت یہ کیا !!!!! میں نے اپنے ھی گلے میں بلی کی گھنٹی باندھ لی تھی، جیسے ھی اس نے باجی کو آواز دی، ادھر میں نے اس سے کہا کہ دیکھو تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو بھی کچھ نہیں کہو گی تو کیوں باجی کو بلا رھی ھو !!!!!!

اتنے میں باجی پہنچ گئی اور زادیہ کو موقعہ مل گیا کہ مجھے تنگ کرنے کا، وہ اکثر کوئی بھی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے نہیں دیتی تھی، بلکہ میں بھی اس کے معاملے میں کسی سے کم نہیں تھا اور ھم دونوں کو اگر کوئی بھی ایک دوسرے کے خلاف کچھ کہنے کا موقعہ مل جائے تو بس سمجھ لیجئے ایک قیامت آجاتی تھی، دونوں بہت لڑتے بھی تھے اور ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں پاتے تھے،!!!!!

باجی جیسے ھی پہنچیں، زادیہ نے کچھ کہنے کو منہ کھولا، اور میں نے کچھ اپنی مسکین سی صورت بنا کر دیکھا، اس نے اس وقت زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی بات کو پلٹ دیا اور دوسری طرف اس نے اسکا کوئی اور کچھ کہہ کر رخ موڑ لیا، ورنہ تو مجھے بہت باجی کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی، لاکھ لاکھ شکر ھے کہ بال بال بچ گئے !!!!!!!!

آج کل کا تو پتہ نہیں لیکن اس وقت کوئی کتنا ھی کیوں نہ بہادر ھو سخت جان کیوں نہ ھو اور چاھے کتنا ھی بڑا اداکار یا ڈبیٹر ھی کیوں نہ ھو اس میدان میں وہ ھار ھی جاتا تھا، کبھی بھی کسی لڑکی سے خلوصِ دل سے اظہار محبت کردینا، میں سمجھتا ھوں کہ بڑے بڑے سورما حضرات کی بھی جان نکل جاتی ھوگی یہ کوئی اتنا آسان نہیں ھے، یہ واقعی ایک بہت بڑا مشکل مرحلہ ھے !!!!!!! چاھے کوئی بھی اس کو مانے یا نہ مانے ‌؟؟ لیکن شرط یہی ھے کہ خلوص دل سے اعتراف اور نیک نیتی سے اظہار ھو جب !!!!!!!!

اس کے بعد تو کچھ دنوں کے لئے میں ‌نے خاموشی اختیار کرلی، مگر اسے تو مجھے بلیک میل کرنے کا موقعہ ھی مل گیا، مجھے ھر وقت ڈراتی بھی رھتی تھی، میں اس وقت واقعی کچھ ڈرپوک بھی تھا اور اس معاملے میں تو کچھ زیادہ ھی، مگر ایک دن تو میں نے یہ بالکل طے ھی کرلیا کہ آج کے بعد خامخواہ کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے، کیونکہ اس دن کوئی شاید اسی قسم کی فلم دیکھ کر آیا تھا اور اس کے ھیرو کی طرح میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ چاھے کچھ بھی ھو جائے اس دفعہ اس لڑکی سے اقرار کرا کے ھی رھوں گا،!!!!!

دوسرے دن یہ لڑکیوں کے ساتھ ھمارے گھر کے صحن میں کھیل رھی تھی اور اس کے ھاتھ میں ایک گیند تھی، اسکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک مجھے ایک شرارت سوجھی اسکے ھاتھ سے گیند چھین کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا اور وہ میرے پیچھے گیند واپس لینے کے چکر میں، اور باقی لڑکیاں بھی اسکو ایک کھیل کی ظرح تفریح لینے لگی، اور ان کا تو کھیل ختم ھوگیا اور ھم دونوں کا کھیل شروع، وہ بھاگتے بھگتے تھک گئی اور دیوار کے ساتھ ھانپتے ھوئے بیٹھ کر اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر زور زور سے اپنی سانسوں کو سمیٹنے لگی،!!!!!

اور جیسے ھی وہ کچھ اپنے آپ کی سانسوں کو درست کر پائی، ویسے ھی پھر وہ تیزی سے اٹھ کر میرے پیچھے بھاگی لیکں میں بھی ایک شاطر تھا، میں نے بھی فوراً گیند کو جیب میں ڈال کر،ایک چھلانگ لگائی کھڑکی کو پکڑ، دیوار کو پھلاندتا ھوا اپنے گھر کی چھت پر جا پہنچا اور وہ مجھے دیکھتی ھی رہ گئی، اور وہ لڑکی ایسی تھی کہ کبھی ھار نہیں مانتی تھی اور اس میں خودی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا تھا، اور اسکی یہ عادت مجھے بہت پسند بھی تھی اور اسی کی کمزوری سے میں ناجائز تنگ بھی بہت کرتا بھی تھا اور بعد میں اسی کے حق میں دستبردار بھی ھوجاتا تھا، اور وہ بھی اس وقت تک مجھے نہیں چھوڑتی تھی کہ جب تک میں ھار مان نہیں جاتا !!!!!!!

میں چھت پر اور وہ نیچے، وہ بلکل بضد تھی کہ گیند لے کر ھی جائے گی اور میں نے بھی آج ایک اور موقعہ کو ھاتھ میں جکڑ رکھا تھا، باقی ساری اس کی ساتھی لڑکیاں تو تھک ہار کر چلی گئی،لیکن وہ نیچے ٹس سے مس نہیں ھوئی گرمیوں کے دن تھے، دونوں کا برا حال بھی تھا، اس نے کہا کہ دیکھو مجھے تنگ مت کرو اور تمھیں تو پتہ ھے کہ میں بہت ضدی ھوں، گیند تو میں لے کر ھی جاؤں گی، کوشش تو اس نے بہت کی اوپر چھت پر چڑھنے کی، لیکں کامیابی نہیں ھوئی اُدھر میرا ایک دوست اپنی چھت پر پتنگ اڑا تے آڑاتے ھم دونوں کا تماشا بھی دیکھ رھا تھا، اور وہ بھی میری حمایت میں مجھے خوش کررھا تھا،

اسی کشمکش میں کافی دیر ھوچکی تھی آخر کو میں نے ھمت کر کے کہا، ھاں ایک شرط پر گیند واپس کروں گا، !!! اس نے پوجھا کہ، وہ کیا!!!!! میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ تم ھاں کہو!!!!!!! اس نے غصہ سے کہا کہ کس بات کیلئے!!!! بس تم ھاں کہو، میرا بھی دماغ خراب کہ میں کس بات کیلئے اس سے ھاں کہلوا رھا ھوں، وہ الفاظ تو منہ سے نکلے ھی نہیں اور اتنے میں کچھ کہنے کی ھمت پکڑتا وہ غصہ میں پیر پٹکتی ھوئی اپنے گھر کی طرف چل دی!!!
یہ آج پہلی بار ھوا کہ وہ اپنے مقصد کو پائے بغیر اپنی ضد کو پورا کئے بغیر ھی چلی گئی، جس کا مجھے آج تک افسوس ھے!!!!!

کیونکہ میں ھمیشہ سے اسکی جیت کو اپنی جیت ھی سمجھتا تھا اور اکثر و بیشتر ھم دونوں بہت بحث کرتے تھے اور وہ اپنی بات کو ھمیشہ مجھ سے منوا کر رھتی تھی اور میں آخر ھار جاتا تھا پھر اسکے چہرے پر جو مسکراھٹ آتی تھی وہ میرے لئے ایک کسی نعمت سے کم نہیں ھوتی تھی، بظاھر میں اس سے کتنا ھی کیوں نہ ناراض ھوں لیکن جب میں اسے خوش دیکھتا تھا میرا دل اندر سے جھوم رھا ھوتا تھا، اور پورے محلے میں ھم دونوں کی شرارتیں بہت مشہور تھیں، اور اکثر لڑکے مجھ سے ناراض بھی ھوتے تھے کہ میں اس سے ڈر کر کیوں ھار مان جاتا ھوں، !!!!!!!!!!!!!

ھان تو بات ھورھی تھی کہ اس نے زندگی میں پہلی بار ھار مان کر واپس جارھی تھی، جسکا مجھے بہت دکھ ھوا، میں بھی فوراً چھت سے کودا کچھ چوٹ بھی لگی لیکن چوٹ کی پرواہ کئے بغیر اس کے پیچھے بھاگا مگر جب تک وہ اپنے گھر میں داخل ھوچکی تھی، جیسے ھی میں نے ان کے گھر کے مین دروازے کا پردہ آٹھایا تو کیا دیکھتا ھوں سامنے وہ اپنی باجی کے کان میں کچھ کہہ رھی تھی اور باجی کا تو غصہ سے چہرہ سرخ ھورھا تھا، نہ جانے اس نے باجی کو کیا کہہ دیا تھا میرے تو جیسے پیروں میں دم ھی نہیں رھا، اس سے پہلے کے میں کچھ کہتا باجی نے فوراً میرے کانوں کو پکڑ لیا اور لگی مروڑنے اور میں اوئی ھائے کرنے لگا، نہ جانے ان کو میرے کان اتنی جلدی اور فوراً کیسے قابو میں آجاتے تھے، کہ میں کسی طرح بھی جان چھڑا نہیں سکتا تھا، آج بھی جب باجی کی یاد آتی ھے تو میں اپنے کان ضرور سہلانے لگتا ھوں، !!!!!!!!

وہ میرے کان مروڑتی جارھی تھیں اور ساتھ پوچھتی بھی جارھی تھیں کہ مجھے بھی تو بتاؤ تم نے زادیہ سے کیا کہا، !!!! میں نے بھی نیچے تکلیف میں جھکتے ھوئے کہا کہ کچھ بھی تو نہیں کہا، بس یہ گیند چھپائی ھوئی تھی لو یہ واپس لے لو!!!!!!!! مجھے نہیں چاھئے اس نے اپنے آپ کو مظلوم بناتے ھوئے کہا اور کہتے ھوئے اندر کمرے میں چلی گئی اور مجھے معلوم تھا کہ وہ بہت خوش ھوگی، کیونکہ مجھے سزا جو مل گئی، لیکن میں یہ سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ اس نے کیا کہا تھا، میں نے بہت کوشش کی کہ باجی سے پوچھوں لیکن انہوں ‌نے ٹال دیا اور سنجیدہ سی ھوگئیں، بس یہی کہا کہ تم گھما پھرا کر بات نہیں کیا کرو جو بھی ھو صاف صاف کہہ دیا کرو، اس ظرح کوئی بھی بات کا غلط مظلب لے سکتا ھے،

میں سوچتا ھی رہ گیا کہ میں نے کونسی غلط بات کہدی، صرف اتنا ھی کہا تھا کہ “ ایک شرط پر گیند واپس کرونگا اگر تم ھاں کہو گی“ اور کس بات کےلئے ھاں کہو گی وہ تو میں کہہ ھی نہیں سکا، کئی دنوں تک ھم تینوں میں سنجیدگی ھی رھی، میں بھی کافی پریشان سا ھی تھا، مگر پھر آھستہ آھستہ حالت معمول پر آگئے، میں نے معافی بھی مانگی، پھر سے وھی رونقیں بحال ھوگئیں اور ھم تینوں پہلے سے بھی زیادہ ایک جان ھوگئے، مگر میں نے توبہ کرلی کہ اب کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کہوں گا جس سے اسے کسی بات کا صدمہ پہنچے، میں بھی تو اتنا بےوقوف اور ڈرپوک تھا کہ میرے منہ سے کوئی ایسے سلجھے ھوئے ھوئے الفاظ نہیں نکل سکتے تھے جس سے کہ وہ مجھ سے مرعوب ھوجائے، جبکہ میں فلموں کے رومانٹک ڈائیلاگ ایسے زبانی اور بالکل ھیرو کی طرح جذباتی انداز میں بولتا تھا کہ سب حیران ھوتے تھے اور وہ بھی ان دونوں کے سامنے لیکن ایسے ھی ڈائیلاگ اپنے دل سے اسے اکیلے میں کہتے ھوئے موت آتی تھی،!!!!!!!

بعد میں ایسی کوئی ھمت تو نہیں پڑی لیکن میں خوش تھا کہ وہ مجھ پر پہلے سے زیادہ بہت مہربان تھی اور بعض اوقات میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ میرے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتی تھی جبکہ باجی مجھے میرے گھر سے یا باھر کہیں سے بھی زبردستی پکڑکر لاتی پھر ھم تینوں مل کر کھانا کھاتے، اور ھمیشہ اپنی امی سے وہ میرے پسند کے کھانا پکواتیں، اب تو ناشتہ بھی ان کے گھر پر ھونے لگا تھا اگر مجھے کالج جانے کو دیر ھوجائے تو وہ دونوں دروازے پر آجاتیں اور دونوں کے ھاتھ میں الگ الگ ایک ایک ناشتہ کا پراٹھے میں انڈا سے لپٹا ھوا نوالا ھوتا اور دونوں بضد ھوتے کہ پہلے میرے ھاتھ کا نوالا کھاؤ،

کئی دفعہ تو میں دونوں کی ضد کے آگے پریشان بھی ھوجاتا کہ ایک کہتی کہ مجھے دیکھو تو دوسری کہتی کہ نہیں میں بڑی ھوں صرف تم مجھے دیکھو گے، جب کچھ تکرار زیادہ ھوجاتی تو فوراً نانی بول پڑتیں تھیں کہ ارے تم کہیں کسی کو نہیں دیکھو گے بس مجھے دیکھو نانی بیچ میں آجاتیں تھیں، وہ بھی ھم تینوں کو اس طرح ھنستے کھیلتے، ایک دوسرے پر جاں چھڑکتے، دیکھ کر بہت خوش ھوتیں تھیں اور ساتھ انکے والدیں بھی مجھے بہت چاھتے تھے، نانی جان اور ان کی امی تو مجھے ھمیشہ میرے ماتھے پر پیار کرتی رھتی تھیں اور نظر بھی اتارتی تھیں، اور انکے ابا کبھی کبھی ایسا بھی کہتے کہ اتنا بھی پیار نہ کرو کہ اگر یہ نہ ملے تو تم لوگ برداشت نہ کرسکو کیونکہ آخر کو یہ ھماری اولاد تو نہیں ھے، کہیں ان کے والدین کبھی اعتراض نہ کر بیٹھیں اور پھر سب کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور میں ھی کہتا کہ چاھے کچھ بھی ھوجائے میں آپلوگوں کو کبھی نہیں چھوڑوں گا،

اب تو میں اپنے گھر میں سونے ھی جاتا تھا وہ بھی رات گئے تک ان کے ساتھ ھی رھتا، کالج جانا اور واپس آکر اپنے گھر میں کپڑے بدل کر ان کے پاس پہنچ جانا اور بس بہن بھائی کے ذرئیے امی کے بلاؤے پر گھر جانا اور جو بھی کام ھوا اسے پورا کرکے سیدھا پھر ان کے گھر پر پہنچ جاتا اور ھمارے گھر پر بھی کوئی اب تک امی ابا کی ظرفسے کوئی ناراضگی کا کوئی ایسا اظہار تو نہیں ھوا تھا لیکں ھماری امی کبھی کبھی یہ کہتی ضرور تھیں کہ کبھی اپنے گھر میں بھی ٹک جایا کرو، لیکن میں ان کی بات کو ھمیشہ نظر انداز کردیتا تھا، جو میرے لئے کچھ دنوں بعد میں بہتر ثابت نہیں ھوا،

اس کے علاؤہ گھومنے پھرنے اور انکے ساتھ فلمیں بھی دیکھنے جانے لگا اور انکی ھر باھر کی تقریبات اور دعوتوں میں بھی میں ان کے ساتھ ھی رھتا تھا، غرض کہ نہ ان کو میرے بغیر چین اور نہ ھی مجھے، میں کہیں بھی ھوتا تو وہ دونوں مجھے ڈھونڈ نکالتیں ایک دفعہ میں ان کے گھر جانے ھی والا تھا کہ وہ مجھے ڈھونڈتی ھوئی میرے گھر پہنچ گئی، وھاں میں ایک پڑوسی کی لڑکی کے ساتھ باتیں کررھا تھا کہ پیچھے سے یہ زادیہ پہنچ گئی اور کچھ کہے سنے بغیر ھی غصہ میں واپس پلٹ گئی،

اب ایک اور مجھے مشکل سامنے نظر آرھی تھی، میں تو گھبرا گیا کہ اب کوئی ایک اور نئی مصیبت کا سامنا ھونے والا ھے، کیونکہ جس لڑکی سے میں بات کررھا تھا، اس سے زادیہ بہت ھی زیادہ چڑتی تھی اور ھمیشہ مجھے اس سے دور رھنے کےلئے بھی کہتی تھی!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-52- جوانی کے پہلی محبت کی مشکلات!!!!!

اب ایک اور مجھے مشکل سامنے نظر آرھی تھی، میں تو گھبرا گیا کہ اب کوئی ایک اور نئی مصیبت کا سامنا ھونے والا ھے، کیونکہ جس لڑکی سے میں بات کررھا تھا، اس سے زادیہ بہت ھی زیادہ چڑتی تھی اور ھمیشہ مجھے اس سے دور رھنے کےلئے بھی کہتی تھی!!!!!!!!!!!!

ایسا میرے ساتھ ھی کیوں ھوتا ھے،؟؟ جیسے ھی جتنا حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ھوں‌، کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ھو جاتا ھے، خیر اب آنے والے طوفان کا تو مقابلہ کرنا ھوگا،!!!!! سوچو سیدصاحب ورنہ تو موسم حد درجہ خراب ھونے کے امکان ھیں، لڑکیوں کی تو ایک مشکل یہ ھے کہ ذرا ذرا سی بات پر بغیر کچھ سمجھے ھوئے شک کرنے لگتی ھیں، ارے بھئی کسی کو صفائی کا تو موقع دو، مگر کسی کی بھی نہیں سنتی ھیں اور ان کی عدالت بھی ایک طرفہ ٹریفک کی طرح ھی ھوتی ھے!!!!

اب کر بھی کیا سکتے تھے ایک نیا مورچہ سامنے آرھا تھا، چلو اس کو بھی سنبھالتے ھیں، ان کی عدالت میں یعنی ان کے گھر ڈرتے ڈرتے پہنچے، موڈ کچھ ٹھیک نہیں لگ رھا تھا، یا مجھ پر ھی فطری طور پر ھی کچھ نفسیاتی سا اثر ھو گیا تھا، پہنچتے ھی کچھ بات چیت تو نہیں ھوئی میں بھی جاکر سب سے معمول کے مطابق سلام کیا اور ویسے بھی روزانہ آگر نانی جاگ رھی ھوتی تو ان کو جھک کر آداب کرتا اور وہ مجھے دعائیں دیتی ھوئی ماتھے پر پیار کرتیں اور اپنے ھاتھوں سے بلائیں لیتیں، نانی اور خالہ دونوں ھمیشہ مجھے اسی طرح دعائیں دیتیں اور پیار کرتی تھیں اور پھر ان کی دعاؤں سے فارغ ھو کر باجی کی عدالت میں حاضری اور روزمرہ کی رپورٹ انکی خدمت میں پیش کرتا اور پھر چھوٹی کی طرف دیکھنا کہ اس کا کیسا موڈ ھے،

چھوٹی کا موڈ تو ھمیشہ موقع کی شاید تلاش میں ھوتا ھے اور اب تو جناب انہوں نے مجھے اس لڑکی سے بات کرتے دیکھ لیا تھا جسے وہ پسند ھی نہیں کرتی تھی، خیر ھمیں کیا، شکر ھے کہ کسی سے شکایت نہیں کی تھی، ورنہ تو کچھ سنبھالنا مشکل ھوجاتا، ترکیب تو سوچ کر ھی آیا تھا، لیکن ضرورت نہیں پڑی مگر کسی اور طرف اسکا اٹیک ھو ھی گیا !!!!!!!

آج نانی کچھ مجھ سے بہت زیادہ خوش تھیں اور وہ اپنے پیارے انداز میں میری بہت زیادہ تعریف کررھی تھیں، کہ میں بہت فرمانبردار، مودب اور بہت خدمت گزار ھوں اسکے علاوہ کہ جس لڑکی سے بھی اسکی شادی ھوگی وہ بڑی خوش قسمت ھوگی وغیرہ وغیرہ، وہ ھمیشہ ھی میرے لئے ایسے ھی پیارے خطابات سے نوازتی تھیں مگر آج کچھ ضرورت سے زیادہ ھی میری تعریف ھورھی تھی، اوپر والا میرے حال پر کرم کرے، جب مجھ پر کچھ زیادہ ھی مہربانیاں برسنے لگتی ھیں تو مجھے لگتا ھے کہ آج کچھ گڑبڑ ھونے والی ھے ،

نانی تعریف کرتیں تو خالہ اس میں مزید اور اضافہ کرکے تعریفوں کے پُل باندھ دیتی تھیں اور باجی مجھے دیکھتی ھوئی خوشی سے مسکراتی اور مجھے معنی خیز نظروں سے بھی دیکھتی جاتیں، اور آج کل تو میری دلہن کے بارے میں اس موضوع پر ایک مزید بحث کا اضافہ ھوگیا تھا اور جیسے ھی نانی یس موضوع کو چھیڑتیں اور میری ھونے والی دلہن کی خوش قسمتی پر ناز کرتیں تو فوراً چھوٹی کہتی کہ !!!!! کوئی نہیں نانی اس لڑکی کی تو قسمت ھی پھوٹ جائے گی، اپنی شکل دیکھی ھے کبھی آئینے میں ؟؟؟؟؟؟

اور آج تو اسکا ویسے ھی میرے خلاف موڈ تھا، مگر نانی تو آج میری تعریف کے قصیدے پر قصیدے بیان کررھی تھیں، ھمارے والد صاحب بھی ان کو اپنی والدہ کا درجہ دیتے تھے اور شاید پہلے بھی نانی کو کہا بھی تھا کہ یہ چھوٹی کو تو میں اپنی بہو بناؤں گا، اور نانی کو بھی دیکھو اس کا ذکر آج ھی کرنا تھا، جیسے ھی نانی نے زادیہ کو مخاطب کرتے ھوئے میری طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا کہ ان کے ابا تمھیں تو اپنے گھر کی بہو بنانا چاھتے ھیں، تمھارا کیا خیال ھے، یہ سنتے ھی چھوٹی بھڑک اٹھی !!!! کیا میں فالتو ھوں اور کبھی اپنی شکل آئینے میں دیکھی ھے، نانی تم نہیں سمجھتی یہ نہ جانے کن کن لڑکیوں کے چکر میں رھتا ھے، اور پتہ نہیں کس کس کو بے وقوف بناتا رھتا ھے !!!!!!اور نہ جانے کیا کیا کہتی رھی، میں نے بھی جواباً تنک کے کہا کہ!!!!! شکر ھے مالک کا جو بھی مجھے دیکھتی ھے فدا ھوجاتی ھے، ایک سے ایک پڑی ھے،!!!!! میرے یہ لفظ سنتے ھی اس نے کہا کہ!!!!! تو تم یہاں کیوں آتے ھو، جاؤ وھیں اپنی لاڈلیوں کے پاس !!!!! بس یہ کہا اور دوسرے کمرے میں یا باورچی خانہ میں اپنی اماں کے پاس جاکر میرے خلاف کھسر پھسر کرنے لگی،

ایک تو وہ ویسے ھی میری وجہ سے غصہ میں تھی اور اُوپر سے میں نے بھی خوامخواہ اس سے بےکار پنگا لے لیا، اب کیا کروں باجی کو پکڑلیا باجی نے کہا کہ،!!!! میں کیا کروں یہ تم دونوں کا معاملہ ھے میں کچھ نہیں کرسکتی،!!!! میں نے اچکتے ھوئے کہا کہ!!!!!! ارے باجی میں نے کچھ نہیں کیا کسی لڑکی سے تو میں کسی بھی طرح اور کسی بھی ظریقے سے جو وہ سمجھ رھی ھے کبھی اس طرح بات ھی نہیں کرتا، کچھ اسے سمجھاؤ !!!!!! باجی نے مسکراتے ھوئے کہا کہ !!!مگر تم نے بھی تو مذاقآً یا حقیقت میں غلط جواب دیا ھے، اب بھگتو !!!!!!

اس کے بعد کچھ دن مجھے لگے حالات کو قابو میں لینے کیلئے اور شکر ھے کہ پھر سے گاڑی لائن پر دوبارہ چل پڑی اور شادی اور دلہن کا موضوع تو اب بالکل ختم کردیا تھا، جب سب راضی ھیں تو کیا غم ھے، بس میں چاھتا تھا کہ وہ کسی ظرح سے اقرار کرلے، مجھ سےاس طرح اس سے اس بات کا اقرار کرنا تو ایسے تھا جیسے لوھے کے چنے چبانا، سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ھم دونوں کبھی سنجیدہ ھی نہیں ھوئے اور ھمیشہ ھر موضوع پر خوامخواہ کی بحث اور لڑنا جھگڑنا ایک معمول تھا اور دونوں ھی ایک دوسرے سے لڑنے کے بہانے بھی ڈھونڈتے اور ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے !!!!!

میں نے اب یہ سوچ ھی لیا تھا کہ میں اب اس سے کبھی بھی نہیں لڑونگا اور ایسی بات سے ھمیشہ پرہیز کرونگا جس سے اسے کوئی پریشانی یا صدمہ پہنچے اور اپنی پوری کوشش کرونگا کہ اسکی ساری ھمدردیاں حاصل کرنے کی، اور اب تو حالات معمول پر تھے پھر سے ھم تینوں خوش تھے اور میں بھی اس سے کسی بات پر بحث ھی نہین کررھا تھا اور اس کی ھاں میں ھاں ملا رھا تھا، مگر وہ پریشان ھوگئی اور باجی سے کہا کہ اس سے پوچھو مجھ سے اب تک کیوں ناراض ھے، لے بھیا!!! ایک اور مشکل، میں نے کہا کہ میں کب ناراض ھوں تو اس نے جواب دیا کہ !!!!! تو پھر مجھ سے اب بحث بھی نہیں کرتے ھو اور میری ھر غلط بات پر بھی لڑتے نہیں ھو !!!!!! میں نے پھر غصہ سے کہا کہ !!!!!!تم سے تو پیار سے بات کرو تو مشکل اور لڑو تو بھی مشکل !!!!! اور اسی طرح پھر دونوں میں تکرار اور بحث چل پڑی اور بہت مشکل سے باجی کی مداخلت پر معاملہ ٹھنڈا پڑا !!!!!!

کل تو وہ یہ کہہ رھی تھی کہ!!!! اسے سمجھادو باجی مجھ سے الجھا نہ کرے اور یوں خامخواہ الٹی سیدھی باتیں نہ کیا کریں، ورنہ ورنہ!!!!!! اور آج تو اپنے ھاتھ سے بنایا ھوا گاجر کا حلوہ کھلا رھی تھی جیسے کہ کل کوئی بات ھی نہیں ھوئی، میں بھی خوش بس پھر میں بھی چپ، مگر کیا کریں یہ تو ھم دونوں کے ساتھ ساتھ تھا اور اسکے بغیر بھی گزارا نہیں تھا اور مجھے اسکا یہ موڈ بھی اچھا لگتا تھا اور اپنے آپ کو اسکے سامنے ھرانا اور بھی زیادہ اچھا لگتا تھا، اسکے جیتنے پر اسکے چہرے کی خوشی اور خفا ھونے کی صورت میں اسکا لال سرخ چہرہ، مجھے اسکے دونوں روپ بہت اچھے لگتے تھے !!!!!!

ایک دن جب کالج کے لئے نکلا اور حسب معمول ان کے گھر گیا تو اسے سخت بخار چڑھا ھوا تھا اور سب اسکی تیمارداری میں لگے ھوئے تھے، اور مجھ سے بھی دیکھا نہیں گیا اور میں کالج کے بجائے سیدھا اپنے والد صاحب کی کمپنی کے ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسکی حالت بتا کر اسی کے نام سے دوائی لی اور فوراً جلدی جلدی اسکے پاس پہنچا وہ سخت بخار میں تھی اور باجی اور خالہ دونوں اسکے سر پر ٹھنڈی پٹیاں کررھی تھی، مجھے دیکھتے ھی ھانپتے ھوئے کہا کہ !!!!! دیکھو بدتمیز کو کہ جب اس کی طبعیت خراب ھوتی ھے تو میں اسکے بستر کے پاس سے ھٹتی نہیں ھوں اور یہ حضرت صبح سے غائب اور میری کوئی فکر نہیں ھے کہ میری یہاں کیا حالت ھے!!!!!! میں نے دل میں کہا کہ دیکھو اس کو بخار میں بھی چین نہیں ھے !!!!!!!!!!

اس سے پہلے کہ وہ مزید اور کچھ کہتی، میں نے فوراً دوائی کا لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا اور کہا کہ!!!! میں تو تمھاری دوائی لینے گیا ھوا تھا !!!!! میرے یہ کہتے ھی دیکھا کہ اسکی آنکھوں میں فوراً آنسو چھلک آئے اور اس نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا، باجی کے بھی ساتھ ھی آنسو نکل پڑے اور خالہ اور نانی نے مجھے باری باری گلے لگایا اور ماتھے پر پیار کیا اور بہت دعائیں دیں !!!!!!!!

آور اس دن میرا دل بھی اندر سے بہت خوش تھا کہ آج زندگی میں شاید پہلی بار زادیہ کو میری کسی حرکت سے اسکی آنکھوں میں جذبات میں ڈوبے ھوئے آنسو امڈ آئے تھے!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-53- پہلی محبت اور ظالم سماج!!!!!

اس سے پہلے کہ وہ مزید اور کچھ کہتی، میں نے فوراً دوائی کا لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا اور کہا کہ!!!! میں تو تمھاری دوائی لینے گیا ھوا تھا !!!!! میرے یہ کہتے ھی دیکھا کہ اسکی آنکھوں میں فوراً آنسو چھلک آئے اور اس نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا، باجی کے بھی ساتھ ھی انسو نکل پڑے اور خالہ اور نانی نے مجھے باری باری گلے لگایا اور ماتھے پر پیار کیا اور بہت دعائیں دیں !!!!!!!!

آور اس دن میرا دل بھی اندر سے بہت خوش تھا کہ آج زندگی میں شاید پہلی بار زادیہ کو میری کسی حرکت سے اسکی آنکھوں میں جذبات میں ڈوبے ھوئے آنسو امڈ آئے تھے!!!!!!!!!!!!!!!


آج تو میں بہت ھی زیادہ خوش تھا، یہ خوشی بھی کیسی خوشی تھی کہ کوئی بیمار تھا اور میں خوشی سے ناچ رھا تھا!!!!!!!!!

دوائی کا تو پتہ نہیں کہ اس نے پی تھی یا نہیں لیکن میں نے وھی دوائی کی بوتل کافی عرصہ تک سامنے والے ظاق میں رکھی دیکھی، میں بھی روز دیکھتا تھا لیکن میں نے اس دوائی کے بارے میں اس سے کبھی نہیں پوچھا اور نہ ھی اس نے کوئی اس دوائی کے بارے میں بتایا کہ یہ دوائی اب تک کیوں رکھی ھے، اتنا سب کچھ ھوگیا اور یہ بھی دل کو یقین ھوگیا کہ وہ مجھے بہت دل و جان سے چاھتی ھے، لیکن جو میں اس کے منہ سے سننا چاھتا تھا، لاکھ کوشش کرلی مگر نہ میں کچھ کہہ سکا اور نہ اس نے کوئی اپنی زبان کھولی، کئی دفعہ ایسا ماحول بھی پیدا کیا کہ کچھ بول سکوں اور اس نے بھی چاھا کہ میں کچھ اپنے منہ سے کہوں لیکن افسوس کہ اس وقت ھی میری زبان گنگ ھوجاتی تھی، صرف اس ڈر سے کہ کہیں پھر وہ برا نہ مان جائے اور کہیں میں اسے کھو نہ دوں!!!!!!

اور یہ میں تو سب کچھ جانتا بھی تھا کہ کوئی بھی تو ایسا لڑکا نہیں تھا، ان کے جاننے والوں میں یا اور کوئی ھو جسے وہ پسند کرتی ھو، کیونکہ میں تو زیادہ تر وقت انہیں کے ساتھ گزارتا تھا!!!! میں تو بس اسی میں ھی خوش تھا، ادھر کالج کی ُپڑھائی پر بھی کافی اثر ھورھا تھا، اور اب کالج سے بھی جلدی آجانا اور ھم تینوں گھر میں ھی اُدھم بازی کرتے اور جب تک ھماری اماں کا بلاؤا نہیں آتا تھا، میں وہاں سے ہلتا نہیں تھا !!!!!!

ایک دن گھر پر اباجی جلدی آگئے ان کو شاید مجھ سے کچھ کام تھا یا بازار جانا تھا مجھے اپنی بہن کےذریئے بلوایا گیا، لیکن میں نے سنی ان سنی کردی، ابا نے اور زیادہ سختی سے پیغام بھجوایا کہ فوراً آؤ اور جب مجھے پتہ چلا کہ اباجی گھر پر آگئے ھیں، تو فوراً بھاگا وھاں گھر پر ایک دو اور محلے کی فیملیز بیٹھی تھیں اور مجھے دیکھتے ھی وہ لوگ چلے گئے اور میرا ماتھا ٹھنکا اور چھٹی حس نے کھا کہ بیٹا آج کچھ ضرور گڑبڑ ھے گھر میں کچھ سناٹا سا محسوس ھو رھا تھا، میری اندر سے جان نکلی جارھی تھی، والد صاحب کچھ زیادہ ھی غصہ میں لگتے تھے لیکن انہوں نے کچھ برداشت سے کام لیا ھوا تھا اور باقی بہن بھائی بھی ایک کونے میں خاموشی سے دبکے بیٹھے ھوئے تھے اور والدہ اسی وقت اٹھ کر باورچی خانہ میں چلی گئی تھیں،

میں کچھ سمجھ نہیں ‌پا رھا تھا کہ کیا گڑبڑ ھے، ابھی کچھ حالات کا دماغ میں جائزہ ھی لے رھا تھا کہ ابا جی نے سکوت کو توڑتے ھوئے مجھے اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا اور میرے کندھے پر ھاتھ رکھتے ھوئے کچھ یوں اپنے غصہ کے ملے جلے الفاظوں سے یہ کہا کہ “ بیٹا جو میں تم سے بات کہنے جارھا ھوں اسے ذرا غور سے سننا، اب تم بچے نہیں رھے ھو اب تم کافی بڑے ھوگئے ھو، تمہیں اب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاھئے، گھر میں تمھاری ایک ماں ھے اور تمھارے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ھیں، تمھیں ان کے بارے میں بھی سوچنا ھے اور پڑھ لکھ کر ھم سب کا ایک مضبوط سہارا بننا ھے، ایک صرف تم سے درخواست ھے کہ اب تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ھوئے، اپنی تمام تر توجہ اپنی پڑھائی،اور اپنے اور صرف اپنے گھر پر ھی دوگے، اور اب تمھارا پرائی جوان لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اچھا نہیں لگتا، اس میں تمھاری اور ھمارے یہ ایک چھوٹے سے کنبے کی بدنامی بھی ھے، میں صرف یہی چاھتا ھوں کہ کل سے تم سیدھا کالج جاؤ گے اور واپسی پر سیدھے اپنے گھر، اور اس کے علاوہ اگر گھر کے کام کے سلسلے میں جانا ھو تو ٹھیک ورنہ تم ان کے گھر اب کبھی نہیں جاؤ گے آج میں یہ تمھیں یہ پیار سے سمجھا رھا ھوں، اور تم میرا غصٌہ جانتے ھو اور اگر آج کے بعد میں نے تمھیں اس گھر کے آس پاس بھی دیکھا تو مجھ سے کوئی بھی برا نہیں ھوگا اور جو میں تمھارا حشر کرونگا پھر سے ایک مرتبہ پھر ساری دنیا دیکھے گی، شاید تمھیں یاد ھو !!!!!!!!

وہ کہتے جارھے تھے اور میرے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکلتی جارھی تھی، اور میرا دماغ بالکل معاؤف ھوتا جارھا تھا کہ یہ ایک دم اچانک کیسے ھوگیا کچھ بھی سمجھ نہیں آرھا تھا!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-54- ظالم سماج کی مداخلت اور میری پریشانی،!!!!!!!!

وہ کہتے جارھے تھے اور میرے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکلتی جارھی تھی، اور میرا دماغ بالکل معاؤف ھوتا جارھا تھا کہ یہ ایک دم اچانک کیسے ھوگیا کچھ بھی سمجھ نہیں آرھا تھا!!!!!!!!!!!

1967 کا زمانہ اور اُس وقت میری عمر جو تقریباً 17 سال کے لگ بھگ تھی، یہ عمر ایک ایسی جذباتی عمر ھوتی ھے کہ کوئی بھی مرضی کے خلاف بات ھو وہ بالکل برداشت نہیں ھوتی، لیکن والد صاحب کا غصہ بھی بالکل بجا تھا، اور میں بھی شاید اپنے طور پر اپنی جگہ بالکل صحیح تھا، !!!!!!!!!

اسی دوران سالانہ امتحانات بھی سر پر تھے، اور حالات ھی کچھ ایسے تھے کہ امتحانات کی تیاری بالکل نہیں کرسکا تھا، روزانہ ایک آدھ پیریڈ کے علاوہ کوئی اور پیریڈ میں جاتا ھی نھیں تھا، ایک تو وہاں کی آزادی اور دوسرے لیکچرار جو انگلش میں اس وقت سوال کرتے تھے اور وہ بھی مجھے ھی نشانہ بناتے تھے، اول تو سوال ھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، اگر سمجھ میں آتا تو جواب نہیں آتا تھا، کئی دفعہ اردو میں جواب دینے کی کوشش بھی کی لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا، پھر کیا کرتا ایسی ساری مضامین کی کلاسوں میں جانا ھی چھوڑ دیا جہاں پر اردو کا کوئی ذکر نہیں ھوتا تھا، اور مجھے آج تک انگریزی زبان سے اتنا زیادہ لگاؤ بھی نہیں ھے، بعض اوقات مجبوری ھوجاتی ھے!!!!!!!

فرسٹ ائیر کامرس کے امتحان ھوچکے تھے، مگر افسوس کہ میں نے 5 مضامیں میں سے صرف 2 پیپر ھی کلئیر کئے تھے، اور پھر بھی سیکنڈ ائیر میں پہنچ گئے تھے، مگر بس اب کل آٹھ مضامین کے امتحانات کا سوال تھا، لیکن افسوس اگلی کلاس میں جانے کی نوبت ھی نہیں آئی، کیونکہ اپنے ذاتی مسائل کی الجھنیں کچھ اتنی شدت اختار کرچکی تھیں، کہ کالج کی طرف دھیان ھی نہیں گیا،

والد صاحب کو جب پتہ چلا کہ میں نے صرف دو ھی پیبر کلئیر کئیے ھیں تو انکا تو اور بھی پارہ اوُپر چڑھ گیا، اور کچھ ھمارے مہربان لوگوں کو بھی میرے خلاف شکایات کرنے کا موقعہ مل گیا، اب تو میری ھر طرف سے سخت نگرانی کی جانے لگی تھی، میرے پیچھے جاسوس چھوڑدئیے گئے اور کچھ تو اپنی مرضی سے اور کچھ اپنی خوشی سے ھی میرے خلاف جہاد میں شریک ھوگئے اور مجھے بھی ان کا پتہ آسانی سے چل ھی گیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ کئی لوگوں کو میرے ان کے یہاں آنے جانے سے بہت تکلیف ھوتی تھی، کچھ تو یوں کہ ان کے گھر سے لفٹ نہیں ملتی تھی اور کچھ ایسے بھی تھے، جو چاھتے تھے کے میں ان کے تعلقات ان سے کرانے میں مدد کروں، جسکا کہ میں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا، اور وہ میرے خلاف ھوگئے اور مجھے ان معصوم لوگوں سے دور کرنے کی مھم میں بلا معاوضہ شامل ھوگئے، مگر میں بھی کہاں باز آنے والا تھا،!!!!!!!!!

ادھر والد صاحب نے انکے والد کو اپنے گھر پر یا انہی کے گھر جاکر محلے والوں کی شکایت کی، جسکا مجھے انہیں کی زبانی بعد میں معلوم ھوا کہ انہوں نے کچھ یوں کہا تھا کہ بھائی صاحب دیکھیں ھمیں اسی محلے میں رھنا ھے اور ھمارے آپس کے تعلقات اتنے اچھے اور مضبوط ھیں کہ میں نہیں چاھتا کہ اس میں کوئی دراڑ آئے، آپکی بیٹیاں بھی میری بیٹیوں سے زیادہ عزیز ھیں، اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ھوں کہ ان میں کوئی بھی خرابی نہیں ھے بہت ھی اچھے کردار کی مالک اور خلوص دل اور عزت کے قابل ھیں، مگر آپ یہ سوچیں کہ اب وہ دونوں جوانی کے دھلیز پر قدم رکھ چکی ھیں اورمیرا بیٹا بھی اور اس کی بھی میں کیا آپ بھی ضمانت دے سکتے ھیں کہ وہ بھی کوئی ایسا غلط قدم اٹھا نہیں سکتا جس سے آپ کے اور میرے درمیان کوئی عزت کا مسئلہ یا بدنامی کا باعث ھو، مجھے اس بات کی بھی خوشی ھے بلکہ میں آپ سب کا ھمیشہ ست احسان مند ھوں کے میرے بچوں کی آپ کی بیٹیوں نے بہت اچھی تعلیم اور تربیت کی اور بہت اچھا خیال رکھا،!!!!

اور یہ کہ اب آپ خود سوچیں کہ محلے والوں کی زبان کو کون پکڑ سکتا ھے آجکل یہ سب میرے بیٹے اور آپکی بیٹیوں کو لے کر اس کے موضوع کو ایک غلط شکل میں ڈھال رھے ھیں، جب یہ بچے چھوٹے تھے تو کوئی بات نہیں تھی اب یہ سب جوانی کی طرف قدم بڑھارھے ھیں، میں یہ نہیں چاھتا کہ کوئی بھی ذرا سی آنچ نہ آپ پر آئے اور نہ مجھ پر، آپ کو پتہ ھے بھائی صاحب آجکل دنیا کسی کے بھلے کا نہیں سوچتی جتنی عزت دیتی ھے تو اتنا ھی اپنے مفاد کی خاطر موقعہ ملے تو ذلیل کرنے سے باز بھی نہیں آتی، اور میں چاھتا ھوں کہ کچھ عرصہ کیلئے اپنے گھر میں سب کو کہہ دیں کہ میرے بیٹے کو آنے سے روک دیں اور ادھر میں اپنی پوری کوشش کرونگا کہ اسے آپ کی طرف نہ جانے دوں،

اور نہ جانے کیا کیا کہا ھوگا، جس کے جواب میں لازمی بات ھے کہ انکے والد نے بھی ھامی بھری ھوگی، اس کے علاوہ انکو بھی محلے کے کچھ عزت دار لوگوں نے بھی اسی طرح کی نصیحتیں کی تھیں کہ یہ سب ھمارے بچوں کی طرح ھیں، لیکن اس طرح کی غلط افواھوں سے بچنے کیلئے اس طرح انکا آزادانہ ملنا جلنا باھر گھومنا پھرنا اچھی بات نہیں ھے !!!!!!!!!!

بس پھر کیا تھا کہ ھمارے اور انکے درمیان میں ایک دراڑ کی لائن پڑ چکی تھی، ادھر میرے والد صاحب نے مجھے سختی سے نوٹس دے دیا اور ادھر ان کے والد نے بھی ان دونوں کو بری ظرح ڈانٹا بھی اور یہ کہا کہ اھر میں نے اس لڑکے کو اس گھر کے اندر یا باھر تم لوگوں سے باتیں کرتے دیکھا یا سنا تو تم لوگوں کی خیر نہیں ھے اور اگر میں نے اسے یہاں دیکھا تو اسکی میں ٹانگیں توڑ دونگا،!!!!!!

ادھر کچھ محلے والے بھی بہت خوش تھے اور میں شعلوں کی ایک اور جنگ کے لپیٹوں میں گھرا ھوا پریشان حال ایک اور مصیبت کے پہاڑ کو اپنے سر سے اتارنے کی سوچ میں لگا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-55- دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام!!!!!!!!

ادھر کچھ محلے والے بھی بہت خوش تھے اور میں شعلوں کی ایک اور جنگ کے لپیٹوں میں گھرا ھوا پریشان حال ایک اور مصیبت کے پہاڑ کو اپنے سر سے اتارنے کی سوچ میں لگا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!

اب تو دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ھوچکی تھیں، نہ کوئی اس وقت ٹیلیفون تھا، نہ کوئی موبائیل قسم کی چیز، نہ کوئی انٹرنٹ ٹائپ کی کوئی ایجاد تھی، بس ایک دوست جس کو ننھا کے نام سے بلاتے تھے، مجھ سے چھوٹا لیکن بہت پھرتیلا اور چالاک باقی سب دوستوں پر سے تو اعتبار اٹھ چکا تھا، سب کے سب مخالف پارٹی سے مل چکے تھے، اور اسی طرح ان دنوں ملک کی سیاست بھی کچھ یونہی ڈگمگا رھی تھی، خیر ھمیں سیاست سے کیا ھمیں تو اس محلے پر سے حکومت ختم ھوتی نظر آرھی تھی، اس محلے کا اب وہ معیار نہیں رھا تھا ھر کوئی اب ایک دوسرے سے حسد کرنے لگا تھا اور آھستہ آھستہ اچھے لوگ یہ محلہ چھوڑتے جارھے تھے، اور نئے لوگ بسنا شروع ھوگئے تھے، لیکن ان میں اور پرانے لوگوں میں زمین اور آسمان کا فرق تھا،

اب تو ھر طرف سے مجھ پر نطر رکھی جارھی تھی، جاسوسوں کا بھی کیا منطم گروپ تھا، میرے گھر سے نکلنے سے لیکر بس اسٹاپ، اور جب تک بس میں نہ چڑھ جاؤں، میرا پیچھا ھوتا رھتا، لیکن میں نے بھی یہ کسی کو محسوس نہیں ھونے دیا کہ میں مجھے اپنے پیچھا کرنے والوں کا علم ھے، کبھی کبھی تو وہ میرے ساتھ ھی چلتے رھتے اور پوچھنے پر بتاتے کہ بس ایسے ھی ذرا مارکیٹ جارھا تھا اور کبھی کوئی دوسرا بہانہ، مگر میں بھی انکی چالاکیوں کو جانتا تھا، یہ کل کے بچے آج ھمارے ساتھ مقابلہ کرنے چلے تھے، مگر انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا، پیچھے سے آوازیں لگانا، اس کا نام لے کر مجھے برے الفاظوں کے ساتھ چھیڑنا، اس کے علاوہ دیواروں پر چاک سے اور کبھی کوئلے سے میرا اور اس کا نام لکھ کر اس کے ساتھ نازیبا الفاظوں کو لکھنا، جو مجھے بہت تکلیف دیتے تھے، اسے پھر میں اور میرا چھوٹا دوست ننھا مل کر پانی اور برش لے کر صاف بھی کرتے رھتے تھے،

اس کا نام ننھا تو تھا ھی اور عمر میں شاید مجھ سے کچھ چھوٹا ھی تھا، لیکں اس نے ان دنوں میرا بہت ساتھ دیا تھا، اور وھی میرا ایک زبانی واحد پیغام رسانی کا ذریعہ بھی تھا، اور اب وھی میرے ساتھ زیادہ تر رھتا تھا، اس کے پیچھے بھی کافی جاسوس لگے رھتے تھے مگر وہ تو مجھ سے کہیں زیادہ تیز تھا،

اکثر وہ اس ظرح پیغام لیتا کہ برابر والے کو پتہ نہیں لگتا تھا کبھی کبھی ھم اسی دیوار کے ساتھ گولیاں کھیلتے تو ساتھ جاسوس بھی ھمارے ساتھ چپکے رھتے اور ھماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے تھے، لیکن گولی کھیلتے کھیلتے اسی دیوار کے ساتھ سامنے والے دروازے پر گولی وہ یونہی پھینک دیتا اور جیسے ھی وہ گولی اٹھانے، وہاں پہنچتا تو دروازے کی آڑ میں سے وہ میرے لئے پیغام سن بھی لیتا، وہ دروازہ انہیں کے گھر کا تھا اور وہ دونوں بھی اسی دروازے کی دراڑ میں سے ھمیں کھیلتے ھوئے دیکھتی رھتی تھیں، اور جیسے ھی وہ ننھا اس دروازے کے پاس کسی بھی بہانے سے پہنچتا اسے اپنا پیغام سنادیتی اور سن بھی لیتا اور بس کہتا چلو بھائی اپنا کام ختم،

اس کے علاوہ نزدیکی گھروں سے بھی عورتوں کی جاسوسی چل رھی ھوتی تھی، ان کی نطر صرف مجھ پر ھی ھوتی، مگر میرا ننھا اپنا کام کرجاتا اور کسی کو پتہ ھی نہیں چلتا اور سب کو مایوسی ھوتی اور وہ ننھا واقعی میرا ایک مخلص ساتھی تھا، جس نے مجھے اس وقت سنبھالا، جس وقت میں ٹوٹنے والا تھا، وہ بہت بہادر تھا اور اس میں قدرتی بہت طاقت بھی تھی اس سے میں خود کئی دفعہ مار کٹائی میں ھار چکا تھا، جب کبھی اس سے میری دوستی نہیں تھی اور محلے والے بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، جب اس نے دیکھا کہ مجھ سے تمام محلے کے لڑکے دور ھوتے جارھے ھیں، اور مجھے تنگ کرنے لگے ھیں تو وہ میرے سامنے آگیا اور پھر اس نے تمام مخالفتوں کے باوجود سب سے گن گن کر بدلا لیا، میں لڑائی سے بہت دور بھاگتا تھا، اور اسے بھی بہت روکتا تھا لیکن وہ میری ایک نہیں سنتا تھا اور ھر ایک سے لڑ پڑتا تھا اکثر لڑکے اس سے گھبراتے بھی تھے، کیونکہ وہ ایک تو پھرتیلا بہت تھا اور دوسرے وہ کسی کا بھی آسرا نہیں کرتا تھا، فوراً اسکے ھاتھ میں جو چیز بھی آجائے اٹھا کر ماردیتا تھا، اس کا نشانہ بھی بہت پکا تھا، ایک دفعہ اس نے تو میرا سر بھی پھاڑ دیا تھا جس وقت میری اور اسکی بات چیت نہیں تھی،

اور اب بھی وہ دونوں میرے لئے اتنی بےچین رھتیں کہ شاید روتی بھی ھونگی اور ان کی والدہ ان دونوں کے لےکر ان کی کسی سہیلی کے گھر پہنچ جاتیں جسکا مجھے ننھے دوست سے پہلے ھی خبر مل چکی ھوتی تھی، اور میں بڑی مشکل سے جاسوسوں کو چکما دے کر آخر وہاں پہنچ ھی جاتا تھا، گھر سے بس اسٹاپ تک میرے ساتھ رھتے تھے اور جیسے ھی میں بس میں بیٹھتا وہ واپس چلے جاتے، جب ننھا میرے ساتھ ھوتا تو کوئی بھی جاسوس میرے پیچھے نہیں ھوتا تھا، مگر افسوس کہ صبح کے وقت ننھا اسکول میں ھونے کی وجہ سے میرے جاسوسوں کو میرا پیچھا کرنے کا موقعہ مل جاتا تھا،

میں بس میں سوار تو ھوجاتا لیکن اگلے اسٹاپ پر اتر کر واپس پیدل دوسرے محلے میں ننھے کے بتائے ھوئے گھر پر پہنچ جاتا، اور بس پھر گپ شپ شروع ھوجاتی، وہاں سب ھوتے اور حالات کا رونا ھی روتے رھتے اس طرح کی ملاقاتیں مجھے خود بھی اچھی نہیں لگتی تھیں، کسی دوسرے کے گھر او ڈر بھی لگا رھتا تھا اور ھم روزانہ اسی ڈر کی وجہ سے گھر بھی بدلتے رھتے تھے، جیسے خانہ بدوشوں کی طرح، آکر کچھ دنوں میں اس سے بھی عاجز آگئے، مگر میرے دوست ننھے نے بڑے بڑے ایسے کام دکھائے کے جاسوسوں کا ناک میں دم کردیا، اور وہ بھی آہستہ آہستہ میری مخالفت سے پیچھے ھٹتے جارھے تھے،

اب میں ان کے گھر پر ھی چھپ چھپا کر جانے لگا، گھر سے نکلنے سے پہلے ھی مجھے ننھے کی طرف سے ایک سیٹی کی صورت میں گرین سگنل مل جاتا اور میں گھر سے دوپہر کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر نکلتا اور ننھے کی کو دیوار کے ایک کونے پر کھڑا ھوا پاتا اپنے گھر سے اس دیوار کے کونے تک پہنچتے پہنچتے وہ مجھے ہر خطرہ سے آگاہ کرتا رھتا وہ وہاں کونے پر کھڑا ٹریفک سپاھی کی طرح چاروں طرف سے دیکھتا ھوا مجھے اشارے کرتا رھتا وہ میرے پیچھے بھی دیکھ رھا ھوتا تھا اور دیوار کی دوسری طرف بھی اسکی نطریں ھوتی تھیں اس کے علاؤہ دائیں اور بائیں کی گلیوں کا تو وہ خاص خیال کرتا تھا اور ھمارے کچھ مخصوص کوڈ ورڈ بھی تھے، جسے ھم دونوں ھی سمجھ سکتے تھے، وہ اپنے اشاروں سے ھی مجھے گائیڈ کرتا رھتا اور اپنے گھر کے دروازے سے لیکر دوسرے کونے تک اس کے اشاروں کو سمجھتے ھوئے، بغیر آگے پیچھے دیکھے ھوئے، چلتے ھوئے اس کونے تک پہنچتا اور جیسے ھی ننھے کا اشارہ مثبت میں ھوتا تو میں خاموشی سے ان کے گھر میں ھوتا ورنہ دوسری طرف نکل جاتا،

اس طرح ڈر ڈر کر گھر میں داخل ھونا بھی بہت مشکل نظر آتا تھا اور چھپ چھپ کر ملنا بھی خطرناک ثابت ھوسکتا تھا، لیکن ھم تینوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے، اس دوراں بھی ھر بات ھوتی دنیا کی بحث ھوتی لیکن مجھے دو لفظ جسے اظہار محبت کہتے ھیں نہیں کرسکا، لاکھ کوشش کی لیکن بے سود اور ان حالات میں تو اور بھی مشکل تھا، یہی کافی تھا کہ ملاقات ھی ھو جاتی اور واپسی کا بھی ٹائم مقرر تھا، ننھے کی پہلی سیٹی پر میں تیار ھو جاتا دوسری سیٹی پر بالکل دروازے کے پاس الرٹ کھڑا ھوجاتا اور یہ دونوں بھی اِدھر اُدھر کھڑکی سے یا گھر کے صحن کی دیوار سے باھر جھانک کر لائن کلئیر کا سگنل ایک دوسرے کو دیتیں اور ننھے کی تیسری مخصوص سیٹی کی آواز پر میں فوراً خاموشی سے دروازے سے باھر اپنے گھر کے بجائے سیدھا باھر جانے والے راستے کی ظرف نکل جاتا،

آگے کچھ فاصلے پر پہنچ کر ایک چھوٹی سے نالے پر ایک پُلیا پر بیٹھ کر میں اپنے دوست ننھے کا انتظار کرتا وہ بھی بعد میں مجھے جوائن کر لیتا اور بعد میں ھم دونوں کہیں بھی گھومنے نکل جاتے اور اب میرا پہلا اور آخری رازدار ھی تھا، جسے میں اپنی ساری باتیں بتاتا تھا، اور اس نے جتنا میرا اس معاملے میں خیال رکھا ھے، اس نے ھر ایک سے میری خاطر دشمنی مول بھی لی، اگر یہ ننھا نہ ھوتا تو میری تو ھمت نہیں تھی کہ اس طرح میں ان لوگوں سے مل سکتا، ھم نے کبھی کوئی ایسا دل میں کوئی برا خیال یا کسی غلط نیت کے بارے میں نہین ‌سوچا، جیسا کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ لڑکیاں مجھے غلط راستے پر لے جارھی تھیں، بس ایک مجبوری یہ تھی کہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے،

میری طرف سے لوگوں نے بہت کوشش کرلی لیکن میرے بارے میں کوئی ایسا سراغ نہ پا سکے کہ میں ان سے ملتا ھوں، لیکن نہ جانے کسی طرح یہ خبر والدہ کے کانوں میں پڑ گئی کہ میں اب بھی ان کے گھر پر چوری چوری جاتا ھوں، جس کا کہ والدہ نے مجھے خبردار بھی کیا کہ دیکھو جس دن تمھارے ابا جی کو پتہ چل گیا وہ تمھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، میں نے صاف انکار کردیا نہیں ایسا ھوھی نہیں سکتا، مگر والدہ نے بہت عاجزی سے کہا کہ خدارا اب آئندہ ایسا مت کرنا ھماری عزت رکھ لینا وغیرہ وغیرہ !!!!! جس کی میں نے پھر بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور پھر ایک دن ؟؟؟؟؟؟؟؟

اب تو اتنی پریکٹس ھو گئی تھی کہ روز بلاجھجک بالکل اپنے ٹائم پر اسی ترکیب سے پہنچ جانا ھم تینوں کسی ڈر اور خوف کے بغیر بلکل اپنے آپ میں مگن رھتے، ساتھ ھماری نانی اور خالہ بھی ھوتیں اور باھر ھماری چوکیداری ننھا کرتا رھتا، مگر اس بات سے بے خبر کہ برابر والے گھر کی دیوار میں اوپر کی ظرف سے ایک سوراخ سا ھوگیا تھا اور کسی نے بھی اس ظرف توجہ نہیں دی یا تو پہلے سے ھی تھا، اور ان پڑوسن کا ھمارے گھر آنا جانا بھی تھا، ایک اور نئی ھماری جاسوسی شروع ھوگئی لگتا تھا کہ کئی دنوں تک انہوں نے مجھ پر نگرانی کی اور ایک دن جیسے ھی میں ان کے گھر پہنچا اور خبر میرے گھر پہنچا دی گئی!!!

کچھ ھی لمحے بعد دروازے پر دستک ھوئی اور جیسے ھی دروازہ کھلا سامنے میں نے اپنی والدہ کو پایا، اور زندگی میں پہلی مرتبہ ان کے منہ سے اُن کے خلاف غصہ میں جو کچھ کہہ سکتی تھی کہنا شروع کیا اور وہ سب خاموش انہیں تکتی رھی نہ جانے کیا کیا کہ تم لوگوں نے میرے بیٹے کی زندگی برباد کردی ھے ، تم لوگ ایسی ھو ویسی ھو، تم لوگ اس محلے میں رھنے کے قابل نہیں ھو، میں تمھیں اس محلے سے نکال کر رھونگی اور نہ جانے کیا کیا کہا، کوئی بھی ماں ھوتی تو شاید اس سے بھی زیادہ کہتی، بہرحال انہوں نے مجھ سے صرف اتنا ھی کہا کہ تم اپنی والدہ کو لے جاؤ اس سے پہلے کہ ھمارا دماغ خراب ھوجائے، اور انہوں نے ایک لفظ بھی میری والدہ سے کچھ نہیں کہا !!!!

میں نے بڑی مشکل سے انہیں پکڑ کر اپنے گھر لے گیا باھر لوگوں کا رش بھی جمع ھوگیا تھا اور وہ سب مجھے اور ان لوگوں پر کافی لعن طعن کررھے تھے!!!!!!!

اور اس کی خبر والد صاحب کو بھی گھر آنے سے پہلے ھوگئی تھی، لوگ تو پہلے سے ھی منتظر تھے کہ میرے ابا آئیں اور ان کے کان بھریں گھر آنے سے پہلے وہ بھی ان کے شاید گھر پہنچے اور نہ جانے ان کو کیا کیا کہا ھوگا !!!!! اور پھر گھر آتے ھی مجھ پر برس پڑے کہ تُو تو اس قابل ھی نہیں ھے کہ اس گھر میں رہ سکے، اور میں کل سے تیرا یہ منحوس چہرہ دیکھنا ھی نہیں چاھتا، ھمیں بہت تو نے بدنام کردیا اب اللٌہ کے واسطے ھماری جان چھوڑ دے !!!!!!!!!!

کھانا تو دور کی بات ھے، پانی تک بھی پینے کا ھوش نہیں رھا تھا، آخر محلے والے اپنی مکمل سازش میں کامیاب ھوچکے تھے، اور باھر سب خوشیاں منا رھے تھے دونوں فیملیز کو پریشان کرکے، اور پورے محلے میں صرف میرا دوست ننھا ایک کونے میں اسی دیوار کے ساتھ خاموش بیٹھا ایک میرے لئے سوگ منا رھا تھا!!!!!!!!!

دوسرے دں والد صاحب کے جانے کے بعد صبح اٹھا اور گھر میں ایک سودا لانے کی ٹوکری اٹھائی اس میں خاموشی سے اپنے چند پہنے کے کپڑوں کے جوڑے رکھے اور والدہ کی اسی خفیہ جگہ سے 500 روپے کے بانڈز آٹھائے، اور انہیں تین چار جگہ تقسیم کرکے الگ الگ جیبوں میں ڈالا اور سیدھا گھر سے نکل گیا، بغیر کسی کو بتائے ھوئے نامعلوم منزل کی طرف !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-56- دل سے مجبور اور گھر سے فرار،!!!!!!

دوسرے دں والد صاحب کے جانے کے بعد صبح اٹھا اور گھر میں ایک سودا لانے کی ٹوکری اٹھائی اس میں خاموشی سے اپنے چند پہنے کے کپڑوں کے جوڑے رکھے اور والدہ کی اسی خفیہ جگہ سے 500 روپے کے بانڈز آٹھائے، اور انہیں تین چار جگہ تقسیم کرکے الگ الگ جیبوں میں ڈالا اور سیدھا گھر سے نکل گیا، بغیر کسی کو بتائے ھوئے نامعلوم منزل کی طرف !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ میرے جانے کے بعد میری ماں پر کیا گزرے گی، والد کو کیا حال ھوگا اور چھوٹے بہن بھائی میرے لئے کتنا روئیں گے اور اس فیملی کا کیا ھوگا جس کی وجہ سے میں جذبات میں آکر مقابلہ کرنے کے بجائے والدصاحب کی ایک چھوٹی سی دھمکی سے اپنا گھر چھوڑ رھا تھا، اور ان کو کس کے رحم و‌کرم پر چھوڑ کر جارھا تھا، اور میرے بعد ان کا کیا لوگ حشر کرتے، میرے بہانے سے لوگ ان پر کیا کیا لعن طعن کرتے، ان کا جینا حرام کردیتے، یہ میری اپنی زندگی کی ایک اور بہت بڑی غلظی کرنے جارھا تھا !!!!!!!!!

ٹوکری اٹھائے اور چپکے سے ایک عجیب سے بے قابو جذبات لئے، میں اپنا گھر چھوڑ رھا تھا، اسی دیوار کے کونے پر پہنچ کر دوسری طرف گھومنے سے پہلے ایک مرتبہ پیچھے مڑکر میں نے آخری بار اپنے گھر کا دیدار کیا اور ان دونوں کے گھر کا بھی جو اسی موڑ پر تھا، میں نہیں چاھتا تھا کہ کسی کو بھی میری خبر ھو اور میں اس طرح خاموشی سے ٹوکری اٹھائے جارھا تھا، جیسے کہ گھر کا سودا لینے جارھا ھوں، کسی کو بھی نہیں بتایا، مجھے معلوم تھا کہ اگر کسی کو بھی بھنک پڑجاتی تو شاید میں وھاں سے بھاگ نہیں سکتا تھا، میرا دوست ننھا بھی شاید اسکول گیا ھوا تھا، اس کو بھی پتہ نہیں تھا، کہ میرا کل کا کیا پروگرام ھے، ورنہ تو شاید وہ بھی میرے ساتھ نکل لیتا، یا مجھے جانے نہیں دیتا کیونکہ وہ کچھ زیادہ ھی طاقت رکھتا تھا،

ابھی تک میں یہ فیصلہ کر نہیں پایا تھا کہ مجھے جانا کہاں ھے اور بس غصہ اور جذبات حالت میں چلا جارھا تھا، راستے میں اپنے کچھ محلے کے لوگوں نے مجھ سے گزشتہ کل کے بارے میں سوال بھی کئے مگر میں نے کسی کا کوئی جواب نہیں دیا، میں گردن جھکائے اپنے محلے کی گلیوں سے ھوتا ھوا اس دیوار کو ایک بار پھر پیار سے دیکھتا ھوا اور الٹے ھاتھ میں ٹوکری اور سیدھے ھاتھ سے اس پکی اینٹ کی مضبوظ ملٹری کی دیوار کو چھوتا ھوا گزررھا تھا، جبکہ مجھے محسوس ھی نہیں ھوا کہ اس سیدھے ھاتھ کی ھتیلی میں اس دیوار کی رگڑ سے چھل جانے کیوجہ سے ھلکا ھلکا خون بھی رس رھا تھا، جب کافی آگے نکل گیا تو ھاتھوں میں کچھ گیلا گیلا سا لگا میں تو پہلے یہ سمجھا کہ شاید پسینہ ھوگا جیب سے رومال نکالا اور بغیر دیکھے ھی پسینہ سمجھ کر پونچھنے لگا تو کچھ درد سا محسوس ھوا،

ایک جاننے والے کی دکان سے جہاں برف بھی بکتی تھی کچھ برف کے ٹکڑے لئے اور ھتیلی میں برف کے ٹکڑے رکھ کر کچھ دیر ان کو مسلا ، جس سے مجھے کافی آرام ملا تھا، ھلکی سی خراش تھی راسنے میں ھی ٹھیک ھوگئی، لیکن پھر بھی ٹوکری کو سیدھے ھاتھ سے پھر بھی پکڑنے میں تکلیف ھوتی تھی -

اور پھر ایک انجان منزل کی طرف خود بخود میرے قدم بڑھتے جارھے تھے، ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا جارھا تھا کہ کہاں جانا چاھئے، مگر مجھے میرے قدم کینٹ ریلوے اسٹیشن پر لے گئے، جو ھمارے محلے سے کچھ قریب ھی تھا، اور اکثر میں وھاں سے ھی شہر کیلئے بس پکڑتا تھا، جبکے اس سے نزدیک بھی ایک اور بس اسٹاپ تھا لیکن بس مجھے کچھ بچپں سے ھی ٹرینوں کو آتے جاتے دیکھنے کا شوق رھا تھا، اسلئے ٹرینوں کو آتے جاتے دیکھتا ھوا اسٹیشن پہنچ کر ھی وھاں کے بس اسٹاپ سے بس پکڑتا تھا اور محلے کے لوگوں کی نظروں سے بھی دور رھتا تھا کیونکہ وہاں بس کیلئے شاید کوئی آتا ھوگا اور یقینی بات ھے کہ نزدیک والے بس اسٹاپ کو چھوڑ کر کسی کا کیا دماغ خراب ھے کہ وہ دور کے بس اسٹاپ پر جائے،

اب ریلوے اسٹیشن تو پہنچ گیا اور سیدھا رزرویشن کاونٹر پر جاکر آج کے شام کی تیزگام کا ٹکٹ لاھور کیلئے پوچھا، شاید اس نے کہا کہ 26 روپے اور کچھ آنے دو میں نے جیب مین دیکھا تو اسوقت میرے پاس دس یا بارہ روپے تھے، میں نے اس سے کہا کہ میں ابھی واپس آتا ھوں، اور سیدھا نزدیک کے بنک میں گیا اور 100 روپے کے بانڈز کیش کروائے، واپسی سے پہلے وھیں اسٹیشن کے نزدیک ھی سارے کپڑے جو ٹوکری میں تھے، ایک دھوبی کی دکان میں استری کیلئے دئیے، اور بازار گیا وہاں سے ایک خوبصورت سا چھوٹا سوٹ کیس اور کچھ مزید ضرورت کے استعمال کی چیزیں خریدیں اور ریلوے اسٹیشن کی رزرویشن کاونٹر سے لاھور کیلئے تیزگام کے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ لے لیا، ان دنوں تیزگام میں سیکنڈ اور تھرڈ کلاس نہیں ھوتا تھا، اور یہ میری پسندیدہ ٹرین بھی تھی !!!!!!! اور یہ سوچئے کہ اس وقت تمام چیزیں، ٹکٹ کے ساتھ خرید کر بھی تقریباً 50 روپے کے لگ بھگ جیب میں بچے ھوئے تھے!!!!

یہ سب کچھ پلاننگ کے بغیر ھی وقت کے ساتھ ساتھ فیصلے ھوتے جارھے تھے، اب کچھ پتہ نہیں تھا کہ لاھور کا ٹکٹ تو لے لیا ھے، لیکن جانا کہاں ھے یہ سوچا ھی نہیں !!!! بس اچانک خیال آیا کہ ایک میرا قلمی دوست لاھور میں رھتا تھا اور اس سے اکثر بس خط وکتابت تک کی جان پہچاں تھی، اس کے گھر کا ایڈریس بھی مجھے زبانی یاد تھا، فوراً یہ یاد آتے ھی میں ریلوے اسٹیشن کے ٹیلیگراف آفس پہنچا اور اس دوست کو ایک ٹیلگرام دیا کہ میں کل تیزگام سے لاھور پہنچ رھا ھوں،
ٹیلیگرام تو دے دیا لیکن سوچنے لگا کہ میں اسے اور وہ مجھے کیسے پہچانے گا صرف ھم دونوں کے پاس ایک دوسرے کی تصویریں ضرور تھیں، اور اسوقت تو میرے پاس وہ بھی نہیں تھی، چلو دیکھا جائے گا، یہ سوچ کر چپ ھوگیا،

خیر سوٹ کیس میں دھوبی کی ھی دکان پر استری شدہ کپڑے ڈالے اور دوسری چیزیں بھی ساتھ ھی ڈال دیں اور ابھی تو تیزگام کے جانے میں کافی وقت تھا کیونکہ شام کے 4 بجے ھی کینٹ اسٹیشن سے اسے روانہ ھونا تھا، ابھی تو دوپہر کا ایک بھی نہیں بجا تھا، بس سوچا کہ کسی ریسٹورنٹ میں جاکر کھانا کھاتے ھیں، کھانا تو منگا لیا لیکن حلق سے پہلا ھی نوالہ نہیں ‌اتر رھا تھا، میں پریشان ھوگیا کہ یہ کیا ھوا، بڑی مشکل سے چائے کی ایک پیالی دو تیں بسکٹ کے ساتھ کھائے، کھانا بالکل نہیں کھا سکا، اور واپس اسٹیشن کے فرسٹ کلاس کے ویٹنگ روم میں جاکر ایک صوفہ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ساتھ ھی سوٹ کیس بھی ایک طرف رکھ لیا، ویسے بھی میں گھر سے تیار ھوکر ھی اچھے ھی کپڑے پہن کر نکلا تھا، اور واقعی ایک مسافر ھی لگ رھا تھا !!!!!!!!

بڑی مشکل سے وقت گزررھا تھا، ایک قلی نے بتایا تھا کہ اسی ویٹنگ روم کے سامنے والے ھی پلیٹ فارم پر تیزگام دو گھنٹے پہلے ھی لگ جائے گی اور ابھی ڈھائی بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے، کسی کا بھی انتظار بہت مشکل ھوتا ھے، !!!!!
بہرحال وہ وقت بھی آگیا کہ تیزگام الٹی پلیٹ فارم کی طرف اپنی شان و شوکت کے ساتھ آھستہ آہستہ لگتی جارھی تھی، اور میں بھی اٹھا اور فرسٹ کلاس کے اپنے ڈبے میں جاکر بالکل کھڑکی کے پاس ھی قدرتی سیٹ ملی تھی، جاکر بیٹھ گیا !!!!!!!!!

آخر کو وہ وقت آھی گیا، سگنل ڈاؤن ھوگیا اور تیزگام کے انجن نے اپنی روانگی کی مخصوص سیٹ دی، ادھر گارڈ نے بھی ھر جھنڈی لہرانا شروع کردیا اور ساتھ ھی اپنی سیٹی بھی سنا دی، پھر بھی کچھ لوگ اتر رھے تھے کچھ جلدی جلدی چڑھ رھے تھے قلی بھی ساتھ شور مچا رھے تھے، کچھ لوگ پلیٹ فارم پر سے مسافروں کو ھاتھ ھلا ھلا کر الوداع کہہ رھے تھے اور میں اکیلا ھی کھڑکی سے یہ سب منظر دیکھ رھا تھا مجھے الوداع کہنے والا کوئی نہیں تھا اور تیزگام آھستہ آھستہ اپنے پلیٹ فارم کو چھوڑ رھی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-57- گھر سے فرار کے بعد کی حالت زار،!!!!!

آخر کو وہ وقت آھی گیا، سگنل ڈاؤن ھوگیا اور تیزگام کے انجن نے اپنی روانگی کی مخصوص سیٹ دی، ادھر گارڈ نے بھی ھر جھنڈی لہرانا شروع کردیا اور ساتھ ھی اپنی سیٹی بھی سنا دی، پھر بھی کچھ لوگ اتر رھے تھے کچھ جلدی جلدی چڑھ رھے تھے قلی بھی ساتھ شور مچا رھے تھے، کچھ لوگ پلیٹ فارم پر سے مسافروں کو ھاتھ ھلا ھلا کر الوداع کہہ رھے تھے اور میں اکیلا ھی کھڑکی سے یہ سب منظر دیکھ رھا تھا مجھے الوداع کہنے والا کوئی نہیں تھا اور تیزگام آھستہ آھستہ اپنے پلیٹ فارم کو چھوڑ رھی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!

جیسے ھی اسٹیشن سے تیزگام نکلی، میں اپنی سیٹ کے پاس والی کھڑکی سے اپنے شہر کو پیچھے جاتے ھوئے دیکھ رھا تھا، ابھی اسپیڈ کچھ کم ھی تھی، تو سامنے سے ایک دم میرا علاقہ بھی نظر آگیا اور وہ جگہ بھی جہاں سے میں بیٹھ کر ٹرینوں کو آتے جاتا دیکھتا تھا، آج میرا دوست ننھا مجھے ڈھونڈ رھا ھوگا، اور نہ جانے گھر والے کیا سوچ رھے ھونگے اور اگر رات گئے تک میں گھر نہیں پہنچا تو ایک کہرام مچ جائے گا، یہ سوچتے ھی میری آنکھوں میں آنسو جاری ھو گئے، کہ اچانک سامنے ایک صاحب نے پوچھا کہ!!!! کیا بات ھے بیٹا !!! کیوں پریشاں ھو، اپنوں سے بچھڑ کر تو دکھ ھی ھوتا ھے، کہاں جارھے ھو !!! میں نے جواب دیا کہ!!!! ایک دوست سے لاھور ملنے جارھا ھوں!!!!! تو اس میں پریشانی کیا ھے، رو کیوں رھے ھو ، انہوں نے مجھے پیار سے پوچھا!!!! میں نے بس یہی کھا کہ گھر والوں سے بچھڑ کر دکھ ھو رھا ھےا !!!!!

اور اسی ظرح ان سے باتیں کرتے ھوئے مجھے کچھ سکون ملا ان کی باتوں سے پتہ چلا کہ وہ بھی لاھور ھی جارھے ھیں اور لاھور میں ھی رھتے ھیں اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مشکل آئے تو اس پتہ پر مجھ سے رابظہ کرلینا، ٹرین بھی اب فل اسپیڈ سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور رات بھی ھورھی تھی، کوٹری جنکش کا اسٹیشن آیا تو کچھ کھانے کیلئے میں نے ٹرین کے بیرے سے منگوایا، لیکن نہ جانے میرا بالکل ھی دل نہیں چاہ رھا تھا، کچھ بھی نہ کھا سکا حالانکہ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، سامنے سیٹ پر بیٹھے ھوئے صاحب نے کچھ کینو وغیرہ دیئے، تو وہ میں نے بڑی مشکل سے کھائے اور پھر سب نے اپنی اپنی برتھیں کھولیں اور سونے کی تیاری کرنے لگے،

میری برتھ نیچے ھی تھی، چادر پاس نہیں تھی نہ کوئی تکیہ تھا ویسے ھی میں لیٹ گیا، سوٹ کیس سیٹ کے نیچے ھی رکھا ھوا تھا، موسم بھی اچھا ھی تھا، سونے کی بہت کوشش کی مگر نیند نہیں آئی، بار بار گھر کا خیال آرھا تھا کہ وہاں کیا ھورہا ھوگا اور آنکھوں سے ایک آنسووں کا دریا بہہ رھا تھا، واپس جانے کے خیال سے ھی دل کانپ جاتا، کیونکہ والد صاحب کا ڈر اور ان کے وہ ڈائیلاگ ذہن میں گونج رھے تھے، اسی رات کے سفر میں ھی اور ٹرین کی کھٹ کھٹا کھٹ میں تقریباً سارا سفر ختم ھونے کو تھا، صبح صبح کی روشنی میں پنجاب کی سہانی صبح دیکھ رھا تھا وھی لہلہاتے کھیت اور باغات اسی اسپیڈ سے میرے سامنے سے گزر رھے تھے!!!!!!!

صبح کے تقریباً 8 بجے کے قریب ٹرین نے اپنی رفتار کچھ دھیمی کی، تو یہ اندازہ ھوا کہ لاھور آنے والا ھے، سب لوگ اپنا اپنا ساماں سمیٹنے لگے، میرے پاس تو سمیٹنے کے لئے ایک چھوٹے سے ھی سوٹ کیس کے علاؤہ کچھ بھی بھی نہیں تھا، جیسے ھی اسٹیشن کے اندر ٹرین داخل ھوئی ایک الگ ھی گونجتا ھوا شور سنائی دیا لاھور کا ایک واحد اسٹیشن ھے جو چاروں ظرف ھی بند اور گھرا ھوا ھے اور شاید پاکستاں کا بہت بڑا اسٹیشن ھے، اگر یہاں کوئی گم ھوجائے تو ملنا بہت مشکل ھے، بہرحال اسٹیشن پر گاڑی تو رک گئی، لیکن میں ابھی کھڑکی میں ھی بیٹھا رھا، تاکہ کچھ رش کچھ کم ھوجائے اور میں کھڑکی سے ھی اپنے دوست کو پہچاننے کی کوشش کرتا رھا، اتنے رش میں کسی کو تلاش کرنا اور وہ بھی بغیر دیکھے ھوئے، صرف ایک تصویر کا ایک دھندلا سا دماغ میں خاکے سے کیسے اتنے رش میں پہچانا جاسکتا ھے، اور ویسے بھی میری حالت غیر ھوچکی تھی !!!!!

تھوڑی دیر بعد میں ٹرین کی بوگی سے اترنے کیلئے گیٹ پر کھڑا ھی تھا کہ ایک لڑکے کو جو تقریباً میرا ھی ھم عمر ھوگا، ایک ھاتھ میں تصویر لئے ھوئے کسی کو ڈھونڈرھا تھا، اس کی نظر اچانک مجھ پر پڑی اور وہ مجھے پہچان گیا لیکن میں اسے پہچاں نہیں سکا تھا، اس نے بڑی گرم جوشی سےمجھے گلے لگایا اور مجھ سے میرا سوٹ لیا اور مجھ سے باتیں کرتے ھوئے حال احوال پوچھتے ھوئے باھر نکلے، وہاں سے ٹانگے میں بیٹھ کر اس دوست کے گھر پہنچے، گھر کیا ایک بہت شاندار حویلی لگتی تھی،

سب گھر والوں نے بہت اچھی ظرح سے استقبال کیا، ناشتے کا بہترین بندوبست کیا ھوا تھا، میں ھاتھ منہ دھو کر کچھ تازہ دم ھوا اور پھر ناشتہ کی میز پر کافی سارا مختلف قسم کے پکوان کے ساتھ سجی ھوی تھی اور انکی یہ ایک بہت ھی خوبصورت حویلی لگتی تھی اور ناشنے کی ٹیبل پر تقریباً تمام گھر والے موجود تھے، سب کا باری باری تعارف کرایا گیا لیکن میری ظبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رھی تھی، بس ایک جوس کا ھی گلاس بہت مشکل سے پی سکا، اور سب سے معذرت کی، میرا دماغ معاوف ھو رھا تھا اور گھر کی بہت شدت سے یاد آرھی تھی !!!!!!

کھانے کا بالکل دل نہیں چاہ رھا تھا اور جو کچھ بھی پیتا تھا وہ باھر آجاتا تھا، چکر بھی آرھے تھے، لیکن اس دوست نے ایک ڈاکٹر سے دوائی بھی دلائی لیکن کچھ افاقہ نہیں ھوا، کچھ دیر آرام کیا لیکن بار بار آنکھ کھل جاتی اور بہت زیادہ پریشان تھا، شام کو وہ مجھے راوی کے کنارے لے گیا اور ایک کشتی کرائے پر لے کر مجھے سیر کراتا رھا اور اسی دوران اس نے گانے بھی سنائے اور اس سے یہی پتہ چلا کہ اس کے سارے چچا او تایا کا موسیقی سے ھی تعلق ھے، مجھے اس کے دو تیں گانے اب تک یاد ھیں مجھے بہت اچھے لگے تھے، اور اسکی آواز بھی بہت اچھی تھی،
ھم تم سے جدا ھوکر، مرجائیں گے رو رو کر
اس کے علاوہ ایک اور گانا:
کھلونا جان کر تم تو، میرا دل توڑے جاتے ھو

میری طبعیت پھر بھی کسی طرح بھی بہل نہیں پا رھی تھی پھر شاید ڈاکٹر کے پاس گئے یا انہوں نے گھر کی ھی کوئی دیسی دوائی کھلائی مگر کوئی فائدہ نہ ھوا، وہ لوگ بھی پریشان ھوگئے تھے حالانکہ ان سب نے اس رات ایک موسیقی کا پروگرام بھی مرتب کیا ھوا تھا اور مجھے خاص طور سے وہاں لے گئے رات کے کھانے کے بعد مگر میں نے صرف سوپ کی ایک پیالی ھی پی تھی،

آخر کو مجھ سے رہا نہیں گیا ، میں نے اپنے دوست سے کہا کے مجھے واپس اسٹیشن لے چلو مجھے صبح راولپنڈی پہنچنا ھے وھاں پر میرے ایک رشتہ دار رھتے ھیں، ان کے ساتھ میں مری جاونگا کیونکہ میں کچھ بیمار ھوں اور ڈاکٹر نے مشورہ دیا ھوا ھے کہ کچھ دن پرفضا مقام پر گزاروں تو بالکل ٹھیک ھوجاونگا، میرے کافی اصرار پر وہ مجھے اسٹیشن لے گئے اور وہاں پر ایک پسنجر ٹرین راولپنڈی جارھی تھی، مجھے انہوں نے ٹرین میں بٹھا دیا اور ٹرین کے چلتے ھی وہ مجھ سے یہ کہتے ھوئے رخصت ھوگئے کہ میں انہیں راولپنڈی پہنچ کر خط لکھونگا یا ٹیلیفون کروں، انہوں نے مجھے اپنے گھر کا نمبر بھی دیا تھا،

اب وہاں سے اس پسنجر ٹرین میں ایک خالی برتھ پر لیٹ گیا اور کچھ دیر کیلئے نیند بھی آگئی، پھر دوسرے دں بھی ٹرین ‌چلتی رھی کافی دیر بعد راولپنڈی پہنچی، وھاں سے ایک ٹانگے والے کو کہا کہ کسی سستے سے ھوٹل میں لے چل، وہ مجھے ایک چھوٹے سے علاقے جس کا نام بکرامنڈی تھا اور تیس روپے کرایہ لے لیا، جو کہ اس وقت کے لحاظ سے بہت زیادہ تھے اور ایک ھوٹل کے مالک سے ملوایا کہ یہ ایک شہری بابو ھے کراچی سے آیا ھے اس کو کوئی سستا اور اچھا کمرا دے دو، وہ یہ کہ کر چلا گیا، اس ھوٹل کے مالک نے دو چار سوال کئے اور میں نے بھی انہیں یہی کہا کہ موسم کی تبدیلی کے لئے آیا ھوں، اور اس نے مجھے ایک چھوٹا سا صاف ستھرا کمرا دے دیا اس وقت اس نے مجھے 5 روپے روزانہ پر 50 روپے ایڈوانس لے کر مجھے کمرے کی چابی دے دی،

وہاں بھی میری حالت غیر ھی تھی، تین دن ھوچکے تھے کچھ بھی کھایا نہیں جارھا تھا فوراً ھی کچھ خیال آیا فوراً ایک خط اپنے گھر پر ابا جی اور اماں کو لکھا اور معافی مانگی اور لکھا کے اب میں گھر اسی وقت آونگا جب تک میں کسی قابل نہ ھوجاؤں مجھے بہت شرمندگی ھے وغیرہ وغیرہ، اور خط پوسٹ کرکے واپس ھوٹل آیا تو کچھ پہلے سے طبعیت بہتر محسوس ھوئی، کچھ تھوڑا سا کھانا بھی کھا سکا اور دوسرے دں سے نوکری ڈھونڈنے کے چکر میں نکل پڑا، تین دن بعد گھر سے دو خط آئے ایک ھوٹل کے منیجر کے نام اور ایک میرے نام اور اتفاق سے دونوں خط اس ھوٹل کے مالک نے مجھے ھی پکڑا دیئے!!!!

شکر ھے کہ دونون خط میرے ھی ھاتھ لگے ورنہ بڑا مسئلہ ھوجاتا، کیونکہ منیجر کے خط میں یہ لکھا تھا کہ یہ میرا بیٹا گھر سے ناراض ھوکر آپ کے پاس ھوٹل میں ٹھرا ھوا ھے، اسے کسی طرح بھی پیار سے واپسی کراچی کی ٹرین میں بٹھا دو اس کی ماں سخت بیمار ھے وغیرہ وغیرہ!!!!

اور میرے خط میں لکھا کہ بیٹا جو کچھ بھی ھو بھول جاؤ، مین قسم کھاتا ھوں کہ آئندہ تمھیں کچھ بھی نہیں کہونگا اور جہاں تم چاھتے ھو تمھاری پسند سے ھی تمھاری شادی ھوگی مگر شرط یہ ھے کہ تعلیم کو مکمل کرلو اور اچھی جگہ سروس ھونے کے بعد جو مرضی آئے کرنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا، لیکن فی الحال گھر فوراً پہنچو تمھاری اماں کی طبعیت بہت خراب ھے، میں نے بھی جواباً بہت اچھا خط اماں اور اباجی کو لکھا کہ میری فکر نہ کریں میں بہت جلد لوٹ رھا ھوں !!!!!!

اس دن سے پانچوں وقت کی نماز شروع کردی اور وھاں کے اچھے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر درس اور تدریس میں حصہ لینے لگا، اور ایک دن وھاں کے موذن مجھے اپنے ایک روھانی پیشوا بزرگ کے پاس “گجر خان“ کے ایک گاؤں جس کا نام “بانٹھ “ مین لے گئے، ان کے پاس جیسے ھی پہنچا تو انہوں نے سب سے کہا کہ دیکھو آج ھمارے پاس بہت دور سے ایک سٌید زادہ آیا ھے فوراً سارے کھڑے ھوگئے اور بڑے ادب سے ملے اور سب مجھے شاہ جی کہہ کر مخاطب کرنے لگے، ان بزرگ نے مجھے تیں تسبیح 11 مرتبہ ھر فرض نماز کے بعد پڑھنے کو کہا اور پانچوں وقت کی نماز کےلئے تلقیں کی اور وہ واقعی مجھے کوئی بہت پہنچے ھوئے لگ رھے تھے، لمبی سفید داڑھی اور ان کی عمر اس وقت 100 سال سے اوُپر ھی ھوگی، مجھے ان سے ملکر بہت سکون بھی ملا اور اس دن کے بعد کھانا کھانے میں بہتری بھی آئے اور بھوک بھی لگنے لگی تھی،

اب تو گھر سے خط و کتابت شروع ھوگئی تھی والدہ کی طبعیت اب بہتر تھی لیکن وہ بضد تھیں کہ میں جلد گھر آجاؤں، لیکن میں تو کسی اور اُونچے خوابوں کے چکر میں تھا، مگر افسوس اس بات کی تھی کہ میں نے باجی اور زادیہ کو کوئی خط بھی نہیں لکھا اور نہ ھی کوئی خیریت معلوم کی !!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-58- گھر سے فرار اور اس کا مداوا، پھر واپسی کی تیاری،!!!!!

اب تو گھر سے خط و کتابت شروع ھوگئی تھی والدہ کی طبعیت اب بہتر تھی لیکن وہ بضد تھیں کہ میں جلد گھر آجاؤں، لیکن میں تو کسی اور اُونچے خوابوں کے چکر میں تھا، مگر افسوس اس بات کی تھی کہ میں نے باجی اور زادیہ کو کوئی خط بھی نہیں لکھا اور نہ ھی کوئی خیریت معلوم کی !!!!!!!!!!!!!

میں نے اپنی زندگی کے یہ دن بہت ھی پریشانی اور تکلیف میں نکالے تھے، شاید یہ میری اللٌہ کی طرف سے سزا ملی تھی، جوکہ میں نے بعد مین اس کا اعتراف بھی کیا اور اس کا ازالہ بھی کرنے کی کوشش کی، کیونکہ جو میری شروع میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد حالت ھوئی تھی، اللٌہ کسی دشمن کو بھی ایسی تکلیف اور سزا نہ دے -

میرے لاھور سے راولپنڈی جانے سے پہلے ھی کراچی سے والد صاحب لاھور کے لئے روانہ ھوچکے تھے، حیرت کی بات ھے کہ انہیں نہ جانے اس بات کا کیسے پتہ چلا کہ میں لاھور چلا گیا ھوں، خیر صبح صبح وہ لاھور پہنچ گئے تھے اور بڑی مشکل سے وہ میرے دوست کے گھر پہنچ سکے اور وہ وہاں پر کافی میرے لئے یہ سن کر پریشان ھوئے کہ میں رات کو ھی راولپنڈی کیلئے نکل چکا ھوں، یہ سب مجھے میرے دوست کی زبانی بعد میں پتہ چلا جب وہ مجھ سے ملنے کراچی آیا ھوا تھا، انہوں نے سب کہانی انکو سنائی اور والدہ کا بھی ذکر کیا کہ وہ جب سے نہ کچھ کھا پی رھی ھیں اور لگاتار میرے لئے روتی جارھی ھیں،

میرے گھر سے نکلتے ھی تمام محلے والوں نے اور ھمارے والدین نے سارا الزام ان دونوں بہنوں اور انکے والدیں پر لگا دیا تھا کہ ان سب نے ملکر مجھے ورغلایا اور گھر سے بھاگنے پر مجبور کیا، اور روز بروز انکو دھمکیاں اور گالیاں اور نہ جانے کیا کیا ان پر ستم نہ ڈھائے، ان سب کی زندگی اجیرن کردی تھی، یہ بھی تمام تفصیل مجھے گھر واپسی پر ھی معلوم ھوئی، مگر انہوں نے خاموشی ھی اختیار کی اور یہی کہا کہ جب میں واپس آجاؤنگا تو ھی سچ کا پردہ اٹھ جائے گا اور جس ظرح وہ آپ کا لخت جگر ھے، اُس سے زیادہ ھمیں بھی پیارا ھے اور واقعی ان لوگوں نے وہ دن بھی بہت تکلیف اور مصیبتوں میں گزارے اور مجھے معلوم تھا کہ دونوں فیملیز میرے جانے کے بعد بہت ھی زیادہ تکلیفیں اٹھائیں گی، کیونکہ اب وہ محلہ ویسا نہیں تھا اور وہاں کے لوگ بھی ویسے ھی حاسد اور ایک دوسرے کو لڑانے میں خوش ھوتے تھے،

میں یہاں راولپنڈی میں دونوں خاندانوں کے لئے صدقِ دل سے دعائیں کررھا تھا اور اپنے گناھوں کی بھی ساتھ ساتھ رو رو کر معافی مانگ رھا تھا، آپ یقیں نہیں کریں گے کہ وھاں کے مقامی لوگ بھی جب مجھے روتے ھوئے دعائیں کرتے دیکھتے تو مجھے گلے سے لگاتے اور یہی کہتے کہ اللٌہ تعالیٰ تمھیں ھر پریشانی سے بچائے، ھر بیماری سے محفوظ رکھے اور شفا دے، وہ یہی سمجھتے تھے کہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے ھی موسم کی تبدیلی کیلئے یہں آیا ھوا ھوں، کسی کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ میں گھر سے بھاگ کر آیا ھوں، اور انہوں نے مجھ پر رحم کھا کر مجھے مسجد کے ساتھ ھی ایک کمرے میں ھی موذن صاحب کے ساتھ رھنے کی اجازت بھی دے دی، تاکہ میرے ھوٹل کا خرچہ بھی بچ جائے، اور کھانا بھی اڑوس پڑوس سے آجاتا تھا،

اور موذن صاحب بہت اچھے قاری بھی تھے، اور انکی تلاوت کرنے کا انداز بہت پیارا تھا، وہ میرے اچھے دوست بن گئے تھے اور تقریباً میرے ھی ھم عمر تھے، ھم دونوں اکثر ساتھ ھی رھتے تھے ان کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا، ان سے میں نے یہ بھی وعدہ کرلیا تھا کہ میں ان کو کراچی لے جاؤنگا اور وھاں پر اپنے محلے کی ھی مسجد میں رکھوا دونگا، وہ بھی مجھ سے بہت خوش تھے، انھوں نے میرا بہت خیال رکھا، وہ میرے ساتھ اس وقت تو نہ جاسکے، لیکن میں نے انکے شوق کے مطابق انہی کی پسند سے قران شریف، ترجمے اور تفسیر کے ساتھ اور احادیث کی کتابیں خرید کردیں،

میں بھی مسجد میں بغیر کسی کرائے کے رھتا تو تھا لیکں مسجد میں موذن صاحب کے ساتھ ملکر سارے مسجد کی صفائی اور ستھرائی کا خیال رکھتا تھا اور تمام چیزوں اور جائے تماز کی تمام صفحوں کا اور قران شریف کے غلافوں کو دھونا اور قرینے سے رکھنا غرض کہ جتنا بھی مجھ سے ھوسکتا تھا میں موذن صاحب کےساتھ ملکر مسجد کی خدمت کرتا تھا، کہ شاید اللٌہ تعالیٰ میری اسی بہانے سن لے، مجھے بخش دے اور میری تمام تکلیفوں اور مصیبتوں سے جان چھڑا دے !!!!!!!!

اب تو گھر سے خط و کتابت چل پڑی تھی، ادھر اب والدہ کو بھی کچھ سکون تھا اور ان کی طرف سے بھی اب خط آنے لگے اور ھر خط میں یہی ایک بات تھی کہ جلدی سے واپس آجاؤ، میں جواباً انہیں خوب تسلی دیتا کہ سروس کی تلاش میں ھوں، اور جب تک آپ کے پیسے آپ کو واپس لوٹا نہیں دونگا واپس نہیں آؤنگا، میرے لئے شرمندگی کی بات ھے کہ خالی ھاتھ جاؤں، وہ بھی پلٹ کر یہی بار بار لکھتیں کہ ھمیں کوئی پائی پیسہ نہیں چاھئے، تم واپس اجاؤ!!!!!

اور میں میٹرک پاس، نوکری کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رھا، مگر ھر جگہ ناکامی ھوئی، آخر کو میں نے سوچا کہ چلو اپنے شوق کو ھی کیوں نہ آزمائیں، ایک دن ٹیلیویژن اسٹیشن پہنچ گیا، جو ان دنوں بالکل نیا نیا وجود میں آیا تھا، اور چکلالہ کے ایک ملٹری کے چھوٹی سی بیرک میں چل رھا تھا، وھاں پہنچتے ھی میں سیدھا پروگرام منیجر کے کمرے میں اجازت لے کر پہنچ گیا، اس وقت شاید پورے پاکستان میں وہیں سے بلیک اینڈ واہیٹ کلر میں ایک ھی چینل اپنے پروگرام براہ راست نشر کرتا تھا، صرف مختصر وقت کیلئے شاید آزمائیشی اور تعارفاتی پروگرام شروع کئے گئے تھے۔

میرا انہوں نے آڈیشن لیا اور ایک چھوٹی سی اسٹوری کو منظرنامے کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری کے انداز میں لکھنے کو کہا اور کچھ سادے پیپر اور قلم ھاتھ میں تھما کر یہ کہتے ھوئے باھر نکل گئے، کہ میں ابھی آتا ھوں، جب تک آپ اس کہانی پر کام کیجئے، جسے کبھی بچپن میں نے ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام میں بھی ایک ڈرامہ نگار صاحب کی اسی طرح لکھنے میں مدد کی تھی، اسی انداز میں ھی ایک جلدی سے اس کہانی کے کرداروں کو ڈائیلاگ کے ساتھ اور ساتھ ھی منظرنامہ کو بھی اس میں پیش کرتا چلاگیا اس کہانی کا کچھ حصہ پیش کرنا چاھونگا جوکہ مجھے کچھ تھوڑا تھوڑا سا یاد ھے،

ایک فیملی کی کہانی جو جنگل مینں پکنک منانے آئی اور کسی مصیبت کا شکار ھوگئی!!!!!!

جنگل میں ایک گھپ اندھیرا اور ایک ھاتھ دوسرے ھاتھ کو سجھائی نہیں دے رھا تھا، ھم ایک دوسرے کا ھاتھ پکڑے ایک نامعلوم منزل کی طرف چلتے جارھے تھے ، ساتھ ھی ایک ندی کے پانی کے شور کی آواز اور کبھی مینڈکوں کی اچانک ٹرٹرانے کی آوز سے ایک دم دل کی دھڑکن ایک خوف کی وجہ سے اچھلنے لگتا، کبھی کسی جھاڑی یا درخت سے کسی بندر کی چھلانگ ایک اور ھوا میں ایک عجیب سی ھنگامی سرسراھٹ، ڈراونے سرتال کا رنگ پیش کردیتی اور کبھی نہ جانے کئی مختلف جانوروں کی آوازیں بھی قدم قدم پر دماغ میں ایک ھیبت کا منظر پیش کرھی تھیں، چونکہ اندھیرا ھونے کی وجہ سے ھم آوازوں کا یہ ایک ڈراونی تاثر صرف محسوس ھی کر سکتے تھے، اگر دیکھ سکتے تو اتنا گھبرانے کی نوبت ھی نہیں آتی، کبھی کبھی تو ایک دوسرے کا ھاتھ اگر اتفاقاً بھی ایک دوسرے سے چھو جانے سے بھی ایک دوسرے کی چیخ نکل جاتی تھی!!!!!!!!

جاوید (کانپتی آواز میں !!!)
بھیا میرا ھاتھ پکڑلو، مجھے لگتا ھے کہ کوئی سامنے سے مجھے گھور رھا ھے،،،،،،،،،،
میں نے فورآً ھی دل میں ڈرتے ھوئے ھی جواب دیا ‌!!!!!!
ارے یار تمھارا دماغ خراب ھوگیا ھے، میں ھی تو تمھارے سامنے کھڑا ھوا ھوں،،،،،،،،،،،


اتنا ھی لکھا تھا کہ وہ پروگرام منیجر آگئے، میرے ھاتھ سے وہ پرچہ لےلیا اور لگے پڑھنے اور ساتھ ساتھ مجھے گھورتے بھی جارھے تھے، انہون نے پوچھا کہ کیا کرتے ھو!!!! میں نے کہا کہ!!!! ابھی انٹرکامرس میں پڑھ رھا ھوں، !!!! انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا ابھی اپنی تعلیم مکمل کرلو اور ابھی کچھ تھوڑی محنت اور پریکٹس کی ضرورت ھے، تم اپنا ایڈریس وغیرہ نوٹ کرادو، ھم آپ سے ضرور رابطہ کریں گے، اور ابھی ایسا کرو کہ ایک پروگرام آن ایئر جانے والا ھے اس میں اگر شرکت کرسکو تو بہتر ھے اسمیں آپکی آواز کا ٹیسٹ اور کارکردگی کا بھی پتہ چل جائے گا فوراً مجھے ایک فارم دیا اور اس پر میں نے دستخط کردئے
اس پروگرام کا نام “زینہ بہ زینہ“ تھا اور پہلی مرتبہ ھی تیلی کاسٹ ھونے جارھا تھا اور شاید ڈائریکٹ نشر ھونے والا تھا،

جیسے ھی میں نے فارم بھرا اور دستخط کئے، اس کے بعد مجھے میک اپ روم میں لے جایا گیا جہاں کئی اور آرٹسٹ کا میک اپ ھورھا تھا، فورا میرے پہنچتے ھی ان منیجر صاحب نے میک اپ مین سے کچھ کہا اور اس نے مجھے اشارا کیا اور کرسی پر بیٹھنے کوکہا، وہ سمجھا کہ شاید میں کوئی خاص کردار کرنے باھر سے آیا ھوں اور یہ منیجر صاحب شاید میرے رشتہ دار ھیں، مجھ سے پوچھا کہ یہ آپکے کون ھیں، میں نے اسے جواب دیا کہ نہین!!!!!
میں نے ذرا اپنا ایک رعب ڈالتے ھوئے کہا کہ مجھے کراچی سے ایک یہاں پروگرام کرنے کےلئے بلایا گیا ھے، آپ وھاں کیا کرتے ھیں میں نے کہ میں وہاں کے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر زیڈ یے بخاری کا رشتہ دار ھوں،
وہ تو بس کچھ زیادہ ھی مہربان ھوگیا اور کہنے لگا کہ آپ کا میک اپ میں اسپیشل کررھا ھوں !!! میں نے شکریہ کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہیں ایسا نہ ھو کہ باتوں باتوں میں پول ھی نہ کھل جائےََََ !!!!!
وہ بہت بولتا تھا، میک اپ سے فارغ ھو کر مجھے سیٹ پر لایا گیا جہاں پہلی مرتبہ حبیب بنک کی طرف سے پروگرام “زینہ بہ زینہ“ ایک معلوماتی کھیل ٹائپ کا پروگرام رکارڈ ھونے والاتھا یا ڈائریکٹ ھی نشر ھونے والا تھا، سامنے ٹی وی بھی تھا دو دو کیمرے لگے ھوئے تھے،
میں مہمانوں کی ساتھ بیٹھا تھا سامنے دو کمپئرئر تھے میرے ساتھ چار یا پانچ لوگ جو وہاں کے ھی آرٹسٹ تھے، پروگرام کے قوائد ضوابظ پہلے ھی بتا دیئے گئے تھے،

مجھے پہلی مرتبہ اتنی زیادہ خوشی ھو رھی تھی کہ جیسے میں کوئی بہت بہت بڑا پرانا آرٹسٹ ھوں اور کیمرا میرے سامنے اور مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ اور قدرتی میں بھی سوالات کا صحیح صحیح جواب دے رھا تھا اور پہلا سیشن میں جیت چکا تھا اور تالیوں سے مجھے دوسرے درجہ میں لے جایا گیا لیکن وہاں سے اگلی سیڑھی میں جانتے جاتے رہ گیا، !!!!!!!!!!!!!

پروگرام کے ختم ھوتے ھی میں ان صاحب کے پاس گیا تو انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے چند دنوں میں اگر ضرورت پڑی تو ضرور بلوالیں گے، میں نے اسی ھوٹل کا پتہ دے دیا لیکن جواب تونہیں آیا لیکن گھر سے خطوط کا سلسلہ کچھ زیادہ چل پڑا اور بار بار میری واپسی کا مطالبہ ھی ھوتا رھا، اب میرا دل بھی بہت گھبرانے لگا تھا، کوئی نوکری کا سبب بھی نہیں بن سکا تھا، نوکری کی تلاش مین میں نے پنڈی سے لیکر پشاور تک کا سفر بھی کیا اور چھوٹے بڑے شہروں کا بھی رخ کیا لیکن مجھے ھر جگہ اپنی ماں کی یاد نے بہت تڑپایا اور آخر میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب مجھے واپس جانا ھی چاھئے!!!!!

جانے سے پہلے میں اپنے اس علاقے میں پہنچا جہاں میں نے اپنا ایک شروع کا بچپن گزارا تھا، وہی اپنا ایک پرانا سا لال اینٹوں کا وہ مکان جو اب کافی بوسیدہ ھوچکا تھا، مجھے اپنی ماں کی یاد دلا رھا تھا، جہاں ھم تیں بہن بھائی اپنی ماں کے ساتھ خوب لاڈ کیا کرتے تھے، اور سامنے “ریس کورس گراونڈ“ کو بھی دیکھا جہاں 1956 اور 1957 کے دور میں ایک اپنے بچپں کا ایک خوبصورت دور گزارا تھا، اپنے والد کی انگلی پکڑے ھم دونوں بہن بھائی اس گراونڈ میں ھر شام کو جاتے تھے اور ھم کافی دیر تک کھیلتے رھتے تھے!!!!!

دو مہینے ھونے والے تھے اور آج میں پھر ریلوے اسٹیشن کی طرف جارھا تھا اور ساتھ موذن صاحب بھی مجھے اسٹیشن تک چھوڑنے آئے تھے ان کی آنکھوں میں، اس روز میں نے آنسوؤں کی جھلک دیکھی تھی، اس مسجد کے آس پاس کے لوگ بھی میرے جانے سے بہت افسردہ تھے، تمام لوگوں نے بھی مجھے بہت گرمجوشی سے رخصت کیا تھا، میں نے دو دن پہلے ھی تیزگام سے کراچی کیلئے سیٹ بک کرالی تھی، اور گھر پہنچنے کی اطلاع بھی دے دی تھی، آج میرا دل بہت خوش تھا کہ میں اپنی ماں کے پاس جارھا تھا، جو میرے لئے بہت تڑپتی اور بہت روتی بھی تھی !!!!!

آج پھر اسی تیزگام میں ایک کھڑکی کے پاس والی سیٹ میں بیٹھا میں بہت کچھ سوچ رھا تھا کہ اب میں کبھی بھی والدین کی بات ٹالوں گا نہیں اور ھمیشہ اپنی پوری زندگی انکی خدمت میں گزاردوں گا، پہلے تو میں سوچ رھا تھا کہ میں پنڈی میں ھی اپنا مستقبل سنواروں گا لیکن ماں کی دعاؤں کے بغیر یہ بالکل نہ ممکن تھا، تیزگام پھر اپنی اسی تیزرفتاری سے کھٹ کھٹا کھٹ کرتی ھوئی انجن کی ایک مخصوص سیٹی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، مگر میرے لئے ایک ایک لمحہ بہت بھاری لگ رھا تھا، اور وقت لگتا تھا کہ گزر ھی نہیں رھا تھا، کتنے اسٹیشں آئے اور نکل گئے لیکن آج میری دلچسپی صرف اور صرف میری ماں ھی تھی جس کو میں نے ھمیشہ بہت دکھ ھی دئیے، آج جب میں اس سے دور ھوا تو مجھے اس کا شدٌت سےاحساس ھوا تھا !!!

کراچی نزدیک آرھا تھا، لیکن پھر بھی یہ کہ سفر کاٹے نہیں کٹ رھا تھا، آخر وہ لمحہ آھی گیا کہ ٹرین کراچی کے شہر کے اندر غل مچاتی سیٹیاں بچاتی انے اسی رفتار کے ساتھ دوڑی چلی جارھی تھی!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-59- گھر پھر واپسی اور محبت کی جدائی کا نیا موڑ،!!!!!

کراچی نزدیک آرھا تھا، لیکن پھر بھی یہ کہ سفر کاٹے نہیں کٹ رھا تھا، آخر وہ لمحہ آھی گیا کہ ٹرین کراچی کے شہر کے اندر غل مچاتی سیٹیاں بچاتی انے اسی رفتار کے ساتھ دوڑی چلی جارھی تھی!!!!!!!!!!

جیسے ھی تیزگام کراچی میں داخل ھوئی، اسکے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ھوگئیں، اور ڈر بھی اس خوف کے ساتھ کہ کس طرح میں سب کے سامنے آپنے آپکو کس شرمندگی کے ساتھ پیش کرسکونگا، ٹرین کراچی کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آہستہ آہستہ رک رھی تھی، اور میں کھڑکی سے جھانک رھا تھا کہ شاید کوئی مجھے لینے آیا ھوا ھو، دیکھا تو ایک دوست نظر آیا، اس نے مجھے دیکھتے ھی ہاتھ ہلایا، مین‌سمجھ گیا کہ یہی دوست مجھے لینے آیا ھوا ھے، کیونکہ اس کے علاوہ مجھے اور کوئی دکھائی نہیں دیا!!!!

خیر علیک سلیک کے بعد ھی میں اور وہ پیدل ھی گھر کی طرف نکل گئے، کیونکہ اتنی دور تو نہیں تھا ، آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرتے ھی محلے میں جیسے ھی داخل ھوا، بچوں کے ساتھ بڑے چھوٹے، مرد عورتیں ، بچے اور بوڑھے، سب نے مجھے گھیر لیا اور سوالوں کی ایک بوچھاڑ کردی، میں نے علیک سلیک کے علاؤہ کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، اور سیدھے ھی چلتا رھا، اور سامنے کے گھر کی طرف ھی اچانک دیکھا کہ پردہ کے پیچھے سے دونوں باجی اور زادیہ جھانک رھی تھیں، مگر میں نے بغیر دیکھے ھی کچھ کہے سنے ان کے سامنے سے نکل گیا، جس کا کہ مجھے بعد میں بہت افسوس ھوا، بہرحال بس پھر خاموشی سے اپنے دوست کے ساتھ ھی اپنے گھر میں داخل ھوا جہاں میری امی میرا بےچینی سے انتظار کررھی تھیں اور ساتھ بہں بھائی بھی اور اس وقت تک والد صاحب باھر ھی تھے، والدہ کو دیکھتے ھی میں ان سے گلے لگ کر بہت رویا اور سارے بہن بھائی بھی ساتھ ھی سب مجھ سے لپٹ گئے،

اور کھانا جلدی جلدی والدہ نے لگایا اور سب بہن بھائی کھانا کھانے میرے ساتھ ھی بیٹھ گئے اور والدہ مجھے پنکھا بھی جھل رھی تھی اور ساتھ انکے آنسو بھی گرتے جارھے تھے، اور میری بھی آنکھیں نم تھی، آج کتنے دنوں کے بعد اپنے گھر کا کھانا کھا رھا تھا دل رو بھی رھا تھا کہ اپنا گھر بھی کیا ھوتا ھے دنیا کی ساری نعمتیں ایک طرف اور اپنا گھر ایک طرف جہاں ماں کی پیار بھری دولت ھوتی ھے، والد صاحب بھی میری خبر سنتے ھی فوراً گھر آگئے، اور گلے لگایا مگر کچھ نہیں بولے اور میں بھی بس خاموشی سے کھانے کھانے میں مصروف ھوگیا!!!!

آج تقریباً دو مہینے بعد پھر مجھے سکون ملا، بہت تکلیف اور بے سکونی ھی اٹھائی، جس کا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، بس تھوڑی دیر میں ھی میرا دوست ننھا بھی پہنچ گیا، اور بہت ھی شکوہ شکایت کرنے لگا وہ بھی بہت بدل سا گیا تھا اور میرے بغیر اس نے کہا کہ اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رھا تھا، کیونکہ ایک عرصہ سے وہ مجھ سے کبھی جدا نہیں ھوا تھا اور ھم دونوں زیادہ تر ایک ساتھ ھی رھتے تھے، جب سے حالات خراب ھوئے تھے، اس نے میری کافی مدد کی تھی، واقعی وہ ایک مخلص دوست تھا!!!!!!!

باقی تمام باتیں مجھے اسی کی ھی زبانی معلوم ھوئیں کہ میری غیر حاضری میں کیا ھوا تھا وہ بہت بے چین تھا مجھے تمام کہانی سنانے کیلئے اور میں بھی کچھ سننے کےلئے، مگر اس وقت مجھے اچھا نہیں لگ رھا تھا کہ سب کو چھوڑ کر چلا جاؤں!!!!!!

کیونکہ دو مہینے بعد تو میں اپنے گھر والوں سے ملا تھا، اور بس میں یہی چاھتا تھا گھر میں سب کو جی بھر کر دیکھوں، اور کچھ نہ کروں، باھر جاکر بھی تو میں ھر ایک کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا اور ھر کوئی تمام حالات اور واقعات جو مجھ پر گزرے تھے ان کو معلوم کرنے کیلئے سب بےچین تھے، اور ھر ایک کو باری باری تمام تفصیل کو دھرانا میرے بس کی بات بھی نہیں تھی اور مجھے آئے ھوئے دو دن گزرچکے تھے، لیکن کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا، بس ایک بات تھی کہ نماز کیلئے اب پانچوں وقت مسجد میں جانے لگا تھا، اور اس دوران ھر ایک کی یہی کوشش ھوتی کہ مجھ سے کچھ پوچھے لیکن میں خاموش ھی رھتا اور کوئی بہت زیادہ ھی ضد کرتا تو میں عاجزی سے اس کے سامنے ھاتھ جوڑ لیتا، اور بعض اوقات تو میرے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے،

کبھی کبھی تو میرے پیچھے لڑکے آوازیں کستے اور مذاق بھی اُڑاتے، لیکن اس وقت ان کی ھمت بھی نہیں پڑتی تھی جب میرے پیچھے میرا دوست “ننھا“ ھوتا، اس نے سب کو خبردار کیا ھوا تھا، اگر کسی نے کچھ بھی اگر مجھے ایک لفظ بھی کہا تو اس کی خیر نہیں، اور کئی دفعہ تو وہ کئی لڑکوں سے میری خاطر الجھ بھی چکا تھا، میں نے اسے سمجھایا بھی کہ تو میری خاطر کسی سے بھی جھگڑا نہیں کیا کر لیکن وہ باز نہیں آتا تھا، اور کئی لڑکے بہت اچھے بھی تھے جو مجھے ھر نماز میں باجماعت ملتے تھے، شروع شروع میں انہوں نے ازراہِ ھمدردی کچھ پوچھنا چاھا، لیکن میری خاموشی کے بعد تو انہوں نے بھی کوئی سوال نہیں کیا،

ننھا بھی میرے ساتھ ھی نماز پڑھنے جاتا اور ساتھ ھی وہ میرے پیچھے پیچھے مجھے گھر تک چھوڑ کر چلاجاتا، اکثر وہ اذان کے وقت ھوتے ھی میرا باھر انتطار کررھا ھوتا، میں اس سے بس ھاتھ ھی ملاتا اور کچھ بھی کہنے کی مجھ میں کوئی ھمت نہیں تھی، اور وہ بھی مجھ سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا بس میں اس کو چلتے چلتے ھی دیکھ کر بس روایتاً ھلکا سا مسکرا دیتا تو وہ بھی کچھ مسکرا کر مجھے اس طرح دیکھتا کہ جیسے وہ مجھ سے بہت کچھ کہنا چاھتا ھے، وہ اتنا بولنے والا بس اب تو میرے ساتھ خاموشی سے مسجد اور گھر تک، بس اتنا ھی ساتھ رھتا جیسا کہ وہ میرا کوئی باڈی گارڈ ھو، اور مجھے اسکا ساتھ بھی بہت اچھا لگتا، ایسا مجھے محسوس ھوتا کہ میں اس کے ساتھ ھر وقت ھر کسی پریشانی سے بالکل محفوظ ھوں، کبھی کبھی اگر نماز کیلئے اسے آنے میں دیر بھی ھوجاتی تو میں اپنے گھر کے باھر مین دروازے پر انتظار بھی کرتا، مجھے اس کی دور سے ھی اس کی آہٹ سے ھی اندازہ ھوجاتا کہ وہ آرہا ھے، وہ کبھی کبھی میرے پیچھے ھی سے ان دونوں زادیہ اور باجی کو ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ھوئے میری طرف سے خیریت کا پیغام دے دیتا اور خاموشی کی زبان میں ھی تسٌلی بھی دیتا کہ جیسے وہ بہت جلد میرا آمنا سامنا کرادے گا، وہ دونوں بھی میرے آنے جانے کے وقت ھی اپنے دروازے پر مجھے دیکھنے آجاتی تھیں، لیکن میں ایک لفظ بھی نہیں کہتا تھا اور نہ ھی اسطرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا،!!!

نہ جانے بس مجھے ایک چپ سی لگ گئی تھی، اور مجھے عبادت کرنے میں بہت مزا آتا تھا اور بعض اوقات تو میں نماز کے بعد مسجد میں اکیلا ھی رہ جاتا تھا اور مسجد کے باھر ننھا میرا انتطار کررھا ھوتا تھا، اور لوگ اسے گھیر لیتے تھے بہت سارے میرے بارے میں سوالات لئے اور کچھ پوچھنے کیلئے کہ آج کل مجھے کیا ھوگیا ھے اور جیسے ھی میں مسجد سے باھر نکلتا وہ سب لوگ اِدھر اُدھر ھوجاتے، اور پھر ھم دونوں سیدھا گھر کی ظرف نکلتے، راستے میں ان دونوں کا گھر بھی پڑتا اور وہ حسب معمول مجھے دیکھنے کیلئے پردے کی آڑ میں سے حسرت بھری نگاھوں سے مجھے تکتی رہتیں، اور میں اسی طرح خاموشی سے سر جھکائے ان کے گھر کا سامنے سے بھی گزر جاتا،

کئی لوگوں نے تو یہ افواہ بھی اُڑا دیی کہ مجھ پر کسی بھوت پریت وغیرہ کا سایہ ھوگیا ھے، مجھے ایک عادت تو بچپن سے ابا جی کے ھاتھوں پرائمری اسکول کے واقعہ کے بعد مار کھانے کی وجہ سے تھی کہ رات کو اکثر سوتے میں بری طرح چیخنے لگتا تھا اور جبتکہ مجھے کوئی اچھی طرح جھنجھوڑ نہ لے اور میں اٹھ نہ جاؤں، میرے حوش ٹھکانے نہیں آتے تھے، اور یہ عادت مجھ میں اب تک ھے، جو مجھے اپنی وہ پانچویں کلاس سے پورے سال کے سیشن میں پرائمری اسکول سے بھاگ جانے والی اس حرکت کو ایک سبق کی طرح ھمیشہ یاد دلاتی ھے!!!!!!

کئی دفعہ ننھے نے مجھ سے کہا کہ یار اب تو ٹھیک ھوجاؤ کافی دن ھوگئے، مجھ سے تمھاری یہ خاموشی کی حالت دیکھی نہیں جاتی، میں جواباً اسے صرف یہی کہتا کہ دوست ننھے ابھی تک میری ندامت اور شرمندگی کے آنسو ختم نہیں ھوئے ھیں، جبتکہ میری اپنے اندر کی شرمندگی خود بخود باھر نکل نہیں جاتی، میں اپنی گردن اٹھا نہیں سکتا اور یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ مجھے دوبارہ گھر سے بھاگنے کی حرکت کی وجہ سے جو شرمندگی اٹھانی پڑی تھی وہ میں شاید زندگی بھر نہ بھول سکونگا !!!!!!!!!

اب کچھ دنوں بعد ظبیعیت کچھ بہتر ھوگئی اور آہستہ آہستہ میں کچھ اپنے آپ میں سکون محسوس کررھا تھا، یہ تو واقعی ایک طے شدہ بات ھے کہ جب بھی آپ پانچوں وقت کی نماز باجماعت پڑھیں اور ساتھ ھی نوافل اور اذکار کثرت سے ادا کریں، تو جو بھی پریشانی دکھ یا کوئی بھی تکلیف ھو، بالکل ھی جاتی رھتی ھے، لیکن ھمارے میں یہ ایک بہت بڑی کمزوری ھے کہ جیسے ھی حالات بہتر یا کوئی بھی پریشانی، دکھ یا تکلیف دور ھوجاتی ھے تو اللٌہ کو ھم بھول جاتے ھیں!!!

آخر ننھے سے صبر نہیں ھوا اور اس نے میرے جانے کے بعد کی اسٹوری سنا ھی دی، جس کے بعد مجھے بہت افسوس ھوا کہ میری اس غلطی کی وجہ سے دونوں فیملیز کو کیا کیا پریشانیاں اٹھانی پڑیں، آپس میں بہت ھی زیادہ جھگڑے ھوئے، اور حالات کافی سے بہت زیادہ کشیدہ ھوچکے تھے، روزانہ کچھ نہ کچھ لڑائی رھتی تھی اور ان لوگوں کا محلے والوں نے ناک میں دم کیا ھوا تھا، اور ان کے والد نے یہ محلہ بھی چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر میرے واپس آنے تک اس فیصلے کو روکا ھوا تھا، کیونکہ ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ھی مجھے گھر سے بھاگنے پر اکسایا تھا، اور انہیں یہ بھی معلوم ھے کہ میں کس جگہ پر ھوں، یہ تو اچھا ھوا کہ میری خط و کتابت چل پڑی ورنہ تو بےچاروں اور بےقصوروں کو میری وجہ سے کافی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں کہ اگر کچھ دنوں میں میرا پتہ نہ چلا تو ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیں گے، اور یہ سب محلے کے چند افراد ھی ھمارے والدیں کو یہ مقدمہ کرنے کیلئے ورغلا رھے تھے، مگر والد صاحب نے پھر بھی اپنی عزت کے لئے اسطرح کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور میرے خط و کتابت شروع ھونے کے بعد ھمارے گھر والوں نے کسی اور کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا، کیونکہ یہ میں اپنے خط میں مکمل طور پر واضع کرچکا تھا کہ میں کسی کے کہنے بہکانے یا اکسانے پر گھر سے نہیں گیا یہ صرف میرا اور صرف میرا ھی فیصلہ تھا،

پھر سے وہ رونقیں واپس آرھی تھیں، مجھے والد صاحب نے ایک اور دوسرے کالج جسکا نام عائشہ باوانی کامرس کالج میں سیکنڈ ائیر شام کی شفٹ میں میں داخلہ دلا دیا، اور گھر سے بھی کچھ قریب ھی تھا اور اس کالج کے پیچھے وہ پرائمری اسکول بھی تھا، جہاں سے کبھی پانچویں کلاس پاس کی تھی اور اس سے پہلے اسی اسکول سے بھاگا بھی تھا، وہ دن یاد آتے ھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ھے، اس کالج میں کافی پابندی تھی، اور اچھے کالجوں میں سے ایک تھا اور ھمارے اکاونٹس اور اسٹیٹس کے لیکچرار جناب اسلم صاحب بہت ھی قابل استادوں میں سے تھے، اں کا پڑھانے کا دوستانہ انداز میں آج تک نہیں بھولا، یہ میں کہہ سکتا ھوں کہ آج جس اکاونٹس کی پوزیشن میں ھوں، ان ھی کی محنت اور کاؤش کا نتیجہ ھے، وہ میرے صحیح معنوں میں اس فیلڈ کے پہلے استادوں میں سے ایک تھے اور میں اپنے تمام استادوں کو آج تک نہیں بھولا ھوں، چاھے وہ میرے اسکولوں یا کالجوں کے استاد تھے یا میری سروس کے دوران جن سے میں نے کچھ نہ کچھ حاصل کیا تھا، ان سب کے لئے آج بھی میں صدقِ دل سے دعائیں کرتا ھوں!!!!

مجھے اب سیکنڈ ایئرکامرس میں کل آٹھ پیپرز پچھلے سال کے 3 پیپرز ملا کر دینے تھے اور اس کے لئے مجھے کافی محنت بھی کرنی تھی، اس کے لئے والد صاحب نے بہت پیار سے یہی کہا کہ اب تمھاری مرضی ھے کہ کس طرح اور کس پوزیشن میں پاس کرتے ھو یہ تمھارے مستقبل کا سوال ھے، اگر اپنی زندگی میں کچھ بننا چاھتے ھو، تو تمھیں محنت تو ضرور کرنی پڑے گی، اور اب میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا اب تمہیں خود اپنے پیروں پر کھڑا ھونا ھے اور وہ بھی بغیر سہارے کے اگر محنت کروگے تو تمھاری قابلیت ھی تمھارے سہارا بنے گی ورنہ تمھارا کچھ بھی نہیں ھوسکتا، اور یہ بھی کہا کہ ھوسکتا ھے کہ کمپنی میرا کچھ دنوں بعد میرا ٹرانسفر سعودی عرب میں کردے تو تمھیں ھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ اپنے گھر کو بھی سنبھالنا ھوگا، مجھے امید ھے کہ ھر لحاظ سے میری غیرحاضری میں اپنے گھر کا خیال رکھو گے!!!!

اب تو مین واقعی خوب اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دینے لگا، اور اب میرا دوست ننھا بھی اپنے والدیں کے ساتھ کسی اور اچھی جگہ جا چکے تھے، اور ھمارے والد صاحب بھی ایک اور کوئی چھوٹا سا مکان خریدنے کے چکر میں تھے، نہ جانے کیوں ھر کوئی اس علاقے سے بھاگ جانے کے حق میں تھا، رات کو جب کالج سے آتا تو روزانہ ان دونوں بہنوں کو انکے گھر کے صحن کی دیوار کے اوپر سے مجھے جھانکتے ھوئے دیکھتا تھا، لیکں میں اسی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی قسم کا اشارا یا بات کئے ھوئے گزر جاتا، اور کوئی بھی دھیان نہیں دیا، لیکن بلاناغہ انہوں نے یہ اپنا ایک معمول بنا لیا تھا،

لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل اب بھی انہیں کی طرف تھا، ان کو میں بُھلا نہیں پایا تھا، لیکن والدین کی وجہ سے میں بہت مجبور تھا 1968 کا سال تھا اور سالانہ انٹر کامرس کے فائنل کے امتحانات شروع ھونے والے تھے، اور امتحانات کی تیاری کے دوران ھی میں نے سوچا کہ میں شاید کسی کا دل تو نہیں دُکھا رھا، کہیں ایسا نہ ھو کہ کسی کی بددعاء مجھے یا میرے گھر والوں کو نہ لگ جائے، کیونکہ جاتے جاتے ننھا مجھے یہ ضرور کہہ گیا کہ وہ سب تمھارے لئے خیریت کی دن رات دعاء کرتے تھے، اور وہ واقعی تمھیں بہت زیادہ دل و جان سے چاھتے ھیں، اس لئے ایک دں موقع پا کر تم ان سے ضرور ملکر معافی مانگ لینا،!!!

میں بھی یہی چاھتا تھا کہ ان سے کم از کم معافی تو مانگ لوں اور ایک دن چپکے سے باھر کا مین دروازے سے اندر جا کر ان کے گھر کے بڑے کمرے کے دروازے پر ھلکی سی دستک دی، دروازہ کھلا اور باجی دروازے پر تھیں اور بس وہ مجھے دیکھتے ھی شروع ھوگئیں، کہ “اب اتنے دنوں بعد کیوں آئے ھو، کیا کام ھے، تمھیں اتنے دن ھوگئے آئے ھوئے اور آج اپنی شکل دکھا رھے ھو، ھمارا کیا حال تھا تمھیں کسی بات کی خبر بھی تھی یا نہیں، تمھیں ذرا سی بھی شرم نہیں آئی“ اور نہ جانے وہ کیا کیا کہتی چلی گئیں، اور انکی امی نے باجی کو کافی روکنا چاھا مگر وہ غصہ میں بےقابو ھو کر بولتی ھی چلی گئیں لیکن میں بس یہ سب کچھ خاموشی سے سب کچھ سنتا رھا، مگر میری آنکھوں سے ایک آنسوؤں کا سیلاب جیسے امڈ رھا تھا جوکہ انہوں دیکھا نہیں تھا!!!

جب وہ کہہ کہہ کر تھک گئیں تو میرے بازوؤں کو پکڑ کر جیسے ھی جھنجھوڑا تو میری آنکھوں کے آنسو کے کچھ قطرے شاید ان کے چہرے پر پڑے تو فوراً انہوں نے مجھے بے اختیار اپنے گلے لگا لیا، اور انکی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ھو گئے، ادھر زادیہ کی آنکھوں میں بھی نمی دیکھی اور خالہ نے بھی مجھے فوراً اپنے گلے لگایا اور ساتھ ھی نانی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پیار کیا اور ادھر زادیہ اپنی باجی کے گلے سے لگ کر رورھی تھی یا پتہ نہیں پھر کوئی اور میری شکایت ھی کررھی ھوگی!!!!!!!!!

میں اب ایک اور شش و پنج میں تھا کہ کیا کروں، پھر یہی ھم نے یہی فیصلہ کیا کہ میں ان سب سے باھر ھی ملوں گا، کیونکہ انکے والد نے پہلے ھی سے انہیں یہ سختی سے نوٹس دے ھی دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں میری شکل دیکھنا نہیں چاھتے، اور میری ھی وجہ سے انکے والد سے آپس میں کافی جھگڑا بھی ھوا تھا، میں رات کو جب بھی کالج سے واپس آتا تو وہ دونوں میرا شدت سے انتظار کرھی ھوتی تھیں اور دیوار کے اُوپر سے جھانک کر مجھے اکثر میرے لئے شامی کباب یا کوئی بھی کھانے کی چیز پکڑا دیتی تھیں جو بھی مجھے پسند تھی، اور ایک دو لفظ کہہ کر واپس نیچے اتر جاتیں مگر ھمیشہ وہ دونوں امتحانات کی اچھی طرح تیاری کرے کا حکم صادر فرماتی تھیں، اور میں اپنے گھر میں داخل ھونے سے پہلے ھی اسے شامی کباب ھوں یا کچھ اور سب کچھ کھا کر ختم کرلیتا تھا، اور گھر پہنچ کر بھی کچھ تھوڑا بہت اپنے گھر کا بھی کھا لیتا تھا کہ کہیں گھر والوں کو شک نہ ھوجائے!!!

اسی طرح دن گزرتے رھے اور کئی دفعہ باھر ملاقات بھی ھوئی لیکن زادیہ سے تو اکیلے میں بات کرنے کا موقعہ ھی نہیں ملا کہ کچھ اظہار وفا ھی کرلیتے کئی دفعہ موقعہ نکالنے کی کوشش بھی کی اور اس نے بھی پہلے ھی کی طرح پوچھا کہ تم کچھ کہنے والے تھے، لیکن بس اس وقت اپنے گال سہلاتا ھوا بات کو ٹال دیتا، اور جب وقت گزرجاتا تو اپنے آپ کو بزدل ھی کہتا لیکن ساتھ ھی سوچتا کہ چلو اچھا ھی ھوا کہ کچھ نہیں کہا، کہنے سے پہلے میری جان نکلی ھی ھوئی ھوتی تھی اور جب کہہ نہیں سکتا اور بات ٹل جاتی تو شکر بھی ادا کرتا کہ شکر ھے بال بال بچ گئے، میرے ساتھ ایک عجیب سی ھی ایک سچیویشن تھی، کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لوگ کس طرح اتنی بڑی ھمت کرلیتے ھیں،

جبکہ ریڈیو پاکستان میں ایک دفعہ آڈیشن کے وقت میں نے بہت اچھی طرح ایک ڈرامے کی رہل سہل کے وقت ایک اپنے سامنے والی لڑکی جو اس وقت ڈرامے کی ھیروئین کا ٹیسٹ دے رھی تھی اور مجھے بھی ھیرو کا اسکرپٹ پکڑا دیا تھا، جس میں ایک لڑکا ایک لڑکی سے محبت کا اظہار کرتا ھے، وہ تو میں نے بہت ھی بہتریں طریقے سے ادا کیا تھا اور اس لڑکی نے مجھ سے بھی شاندار طریقے سے ڈائیلاگ کی ڈلیوری کی تھی، وہ بات دوسری ھے کہ میں سیلکشن میں کامیاب نہیں ھوسکا تھا، کیونکہ میرے مقابلے میں اور بھی بہت اچھے منجھے ھوئے فنکار بھی موجود تھے، تو ھماری دال کہاں گلتی، بہرحال میں نے کم از کم ڈائیلاگ تو بہت ھی اچھی ظرح بولے تھے مگر اصل میں جب بھی موقع آتا تھا تو ٹیں ٹیں فش ھوجاتی تھی، نہ جانے میرے کالج کے دوست تو اپنی عشق کی داستان ایسے سناتے تھے کہ جیسے وہ خاندانی عاشق ھی ھوں!!!!!!!!!!

آخر کو انٹر فائنل کے سالانہ امتحانات کے دن آھی گئے اور میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ آٹھوں پیپرز اچھی طرح ھوجائیں اور شکر ھے کہ سیکنڈ ڈویژن کے بجائے تھرڈ ڈویژن کی پوزیشن آئی، میں نے بھی شکر کیا چلو انٹر سے تو جان چھوٹی، نتیجہ نکلنے کے بعد کچھ آزادی بھی ملی اور اب میں “بی کام“ میں بھی چلا ھی گیا، والد صاحب بھی خوش ھوگئے،!!!!!!!

اور نہ جانے ایک دن پتہ نہیں کیا ھوا کہ میں کسی شادی میں یا اور کسی تقریب میں شرکت کیلئے دوستوں کے ساتھ کراچی سے باھر دو یا تیں دن کیلئے اندرون سندھ سکھر گیا ھوا تھا، جیسے ھی واپس آیا تو اچانک مجھے خبر ملی کہ زادیہ اور باجی سب گھر والوں سمیت اپنا گھر بیچ کر نہ جانے کہاں جا چکی تھیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا اور میں پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر پوچھتا پھر رھا تھا مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی، اور لوگ مجھے یہ خبر اچھل اچھل کر سنارھے تھے، اور ساتھ میرا مذاق بھی اُڑا رھے تھے !!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-60- محبت کی جدائی اور بے مقصد یہ زندگی!!!!!

اور نہ جانے ایک دن پتہ نہیں کیا ھوا کہ میں کسی شادی میں یا اور کسی تقریب میں شرکت کیلئے دوستوں کے ساتھ کراچی سے باھر دو یا تیں دن کیلئے اندرون سندھ سکھر گیا ھوا تھا، جیسے ھی واپس آیا تو اچانک مجھے خبر ملی کہ زادیہ اور باجی سب گھر والوں سمیت اپنا گھر بیچ کر نہ جانے کہاں جا چکی تھیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا اور میں پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر پوچھتا پھر رھا تھا مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی، اور لوگ مجھے یہ خبر اچھل اچھل کر سنارھے تھے، اور ساتھ میرا مذاق بھی اُڑا رھے تھے !!!!!!!

مجھے تو ایک دم سے ھی پریشانی لاحق ھوگئی کہ میری یہ تین دن کی غیر حاضری میں اچانک کیا سے کیا ھوگیا، میرا دوست ننھا بھی مجھ سے دور چلا گیا تھا، مگر وہ کبھی کبھی چکر لگا لیا کرتا تھا، دوسرے ھی دن وہ مجھ سے ملنے آیا تو میں نے ساری روداد سنادی وہ بھی شش و پنج میں رہ گیا، اس نے بھی اپنی ساری کوشش کر ڈالی کہ کہیں سے پتہ چل جائے، مگر کوئی بھی کامیابی نہیں ھوئی، لوگوں کو اور موقعہ مل گیا تھا، راہ چلتے میرا مزاق اڑاتے رھتے اور میں خاموشی سے سنتا رھتا اور دل ھی دل میں کڑھتا رھتا،

اسی دوران والد صاحب نے بھی کافی دور دراز علاقے میں ایک مکان کا بندوبست بھی کرلیا تھا، جو بہت ھی دور تھا، اور جس کے لئے انہوں نے اپنے کسی دوست اور دفتر سے کچھ قرض بھی لیا تھا، تقریباً دس ہزار روپے میں یہ مکان خریدا تھا، اور یہ اپنا کچا سا مکان صرف ایک ہزار روپے میں بیچ دیا تھا، جو شہر کے ساتھ ھی تھا، نیا مکان اچھا تھا بجلی پانی اور گیس کی سہولت بھی تھی لیکن یہاں سے بس میں جانے کیلئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا تھا، اور یہ میرے حق میں ھر لحاظ سے بہتر بھی ھوا، کیونکہ پانی اور جلانے کیلئے لکڑی لانے کا بندوبست بھی مجھے ھی کرنا پڑتا تھا، اس سے تو جان چھوٹ گئی اور شفٹ ھونے کے بعد کچھ دنوں کے بعد وہاں کے ایک نزدیکی علامہ اقبال کامرس کالج میں بی کام میں شام کی شفٹ میں داخلہ بھی لے لیا،

قدرت کا کرنا یہ ھوا کہ والد صاحب کا ٹرانسفر سعودی عرب ھوگیا، مجھے اس لحاظ سے اس بات کی خوشی ھوئی کہ پابندیوں سے کچھ آزاد بھی ھوگیا تھا، بس دن بھر میرا یہی کام کہ ان لوگوں کو تلاش کرنا، ھر ایک ممکنہ جگہ جاکر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ان کے جاننے والے عزیزوں کے گھر بھی گیا انہوں نے بھی یہی شکایت کی کہ ان کو بھی کچھ نہیں بتایا گیا، میں اور میرا دوست دونوں روزانہ کرایہ کی سائیکل لے کر ھر ایک علاقے کا چکر لگاتے اور وہاں پر ھر ایک سے کسی نئے آنے والی فیملی کے بارے میں پوچھتے، میری حالت روزبروز خراب ھوتی جارھی تھی ایک سال کا عرصہ بیت گیا، والدہ بھی میری طرف سے پریشان تھیں، ھوسکتا ھے کہ انہیں میری پریشانی کا علم ھو، لیکن نہ انھوں نے اس بات کا ذکر کیا اور نہ ھی میں نے مناسب سمجھا کہ ان کو کسی بات کیلئے خوامخواہ پریشان کروں،

آخر ننھے کی کوششیں تقریباً چھ مہینہ بعد رنگ لے آئیں، اس نے فوراً مجھے ساتھ لیا اور مجھے کہا کہ ان کی والدہ فلانے بازار سے سبزی گوشت خریدتی ھیں، میں تو اس جگہ کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لوگ وھاں پر ھوسکتی ھیں وہ ایک اچھا ماڈرن علاقہ تھا، میں فوراً وھاں پر پہنچا اور خالہ سے بازار میں ملا وہ فوراً مجھے دیکھ کر گھبرا گئیں اور مجھ سے پوچھا کہ تمھیں یہاں کا پتہ کس نے بتایا، میں نے کہا کہ کسی نے بھی نہیں میں نے آپکو اچانک یہاں پر ھی دیکھا تو چلا آیا اور میں تو چھ مہینے سے لے کر اب تک ھر جگہ آپ لوگوں کو تلاش کرتا پھر رھا ھوں اور آپ نے کسی کو بھی اپنا پتہ نہیں بتایا، اور پھر انہوں نے مجھے خاموش رھنے کیلئے کہا اور کہا کہ میرے ساتھ خاموشی سے چلے آؤ، میں نے انکی سبزی اور سودے سے بھری ٹوکری اٹھا لی اور ان کے ساتھ ساتھ چل دیا، ایک دو منزلہ گھر کی سیڑھیوں پر چڑھیں، میں بھی انکے پیچھے پیچھے اُوپر چڑھنے لگا!!!!!

میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رھا تھا، اچھے خاصے موسم میں بھی پسینے آرھے تھے اندر سے دل خوشیوں سے جھوم رھا تھا کہ آج پھر وقت نے ایک پلٹا کھایا ھے اور کسی سے ملاقات ھونے والی ھے،راستے میں خالہ نے کچھ بھی نہیں بتایا، دروازے پر دستک دی تو فورا دروازہ کھلا تو سامنے اپنی باجی کو پایا، اور میں کمرے میں ایک صوفے پر بغیر پوچھے ھی بیٹھ گیا، اور مجھ سے سوال پر سوال کئے جارھی تھیں کس نے تمھیں یہ پتہ بتادیا، کتنی مشکل سے ھم تمھاری ھی وجہ سے اپنی عزت بچاکر یہاں کرایہ کے مکان میں آئے ھیں، اس جگہ پر تمھاری وجہ ھی سے تمھارے گھر والوں اور محلے والوں نے تمھاری غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر ھمارا ناک میں دم کردیا تھا، ایک تو ھم تمھاری وجہ سے پریشان تھے اور لوگوں نے تمھارے حوالے سے ھمیں بدنام بھی کردیا تھا، جس کی وجہ سے ھمیں وہ مکان چھوڑنا پڑا، اب ھم نے کافی ذلت اٹھا لی، اور مزید اب ذلت برداشت نہیں کرسکتے اور اگر تمھارے خالو نے تمھیں یہاں اگر دیکھ لیا تو ھمیں جان سے ھی مار دیں گے!!!!!

میں تو ان دونوں کی شکل ھی دیکھ رھا تھا اور وہ مجھ سے شکایتیں ھی کئے جارھی تھیں، اور یہ بھی باجی نے کہا کہ تم پھر بغیر بتائے کہاں چلے گئے تھے، میں نے کہا کہ میں تو صرف ایک دن کے لئے ھی ایک کسی دوست کی تقریب میں گیا تھا لیکن مجھے دودن مزید انہوں نے روک لیا، میں تو تیسرے روز ھی آگیا تھا، مگر مجھے کسی نے بھی کچھ نہیں بتایا، میں ابھی جاتا ھوں اور جاکر اپنی اماں سے پوچھتا ھوں کہ یہ آخر ماجرا کیا ھے، انہوں نے جواب دیا کہ خبردار اب دوبارا ھمارے متعلق کسی سے کوئی ذکر کیا یا کسی کو یہاں لانے کی کوشش بھی کی، تو ھمارے لئے اچھا نہیں ھوگا، اب ھماری یہاں بہت عزت ھے اور ھم نے اُس علاقے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا ھے، مجھے انہوں نے اپنی قسم بھی دی کہ اب تم یہاں دوبارہ نہیں آؤ گے، اگر تمھارے خالو نے یہاں دیکھ لیا تو ھمارے لئے بہت مشکل ھوجائے گی، تمھارے خالو ھمیں جاں سے مار دیں گے، خدارا اب دوبارا یہاں کا رخ بھی نہ کرنا، اس سے پہلے کہ یہاں کسی کو تمھارے بارے میں پتہ چلے، یہاں سے فوراً چلے جاؤ!!!!

میں تو پریشان اور ھکا بکا ھی رہ گیا کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا مشکل پیش آئی ھوگی کہ یہ اتنی مصیبت زدہ دکھائی دے رھی تھیں، میں نے پوچھا کہ زادیہ کہاں ھے انہوں نے جواب دیا کہ کالج گئی ھوئی ھے، میں نے پوچھا کہ کیا میں زادیہ کے آنے تک بھی یہاں انتظار نہیں کرسکتا،
انھوں نے جواب دیا کہ پھر تم بےوقوفوں والی کیوں بات کرتے ھو، تم خدارا کیوں نہیں سمجھ رھے ھو، تمھارے خالو ھماری ھڈی پسلی ایک کردیں گے اور تمھیں ھماری قسم ھے اگر تمھیں ھماری زندگی عزیز ھے تو تم یہاں آس پاس بھی نظر نہیں آؤ گے، میں نے کھا کہ خدارا مجھے کالج کا پتہ تو بتا دو میں صرف اسے دور سے ھی دیکھ لونگا، ان دونوں نے اس سے بھی انکار کردیا، اور مجھے نہ جانے کس کس کے واسطے دے کر مجبور کردیا کہ میں وھاں سے نیچے اتر گیا !!!!!!!

میں نیچے تو اتر گیا لیکن مجھے یہ مکمل یقیں تھا کہ وہ اس وقت گھر پر ھی تھی، مگر ان دونوں نے اسے برابر کے کمرے میں رکھا ھوا تھا یا وہ خود ھی میرے سامنے نہیں آنا چاھتی تھی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا، آج اتنے عرصہ بعد ملاقات بھی ھوئی تو بغیر اس کو دیکھے ھوئے واپس جارھا تھا، نیچے اتر کر آخری بار پلٹ کر میں نے دیکھا کہ وہ کھڑکی میں پردے کے پیچھے سے اپنا ھاتھ ھلا کے مجھے الوداع کہہ رھی تھی، میں نے بھی اپنا ھاتھ ھلا دیا، میں ابھی صرف اسکی ایک ھی جھلک دیکھ پایا تھا کہ کسی نے فوراً ھی پردہ صحیح کردیا، اور وہ چہرہ بس میری آنکھوں کے ایک پلک جھپکتے میں ھی ایک دم غائب ھوگیا اور میں پھر خاموشی سے اپنے قدم بڑھاتا ھوا آگے نکل گیا دو تین دفعہ میں نے پھر کوشش کی کہ کسی کی کچھ جھلک ھی دوبارہ دیکھ لوں، مگر افسوس صرف پردے کو ھی ھوا سے ھلتے ھوئے دیکھا اور بس !!!!!!!

اب تو ایسا لگتا تھا کہ جینے کا کوئی مقصد ھی نہیں رھا، میں اپنے آپ کو بہت احساسِ محرومی کا شکار اور شکست خوردہ انسان سمجھ رھا تھا، حالانکہ میں نے اب تک اسے کسی بھی طرح سے اپنے دل کی بات نہیں کرسکا تھا نہ جانے وہ کونسا ڈر یا خوف تھا جسکی وجہ سے میں اسکے سامنے بالکل اس معاملے میں گونگا ھوجاتا تھا، مگر میں اسی میں خوش تھا کہ اس نے بھلے اپنے منہ سے کچھ بھی نہ کہا ھو لیکن یہ بات تو طے تھی کہ وہ پھر بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتی تھی اور اس کے علاوہ کبھی کبھی میں اس میں بھی خوش تھا کہ کسی کے بارے میں یا کوئی اور ایسا لڑکا ھو جو اسے پسند کرتا ھو، کوئی بھی تو ایسا نہیں تھا، کیونکہ میں نے اس سب کے ساتھ بچپن سے لیکر ابتک کافی نزدیک اور اکثر ان ھی کے ساتھ رھا!!!!

اور پھر میرا دل کہتا تھا کہ اسکی آنکھیں کبھی جھوٹ بول ھی نہیں سکتی، کیونکہ دل کی آنکھیں سب کچھ پڑھ لیتی اور سن بھی لیتی ھیں، مگر پھر بھی میرا دماغ ھمیشہ کچھ الٹا ھی سوچتا تھا، کہ تُو کہاں اور وہ کہاں وہ تو اتنی خوبصورت اور حسین ھے تُو تو اسکے ساتھ کھڑے ھونے کے بھی لائق نہیں ھے، دبلا پتلا کمزور سا اور عام سا لڑکا جو اس معاملے میں بالکل ڈرپوک اور بزدل تھا وہ کیسے کسی لڑکی کو اپنے طرف پرکشش اور جذباتی مقناطیسی قوت سے کھینچ سکتا تھا، مگر دوسری طرف باتوں میں مذاق اور کھیل کود میں سب کو اپنا دیوانہ ضرور بنالیتا تھا، مجھ سے اکثر تمام محلے کی چھوٹی بڑی سب لڑکیاں بہت مذاق کرتیں اور فری رھتی تھیں اور کسی دوسرے لڑکوں کے ساتھ انہیں اتنا فری نہیں دیکھا کیونکہ میرا ایک ان پر ایک بھروسہ اور اعتماد جو تھا، اور میں کبھی کسی کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھا تھا،

مگر پھر میں یہ سوچتا تھا کہ دوسری لڑکیاں بھی تو تھیں، جنہوں نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا کہ تمھیں آس پاس کوئی اور لڑکی نہیں نظر آتی جو اس مغرور لڑکی کے دیوانے بنے پھرتے ھو، وہ لڑکیاں بھی اچھی خوبصورت تھیں، جو میرے نذدیک آنا چاھتی تھیں، مگر نہ جانے کیوں وہ مجھے ایسی باتیں کرتی ھوئی اچھی نہیں لگتی تھیں اور میں انہیں ھمیشہ جھڑک کر جواب دیتا تھا اس کے جواب میں وہ مجھے یہ ضرور کہتی تھیں کہ فکر نہ کرو یہی مغرور لڑکی تمہیں ایک دن خوب رُلائے گی، لیکن ایک تو زادیہ مجھے ان کے نزدیک جانے نہیں دیتی تھی اور اگر مجھے وہ کسی لڑکی سے بات بھی کرتے ھوئے دیکھ لیتی تھی تو ایک قیامت آجاتی تھی، بہت مشکل ھوتا تھا اس وقت اسکو کچھ سمجھانا !!!!!!!! نہ تو مجھے کسی کے نذدیک جانے دیتی تھی اور نہ ھی مجھ سے کوئی اس قسم کی بات کرتی تھی کہ میرا حوصلہ بڑھے تو میں کچھ کہنے کی ھمت بھی کروں !!!!!

میرے دوست ننھے نے بار بار یہی کہا کہ بیٹا کوئی بھی لڑکی اپنے منہ سے کبھی بھی نہیں کہے گی، جب تک کہ لڑکا اسے اپنی محبت کا اظہار اپنی زبان سے نہ کرلے، میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کبھی ایسا کیا ھے!!!! اس نے پلٹ کر کہا کہ ابھی وہ منحوس وقت نہیں آیا اور نہ آئے تو اچھا ھی ھے، کیونکہ میں تیری حالت جو دیکھ رھا ھوں،!!!! پھر وہ مجھے یہ ضرور کہتا کہ کیا ھوجائے گا صرف ایک بار اس سے کہہ تو دے وہ کیا کرے گی یا تو وہ بھی اقرار کرلے گی یا زیادہ سے زیادہ وہ انکار ھی کردے گی اور ناراض ھوجائے گی، اور کیا ھوگا تجھے کھا تو نہیں جائے گی، یا مجھے اجازت دے، میں تیرا پیغام اس تک پہنچا دیتا ھوں، پھر دیکھی جائے گی،!!!! میں فوراً اسے اس بات پر سختی سے منع کردیتا اور تاکید کرتا کہ خدارا ایسا کبھی نہ کرنا، وہ بس مجھے ایسے ھی اچھی لگتی ھے، کم از کم وہ مجھ جان تو چھڑکتی ھے،!!! اس کا پھر آخر میں یہی جواب ھوتا کہ بیٹا ایک دن تو بہت پچھتائے گا!!!

میں اس سے یہی کہتا کہ یار میں اسی بات سے تو ڈرتا ھوں کہ کہیں میں اس سے اس دوستی سے بھی نہ چلا جاؤں، جب مجھے موقعہ ملے گا میں خود ھی کسی دن کہہ دوں گا، تیری نصیحت کی کوئی مجھے ضرورت نہیں ھے !!! اکثر میری اس سے یہی بحث ھوتی تھی، آج وہ مجھے بہت شدت سے یاد آرھا تھا، نہ جانے کیا بات ھے ، اس دن سے مجھے ملا ھی نہیں جب سے اس نے مجھے انکا پتہ بتایا تھا اور اس نے میرے ساتھ جانے پر بھی انکار کردیا تھا !!!!!

اب تو لگتا تھا کہ اب تمام ھی راستے بند ھوگئے ھیں، اسی طرح جب سے نئے گھر میں شفٹ ھوئے، ایک تو اتنا دور ھے کہ پہنچتے پہنچتے شام ھوجاتی ھے اور دوسرے سارے کام بھی ادھورے ھی رہ جاتے ھیں، اب دماغ میں کچھ سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ھوچکی تھی، نئی جگہ نئے لوگ، اور کچھ نئے دوست بھی بن گئے، اچھا صاف ستھرا ماحول تھا، علاقہ بھی اچھا تھا، لیکن میرا دل اور دماغ پر تو کچھ اور ھی چھایا ھوا تھا، اتنی بےعزتی کے باوجود بھی دل ادھر ھی اٹکا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!
 
Top