بھارت : انگریزی جریدہ 'ملی گزٹ' نے اپنے قارئین کو کہا خدا حافظ

انگریزی جریدہ 'ملی گزٹ' نے اپنے قارئین کو کہا خدا حافظ؛ ایڈیٹرڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ایشیا ٹائمز سے کی گفتگو، کہا؛ ملت اسلامیہ ہند کی ترجیحات میں میڈیا شامل نہیں

1485318195.jpg
نئی دہلی : (ایشیا ٹائمز/ اشرف علی بستوی ) قارئین سال 2016کے ماہ دسمبر کے آخری ایام میں یہ خبر ملی کہ سترہ برس سے جاری انگریزی جریدہ 'ملی گزٹ' نے اپنے قارئین کو خدا حافظ کہہ دیا ،آخری شمارہ 16 تا 311 دسمبر کا شائع ہوا ، یقینا یہ خبر انتہائی تکیلف دہ ہے ۔ 'ملی گزٹ' کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے یہ اخبار سن 2000 میں اس احساس کے ساتھ شروع کیا تھا کہ 2000ملین ہندوستانی مسلمانوں کی آوازملک وبیرون ملک پہونچا ئیں گے جسے نیشنل میڈیا میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی ، لیکن میڈیا کی اس وادی میں کافی وقت تک بے سرو سامانی میں سفر کب تک ممکن تھا ۔ سترہ برس کے درمیان متعدد بار ملت کو پکارنے کے بعد بھی جب کو ئی ساتھ نہ آیا تو بالاخر انہیں سے یہ اعلان کر نا ہی پڑا کہ اب مزید سفر ممکن نہیں ہے ۔ ایشیا ٹائمز نے ضروری سمجھا کہ اس بارے میں ملی گزٹ کے ایڈیٹر سے ایک مفصل انٹرویو کیا جائے اور یہ جانننے کی کوشش کی جائے کہ آخر انہیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دشواریوں کے حل کے لیے ان کی کیا کوششیں رہیں ؟ پیش ہےاشرف علی بستوی کی 'ملی گزٹ' کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان یہ خصوصی گفتگو ۔
millgazette.PNG

ملی گزٹ کی ویب سائٹ پر بند کرنے کا شائع اعلان
ایشیا ٹائمز: دسمبر کے اواخر میں ہمیں یہ افسوس ناک خبر ملی کہ 'ملی گزٹ' اب نہیں شائع ہوگا ، بند کرنے کی وجہ کیا رہی؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : ملی گزٹ بند کرنے کی کوئی ایک وجہ نہیں رہی وقت کے ساتھ ساتھ مالی خسارہ اور دیگر مسائل بڑھتے چلے گئے سن 2000 میں جب ہم نے اسے شروع کیا تھا اس وقت 33 ہزار میں لوگ مل جاتے تھے لیکن اب تو 15 ہزار میں بھی لوگ نہیں مل پاتے ۔ اور نہ تو لوگ اسے خرید کر پڑھتے ہیں اور نہ ہی اشتہار دیتے ہیں تو آخر اس طرح سے کب تک چلایا جا سکتا تھا ۔ ہمیں پرچہ مفت جاری کرنے کے پوسٹ کارڈ ضرور آتے رہتے تھے ۔ ہم نے اپنے اخبار کے لیے کبھی کوئی چندہ نہیں کیا اپنے طور پر کچھ لوگوں نے ضرور دیا بڑی مدد کی لیکن ایسی کوئی چندے کی مہم کبھی نہیں چلائی ۔ خسارہ جوپہلے 30 ہزار ماہانہ تھا اب ڈیڑھ لاکھ تک پہونچ گیا تھا جس کو برداشت کر پانا ہمارے مشکل ہوگیا تھا اسی لیے ہمیں بند کر دینے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ حالانکہ ہمیں شروعاتی دنوں میں ہی اس کا احساس ہو گیا تھا لیکن پھر کسی طرح ہمت جٹاکر آگے بڑھتے رہے تین سال قبل ایک بار پھر ہمت ہار گئے لیکن پھر لوگوں کی یقین دہانیوں اور حوصلہ افزائیوں کی بدولت جاری رکھنا مناسب سمجھا ۔ اب میری اپنی صحت بھی ساتھ نہیں دیتی ، اس کی وجہ سے میرے بہت سے ضروری کام بھی متاثر ہو رہے تھے ۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا ہم نے خرچ پر قابو پانے کے لیے صفحات بھی کم کیے لیکن پھر بھی دشواری کم نہ ہوئی ۔ میں نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ ملی گزٹ کو کسی کے تابع نہ رہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ 'ملی گزٹ' شروع ہوئے ابھی تین سال ہی ہوئے تھے کہ کشمیر سے ہندوستانی فوج کی طرف سے ہمارے پاس ایک آفر آیا کہ ہماری کار کردگی کی کچھ اچھی خبریں اپنے یہاں شائع کیا کریں جس کا ہم 40 ہزار ماہانہ آپ کو دیا کریں گے ، لیکن ہم نے فوری طور پر منع کردیا۔ ہم نے کہا کہ ہم تو فوج کی زیادتیوں کو بھی شائع کریں گے ۔ تازہ واقعہ ابھی حال ہی کا ہے ، چند ماہ قبل ہی ہمارے پاس ایک سیاسی پارٹی کا آفر آیا کہ ہم ملی گزٹ میں پیسہ لگانا چاہتے ہیں ہم نے اسے بھی منع کر دیا۔

unnamed%20(5).jpg

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اپنے دفتر میں اور 'ملی گزٹ' کی 16 تا 31 دسمبر کی شائع آخری کاپی
ایشیا ٹائمز : 'ملی گزٹ 'کو آپ نے کب اور کن حالات میں شروع کیا تھا ، آپ کے پیش نظر کیا مقاصد رہے ؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : میں نے سن 2000 میں ملی گزٹ اس وقت نکالا جب میری اچھی ملازمت تھی سعودی کے اخبار الریاض میں کرسپانڈینٹ کے طور پر کام کر رہا تھا ۔ اس میری بہت اچھی تنخواہ تھی۔ میں نے سوچا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں ۔ الریاض میں ملازمت کا یہ سلسلہ چار پانچ سال تک چلا ،اس درمیان ہم نے جب گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ حکومتی سطح سے کی جانے والی زیادتیوں سمیت کئی اہم ایشوز کو زور دار انداز میں الریاض میں اٹھایا تو یہیں سے خبروں کو لیکر اختلافات شروع ہو گئے ، پھر ایک دن ہندوستان میں تعینات سعودی سفیر نے مجھے بلاکر کہا کہ ہم ہندوستان سے اچھے تعلقات بنانا چاہتے ہیں اور آپ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہو ۔ سفیر نے کہا کوئی ایسی چیز نہ ارسال کریں جو حکومت کے خلاف ہو ۔ یہ پابندی مجھے راس نہ آئی اور پھر آگے چل کر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
ملی گزٹ نکالنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہماری خبریں اردو میں ہی رہ جاتی ہیں انگریزی میں نہیں آتیں ، میں اکثر یہ کہتا رہا ہوں کہ جب بھی آپ انگریزی اخبار اٹھا ئیں تو ایسا محسوس کریں گے کہ ملک کی 200 ملین مسلم آبادی سو رہی ہے ۔ کیا انہوں نے گزشتہ کل کچھ نہیں کیا ؟ ایسا تو نہیں ہو سکتا ، کسی نے کوئی اہم کارنامہ انجام دیا ہوگا کسی نے کتاب لکھی ہوگی ، کسی کو اس کی گراں قدر خدمات کے لیے ایوارڈ بھی ملا ہوگا ، کسی نے کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا ہوگا اور کچھ غلطیاں بھی کی ہوں گیں ۔ لیکن نیشنل میڈیا کومسلم قوم سے کوئی دل چسپی نہیں، ہاں !اگر کسی نے تین طلاق دے دیا تو پھر مسلمان نیشنل میڈیا کے لیے خبر ہے ۔ اس خیال سے ہم نے ایسی اچھی خبروں کو لانے کا فیصلہ کیا ،ہم نے اپنے یہاں اس طرح کی چیزوں کو مستقل دیا اور آخری پرچے تک یہ کام جاری رہا ۔

کئی بار اپنے لوگوں کو بھیج کر ہم گراونڈ رپورٹنگ بھی کراتے ۔ کشی نگر میں خود ایک ڈیلی گیشن لیکر گئے حقائق کاپتہ لگایا، اندور میں اپنے آدمی کو بھیج کر رپورٹنگ کرائی ،امپھال سے انگریزی کے اخبار دی پائنیر نے ایک خبر شائع کی کہ یہاں اسلامی اسٹیٹ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے بعد ہم نے گراونڈ رپورٹنگ کی اور خود منی پور کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے اس خبر کو مسترد کیا بیانات دیے ۔ ہم نیشنل میڈیا کی غلط رپورٹنگ کا پیچھا کرتے ہوئے حقائق سامنے لانے کی کوشش کرتے ۔ ہم نے اردو پریس سے ملی خبروں کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام کیا ، یہی ملی گزٹ کا مقصد تھا ۔
ایشیا ٹائمز : آپ کو ملی گزٹ کی اشاعت میں کیا کیا دشواریاں پیش آئیں اور آپ معیار کی برقراری کے لیے کس طرح کام انجام دیتے تھے ؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : ہم نے کبھی محض پیج بھرنے کا کام نہیں کیا ، ہمیں آخری دن تک دیر رات تک پرچہ فائنل کرناپڑتا تھا اکثر ہم اپنی لیڈ اسٹوری آخری مرحلے میں بھی بدل دیتے تھے ۔ ہم نے مسلم مسائل کو پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن ہم نے گزشتہ سترہ برس میں دیکھا کہ مسلم قوم کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ دیکھیں کہ ہر ہفتے اخبار میں کوئی نہ کوئی مراسلہ ضرور نظر آجائے گا کہ مسلمانوں کے پاس اردو میڈیا کے علاوہ اپنا انگریزی یا ہندی اخبار یا چینل ہو ،لیکن اگر مسلمان اخبار خرید کر نہیں پڑھیں گے تو پھر کوئی اخبار کیسے چلے گا ؟ اگر آج ملی گزٹ تیس چالیس ہزار کاپی نکلتا تو بند کرنے کی نوبت نہ آتی ۔ ملت کو سوچنا چاہیے کہ آخر مسلم انڈیا ، کالی کٹ سے شا ئع ہونےوالا مین ٹائم، کیوں بند ہوگیا۔ سید حامد صاحب کا نیشن اینڈ دی ورلڈ کی یہ صورت حال کیوں ہوگئی؟ ہاں دوسرے لوگ ہمارا اخبار صرف یہ جاننے کے لیے خریدتے ہیں کہ ہم نے کیا لکھا ہے، آر ایس ایس بڑی پابندی سے ہمارا اخبار خریدتا رہا ۔
ایشیا ٹائمز : سترہ سالہ سفر میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو جس کا آپ کو افسوس ہوا؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : جی ہاں ! دو بار ایسا موقع آیا ، جب ہمیں بے حد تکلیف ہوئی غلط فہمی کی وجہ سے ہماری رپورٹ دوسروں کی پریشانی کا سامان بن گئی ۔ ہم سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جن کے لیے ہم نے تحریری معذرت بھی کی ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک صاحب اپنا مضمون لیکر آئے جسے ہم نے شائع کر دیا ، بعد میں پتہ چلا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا ان کا مقصد کسی پر کیچڑ اچھالنا تھا ، ہمارے اسی مضمون کی وجہ سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی ۔ حالانکہ ہمارا کسی کو نقصان پہونچانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، جس کے لیے ہم نے تحریری معذرت بھی کی۔ ماضی میں ہم نے اخبار کو تین بار بند کر دینے کا فیصلہ کیا ، ہمارا خیال تھا کہ دو سال میں اسے خود کفیل ہوجانا چاہئے ۔ خیال تھا کہ ایک بار اخبار کھڑا ہونے کے بعد اسے لوگوں کے حوالے کر دیں گے ۔
ایشیا ٹائمز : بند کرنے سے قبل ملک کی اہم ملی تنظیموں کو پیش آنے والی دشواریوں کے واقف کرانے کی کوئی کوشش کی ؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : ایک سال قبل ہم نے ملک کی مقتدر ملی تنظیموں کے سربراہان کو خط لکھا انہیں پرچے کی صورت حال سے آگاہ کیا اور یہ درخواست کی کہ اس کو جاری رکھنے کی کیا صورت ہو اس کے بارے میں کچھ سوچیں، آپ اس پرچے کی کیسے مدد کر سکتے ہیں اس پر بھی غور کریں ۔ لیکن اکثر تنظیموں سے کوئی جواب ہی نہیں آیا حالانکہ خط دستی پہونچایاگیا تھا ۔ بس ایک دو کی جانب سے جواب موصول ہوا لیکن ان میں بھی صرف ایک صاحب نے یہ کہا کہ ہم پہلے سے جاری اپنے اشتہار کی رقم بڑھا رہے ہیں اورہمارا یہ تعاون مستقل جاری رہے گا، کہا کہ یہ تو ملت کا سرمایہ ہے اسے ہرگز بند نہیں ہونا چاہیے ، لیکن اس ایک سال کے دوران وہ بھی اپنی طے شدہ اعانت کو رفتہ رفتہ تخفیف کرتے گئے اور پھر با لاخربند کر دیا ، یہ ہے ہماری صورت حال ہے اب اس پر کیا کہا جائے ۔
دراصل ہماری مذہبی قیادت نے عوام کو صحیح معنوں میں دیگر ملی ضرورتوں پر خرچ کرنے کی ترغیب نہیں دی ۔ ہماری مذہبی قیادت کے پاس کوئی بڑی فکر نہیں ہے ، ان کی بس اتنی سی فکر ہے کہ ہماری اپنی تنظیمیں برقرار رہنی چاہیے اور اس کو فروغ ملتے رہے ، ان کے نزدیک اس کے علاوہ جو بھی کام ہورہا ہے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے ملت کو یہی باور کرایا ہے کہ اول تو ہماری تنظیموں کی مدد کرو ۔ دشواری یہ ہے کہ ہماری مذہبی قیادت اپنے دائرے کے باہر کے لوگوں کو جو دیگر میدانوں میں سرگرم عمل ہیں ان سے کسی طرح کے مشورے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتی ۔ بس اپنے حلقے کے لوگوں تک ہی بات ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ظاہر ہے قوم میں ہر قسم کے ٹیلنٹ موجود ہیں کوئی سائنس داں ہے ، کوئی معاشیات کا علم رکھنے والا ہے ، کوئی میڈیا سے تعلق رکھتا ہے سبھی کی نشاندہی کرکے ان کو قریب لائیں اور ان سے مشورے لیں اور متعلقہ میدان میں ان کی بات کو سنیں یہ سوچ کسی بھی ملی جماعت میں نہیں ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ 200 ملین ہوتے ہوئے بھی یہ ملت آخر اتنا کمزور کیوں ہے؟

ایشیا ٹائمز : گزشتہ دنوں آپ نے سعودی عرب میں منعقد پروگرام میں ہندوستان کی ملی قیادت پر سخت تنقید کی تھی اور تبدیلی کو ضروری قرار دیا تھا ؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : جی ہاں میں نے یہ بات کہی ہے کہ بوڑھی قیادت کو تبدیل کیے بغیر ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے ایک عمر دراز شخص قیادت کیسے کرے گا یہ ایک بڑا سوال ہے۔ مغرب کی جوان قیادت سے ہمیں سبق لینا چاہیے ، امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اب تک سب سے زیادہ عمر کے صدر ہوئے ہیں وہاں 43 سال کی عمر کے بھی صدر ہوئے ہیں ۔ آج سے کوئی پانچ ماہ قبل برطانیہ کے وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں 53 سال کا ہوگیا ہوں میری پارٹی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں زیادہ بوڑھا ہو گیا ہوں ۔ مغرب میں جوان قیادت کا کلچر ہے جبکہ ہندوستان میں اس کے برخلاف عمر دراز لوگوں کو ہی آگے رکھا جاتا ہے مغرب میں اگر کوئی بڑی عمر کا ہوتا ہے تو خبر بن جاتی ہے جیسا کہ اس بار ٹرمپ کی خبر بن گئی لیکن یہاں تو بڑی عمر کے لوگ ہی ہوتے ہیں یہ ہماری ملت ہی میں نہیں بلکہ یہ ہمارے ملک کا ہی کلچر ہے ۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے فیصلہ لینے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے ۔ الگ طرح کی نفسیات ڈیولپ ہوجاتی ہے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا ۔
ایشیا ٹائمز : ملی گزٹ سے فارغ ہو نے کے بعد اب آپ کی مصروفیات کا محور کیا ہوگا ؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان : دراصل ملی گزٹ سے وقت نہ مل پانے کے سبب میرے بہت سے دیگر کام بھی متاثر ہو رہے تھے، کچھ چیزیں میں کرنا چاہتا تھا مثال کے طور پر دہشت گردی پر وہائٹ پیپر لانا جس کا اعلان ہم نے کئی سال قبل کیا تھا لیکن درمیان میں مشاورت کی گولڈن جبلی تقریبات کی وجہ سے دیگر کام رک گئے ۔ اب میں مکمل طور پر وہائٹ پیپر پر لگ گیا ہوں ،انشا اللہ آئندہ چار پانچ ماہ میں منظر پر عام پر آجائے گا یہ ایسی مفید چیز ہوگی جو ملت کے لیے الزامات سے نجات کا ذریعہ بنے گی ، اس میں پولیس زیادتی ، فرضی انکاونٹرس ، زیر حراست اموات حکومت کے ذریعے بنائے گئے سیاہ قوانین پوٹا، ٹاڈا ،میسا ،این ایس اے وٖغیرہ کے تجزیہ پر مبنی دستاویز ہوگا ۔ اس میں رنویر سینا ، سلوا جوڈیم ، یاکشمیر میں ولیج ڈیفینس کمیٹی کے نام سے جوغیر قانونی کام کرائے ہیں یہ سبھی کاموں کی تفصیلات ہوں گیں اور ان کا تجزیہ ہوگا جو کم ازکم ہزار پیج پر مستمل ہوگا ۔ اس وہائٹ پیپر کے ذریعے ملک کے ضمیر کو جھجھوڑنے کا کام کیا جائے گا ۔ یہ کام مجھے 2005 میں ہی ذہن میں آگیا تھا ۔ ہماری اب پہلی ترجیح وہائٹ پیپر ہے اور دوسری ترجیح قرآن کریم کے عبداللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمے کی تصحیح کا ہے یہ کام بھی آج کے زمانے کے لحاظ سے ناقص ہے یہ کام مجھے گزشتہ 30 سال سے ذہن میں کھٹک رہا ہے اس پر کام کرنا ہے ۔
میرا احساس ہے کہ ملی گزٹ ہندوستان کے 200 ملین مسلمانوں کے لیے وہ کام نہیں کر پا رہا تھا جس کی ضرورت تھی ۔ مسلمانوں کو ہر بڑے شہر سے انگریزی و ہندی کے اخبارات ، ایف ایم ریڈیو ، و ٹی وی چینل ہونے چاہیے ۔ یہ کوئی مشکل نہیں ہے مسلمان کر سکتے ہیں لیکن کم ازکم پہلے ایسی سوچ تو بنائیں ۔ میڈیا کو بھی اپنی ضرورت بنائیں ،کیرالا وغیرہ میں اچھاکام ہو رہا ہے۔ ہمارا انٹرنیٹ ایڈیشن جاری رہے گا ، آج بھی پرنٹ کی اپنی ضرورت و اہمیت ہے اور آن لائن کی اپنی ،آن لائن کے مقابلے پرنٹ کو محفوظ رکھنا زیادہ آسان ہے البتہ لوگوں تک برقی صحافت کی پہونچ کافی تیز تر ہے ۔ صحافت کے جو بڑے نام آن لائن جرنلزم میں آئے ہیں وہ جہاں تھے وہاں پر ان کو کوفت ہوتی تھی۔ یہ لوگ بھی اسے اسپانسر شپ سے ہی چلا رہے ہیں بڑی کپنیاں اپنی آمدنی کا کچھ حصہ سوشل ریسپانسبلیٹی کے نام پر خرچ کرتی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ایسی کوئی کوشش نہیں اس کے لیے میں خود کو تیار نہ کرسکاکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاوں البتہ میں نے جنرل قسم کے خطوط سبھی کو ارسال کیے ۔ جو لوگ ہمارے لیے لکھتے تھے اب بھی لکھتے رہیں گے۔
http://asiatimes.co.in/urdu/Latest_News/1970/01/100684_
نوٹ : قارئین ! آپ کو یہ انٹر ویو کیسا لگا ہمیں اپنی آرا سے ضرور آگاہ کریں
موبائل : [فون نمبر محذوف]
ہمارا ای میل پتہ : [ای میل پتہ محذوف]
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top