بھولی بسری یادیں،!!!!!!

مجھے دراصل بچپن سے ھی ادب اور آرٹ کا شوقین تھا اور یہ شوق مجھے راولپنڈی کے کینٹ پبلک اسکول، صدر سے شروع ھوا جہاں پر میں نے پرائمری تعلیم حاصل کی تھی اور میں اس اسکول کو کبھی نہیں بھول سکتا ھوں، جہاں میرا یہ شوق پروان چڑھا - یہ1955 سے 1958کا زمانہ تھا-اسکی چند مخصوص وجوھات بھی تھیں کاش کہ ھمارے تمام تعلیمی ادارے بھی ان ھی خصوصیات کے حامل ھوتے

- سب سے پہلے تو مین یہ کہونگا کہ جتنے بھی وھاں استاد اور منتظمین تھے سب کے سب تجربہ کار اور پرخلوص تھے اور انہیں یہ اچھی طرح علم تھا کہ بچوں کی بنیادی تربیت کیسی ھونی چاھئے -

- اس وقت کے لحاظ سے اتنے اعلیٰ ذوق رکھنے والے استاد شاید ھی کہیں خوابوں میں ملیں، یہ احساس مجھے بعد میں بڑی کلاسوں میں جانے کے بعد ھوا ، کیونکہ اس وقت 5 سے 8 سال کی عمر تک کے بچوں کو اتنا شعور کہاں ھوتا ھے، جو اچھے برے میں کوئی تمیز کر سکیں، پھر اتنی عمر کے بچوں کا مستقبل بھی تو صرف استادوں اور والدیں کے ھاتھوں میں ھوتا ھے -

میں یہ بتا رھا تھا بچوں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں اور میری یہ خوش قسمتی تھی کہ میری ابتدائی تعلیم ایک اچھے تعلیمی ادارے سے شروع ھوئی،

کبھی کڑاکے کی سردی اور کبھی شدید گرمیوں کی تپش، میں اس سے بےخبر روزانہ گلے میں بستہ ٹانگے ھاتھ میں لکڑی کی تختی اٹھائے،صبح سویرے ناشتہ کرکے چھوٹی بہن کا ھاتھ پکڑے، اپنے اسکول کی طرف پیدل رواں دواں رھتا تھا - اسکول سے واپسی بھی اسی انداز سے رھتی تھی - اور روز پیدل تقریباً 6 یا 7 کلو میٹر کا آنا جانا رھتا تھا -

گھر پر دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اسکول کے گھر کا کام کیا اور ھم اپنے والد صاحب کا انتظار بہت بےچینی سے کرتے رھتے تھے، کہ وہ ھمیں کب باھر گھومانے لے جائیں کیونکہ وہ ھمیں بلا ناغہ روزانہ دفتر سے واپس آکر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ھمیں پیدل گھومانے ریس کورس گراونڈ میں گھومانے لے جاتے تھےجو کہ گھر سے بہت قریب تھا، اس دوراں والدہ صاحبہ کھانے وغیرہ کی تیاری کرتیں اور ھمیں والد صاحب مغرب کی نماز سے پہلے واپس گھر لےآتے، نماز سے فارغ ھو کر ھمیں کچھ پڑھاتے اور اسکول کا کام دیکھتے -
اسی اثناء مین عشاء کی نماز کا وقت ھو جاتا، والد صاحب تو عشاء کی نماز پڑھنے باھر چلے جاتے اور ھم بہن بھائی کچھ دیر اپتی والدہ کے ساتھ خوب لاڈ پیار کرتے اور والدہ بھی ھمارے ساتھ خوب ہنست بولتی، کھیلتی رھتیں اور بعد میں جیسے ھی والد صاحب عشاء کی نماز پڑھکر واپس آتے، والدہ فوراً دستر خوان لگاتیں اور کھانے کے بعد والد اور والدہ ھماری زد کرنے پر روزانہ کہانی سناتے اور ھمیں پتہ ھی نہ چلتا کہ کب ھم سو گئے صبح ھو نے پر والدہ ھمیں اُٹھاتیں اسکول جانے کے لئے، اور روز کی طرح پھر زندگی اسی طرح رواں دواں رھتی -
وہ ماں کا دُولار اور لاڈ پیار جب بھی یاد آتا ھے تو ا آنکھوں میں آنسو آجاتے ھین، وہ بچپن کی ھماری معصومیت اور ماں کا گلے لگانا، کھیلنا مسکرانا ھمارے پیچھے بھاگنا وہ کیا دن تھے، جب بھی وہ دن یاد آتے ھیں کلیجہ منہ کو آتا ھے،

آج میری والدہ جو اب کافی ضعیف ھیں، وہ کراچی میں اپنے گھر میں مجھ سے چھوٹے اور منجھلے بھائی اور انکے بیوی بچوں کے ساتھ ھیں، اور میں اور سب سے چھوٹا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ پردیس میں ھیں، اور اپنی والدہ کی خدمت کیا کریں بس ٹیلیفوں پر گفتگو کر لیتے ھیں، ایک دفعہ عمرے کی سعادت آنہیں حاصل ھوئی، مگر حج وہ نہیں کر سکیں کیونکہ انکا کہنا یہ تھا کہ جب تک آنکی سب سے چھوٹی بیٹی یعنی میرے چھوٹی بہں کی شادی نہیں ھو جاتی، اس وقت تک وہ حج نہیں کر سکتیں-
بہن کی شادی پچھلے سال نومبر میں ھو گئی - اب انشااللٌہ انہیں ھم دونوں بھائی انہیں اس سال حج کرانے کا ارادہ ھے اللٌہ تعالیٰ ھمیں انکی خدمت کا موقع دے، آمین-

اب میں یہ سوچتا ھوں کہ میں کتنے عر صہ سے باھر ھوں، کیا میں نے اپنی ماں کے ساتھ انصاف کیا، ھر سال چھٹی جانے سے یا کچھ پیسے ان کے ھاتھ میں رکھنے کیا میرا فرض پورا ھوگیا، جبکہ والد صاحب کو بھی گزرے ھوئے بھی 17 سال بیت چکے ھیں، اور اتنا بدقسمت ھوں ان کے جنازے کو کاندھا بھی نہ دے سکا کیونکہ میں اس وقت 1990 میں جدہ میں تھا اور مجھے والد کی انتقال کی خبر گھر والوں نے نہیں دی تھی،اور دوسروں کو منع بھی کیا ھوا تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ والد صاحب اور میں ایک دوسرے کو بہت چاھتے تھے اور دوسرے 12 دن ھی ھوئے تھے پاکستاں سے آکر اور میرے بچے اس وقت پاکستان میں تھے آج تک مجھے اس بات کا دکھ ھے-
ان تمام باتوں کے باوجود بھی میری والدہ مجھ سمیت تمام بہن بھائیوں اور انکے تمام بچوں سے بہت محبت کرتی ھیں، جب بھی میں اپنی فیملی کے ساتھ چھٹی پاکستان جاتا ھوں، وہ مجھے اور میرے بچوں کو گلے لگا کر خوب روتی ھیں ، میری کوشش یہی ھوتی ھے کہ زیادہ تر وقت ین کے ساتھ گزاروں،
ان کے ساتھ رہ کر مجھے وہ اپنا تمام بچپن کی باتیں یاد آجاتی وہ اُن کا لاڈ کرنا گلے سے لگانا، ھمارے ساتھ گھر میں کھیلنا ھمارے پیچھے پیچھے بھاگنا کبھی ھم میں سے کوئی بیمار ھوجائے تو ساری ساری رات انکا جاگنا، بس آنکھیں بند کئے سوچتا رھتا ھوں -
میں بس چھٹیوں میں بس ان کو دیکھتا رھتا ھوں، ساتھ بچپن کی باتیں اُن سے پوچھتا بھی رھتا ھوں اور ساتھ اپنے بچپن کی تصویریں بھی دیکھتا رھتا ھوں جو انہوں نے سنبھال کر رکھی ھیں، کئی باتیں میرے بچپن کی مجھے خود انکی زبانی ھی پتہ چلی ھیں اور پھر تمام بچپن کی باتیں ذھن میں ایک فلم کی طرح گھوتی رھتی ھیں
والدین کی خدمت جتنی بھی کی جائے کم ھے یہ احساس ھمیں اس وقت ھوتا ھے کہ جب ھمارے بچے بڑے ھو کر ھماری باتوں کو نصیحتوں کو رد کردیتے ھین -!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،!!!!!!،2 - بچپن کا سنہرا دور

میں بس چھٹیوں میں بس ان کو دیکھتا رھتا ھوں، ساتھ بچپن کی باتیں اُن سے پوچھتا بھی رھتا ھوں اور ساتھ اپنے بچپن کی تصویریں بھی دیکھتا رھتا ھوں جو انہوں نے سنبھال کر رکھی ھیں، کئی باتیں میرے بچپن کی مجھے خود انکی زبانی ھی پتہ چلی ھیں اور پھر تمام بچپن کی باتیں ذہن میں ایک فلم کی طرح گھوتی رھتی ھیں
والدین کی خدمت جتنی بھی کی جائے کم ھے یہ احساس ھمیں اس وقت ھوتا ھے کہ جب ھمارے بچے بڑے ھو کر ھماری باتوں کو نصیحتوں کو رد کردیتے ھین -!!!!!!!


بچپن، لڑکپں، جوانی اور بڑھاپا، انسان ان ھی تمام ادوار سے گزرتا ھوا اپنی آخری منزل کی طرف بڑھتا ھے،!!!!

- بچپن گھر کے حوالے
- لڑکپں باھر کے حوالے
- جوانی خود کے حوالے
- بڑھاپا اللٌہ کے حوالے

میری کوشش یہی ھوگی کہ ھر ایک دور کو انکے تمام مثبت اور منفی حقائق سے روشناس کراؤں، جن سے ماضی میں خود دو چار ھوا ھوں -
ویسے یہ بہت مشکل ھے کہ اپنے گزرے ھوئے کل کو سامنے لانا، خاص طور سے منفی پہلو کو -

اکثر ھم اپنی بری عادتوں اور نقصانات سے پردہ نہیں اٹھاتے، جو کہ بالکل غلط ھے کم از کم ھمیں ان اپنی تمام برائیوں اور نقصانات سے لوگوں کے علم میں لانا چاھئے تاکہ جو تکلیفیں آپ نے ان برائیوں اور نقصانات سے اٹھائی ھیں، دوسرے لوگ ان سے بچیں اور خسارہ نہ اٹھائیں -

ھاں تو دوستوں بات ھو رھی تھی بچپن کی معصومیت کی، اس دور میں ھر ایک کا بچپن دوسروں کے رحم و کرم پر ھوتا ھے، چاھے تو اسے بگاڑ دیں چاھے تو سنوار دیں-

ھم سب کا یہ فرض ھے کہ ھر کسی کے بچپن کی معصومیت سے نہ کھیلیں بلکہ اپنا فرض سمجھتے ھوئے ان کی تربیت ایک اچھے ماحول میں ترتیب دے کر ان کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں، کیونکہ آج کے یہ معصوم کل کے ھمارے ملک کا روشن مستقبل ھیں،!!!!!!

میں اپنے بچپن کی کچھ یادداشت کے حوالے سے خود پر گزرے ھوئے اصل حقائق کی روشنی میں چند اھم نکات کو پیش کرنے کی کوشش کررھا ھوں - تاکہ پڑھنے والوں کو صحیح حقیقت کا علم ھو اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق بہتر سے بہتر کوشش اپنی آنے والی نئی نسلوں کی تربیت کیلئے کرسکیں -

میں نے گذشتہ باب میں اپنے پرائمری اسکول کے بارے میں تحریر کیا تھا، جو ایک واقعی مثالی اسکول تھا وھاں میں نے اپنے بچپں کے تین سال بہت ھی ایک منظم اور صحیح تربیت کے دائرے میں گزارے، جسکا فائدہ مجھے اپنے ھر اچھے برے دور میں ھوا -

وہاں اسلامی تعلیمات کے لیے روزانہ ایک مخصوص پیریڈ ھوا کرتا تھا، جس میں قران کی تعلیم بہت عمدہ طریقے سے بمعہ ترجمہ اور تفسیر کے دی جاتی تھی، جو قرآنی سورتیں مجھے اب تک یاد ھیں یہ وھیں کی عنائت ھے، اس کے علاوہ سیرت نبوی اور تمام اسلامی اصولوں کو اتنے خوبصورت طریقوں سے ھر بچے کے ذہن میں اس طرح بٹھادیا جاتا تھا کہ شاید ھی کوئی بھول سکے-

دوسرے اس اسکول میں پانچویں جماعت تک لکڑی کی تختی پر لکڑی کے قلم سے اردو رسم الخط کی تربیت دیتے تھے - اور ھر کام کالی سلیٹ پر بچے چاک سے لکھا کرتے، اس کے علاوہ انگلش کے لئے چار لائنوں والی کاپی پر پنسل سے پریکٹس کرائی جاتی تھی، وھاں پر پانچویں جماعت تک کوئی فاونٹین پین استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی- اور حساب کے کام کیلئے بھی صرف اور صرف پنسل ھی کی اجازت تھی -

تیسری خصوصیت جو سب سے اچھی یہ تھی کہ روزانہ اسمبلی کے دوران ھر کلاس کے بچوں کے ھاتھ کے ناخونوں، بالوں کو، لباس کو اور جوتے تک بہت سختی سے چیک کئے جاتے تھے، اگر کسی بچے میں کوئی بھی ذرہ سی بھی چیکنگ کے دوران غلطی پائی گئی تو فوراً لائن سے نکال دیا جاتا تھا اور سب کے سامنے اسی وقت غلطی کے مناسبت سے سزا ملتی تھی اور ایسا بہت کم ھوتا تھا، کیونکہ ھر بچہ گھر سے مکمل طور سے تیار ھو کر آتا کرتا اور اس میں والدیں خود بچے کو تمام تیاریوں کے ساتھ بچوں کو صاف ستھرائی کے ساتھ اسکول میں بھیجا کرتے تھے اور بچوں کو بھی فکر رھتی تھی-

چوتھی بات بچوں کی صحت کے اعتبار سے ھر کلاس کا ایک الگ سے پی ٹی کا بھی پیریڈ لازمی تھا، جہاں بچوں کو ورزش کی تربیت دی جاتی تھی، اور سکھانے والے بہترین ماھرین چنے ھوئے تھے، اور بہت سے کھیلوں کی تربیت بھی دی جاتی تھی جن سے بچے بھی خوشی سے سالانہ کھیلوں میں حصہ بھی لیتے تھے-

ایک اور خوبی ان استادوں میں یہ تھی کہ وہ خود بھی باقاعدہ ڈسپلین کی پابندی کرتے تھے میں نے کبھی انھیں آپس میں بیہودہ مذاق یا گالی گلوچ کرتے نہیں پایا اور اس کے علاوہ کبھی اسکول کے احاطے میں یا کلاس روم میں سگریٹ پیتے ھوئے نہیں دیکھا،

اب آپ یہ بتائیے کہ کیا اب ھمارے بچوں کی بنیادی تعلیم کیلئے کیا یہ تمام خصوصیات ھمارے بچوں کے اسکولوں میں موجود ھیں، کیا ھمارے بچون کے اُستاد حضرات ان اصولوں پر گامزن ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟

1958 مین اس اسکول کو مجھے مجبوراً الوداع کہنا پڑا، کیونکہ والد صاحب کا تبادلہ کراچی ھوچکا تھا، اس اسکول کو چھوڑتے وقت مجھے یاد ھے کہ بہت دکھ ھوا تھا، جبکہ میری عمر صرف 8 سال کے لگ بھگ تھی اور آج تک مجھے اس کا بہت ملال ھے، کیونکہ اسکے بعد مجھے ایسے اسکول کا ماحول نہیں مل سکا -

اُس وقت کے دور میں اتنی سہولتیں تو نہیں تھیں لیکن لوگوں کے پاس دوسروں کے لئے وقت تھا اپنی ھر دکھ تکلیف ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے تھے، اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے-

وہ سادہ سی، قناعت پسند اور پرسکون زندگی جہاں پر ایک محدود اپنی ضروریات تھیں - اور زندگی بہت خوش و خرم سے گزری رھی تھی،!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،!!!!،3- بچپن اور تیزگام کا سفر »

1958 میں اس اسکول کو مجھے مجبوراً الوداع کہنا پڑا، کیونکہ والد صاحب کا تبادلہ کراچی ھوچکا تھا، اس اسکول کو چھوڑتے وقت مجھے یاد ھے کہ بہت دکھ ھوا تھا، جبکہ میری عمر صرف 8 سال کے لگ بھگ تھی اور آج تک مجھے اس کا بہت ملال ھے، کیونکہ اسکے بعد مجھے ایسے اسکول کا ماحول نہیں مل سکا -

تیزگام اپنی منزل کی طرف تیزی سے رواں دواں تھی اور میں ٹرین کی کھڑکی کے پاس بیٹھا، باھر سامنے کے مناظر کو بہت تیزی کے ساتھ مخالف سمت کی طرف بھاگتے ھوئے بڑے انہماک سے دیکھ رھا تھا، عمر تقریباً آٹھ برس کے لگ بھگ ھوگی، ویسے بھی مجھے، کوئی بھی سواری ھو بس ھو کوئی کار یا ٹیکسی یا پھر کوئی گھوڑا گاڑی ھی کیوں نہ ھو ھمیشہ ایک کنارے بیٹھنے کا شوق رھا ھے، کیونکہ مجھے شروع بچپن سے ھی سفر کے دوران باھر کا منظر دل کو بہت اچھا لگتا تھا اور یہ ھمیشہ خواہش رھی کے یہ سفر کبھی ختم نہ ھو، جو اب تک قائم ھے، اور اب تک سفر میں ھی ھوں -پہلے تو والدیں سے ضد کرکے ایک کونا پکڑ کر بیٹھا کرتا تھا اور اب درخواست کرکے کونے کی سیٹ لینے کی کوشش کرتا ھوں، کھڑکی کے پاس بیٹھنے کا ایک الگ ھی مزا ھے، کیونکہ اس سے چاھے کوئی بھی سواری ھو، اندر کے ماحول سے نکل کر انسان باھر کی دنیا میں گم ھو جاتا ھے، ایسا لگتا ھے کہ ھم بھی باھر کا ایک حصہ ھیں، شاید سب لوگ بھی میری طرح ایسا ھی سوچتے ھوں گے -

ایک بات کا تو میں یہاں ذکر ضرور کرونگا کہ میری اللٌہ تعالیٰ نےدیر یا سویر لیکن تقریباً تمام خواہشات کو پورا ضرور کیا، اور مجھے اس کا تو مکمل یقین ھے کہ اگر آپ نیک نیتی سے کوئی دل سےخواھش کریں تو وہ ضرور اس کی تعبیر حقیقت میں ملتی ھے -

اس وقت تیزگام سے راولپنڈی سے کراچی کا سفر تقریباً 24 سے 25 گھنٹے میں مکمل ھوتا تھا، والدین کی زبانی مجھے معلوم ھوا کہ ٹرین کا میرا یہ پانچواں سفر ھے، کیونکہ والد صاحب کا ھر دو تین سال بعد تبادلہ ضرور ھوتا رھتا تھا، کراچی اور راولپنڈی کے درمیان، پچھلے سفر کا کچھ کچھ دھندلا سا یاد ھے شاید 5 سال کی عمر ھوگی اور کراچی کا اپنا گھر بھی ھلکا ھلکا ذہن میں خاکہ بھی ھے،!!!!!

خیر بات ھورھی تھی اپنے تیزگام کے سفر کی، ھر سفر میں ھر مختلف موسموں کا لطف اٹھانے کو بھی ملا، سرسبز لہلہاتے کھیت خاص طور سے گندم اور مکئی کے سرسبز شاداب کھیت، تو کبھی پیلے پیلے سرسوں کے لہراتے ھوئے کھیت، کبھی کبھی فصلوں کی کٹائی کے وقت سب مردوں، عورتوں اور بچوں، چھوٹے بڑوں کو دیکھ کر اتنی خوشی ھوتی تھی کہ میں بتا نہیں سکتا، اکثر وہ ٹرین کو دیکھ ھاتھ ہلاتے، تو میں بھی خوشی سے ھلاتا، ایسا لگتا جیسے وہ مجھے الوداع کہہ رھے ھوں اس وعدے پر کہ میں دوبارہ واپس آؤں، وہ سب مجھے اپنے سے لگتے تھے،!!!!!

میں ھمیشہ اسی انتطار ھی میں رھتا تھا کہ دوبارہ ٹرین کا سفر کب ھوگا کیونکہ سرسبز کھیتوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں مجھے بار بار یاد آتی تھین، موسمبی مالٹے سنگتروں کے باغات جب سامنے سے گزرتے تو دل چاھتا تھا کہ کود جاؤں اور باغوں میں جاکر خوب کھیلوں اور موسمبیوں مالٹوں کو توڑ توڑ کر کھاؤں، اس کے علاوہ دریاؤں اور انکے پلوں پر سے گزرتے ھوئے ایک عجیب سی خوشی محسوس ھوتی تھی اور ٹرین کی ایک مخصوص آواز کھٹ کھٹا کھٹ مختلف جگہاؤں پر اپنی مخصوص آوازوں کے سر بدل دیتی تھی کھیتوں میں ایک الگ آواز، دریاؤں کے پلوں پر کوئی اور طرز، اور شہروں کے بیچ میں سے گزرتی ھوئی ایک نئے سروں میں سیٹی بجاتی شور مچاتی گزر رھی ھوتی تھی - کیا خوبصورت لگتا تھا کبھی کبھی تو ایک خوف سا بھی لگتا تھا جب ھماری ٹرین کسی سرنگ میں سے گزر رھی ھوتی تھی، ایک دم اندھیرا ھو جانا، اور ٹرین کی آواز میں بھی ایک ھلکا سا ڈراونی تاثر، ساتھ ھلکی سی لایٹ بھی کمپارٹمنٹ میں آن ھو جاتی، اور سب کے چہرے ایک عجیب سا ڈرا ڈرا سا ماحول بن جاتے، اور میں پھر بھی اس ماحول میں ھلکے خوف کے ساتھ لطف اندوز بھی ھوتا رہتا -

اس وقت تیزگام صرف بڑے بڑے اسٹیشن پر ھی رکا کرتی تھی، مجھ پر وہاں کے مختلف حاکروں اور قلیوں کی آوازیں بھی ایک خوشی کا تاثر چھوڑتی تھیں، چاھے رات کا وقت ھو یا دن کی روشنی ھو ھر وقت ٹرین کے رکتے رکتے وھی ایک ھی قسم کی آوازیں شروع ھوجاتیں -

کبھی “ چائے گرم “ تو ساتھ ھی “ کھانا گرم“ اور کبھی“ آلو چنے کی چاٹ“ کسی اسٹیشن پر “ملتانی حافظ جی کا سوہن حلوہ“ تو کہیں “حیدراباد کی چوڑیاں“ اور گرمیوں میں “ ٹھنڈی بوتل “ تو کبھی “لسی اور دودھ کی بوتلیں“ بھی لوگ بیچتے نظر آتے، میرا دل تو بہت چاھتا تھا کہ یہ چیزیں خرید کر کھاؤں لیکن والد صاحب کی ڈانٹ کی وجہ سے مجبور تھا، بس وہ ھمیشہ گھر سے ساتھ لائی ھوئی چیزوں پر ھی گزارا کرتے- اور کبھی بھی مجھے اسٹیشن پر اترنے بھی نہیں دیا - مگر یہ سارے شوق بعد میں ضرور پورے کئے جب کچھ بڑ ا ھوا اور دوستوں کے ساتھ ٹرین میں سفر کی اجازت ملی،!!!!!!

گھر کی بنائی ھوئی چیزوں میں زیادہ تر قیمہ، پراٹھے اور اچار یا چٹنی دوپہر یا رات کے کھانے کیلئے اور چھوٹے بہن بھائی کیلئے علیحٰدہ سے دودھ اور ان کے مطلب کی چیزوں کا بھی انتظام ھوتا تھا، اس کے علاوہ جب کبھی میں باھر کی چیزوں کیلئے ضد کرتا یا پھر والد صاحب کی فرمائش پر، کچھ پھل، چیوڑہ دال سیو اور خشک میوہ جات راستہ بھر میں والدہ اپنی ایک ٹوکری سے وقفے وقفے سے نکالتی رھتیں مگر مجھے کبھی بھی باھر کی چیزیں کھانے نہیں دیتے تھے،!!!!!!

تیزگام سندھ کے صحراؤں کو عبور کرتی ھوئی اپنی مخصوص سروں میں سیٹیاں بجاتی ھوئی کھٹ کھٹا کھٹ بہت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی - دوسرے دن کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی،
چلتی ٹرین میں منہ ھاتھ دھونا بہت مشکل ھوتا ھے لیکن والد کسی نہ کسی طرح سے منہ ھاتھ دھلوا ھی دیا، پھر ڈبل روٹی اور شاید مکھن یا جام وغیرہ سے ناشتہ کرکے فارغ ھوئے ، کسی اسٹیشن سے والد صاحب نے کیتلی میں چائے بھروا لی تھی، اور شاید دودھ بھی ایک بڑے گلاس میں ٌلے چکے تھے، جو ھم چھوٹے بہن بھائیوں کیلئے تھا -

میں یہ بالکل نہیں چاہتا تھا کہ اس تیزگام کا سفر کبھی ختم ھو، والد صاحب کی زبانی ھی پتہ چلا کہ اب ھم کراچی پہتچنے والے ھیں، کراچی کے کینٹ اسٹیشن کے نزدیک پہنچنے سیے پہلے ٹرین کی رفتار کچھ دھیمی ھو رھی تھی اور والد اور والدہ اپنا سارا سامان سمیٹنے میں مصروف تھے، ھم بہں بھائی ٹرین کی کھڑکی سے باھر دیکھنے میں مگن تھے، اور میں کسی فلاسفر کی ظرح اپنی بہن کو شہر کی باتیں بنا کر اسے مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کررھا تھا ،جبکہ مجھے خود کچھ معلوم نہیں تھا، وہ بھی میری کسی بات کو تسلیم ھی نھیں کرتی تھی کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ سقراط کی بھتیجی تھی،!!!!

اکثر ھم دونوں کے درمیان جھگڑا ھی رھتا تھا ھاں اگر کوئی کام پڑ جائے تو خوشامد کرنے سے نہیں چوکتی تھی، وہ مجھ سے تقریباً دو سال چھوٹی تھی - ویسے ھم دونوں بہن بھائی میں محبت بھی بہت تھی، ساتھ کھیلتے ساتھ لڑتے جھگڑتے پھر ایک دوسرے کو منا بھی لیتے تھے، تیسری تو بہت چھوٹی تھی -

ٹرین پلیٹ فارم پر آہستہ آھستہ رک رھی تھی باھر لوگوں کا ایک ھجوم تھا، قلی اپنے چکروں میں پھر رھے تھے اور کچھ اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو لینے آئے تھے، کچھ ھاتھ ھلا رھے تھے کچھ ٹرین میں جھانک رھے تھے کہ شاید جاننے والے پر نظر پڑ جائے، میں بھی سوچ رھا تھا کہ ھمیں بھی کوئی لینے والا آیا ھوگا، لیکن میرا اندازہ غلط نکلا، ابا جی نے کسی کو اطلاع ھی نہیں دی تھی، بہرحال اتنا زیادہ سامان اور صرف دو قلی، جو ھمارا سارا سامان اٹھائے ھوئے تھے، ان کے پیچھے پیچھے ھم سب چلتے ھوئے اسٹیشن کے باھر نکل آئے،!!!!

باھر کا منظر بھی معمول کی طرح لوگوں کا ایک ھجوم اور اس وقت تانگے والے، سایکل رکشہ والے، گدھا گاڑی والے، آواریں لگا لگا کر اپنے پاس بلا رھے تھے، دو چار تو والد صاحب کے آگے پیچھے بھی منڈلا رھے تھے، مگر والد صاحب بچتے بچاتے ان سے اول فول بکتے ھوئے، ایک گدھا گاڑی کے پاس جاکر رک گئے، قلیوں کو کچھ دے دلا کر فارغ کیا اور بھر گدھا گاڑی والے سے بات کرنے لگے شاید سامان لے جانے کیلئے،!!!!

میری نظریں تو سامنے کھڑی ھوئی ٹراموں پر ٹکی ھوئی تھیں، بالکل ٹرین کی طرح سڑک کے اوپر باری باری پٹری پر ٹن ٹن کرتی ھوئی چل رھی تھیں، مین حیران بھی تھا اور شاید یہ سوچ رھا تھا کہ اگر والد صاحب ا اس ٹرام میں بیٹھ کر گھر جائیں تو کتنا مزا آے، باھر اس کے علاوہ اس وقت کی ٹیکسیاں جو بہت بڑی بڑی تھیں اور کچھ بسیں بھی نظر آرھی تھیں، جن کے آگے پیچھے سے دھواں بھی اٹھ رھا تھا اور پوری بس تھرتھراتی ھوئی کانپ بھی رھی تھی اور جو بسیں خاموش تھیں انکے ڈرائیور شاید بس کو اسٹارٹ کرنے کیلیئے آگےایک سریہ سا ڈال کر بار بار گھمارھے تھے، اس وقت ھر موٹرگاڑی کو اسی طرح اسٹارٹ کیا جاتا تھا،

مگر میری امیدوں پر پانی پھر ھی گیا جب ابٌا حضور نے چلٌا کر کہا چلو بیٹھو، میں نے گھبرا کر جو مڑ کے دیکھا تو کیا دیکھتا ھوں سارا سامان گدھا گاڑی پر جم چکا تھا اور والدہ اپنا کالا برقعہ سنبھالتی ھوئی اوپر سامان کےاوپر بیٹھنے کی کوشش کررھی تھیں پھر ابٌا جی نے گود میں اٹھا کر ھم بہن بھائی کو اوپر بڑی مشکل سے بٹھایا اور خود گدھا گاڑی چلانے والے کے برابر بیٹھ گئے اور پھر چلاچل گدھا بیچارہ ساری مخلوق بمعہ سامان کو لئے گاڑی بان کے اشارے پر گاڑی کھینچنے کی کوشش کر رھا تھا، بڑی مشکل سے کچھ لوگوں نے گدھاگاڑی کو دھکا لگا کر بےچارے گدھے کو گاڑی کھینچنے میں مدد کی -

بس پھر کیا تھا گدھے نے اپنی چال دکھائی اور آہستہ آہستہ دوڑنا شروع کردیا، گاڑی بان بھی اپنی ایک مخصوص بولی میں گنگناتا ھوا ساتھ ساتھ گدھے کو بھی لگام تھامے ھدایتیں دیتے ھوئے مست تھا، اس وقت اسے مشکل پیش آتی جب کوئی چوراھا سامنے آجاتا، اگر کوئی سپاھی ھماری طرف کا ٹریفک روک کر دوسری طرف کی گاڑیوں کے جانے کا اشارا کرتا، کیونکہ اسے گدھے کو روکنے اور دوبارہ بھگانے میں بہت مشکل درپیش آتی تھی،!!!

اس زمانے میں کوئی بھی الیکٹرک سگنل نہین ھوا کرتا تھا ، بس آپ ھر چوراھے پر سفید وردی پہنے ھوئے ایک سپاھی خود ھی ٹریفک کنٹرول کررھا ھوئے ناچ رھا ھوتا تھا - ایک عجیب سا منظر تھا، ھماری گدھا گاڑی روڈ پر دوڑی جارھی تھی اور چاروں طرف بھی ساتھ ساتھ گھوڑا گاڑیاں گدھا گاڑیاں ساتھ اُونٹ گاڑیاں بھی، سائیکل والے، سائیکل رکشہ والے کچھ اس وقت کے ٹرک، بسیں، پوں پوں کرتی کھڑکھڑاتی ھوئی چل رھی تھیں، اس وقت کے سادے لوگ بس دیکھتے اور ھمیں دیکھ کر مسکراتے ھاتھ ہلاتے ھوئے گزر رھے تھے، کبھی کبھی کوئی گڑھا وغیرہ آجاتا تو ھم سب سامان سمیت اوپر اچھل جاتے،اگر آج کل کی نظروں سے دیکھو تو ایسا لگے جیسے کوئی “ٹام اینڈ جیری“ کی کارٹون فلم چل رھی ھو - چھوٹی چھوٹی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ھر قدم پر مختلف قسم کے گڈھے، اس پر یہ خودکار سواریاں !!!!!!!

بڑی مشکل سے یہ شاھی سواری منزل پر پہنچی، حالت خراب ھو چکی تھی سب پرزے ڈھیلے ھو چکے تھے، پہنچنے سے پہلے ھی کچھ بچوں کو گدھا گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے دیکھ رھا تھا اور گاڑی کے رکتے ھی کئی لوگ بھی نزدیک آگئے اور سامان اتارنے میں مدد کرنے لگے دو تین عورتیں آئیں اور والدہ کو اور چھوٹی بہنوں کو ساتھ لے گئیں اور گدھاگاڑی کے سامنے ابٌاجی کے پاس لوگوں کو سامان اتارتے دیکھ رھا تھا اور مجھے بھی لوگ پیار سے بلارھے تھے شاید یہ سب والد صاحب کے دوست تھے،!!!!!!

میں بھی بہت تھکا ھوا لگ رھا تھا، شام ھونے والی تھی ابٌاجی میرا ہاتھ تھامے مجھے نئے گھر کی طرف لے جارھے تھے اور میں غنودگی میں ان کے ساتھ بڑی مشکل سے چل رھا تھا، پھر پتہ ھی نہیں چلا کہ کب آنکھ لگ گئی، رات کے نہ جانے کس وقت والدہ نے کھانے کیلئے اُٹھایا دیکھا تو ایک لالٹین جل رھی تھی، شاید لوگون کے گھروں سے کچھ کھانا آیا ھوا تھا ، سب کھانے میں مصروف تھے اور میں کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اسکول کے بارے میں اور وھاں کے اپنے دوستوں کے بارے میں سوچ رھا تھا جنہیں میں بہت دور چھوڑ آیا تھا - !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،!!!!،4- بچپن اور نیا یادگار محلہ

میں بھی بہت تھکا ھوا لگ رھا تھا، شام ھونے والی تھی ابٌاجی میرا ہاتھ تھامے مجھے نئے گھر کی طرف لے جارھے تھے اور میں غنودگی میں ان کے ساتھ بڑی مشکل سے چل رھا تھا، پھر پتہ ھی نہیں چلا کہ کب آنکھ لگ گئی، رات کے نہ جانے کس وقت والدہ نے کھانے کیلئے اُٹھایا دیکھا تو ایک لالٹین جل رھی تھی، شاید لوگون کے گھروں سے کچھ کھانا آیا ھوا تھا ، سب کھانے میں مصروف تھے اور میں کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اسکول کے بارے میں اور وھاں کے اپنے دوستوں کے بارے میں سوچ رھا تھا جنہیں میں بہت دور چھوڑ آیا تھا - !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

تھکان کے وجہ سے صبح اٹھنے میں مجھے بہت مشکل پیش آئی، ورنہ چاھے کچھ بھی ھوجائے صبح جلدی اٹھنے کی ایک عادت تھی، چاھے چھٹی کا دن ھی کیوں نہ ھو، مگر دو دن کی تھکان کی وجہ سے اٹھتے اٹھتے کافی دور ھو چکی تھی، چاروں طرف ساماں بکھرا ھوا تھا، والدہ ھماری کچھ اور محلےکی عورتوں کے ساتھ مل کر ساماں کو ترتیب دے کر قرینے سے رکھ رھی تھیں، اور چند چھوٹے بڑے بچے میرے چاروں طرف مجھے اپنی طرف توجہ دلانے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے تاکہ ان کی دوستی کے حلقے کا منمبر بن جاؤں، کچھ بچے دور سے ھی کھڑے مجھے دیکھ کر ھنس رھے تھے، جیسے میں کوئی کسی اور دنیا کی مخلوق ھوں -

مجھے کچھ کچھ تین سال پہلے کی دھندلی سی تصویر نمایاں ھوتی نظر آرھی تھی، جب میں شاید تقریباً پانچ سال کا تھا، اور والدہ اور دوسرے بھی مجھے یاد دلانے کی کوشش میں مصروف تھے، جو مجھے آھستہ آھستہ ذھن کے ایک گوشے میں کچھ بھولے بسری باتیں کروٹ لے رھی تھیں - بہرحال کچھ جاننے کی کوشش میں باھر کی طرف رخ کیا اور اس نئی جگہ کو اپنا پن دینے کے لئے آس پاس کا نظارہ کرنا شروع کیا، کچھ میرے ھم عمر بچے بھی ساتھ رھے، جیسے وہ مجھے گائیڈ بن کر کسی کھنڈرات کی سیر کرارھے ھوں اور ساتھ ساتھ کمنٹری بھی چل رھی تھی،
آٹھ سال کی میری عمر اور نئی جگہ نئے لوگ نئے شہر میں ایک پرانا محلہ، نہ بجلی، نہ پانی کی سہولت، میں تو کچھ پریشان سا ھوگیا،!!!!!
کیونکہ جہاں سے ھم سب آئے تھے وھاں پکے دو کمرے کا سرخ اینٹوں کا بنا ھوا کوارٹر تھا، پانی اور بجلی کا آرام تھا چمنی والی انگیٹھیاں دونوں کمروں میں تھیں، کیونکہ وھاں سردی بہت ھوتی تھی، سردیوں میں ھم سب انگیٹھی کے چاروں طرف بیٹھ کر ٹھنڈ سے بے فکر خوب والدین کے ساتھ لاڈ پیار میں لگے رھتے، کیا سہانا وقت تھا - اب نہ جانے کیوں رھنے کیلئے اس جگہ کو ابا جی نے منتخب کیا، ایک کچی آبادی میں، شاید سرکار سے مکان کا کرایہ وصول کرنے کیلئے انہوں نے اپنے لئے گورنمنٹ کی دیوار کے کنارے ایک مٹی کا کچا سا مکان بنایا تھا - وھاں پر چند اور بھی اسی طرح کے گھر تھے، لیکن سب سہولتوں سے محروم تھے - گلیاں بھی ٹیڑھی میڑھی، کچھ گھروں کی دیواریں ٹوٹی پھوٹی اور اوپر سے شور مچاتے بچے، اس ماحول کا تو میں بالکل عادی نہیں تھا -

اب کرتے کیا نہ کرتے مجبوری تھی جہاں والدین وہاں ھم، میں دو تین دن تک تو پریشان ھی رھا، اور اپنے آپ کو بہلانے کی بھی کوشش کرتا رھا، نہ کوئی مطلب کا دوست تھا، اور نہ دل مانتا تھا کہ کسی سے دوستی کروں، ایک چرچڑا پن محسوس کرنے لگا تھا -

لیکن بعد میں مجھے اس جگہ سے ایسی محبت ھوئی کہ اب جب بھی پاکستان چھٹی جاتا ھوں میں وھاں کا ضرور ایک چکر لگاتا ھوں اور اپنے کھوئے ھوئےمعصوم بچپن سے لیکر جوانی تک کی حسین یادوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ھوں - وہ علاقہ اب بھی گلیوں اور کوچوں کے حساب سے ویسا ھی ھے لیکن کافی بہتری بھی آگئی ھے، پانی بجلی اور سوئی گیس کی سہولت موجود ھے، اور تقریباً تمام مکان پکے سیمنٹ کے بن چکے ھیں اور ھمارا مکان اب کسی اور کی ملکیت ھے اس نے بھی اچھا خاصا مکان بنا لیا ھے - کاش کہ وہ مجھے یہ میرا مکان مجھے بیچ دیں، کاش کہ میرے پاس اتنا پیسا ھو کہ اس مکان کو خرید سکوں،!!!!!!

میں جب بھی اس اپنے پرانے محلے کی طرف جاتا ھوں، تو میں اپنے آپ کو چاروں طرف وھی خوشبو سے بھری ھوئی یادوں میں گھرا ھوا پاتا ھوں - یہاں میں نے تقریباً اپنی زندگی کے خوبصورت اور حسین یادوں کے ساتھ دس سال گزارے ھیں، مجھے اس علاقہ کو والدیں کی خواھش کی مطابق 18 سال کی عمر میں چھوڑنا پڑا، لیکن میں اب تک ذہنی طور پر وھیں ھوں -

کاش کہ وہ وقت دوبارہ واپس آجائے کاش !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 5- بچپن، نیا محلہ اور نیا اسکول

میں جب بھی اس اپنے پرانے محلے کی طرف جاتا ھوں، تو میں اپنے آپ کو چاروں طرف وھی خوشبو سے بھری ھوئی یادوں میں گھرا ھوا پاتا ھوں - یہاں میں نے تقریباً اپنی زندگی کے خوبصورت اور حسین یادوں کے ساتھ دس سال گزارے ھیں، مجھے اس علاقہ کو والدیں کی خواھش کی مطابق 18 سال کی عمر میں چھوڑنا پڑا، لیکن میں اب تک ذہنی طور پر وھیں ھوں -
کاش کہ وہ وقت دوبارہ واپس آجائے کاش !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!


نئی جگہ نئے محلہ میں آئے ھوئے بھی ایک ھفتہ گزر چکا تھا، لیکن تمام کوششوں کے باوجود دل لگنا مشکل نطر آرھا تھا، پنڈی میں پانچویں جماعت کی پڑھائی ادھوری چھوڑکر آنا پڑا تھا، اس لئے والد صاحب میرے داخلے کیلئے بہت پریشان لگتے تھے، روز وہ دفتر سے چھٹی لے کر آتے، جب تک میں والدہ مجھے تیار کراتیں اور پھر والد صاحب کے ساتھ انکے پیچھے پیچھے کچھ کتابوں اور کاپیوں سے بھرا بستہ گلے میں لٹکائے، چل کیا دیتا بلکہ بھاگنا پڑتا، کیونکہ ان کی رفتار بہت تیز تھی، شاید انہیں واپس دفتر بھی جانا ھوتا تھا،
راستے میں محلٌے کے بچے بھی مجھے دیکھ کر مسکراتے، اور مجھے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش بھی کرتے تاکہ میں بھی انکی “بچہ کمیٹی“ کا ممبر بن جاؤں مگر والد نے تو بہت سختی سے پابندی لگائی تھی کہ خبردار اگر ان بچوں کے ساتھ اگر میں کھیلا تو میری ٹانگیں ٹوٹنے کا اندیشہ تھا، مجھے انکے غصہ سے ویسے بھی بہت ڈر بھی لگتا تھا، لیکن آھستہ آھستہ ان بچوں کی حرکتیں بھی مجھے اچھی لگنے لگی تھی اور باوجود والدہ کے منع کرنے پر روزانہ کسی نہ کسی بہانے خاموشی سے کھسک لیتا تھا اور انکے ساتھ اس زمانے کے کھیل کھیلتا رھتا کبھی گلی ڈنڈا کبھی کنچہ کی گولیاں، پٹھو گرم، اور کبھی پتنگ بازی وغیرہ وغیرہ اور جیسے ھی اباجی کو دفتر سے واپس آتا دیکھتا ایسی دوڑ لگاتا کہ شاید اگر اسی طرح کسی ریس میں حصہ لوں تو اوٌل پوزیشن پر رھوں،!!!!

گھر پہنچتے ھی ھاتھ پیر دھوئے اور فوراً کوئی بھی کتاب اٹھا کر اس طرح پڑھنے لگا جیسے میں ھی دنیا کا سب سے بڑا پڑھاکو ھوں ، اباجی جیسے ھی گھر پہنچتے اور مجھے پیار سے دیکھتے ھوئے والدہ سے کہتے دیکھا مین نہ کہتا تھا کہ ھمارا یہ بچہ ھمارا نام ضرور روشن کریگا، والدہ معنی خیز نگاھوں سے مجھے دیکھتیں اور مسکرا کر والد صاحب کی ھاں میں ھاں ملاتیں، جبکہ انہیں پتہ تھا کہ میں ابھی ابھی باھر سے بھاگ کر آیا ھوں،!!!!!
میری والدہ میری ھر شرارتوں کو اباجی سے ھمیشہ چھپا کر مجھے پٹنے سے بچا لیتی تھیں اور ھر دفعہ خبردار بھی کرتی تھیں کہ اگر آیندہ تم نے کوئی شرارت کی یا دوبارہ گندے بچوں کے ساتھ کھیلے تو ابا جی سے شکایت لگادوں گی، لیکن میں انکی تمام نصیحتوں کو رد کردیتا کیونکہ مجھے والدہ کی عادت معلوم تھی کہ وہ مجھے ھمیشہ میری تمام حرکتوں کو اباجی سے پوشیدہ رکھتی تھیں-

والدصاحب چاھتے تھے کہ کہیں نزدیک اسکول میں میرا داخلہ ھو جائے، لیکن مشکل یہ تھی کہ ھر اسکول میں تقریباً داخلے بند ھو چکے تھے اور وہ مجھے دور بھیجنا نہیں چاھتے، اسی چکر میں ایک مہینہ گزرچکا تھا اور میرا دل بھی پڑھائی سے آھستہ آھستہ اُچاٹ ھوتا جارھا تھا، کیونکہ اب ایک مہینے کے اندر ھی باھر بچوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا، دل میں اب یہی خواھش جنم لے رھی تھی کہ داخلہ نہ ھو تو بہتر ھے -

آخر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ایک دن چھری کے نیچے آنا ھی تھا، اور مجھے ایک گورنمنٹ پرائمری اسکول میں داخلہ مل ھی گیا، اور کھیلنے کودنے کے میرے تمام خواب چکنا چور ھوکر رہ گئے، مجھے دکھ تو بہت ھوا، لیکن مرتا نہ کیا کرتا اسکول میں جانا شروع کردیا لیکن بالکل بے دلی کے ساتھ، وھاں اسکول میں ایک الگ ھی بھیڑچال دیکھنے کو ملی، کوئی بھی ڈھنگ کا بچہ نظر نہیں آیا، اور اس پر سارے استاد بھی سونے پر سھاگہ تھے اور اسکول کی تو نہ ھی پوچھیں کوئی بھی کل سیدھی نہیں تھی، ٹوٹی پھوٹی دیواریں اور جھولتی کھڑکیاں، میز کرسیاں بالکل غائب، کلاسوں میں پھٹی ھوئی دریاں وہ بھی بے ترتیبی سے بچھی ھوئی، باھر کا مین گیٹ سرے سے ھی ندارد، اور کیا کیا تعریف کروں، قسمت میں جو لکھا تھا بھگتنے کو تیار، اب کیا کرتے روز اسکول جانے لگے،!!!!

میں تو اب بُری طرح پھنس چکا تھا، نہ چاھتے ھوئے بھی اسکول جارھا تھا اور وھاں کے شیطاں بچوں سے واسطہ، کلاس میں بیٹھتے ھی ایک ھنگامہ شروع ھوجاتا، کلاس ٹیچر کی تو کیا کہیئے، انھیں کوئی فکر نہیں تھی، آتے ھی حاضری لیتے، پھر کہتے کہ فلاں صفحہ کھولو اور زبانی یاد کرو، بس یہ کہہ کر باھر نکل جاتے اور دوسرے پیریڈ میں ھی واپس آتے، اُس وقت تک کلاس کا حال بےحال ھوجاتا، آتے ھی چھڑی سے سب کو ڈانٹنے لگتے اور ایک دو کو سزا بھی ملتی، کسی کو مرغا بنا دیتے اور کسی کو چھڑی سے ھی دو چار لگادیتے اور ھر دفعہ میں ھی پھنس جاتا تھا، کیونکہ اس پانچویں کلاس کے تمام بچے صحیح منجھے ھوئے فنکار تھے، شرارت کوئی اور کرتا اور ھمیشہ مجھے ھی پھنسا دیتے اور سارے ملے ھوئے تھے کیونکہ سب مل کر میری طرف اشارہ کرکے گواھی بھی دیتے، ماسٹرصاحب کو میں کیا یقیں دلاتا، ان کا شکار میں بن ھی جاتا اور پھر تمام کلاس مجھ پر ھنس رھی ھوتی تھی،!!!!

اگر ایک ایک ان کی حرکتیں لکھنے بیٹھوں تو سب کچھ ان سب کی شرارتوں کے ھی نطر ھوجائے، گھروں سے وہ لوگ ربڑ بینڈ اور چھوٹے چھوٹے پتھر اپنے اپنے بستوں میں بھر کر لاتے تھے اور پھر کلاس روم میں ھی دوسروں کو غلیل کی طرح نشانہ لگا کر خوب وار کرتے، اور زیادہ تر میں ھی نشانہ بنتا بھی اور سزا کیلئے بھی ان ھی لڑکوں کی مجھے کھڑا ھونا پڑتا،!!!!

اکثر لڑکے تو ایک دوسروں کی کاپیاں اور کتابیں بھی چھپا دیتے، میرے ساتھ تو کچھ زیادہ ھی ھوتا تھا اور ایک دن تو ان لڑکوں نے مل کر حد ھی کردی، کہ کلاس ٹیچر نے مجھے کلاس سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ اپنے والد کو یہاں لے کر آو تو کلاس میں داخل ھونا ورنہ نہیں،!!!!! کیونکہ میرے پاس وہ مطلوبہ کاپی نہیں تھی، جبکہ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ میں نے تمام ھوم ورک مکمل کرکے اپنے بستے میں ھی رکھی تھی، یقیناً یہ لڑکوں کی ھی شرارت تھی، !!!!!!!!


کہاں لا بٹھایا مجھے یہاں، گھورتے لڑکے شکاری جیسے
کیسی جماعت ھے یہاں، چھیڑتے بچے مکاری جیسے

ھمارے لئےفرشی پیوند دری، اُنھیں عرشی میزکرسی
لگے شاھی دربار کا میلہ، اوپر شاہ نیچے درباری جیسے

ڈنڈا ھاتھوں میں وہ گھماتے، غصٌہ غضب کا وہ دکھاتے
دیکھو لگے وہ دور سے جٌلاد، تلوار لئے دو دھاری جیسے

میری حالت تو خراب ھوگئی، کلاس سے نکل کر ایک قریبی پارک میں بیٹھ کر سوچتا رھا اور روتا رھا، سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ گھر جاکر اباجی سے کیا کہوں گا، ان سے تو مجھے بہت ڈر لگتا تھا،!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 6 - بچپن اور ھماری تعلیم کا معیار،!!!!!!

میری حالت تو خراب ھوگئی، کلاس سے نکل کر ایک قریبی پارک میں بیٹھ کر سوچتا رھا اور روتا رھا، سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ گھر جاکر اباجی سے کیا کہوں گا، ان سے تو مجھے بہت ڈر لگتا تھا،!!!!!!

مجھے بچپن سے ھی اردو میں لکھنے کا بہت شوق تھا، جسکی وجہ خاص طور سے میرا وہ راولپنڈی کا اسکول تھا جہاں پر لکڑی کی تختی پر لکڑی کے قلم سے اردو رسم الخط لکھنے کا فن سکھایا گیا اور ساتھ ھی انگلش اور اسلامی تعلیمات بمعہ قران شریف کا مطالعہ اسکے صحیح تلفظ اور تشریح و ترجمہ کے ساتھ جو اوٌل جماعت سے لے کر جماعت پنجم تک باقاعدگی سے درس و تدریب دی جاتی تھی جو کہ ماہرین اساتذہ کی نگرانی میں تربیت دی گئی، جسکا کہ میں اس تعلیمی ادارہ کا تہہ دل سے مشکور ھوں اور دعا کرتا ھوں کہ ھمارے تمام تعلیمی ادارے بھی اسی طرح کے منظم انتظامیہ کے اصولوں کو اپنایں اور ھماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن کرنے کی کوشش کریں -

آج کل تو پہلی جماعت سے ھی بچوں کو سستے قسم کے کے بال پین پکڑا دئیے جاتے ھیں جس کی وجہ سے اردو کی لکھائی میں خوشخط نہیں ھوتی اور کوئی اسلامی تعلیم بھی صحیح طریقہ سے نہیں دی جاتی، جب ھمارے بچوں کی بنیادی تعلیم ھی مضبوط نہیں ھو گی تو ھمارے بچے مستقبل کے بہترین معمار کیسے بن سکیں گے -

بعض اوقات ایسا بھی ھوتا ھے کہ جیسے میرے ساتھ ھوا کہ اسکول بدلتے وقت یا نئے داخلے کے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ اس کا معیار انکے بچے کی تعلیم کیلئے کیسا رھے گا اور نہ ھی والدین اسکول جاکر بچے کی پڑھائی کے بارے میں معلومات کرتے ھیں -

اسی وجہ سے میرے پانچویں جماعت کا ایک پورا سال ضائع ھوا، جس کا اثر میری سیکنڈری اسکول کی تمام تعلیم پر بہت خراب پڑا اور جب اگر ایک اچھی عادت بگڑ جائے تو اسکا سدھارنا بہت مشکل ھوتا ھے - اس زمانے میں زیادہ تر سرکاری تعلیمی ادارے بہت اچھے معیار کے تھے لیکن بدقسمتی سے مجھے تمام سرکاری اسکولوں میں جگہ نہ ھونے کی وجہ داخلہ نہ مل سکا اور مجبوراً والد صاحب نے ایک ٹاؤن کمیٹی کے سب سے نچلے درجے کے اسکول میں داخل کرادیا، ان کا یہ مقصد تھا کہ میرا سال ضائع نہ ھو، مگر اس ایک سال کی وجہ سے مجھے اسکا خمیازہ اپنی زندگی پر ایسا اثرانداز ھوا کہ میں اپنے تعلیمی معیار کو صحیح مقام نہیں دے سکا اور والد صاحب کی خواھش کے مطابق اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل نہ کرسکا، وہ چاھتے تھے کہ میں چارٹرڈ اکاونٹنٹ بنوں یا اکاونٹس میں ماسٹر کروں، جوکہ نہ ھوسکا، لیکن شکر ھے اس مالک کا کہ اب تک عزٌت کے ساتھ بات بنی ھوئی ھے جبکہ میں واقعی اس قابل نہیں ھوں -

اس کے علاوہ والد صاحب نے ایک تو اس اسکول میں داخل تو کرادیا لیکن پورا سال خبر نہ لی کہ میں اسکول میں کیا کررھا ھوں، اور دوسرے انکا غصٌہ اتنا شدید تھا کہ کچھ کہنے کی ھمت ھی نہیں ھوتی تھی
اور میں ان سے جھوٹ پہ جھوٹ بولتا چلا گیا اور جھوٹ کو نبھانے کیلئے مزید لاکھوں جھوٹ اور ساتھ یہی جھوٹ کی عادت چوری کی شکل میں تبدیل ھوگئی اور بہت سی خراب عادتوں نے بھی جنم لے لیا -

ایک بات کا میں اضافہ کرنا چاھوں گا، کہ یہ اللٌہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ھے کہ یہ چوری کی عادت گھر تک ھی محدود رھی، مثلاً جھوٹ بول کر والدہ سے کوئی بھی مجبوری بنا کر پیسے اینٹھ لینا یا گھر کا سودا لاتے وقت سودے میں چھوٹی موٹی ھیرا پھیری سے پیسے بچا لینا،

کیونکہ یہ صرف ایک جھوٹ کئی جھوٹ کو جنم لیتا ھے اور پھر آھستہ آھستہ دوسری ھی غلط ضروریات کی طرف لے جاتا ھے جسے پورا کرنے کیلئے انسان غلط وسائل کی طرف راغب ھو جاتا ھے،!!!!!

میرا مقصد ھماری آئندہ آنے والی نسلوں کے والدین کو بس یہی پیغام پہنچانا ھے کہ وہ کچھ اس سے سبق سیکھیں اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ھونے سے بچائیں،!!!!!!!!!!!!!!!!!!

ھاں تو کہانی وھیں سے شروع کرتا ھوں جہان پہلے ختم کی تھی،!!!!!!

اکثر لڑکے تو ایک دوسروں کی کاپیاں اور کتابیں بھی چھپا دیتے، میرے ساتھ تو کچھ زیادہ ھی ھوتا تھا اور ایک دن تو ان لڑکوں نے مل کر حد ھی کردی، کہ کلاس ٹیچر نے مجھے کلاس سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ اپنے والد کو یہاں لے کر آو تو کلاس میں داخل ھونا ورنہ نہیں،!!!!! کیونکہ میرے پاس وہ مطلوبہ کاپی نہیں تھی، جبکہ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ میں نے تمام ھوم ورک مکمل کرکے اپنے بستے میں ھی رکھی تھی، یقیناً یہ لڑکوں کی ھی شرارت تھی، !!!!!!!!


میری حالت تو خراب ھوگئی، کلاس سے نکل کر ایک قریبی پارک میں بیٹھ کر سوچتا رھا اور روتا رھا، سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ گھر جاکر اباجی سے کیا کہوں گا، ان سے تو مجھے بہت ڈر لگتا تھا،!!!!!!


پارک جو گھر اور اسکول کے قریب تھا، وہ ایک بہت بڑے گول سے چوراھے کے درمیان میں بنا ھوا تھا اور چاروں طرف سے موٹرگاڑیاں، تانگے،سائیکل رکشہ وغیرہ یعنی ھر قسم کی سواریاں اپنی مخصوص آوازوں کے ساتھ چکر لگاتی ھوئی اپنی سمت کی طرف چلی جارھی تھیں -

مگر میں تمام گاڑیوں کے شور شرابے سے بےخبر اپنا بستہ سر کے نیچے دبائے، سبز گھاس پر آنے والی مشکل گھڑی کے بارے میں سوچ رھا تھا کہ اب میں گھر پر کیا کہونگا، کلاس ٹیچر نے تو کلاس سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ تو اسکول میں داخل ھوسکتے ھو ورنہ نہیں !!!!!!!!!

کوئی حل سمجھ میں نہیں آرھا تھا، والد کا خوف ھی اتنا تھا کہ کچھ سوچنے کی گنجائش ھی نہیں تھی، اگر کلاس ٹیچر کا پیغام سناتا ھوں تو ابا جی پہلے مجھے مارتے اور پھر اسکول کی طرف رخ کرتے، اور واپسی پر بھی میری زبردست پٹائی ھونے کی پیشین گوئی بھی تھی، والدہ کو کہہ کر میں ان کی مزید پریشانیوں میں اضافہ نہیں کرنا چاھتا تھا، پہلے ھی مین نے انہیں بہت پریشاں کیا ھوا تھا -

سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی، ایک دم میری آنکھ کھلی جب مالی نے پانی کے چھیٹے میرے منہ پر مارے، نہ جانے وہ کیا سمجھ بیٹھا تھا، میں گھبرا کے آٹھا تو اس کے جان میں جان آئی، اس نے ھاتھ کے اشاروں سے میری خیریت پوچھی اور اپنے کام پر لگ گیا، اور میں نے اپنے کپڑے وغیرہ اچھی طرح جھاڑے، سورج کے رخ سے وقت کا اندازہ لگایا، اپنے بستہ کو کاندھے پر لٹکایا اور گھر کی طرف خراماں خراماں چلنے کی ناکام سی کوشش کی کیونکہ آج تو اپنے قدم بھی ساتھ نہین دے رھے تھے، ساتھ ساتھ منصوبہ کی پلاننگ بھی کرتا جارھا تھا کہ اگلا قدم کیا ھوگا -
گھر پہنچتے ھی والدہ گھبرا گئیں اور مجھ سے کئی سوال ایک دم پوچھ ڈالے، کہ آج اتنی جلدی کیوں آگئے، طبعیت تو ٹھیک ھے کیا ھوا کیا نہیں ھوا، میری پہلے ھی سے مسکین شکل بنی ھوئی تھی اور پھر میرا فوراً ھی شیطانی دماغ کا سوئچ بھی آن ھو گیا، اور پھر جھوٹ کی پٹاری کھل گئی، جواباً عرض کیا کہ کلاس میں سردی لگ رھی تھی اور بخار چڑھ گیا تھا، اور کچھ چہرے پر غصہ کا لبادہ بھی چڑھا لیا، والدہ کے سامنے تو میں شیر بن جاتا تھا اور ابٌاجی کے سامنے تو بالکل بھیگی بلی کی طرح میاؤں، منہ سے آواز نہین نکلتی، والدہ پریشان ھوگئی اور کچھ گھریلو دوائی دی اور کمبل اڑھا کر لٹا دیا،!!!!!!

لیٹ تو گیا لیکن بہت سخت بھوک لگی ھوئی تھی، والدہ نے بڑے اسرار کے بعد ساگودانے کی کھیر بنا کر دی اور پھر بعد میں کڑوا سا جوشاندہ بھی لے آئی، مجبوراً یہ دن بھی دیکھنا پڑا، والدہ ھماری اباجی کا انتظار کرنے لگی کہ وہ آئیں تو ڈاکٹر کے پاس لےجائیں -
اباجی کی آواز آئی تو میری تو جان ھی جیسے نکل گئی، اب کیا کروں، والد صاحب اکثر دوپہر کے تین بجے تک آتے تھے، کھانا کھا کر کچھ دیر کیلئے سوجاتے پھر شام کو دوسری مصروفیات میں مشغول ھو جاتے، جو آگے چل کر تفصیل سے لکھونگا، جس میں میرا بھی بہت بڑا کردار ھے -

اب کیا کروں خاموش ھی رھا، مجھے کچھ احساس ھوا کہ اتھوں نے ڈاکٹر کی طرح نبض ٹٹولی اور والدہ سے کہا، کچھ نہیں ھے طبیعت بالکل صحیح ھے، ایسے ھی ڈرامہ کررھا ھے، اسے کھانا دو، ابھی ٹھیک ھوجائےگا، میری کچھ طبعیت بحال ھوئی کیونکہ بہت سخت بھوک لگ رھی تھی، اور شیطانی دماغ کی مکمل پلاننگ ھو چکی تھی کہ اگلا قدم کیا ھونا چاھئے -

کھانا وغیرہ کھایا اور روز کی طرح کتاب کھول کر پڑھنے بیٹھ گیا تاکہ اباجی کو کسی بات کا احساس نہ ھو، اب مکمل پلاننگ تو ھو چکی تھی وہ یہ کہ روز اسکول کیلئے تیار ھو کر جانا تو ھے لیکن اسکول کے بجائے کہیں اور کا چکر لگاؤں اور اسکول کے واپسی کے وقت گھر آجاؤں، شکر اس بات کا یہ تھا کہ میرے اسکول میں اپنے محلے کا کوئی بچہ نہیں پڑھتا تھا، کہ کہیں سے بھی کسی بات کا پتہ چل سکے،

آگے کیا ھوتا ھے وہ کچھ زیادہ ھی ھولناک ھے، کیا آپ سوچ سکتے ھیں کہ میں پورے دس مہینے تک اسکول کے بجائے کہیں اور گل چھرے اڑاتا رھا، اور اتفاق سے والد صاحب نے ایک دن بھی اسکول میں آکر کوئی بھی خبر نہ لی !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 7- بچپن اور اسکول سے فرار،!!!!!

آگے کیا ھوتا ھے وہ کچھ زیادہ ھی ھولناک ھے، کیا آپ سوچ سکتے ھیں کہ میں پورے دس مہینے تک اسکول کے بجائے کہیں اور گل چھرے اڑاتا رھا، اور اتفاق سے والد صاحب نے ایک دن بھی اسکول میں آکر کوئی بھی خبر نہ لی !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

اس وقت غالباً 1959 میں میری عمر تقریباً نو یا دس سال کے لگ بھگ ھوگی، میں کبھی یہ سوچ بھی نہین سکتا تھا کہ اس طرح کا واقعہ بھی میری اس عمر میں پیش آئے گا، رات بھر میں دوسرے دن کے بارے مین سوچنے لگا کہ کیا کروں اور یہی سوچتے سوچتے سو گیا، سونے سے پہلے میرے کان میں اباجی کچھ باتیں سنائی بھی دیں، جو وہ والدہ سے چپکے چپکے کہہ رھے تھے کہ آج ھمارے لاڈلے کے کچھ رنگ بدلے بدلے سے نظر آتے ھیں، کیونکہ کوئی کسی قسم کی شرارت یا آج کوئی ھنگامہ بھی نہیں ھوا، لگتا ھے کہ نواب صاحب کچھ سدھر گئے ھیں

انہیں کیا معلوم کے ھم پر کیا قیامت گزر گئی، سدھرنا تو دور کی بات ھے، مجھے اپنی فکر لگ گئی کہ نہ جانے یہ اپنی زندگی کی ڈوبتی ناؤ کہاں تک بہا کر لے جائے گئی، نہ تو کسی کو اپنا رازدار بنایا اور نہ ھی کسی نے مجھ سے پوچھنے کی زحمت گوارہ کی کہ آج بدلے بدلے سے سرکار کیوں نظر آتے ھیں، سب محلے کے بچٌے بھی میرا پوچھ کر چلے گئے آج سارے محلے کےمیرے ھم عمر کے بچے بھی اداس تھے کیونکہ میں ان سب کا لیڈر تھا اور آج پورا دن گھر سے باھر بھی نہیں نکلا تھا اور نہ ھی کسی دوست کے ساتھ بات کی تھی، سب دوست تھک ھار کر اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، گھر پر بھی کچھ کے والدین آئے اور اباجی سے میرے متعلق پوچھا بھی کہ آج میں انہیں نظر نہیں آیا، میں ذرا اپنے ھم عمر کے بچوں میں قدرتی کچھ مقبول تھا کہ وہ میرے بغیر کوئی کھیل کھیلتے نہیں تھے اور نہ ھی کوئی شرارت کا منصوبہ بناتے تھے ، چھوٹا سا محلہ تھا اور سب محلہ کے لوگ ایک دوسرے سے واقف بھی تھے،
جہاں کچھ لوگ میری شرارتوں کی وجہ سے مجھ سے اپنے بچوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے، وھاں کچھ اور ایسی فیملیز بھی تھین جو مجھے بہت چاھتے بھی تھے، اس زمانے میں مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے میں دروازے یا مرکزی دروازے کبھی بھی بند نہیں کرتے تھے، ھم تمام بچے اکثر رات کو آنکھ مچولی جس میں ھمارے ساتھ بڑے بچے بھی شامل ھو جاتے تھے، خوب کھیلتے اور کسی نہ کسی کے گھر میں چھپ جاتے تھے، سب کے گھر کھلے ھوتے تھے، کبھی بھی کسی گھر سے کوئی چیز نہین اٹھائی یا چوری کی خبر کوئی سننے میں آئی اور سب لڑکیاں اور لڑکے مل کر کھیلتے تھے اور کبھی بھی کسی کے دل میں کوئے ایسا ویسا برا خیال نہیں آتا تھا،

سب بڑے بوڑھے الگ میدان میں اپنے اپنے گھروں سے چارپائیاں لاکر بچھاتے اور ساتھ حقہ گڑگڑاتے ھوئے رات گئے تک چوپالوں کی طرح دنیا داری کی باتیں کرتے کبھی سیاست کی اور کبھی اسلام کے موضوع پر بھی بحث شروع ھوجاتی اور عورتیں الگ کسی نہ کسی کے گھر کے صحن میں بیٹھی اپنے معمول کے دکھڑے ایک دوسرے کو سناتی رھتی لیکن یہ ضرور تھا کہ گھر کی بڑی بوڑھی الگ بیٹھی ھوتیں اور آن کی بہویں الگ ساس بہو کے معمول کا رونا دھونا اور ایک دوسرے کی بہوؤں کی شکایات کرتی رھتیں جو ازل سے قائم ھے اور ابد تک رھے گا، دنیا بدل گئی زمانہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا لیکن ساس بہو کا نازک مسلئے ابھی تک نہیں بدلا -

اُس وقت لوگوں کے پاس اچھا خاصہ وقت تھا ایک دوسرے کے ھر دکھ درد میں کام آتے تھے، کوئی ناراض ھو جائے تو گھر جاکر ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کرتے تھے، اور گلے لگاتے تھے اور ایک خاص بات تھی کہ اذان کے ھوتے ھی تمام مرد حضرات جو بھی محلہ میں موجود ھوں، وہاں کی ایک چھوتی سی مسجد میں چلے جاتے اور ایک ساتھ باجماعت نماز بھی پڑھتے تھے اور پیچھے ھم بچوں کی بھی ایک صف بن جاتی تھی، عورتیں اپنے اپنے گھروں میں اپنی لڑکیوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھتیں، اس محلے میں ھر پاکستان کے صوبوں پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ کے تقریباً تمام شہروں کے لوگ آباد تھے اور مھاجر بھی تھے، ساتھ ھی کچھ غیر مسلم بھی تھے، لیکن کبھی بھی کسی کا کوئی جھگڑا یا آپس میں اختلاف نہیں دیکھا گیا، سب بہت پیار اور محبت سے رھتے تھے، جو آجکل ایک خواب سا لگتا تھا -

کچھ یکجہتی اور آپس کے خلوص کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں کسی کے پاس ریڈیو تک نہیں تھا نہ ھی آج کی طرح کمپیوٹر تھا اور نہ ھی پاکستان میں کوئی ٹیلیویژن تھا ، اکثر لوگ کبھی کوئی خاص مسلئہ ھو تو ایک نزدیکی ایک ھوٹل میں جاکر کے خبریں سن لیا کرتے تھے، کئی لوگوں کو یہ تک پتہ نہیں تھا کہ مارشل لاء کیا ھوتا ھے - اور کسی کو رات میں کوئی تکلیف یا پریشانی ھو جائے تو سب ایک جگہ جمع ھوکر ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے -

‌بات کیا ھو رھی تھی کہان پہنچ گئی، ھاں تو دوسرے دن حسب معمول اسکول جانے کیلئے والدہ نے اٹھایا، تیار ھو کر ناشتہ وغیرہ سے فارغ ھوا اور بستہ گلے میں لٹکا کر باھر نکلنے سے پہلے والدہ سے اسکول کی فیس جو اس وقت 5 پاتچ آنے تھی انہوں نے مجھے 6 چھ آنے ایک رومال میں باندھ کر دئیے، اور کہا سنبھال کر لے جانا گما نہیں دینا، یہ دوسرا مہینہ تھا، پیسے رومال کے ساتھ جیب میں ڈالے اور باھر نکل گیا - والد صاحب تو صبح تڑکے ھی نکل جاتے - ان سے صبح ملاقات نہیں ھوتی تھی ورنہ وہ مجھے پہلے اسکول چھوڑتے، بعد میں دفتر جاتے، جو کہ میرے حق میں بہتر نہ تھا ورنہ ساری پول ھی کھل جاتی-

بہرحال میں بمع بستہ، اسکول کی یونیفارم پہنے اسکول کیلیے نکلا، محلے کی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے ھوتا ھوا لوگوں سے علیک سلیک کرتا ھوا بڑی سڑک پر آگیا سب دوسرے اسکول کے بچے بھی میرے ساتھ تھے ھر ایک کے مختلف اسکول تھے، میرا اسکول چونکہ کچھ دور تھا، اس لئے میں آخر میں ھی رہ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی ھمارے محلے کا بچہ میرے اسکول میں نہیں پڑھتا تھا، اب کہاں میرا اسکول، وہاں جاتے ھوئے ڈر بھی رہا تھا - کیونکہ ٹیچر نے سختی سے منع کردیا تھا کہ والد کے بغیر اس اسکول میں داخل نہ ھونا ورنہ !!!!!! پتہ نہیں کیا کیا کہا تھا -

اسی ڈر سے فوراً میں نے ایک فیصلہ کرتے ھوئے اپنا راستہ بدل لیا اور ایک چاٹ کے ٹھیلے پر رک گیا، ایک آنے کی اس وقت اسپشل چنے اور دھی بڑے کی چاٹ آتی تھی، آرڈر دیا، اور مزے لے کر کھاتا رھا، آج میں بہت مالدار تھا، کیونکہ میرے پاس چھ 6 آنے تھے، چاٹ کھا کر آگے بس اسٹاپ پر پہنچا وھاں ایک صدر جانے کی بس آئی بس میں چڑھ گیا کنڈکٹر نے ٹکٹ کا پوچھا تو ایک آنہ تھما دیا، اس وقت ایک طرف کا ٹکٹ کم سے کم ایک آنہ تھا یعنی ایک روپے میں 16 مرتبہ آ جا سکتے تھے، ایک جگہ بس رکی جہاں میلہ لگا ھوا تھا، جھولے ، سرکس وغیرہ، فوراً بس سے اتر گیا، میں خود حیران تھا کہ یہ میلہ تو شام کو شروع ھوتا ھے آج صبح سے ھی شروع ھوگیا، معلوم ھوا کہ بہت زیادہ رش ھونے کی وجہ سے وقت بڑھا دیا گیا ھے، پہلے تو باھر اسٹیج کے ساتھ کھڑا ناچ گانا دیکھتا رھا، اس سے پہلے بھی والدین کے ساتھ یہان سرکس دیکھنے آچکا تھا - میرے پاس 4 چار آنے اب بھی بچے ھوئے تھے ، دو 2 آنے کا بچوں کا آدھا ٹکٹ لیا اور سرکس دیکھنے کیلئے اندر ڈرتے ڈرتے گھس گیا ادھر ادھر بھی دیکھ رھا تھا کہ کہیں کوئی جاننے والا تو نہیں ھے، اسی گھبراھٹ میں پورا سرکس دیکھا سب کچھ وھی تھا جو پہلے والدین کے ساتھ دیکھ چکا تھا،

سرکس ختم ھوا تو فوراً میں نے واپسی کا سوچا اسی نمبر کی بس میں واپس ھوا اور اپنے اسٹاپ پر اتر گیا، ایک آنہ اور ختم ھوگیا باقی ایک آنہ اب بھی بچہ ھوا تھا سوچا کہ یہ کل کام آئے گا اور جلدی جلدی گھر کی طرف میں قدم بڑھا رھا تھا، کیونکہ اسکول کا وقت بھی ختم ھونے والا تھا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
:: بھولی بسری یادیں، 8- بچپن اور اسکول سے فرار۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکس ختم ھوا تو فوراً میں نے واپسی کا سوچا اسی نمبر کی بس میں واپس ھوا اور اپنے اسٹاپ پر اتر گیا، ایک آنہ اور ختم ھوگیا باقی ایک آنہ اب بھی بچہ ھوا تھا سوچا کہ یہ کل کام آئے گا اور جلدی جلدی گھر کی طرف میں قدم بڑھا رھا تھا، کیونکہ اسکول کا وقت بھی ختم ھونے والا تھا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

جلدی جلدی قدم بڑھاتا ھوا گھر پہنچا، اور وقت پر گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیا، لیکن میں ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھا کہ آگے کیا ھوگا، کب تک میں اسکول سے بھاگتا رھوں گا، یہ بھی مجھے علم تھا کہ آخر ایک نہ ایک دن تو پکڑا ھی جاؤں گا، مگر کیا کرتا والد کا ڈر دل میں ایسا بیٹھا ھوا تھا کہ ھمت ھی نہیں پڑی کہ ان سے کسی بھی معاملے میں کوئی شکایت یا کوئی رائے دے سکوں -

اسی طرح روز ھی گھر سے بستہ گلے میں ڈال کر نکلتا، سب سے روز کی طرح سلام اور دعائیں لیتا ھوا، اور راستہ ھی میں سوچ کر کسی نہ معلوم منزل کی طرف روانہ ھو جاتا، کبھی سمندر کے کنارے، کبھی بسوں اور ٹراموں میں سفر کرتا ھوا مختلف جگہوں کی سیر کرتا رھا، اس ظرح تقریباً تمام کراچی کی مشہور جگہوں سے بھی واقف ھو چکا تھا، اور ویسے بھی اس وقت کراچی اتنا بڑا نہیں تھا، کئی دفعہ دیر بھی ھوئی، والدہ سے ڈانٹ بھی کھائی، لیکں کوشش یہی رھتی تھی کہ اباجی کے آنے سے پہلے پہلے گھر واپس پہنچ جاؤں -

اب روز بروز فکر بھی لگی رھتی تھی کہ اگر کسی بھی وقت اباجی کو پتہ چل گیا تو قیامت آجائے گی، اسکے علاوہ روز مجھے جھوٹ بول کر والدہ سے کچھ پیسے اینٹھ لیا کرتا تھا کہ آج فلاں فنکشن ھے ٹیچر نے چندہ منگوایا ھے، کبھی پکنک کے بہانے سے، کبھی کتابیں اور کاپیاں کبھی پنسل اور ربڑ کبھی اور ماہانہ فیس میں تو میں نے خود ھی اضافہ بھی کردیا تھا، اسکول کی ضرورتوں کا بہانہ کرکے کچھ نہ کچھ والدہ سے وصول کرلیتا تھا جسکی بعد میں والد صاحب سے رضامندی بھی مل جاتی تھی،کیونکہ والد صاحب یہی سمجھتے تھے کہ میں بہت شوق سے پڑھ رھا ھوں!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں ایک دلدل میں پھنستا چلاجارھا ھوں، ایک دن یا دو دن کی بات تو تھی نہیں، ھر روز جھوٹ پہ جھوٹ کا اضافہ ھوتا جارھا تھا، لکن کمال کی بات تھی کہ میں نے گھر پر کسی کو کسی قسم کا شک بھی نہیں ھونے دیا،اور گھر پر وہی تاثر کہ معمول کے مطابق اسکول کا کام گھر پر کرنا، کتابیں پڑھنا، جس سے والد صاحب کو تسلی رھتی تھی،

یونہی سلسلہ چلتا رھا، اور میں نے اس دوران پورے شھرکو اچھی طرح کھنگال بھی لیا، جسکا مجھے بعد میں مالی فائدہ بھی ھوا، مجھے یہ مکمل طور پر پتہ چل گیا تھا کہ کون سی چیز کہان ملتی ھے اور کون کون سی مشہور عمارتیں، بازار، اور گھومنے پھرنے کی جگہ کہاں کہاں پر ھیں، اور میری عادت اتنی بگڑ چکی تھی کہ میں تو اب بغیر گھومنے پھرنے کے رہ بھی نہیں سکتا تھا، ایک اور شوق سینما دیکھنے کا بھی لگا لیا تھا، مگر اس کے لئے خاص طور سے کوئی بہانہ کرنا پڑتا تھا، کہ آج اسکول میں فنکشن ھے یا اسکول پکنک پر جارھا ھے وغیرہ وغیرہ !!

اس زمانے میں سنیما کا ٹکٹ چار آنے سے لے کر ایک روپے تک ھوتا تھا اور بلیک اینڈ وہائٹ انڈین اور پاکستانی فلمیں دکھائی جاتیں تھیں اور فلموں کا معیار بھی بہت اچھا تھا، لیکن عموماً بچوں کا فلمیں دیکھنا بہت ھی بُرا سمجھا جاتا تھا، اس وقت عام اوسط طبقہ کی تنخواھیں بھی 50روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 150روپے ھوا کرتی تھی، اور لوگ بہت خوش تھے اور اچھی طرح گزارہ بھی کرلیتے تھے، ھمارے والد صاحب کی تنخواہ بھی تقریباً 125 روپے تھی، اس میں سے بھی اس وقت کچھ پیسے وغیرہ لوگ جمع ھر مہینے جمع کرلیتے تھے، اس زمانے میں لوگ پوسٹ آفس کے سیونگ اکاونٹ میں پیسہ جمع کراتے تھے، اس کی خاص وجہ ھمارا رھن سہن تھا جو کہ بہت سادہ تھا، عام طور سے لوگ مٹکوں کا پانی پیا کرتے، گھر میں لکڑی کے چولہوں پر اور مٹی کی ھانڈیوں میں کھانا پکتا تھا، پانی ھم لوگ دور سے بھر کر لاتے تھے یا ماشکی کمر کے پیچھے چمڑے کی مشکیزہ اٹھائے چار آنے میں بیچتے تھے - اور جلانے کی لکڑی ٹال والے دو روپے فی من کے حساب سے گھر پہنچا کر جاتے تھے - گرمیوں میں ھاتھوں کے بنے پنکھوں سے اپنا پسینہ خشک کرتے اور صحن میں مچھردانی لگا کر سوتے تھے-

اس بات سے ھم یہ خوب اچھے طرح اندازہ لگا سکتے ھیں کہ اس وقت دودھ کی قیمت 6 آنے سیر ، بڑے گوشت کی قیمت ایک روپے اور چھوٹے گوشت کی قیمت دو سے ڈھائی روپے سیر ھوتی تھی اور چھوتے کا گوشت بہت ھی کم کھایا جاتا تھا، مرغی بھی بہت سستی تھی یعن تقریباً شاید دو یا ڈھائی روپے سے زیادہ کی نہیں ھوگی

اسکے علاوہ میرا اسکول کا یونیفارم پانچ روپے سے لیکر زیادہ سے زیادہ دس روپے کا آتا تھا، اور والد صاحب صرف سال میں شاید دو دفعہ سے زیادہ نئے کپڑے نہیں بنائے وہ بھی عید یا بقرعید پر بس، اور سال بھر وھی کپڑے چلتے تھے، اس سے ھم اپنی اس وقت کی سادہ سی پرسکون زندگی کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ھیں کہ کم وسائل، کم ضرورتیں، اور محدود خواھشات میں کتنی خوشیاں پوشیدہ تھیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

بات پھر کہاں سے کھاں نکل گئی، معذرت چاھتا ھوں،
 
بھولی بسری یادیں، 9- بچپن اور اسکول سے فرار!!!!!!!!


اسکے علاوہ میرا اسکول کا یونیفارم پانچ روپے سے لیکر زیادہ سے زیادہ دس روپے کا آتا تھا، اور والد صاحب صرف سال میں شاید دو دفعہ سے زیادہ نئے کپڑے نہیں بنائے وہ بھی عید یا بقرعید پر بس، اور سال بھر وھی کپڑے چلتے تھے، اس سے ھم اپنی اس وقت کی سادہ سی پرسکون زندگی کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ھیں کہ کم وسائل، کم ضرورتیں، اور محدود خواھشات میں کتنی خوشیاں پوشیدہ تھیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!


میں اس لئے بار بار ساتھ چند ایک ایسے حوالے بھی دیتا ھوں تاکہ لو گ میرے متعلق کوئی غلط رائے نہ قائم کرلیں، جبکہ اس کہانی سے چاھے کوئی بھی ھو منفی انداز میں سوچ سکتا ھے، میرا ایک مقصد یہ بھی ھے کہ ھم اپنی آنے والی نسلون کی تربیت کیلئے ان تحریروں سے کچھ حاصل کرسکیں -
شاید ھی کوئی اس بات پر یقیں کرے، کہ میرے بچپن کے حالات نے ایسا ایک الگ ھی رُخ موڑا کہ صرف وھی میری یہ حقیقت کو مان سکتے ھیں جو اس وقت میرے ساتھ تھے، اگر وہ اسے پڑھیں تو شاید انہیں یاد بھی آجائے- اس محلے میں اب تک وہ پرانے میرے ساتھ کے چند لوگ اب تک موجود بھی ھیں، جو میری اس حقعقت کو جانتے بھی ھیں اور جب بھی میں وھاں جاتا ھوں تو بہت گرمجوشی سے ملتے ھیں اور ھم پرانی باتوں کو یاد بھی کرتے ھیں، زیادہ تر لوگ اس محلے کو چھوڑ کر یا تو باھر چلے گئے ھیں یا پھر کہیں دوسری جگہ شفٹ ھو گئے ھیں،

لیکن مجھے امید ھے کوئی نہ کوئی تو ضرور پڑھ رھا ھوگا، کچھ رشتہ داروں نے تو پڑھنا بھی شروع کردیا ھے، اور انہیں میرے ان کارناموں پر بہت حیرت بھی ھے، کہ کوئی ایسا بھی دنیا میں موجود ھے جس نے اپنی زندگی کے ھر اچھے اور برے پہلو کو لوگوں کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح رکھ دیا ھے -

بات ھو رھی تھی کہ میں روز بہ روز ایک جھوٹ کی وجہ سے مشکلات میں دھنستا چلا جارھا تھا، اور اس جھوٹ کو نبھانے کیلئے، مزید جھوٹ پہ جھوٹ بولتا چلا جارھا تھا، والدیں بالکل اس بات سے بے خبر مطمئن بیٹھے تھے، اور میں ان کی اس اطمنان ھی کی وجہ سے غلط راستہ اختیار کئے ھوئے تھا، کیونکہ والد کا خوف اتنا تھا کہ یہ سچ کہنے کے قابل نہیں تھا کہ کلاس ٹیچر نے اسکول سے نکال دیا ھے اور بغیر اباجی کے اسکول میں داخل نہیں ھونے دیں گے جبکہ میں بالکل بے قصور تھا یہ سب دوسرے لڑکے جو مجھے نہیں چاھتے تھے، اور ان سب کی یہی کوشش رھی کہ میں بس ٹیچر کا پسندیدہ اسٹوڈنٹ نہ بنوں اور وہ سب مل کر مجھے اپنی کی ھوئی شرارت میرے نام کردیتے تھے اور اس طرح مجھے اسکول سے وہ سب نکالنے میں کامیاب بھی ھوگئے اور یہ بات میں اپنے والد سے بالکل نہیں کہہ سکا اور ان مشکلات میں پھنس گیا -

اب تو روز کی ایک عادت سی ھو گئی تھی، گھر سے اسکول کے لئے نکلنا، کچھ نہ کچھ کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے والدہ سے پیسے لےلینا روز کا معمول بن چکا تھا، کیونکہ راستہ کے خرچے جو پورے کرنے تھے، ھر رات دوسرے دن کا منصوبہ تیار کرنا اور صبح ھوتے ھی نئی منزل کی طرف روانہ ھوجاتا تھا، کبھی کبھی تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ھوتے تھے مگر یہ شیطانی دماغ کوئی نہ کوئی چکر ضرور چلالیتا، کئی دفعہ بس میں اگر کسی کنڈکٹر نے ٹکٹ کا پوچھتا تو فوراً معصوم شکل بنا کر کہتا کہ لیڈیز میں اماں کے پاس ھے، کئی شریف تو یقین کرلیتے لیکن کچھ تو کیکر کے کانٹے سے بھی زیادہ تیز نکلتے وہ تو فوراً تصدیق کیلئے لیڈیز میں چلے جاتے، میں تو ھر وقت، ھر موقع کیلئے بالکل تیار رہتا، فوراً اس سے پہلے کہ کنڈکٹر واپس آئے میں پچھلے گیٹ سے رفوچکر، بعض دفعہ تو میں چلتی بس سے چھلانگ بھی لگا لیتا تھا اگر بس کی رفتار کم ھوتی جب ورنہ نہین ، اب تو عادت سی ھوگئی تھی چلتی بس میں چڑھنے اور اترنے کی، کئی دفعہ تو کنڈکٹر کو میں سچ ھی بتا دیتا، کئی شریف ھوتے تو چھوڑ دیتے مگر کئی کیکر کے بیج ھوتے جو بس سے ھی اتار دیتے تھے،

مجھے بھی کافی اندازہ ھوگیا تھا کہ کون سی بس میں کونسا کنڈکٹر ھے اس لئے مین خود بھی احتیاط کرتا تھا کہ کسی خرانٹ کنڈکٹر کے دوبارہ ھتٌے نہ چڑھ جاؤں، ایک دفعہ ایک بس کے کنڈکٹر نے مجھے پکڑ لیا اور ساتھ ایک پولیس والے کے حوالے بھی کردیا یہہ کھ کر کہ یہ لڑکا اسکول سے بھاگا ھوا ھے، بس اپنی تو جاں ھی نکل گئی، بڑی منت سماجت کی لیکن اس پولیس والے نے نہیں چھوڑا، مجھے لئے لئے پھرتا رھا اور ٹھیلے والوں سے بھتہ بھی وصول کرتا رھا، اور پھل وغیرہ بھی سمیٹتا رھا، اور مجھے بالکل خاموش رھنے کیلئے کہا، لوگ شاید مجھے اسکا بیٹا سمجھ رھے تھے اور مجھے بھی پیار سے لوگ شاید پولیس والے کے خوف سے یا شاید ترس کھا کر کوئی نہ کوئی چیز کھانے کیلئے دے رھے تھے، میرے تو اور مزے آگئے مگر ساتھ گھبراہٹ بھی تھی کہ اگر یہ واقعی مجھے میرے گھر لے گیا تو میری تو شامت ھی آجائے گی، کافی اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس نے تو میرا ھاتھ بہت مضبوطی سے پکڑا ھوا تھا کہ چھڑانا میرے بس کی بات نہیں، اس نے مجھے بھی دھمکی دی تھی کہ ایک روپے کا نوٹ اپنے گھر سے دلادے ورنہ تھانے میں بند کردونگا،!!!!!

ارے بھئی کس مشکل میں جان اٹک گئی، آخر ایک بیت الخلا نظر آیا، مین نے موقع جان کر رفع حاجت کی درخواست کی، اس نے اجازت دے دی اور کہا فوراً جلدی سے فارغ ھوکر آؤ، اور وہ گیٹ پر کھڑا ھوکر وھاں کے خاکروب سے بھی کچھ اینٹھنے کے چکر میں لگ گیا کیونکہ وہاں لوگ کچھ نہ کچھ پیسے خاکروب کو دیتے رہتے تھے، اور خاکروب پولیس والے کو ایک دوسرے کونے مین لے گیا شاید بھتہ دینے کے چکر میں، میں یہ سب اندر راہداری سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، موقع کو غنیمت جانا اور چپکے سے نکل لیا اور آگے تھوڑا جاکر سرپٹ دوڑنا شروع کردیا کافی دور جاکر پیچھے دیکھ کر یہ اطمنان کر لیا کہ پولیس والا تو کہیں پیچھے نہیں آرھا، پھر سکون کا سانس لیا اور جب کچھ سانسیں بحال ھوئی تو میں یہ سوچنے لگا کہ یہ پولیس والے تو بھنگیوں کو بھی نہیں بخشتے تو دوسروں کو کہاں چھوڑتے ھونگے !!!!!!!!!!!!!!!1

اسکے بعد میں نے اس راستہ پر جانا ھی چھوڑدیا اور ساتھ اپنا بستہ بھی کہیں نہ کہیں چھپا کر جاتا تھا کہ کہیں دوبارہ پھر سے اس پولیس والے سے ٹاکرا ھی نہ ھوجائے اور دوسرا راستہ اختیار کرلیا کہ اس اسٹاپ کے بجائے اب میں نے کینٹ اسٹیشن کی طرف جانا شروع کردیا جو کچھ فاصلہ پر تھا، وہاں بس کے بجائے ٹرام میں سفر کرنے لگا، مگر میں جب بھی کسی پولیس والے کو دیکھتا تھا تو میری جان ھی نکل جاتی کیونکہ تمام پولیس والے مجھے ایک جیسے ھی لگتے تھے!!!!
 
بھولی بسری یادیں،10- بچپن اور اسکول سے فرار!!!!!!!!

اسکے بعد میں نے اس راستہ پر جانا ھی چھوڑدیا اور ساتھ اپنا بستہ بھی کہیں نہ کہیں چھپا کر جاتا تھا کہ کہین دوبارہ پھر سے اس پولیس والے سے ٹاکرا ھی نہ ھوجائے اور دوسرا راستہ اختیار کرلیا کہ اس اسٹاپ کے بجائے اب میں نے کینٹ اسٹیشن کی طرف جانا شروع کردیا جو کچھ فاصلہ پر تھا، وہاں بس کے بجائے ٹرام میں سفر کرنے لگا، مگر میں جب بھی کسی پولیس والے کو دیکھتا تھا تو میری جان ھی نکل جاتی کیونکہ تمام پولیس والے مجھے ایک جیسے ھی لگتے تھے -!!!!!!!!!!!!!!!!

اس وقت اسٹوڈنٹ سفری کارڈ کی سہولت نہیں تھی ورنہ میری سفر کی رینج اور کافی حد تک آگے بڑھ جاتی - اگر میرے پاس اس وقت چار آنے یعنی اُس وقت کے 16 پیسے اور اب کے 25 پیسے ھوتے تھے تو میں پورے کراچی کے شہر کا چکر لگا سکتا تھا اور اگر ایک آنہ مزید ھوتا تو ایک چھوٹا موٹا لنچ کسی بھی تندور والے ڈھابے پر کرسکتا تھا اور اگر لنچ نہ بھی کرتا تو کم از کم اپنے مطلب کی چار چیزیں چاٹ، چورن اور ٹافی وغیرہ ایک پیسے کی ایک، سے گزارا ضرور کر لیتا -

اسکول کے جیب خرچ کے لئے اس وقت ھمیں دو پیسے مشکل سے روزانہ ملتے تھے، اگر ایک آنہ مل جاتا تو ھم خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور دوسرے بچوں کو وہ ایک آنہ دکھا کر شو بھگارتے تھے، اور عید بقر عید پر اگر کوئی مہمان اگر عیدی دے تو وہ فی کس دو آنے یا چار آنے سے زیادہ کوئی نہیں دیتا تھا، لیکن وہ بھی والدہ ھم سے واپس لے لیتی تھیں، اسکے بدلے میں صرف ایک آنہ ملتا تھا، اسی میں ھم بچے اس وقت خوش رھتے تھے-

اس وقت کی زندگی میں ایک سکون تھا، ھر کوئی خوش اور مطمئن تھا، کم آمدنی تھی کم خرچہ تھا، پورے سال نئے کپڑے بنے یا نہ بنے لیکن عید کے لئے والدین اپنے بچوں کو نئے کپڑ ے ضرور بنواتے تھے، پورا سال ھم تمام بچے رمضان کی عید اور بقر عید کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے، کیونکہ ھم سب بچوں کو نئے کپڑوں کے ساتھ عیدی اور اس کے علاوہ اس دن کچھ آزادی بھی ملتی تھی، اس عید کے دن ھم بچے ایک دوسرے کو اپنے نئے کپڑے دکھاتے پھرتے ھر گھر میں گروپ کی شکل میں بھاگتے پھرتے، بڑے بزرگوں کی دعائیں لیتے، پورا محلہ بچوں کی وجہ سے ایک رونق میلہ کی طرح جگمگا رھا ھوتا، جیسے کسی شادی کا سماں ھو -!!!!

عیدالفطر کے دن ایک دوسرے کے گھروں میں مختلف قسم کی شیرینیاں تقسیم ھوتیں، سیویاں، شیر قورمہ۔ حلوہ جات وغیرہ، اور ساتھ مہمانوں کی ایک دوسرے کے گھر آمد، لوگ مہمانون کے آنے سے خوش ھوتے تھے اور کافی خاطر مدارات کرتے تھے، اسی طرح بقر عید پر بھی ھوتا تھا فرق صرف اتنا ھوتا کہ مٹھائیوں کے بجائے گوشت گھروں میں تقسیم ھورھا ھوتا، تقریباً ھر محلہ میں جھولے والے، مداری اور دوسرے کھلونے بیچنے والے آجاتے، جس سے محلے کی رونقیں دوبالا ھوجاتیں-!!!!!

ھر گھر میں لوگ اپنے چھوٹے سے صحن میں کیاریاں ضرور لگاتے اور کوئی نہ کوئی جانور یا پرندے پالنے کا بھی بہت شوق تھا ، کچھ تو کبوتربازی کا بھی شوق رکھتے تھے اپنی نازک اور کمزور چھتوں پر اس شوق کو پروان چڑھاتے تھے، ساتھ ڈانٹ بھی پڑ رھی ھوتی تھی -

غرض کہ اس وقت یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ھم سب کو میسر تھی، اکثر جھگڑا بھی ھوتا تھا کبھی کبھی زیادہ بھی ھوجاتا تھا، گالیوں تک کی نوبت آجاتی تھی لیکن یہ بھی ایک اپنی زندگی کا حصہ تھی، اسکے بغیر بھی زندگی پھیکی لگتی، مگر لوگ فوراً مل جل کر پھر سے ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور پھر وھی خوشیاں چہکنے لگتیں، بچے بھی لڑتے شرارتیں کرتیں لیکن بچوں کی وجہ سے والدین یا انکے بڑے کبھی ایک دوسرے سے جھگڑا نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اپنے بچوں کو پیار سے مناتے اور دوسرے بچوں کو بلا کر آپس میں صلح بھی کرادیتے تھے -

میں بھی اسی رونق کا حصہ تھا اور محلے کا ھر فرد دوسرے بچوں کی طرح مجھے بھی پیار بہت کرتے تھے، بلکہ اپنے بچوں کو میری مثال دے کر ڈانٹتے تھے کہ دیکھو وہ بھی تو بچہ ھے اسکول روزانہ جاتا ھے اور کتنے اچھے نمبر لاتا ھے، کیونکہ میں نے ھر ماھانہ ٹیسٹ اور سہہ ماھی، ششماہی امتحانات کو یقینی بنانے کیلئے اپنی طرف سے بازار سے سادہ رزلٹ کارڈ خرید کر ساتھ باھر ھی اپنے ھاتھ سے ھر مضمون میں اچھے نمبر لگاکر اچھی پوزیشن لکھ کر ساتھ ھی اپنی طرف سے کلاس ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر کے دستخط کرکے والدہ کو پہلے دکھاتا تو وہ بہت خوش ھوتیں اور پھر والد کو دکھاتیں، میں چھپ کر سنتا کہ کیا بات ھورھی ھے کہیں والد کو شک تو نہیں ھوا مگر کمال ھے اپنی ھنرمندی کی کہ ھر مضمون میں مختلف نمبر لکھتا بلکہ ایک دو مضمون میں نمبر کم بھی کردیتا اور ساتھ لکھتا کہ ( اس مضمون میں سخت محنت کی ضرورت ھے) جسکی ڈانٹ ابا جی سے مجھے پڑتی بھی لیکن اس وعدہ پر جان چھوٹ جاتی کہ اگلی دفعہ اچھے نمبر لاؤنگا اور واقعی اس وعدہ کو پورا بھی کرلیتا اور یہ سب کچھ میرے ھی ھاتھ میں تھا، کیونکہ اسکول بھی میں،!!! اسٹوڈنٹ بھی میں،!!! ھیڈماسٹر بھی میں!!! اور استاد بھی میں،!!!! اور سب سے بڑھ کر استادوں کا استاد بھی میں،!!!!!!

تعجب اس بات کا تھا کہ والد صاحب کو کبھی شک بھی نہیں ھوا کہ اسکول کی مہر کہاں ھے اور لکھائی بھی میری وہ پہچان نہیں سکے، جبکہ وہ یہ کہتے بھی تھے کہ میں تمھارے اسکول تمہارے ٹیچر کا شکریہ ادا کرنے ضرور آؤنگا، مگر میں گھبرا جاتا اور دعا کرتا کہ وہ اسکول کبھی نہ آئیں، یہ سوچ کر میری جان ھی نکل جاتی-

لیکن اس وعدہ پر جان چھوٹ جاتی کہ اگلی دفعہ اچھے نمبر لاؤنگا اور واقعی اس وعدہ کو پورا بھی کرلیتا،!!!!!

میں نے تو اسکول کے بہانے کہیں اور ھی رونق لگائی ھوئی تھی، اور محلے میں کسی کو بھی اس بات کی خبر نہ تھی کہ میں باھر کیا گل کھلا رھا ھوں جبکہ مجھے اس کا انجام کا پتہ تھا کہ جس دن کسی نے دیکھ لیا اور اباجی کو پتہ چل گیا تو میرا حشر کیا وہ کریں گے اس کا اندازہ میں جانتا تھا، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، اتفاق یہ دیکھیں کہ جب سالانہ امتحان کے نتیجہ کا وقت آیا تو ابا جی کو شک ھوا اور انہوں نے خاموشی سے جاکر اسکول میں معلومات حاصل کی، انہیں وہاں کیا ملتا، وہاں تو میرا نام و نشان ھی نہ تھا !!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 11- بچپن اور اسکول سے فرار کا آخری دن،!!!!

میں نے تو اسکول کے بہانے کہیں اور ھی رونق لگائی ھوئی تھی، اور محلے میں کسی کو بھی اس بات کی خبر نہ تھی کہ میں باھر کیا گل کھلا رھا ھوں جبکہ مجھے اس کا انجام کا پتہ تھا کہ جس دن کسی نے دیکھ لیا اور اباجی کو پتہ چل گیا تو میرا حشر کیا وہ کریں گے اس کا اندازہ میں جانتا تھا، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، اتفاق یہ دیکھیں کہ جب سالانہ امتحان کے نتیجہ کا وقت آیا تو ابا جی کو شک ھوا اور انہوں نے خاموشی سے جاکر اسکول میں معلومات حاصل کی، انہیں وہاں کیا ملتا، وہاں تو میرا نام و نشان ھی نہ تھا !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

نہ جانے اسکول کا ایک پورے سال کا پانچویں کلاس کا مکمل سیشن اتنی جلدی کیسے گزر گیا کہ پتہ ھی نہ چلا، اب وہ وقت سامنے تھا کہ کبھی بھی کچھ بھی میرے لئے ایک خطرناک صورتحال پیش آسکتی تھی -
اب تو روز بروز میری پریشانیوں میں اضافہ ھوتا چلا جارھا تھا کہ نہ جانے کس وقت میرا سارا بھانڈا پھوٹ جائے، سالانہ امتحانات ختم ھوچکے تھے، میں نے بھی جعلی طریقوں سے پچھلے سہ ماھی اور ششماھی امتحانات کی طرح یہ سالانہ امتحانات بھی دے چکا تھا، اس وقت امتحانات کے پیپر سائکلواسٹایئل کی مشین سے پرنٹ ھوتے تھے، بس ایک دفعہ سائکلواسٹائل پیپر کو ٹائپ کرکے مشین میں ڈالدیں اور اپنے حساب سے جتنی بھی کاپی چاھئے، نکال سکتے تھے- اور اکثر بک اسٹالز پر پرانے امتحانات کے پیپرز وغیرہ پریکٹس کےلئے ملتے تھے،

اسی کا میں نے فائدہ اٹھایا، اور انہیں مختلف مضامیں کے پیپرز کر خرید کر اسکے پرانے سال کو احتیاط کے ساتھ کالی سیاھی سے نئے سال میں تبدیل کرکے اور لڑکوں سے مکمل امتحانات کا ٹائم ٹیبل پوچھ کر باقائدہ تمام امتحانات ایک پارک میں بیٹھ کردیئے اور ساتھ ھی انکے نمبرز بھی خود دیئے اور بعد میں وھی نمبر بازار سے سادہ کارڈ پر لکھ کر گھر پر دکھاتا رھا، ابا جی نے بھی کوئی شک نہ کیا، جبکہ اگر وہ کسی کو دکھاتے یا تھوڑا سا بھی دماغ پر زور ڈالتے، تو انہیں معلوم ھو جاتا، وہ باقائدہ ان پیپرز کا دوبارہ مجھ سے ھر سوال کا جواب چیک کرتے رھے، جسکی میں پہلے ھی سے تیاری کرلیتا تھا اور مطمئین ھوجاتے، اسکے علاوہ وہ تمام محلے کے لوگوں سے بھی میری بہت تعریف کرتے رھتے، ساتھ ھی انہیں مجھ جیسی اولاد پر فخر بھی تھا، اور دوسری طرف میں انکے بھروسے اور انکے خوابوں کی تعبیر کو چکناچور کرتا چلاجارھا تھا !!!!!!!!!!!!!!!

آخر وہ دن آھی گیا جس کا ڈر تھا، میرے سالانہ امتحان کے رزلٹ کارڈ بنانے سے پہلے ھی والد صاحب اچانک اسکول پہنچ گئے، وہاں پہنچ کر پانچویں کلاس میں پہلے مجھے ڈھونڈتے رھے، میں ھوتا تو ملتا، کسی کو بھی میرے بارے میں معلوم نہیں تھا، پھر سیدھا ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں پہنچ گئے، اور وہ بھی سیدھا دفتر سے اپنی فوجی وردی میں پہنچے، ہیڈ ماسٹر بھی گھبرا گئے کیونکہ اس وقت مارشل لا کا دور چل رھا تھا، یہ ساری تفصیل کا علم مجھے بعد میں اپنے والد کی زبانی ھی معلوم ھوا، وہ جب تک فوج سے ریٹائر نہیں ھوئے اس واقعہ کا ذکر بار بار کرتے رھے، جب تک کہ میرے سدھرنے کا انکو مکمل یقین نہیں ھوگیا -

ھیڈماسٹر نے فوراً کلاس ٹیچر کو اپنے کمرے میں بلوایا اور تمام تفصیل بتائی، تمام رکارڈ پانچویں کلاس کا طلب کیا، تمام تحقیق کے بعد والد صاحب کو بتایا گیا کہ جناب آپ کے صاحبزادے کا تو داخلے کے ایک مہینے بعد ھی غیرحاضری اور نامناسب رویہ کی وجہ سے اسکول سے نام خارج کردیا گیا تھا اور تعجب ھے کہ آج اتنے عرصہ کے بعد اپنے بچے کی خیریت معلوم کرنے آئے ھیں، جبکہ سالانہ امتحان کے نتیجہ کو بھی نکلے ھوئے بھی ایک ہفتہ سے زیادہ گزر چکا ھے، بہت افسوس کی بات ھے اور نہ جانے انہیں کیا کیا کہتے رھے، اور میں نے شاید دو دن کے بعد کا کہا تھا کہ پرسوں تک نتیجہ نکلے گا -
وہ اس وقت ساری روداد ھیڈماسٹر اور کلاس ٹیچر کی زبانی سنتے رھے اور اندر ھی اندر غصہ کو برداشت کرتے رھے، اور ان سے کہا کہ میں اسی وقت اسے ڈھونڈ کر لاتا ھوں اور آپ اسے میرے سامنے یہ تمام تفصیل بتائیے گا، وھاں سے سیدھا وہ گھر پر آئے، اور اتفاق سے میں کچھ ناساز طبیعت کا بہانہ کرکے گھر پر ھی موجود تھا، والد صاحب گھر پر پہنچے اور حسب معمول میں نے کوئی خاص تاثر نہیں لیا کیونکہ کبھی کبھی دفتر سے گھر کسی کام سے آکر واپس چلے جاتے تھے، ویسے میری چھٹی حس مجھے خبردار کررھی تھی کہ بیٹا آج چھری کے نیچے آئے ھی آئے، بہت خیر منالی -

والد صاحب نے واقعی نہ جانے کس طرح اپنے غصٌہ کو قابو میں کیا ھوا تھا، بالکل بھی یہ محسوس نہیں ھونے دیا کہ ان پر کیا بیت رھی ھے، میرے پاس بڑے پیار سے آئے اور کہنے لگے کہ کیوں بیٹا آج اسکول نہیں گئے، میں نے بھی جواباً کہا کہ اباجی آج کچھ طبعیت ٹھیک نہیں ھے اور ویسے بھی آج کل سالانہ رزلٹ کی تیاری کی وجہ سے بھی کوئی پڑھائی نہیں ھو رھی، اباجی نے بڑے اطمناں سے جواب دیا کوئی بات نہیں، چلو ذرا میرے ساتھ بازار، کچھ تمہیں گھر کا سودا دلادوں، پھر میں واپس دفتر چلا جاؤنگا،

میں نے کپڑے تبدیل کئے اور ان کے ساتھ چل پڑا، لیکن راستہ میں یہی سوچ رھا تھا کہ اباجی کی آواز میں کچھ تبدیلی سی لگ رھی تھی اور جو وہ کہہ رھے تھے زبان انکا ساتھ نہیں دے رھی تھی، وہ بالکل خاموش آگے آگے چل رھے تھےاور میں انکے پیچھے، دل نے ویسے گھبرانا شروع بھی کردیا اور مجھے ان کی چال اور خاموشی سے کچھ کچھ یہ یقین ھوتا جارھا تھا کہ آج دال میں کچھ کالا ضرور ھے -

جیسے ھی انہوں نے میرے اسکول کی طرف رخ موڑا، اور میں اس سے پہلے کہ بھاگنے کی کوشش کرتا فوراً انہوں نے مضبوطی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا، کہاں میرے نازک ھاتھ اور کہاں انکے فوجی ھاتھ، کوشش کے باوجود چھڑا نہ سکا اور وہ مجھے اپنی تیز رفتاری سے اسکول کے ھیڈماسٹر کے کمرے میں اجازت لیئے بغیر ھی اندر داخل ھو گئے!!!!!!!!،
 
بھولی بسری یادیں، 12- بچپن اور اسکول سے فرار کا نتیجہ!!!!

جیسے ھی انہوں نے میرے اسکول کی طرف رخ موڑا، اور میں اس سے پہلے کہ بھاگنے کی کوشش کرتا فوراً انہوں نے مضبوطی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا، کہاں میرے نازک ھاتھ اور کہاں انکے فوجی ھاتھ، کوشش کے باوجود چھڑا نہ سکا اور وہ مجھے اپنی تیز رفتاری سے اسکول کے ھیڈماسٹر کے کمرے میں اجازت لیئے بغیر ھی اندر داخل ھو گئے!!!!!!!!،

ھیڈماسٹر کے کمرے سے واپسی کا سفر اپنے گھر تک اور گھر پر میرے والد صاحب کے ہاتھوں سے میرا جو حشر ھوا وہ بہت ھی دردناک اور خوفناک حدکے پار تھا، اور سونے پر سہاگہ یہ کہ تمام محلے والوں کو بلا کر اور میرے تمام محلے کے دوستوں بمعہ انکے پورے خاندان کے، گھر کے صحن کے عین درمیان میں، میں اور اباجی اور چاروں طرف تمام محلے کا مجمع، جیسے کوئی مداری کا تماشہ ھورھا ھو -

مجھے اس وقت اپنی وہ تمام حرکتیں ایک اسکرین کی طرح سامنے یاد آتی جارھی تھیں، جسکی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑرھا تھا؛ اور سب سے زیادہ شرمندگی اس بات کی تھی کہ سب لوگوں کے سامنے میری کیا عزت رہ جائے گی، کتنا محلے والوں کو مجھ پر فخر تھا، اپنے بچوں کو ان کی ھر غلطی پر میری مثالیں دیتے تھے -

آج وھی مثالی بچے کی ساری عزت اترنے والی تھی!!!!!!!!!!!!!!

دس پندرہ منٹ تک سب محلے والوں کا انتظار بھی کیا اور سب کے سامنے میری تمام حرکتوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ اگر کوئی بھی میرے بیٹے پر اگر ترس کھا کر اگر بچانے آئے گا تو وہ بھی ساتھ اسکے سزا پائےگا، ساری دنیا خاموش تھی لیکن میری والدہ اور بہنیں زور زور ست چیخ چیخ کر رو رھی تھی، جنہیں اباجی نے گھر میں بند کردیا تھا مگر وہ کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رھی تھیں ، اور لوگوں سے رو رو کر یہی کہہ رھی تھی کہ خدارا میرے بچے کو بچاؤ ورنہ وہ مر جائے گا !!!

ماں ماں ھوتی ھے اس کی عظمت کو سلام، میں تو اپنے کئے ھؤے حرکتوں کی سزا بھگتنے کو تیار تھا، لیکن ماں کو اپنے بیٹے کی ایک ذرا سی بھی تکلیف برداشت نہیں تھی!!!!!!!!!

سارے لوگ خاموش تھے اور اس میں سے بھی کئی لوگوں نے کوشش بھی کی مجھے بچانے کیلئے مگر اباجی کا غصہ دیکھ کر واپس پیچھے ھوگے اور تماشہ دیکھنے کو تیار کھڑے ھوگئے ایک دائرہ بنا کر !!!!!!!!!

آج اس وقت بھی میری آنکھوں میں آنسو آرھے ھیں، سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے نظر آرھا ھے، اس وقت میں زیادہ لکھ نہیں سکتا !!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 13- بچپن اور اسکول سے فرار کا نتیجہ!!!!

آج اس وقت بھی میری آنکھوں میں آنسو آرھے ھیں، سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے نظر آرھا ھے، اس وقت میں زیادہ لکھ نہیں سکتا !!!!!

جب ھیڈماسٹر صاحب کے کمرے سے ساری اپنی روداد سن کر نکلے تو اب تو یہ طے تھا کہ جو حشر اپنا ھونا تھا، واپسی پر سارے راستے میں پٹتا ھوا آیا، ساتھ بہت سی بڑی بڑی گالیاں سنائی دیں جو میں نے زندگی میں کبھی نہین سنی تھیں، مگر میں بالکل خاموشی سے پٹتا ھوا گرتے پڑتے جارھا تھا ساتھ اوئی ھائے کی آوازیں بھی منہ سے نکل رھی تھیں، اب تو شکنجہ میں آھی گئے تھے، اور بکری کی ماں کی خیر کا وقت بھی ختم ھوچکا تھا ، کچھ اتنے عرصہ میں ڈھیٹ پنا بھی آچکا تھا، آخر کب تک، ایک نہ ایک دن تو یہ وقت آنا ھی تھا، جس کے لئے میں پوری طرح تیار تھا، بھاگنے کا بھی پروگرام تھا لیکن بھاگ کر کہاں جاتا، اس چھوٹی سی عمر میں بہت مشکل تھا -

بس گھر پہنچتے ھی اباجی نے مجمع لگالیا، جیساکہ میں نے پہلے لکھا تھا اور زندگی میں، میں کبھی بھی اس واقعہ کو بھول نہیں سکتا، شاید ھی کوئی ایسا ھوگا جس کے ساتھ یہ سلوک ھوا ھوگا، بہرحال میں مجمع کے درمیان صحن کے بیچوں بیچ اور اُوپر سے والد صاحب کا شدید ترین غصہ جو شاید ھی میں نے کنھی دیکھا ھو، اور ان کے ھاتھ میں ایک اچانک پتہ نہیں کہاں سے چھڑی ھاتھ لگ گئی، میری تو جان ھی نکل گئی، پھر میرے نزدیک جیسے ھی آئے میری تو چیخ ھی نکل گئی، فوراً ھی میرے کپڑے زبردستی اتاردیئے اور اوپر سے پانی کا چھڑکاؤ کردیا، ساری مٹی کیچڑ میں تبدیل ھوگئی اور پھر انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھڑی کی برسات مجھ پر کردی، ساتھ پانی کا چھڑکاؤ بھی جاری رھا اگر میری جگہ کوئی اور ھوتا تو شاید مر ھی جاتا،!!!!!

اتفاقاً باھر سے کوئی دو تین آدمی بھاگتے ھوے آئے اور والد صاحب کو برا بھلا کہتے ھوئے مجھے آن کے ھاتھوں سے چھڑاکر عورتوں کے حوالے کردیا اس وقت میں کیچڑ میں لت پت اور بری طرح سسکیاں لے رھا تھا، ان آدمیوں نے شاید تمام مجمع کو بھی خوب لعن طعن کی اور سب کو بھگا دیا اور وہ والد صاحب کو باھر لے گئے اور مجھے بعد میں پتہ چلا کہ والد صاحب بھی آنسوؤں سے رو رھے تھے، وہ لوگ تو میرے لئے فرشتے نکلے ورنہ تو میرا کام تمام ھو ھی جانا تھا -

مجھے اس وقت تھوڑا سا ھوش آیا جب مجھے چند عورتیں مل کر نہلا رھی تھیں اور پھر مجھے نہلا دھلا کر بستر پر لٹا دیا گیا، والدہ مجھے اپنے گود میں سر رکھ کر بہت رو رھی تھیں ساتھ چند خاص محلے کی عورتیں بھی تھیں اور وہ سب والدہ کو دلاسہ بھی دے رھی تھیں اور اندر کمرے میں آنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں تھی جبکہ باھر پورے محلےکا مجمع لگا ھوا تھا، انہیں فرشتہ صفت لوگوں نے فوراً قریبی ڈاکٹر کو بلوایا، اس نے اایک انجکشن لگایا، ساتھ جگہ جگہ دوائی بھی لگائی اور کچھ دوائیاں بھی اسی وقت پلائی،

ڈاکٹر صاحب یہ سمجھے کے شاید میرا کوئی حادثہ وغیرہ ھوگیا ھے، کیونکہ میری حالت ھی کچھ ایسی تھی، آنکھیں سوجی ھوئی، جسم پر ھرطرف چھڑی کے مار کے نشان، منہ بھی سوجا ھوا ایسا لگتا تھا کہ جیسے باکسنگ کے رنگ سے کوئی باکسر ناک آوٹ ھو کر نکلا ھو ، میرا پورا جسم بری طرح درد کررھا تھا، آنکھیں کھل نہیں رھی تھیں، بہرحال ڈاکٹر نے تسٌلی دے دی تھی کہ کوئی خطرے کی بات نہیں ھے -

باھر سب کو مجھ سے ملنے کی بےچینی لگی ھوئی تھی، کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ میں ایسا بھی کر سکتا ھوں، کیونکہ میں ‌تقریباً ھر گھر میں مقبول تھا اور ھر کوئی میرے ساتھ ھی کھیلنا چاھتا تھا، اور میں اس وقت تک سب بچوں کا ایک ھیرو تھا، میں جب ان کے ساتھ نہیں ھوتا تو کوئی منظم کھیل نہیں ھوتا تھا، سب میرے لئے افسردہ تھے -

رات کو والد صاحب میرے پاس آئے اور مجھے گلے سے لگالیا ساتھ انکی آنکھوں میں آنسو بھی تھے، میں بھی انہیں دیکھ کر رو پڑا !!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 14- بچپن اور بزرگوں کا احترام


رات کو والد صاحب میرے پاس آئے اور مجھے گلے سے لگالیا ساتھ انکی آنکھوں میں آنسو بھی تھے، میں بھی انہیں دیکھ کر رو پڑا !!!!!!!!!!!!!


اس سے پہلے کہ میں اپنی کہانی کو اگلے موڑ میں داخل کروں، میں چاھتا ھوں کہ اس وقت کے چند مختصراً سخت قسم کے رسم و رواج بتاتا چلوں، جو اب اس معاشرے میں بہت ھی کم نظر آتے ھیں!!!!!!!!!!

آج والد صاحب کو ھم سے بچھڑے ھوئے تقریباً 18 سال سے زیادہ ھوچکے ھیں، لیکن ان کی یاد اکثر بہت تڑپاتی ھے، وہ جتنے غصہ والے تھے اتنا ھی وہ دل کے اندر سے نرم تھے، لیکن غصہ کے وقت انہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا جو کہ بالکل غلط تھا مگر اس وقت کے لحاظ سے آج کی بنسبت لوگوں کا رجحان اپنے بچوں کی تربیت کےلئے بالکل ھی مختلف تھا، اس وقت ھر خاندان میں جو بھی بزرگ تھے سب انکا بہت احترام کرتے تھے اور ھر کوئی انکے ھر فیصلے پر اپنا سر جھکا دینا ھی اپنی سعادتمندی سمجھتا تھا، چاھے وہ فیصلہ غلط ھی کیوں ھی نہ ھو، یہاں تک کہ خود والد اپنے بچوں یا کسی اور مسلئے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا اگر بچوں کے دادا حیات ھوں، اب بھی کئی خاندانوں میں یہی رواج چل رھا ھے،

اسوقت میں نے اپنے بچپن کے دور میں والدہ کو بھی سب کے ساتھ کھانا کھاتے نہیں دیکھا، سب سے پہلے وہ ھم سب بہں بھائیوں اور ساتھ والد کےلئے کھانا لگاتی تھیں اور خود ھاتھ کا پنکھا لئے سب کو اپنے ھاتھوں سے ھر ایک کی پلیٹ میں ضرورت کے مظابق دال یا گوشت کا سالن ڈالتی رھتیں، اور ھم سب ان ھی کی ھدایت پر بہت ھی کفایت شعاری سے کسی بھی سالن کو روٹی یا چاول کے ساتھ استعمال کرتے تھے، وہ ھر ایک کو برابر برابر کھانا تقسیم کرتی تھیں، اور ضرورت سے زیادہ مانگنے پر ڈانٹ بھی پڑتی، مگر میں کچھ زیادہ ھی اسرار کرتا اور اکثر کہہ بھی دیتا “وہ ھانڈی میں سالن بچا ھوا تو ھے وہ مجھے کیوں نہیں دیتیں“ بعض اوقات وہ بھی مجھے اپنی مامتا کی محبت میں وہ ھانڈی بھی صاف کر کے میری پلیٹ میں ڈال دیتیں، مگر میں اس سے بےخبر رھتا کیونکہ وہ سب سے آخر میں سب کو کھانا کھلانے کےبعد اکیلی چولھے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتیں، اگر کچھ بچ گیا تو ورنہ وہ خالی کل کی باسی سوکھی روٹی ھی، اچار یا چٹنی سے لگا کر کھاتیں، مگر وہ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں !!!!!!!!!! اور ھم سب اس سے بےخبر اپنی ھی دھں میں مگن رھتے -
کیا ماں کی ممتا کی عظمت ھے، اسے لاکھوں سلام !!!!

اُس وقت ماں کے اوپر ھی سارے گھر کا دارومدار ھوتا تھا گھر کی ساری صفائی سے لیکر کھانا پکانے اور کھلانے تک، بمعہ شوھر اور بچوں کی ھر ضرورت اور خدمت کو پورا کرنے میں سارا سارا دن وہ مشغول رھتیں، چاھے وہ کتنی ھی تکلیف میں کیوں نہ ھو، ابھی بھی کئی مائیں اپنی اسی پرانی ڈگر پر چل رھی ھیں، جس کی وجہ سے کئی گھروں کا سکون ابتک قائم ھے، ورنہ اجکل کی زیادہ تر عورتیں تو بچوں کے سامنے ھی ظلاق کا مطالبہ کرتیں ھیں، دوسری باتیں تو چھوڑیں، انہیں نہ اپنے شوھر سے کوئی غرض ھوتی ھے نہ ھی اپنے بچوں سے جس کے ذمہ دار مرد حضرات بھی ھیں، چاھے غلطی کسی کی بھی ھو -

پہلے ایسا بہت ھی کم ھوتا تھا کہ بچوں کے سامنے کوئی بھی میاں بیوی آپس میں لڑائی جھگڑا کریں، بڑوں کی اگر کوئی بات بھی ھورھی ھو تو ھمیں بھگا دیا جاتا تھا، لیکن میں اکثر اسی فراق میں لگا رھتا تھا کہ کیا بات ھورھی ھے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ اگر میاں بیوی کے بڑے بزرگ اگر ساتھ موجود ھوں تو مجال ھے کہ گھر کی بہو ان کے سامنے اپنے شوھر کے ساتھ بیٹھ جائے یا زور زور سے باتیں کرے، بلکہ دیکھا گیا ھے کہ اکثر گھر کی عورتیں بزرگوں کے سامنے بیٹھتی تک نہیں تھیں اور بس ھاتھ کا پنکھا لئے انھیں گرمیوں میں جھلا کرتیں تھیں، اور بچے بالکل ادب سے ان سب کا احترام کرتے اور باھے نکلتے ھی اپنی اوقات میں آجاتے یعنی شور ھنگامہ شروع ھوجاتا،!!!!!
 
بھولی بسری یادیں، 15 - چند یادوں کا مختصر سا تعارفی خاکہ،!!!!

پہلے ایسا بہت ھی کم ھوتا تھا کہ بچوں کے سامنے کوئی بھی میاں بیوی آپس میں لڑائی جھگڑا کریں، بڑوں کی اگر کوئی بات بھی ھورھی ھو تو ھمیں بھگا دیا جاتا تھا، لیکن میں اکثر اسی فراق میں لگا رھتا تھا کہ کیا بات ھورھی ھے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ اگر میاں بیوی کے بڑے بزرگ اگر ساتھ موجود ھوں تو مجال ھے کہ گھر کی بہو ان کے سامنے اپنے شوھر کے ساتھ بیٹھ جائے یا زور زور سے باتیں کرے، بلکہ دیکھا گیا ھے کہ اکثر گھر کی عورتیں بزرگوں کے سامنے بیٹھتی تک نہیں تھیں اور بس ھاتھ کا پنکھا لئے انھیں گرمیوں میں جھلا کرتیں تھیں، اور بچے بالکل ادب سے ان سب کا احترام کرتے اور باھے نکلتے ھی اپنی اوقات میں آجاتے یعنی شور ھنگامہ شروع ھوجاتا -!!!!!

میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اُس وقت کے دور میں کوئی خرابی ھی نہیں تھی، کچھ اچھائیاں تھیں تو کچھ یقیناً برائیاں بھی ھونگی، لیکن جو کچھ بھی مجھ پر گزری یا جو کچھ بھی میں نے اس وقت دیکھا اور جو بھی مجھے یاد ھے میں پوری ایمانداری سے اپنی اس تحریر میں منتقل کرتا جارھا ھوں، میں کچھ ماضی کے خوابوں سے جڑے چند یادوں کا مختصر سا تعارفی خاکہ پیش کررھا ھوں، جو آگے تفصیل سے بیان کرونگا -

ایک وقت وہ بھی تھا جب میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر اس شوق کو اپنے مستقبل کے کیرئیر کی طرف راغب کرلیا تھا، میرے دوستوں میں ایک دوست جو بہتریں اردو اور انگلش کے ھر قسم کے رسم الخط لکھنے میں ماھر تھے، ان کے ساتھ مل کر “حسنی آرٹس اینڈ پینٹرز“ کے نام سے ایک دکان کھولی اور وہ ایک معاش کا بھی ذریعہ بھی بن گیا، جہاں ھمیں دکانوں کے مختلف سائن بورڈ، سینماوں کے فرنٹ اور چھوٹے اشتہاروں کے بورڈ، سینما سلائڈز وغیرہ بنانے کے کافی آرڈر ملتے تھے اور خاص طور سے الیکشن کے زمانے میں تو ھماری چاندی ھوتی تھی، کیونکہ اس وقت ھمیں انکے بڑے چھوٹے بینرز اور پمفلٹ لکھنے کے منہ مانگے دام ملتے تھے،

اس وقت تمام لکھائی زیادہ تر اردو میں ھی ھوتی تھی، اردو لکھائی سے زیادہ تو میں تصویریں بڑے بڑے بورڈز پر اپنے ھاتھ سے ھی پینٹ کیا کرتا تھا، جو کہ بچپن سے ھی مجھے اردو خوشخطی کے ساتھ ساتھ تصویریں بھی بنانے کا بے حد شوق تھا مگر والد صاحب کو میرا یہ شوق پسند نہیں تھا، اس کے ساتھ ایک اور بھی شوق اسٹیج ڈرامے ترتیب دینا اور منعقد کرنا بھی بچپن سے ھی شوق رھا، اس کے علاؤہ کالج کے میگزین میں بھی کوشش رھی کچھ افسانے لکھنے کی، لیکن وہ بھی زیادہ دن نہ چل سکا اور کچھ اخباروں اور دوسرے ادبی اور فلمی رسالوں کی زینت بننے کی بھی کوشش کی اس کے علاوہ ایک آدھ فلم کے اسکرین پلے لکھنے کا موقع بھی ھاتھ لگا وہ بھی والد صاحب کے غصہ کی نذر ھوگیا، یہ بھی ایک لمبی کہانی ھے، جو اپنے تسلسل کے ساتھ ھی منظرعام پر آئے گی- اور ساتھ ھی اپنے پیار اور محبت سے جڑی ایک لمبی داستان جس کے خواب کی تعبیر نہ مل سکی، اس دور سے جب میں گزرونگا تو شاید سب کو اس میں اپنے اپنے خواب بھی نظر آجائیں -

پہلے گلی محلوں میں بچوں کے ساتھ مل کر چھوٹے چھوٹے مزاحیہ خاکوں کی ابتدا کی پھر ساتھ ھی تمام محلے کے بچوں اور بہن بھائیوں کو لے کر ریڈیو پاکستان جاتا رھا، جہاں پہلے ھی سے “انٹری پاس“ لے کر بچوں کے پروگراموں میں حصہ بھی لیتا تھا اور اپنے علاؤہ تمام بچوں کی آواز کا آڈیشن یعنی ٹیسٹ کرواکر پروگرام میں قومی نغمے، حمد اور نعتیں سنانے میں حصہ دلواتا بھی تھا جو براہ راست نشر بھی ھوتے تھے اور تمام محلہ کے لوگ ریڈیو پر ھم سب کو براہ راست سنتے بھی تھے یہاں تک تو اجازت ملی،
لیکن جب بڑے ھوکر ھم سب دوستوں نے مل کر شوقیہ اسٹیج شوز شروع کئے تو بہت ھی مشکل پیش آئی کیونکہ والد صاحب کو یہ قطعی ناپسند تھا -!!!!!

جسے مجبوراً والد صاحب کی تنبیہ پر ھر اپنا ادب آرٹ اور مصوری کو 18 سے 20 سال کی عمر کے درمیان میں خیر باد کہنا پڑا اور انہیں کے پیشے سے منسلک ھوکر رہ گیا اور اب تک اکاونٹس کے پیشے میں ھی ھوں،
 
بھولی بسری یادیں، 16 - بچپن کی غلطی کی سزا کے بعد،!!!!!!!!


کہانی پھر سے وہاں سے شروع کررھا ھوں جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا،!!!!!!


رات کو والد صاحب میرے پاس آئے اور مجھے گلے سے لگالیا ساتھ انکی آنکھوں میں آنسو بھی تھے، میں بھی انہیں دیکھ کر رو پڑا !!!!!!!!!!!!!

میری اس وقت بھی سسکیاں نکل رھی تھیں، پورے جسم میں بہت درد تھا، لیکن جب اباجی نے گلے لگایا تو اس درد کا احساس کچھ قدرے کم ھوا، انکی آنکھوں میں جو آنسو امڈ رھے تھے اس سے پہلے کبھی میں نے انہیں اس حالت میں نہیں دیکھا،

وہ اپنی گھُٹی ھوئی آواز میں یہی بول رھے تھے کہ “ تو مجھے کیوں تنگ کرتا ھے، مجھے آج سے اپنا دوست سمجھ اور ھر بات مجھے اچھی یا بری بات ضرور بتایا کرو“ اور شاید یہ بھی کہ رھے تھے کہ مجھے معاف کردینا بیٹا،!!!!!

اس دن کے بعد انہوں نے مجھے ڈانٹا ضرور لیکن کبھی ھاتھ نہیں اٹھایا، اسی وجہ سے میرے اندر بھی شاید ایک تبدیلی سی آگئی تھی-!!!!!!!

اب مسلئہ یہ تھا کہ محلے میں مجھے کسی کے گھر جاتے ھوئے بھی ایک شرمندگی محسوس ھوتی تھی - کافی دنون تک اپنے آپ کو گھر میں ھی مقیٌد رکھا آہستہ آہستہ جب کچھ طبعیت سنبھلی، تو والد صاحب بہت پیار سے مجھے اسی پرائمری اسکول میں لے گئے اور پانچویں کلاس میں داخلہ دلادیا - شاید کوئی پھر سے مجبوری رھی ھوگی یا کہیں داخلہ نہ مل سکا ھو -

وھاں جاکر میں نے دیکھا کہ حالات کچھ بدل سے گئے ھیں، شکر ادا کیا جب میں نے ان لڑکوں کو وہاں نہ پایا، کیونکہ سب وہاں سے رخصت ھوگئے تھے یعنی چھٹی کلاس کیلئے انہیں دوسرے سیکنڈری اسکول میں داخلہ لینا پڑا ھوگا، اور یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ خوشی ھوئی کہ وہاں کا ماحول بھی بہت بہتر نطر آتا تھا، لیکن بعد میں مجھے کلاس کے مانیٹر شعیب، جو میری پچھلے سال کی کہانی جانتا تھا، اس نے مجھے بہت تسلی دی اور میں اس لڑکے کا شکر گزار ھون کہ اس نے اس کلاس میں میرے علاوہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ھونے دی اور بعد میں میرا اچھا دوست بن گیا، اس کے علاوہ اور بھی دوست تھے لیکن یہ مجھے سب سے اچھا لگا، بعد میں دو اور دوست حسیب بیگ اور حفیظ اللٌہ بھی بنے تھے جو میرے لئے ایک مشعل راہ ثابت ھوئے اور خوش قسمتی سے انکا ساتھ دوسرے سیکنڈری اسکول میں بھی رھا

دوبارہ میں نے ایک بالکل نئے جذبے کے ساتھ پڑھائی شروع کی وہاں کے کلاس تیچر شفیع صاحب نے خوب محنت سے پیار سے اور ایک منظم طریقہ کار سے ھمیں پڑھانا شروع کیا جس کےلئے مجھے خود حیرانگی ھورھی تھی کہ کیا یہ وھی اسکول ھے یا کوئی خواب دیکھ رھا ھوں

اللٌہ کا شکر تھا کہ جن سے پہلے میں نظریں چرارھا تھا اب کچھ نظریں ملا کر بات کرنے لگا تھا، لیکن کچھ ایسے بھی تھے کہ مجھ سے اب تک نالاں تھے اور اپنے بچوں کو مجھ سے دور رکھتے تھے، جس کا مجھے بہت دکھ ھوتا تھا، جن بچوں کا میں ھیرو کہلاتا تھا اب میں ان کے لئے بالکل زیرو تھا، وہ اکثر میرا مذاق اڑاتے اور میں اپنی گردن نیچے کئے خاموشی سے انکے سامنے نکل جاتا، میرا دل تو بہت چاھتا تھا کے پھر سے پہلے کی طرح میں ان کے ساتھ کھیلوں، لیکن اب ان کی نظر میں میری وہ عزت نہیں رھی تھی،

یہ اللٌہ تعلیٰ کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ اب پڑھائی بہت اچھی چل رھی تھی اور روزانہ باقاعدگی سے اسکول جارھا تھا اور ساتھ ساتھ ماہانہ ٹیسٹ اور دوسرے سہہ ماھی اور ششماھی امتحانات بھی اچھے نمبروں سے اچھی پوزیشن حاصل کی شاید کلاس مین ساتویں یا آتھویں پوزیشن پر رھا، میرے کلاس کے دوستوں نے بھی میرا بہت اچھا ساتھ دیا، اب تو والد صاحب بھی اسکول کا چکر لگاتے تھے اور کلاس ٹیچر اور ھیڈ ماسٹر صاحب سے ملکر میری طرف سے تسلی پا کر چلے جاتے تھے، اور اکثر ھر دوسرے تیسرے روز گھر پر مجھے وہ پڑھاتے بھی تھے، مگر اب تک محلے میں چند ایک کو میرا اب تک یقیں نہیں آیا تھا کہ واقعی میں اب سدھر گیا ھوں،

چھ مہینے گزرنے کے بعد بھی میں اپنے محلے میں اپنا اعتماد بحال نہیں کرسکا تھا، شام کو میرا دل بہت چاھتا کہ میں سب کے ساتھ کھیلوں اور خوب باتیں کروں جو بھی میرے ساتھ بات بھی کرنے آتے تو سب انکا بھی مذاق اڑانے لگتے، والدیں اس سے بے خبر تھے اور میں نے بھی انہیں کچھ نہیں بتایا تھا اور اب گھر پر پہلے کی طرح کوئی محلے کے بچوں کی رونق نہیں تھی، بہرحال مجھے اس بات کا بہت دکھ تھا، والدہ مجھے کافی وقت دیتی تھیں اور ھمیشہ میرے بجھے ھوئے دل کو بہلانے کی کوشش میں لگی رھتی لگتا تھا کہ میری ماں کو میرے اندرون دل کی حالت پتہ تھی -

اب تو میں کتابوں اور اسکول کی حد تک محدود ھوکر رہ گیا تھا، میں گھر آکر باھر نکلنا بھی چھوڑدیا تھا صرف والد صاحب کے ساتھ ھی باھر سودا وغیرہ لینے نکلتا تھا، کیونکہ ان کے سامنے محلے کے بچے مجھے چھیڑنے سے گریز کرتے تھے، میرے دل میں اہستہ آہستہ ایک بزدلی کا خوف بیٹھتا جارھا تھا، اسکول جاتے وقت اور واپسی پر بھی مین ڈرتا ڈرتا باھر نکلتا تھا اور تیز تیز چلتا تھا تاکہ کوئی مجھے کوئی پیچھے سے آواز نہ کسے یا چھیڑے، اور اس طرح روز بروز بجھے لگتا تھا کہ میں ایک نفسیاتی مریض بنتا جارھا ھوں، سوتے سوتے میں اکثر چیخ مار کر اٹھ جاتا تھا اور والدہ میرے پاس دوڑ کر آتیں اور گود میں میرا سر رکھ کر مجھ پر پڑھ کر دم بھی کرتی تھیں اور پھر میں انکی گود میں سر رکھ کر سوجاتا تھا- پھر مجھے سلا کر چادر اڑھا کر پھر وہ بھی سو جاتی تھیں، بعد مین سب کچھ ٹھیک ھو گیا لیکن وہ خواب میں چیخ کر ڈر کے اٹھنے کی بیماری ابھی تک نہیں گئی -!!!!!

خیر اب تو میں دس سال کی عمر میں داخل ھورھا تھا اور دل اب تک بےچین تھا کئی دفعہ کوشش بھی کی باھر جاؤں لیکن ھمت نہیں پڑتی تھی، والدہ بھی باھر بھیجنے کی کوشش کرتیں لیکن دروازے سے جاکر واپس آجاتا، آخر ایک دن کچھ ھمت پکڑی اور باھر نکلا اور جیسے ھی بڑی گلی میں داخل ھوا تو کچھ نے مجھے دیکھ لیا اور شروع ھوگئے میرا مذاق اڑانے اور ایک نے تو میرے نزدیک آکر کچھ برے الفاظ کہے اور مجھے دھکا دے کر لگا میرے گریبان میں ھاتھ ڈالنے،!!!!!

اس سے پہلے کہ وہ میرے گریبان کو چھوتا ایک لڑکی میرے اور اسکے درمیاں آگئی اور زور کا چانٹا اس لڑکے کے منہ پر دھر دیا اور وہ لڑکا اپنے گال سہلاتا ھوا بھاگ کھڑا ھوا، میں ایک دم گھبرا گیا کہ یہ کون سی ھستی آگئی، پہلے تو یہ چہرہ یہاں کبھی نہیں دیکھا تھا، مجھ سے عمر میں بڑی بھی لگ رھی تھی اور الٹا مجھے ڈانٹنے لگی کہ تم کتنے بزدل ھو اس لڑکے کا مقابلہ نہیں کرسکتے، میں کیا جواب دیتا میں تو پہلے ھی ھکا بکا ھو کر اسے دیکھ رھا تھا کہ اسے مجھ سے ھمدردی کیسے ھو گئی جان نہ پہچان شاید کسی کہ مہمان آئے ھوئے ھوں،

اس سے پہلے کہ میں کچھ اور ذہن پر زور ڈالتا، اس نے فوراً میرا ھاتھ پکڑا اور وہ جیسے ھی مڑی اسکے پہچھے شاید اسکی چھوٹی بہن کھڑی نظر آئی جو دیکھ کر مجھے مسکرارھی تھی، وہ چھوٹی سی مجھے بڑے غور سے اور مسکراتے ھوئے دیکھ رھی تھی اور جسے دیکھ کر ایک عجیب سی میرے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی، !!!!!!!!!!!!!

وہ بڑی میرا ھاتھ پکڑے آگے آگے چل رھی تھی اور چھوٹی پیچھے پیچھے مسکراتی چل رھی تھی میں حیران پریشان، سوچتا ھوا ان کے ساتھ چل رھا تھا کہ یہ کون ھو سکتی ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
بھولی بسری یادیں، 17- بچپن میں ایک نئی خوشی کی لہر،!!!!!!!

وہ بڑی میرا ھاتھ پکڑے آگے آگے چل رھی تھی اور چھوٹی پیچھے پیچھے مسکراتی چل رھی تھی میں حیران پریشان، سوچتا ھوا ان کے ساتھ چل رھا تھا کہ یہ کون ھو سکتی ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میں تو پہلے ڈر ھی گیا کہ کہیں یہ مجھے پکڑ کر میرے گھر میری شکایت کرنے جارھی ھیں، واقعی وہ بڑی مجھے پکڑے میرے گھر ھی لے گئی، وہاں ان کی والدہ میری والدہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کررھی تھیں اور بڑی تو فوراً تنک کر بولی کہ خالہ اپنے اس لاڈلے بیٹے کو سمجھا دیں کہ گلی میں فالتو لڑکوں کے منہ نہ لگا نہ کرے، چھوٹی تو اپنی اماں کے پاس خاموشی سے بیٹھ گئی اور میں اپنی والدہ کے کہنے پر ھاتھ منہ دھونے اور کپڑے بدلنے چلاگیا کیونکہ اس لڑکے کی مڈبھیڑ کی وجہ سے کچھ حالات خراب ھوگئی تھی -!!!!!

ًمیں بالکل شش وپنج میں تھا کہ یہ آخر ماجرا کیا ھے اور یہ کون ھیں کہاں سے آئی ھیں اور مجھے کیسے جانتی تھیں کہ راستے میں ھی مجھے پکڑ اس لڑکے سے جان چھڑا کر گھر لے آئیں، بعد میں والدہ ھی سے معلوم ھوا کہ جو پچھلے مہینے میں دوسری گلی کے نکڑ والے مکان میں نئی فیملی آئی ھے، یہ وھی لوگ ھیں، میں زیادہ پنچایت میں بھی نہیں گیا، اس وقت مجھے کسی کے تعارف کا بھی کوئی شوق نہیں تھا میں اور کوئی مزید تفصیل میں پڑے بغیر اپنی پڑھائی کی طرف لگ گیا،!!!!!

اب تو بالکل باھر جانے کو دل نہیں کرتا تھا، سب پرانے دوست اب ویسے ھی مجھ سے دور رھتے تھے، حالانکہ میرا دل بہت چاھتا تھا کہ میں دوبارہ سے ان کے ساتھ مل کر کھیلوں اور پہلے کی طرح محلے کی رونق بنوں، والدین میری خاموشی سے بہت پریشان تھے، کیونکہ میرا اب روز کا معمول صرف اسکول جانا، گھر پر کھانا کھانا اور کچھ دیر اپنے ھی بہن بھائیوں کے ساتھ صحن میں کھیل کر اپنی پڑھائی میں لگ جانا، اس کے علاوہ بس اپنے اوپر ایک خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اور ایک چپ سی لگا لی تھی، بس یہی سوچتا رھتا تھا کہ اب میں سب کی نظروں میں کیوں اتنا گر گیا ھوں، اور روز بروز ایک نفسیاتی مرض کا شکار ھوتا جارھا تھا اور کمزوری بھی محسوس کررھا تھا اکثر سوتے میں ڈر کر اٹھ جانا روز کا معمول بن چکا تھا -!!!!!

اباجی ھمیشہ گھر میں دو تیں بکریاں اور کئی مرغیاں ضرور پالتے تھے، اوراس وقت ھم بچوں نے بکری کا دودھ کثرت سے پیا، ان ھی میں سے جب بکری کے بچے جب بڑے ھوجاتے تو ایک بکرا قربانی کے لئے تیار کرتے تھے، لیکن قربانی کے وقت ھم سب کو رونا آجاتا تھا کیونکہ پورا ایک سال ھم ان بکری کے بچوں سے اتنا مانوس ھوجاتے تھے کہ ان کی کوئی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی، اسکے علاوہ اباجی خود ھی شام کو بکریاں چرانے چلے جاتے تھے اور کبھی کبھی ھم بچے بھی مل کر ساتھ ھو لیتے تھے،!!!!

لیکن جب سے میں نے خاموشی اختیار کی وہ کچھ زیادہ پریشاں ھوگئے اور بعض اوقات تو میرے ھاتھ پیر ٹھنڈے پڑ جاتے اور میں والدہ کی گود سر رکھ کہتا امی دیکھو مجھے کیا ھورھا ھے، سورہ یاسین پڑھنے کیلئے کہتا کبھی زیادہ طبیعت خراب ھوتی تو ھمارے نئے محلے دار کے یہاں سے بلوالیتی، وھاں سے دونوں لڑکیاں اور ان کی اماں ساتھ کبھی کبھی ان کی نانی اماں بھی لاٹھی ٹیکتی ھوئی پہنچ جاتیں، پھر دیسی ٹوٹکے سے علاج شروع ھوجاتا، ھماری والدہ بھی ان لوگوں کے آنے سے کچھ سکون میں نطر آتیں، اور قدرتی میری طبعیت بھی ٹھیک ھو جاتی،!!!!!

آھستہ آھستہ میں اور ھمارے سب گھر والے اس فیملی سے مانوس ھوتے جارھے تھے اور بالکل ایسا لگنے لگا تھا جیسے آپس میں ھم لوگ کوئی بہت قریبی رشتہ دار ھوں!!!
 
بھولی بسری یادیں،-18- بچپن کی نئی دلچسپیاں،!!!!!


آھستہ آھستہ میں اور ھمارے سب گھر والے اس فیملی سے مانوس ھوتے جارھے تھے اور بالکل ایسا لگنے لگا تھا جیسے آپس میں ھم لوگ کوئی بہت قریبی رشتہ دار ھوں!!!!!!!!!


شاید ایک وجہ یہ بھی رھی ھو کہ والدہ کو ان سے ایک بہت میری طبعیت کے حوالے سے ایک فکر ختم ھوگئی تھی کیونکہ ان کے ساتھ کی وجہ سے میں کچھ بہتر ھوتا جارھا تھا اور زیادہ تر ھمارے گھر پر وقت گزارتیں دوسری وجہ ان کا کوئی بیٹا نھیں تھا اور شاید ان کی والدہ کو میرے روپ میں ایک بیٹا دکھائی دے رھا ھو -

پھر بڑی باجی کے اصرار پر ھم تینوں باھر بھی کھیلنے کیلئے نکلنے لگے لیکں شروع شروع میں مجھے بہت ڈر لگا تھا باھر کے لڑکوں کی وجہ سے اور احساس محرومی کا شکار تھا، لیکن بڑی باجی کی وجہ سے بہت کچھ ھمت آگئی تھی اور دوبارہ میں اس قابل ھوگیا تھا کہ کسی بھی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکتا تھا، اس طرح میں آھستہ آھستہ مجھ میں خود اعتمادی بھی آگئی تھی اور اب ھمارے گروپ میں اور لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ھو گئے، جو کبھی میرے خلاف چلے گئے تھے، لیکن پھر بھی چند لڑکے اب تک مجھ سے نالاں تھے، مگر انکی ھمت نھیں پڑتی تھی کہ ھمارے گروپ کو پریشان کریں،

یہ مکمل تبدیلی ان دونوں نئی لڑکیوں کی بدولت ھی تھا کیونکہ ان کا رویٌہ بہت اچھا تھا اور وہ بہت ھی سلجھی ھوئی باتیں کرتیں تھیں اس کے علاوہ انہوں نے تمام بچوں میں نئے نئے کھیلوں کا اضافہ کرایا، اس محلے میں اس وقت صرف دو یا تین گھروں میں ریڈیو ھوا کرتا تھا اور ھم سب بچے شام کو کھیل کود کے بعد ان کے گھر ریڈیو سننے جاتے تھے، خاص طور سے اس وقت ھفتہ کی رات کو “اسٹوڈیو نمبر9“ رات کے 9 بجے ھی ریڈیو پاکستاں سے ایک نیا ڈرامہ نشر ھوتا تھا اور ھر منگل کی شب 9 بجے یا ساڑے 9 بجےمختلف مزاحیہ خاکوں پر مبنی ایک پروگرام “دھنک“ آیا کرتا، جس کا نام بعد میں “کہکشاں“ ھوگیا تھا، یہ ھم تمام پروگرام ان کے گھر بیٹھ کر سنتے تھے،

ٹیلیویژن کے بارے میں اس وقت کوئی تصور بھی نہیں تھا، لیکن یہ ضرور بڑے تعجب سے یہ سنا کرتے تھے کے ولایت میں ایک ریڈیو ایسا بھی ھے جس کے سامنے فوٹو بھی نظر آتی ھے، ھماری بڑی باجی تو اب سب کی لیڈر بن چکی تھیں اور انکی زبان سے جو الفاظ نکلتے تھے وہ بہت ھی زیادہ شائستہ اور مودب ھوتے تھے، اس کے علاوہ ان دونوں کے رکھ رکھاؤ اور ان کے نفیس اور صاف ستھرے لباس، جس کی وجہ سے سب بچے ان سے مرعوب بھی تھے، ان کی دوسری پوزیشن میں انکی چھوٹی بہن تھی، وہ بھی باتیں بہت کرتی تھی اور ساتھ وہ بھی اپنی بڑی بہن کی طرح خوش مزاج مگر تھوڑی سی خودار قسم کی یعنی کسی کو زیادہ خاطر میں میں نہیں لاتی تھی،

بہرحال کم از کم اس بات کی تو خوشی تھی کہ ان کی وجہ سے اس محلے کے بچوں کو ایک سدھرنے کا موقعہ مل گیا تھا اور ان کے والدین بھی خوش تھے، اس کے علاوہ وہ بچوں کو بنیادی تعلیم کا بھی درس پڑھاتی بھی رھیں، غرض کہ وہ ھر ایک کو بولنے کا صحیح طریقہ کار اس کے صحیح تلفظ بیانی پر بہت زیادہ زور دیتی تھیں، بچوں کو تفریحی طور پر چھوٹے چھوٹے ڈرامے کھیل اور قومی نغمے کی پریکٹس بھی کراتیں تھیں، جس کی وجہ سے میں نے بچوں کو ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگراموں میں لےجانا شروع کیا، جہاں پر اس وقت، بڑے بڑے فنکاروں ظفرصدیقی، منی باجی، ارش منیر، عبدالماجد، محمود علی، ظلعت حسین اور دوسروں کے ساتھ بچوں کے پروگراموں مین حصہ بھی لیتے رھے،!!!!!

ھمارے محلے کی رونق بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی بچوں کو ایک نئی طرز کے کھیلوں میں دلچسپیاں بڑھ رھی تھیں جس میں معلوماتی باتیں بھی تھیں بہت کم بچے تھے جو ھمارے ساتھ نہیں تھے، ھر عید پر بچوں کا ایک رونق میلہ لگ جاتا اور محلے کے بچوں کی ایک اکثریت سلیقہ شعار اور پڑھنے کی طرف رجحان زیادہ ھوگیا، پھر ھم تینوں ھی مل کر تمام بچوں کی ٹیم کی نگرانی کرتے اور کھیل کے وقت کھیل اور پڑھائی کے وقت پڑھائی کنا شروع ھوگئے اور محلے والوں کی نظر میں وھی مقام جو پہلے کبھی تھا واپس مجھے مل گیا اور اب تو ھمیں بہت عزت دیتے تھے، لوگ پرانی باتوں کو بھول چکے تھے اور ھم تینوں ھی اس وقت سب کے استاد تھے،!!!!!

اباجی اب بہت مطمئین تھے، والدہ بھی بہت خوش تھیں، اسی دوران والد صاحب نے ایک پرچون کی دکان کھول کر میری ذمہ داری میں ایک اور مزید اضافہ کردیا، جو عین محلے کی درمیان تھی، اسکول بھی ساتھ ساتھ بہت اچھا چل رھا تھا اور ھر چیز اپنے معمول پر آگئی تھی، ایک محلے میں اپنی ایک دکان کا اضافہ ھوگیا تھا اور جس کی وجہ سے میرا اب زیادہ تر وقت دکان پر ھی گزرتا تھا اور کچھ بہت سی نئی کہانیوں نے کئی رخ موڑے جس کا آگے ذکر کرونگا-!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-19 - بچپن میں ایک نئی دکانداری،!!!!!

اباجی اب بہت مطمئین تھے، والدہ بھی بہت خوش تھیں، اسی دوران والد صاحب نے ایک پرچون کی دکان کھول کر میری ذمہ داری میں ایک اور مزید اضافہ کردیا، جو عین محلے کی درمیان تھی، اسکول بھی ساتھ ساتھ بہت اچھا چل رھا تھا اور ھر چیز اپنے معمول پر آگئی تھی، ایک محلے میں اپنی ایک دکان کا اضافہ ھوگیا تھا اور جس کی وجہ سے میرا اب زیادہ تر وقت دکان پر ھی گزرتا تھا اور کچھ بہت سی نئی کہانیوں نے کئی رخ موڑے جس کا آگے ذکر کرونگا-!!!!!!

جب سے دکان کھلی، شروع میں تو کچھ دنوں تک والد صاحب کے ساتھ ٹریننگ کرتا رھا بعد میں جب ریٹ وغیرہ کا صحیح طور پر اندازہ ھوگیا تو میری ڈیوٹی کا ایک مستقل شیڈول بن گیا روزانہ اسکول سے گھر آتا کھانا وغیرہ کھاکر سیدھا دکان کھولتا، لکڑی کے کھوکے کی طرح دکان تھی، بیٹھتے ھی ھلکے سے جھکولے کھانا شروع کردیتی تھی پہلے دکان کے نیچے کا پلڑا کھولتا تھا جو اپنے دو پایوں پر ٹکتے تھے، پھر اوپر کا پلڑا نیچے والے پلڑے کا اوپر کھڑے ھوکر کھولتا تھا اور پھر نیچے کے پلڑے پر تمام بچؤں کی ٹافیاں اور بسکٹ وغیرہ کی برنیاں ترتیب سے سجا دیتا اور ساتھ ھی ایک ترازو جو ایک اسٹینڈ کے ساتھ تھا اسی لکڑی کے پلڑے پر درمیان میں رکھ لیتا اور اندر دکان کے سارے سامان پر ایک دفعہ کپڑا مار کر صفائی بھی کرتا اور جب تک ایک اچھی خاصی بھیڑ لگ جاتی اور ایک شور مچ جاتا، سب اتنی جلدی میں ھوتے کہ ھر ایک یہی کہتا کہ میں پہلے آیا تھا مجھے پہلے دو -!!!!

اس محلے میں یہ ایک ھی پہلی دکان تھی، جو لوگوں کی خواھش پر اباجی نے کھولی تھی، اباجی جب دفتر سے واپس گھر آتے تو سب سے پہلے سیدھا دکاں پر ایک نظر مارتے ھوئے گھر پہنچ جاتے اور گھر جاکر کچھ دیر کیلئے آرام کرتے اور عصر کی نماز پڑھ کر دکان کا رخ کرتے تو جاکر کہیں میری جان چھوٹ جاتی، اس وقت تک اپنی بچوں کی ٹیم میرا انتطار کرتی رھتی اور دکاں کے چاروں طرف منڈالاتی رھتی اس طرح ایک لالچ بھی ان کو دکان کے پاس رکھتی کیونکہ اکثر میں ان میں ٹافیاں اور بسکٹ وغیرہ تقسیم بھی کرتا رھتا، سارا دن ٹوٹے بسکٹ اور ٹافیاں وغیرہ جو ٹوٹ جاتیں میں الگ کرتا جاتا اور ابا جی کو دکھا کر لے جاتا اور ھم سب بچے مل جل کر کھاتے، لیکں تھوڑی ساتھ بےایمانی یہ کرتا کہ خود بھی ھاتھ سے بسکٹ ٹافیاں توڑ لیتا تاکہ تمام دوستوں میں پوری ھوجائے-

عصر اور مغرب کے درمیان خوب کھیلتے اور مغرب کے بعد گھر پہنچ کر ھاتھ منہ دھو کر یا کبھی نماز پڑھ کر سیدھا کتابیں پڑھنے بیٹھ جاتے، محلے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی، جہاں چھوٹے بڑے سب پانچوں وقت کی نمازیں بھی پڑھتے تھے اور رمضان کے مہینے میں تو بہت ھی زیادہ رونق ھوتی تھی، ھر گھر سے کچھ نہ کچھ مسجد میں مغرب سے پہلے ھی مختلف قسم کے پکوان پکوڑے، سموسے، آلو چھولے، دھی بڑے اور روح افزا، نورس، اور لیمن اس کے علاوہ نہ جانے کیا کیا جمع ھو جاتا، اور روزہ کھولتے وقت اور نماز کے بعد بھی ھم سب بچے کھاتے ھی رھتے، پھر کھیل میں لگ جاتے، جب تک عشاء اور تراویح کا وقت ھوجاتا پھر تراویح کے ختم ھوتے ھی فوراً گھر کا رخ کرتے کھا پی کر سو جاتے، صبح سحری میں خاص طور سے اٹھتا تھا کبھی روزہ رکھ لیتا کبھی نہیں مگر افطاری کے وقت بغیر کسی عذر کے پہنچ جاتا، اور سارے دوست بھی وہیں موجود ھوتے، رمضانوں میں دکان کے اوقات ذرا مختلف ھوتے تھے،

دکان میں ابا جی نے ادھار لینے والوں کیلئے ایک الگ رجسٹر کھولا ھوا تھا، مجھے خاص طور سے یہ تاکید تھی کہ کبھی بھی ادھار کسی ایسے کو مت دینا جس کا کہ رجسٹر میں نام نہ ھو، مگر بعض اوقات چھوٹے بچے یا ان کی اماں اکر منت سماجت کرتیں جن کو ادھار دینے سے منع کیا ھوا ھوتا، میں بالکل ان کی باتوں سے مجبور ھوکر ادھار سودا دے تو دیتا لیکن رجسٹر میں نہیں لکھتا تھا، بس اسی طرح اکثر لوگ مجھ سے ناجائز فائدہ اتھاتے، کوئی نہ کوئی دکھڑا سنا کر مجھ سے سودا لے جاتے،

والد صاحب بھی اتنا زیادہ خیال نہیں کرتے تھے شام کو وہ آکر حساب کتاب بھی کرتے اور دن بھر کی جو بھی کمائی ھوتی کچھ ریزگاری چھوڑ کر باقی اپنی جیب میں رکھ لیتے، ایک ادھ دفعہ پکڑا بھی گیا کہ ایک دم وہ آگئے جب میں کسی کو بغیر لکھے ادھار سودا پکڑا رھا تھا، بس پھر دو چار ڈانٹ کھانی اور آیندہ کے لئے محتاط رھنے کے وعدہ پر جان چھوٹ جاتی، وہ بھی اکثر درگزر کردیتے تھے کیونکہ وہ خود بھی کافی لوگوں کی اسی طرح مدد کیا کرتے تھے مگر مجھے یہ ضرور تاکید کرتے کے بیٹا اگر کسی کو بغیر لکھے دیتے ھو تو مجھ سے پوشیدہ مت رکھو، اور کبھی جھوٹ مت بولا کرو -

لیکن میں بھی اکثر نمکین بسکٹ اور کچھ پسندیدہ ٹافیاں چپکے چپکے کھاتا ھی رھتا تھا، اور میرے دکان پر گاھک سے زیادہ مفت خورے موجود ھوتے تھے ، میں بھی انہیں کچھ نہیں کہتا تھا بلکہ مجھے ان پر ترس آتا تھا اور میں ‌ان کی مطلوبہ ضرورت پوری بھی کردیتا تھا، کیونکہ وہاں پر اکثریت کافی غریب لوگوں کی تھی -

ایک دفعہ ایک کباڑی والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ “تمھاری اماں نے ترازو منگایا ھے کیونکہ وہ کچھ ردی پیپر بیچنا چاھتی ھیں اور میرے پاس ترازو نہیں ھے میں نے بغیر تصدیق کئے ترازو اسے تھما دیا ادھر سودا تولنے کیلئے مجھے پریشانی ھورھی تھی، جب کافی دیر ھوگئی تو مجھے فکر ھوئی کہ کہیں کچھ گڑبڑ تو نہیں فوراً دکان سے اتر کر کسی دوست کو شاید بٹھا کر گھر بھاگا، امان سے پوچھا کہ آپ نے ترازو منگایا تھا، انہوں نے کہا کہ نہیں، میری تو جان ھی نکل گئی اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں میں سرپٹ دوڑا اور اس کباڑئیے کو دھونڈنے نکل گیا، ایک محلے سے دوسرے محلے کافی دور نکل گیا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں چلا، میں بہت پریشان اب کیا کروں اباجی کو کیا جواب دوں گا، میں اب گھر جانے سے بھی ڈر رھا تھا !!!!!!!!!!!

وھاں اباجی اور دوسرے لوگ پریشان مجھے ڈھونڈتے پھر رھے تھے اور والدہ بےچاری گھر پر میرے لئے رو رھی تھیں !!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-20-بچپن، نئی کلاس اور نئے دوست،!!!!

وھاں اباجی اور دوسرے لوگ پریشان مجھے ڈھونڈتے پھر رھے تھے اور والدہ بےچاری گھر پر میرے لئے رو رھی تھیں !!!!!!!!!!!!!

خوامخواہ ایک نئی مصیبت گلے لگالی، تھک ھار کر واپس اپنے گھر کی طرف واپس نکلا، اس کمبخت کباڑی والے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جو میرا ترازو دھوکے سے میری دکان سے لے گیا تھا، شام ھونے کو آئی تھی اور میں کافی دور نکل گیا تھا، خیر واپس گھر پہنچتے پہنچتے تقرباً عشاء کا وقت ھوچلا تھا، کچھ تو سمجھے کہ میں ڈر کر شاید چھپ گیا ھوں، جب میں گھر پہنچا تو سب کی جان میں جان آئی، بہرحال والد صاحب کو غصہ تو نہیں آیا، میں تو ڈر ھی گیا تھا کہ کہیں گھر پر جا کر ڈانٹ ھی نہ پڑے، لیکن شکر ھے کہ سب نے گلے لگالیا،
دوسرے دن اباجی نیا ترازو لے آئے، پھر سے وھی رات اور دن معمول کے مطابق گزرنے لگے،روزانہ کی طرح ھر شام کو پھر وھی دوستوں کے ساتھ کھیل میں مشغول ھوگئے، ساتھ گھر پر جو اباجی نے بکریاں پالی ھوئی تھیں، انھیں بھی نزدیکی میدان میں لے جاتا اور ساتھ ھی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا بھی رہتا، مغرب ھوتے ھی واپس بکریوں کو لے کر واپس گھر آجاتا -

پانچویں کلاس کے سالانہ امتحاں بھی نزدیک تھے، اور ھم چند دوست جو پانچویں کاامتحان دے رھے تھے اپنی بڑی باجی کی نگرانی میں خوب زور شور سے امتحان کی تیاری میں لگ گئے وہ شاید اس وقت چھٹی کلاس میں تھیں اور چھوٹی شاید پانچویں کلاس میں پڑھ رھی تھی، ھم سب نے اب ایک اپنا کھیلنے اور پڑھنے کا شیڈول بنا لیا تھا، کھیل کا وقت ھم سب نے بہت مختصر کرلیا تھا، اور سب کچھ بڑی کی ھدایت پر ھی ھوتا تھا -

سالانہ امتحان ھوگئے اور اس دفعہ سب بچے جو پڑھ رھے تھے بہت اچھے نمبروں سے پاس ھوئے اور بہت کم ھی بچے تھے جو ناکام رھے اور انہوں نے ھمارے ساتھ تیاری بھی نہیں کی تھی اور کئی تو بالکل پڑھنے جاتے ھی نہیں تھے، وہ کیا کامیاب ھونگے -

دل میں ایک بہت خوشی تھی کہ اب میں نئے اسکو ل میں جاؤنگا اور والد صاحب بھی میرے اس نتیجہ کی وجہ سے بہت خوش تھے، چھوٹے بہن اور بھائی تو ابھی پرائمری میں چھوٹی کلاسوں میں ھی تھے والد صاحب مجھے سیکنڈری اسکول لے گئے اور وھاں دو تین دن کی تگ و دو کے بعد میرا ٹیسٹ ھوا اور میرا داخلہ چھٹی کلاس میں ھوگیا، مجھے بہت خوشی ھوئی،

1960 کا زمانہ اور10 سال کی عمر، ایک نیا اسکول، نئی کلاس، اور نئے دوست !!!!!!
 
Top