بھاری قیمت

میرا شمار پاکستان کی اس نسل میں ہوتا ہے جس نے کھمبیوں کی مانند اگتے نجی چینلوں کے پھیلاؤ کو قریب سے دیکھا۔ ایک آمر نے مصنوعی انداز میں ڈھیر سارے چینل کھول کر روتی بلکتی قوم کی توجہ بٹانے کی کوشش کی۔ اتنے سارے چینلوں کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے جو افرادی قوت درکار تھی اس کو پورا کرنے کے لیے دھڑا دھڑ بھرتیاں ہوئیں۔عمر بھر فحاشی کی کمائی کھانے والے، گناہوں کی سیاہی میں لتھڑے ہوئے مکار سیٹھوں کے چہرے، پیلی کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہنے کے قابل ہوئے :
"اب یہاں شریف گھروں کے لڑکے لڑکیاں آتے ہیں"۔

سمجھ دار لوگوں کو اس گپ کی حقیقت معلوم تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ متوسط طبقے کے معصوم لڑکے لڑکیاں، جن کے ماں باپ انہیں نیکی بدی کا سبق گھٹی میں دیتے ہیں، اخلاق اور شرافت کی لوری دے کر سلاتے ہیں، اور گھر سے نکلتے وقت آیت الکرسی پڑھ کر پھونک کر بھیجتے ہیں، ان انسانی جسموں کے ساہوکاروں کے سامنے جائیں اور عزت بچا کر واپس آ جائیں؟


کیرئیر بنانے کا خواب لے کر نکلنے والے کئی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے ان چینلوں میں اپنی عزت نفس، شرافت اور بزرگوں سے ملی نیک شہرت کی کرچیاں ہوتے دیکھیں۔ کچھ لہو رنگ آنکھیں لیے ان خونی دہلیزوں سے واپس لوٹ گئے، کچھ انہی سیٹھوں کے رنگ میں رنگے گئے اور کچھ ایسے ضرور ہیں جو جدوجہد کی عمر گزر جانے کے بعد اب کیرئیر بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ان کو معلوم ہے نئے سرے سے زندگی بنانا بہت مشکل ہے۔ وہ بے حیائی کی اسی دلدل میں رہ کر اپنے لیے ایک گوشہ عافیت بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں کم ازکم ان کی عفت محفوظ رہے، وہ اپنے کام سے کام رکھیں، جو لوگ برے ہیں وہ بروں تک محدود رہیں لیکن ان کو تنگ نہ کریں۔ یہ توقع انہیں ان سیٹھوں سے ہے جو نیوز اینکر اور فلمی اداکارہ کے لباس کا فرق مٹا چکے، جو رمضان اور حج کا تقدس بیچ کر کھا چکے، جو اللہ کے دین کا مذاق اڑانے کی ہر حد پار کر چکے۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں صنفی ہراس کے خلاف کوئی موثر
قانون بنائیں گے؟
ہر چیز کو بکاؤ اور کاروبار کا مال سمجھنے والے آخر کیوں اپنے ادارے کے ملازمین
کیعصمت بکاؤ نہ سمجھیں؟


میں ان لوگوں میں سے نہیں جو برائی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ لیکن مجھے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ ایک ادارہ جس اصول پر کام کر رہا ہے وہ ہے "پیسہ بنائیے: اخلاق، دین، شرم، انسانیت کا خیال کیے بغیر"۔جہاں اللہ کی بنائی حدود دن رات پامال ہوتی ہوں، ایسے ادارے میں آپ ایک اخلاقی قانونی معیار بنوا بھی لیں گے تو عمل کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟ ایسے قوانین پر عمل کرنے اور کروانے والے وہی ہوتے ہیں جن کی مائیں انہیںحلال وحرام کی تمیز سکھا کر بڑا کرتی ہیں۔ یہ تو مادر پدر آزاد لوگ ہیں جو صرف پیسے کی کھنک کی پوجا کرتے ہیں۔ قانون کو پیسے سے خرید لینا اور اپنی مرضی سے بدل لینا ان کو خوب آتا ہے۔
صورت حال بڑی عجیب ہے۔ بہر حال اونچی آواز میں سچ کہہ دینے والے کچھ جرات مند خواتین وحضرات کی وجہ سے قوم کو یہ تو معلوم ہوا کہ :

" یہاں شریف گھروں کے لڑکے لڑکیاں آتے ہیں لیکن اس کی بھاری قیمت چکاتے ہیں!"۔

اور سیدھے سادھے گھروں کے شریف لڑکوں اور لڑکیوں سے یہ ضرور کہنا ہے کہ اپنے ماں باپ کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ سمجھیے۔ وہ سچے دل سے آپ کو ٹوٹ کر بکھرنے کی اذیت سے بچانا چاہتے ہیں۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
محترمہ عائشہ صاحبہ
 
Top